دین جمہوریت کے جواز میں پیش کے جانے والے چند شبہات کاردّ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَآءَ تَاْوِیْلِہٖ وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗ اِلَّااﷲُ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُوْلُوا الْاَلْبَابِ، رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا وَ ہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ۔(آل عمران:8-7)
وہی ہے جس نے آپ پر کتاب اتاری اس کی بعض آیات محکم ہیں جو اصل کتاب ہیں اور دیگر آیات متشابہ ہیں توجن لوگوں کے دلوں میں کجی ہو وہ اس کے مشابہات کی ٹوہ میں رہتے ہیں فتنے کھڑاکرنے اور اس کی حقیقت کو جاننے کی خاطر حالانکہ اس کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور راسخ فی العلم کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں سب ہمارے رب کی جانب سے ہے اور عقلمند ہی نصیحت لیتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہمارے دلوں کو ہمیں ہدایت دینے کے بعد ٹیڑھانہ کر اور اپنی جانب سے ہمیں رحمت دے یقینا توبہت دینے والا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں یہ بتایا کہ اس کے قانون کے متعلق دوطرح کے لوگ ہیں:
اہل علم ورسوخ : وہ سب پر ایمان وعمل رکھتے ہیں عام پر اس کے مخصص پر اس کے مقید اور مجمل پر اس کے مبیّن کے ساتھ اور جو انہیں مشکل لگے اسے کتاب اللہ کے محکمات بیّنات اصولوں اور راسیات وراسخات قواعد کی طرف لوٹادیتے ہیں جن کی معاونت شرعی دلائل کرتے ہیں ۔
اہل زیغ وضلال: وہ کتاب اللہ کے محکم ومبیّن ومفسر سے اعراض برت کر اس کے مشابہات کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں اورفتنہ بپا کرنے کی خاطر فقط اسی پر عمل کرکے خوش رہتے ہیں ۔یہاں جمہوریت اور شرکیہ نمائندہ نشستوں سے متعلق ایک بات سمجھ لیں کہ لوگ اہل زیغ وضلال کی راہ پر چلتے ہیں اور واقعات وشبہات کو منفرد طور پر لیتے ہیں اورانہیں ان کی وضاحت یا تقیید وتفسیر کرنے والے قواعد واصول دین سے مربوط نہیں کرتے تاکہ آسانی سے حق کو باطل اور نور کو اندھیرے کے ساتھ خلط ملط کردیں لہٰذا اس بارے میں ہم پہلے ان کے مشہور شبہات ذکر کرکے))اللہ مَلِک وہاب مجری السحاب وھازم الاحزاب وحدہ((کی توفیق سے ان کی تحقیق وتردید کردیں۔
پہلاشبہہ: یوسف علیہ السلام کا عزیز مصر کے ہاں عامل ہونا۔
یہ شبہہ وہ لوگ پیش کرتے ہیں جو دلائل سے کورے ہوں لہٰذا کہتے ہیں کہ کیا یوسف یوسف علیہ السلام کافر بادشاہ کے پاس منصب وزارت پر فائز نہ تھے جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت وفیصلہ نہیں کرتا تھا؟لہٰذا کافر حکومتوں کے ساتھ شرکت کرنا بلکہ پارلیمنٹ اور قومی اسمبلی میں داخل ہونا جائز ہے ۔
ہم اللہ کی توفیق سے جواب دیتے ہیں :
اوّل: قانون ساز پارلیمنٹ میں دخول اور اس کے جواز پر اس سے دلیل لینا باطل وفاسد ہے کیونکہ یہ شرکیہ پارلیمنٹ اللہ کے دین کے علاوہ دین جمہوریت پر قائم ہے جس میں قانون سازی اور تحریم وتحلیل کا الوہی اختیار عوام کو ہوتا ہے نہ کے اکیلے اللہ کو جبکہ اللہ نے فرمایا:
وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَ ہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۔(آل عمران:85)
اور جو اسلام کے علاوہ دین چاہے گا تو و ہ اس سے کبھی بھی قبول نہ کیاجائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا۔
سوکیا کوئی جراء ت کرے گا کہ یوسف یوسف علیہ السلام اللہ کے دین کے علاوہ دین یا اپنے آباء کی ملت کے علاوہ ملت کے پیرو تھے یا اس کا احترام کرتے تھے یا اس کے موافق قانون سازی کرتے تھے جیسا آج کل ان پارلیمنٹوں کے فتنوں میں مبتلا لوگوں کا حال ہے؟(کہ جس کے دستور میں صاف لکھا ہے کہ عوام ہی قوانین کا سرچشمہ ہے ۔ملاحظہ ہو کویتی دستور کا آرٹیکل 6اور اردنی دستور کا آرٹیکل 25)ایسا کیونکر ممکن ہے جبکہ وہ برملاکہتے تھے کہ :
