• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز تسبیح-کیا یہ حدیث صحیح ہے

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
نماز تسبیح
یہ نماز کم از کم زندگی میں ایک مرتبہ ضرور پڑھنی چاہئے:
عباس کو نبی نے فرمایا:
(إن استطعت أن تصلیھا فی کل یوم مرۃ فافعل فإن لم تفعل ففي کل جمعۃ مرۃ فإن لم تفعل ففي کل شھر مرۃ فإن لم تفعل ففي کل سنۃ مرۃ فإن لم تفعل ففي عمرک مرۃ)
’’اگر تو روزانہ ایک دفعہ پڑھنے کی طاقت رکھتا ہے تو ایسا کر، اگر ایسا نہیں کرسکتا تو جمعہ میں ایک مرتبہ پڑھ لے اگر اس کی بھی طاقت نہیں تو مہینہ میں ایک دفعہ اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو سال میں ایک مرتبہ اور اگر اس کی ہمت بھی نہ ہو تو زندگی میں ایک مرتبہ ضرور پڑھ۔‘‘ (صحیح ابوداود:۱۱۵۲)
طریقہ نماز
عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ آپ نے عباس سے فرمایا:
(یا عباس یا عماہ ألا أعطیک ألا أمنحک ألا أحبوک ألا أفعل بک عشر خصال إذا أنت فعلت ذلک غفراﷲ لک ذنبک أولہ وآخرہ قدیمہ وحدیثہ خطأہ وعمدہ صغیرہ وکبیرہ سرہ وعلانیتہ عشر خصال أن تصلی أربع رکعات تقرأ فی کل رکعۃ فاتحۃ الکتاب وسورۃ فإذا فرغت من القراء ۃ فی أول رکعۃ وأنت قائم قلت: سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْدُ ﷲِ وَلَاإِلـٰہَ إلَّا اﷲُ وَاﷲُ أکْبَرُ خمس عشرۃ مرۃ ثم ترکع فتقولھا وأنت راکع عشرا ثم ترفع رأسک من الرکوع فتقولھا عشرا ثم تھوی ساجدا فتقولھا وأنت ساجد عشرا ثم ترفع رأسک من السجود فتقولھا عشرا ثم تسجد فتقولھا عشرا ثم ترفع رأسک فتقولھا عشرا فذلک خمس وسبعون فی کل رکعۃ تفعل ذلک فی أربع رکعات (صحیح ابو داود:۱۱۵۲)
’’اے (میرے چچا)عباس !میں آپ کو کچھ عطا نہ کروں؟ کیا میں آپ کو کچھ ہدیہ نہ کروں؟ میں آپ کو دس خصلتوں والا نہ کردوں کہ جب آپ یہ عمل کریں تو اللہ تعالیٰ آپ کے اگلے پچھلے پرانے اور نئے غلطی سے یا عمداً ، چھوٹے یا بڑے پوشیدہ اور ظاہر گناہ معاف فرما دے تو آپ چار رکعات اس طرح پڑھیں کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور کوئی سورۃ تلاوت کریں اور جب آپ قراء ت سے فارغ ہوں تو قیام کی حالت میں ہی یہ کلمات پندرہ مرتبہ ادا کریں سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْدُ ﷲِ وَلَاإِلہَ إلَّا اﷲُ وَاﷲُ أکْبَرُ پھر آپ رکوع میں چلے جائیں اور رکوع کی حالت میں دس مرتبہ یہی کلمات کہیں پھر اپنا سر رکوع سے اٹھائیں اور دس مرتبہ یہی کلمات دہرائیں پھر سجدہ میں جائیں اور اس میں یہی کلمات دس مرتبہ ادا کریں پھر سجدہ سے سراٹھائیں اور (جلسہ میں) دس مرتبہ یہ کلمات دہرائیں پھرسجدہ میں جائیں اور دس مرتبہ یہ کلمات دہرائیں پھر سر اٹھائیں اور دس مرتبہ پھر یہ کلمات دہرائیں ہر رکعت میں، ان تسبیحات کی تعداد ۷۵ ہوگی ہر رکعت میں آپ اسی طرح کریںاس طرح یہ چار رکعات ہیں۔‘‘
اور اس کا وقت چاشت کا وقت ہے عبداللہ بن بسر لوگوں کے ساتھ نماز عیدالفطر یا اضحی کے لئے نکلے اور امام کے تاخیر کرنے کو اجنبی جانا اور فرمایا :
إنا کنا قد فرغنا ساعتنا ھذہ ’’ہم اس وقت تو نماز سے فارغ ہوجاتے تھے۔‘‘ راوی کہتا ہے کہ یہ وقت چاشت کا وقت تھا۔ (صحیح ابوداود:۱۰۰۵)



