- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
نبیﷺ کی ہجرت
قریش کی تدبیر اور اللہ کی تد بیر:
مذکورہ قسم کے اجتماع کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ اس میں انتہائی رازداری برتی جاتی ہے اور ظاہری سطح پر کوئی ایسی حرکت سامنے نہیں آنے دی جاتی جو روز مرہ کے معمول کے خلاف اور عام عادات سے ہٹ کر ہو تاکہ کوئی شخص خطرے کی بوسونگھ نہ سکے اور کسی کے دل میں خیال نہ آئے کہ یہ خاموشی کسی خطرے کا پیش خیمہ ہے۔ یہ قریش کا مکر یا داؤ پیچ تھا۔ مگر یہ مکر انہوں نے اللہ کے ساتھ کیا تھا۔ اس لیے اللہ نے انہیں ایسے ڈھنگ سے ناکام کیا کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے، چنانچہ جب نبیﷺ کے قتل کی مجرمانہ قرار داد طے ہوچکی تو حضرت جبریل علیہ السلام اپنے رب تبارک وتعالیٰ کی وحی لے کر آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپﷺ کو قریش کی سازش سے آگاہ کرتے ہوئے بتلایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو یہاں سے روانگی کی اجازت دے دی ہے اور یہ کہتے ہوئے ہجرت کے وقت کی تَعِیین بھی فرمادی کہ آپﷺ یہ رات اپنے اس بستر پر نہ گزاریں جس پر اب تک گزارا کرتے تھے۔1
اس اطلاع کے بعد نبیﷺ ٹھیک دوپہر کے وقت ابوبکرؓ کے گھر تشریف لے گئے تاکہ ان کے ساتھ ہجرت کے سارے پروگرام اور مرحلے طے فرمالیں۔ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ ٹھیک دوپہر کے وقت ہم لوگ ابوبکرؓ کے مکان میں بیٹھے تھے کہ کسی کہنے والے نے ابوبکرؓ سے کہا: یہ رسول اللہﷺ سرڈھان کے تشریف لارہے ہیں۔ یہ ایسا وقت تھا جس میں آپﷺ تشریف نہیں لایا کرتے تھے۔ ابوبکرؓ نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپﷺ اس وقت کسی اہم معاملے ہی کی وجہ سے تشریف لائے ہیں۔
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے۔ اجازت طلب کی۔ آپﷺ کو اجازت دی گئی اور آپﷺ اندر داخل ہوئے۔ پھر ابو بکرؓ سے فرمایا : تمہارے پاس جو لوگ ہیں انہیں ہٹادو۔ ابوبکرؓ نے کہا : بس آپ کی اہلِ خانہ ہی ہیں۔ آپ پر میرے باپ فدا ہوں اے اللہ کے رسول! (ﷺ ) آپ نے فرمایا : اچھا تو مجھے روانگی کی اجازت مل چکی ہے۔ ابوبکر ؓ نے کہا : ساتھ ......اے اللہ کے رسول ! میرے باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں ، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہاں۔2
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۴۸۲ ، زاد المعاد ۲/۵۲
2 صحیح بخاری باب ہجرۃ النبیﷺ ۱/۵۵۳، اور ہجرت کے لیے دیکھئے : بخاری کی حدیث نمبر ۴۶۷، ۲۱۳۸، ۲۲۶۳، ۲۲۶۴، ۲۲۹۷، ۳۹۰۵، ۴۰۹۳، ۵۸۰۷،۶۰۷۹