اِنِّیْ تَرَکْتُ مِلَّۃَ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَ ہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ کٰفِرُوْنَ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّۃَاٰبَآئِیْٓ اِبْرَاہِیْمَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ مَا کَانَ لَنَآ اَنْ نُّشْرِکَ بِاﷲِ مِنْ شَیْئٍ۔(یوسف:38-37)
میں نے اس قوم کے دین کو چھوڑ دیا جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتی اور وہ آخرت کا انکار کرتی ہے اورمیں اپنے آباء ابراہیم واسحاق ویعقوب کے دین پر چلتا ہوں ہمارے لئے جائز نہیں کہ ہم اللہ کے ساتھ کچھ بھی شرک کریں۔
نیز فرماتے ہیں کہ :
یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ءَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اﷲُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ، مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٰٓ اِلَّآ اَسْمَآءً سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَاٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اﷲُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلاَّ تَعْبُدُوْآ اِلَّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لَکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۔(یوسف:40-39)
اے میرے قید کے ساتھیوں کیا بہت سے الگ رب بہتر ہیں یا ایک اللہ قہار تم اس کے سوا عبادت نہیں کرتے مگر ناموں کی جو تم نے اور تمہارے باپوں نے رکھ لئے اللہ نے ان کی کوئی دلیل نہیں اتاری فیصلہ کرنا جائز نہیں مگر اللہ کے لئے اسی نے حکم دیا کہ تم عبادت نہ کرو مگر اس کی یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔
کیا کمزوری کی اسی حالت میں وہ اس کا پرچار کریں اور شوکت کے زمانے میں اس کو چھپالیں یا اس سے اعراض برتیں گے ؟جائز کہنے والوہمیں جواب دو! اورپھر سیاست کے شہبازوں کیا تم یہ بھی نہیں جانتے کہ وزارت تنفیذی اختیار کو کہتے ہیں جبکہ پارلیمنٹ قانون سازی کے اختیار کو اور ان دونوں میں بہت فرق ہے لہٰذا جائز قرار دینے والوں کا اسی پر قیاس کرنا ہرگز درست نہیں (بعض نام نہاد ملا کہتے ہیں کہ وزارت پارلیمنٹ سے زیادہ خطرناک ہے اور کہتے ہیں پارلیمنٹ حکومت کے خلاف محاذ ہے وہ اس محاذ میں دستوری جہاد کرتے ہیں اور قانونی اور ڈپلومیٹک جدوجہد کرتے ہیں ۔وہ اس بات سے بے بصیرت ہیں کہ قانون سازی اس کے نفاذ سے زیادہ خطرناک ہے خاص طور پر ان کی یہ پارلیمانی قانون سازی جسے وہ جہاد اور جدوجہد کہتے ہیں جمہوری دین کے دستور کے موافق ومطابق ہوملاحظہ ہو اردنی دستور کی دفعہ 24کی شق نمبر 2کہ دستور میں واضح طور پر عوام کوقانون سازی کے اختیارات ہیں ..اور ارکان پارلیمنٹ ان کے زعم کے مطابق دستوری اختیارات کے حامل عوامی نمائندے ہی ہوتے ہیں ۔نیز کویتی غیر شرعی دستور کاآرٹیکل 51ملاحظہ ہو کہ :دستور کے مطابق قانون سازی کا اختیار صدر یا قومی اسمبلی کے پاس ہوتاہے)اس سے واضح ہوا کہ یوسف کے واقعے سے پارلیمنٹ کے جواز پر دلیل لینا ہرگز درست نہیں ایسے ہی ہمارے زمانے میں وزارتی عہدوں میں شراکت پر اس واقعے سے ان کے دلیل لینے کو کفر قرار دینے سے کوئی چیزمانع نہیں ہے ۔
دوم: اللہ کے دین سے متحارب اور اعداء اسلام کی حامی مملکتوں کے ماتحت وزارتوں کے فتنے میں مبتلا لوگوں سے دوستی کو یوسف کے اس فعل پر قیاس کرنا بہت سی وجوہات کی بناء پر فاسد اور باطل ہے:
وزیر بننے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان حکومتوں کے ماتحت رہے جو اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکومت کرتی ہیں اور ان کے وضعی دستور کا احترام کرے اور طاغوت کو اخلاص و ہمدردی کے ساتھ دین بنائے جبکہ اللہ نے سب سے پہلے جس چیز کے ساتھ کفر کرنے کا حکم دیا ہے وہ طاغوت ہے فرمایا:
