• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکڑی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
آنکھ میں بننے والی تصویر(image) اسقدر واضح اور نمایاں ہوتی ہے کہ بیسویں صدی کی ٹیکنالوجی بھی ایسی صاف اور واضح شبیہہ بنانے سے قاصر ہے۔مثال کے طور پر آپ جس کتاب کو پڑھتے ہیں اسے دیکھیں ،اُن ہاتھوں پر نظر ڈالیں جن سے آپ کتاب کو تھامتے ہیں، اب اپنا سر اٹھائیں اور ارد گرد نظر ڈالیں۔۔۔کیا آپ نے اس قدر صاف اور نمایاں شبیہہ کسی اور جگہ دیکھی ہے؟ یہاں تک کہ ٹی وی کی سب سے ترقی یافتہ سکرین بھی ،جسے دنیا کے کسی بہترین ٹی وی کے صنعتکار نے بنایا ہو، آپ کوایسی واضح شبیہہ نہیں دے سکتی۔ یہ شبیہہ سہ ابعادی (three-dimensional)، رنگین اور انتہائی واضح ہوتی ہے۔ ایسی واضح شبیہہ حاصل کرنے کے لئے ہزاروں انجینئر سو سال سے زائد عرصے سے کوشاں ہیں۔اس مقصد کے حصول کے لئے بڑے بڑے رقبوں پر کارخانے قائم کئے گئے ، کافی تحقیق کی گئی اورکئی منصوبے اور ڈیزائن تیار کئے گئے ہیں۔آپ ایک بار پھر ٹی وی سکرین اور اپنے ہاتھوں میں تھامی کتاب پر نظر دوڑائیں ۔ آپ دیکھیں گے کہ دونوں کے صاف تیز اور واضح ہونے میں گہرا فرق ہے۔علاوہ ازیں ٹی وی سکرین آپ کو دوابعادی(two-dimensional) عکس دکھاتا ہے جبکہ آپ اپنی آنکھوں سے سہ ابعادی منظر دیکھ سکتے ہیں جس میں اشیاء لی لمبائی اور چوڑائی کے علاوہ گہرائی بھی ہوتی ہے۔
کئی برسوں سے ہزاروں انجینئر سہ جہتی ٹی وی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ انسانی آنکھ میں بننے والی تصویر کے معیار تک پہنچ سکیں۔یہ درست ہے کہ انھوں نے ایک سہ ابعادی ٹی وی نظام بنا لیا ہے لیکن آنکھوں پر مخصوص عینک چڑھائے بغیر اسے دیکھنا ممکن نہیں۔مزید برآں یہ محض ایک مصنوعی سہ ابعاد ہے جس کا پسِ منظر بڑا دھندلا اور پیش منظرایک کاغذی سا منظر لگتا ہے۔آنکھ کی طرح کی واضح اور نمایاں تصویر تیار کر لیناکبھی ممکن ہو ہی نہیں سکا۔ کیمرہ اور ٹی وی دونوں میں تصویر کا معیار گر جاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ارتقاء پرستوں کا دعویٰ ہے کہ واضح اور نمایاں شبیہہ تیار کرنے والا میکانیکی عمل اتفاقاً وجود میں آیا۔اب اگر آپ سے کوئی یہ کہے کہ آپ کے کمرے میں رکھا ٹیلی وژن ’اتفاق‘ سے بن گیا ، اس کے سارے جوہر اتفاق سے یکجا ہو گئے اور انھوں نے تصویر پیش کرنے والا یہ آلہ بنا ڈالا، تو آپ کیا سوچیں گے؟ جوہر وہ سب کچھ کیسے کر لیتے ہیں جو ہزاروں افراد نہیں کر سکتے ؟
اگر ایک ایسا آلہ جو آنکھ کی نسبت زیادہ ناپختہ تصویر پیش کرتا ہے اتفاقاً متشکل نہیں ہوسکتا تھا تو پھر یہ بات بالکل عیاں ہے کہ آنکھ اور آنکھ میں بننے والی تصویر بھی اتفاقاً متشکل نہیں ہوسکتی ۔ یہی صورت حال کان سے متعلق ہے۔ کان کا بیرونی حصہ ارد گرد کی آوازوں کو لالہ گوش (auricle)کے ذریعے پکڑ لیتاہے اور انہیں کان کے درمیانی حصے کی سمت بھیج دیتا ہے ؛کان کا یہ درمیانی حصہ صوتی ارتعاشات میں شدت پیدا کر کے کان کے اندرونی حصے تک اِن کی ترسیل کرتا ہے؛ کان کا اندرونی حصہ ان ارتعاشات کو برقی اشاروں میں بدل کر دماغ کو بھیج دیتا ہے۔ آنکھ کی طرح ،سماعت کا عمل بھی دماغ کے مرکزِ سماعت میں جا کرباقی کے مراحل طے کرتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