کیا یہ حدیث صحیح ہے اور اس پر عمل کیا جا سکتا ہے تفصیل کے ساتھ جواب دیں
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
جی با لکل سہی ہے عمل کر سکتے ہیں اور کسی اچھے عمل کے لئے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوتی اچھا عمل بذات خود اچھا ہوتا ہے
کسی اچھے عمل کےلیے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔(ابتسامہ)
اب اگر میں مغرب کی تین رکعات فرض کے بجائے پانچ رکعات پڑھنا شروع کردوں تو ؟ یہ بھی ایک اچھا عمل ہے اس بارے کسی سے نہ پوچھوں؟
ہر بندہ مفتی اور عالم دین نظر آتا ہے۔
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
جی با لکل سہی ہے عمل کر سکتے ہیں اور کسی اچھے عمل کے لئے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوتی اچھا عمل بذات خود اچھا ہوتا ہے
بھائی جب تک اسکی سند ثابت نہیں ہوتی تو اس پر کیسے عمل کیا جا سکتا ہے؟
اور دین میں وہی عمل اچھا ہے جو نبی اکرم سے ثابت ہو
 

sufi

رکن
شمولیت
جون 25، 2012
پیغامات
196
ری ایکشن اسکور
310
پوائنٹ
63

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
Bhai amal kiliye sanad ki sharat aap kis daleel ki bunyaad pr laga rahe hain ?oo
سيدنا ابوہريرہ سے مروى ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے فرمايا:
((وإن الكافر إذا أتى من قبل رأسه لم يوجد شيء ثم أتى عن يمينه فلا يوجد شيء ثم أتى عن شماله فلا يوجد شيء ثم أتى من قبل رجليه فلا يوجد شيء. يقال له: اجلس فيجلس خائفا مرعوبا فيقال له: أرأيتك هذا الرجل الذي كان فيكم ماذا تقول فيه وماذا تشهد به عليه؟ فيقول: أي رجل؟ فيقال: الذي كان فيكم. فلا يهتدي لاسمه حتى يقال له: محمد. فيقول: ما أدري سمعت الناس قالوا قولا فقلت كما قال الناس. فيقال له: على ذلك حييتَ وعلى ذلك متَّ وعلى ذلك تُبعث إن شاء الله.ثم يفتح له باب من أبواب النار فيقال له: هذا مقعدك من النار وما أعد الله لك فيها. فيزداد حسرة وثبورا ثم يفتح له باب من أبواب الجنة فيقال له: ذلك مقعدك من الجنة وما أعد الله لك فيه لو أطعته. فيزداد حسرة و ثبورا ثم يُقيَّض عليه قبره حتى تختلف فيه أضلاعه فتلك المعيشة الضنكة التي قال الله: ﴿فَإِنَّ لَه مَعِيْشَة ضَنْكًا﴾)) (صحيح ابن حبان كتاب الجنائز، رقم :١٣٠٣ ’حسن‘ كما قاله الالبانى)