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْآ اِلَی الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْآ اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ۔ (نساء:60)
وہ چاہتے ہیں کہ طاغوت کے پاس فیصلے کے لئے جائیں جبکہ انہیں حکم کیاگیا ہے کہ وہ اس کے ساتھ کفر کریں ۔
بلکہ اس منصب پر باقاعدہ فائز ہونے سے قبل ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کفر کا حلفیہ اقرار کریں جیسا ہر پارلیمانی رکن کے لئے ضروری ہے(اردنی دستور کے آرٹیکل 43میں لکھا ہے کہ :وزیر اعظم ودیگر وزراء کے لئے ضروری ہے کہ چارج سنبھالنے سے قبل صدر کے سامنے مندرجہ الفاظ میں حلف اٹھائیں کہ میں اللہ عظیم کی قسم کھاکرکہتا ہوں کہ صدر کا وفادار رہوں گا اور دستور کی حفاظت کروں گا․․․․․․․ایسے ہی آرٹیکل79میں ہے کہ اسمبلی اور پارلیمنٹ کے ہر رکن کے لئے چارج سنبھالنے سے قبل ضروری ہے کہ وہ صدر کے سامنے ان الفاظ میں حلف اٹھائے کہ میں اللہ عظیم کی قسم اٹھاکرکہتا ہوں کہ صدر کا وفادار رہوں گا اور دستور کی حفاظت کروں گا ․․․․․․․کویتی دستور کے آرٹیکل 126اور 91میں بھی اسی طرح ہے ۔سوال یہ ہے کیا یوسف نے ایسا کچھ بھی کیا تھا؟اور فتنوں میں گرفتار ان لوگوں کی اس بات کا اعتبارنہیں جو کہتے ہیں کہ حلف اٹھاتے وقت ہم اپنے دل میں یہ مستثنیٰ کرلیتے ہیں کہ شرع کی حدود میں رہتے ہوئے کیونکہ قسم کااعتبار قسم اٹھانے والے کی نیت پر نہیں ہوتا کیونکہ اگر ایسا ہوتو لوگوں کے سارے ہی معاملات بگاڑ کاشکار ہوجائیں اور یہ عمل ایک کھیل بن جائے بلکہ قسم اٹھوانے والے کی نیت کے مطابق ہوتا ہے جیسا کہ نبی علیہ السلام نے فرمایاکہ :’’قسم حلف اٹھوانے والے کی نیت کے مطابق ہوگی‘‘لہٰذا ان کی قسمیں ان کی نیتوں کی تابع نہیں بلکہ اس طاغوت کی نیت کے مطابق ہوتی ہیں جو ان سے قسم اٹھواتا ہے )اب جو یوسف کریم ابن کریم علیہم السلام کے متعلق اس طرح کی بدگمانی رکھے جبکہ اللہ نے انہیں اس سے بری قرار دہتے ہوئے فرمایاکہ :
کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْٓءَ وَ الْفَحْشَآءَ اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ۔ (یوسف:24)
ایسے ہی تاکہ ہم اس سے برائی اور بے حیائیوں کو پھیر دیں بے شک وہ ہمارے مخلص بندوں سے ہے۔
توبلاشبہ مخلوق میں سب سے بڑا کافر اور غلیظ شخص ہوا جس کا دین سے دور سے بھی واسطہ نہیں بلکہ وہ ابلیس ملعون سے بھی بدتر ہواکیونکہ اس نے بھی قسم کھاتے وقت چند لوگوں کو مستثنیٰ کیا:
قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِیَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ،اِلَّا عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْنَ۔(ص:83-82)
پس تیری عزت کی قسم میں ان سب کو گمراہ کروں گا سوائے ان میں تیرے مخلص بندوں کے ۔
اور اللہ کے فرمان کے مطابق یوسف علیہ السلام ان مخلص بندوں کے سرداروں میں سے ہیں ۔
ان حکومتوں کے ماتحت وزیر بننے والادستور کے مطابق حلف اٹھائے یا نہ اٹھائے اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وضعی اور کفری قانون کا پابند رہے نہ اس سے تجاوز کرے نہ اس کی خلاف ورزی کرے لہٰذاوہ اس دستور کا مخلص بندہ اور خادم ہوا اور ان لوگوں کا تابعدار جنہوں نے اسے بنایاخواہ وہ حق ہو یا باطل فسق وظلم ہویا کفر․․․․․․․۔
توکیا یوسف علیہ السلام نے ایسا کچھ کیا کہ ان کے فعل کو کفری مناصب کے جواز کی دلیل بنایاجائے ؟یقینا جو بھی اللہ کے نبی ابن نبی ابن نبی ابن خلیل اللہ کے متعلق اس طرح کی معمولی سی بدگمانی بھی کرے ہم اس کے کفر وزندقہ اور اسلام سے خروج میں قطعاً شک نہیں کرسکتے کیونکہ اللہ نے فرمادیا کہ :
وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلاً اَنِ اعْبُدُوا اﷲَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ۔ (نحل:36)