کان کی صورتِ حال بھی آنکھ کی اندرونی صورتحال کی مانند ہے۔یعنی دماغ آواز سے اُسی طرح منفصل ہوتا ہے جس طرح روشنی سے محجوز ہوتا ہے: یعنی وہ کسی آواز کو اپنے اندر داخل ہونے نہیں دیتا۔ چناچہ باہر چاہے کتنا ہی شور وغل کیوں نہ ہو دماغ کا اندرونی حصہ مکمل طور پر خاموش اور بے آواز ہوتاہے۔ اس کے باوجود دماغ میں واضح ترین آوازیں ادراک پاتی ہیں۔آواز سے محجوز اپنے اس دماغ میں آپ آرکیسٹرا کی دھنیں سنتے ہیں اور پر ہجوم مقام کا شورو غل بھی سنائی دیتا ہے۔ تاہم اگر اسی لمحے کسی مناسب آلے سے آپ کے دماغ میں آواز کی سطح کی پیمائش کی جائے تو معلوم ہوگا کہ وہاں مکمل خاموشی چھائی ہے۔
جیساکہ تصویر کے حوالے سے بات ہوئی،کئی دہائیوں سے ایک ایسی آواز پیدا کرنے اور اس کا اعادہ کرنے کی بھی کوشش کی جاتی رہی ہے جو اصل سے قریب تر ہو۔ ان کوششوں کا نتیجہ آواز کو محفوظ کرنے کے آلات، آواز کو من و عن دہرانے کے نظام (high-fidelity systems)اور آواز کا ادراک کرنے کی مشینوں کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ لیکن تمام تر ٹیکنالوجی اور ہزاروں انجینئر اور ماہرین کے مصروفِ کار رہنے کے باوجود اب تک ایسی واضح اور صاف آواز حاصل نہیں ہو سکی ہے جتنی کہ کان خود وصول کرتا ہے۔ موسیقی کی صنعت میں سب سے بڑی کمپنی کے تیار کردہ اعلیٰ ترین معیار کے ہائی فائی نظام(آواز کو عین مطابق اصل دہرانے کے آلات) HI-FI systems کا تصور کیجئے ۔ ان آلات میں جب بھی آواز کو ریکارڈ کیا جاتا ہے تو اس کا کچھ حصہ ضائع ہو جاتا ہے یا جب آپ ہائی فائی کا بٹن دباتے ہیں تو آپ کو موسیقی کے آغاز سے قبل ہمیشہ ایک سسکاری سنائی دیتی ہے۔ تاہم انسانی جسم کی ٹیکنالوجی سے پیدا ہونے والی آوازیں نہایت واضح اور صاف ہوتی ہیں۔ انسانی کان میں پڑنے والی آواز کبھی بھی کسی سسکاری یا فضائی انتشار(atmospherics) کے ساتھ سنائی نہیں دیتی جیسا کہ ہائی فائی آلات میں سنائی دیتی ہے۔کان آواز کا بالکل اسی طرح ادراک کرتا ہے جس طرح کہ وہ ہوتی ہے یعنی واضح اور صاف۔جب سے انسان کی تخلیق ہوئی ہے اسی طرح ہورہا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
آج تک ،انسان کا تیار کردہ کوئی بھی بصری یا سمعی آلہ حسیائی معلومات کا ادراک کرنے میں آنکھ اور کان جتنا حساس اور کامیاب نہیں ہو سکاہے۔
تاہم جہاں تک دیکھنے اور سننے کی صلاحیتوں کا تعلق ہے، ان سے آگے کئی گنا زیادہ عظیم حقیقت موجودہے ۔
وہ شعور جودرونِ دماغ دیکھتا اور سنتا ہے کس کی ملک ہے؟