”اور بے شك كافر كو (عذاب دينے كے لئے فرشتے) اس كے سر كى طرف سے آتے ہيں- وہ (ايمان اور عمل صالح كى) كوئى ركاوٹ نہيں پاتے- پهر وہ اس كے دائيں جانب سے آتے ہيں پس وہ كوئى ركاوٹ نہيں پاتے- پهر وہ بائيں طرف سے آتے ہيں، ادہر بهى كوئى ركاوٹ نہيں پاتے- پهر وہ اس كے پاؤں كى جانب سے آتے ہيں تو ادہر بهى كوئى ركاوٹ نہيں ملتى- پهر اس(كافركو) كہا جاتا ہے: بيٹھ جا- وہ خوف زدہ اور سہما ہوا بيٹھ جاتا ہے- فرشتے پوچهتے ہيں: جو شخص تم ميں (رسول بناكر) بهيجا گيا تها، اس كے بارے ميں تيرى كيا رائے ہے اور اس كے متعلق تو كيا گواہى ديتا ہے؟ جواب ميں كافر كہتا ہے: كون سا آدمى؟ فرشتے كہتے ہيں: جو تم ميں بهيجا گيا تها- اسے آپ كے نام كے متعلق كچھ پتہ نہيں چلتا يہاں تك كہ اسے بتايا جاتا ہے كہ محمدﷺ (كے متعلق پوچها جارہا ہے)- وہ كافر كہتا ہے: ميں تو نہيں جانتا (البتہ) ميں نے لوگوں كو (آپ كے متعلق) كچھ كہتے ہوئے سنا تها- پهر ميں نے بهى لوگوں كى طرح ہى كہہ ديا- فرشتے كہتے ہيں: اس شك پر تو زندہ رہا اور اسى پر مرا اور ان شاء اللہ اسى پر تو اُٹهايا جائے گا- پهر جہنم كے دروازوں ميں ايك دروازہ اس كے لئے كهول ديا جاتا ہے اور ساتھ ہى اسے يہ بهى بتا ديا جاتا ہے كہ تيرا ٹهكانہ يہ آگ ہے (اور دوسرے عذاب) جو اللہ نے تيرے لئے تيار كرركهے ہيں- پس (اس نظارے كے بعد) اس كى ندامت اور ہلاكت ميں اضافہ ہوتا ہے- پهر اس كے لئے جنت كے دروازوں ميں سے ايك دروازہ كهول ديا جاتا ہے اور اسے بتايا جاتا ہے كہ اگر تو (اللہ اور اس كے رسول كى) اطاعت كرتا تو يہ جنت تيرا ٹهكانہ ہوتى اور (دوسرى نعمتيں) جو اللہ نے تيرے لئے اس ميں تيار كرركهى تهيں- (اس نظارے كے بعد) اس كى ندامت اور ہلاكت ميں مزيد اضافہ ہوتا ہے- پهر اس پر اس كى قبر تنگ كردى جاتى ہے، يہاں تك كہ اسكى ايك طرف كى پسلياں دوسرى طرف كى پسليوں ميں دہنس جاتى ہيں-

سيدنا انس بن مالك سے مروى ہے كہ نبى اكرمﷺ نے فرمايا:
((العبد إذا وضع في قبره وتُوُلِّيٍَ وذهب أصحابه حتى أنه ليسمع قرع نعالهم،أتاه ملكان فأقعداه فيقولان: ما كنت تقول في هذا الرجل محمد ﷺ؟ فيقول : أشهد أنه عبد الله ورسوله،فيقال: اُنظر إلى مقعدك من النار اَبدلك الله به مقعدا من الجنة)) قال النبي ! ((فيراهما جميعا، وأما الكافر أو المنافق فيقول: لا أدري كنت أقول ما يقول الناس، فيقال: لا دريت ولا تليت، ثم يضرب بمِطرقة من حديد ضربةً بين أذنيه فيصيح صيحة يسمعها من يليه إلا الثقلين)) (صحيح بخارى: رقم ١٣٣٨)

”جب بندہ قبر ميں دفن كيا جاتا ہے اور اس كے ساتهى واپس پلٹتے ہيں تو وہ ان كے جوتوں كى آواز سنتا ہے- اس كے پاس دو فرشتے آتے ہيں، اسے بٹهاتے ہيں اور پوچهتے ہيں: ”تو اس آدمى كے بارے ميں كياكہتا تها؟“ (يعنى محمدﷺ كے بارے ميں) بندہ كہتا ہے :”ميں گواہى ديتا ہوں كہ وہ اللہ كے بندے اور اس كے رسول ہيں-“ پهراسے كہا جاتا ہے: ”ديكھ جہنم ميں تيرى جگہ يہ تهى جس كے بدلے ميں اللہ تعالىٰ نے تجهے جنت ميں جگہ عنايت فرما دى-“ چنانچہ وہ اپنے دونوں ٹهكانے ديكهتا ہے اور كافر يا منافق (منكرنكير كے جواب ميں) كہتا ہے: ”مجهے معلوم نہيں (محمدﷺكون ہيں؟) ميں وہى كچھ كہتا تها جولوگ كہتے تهے- “چنانچہ اسے كہا جاتا ہے: ”تو نے (قرآن و حديث كو)سمجها،نہ پڑها -“ پهر اس كے دونوں كانوں كے درميان لوہے كے ہتهوڑے سے مارا جاتا ہے اور وہ بُرى طرح چيخ اُٹهتا ہے- اس كى آواز جن و انس كے علاوہ آس پاس كى سارى مخلوق سنتى ہے-“