اور یقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔
جبکہ یوسف علیہ السلام کے لئے اس کائنات میں اللہ کا بیان کردہ یہ اصول ہی سب سے بڑا اصول اور سب سے بڑی مصلحت تھی جیسا کہ دیگر انبیاء ورسل کے لئے ہے ۔کیا یوسف لوگوں کو مخفی طور پر اور تنگی اور کمزوری اور قوت وقدرت میں اس اصل کی طرف پہلے توخود دعوت دیں اور پھر خود ہی اس کی مخالت کرکے مشرکین میں سے ہوجائیں کیا عقل اسے مان سکتی ہے؟یہ کیونکر ممکن ہو جبکہ اللہ نے انہیں اپنے مخلص بندوں میں گردانا ہے علاوہ ازیں بعض مفسرین اللہ کے فرمان:
مَا کَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ۔(یوسف:76)
وہ بادشاہ کے دین میں ہرگز اپنے بھائی کونہ لے سکتا تھا۔
کو اس بات کی دلیل بناتے ہیں کہ وہ بادشاہ کے نظام اور قانون کو نہیں مانتے تھے نہ ہی ان کے مطابق فیصلے کرتے تھے ۔توکیا آج کل کی وزارتوں اور پارلیمنٹوں میں ایسا ممکن ہے کہ کسی وزیر کی عادت ایسی ہو کہ یوں کہاجائے کہ اس نے ریاست کے اندر ریاست بنائی ہوئی ہے ؟لہٰذا ان مناصب کو یوسف علیہ السلام کے فعل پر قیاس کرتے ہوئے جائز کہنا باطل ہے ۔
یوسف علیہ السلام اس وزارت پر منجانب اللہ ،اللہ کی قدرت سے فائز ہوئے ارشاد فرمایا:
وَ کَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ۔(یوسف:56)
اورایسے ہی ہم نے یوسف کو زمین پر حکومت عطاکی ۔
اور یہ تمکن اللہ کی طرف سے ہوا نہ کہ بادشاہ یا کسی اور کی طرف سے کہ وہ ان کو اس منصب سے معزول کرسکے خواہ وہ بادشاہ کی مخالفت کرتے رہیں ۔توکیا آج کل کے ان طاغوتی عہدیداروں کے پاس اس طرح کا کچھ اختیارہے کہ یوسف علیہ السلام کی تمکین وولایت پر انہیں قیاس کرنا درست ہوسکے؟
یوسف علیہ السلام بادشاہ کی طرف سے ملنے والی مکمل اور حقیقی تحفظ کی بناء پر وزیر بنے ارشاد فرمایا:
فَلَمَّا کَلَّمَہٗ قَالَ اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ۔(یوسف:54)
پھر جب انہوں نے اس سے گفتگو کی توکہنے لگاکہ بے شک آج آپ ہمارے ہاں محفوظ مہمان ہیں۔
اس طرح انہیں اپنی وزارت میں کامل وغیر ناقص حریت وتصرف کا اختیار حاصل ہوا اسی لئے فرمایا:
وَ کَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ۔(یوسف:56)
اورایسے ہی ہم نے یوسف کو زمین پر حکومت عطاکی ۔
سو نہ تو ان سے کوئی حساب لے سکتا تھا نہ ہی ان کی نگرانی کرسکتا تھا خواہ وہ کچھ بھی کریں .توکیا آج کل کی طاغوتی وزارتوں میں اس طرح کا کچھ ہے یا یہ محض جھوٹے اور باطل اختیارات ہیں جو اس وقت ختم ہوجاتے ہیں جب وزیر ان کے دامن سے کھیلنے لگے یا صدر کی اطاعت سے ہٹ کر ان کی خلاف ورزی کرے اس اعتبار سے یہ وزیر درحقیقت صدر یا بادشاہ کا سیاسی خادم ہوا جو اس کے احکامات کا مکمل پابندہوتا ہے اور اسے صدر یا دستور کی مخالفت کا بالکل حق حاصل نہیں ہوتا اگرچہ اس میں اللہ سبحانہ اور اس کے دین کی مخالفت ہی ہو ۔اب اگر کوئی یہ گمان کرے کہ یوسف بھی اسی طرح کچھ نہ کچھ پابند ضرور تھے توبلاشبہ وہ کافر ہے کیونکہ یوسف علیہ السلام کا جو تزکیہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایااس کا منکر بن رہا ہے لہٰذا جب آج کل کی طاغوتی وزارتوں میں یوسف جیسی کیفیت موجود نہیں توانہیں ان پر قیاس کرنا ہی باطل ہی ہے۔
سوم: اس باطل شبہہ کے ردّ میں بعض مفسرین کا یہ قول بھی پیش کیا جاسکتا ہے کہ بادشاہ اسلام لے آیاتھا جیسا کہ مجاہد تلمیذ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس قول کے مطابق اس مقدمے سے دلیل لینا ہی اصلاً باطل ہوجاتا ہے ۔نیز ہمارا طریقہ اور عقیدہ یہ ہے کہ قرآن کے ظاہر اور عموم کی اتباع مختلف تفسیرات اور رقیق تشکیکات وتاویلات سے بدرجہ اولیٰ ہے کیونکہ بہر طور وہ ادلہ معتبر ہ سے عاری ہوتی ہیں اب جس آیت سے یہ قول پایہ ثبوت کو پہنچتا ہے وہ یہ ہے فرمایا:
وَ کَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ۔(یوسف:56)