دماغ کے اندر وہ کیا چیز ہے جو اس پرکشش دنیا کو دیکھتی،دھنیں اور چڑیوں کی چہچہاہٹ سنتی اور گلاب کی مہک کو سونگھتی ہے؟
انسان کی آ نکھوں، کانوں اور ناک سے داخل ہونے والے ہیجانات یا تحرکات برقی کیمیائی اعصابی لہروں (electro-chemical nervous impulses)کی شکل میں دماغ کی طرف سفر کرتے ہیں۔ حیاتیا ت، فعلیات اور حیاتی کیمیا کی کتابوں میں آپ کو اس کی بابت بہت سی تفصیلات ملیں گی کہ دماغ میں تصویر کیسے متشکل ہوتی ہے۔تاہم اس موضوع پر ان کتابوں میں یہ اہم ترین حقیقت کبھی نہیں ملے گی کہ دماغ میں اِن برقی کیمیائی اعصابی لہروں کا شبیہات، اصوات،بو اور حسیائی صورت کے طور پر کون ادراک کرتا ہے؟ دماغ کے اندر ایک ایسا شعورموجود ہے جوآنکھ، کان اور ناک کی ضرورت محسوس کیے بغیر ان تمام احساسات کا ادراک کر لیتا ہے۔ یہ شعور کس کی ملک ہے؟ اس امرمیں کوئی شبہ نہیں کہ اس شعور کااعصاب (nerves)، چربی کی تہ اور عصبی خلیات، جن پر دماغ مشتمل ہے، سے کوئی تعلق نہیں۔یہی وجہ ہے کہ ڈارون کی حمایت کرنے والے مادہ پرست جن کاایمان ہے کہ ہرشے مادے پر مشتمل ہے، ان سوالات کا کوئی جواب پیش نہیں کر سکتے۔
کیونکہ یہ شعور ’روح‘ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تخلیق کیا۔ اس روح کو شبیہہ دیکھنے کے لیے نہ تو آنکھوں کی ضرورت ہے نہ ہی آواز سننے کے لئے کان کی۔ علاوہ ازیں اسے سوچنے کے لئے دماغ کی بھی ضرورت نہیں۔
اِس واضح سائنسی حقیقت کا مطالعہ کرنے والے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ قادرِ مطلق اﷲ تعالیٰ کے متعلق غور و فکر کرے، اس سے ڈ رے اور اس کی پناہ طلب کرے ۔اللہ تعالیٰ ساری کائنات کو محض چند مربع سینٹی میٹرپر مشتمل ایک انتہائی اندھیری جگہ میں سہ ابعادی، رنگین، سایہ دار اور روشن صورت میں سمو دیتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مادہ پرست ایمان
اب تک ہم نے جومعلومات فراہم کی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ نظریۂ ارتقاء ایک ایسا دعویٰ ہے جو واضح طور پر سائنسی تحقیق کے برخلاف ہے۔ ابتدائے حیات کے بارے میں اس نظریے کا دعویٰ سائنس کے ساتھ میل نہیں کھاتا، اس کے تجویز کردہ ارتقائی میکانیکی عمل کوئی ارتقائی قوت نہیں رکھتے اور رکازات یہ ثابت کرتے ہیں کہ درمیانی اشکال جو اس نظریے کا جواز بن سکتی تھیں ان کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ تھا۔چناچہ یہ لازم ہے کہ نظریۂ ارتقاء کو ایک غیر سائنسی خیال سمجھ کر مسترد کر دیا جائے۔تاریخ میں بہت سے نظریات مثلاً زمین کو کائنات کا مرکز سمجھنا اسی طرح سائنسی ایجنڈے سے خارج کر دیئے گئے۔
مگر نظریۂ ارتقاء جبراً سائنس کے ایجنڈے میں رکھا جاتا ہے حتیٰ کہ کچھ لوگ اس نظریے پر ہونے والی تنقید کو ’سائنس پر حملہ‘ قرار دیتے ہیں۔آخر کیوں؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اسکا سبب یہ ہے کہ بعض حلقوں کے نزدیک نظریۂ ارتقاء ایک ناگزیر ، پختہ اور اٹل عقیدہ ہے۔ یہ حلقے مادہ پرست فلسفے کے اندھا دھند معتقد ہوتے ہیں اور ڈارونیت یہ سوچ کر اپناتے ہیں کہ صرف یہی وہ واحد مادی فلسفہ ہے جو کار خانہٗ قدرت کی کارکردگی واضح کر سکتا ہے۔
یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ ایسے لوگ اس حقیقیت کا خود بھی وقتاً فوقتاً اقرار کرتے رہتے ہیں۔ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور ماہرِ جینیات اور صاف گو ارتقاء پرست رچرڈ سی لیونٹن Richard C.Lewontinاقرار کرتا ہے کہ وہ سب سے پہلے ایک مادہ پرست اوراس کے بعد ایک سائنس دان ہے۔
’ایسانہیں ہے کہ ہم نے مظاہراتی دنیا کی مادی توضیح سائنس کے طریق کار اور قوانین سے مجبور ہو کر تسلیم کی ہے۔بلکہ اس کے برعکس مادی اسباب کے ساتھ ہماری استخراجی وابستگی ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم باضابطہ تحقیق اور نظریات کا ایک ایسالائحہ عمل تیار کریں جو مادی توضیحات سامنے لائے ، خواہ یہ توضیحات ناآشنا کے لئے کتنی ہی غیروجدانی اور پراسرار ہی کیوں نہ ہوں۔مزید برآں مادیتایک قطعی حقیقت ہے اور ہم کسی الہامی تصور کو اندر آنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘۵۲
اس طرح کے صریح بیانات واضح کرتے ہیں کہ ڈارونیت کسی ثبوت کے بغیر تسلیم کیا گیا ایسا عقیدہ ہے جسے صرف اس لئے زندہ رکھا گیا ہے کہ اس سے مادہ پرستی کو تقویت ملتی ہے۔ یہ عقیدہ دعویٰ کرتا ہے کہ مادے کے سوا کوئی اور ہستی موجود نہیں ہے اس لئے یہ مصر ہے کہ زندگی کو بے جان اور بے شعور مادے نے وجود عطا کیا ہے۔ یہ بضد ہے کہ لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں موجود زندہ انواع مثلاً پرندے، مچھلیاں ، زرافے ، چیتے، کیڑے مکوڑے ، اشجار، پھول، وہیل مچھلیاں اور انسان غیر جاندار مادے سے وجود میں آئیں۔ زندگی نے برستی بارش اور کڑکتی بجلی کے باہمی تعاملات کے نتیجے میں بے جان مادے سے جنم لیا۔یہ بات سائنس اور استدلال دونوں سے متصادم ہے۔ اس کے باوجود ڈارونیت کے علمبردار اس کا دفاع صرف اس لئے کرتے ہیں تاکہ وہ ’ الہامی تصور کو اندر آنے سے روک سکیں۔‘
جو شخص جانداروں کی ابتداء کو مادہ پرستانہ تعصب کی نظر سے نہیں دیکھتا ہے و ہ اس حقیقی سچائی کو پہچان لے گاکہ ساری زندہ مخلوق ایک خالق کی کاریگری ہے جو کل قوت ، حکیم اورعلیم ہے۔ یہ خالق اللہ تعالیٰ ہے جو ساری کائنات کو عدم سے وجود میں لایا ،اسے کامل شکل عطا کی اور تمام زندہ چیزوں کو اپنی حکمت کے مطابق خاص وضع بخشی۔

قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ﴿٣٢﴾
’انہوں نے عرض کیا نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے۔ ہم بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے۔ حقیقت میں سب کچھ جاننے اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں۔‘
(سورۃ البقرہ:۳۲)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
Notes