سيدنا ابوہريرہ سے مروى ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے فرمايا:
((وإن كان من أهل الشك قال: لا أدري سمعت الناس يقولون شيئا فقلته فيقال له: على الشك حييتَ وعليه متَّ وعليه تُبعث. ثم يفتح له باب إلى النار وتسلط عليه عقارب وتنانين لو نفخ أحدهم على الدنيا ما أنبتت شيئا تنهشه وتوٴمر الأرض فتنضم عليه حتى تختلف أضلاعه)) (مجمع الزوائد:٣/٥٢، الترغيب والترهيب)

”اور مردہ (اللہ اور سول كے متعلق) شك كرنے والوں ميں سے ہو تو وہ (منكر نكير كے سوالوں كے جواب ميں) كہتا ہے: ميں نہيں جانتا- ميں نے لوگوں كو كچھ كہتے سنا تها اور ميں نے بهى وہى بات كہى- اسے كہا جاتا ہے كہ شك پرتوزندہ رہا، شك پر ہى تيرى موت ہوئى اور شك پر ہى تو دوبارہ اُٹهايا جائے گا-پهر اس كى قبر كے لئے جہنم كى طرف سے ايك دروازہ كهول ديا جاتا ہے اور اس پر اس قدر زہريلے بچهو اور اژدها مسلط كرديے جاتے ہيں كہ اگر ان ميں سے كوئى ايك زمين پرپهونك مار دے تو كوئى چيز پيدا نہ ہو- چنانچہ وہ بچهو اور اژدهے اسے كاٹتے رہتے ہيں- زمين كو حكم ديا جاتا ہے كہ اس پر تنگ ہوجا، چنانچہ (زمين اس پراس قدر تنگ ہوجاتى ہے كہ) اسكى ايك طرف كى پسلياں دوسرى پسليوں ميں دہنس جاتى ہيں-“ العياذ باللہ
اب آپ باتیں کیا بنا تحقیق سنی سنائی بات پر عمل کیا جائے یا تحقیق کر کے صحیح حدیث پر عمل کیا جائے؟
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
Isi liye tu aap ki suni sunai baat pr muhaqiqana sawal kiya hai
عجیب سوال ہے
پہلے تو آپ کچھ اور بول رہے تھے اور اب کچھ اور
بھائی ہم نے یہاں کون سی بات کہی ہے؟
ہم تو تحقیق کر رہے ہیں کے یہ حدیث صحیح ہے یا نہیں
بھائی کہیں روزہ تو نہیں لگا آپ کو؟
 

sufi

رکن
شمولیت
جون 25، 2012
پیغامات
196
ری ایکشن اسکور
310
پوائنٹ
63
Bhai naveed sahib aap ne bila daleel amal k liye sanad k shart rakh di is suni sunayi baat ki haqeeqat janne kiliye aapse daleel pochi gayi. Aap ne ik lambi post main qabar se mutalaiq laga di jis mai suni sunayi baat pr azab ka zikar tha.
Is hadees se mera mutalba aur bhi pakka huwa isi liye tu daleel ka mutalba hai. Bila daleel aapki suni sunayi baat ki kia hasiat hai. Aap amal k liye sanad ki sharat kis daleel ko banyad bana kar laga rahe ho.
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
Bhai naveed sahib aap ne bila daleel amal k liye sanad k shart rakh di is suni sunayi baat ki haqeeqat janne kiliye aapse daleel pochi gayi. Aap ne ik lambi post main qabar se mutalaiq laga di jis mai suni sunayi baat pr azab ka zikar tha.
Is hadees se mera mutalba aur bhi pakka huwa isi liye tu daleel ka mutalba hai. Bila daleel aapki suni sunayi baat ki kia hasiat hai. Aap amal k liye sanad ki sharat kis daleel ko banyad bana kar laga rahe ho.
بھائی واقعی آپکو روزہ لگا ہے
(من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهوردّ) (مسلم:كتاب الاقضيہ،باب نقض الاحكام الباطلہ)
”جس نے كوئى ايسا عمل كياجس پر ہمارا حكم نہيں تو ايسا عمل رد كيا جائے گا-“

یعنی ہر عمل جو دین میں کیا جائے اسکے لئے ضروری ہے کے الله کے رسول ﷺ کا حکم ہو وگرنہ وہ عمل قابل قبول نہیں

اب اسکے بعد ہم آپکی کوئی بھی پوسٹ کا جواب نہیں دینگے
الله يهديك
 
Top