اورایسے ہی ہم نے یوسف کو زمین پر حکومت عطاکی ۔
اس اجمال کی وضاحت اللہ دوسرے مقام پر اس طرح کرتا ہے فرمایا:
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۔(حج:41)
وہ لوگ جنہیں ہم زمین پر حکومت عطا کریں وہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکاۃ دیتے اور امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کرتے ہیں اور معاملات کاانجام اللہ کے لئے ہے۔
یہاں اللہ نے یہ تفصیل کردی کہ اہل ایمان حکومت ملنے کے بعد کیا کرتے ہیں اور بلاشبہ یوسف علیہ السلام اہل ایمان کے سردار ہیں اور یہ بات واضح ہے کہ دین اسلام میں سب سے بڑا معروف توحید اور سب سے بڑا منکر شرک ہے جیسا کہ یوسف اور ان کے آباء واجداد یعقوب ،اسحاق ،ابراہیم کی دعوت کا پرچار کیا اور اس کے مخالفین کی بیخ کنی کی لہٰذا یہ اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکومت نہ ہوئی نہ ہی ایسے کسی حاکم کی معاونت اورنہ ہی ان سے تعلق استوار کرنا یا ان کی طرف میلان ہوا جیسا کہ آج کل کے مفتون وزراء کا طرز عمل ہے بلکہ بالیقین انہوں نے اس صورت حال کو تبدیل کیا اور توحید کی حاکمیت قائم کی اور اسی کی طرف دعوت دی اور اس کے ہر مخالف کو شکست دی خواہ وہ کوئی بھی ہو ۔جیسا کہ اللہ کی سنن جاریہ فی الانبیاء سے متعلق آیات ونصوص سے ثابت ہوتا ہے اب اگر کوئی یوسف صدیق کریم ابن کریم ابن کریم کو ان سے متضاد صفات سے متصف کرے تووہ کافراور خبیث اور دین اسلام سے خارج وبری ہے۔ایسے ہی اللہ کے فرمان:
وَ قَالَ الْمَلِکُ ائْتُوْنِیْ بِہٖ اَسْتَخْلِصْہُ لِنَفْسِیْ فَلَمَّا کَلَّمَہٗ قَالَ اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ۔(یوسف:54)
بادشاہ نے کہا تم اسے میرے پاس لاؤ میں اسے اپنے لئے خاص کرلوں پھر جب انہوں نے اس سے گفتگو کی تو وہ کہنے لگا آج آپ ہمارے پاس محفوظ مہمان ہیں۔
آپ کے خیال میں یوسف علیہ السلام نے اس سے کیا گفتگوکی ہوگی کہ متاثر ہوکر اس نے آپ کو حکومت کی پیشکش کردی ؟کیا عزیز مصر کی بیوی کا قصہ سنایا ہوگاجو کہ اپنے اختتام کو بخیروخوبی پہنچ چکا تھایا ملکی اتحاد یا اقتصادی مشکلات سے متعلق یا کچھ اور ؟غیب دانی کا دعویٰ توکوئی نہیں کرسکتا البتہ دلیل کے ساتھ بات سچاکرتا ہے سو جو اللہ کے فرمان﴿
فَلَمَّا کَلَّمَہٗ ﴾’’پھر جب انہوں نے اس سے گفتگو کی ‘‘کے اجمال کو اللہ کا یہ فرمان مدد کرتا ہے۔فرمایا:
وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلاً اَنِ اعْبُدُوا اﷲَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ۔(نحل:36)
اور یقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔
نیز:
وَ لَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْکَ وَ اِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَ لَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۔(زمر:65)
اور البتہ آپ کی اور آپ سے پہلے والوں کی طرف یہ وحی کی گئی کہ اگرتونے شرک کرلیا توتیرے سارے عمل برباد ہوجائیں گے اور تو ضرور نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا۔
نیزیوسف علیہ السلام کی ترجیحی دعوت سے متعلق اللہ کا یہ فرمان:
اِنِّیْ تَرَکْتُ مِلَّۃَ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَ ہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ کٰفِرُوْنَ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّۃَ اٰبَآئِیْٓ اِبْرَاہِیْمَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ مَا کَانَ لَنَآ اَنْ نُّشْرِکَ بِاﷲِ مِنْ شَیْئٍ ۔(یوسف:(38-37)
یقینا میں نے ان لوگوں کے دین کو چھوڑ دیا جو اللہ پر یقین نہیں رکھتے اور وہ آخرت کے منکر ہیں اور میں نے اپنے آباء ابراہیم واسحاق ویعقوب کی اتباع کی ہے ہمارے لئے اللہ کے ساتھ کچھ بھی شرک کرنا ہرگزجائز نہیں ہے ۔
نیز:
ءَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اﷲُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ، مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ اِلَّآ اَسْمَآءً سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَاٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اﷲُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلاَّ تَعْبُدُوْآ اِلَّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ ٰلکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۔(یوسف: 40-39)
کیا بہت سے مختلف رب بہتر ہیں یا ایک غالب اللہ کے سوا تم محض ناموں کی عبادت کرتے ہوجو تم نے اورتمہارے آباء نے رکھ لئے اللہ نے ان کی کوئی دلیل نہیں اتاری حکم صرف اللہ ہی کا حق ہے اس نے حکم دیا کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو یہی سیدھا دین لیکن اکثر لوگ نابلد ہیں ۔
یقینا یوسف علیہ السلام کے نزدیک سب سے معیاری گفتگو اور ان کی اور ان کے آباء کی دعوت کا سب سے بنیادی اصول یہی ہے یہی سب سے بڑا معروف اور جو چیز اس کے متضاد ہو وہی سب سے بڑا منکر ہے اس بات کے تقرر وتعین کے بعد کہ یوسف علیہ السلام نے ان سے کیاگفتگو کی تھی بادشاہ کا یہ جواب کہ: ﴿
اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ﴾’’یقینا آج آپ ہمارے محفوظ مہمان ہیں ‘‘بڑی ہی واضح دلیل ہے کہ بادشاہ نے ان کی تابعداری اختیار کرلی تھی اور دین کفر کوترک کرکے ملت ابراہیمی کا پیروبن چکاتھا اور پھر انہیں ہرطرح کے کلام اور دعوت کی مکمل آزادی دے دی تھی اور اس بات کی بھی کہ اس دعوت ے مخالفین کی سرکوبی کریں .تویوسف علیہ السلام کی حالت اور عصر حاضر کے طاغوتی مفتون وزراء کی حالت میں فرق کرنے کے لئے فقط اتنا ہی کافی ہے )ہماری اس گفتگو کے خلاف سورہ غافر کی اس آیت کو دلیل بناناجائز نہیں جس میں آل فرعون میں سے موسیٰ پر ایمان لانے والے شخص نے فرعون وغیرہ سے کہا تھا کہ :
وَ لَقَدْ جَآءَ کُمْ یُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا زِلْتُمْ فِیْ شَکٍّ مِّمَّا جَآءَ کُمْ بِہٖ حَتّٰیٓ اِذَا ہَلَکَ قُلْتُمْ لَنْ یَّبْعَثَ اﷲُ مِنْم بَعْدِہٖ رَسُوْلًا۔(غافر:۴۳)
اورالبتہ تمہارے پاس اس سے پہلے یوسف بھی واضح معجزات لے کر آیاپر تم اس کے پیش کردہ میں شک کرتے رہے حتی کہ جب وہ مرگیا توتم کہنے لگے کہ اللہ اس کے بعد اب کبھی رسول نہ بھیجے گا۔
عدم جواز استدلال کی چند وجوہات درج ذیل ہیں :
آیت میں یہ صراحت نہیں کہ یہ یوسف بن یعقوب ہیں ممکن ہے اور ہوں جیسا کہ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ مراد یوسف بن افرانیم بن یوسف بن یعقوب ہیں جو ان میں 20سال نبی رہے ابن عباس سے بھی یہی مروی ہے نیز ملاحظہ ہو تفسیر قرطبی وغیرہ اور جب احتمال آجائے تودلیل قابل استدلال نہیں رہتی ۔
اگر یہ مان لیاجائے کہ یوسف علیہ السلام ہی مراد ہیں تب بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بادشاہ ایمان نہ لایاتھا کیونکہ ممکن ہے کہ اس شخص کا کلام اکثریت کے متعلق ہو۔
اس آیت میں کفر بواح علانیہ کانہیں بلکہ شک کا تذکرہ ہے اور شک کسی وقت دل میں ہوتا ہے توکسی دوسرے وقت میں ظاہر ہوجاتا ہے.اور یہ بات طے شدہ ہے کہ یوسف علیہ السلام حاکم بن گئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرنے لگے پھر کوئی آپ کے سامنے اپنے شرک کا اظہار کرے اور آپ خاموش رہیں ایسا ناممکن ہے کسی میں یہ جراء ت بھی کیونکر ہوجب کہ آپ حاکم اور رسول تھے اور شرک آپ کے نزدیک سب سے بڑا منکر تھا لیکن اگر دل میں کفرو شرک چھپا کر اہل ایمان کے سامنے حاکم کے خوف سے ایمان کا اظہار کیا جائے تویہ نفاق ہوتا ہے اور لوگوں کے ساتھ ان کے ظاہر کے مطابق برتاؤ ہوتا ہے بلکہ اس شخص کے اس قول کہ :﴿