1. Richard Dawkins, Climbing Mount Improbable, W.W. Norton & Company,1996, p.4.
2. Gordon Rattray Taylor, The Great Evolution Mystery, Harper and Row Publishers, 1983, p 222.
3. Charles Darwin, The Origin of Species: A Facsimile of the First Edition, Harvard University Press,1964, p. 233
4. Gardner Soul, Strange Things Animals Do, G..P.Putnam's Son, New York, 1970, p.89
5. Gardner Soul, Strange Things Animals Do, G..P.Putnam's Son, New York, 1970, p.90
6. Liz Bomford, Camuflage and Colour, Boxtree Ltd., London, 1992, p.108
7. The Guinness Encyclopedia of the Living World, Guinness Publishing, s.164
8. National Geographic, November 1996, Vol.190, No.5, p.106
9. National Geographic, November 1996, Vol.190, No.5, p.111
10. Bilim ve Teknik Gorsel Bilim ve Teknik Ansiklopedisi (Science and Technology Gorsel Science and Technology Encyclopedia), p.494, 495
11. Bates Hayvanlar Ansiklopedisi (Bates Encyclopedia of Animals), p.244
12. Natural History, Tools of the Trade, 3/95, p.48
13. National Geography, All Eyes on Jumping Spiders, September 1991, pp.43-64
14. Natural History, Samurai Spiders, 3/95, p.45
15. Natural History, Samurai Spiders, 3/95, p.45
16. National Geography, All Eyes on Jumping Spiders, September 1991, p.51
17. Karl Von Frisch, Ten Little Housemates, Pergamon Press, London, 1960, p.110
18. Bilim ve Teknik Dergisi (Journal of Science and Technology), no 190, p.4
19. Cemal Yildirim, Evrim Kurami ve Bagnazlik (The Theory of Evolution and Bigotry), Bilgi Yayinlari, p.195
20. Bilim ve Tenik Gorsel Bilim veTeknik Ansiklopedisi (Science and Technology Gorsel Science and Technology Encyclopedia), p.1087
21. Technology Review, Synthetic Spider Silk, October 1994, p.16
22. Discover, How Spiders Make Their Silk, October 1998, p.34
23. Discover, How Spiders Make Their Silk, October 1998, p.34
24. Endeavour, The Structure and Properties of Spider Silk, January 1986, no 10, p. 37
25. Scientific American, Spider Webs and Silks, March 1992, p.70
26. Science News, Computer Reveals Clues to Spiderwebs, 21 January 1995
27. Scientific American, Spider Webs and Silks, March 1992, p.70
28. Bilim ve Teknik Dergisi (Journal of Science and Technology), No 342, May 1996, p.100
29. Science et Vie, L'economie de la toile d'araignee, January 1999, No.976, p.30
30. Scientific American, Spider Webs and Silks, March 1992, p.74
31. Bilim ve Teknik Gorsel Bilim veTeknik Ansiklopedisi (Science and Technology Gorsel Science and Technology Encyclopedia), p.1090
32. Bilim ve Teknik Gorsel Bilim veTeknik Ansiklopedisi (Science and Technology Gorsel Science and Technology Encyclopedia), p.1088
33. Hugh Ross, The Fingerprint of God, p.50
34. Sidney Fox, Klaus Dose, Molecular Evolution and The Origin of Life, New York: Marcel Dekker, 1977.p.2
35. Alexander I. Oparin, Origin of Life, (1936) New York, Dover Publications, 1953 (Reprint), p.196
36. "New Evidence on Evolution of Early Atmosphere and Life", Bulletin of the American Meteorological Society, Vol 63, November 1982, p.1328-1330
37. Stanley Miller, Molecular Evolution of Life: Current Status of the Prebiotic Synthesis of Small Molecules, 1986, p.7
38. Jeffrey Bada, Earth, February 1998, p.40
39. Leslie E. Orgel, "The Origin of Life on Earth", Scientific American, Vol 271, October 1994, p.78
40. Charles Darwin, The Origin of Species: A Facsimile of the First Edition, Harvard University Press, 1964, p.189
41. Charles Darwin, The Origin of Species: A Facsimile of the First Edition, Harvard University Press, 1964, p.184
42. B.G. Ranganathan, Origins?, Pennsylvania: The Banner Of Truth Trust, 1988
43. Charles Darwin, The Origin of Species: A Facsimile of the First Edition, Harvard University Press, 1964, p.179
44. Derek A. Ager, "The Nature of the Fossil Record", Proceedings of the British Geological Association, vol 87, 1976, p.133
45. Douglas J. Futuyma, Science on Trial, New York: Pantheon Books, 1983. p.197
46. Solly Zuckerman, Beyond The Ivory Tower, New York: Toplinger Publications, 1970, p.75-94; Charles E. Oxnard, "The Place of Australopithecines in Human Evolution: Grounds for Doubt,", Nature, Cilt 258, s.389
47. J.Rennie, " Darwin's Current Bulldog: Ernst Mayr", Scientific American, December 1992
48. Alan Walker, Science, vol. 207, 1980, p.1103; A.J.Kelso, Physical Anthropology, 1st ed., New York: J.B.Lipincott Co., 1970, p.221; M.D. Leakey, Olduvai Gorge, vol.3, Cambridge: Cambridge University Press, 1971, p.272
49. Time, November 1996
50. S.J. Gould, Natural History, vol.85, 1976, p.30
51. Solly Zuckerman, Beyond The Ivory Tower, New York: Toplinger Publications, 1970, p.19
52. Richard Lewontin, "The Demon-Haunted World", The New York Review of Books, 9 January, 1997, p.28
 
Top