حَتّٰیٓ اِذَا ہَلَکَ قُلْتُمْ لَنْ یَّبْعَثَ اﷲُ مِنْم بَعْدِہٖ رَسُوْلًا﴾’’حتی کہ جب وہ مرگیا توتم کہنے لگے کہ اللہ اب اس کے بعد کبھی رسول نہ بھیجے گا‘‘میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ بظاہر اس پر ایمان لے آئے تھے اگرچہ دل سے نہ لائے ہوں۔یہاں ایک اور شبہہ کا بھی ازالہ کردینا مناسب ہے جو کہ مفتون وزراء اس شخص کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ اس نے اپنے ایمان کو چھپاکررکھا تھا لہٰذا یہ جائز ہے ۔اس کا ردّ یہ ہے کہ ہم جن حالات سے دوچار ہیں ان میں اور وہ جن حالات سے دوچار تھا اس میں کیا مطابقت ومناسبت ہے ؟کمزور کے ایمان چھپانے اور شرک وکفر اور قانون سازی اور اللہ کے دین کو بگاڑنے اور روندنے میں برابر شریک ہونے میں بڑا ہی واضح فرق ہے کیا وہ شخص ان مفتون وزراء کی طرح قانون سازی یا اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکومت کرنے یا جمہوریت کی حمایت کرنے میں ان کا برابر کا شریک رہا تھا؟لہٰذا پہلے اس بات کو ثابت کیا جائے پھر کوئی دوسرا دعویٰ کیا جائے وگرنہ ان فضولیات سے اجتناب کیاجائے)
چہارم: گذشتہ بحث سے جب یہ حقیقت عیاں ہوچکی کہ یوسف علیہ السلام توحید کی مخالفت کرکے یا دین ابراہیمی کو پس پشت ڈال کر وزیر نہیں بنے تھے جیسا کہ آج کل بنتے ہیں تواب اگر یہ مان لیاجائے کہ بادشاہ اپنے کفر پر باقی رہا تھا تو یوسف علیہ السلام کی وزارت اس صورت میں ایک فرعی مسئلہ کی شکل اختیار کرجائے گی جس کااصول دین سے کچھ بھی تعلق نہ ہو جیسا کہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ یوسف سے شرک وکفر یا کفار سے تعلقات یا اللہ کے ساتھ قانون سازی وغیرہ نواقض ایمان کچھ بھی صادر نہ ہوا تھا بلکہ آپ ہمہ وقت توحید کاپرچار اور شرک کی تردید کرتے رہے۔اور اللہ تعالیٰ فروعی مسائل کے متعلق فرماتا ہے کہ:﴿
لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّ مِنْہَاجًا﴾(مائدہ:48)’’او رہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے (الگ)شریعت اورمنہج بنایاہے‘‘لہٰذا انبیاء کی شریعتیں احکام فروعی میں تومختلف ہوتی ہیں البتہ اصول دین میں متفق و متحد جیسا کہ نبی نے فرمایا:’’ہم انبیاء کی جماعت علاتی (باپ ایک ماں الگ )بھائی ہیں ہمارا دین ایک ہے ۔بخاری عن ابی ہریرہ )یعنی اصول دین توحید وغیرہ میں ایک ہیں البتہ شریعت کے مسائل واحکام میں مختلف ہیں ہم سے پہلے کی شریعت میں ایک شئے حرام ہو پھر ہمارے لئے حلال ایسا ممکن ہے مثلامال غنیمت کبھی اس کے برعکس بھی ہوتا ہے یاہم سے پہلے والوں پر سختی ہو پھر ہمارے لئے نرمی کردی جائے لہٰذا گزشتہ شریعت کی ہربات ہمارے لئے شریعت نہیں خاص طور پر جبکہ ہماری شریعت میں اس کے خلاف دلیل بھی ہو اور ہماری شریعت میں اس عمل کی حرمت پر دلیل موجود ہے جو یوسف علیہ السلام کی شریعت میں حلال تھا۔ابن حبان،ابویعلیٰ اورطبرانی نقل کرتے ہیں کہ’’ نبی علیہ السلام نے فرمایا:تم پر بے وقوف حاکم آئیں گے جو بدترین لوگوں کو قریب کریں گے اور نماز تاخیر سے پڑھیں گے سو تم میں سے جو ایسا وقت پائے وہ ہرگز کوئی ناظم یا سپاہی یا ٹیکس آفیسر یا خزانچی نہ بنے(اور راجح بات یہ ہے کہ ان حکمرانوں سے فاسق امراء مراد ہیں جو کافر نہ ہوں کیونکہ ڈرانے والا جب کسی چیز سے ڈراتا ہے تو عام طور پر اس چیزکا سب سے براپہلو بیان کرتاہے لہٰذا اگر وہ کافر ہوتے تو آپ ضرور بتاتے جب کہ آپ نے ان کی سب سے بڑی برائی یہ بیان کی کہ وہ بدترین لوگوں کو قریب کریں گے اورنماز تاخیر سے پڑھیں گے اس کے باوجود نبی نے واضح طور پر منع فرمایا کہ کوئی ان کا خازن یعنی خزانچی بنے توجب فاسق حاکم کا خزانچی بننا ہماری شریعت میں حرام ہوتو کسی کافر کا وزیر خزانہ بننا کس طرح جائز ہوسکتاہے لہٰذا یوسف علیہ السلام کا تقاضاکہ :﴿
قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ﴾(یوسف:55)’’تومجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کردے کیونکہ میں محافظ اور ماہر ہوں‘‘اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ ان کی شریعت میں جائز تھا لیکن ہماری شریعت میں منسوخ ہے۔واللہ تعالی اعلم
اگرچہ ہدایت کے لئے اتنا ہی کافی ہے لیکن اگر کوئی اپنے فہم وتدبر اور آراء الرجال ادلہ وبراہین پر مقدم کرتا ہوتو اگر اس کے سامنے پہاڑ بھی ریزہ ریزہ کردیا جائے وہ ہدایت حاصل نہیں کرسکتا:﴿
وَ مَنْ یُّرِدِ اﷲُ فِتْنَتَہٗ فَلَنْ تَمْلِکَ لَہٗ مِنَ اﷲِ شَیْئًا﴾(مائدہ:41)’’اور جسے اللہ فتنے میں ڈالنا چاہے تو آپ اللہ کے مقابل اس کے لئے ہرگز کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے ‘‘
اس شبہے کے متعلق بحث کے اختتام سے قبل ہم اس پارلیمانی اور وزارتی شرک وکفرکو اپنے فہم وتدبرسے جائز قرار دینے والوں کے متعلق ایک تنبیہ کردیں کے وہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے یوسف علیہ السلام کے وزیر بننے سے متعلق کلام کو توڑ مروڑکر پیش کرتے ہیں جبکہ یہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر افتراء وبہتان سے زیادہ کچھ بھی نہیں کیونکہ انہوں نے اس قصے سے قانون سازی کے محل یا کفر یا اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکومت کرنے کے جواز پر دلیل نہیں لی ہے ان جیسے راسخ العقیدہ اور عقل مند شخص سے اس بد عقیدگی اوربے عقلی کی توقع نہیں کی جاسکتی ایسی بات تو عام عقل مند بھی نہیں کہہ سکتا چہ جائیکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ جیسے عاقل وعالم ربانی یہ بات کریں یہ ناممکن ہے کیونکہ اس سلسلے میں ان کا عقیدہ واضح اورمعروف ہے کیونکہ اس بات کا دارومدار جلب المصالح اور درء المفاسد کے قاعدے پر ہے اور اس کائنات کی سب سے بڑی مصلحت توحید اور سب سے بڑا مفسدہ شرک و تندید ہے اور پھر وہ یوسف علیہ السلام کے متعلق اس عہدے کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ:’’ان سے جس قدر انصاف اور خیرخواہی ہوسکی انہوں نے کی اور حتی الامکان انہیں ایمان کی دعوت دی۔(مجموع الفتاوی:68/28)
انہوں نے مطلق طور پر کہیں نہیں کہا کہ یوسف علیہ السلام اللہ کے ساتھ قانون سازی کرتے یا اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکومت کرنے والے کے ساتھ شریک ہوتے یا جمہوریت وغیرہ ادیان باطلہ کی اتباع کرتے جیسا کہ آج کل کے مفتون وزراء کی حالت ہے جو ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے کلام کو اپنے شبہات کے پردوں میں لپیٹ کر پیش کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو گمراہ اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط کرسکیں ۔اور پھر اے میرے موحد بھائی اس سب کو چھوڑدیں ہمارا قائد اور ہماری دلیل جس کی طرف ہم بوقت اختلاف رجوع کرتے ہیں وہ وحی ہے نہ کہ کچھ اور وہ اللہ اور اس کے رسول کاکلام ہے اور اللہ کے رسول کے بعد ہر ایک کے قول کو قبول یا ردّ کیا جاسکتا ہے لہٰذا اگر بفرض محال ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایسا کچھ کہا بھی ہو تو ہم اسے ان سے کیا اگر ان سے بڑھ کر کوئی آجائے اس سے بھی قبول نہ کریں گے حتی کہ وہ ہمارے پاس اس کی واضح دلیل نہ لے آئے جو وحی سے ہو:
قُلْ اِنَّمَآ اُنْذِرُکُمْ بِالْوَحْیِ۔(انبیاء 45:)
اے نبی کہہ دیجئے درحقیقت میں تمہیں بذریعہ وحی ڈراتا ہوں ۔
قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔(بقرہ:111)
اے نبی کہہ دیجئے اپنی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو۔
لہٰذا باخبررہیں اور توحید پر ڈٹے رہیں اور شرک وکفر کے دوستوں اور توحید وسنت کے دشمنوں کی چالوں میں نہ آئیں بلکہ اس گروہ میں شامل رہیں جو اللہ کے دین کو قائم رکھے جن کے متعلق نبی علیہ السلام نے فرمایا:’’جو ان کی مخالفت کرے یا ان کی مدد نہ کرے وہ انہیں نقصان نہ دے سکے گا حتی کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور وہ اسی طرح ہوں‘‘۔(فتح الباری:295/13)