• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا

شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
آپ نے اوپر جو رِب کیج دکھایا ہے اس میں سینے کی آخری ہڈی فوق السرہ پر ہے ۔
پہلی بات یہ کہ اس ڈھانچہ میں ناف نہیں دکھائی گئی۔ دوسری بات یہ کہ ناف کا قطر تقریباً آدھ انچ تقریباً ہوتا ہے اور بازو کی چوڑائی تقریباً تین انچ سے زیادہ ہی ہوتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ کسی حدیث میں پوری ذراع کو پوری ذراع پر رکھنے کا حکم نہیں اگر کوئی ہے تو اسے یہاں بحوالہ و متن لکھیں اور میں کسی قسم کی کوئی قید بھی نہیں لگاتا کہ مرفوع غیر مجروح وغیرہ بلکہ معروف کتب احادیث سے لے آئیں۔

پکڑنے کو کس نے کہا ہے ، دائیں ذرع کو بائیں ذرع پر رکھنا ہے ۔ جیسے شیخ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے رکھ کر دکھایا ہے ۔
شیخ شبیر علی زئی کی مدافعت کے لئے بقیہ احادیث کو کیا پسِ پشت ڈال دوگے؟
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
مقلدین حنفیہ کی عورتیں نماز میں اپنا سینہ ننگا رکھتی ہیں کہ انہیں سینہ کی ستر پوشی کے لئے ہاتھوں کا سہارا لینا پڑتا ہے؟
اور جب وہ رکوع کرتی ہیں، سجدہ کرتی ہیں، تشہد کرتی ہیں تو اس وقت سینہ پر ستر نہیں ہوتا؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کا مذاق اڑانا آپ لوگوں کو ہی مبارک ہو۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,426
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
190
فرامین کا مذاق احناف نے بنایا ہوا ہے ۔
پھر پیش کی جائیں آپ کے ققہ کی معرکۃ الاراء تحریریں؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وربرکاتہ!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کا مذاق اڑانا آپ لوگوں کو ہی مبارک ہو۔
آپ نے خود کو رسول سمجھا ہوا ہے کیا؟ فقہائے احناف کو؟ یا ابو حنیفہ کو؟
 

محمد فراز

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 26، 2015
پیغامات
536
ری ایکشن اسکور
151
پوائنٹ
116
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی جرح سماک بن حرب پر حقیقت ملاحظہ ہوں
قال احمد بن حنبل: مضطرب الحدیث (الجرح والتعدیل ۲۷۹/۴)
اس قول کے ایک راوی محمد بن حمویہ بن الحسن کی توثیق نامعلوم ہے لیکن کتاب المعرفة والتاریخ یعقوب الفارسی (۶۳۸/۲) میں اس کا ایک شاہد(تائید کرنے والی روایت) بھی موجود ہے کتاب العلل ومعرفة الرجال (۱۵۴/۱،رقم۷۷۵) میں امام احمد کے قول: سماك یر فعھما عن عکرمة عن ابن عباس سے معلوم ہوتا ہے کہ مضطرب الحدیث کی جرح کا تعلق صرف سماک عن عکرمة عن ابن عباس کی سند سے ہے
ملاحظہ ہوں قال امام احمد بن حنبل سماک اصلح حدیثا من عبدالملک بن عمیر (الجرح والتعدیل ۲۷۹/۴،۲۸۰)
@nasim
 

محمد فراز

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 26، 2015
پیغامات
536
ری ایکشن اسکور
151
پوائنٹ
116
امام محمد بن عبد اللہ بن عمار الموصلی کی جرح سماک بن حرب کی حقیقت
قال محمد بن عبد اللہ بن عمار الموصلی: یقولون انه کان یغلط ویختلفون في حدیثه (تاریخ بغداد ۲۱۶/۹)
اس میں یقولون کا فاعل نامعلوم ہے
@nasim
 

محمد فراز

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 26، 2015
پیغامات
536
ری ایکشن اسکور
151
پوائنٹ
116
امام صالح بن محمد البغدادی کی جرح سماک بن حرب کی حقیقت
صالح بن محمد البغدادی: یضعیف
(تاریخ بغداد ۲۱۶/۹)
اس قول کا راوی محمد بن علی المقری ہے جس کا تعین مطلوب ہے ابومسلم عبدالرحمن بن محمد بن عبداللہ بن مہران بن سلمہ الثقہ الصالح کے شاگردوں میں خطیب بغدادی کا استاد قاضی ابو العلاء الواسطی ہے
(تاریخ بغداد ۲۹۹/۱۰) یہ ابوالعلاء محمد بن علی(القاری) ہے۔ (تاریخ بغداد ۹۵/۳) المقری اور قاری(قراعلیه القرآن بقراءت جماعة) ایک ہی شخص کے مختلف القاب ہوتے ہیں، ابوالعلاء المقری کے حالات(معرفة القراء الکبار للذہبی ۳۹۱/۱ت۳۲۸)وغیرہ میں موجود ہیں اور یہ شخص مجروح ہے دیکھے میزان الاعتدال (۶۵۴/۳ت۷۹۷۱)وغیرہ لہذا اس قول کے ثبوت میں نظر ہے

@nasim
 

محمد فراز

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 26، 2015
پیغامات
536
ری ایکشن اسکور
151
پوائنٹ
116
امام عبدالرحمن بن یوسف بن خراش کی جرح سماک بن حرب کی حقیقت
قال امام عبد الرحمٰن بن یوسف بن خراش :في حدیثہ لین (تاریخ بغداد ۶۱۶/۹)
ابن خراش کے شاگرد محمد بن محمد بن داود الکرجی کے حالات توثیق مطلوب ہیں اور ابن خراش بذات خود جمہور کے نزدیک مجروح ہے
ملاحظہ ہوں

5009 - عبد الرحمن بن يوسف بن خراش الحافظ.
قال عبدان: كان يوصل المراسيل.
وقال ابن عدي: كان يتشيع.
وقال أبو زرعة: محمد بن يوسف الحافظ كان خرج مثالب الشيخين، وكان رافضيا.
وقال [226] عبدان: قلت لابن خراش حديث: لا نورث، ما تركناه صدقة! قال: باطل /.
قلت: من تتهم به؟ قال: مالك بن أوس.
قلت: لعل هذا بدأ منه، وهو شاب، فإني رأيته ذكر مالك بن أوس بن الحدثان في تاريخ، فقال: ثقة.
قال عبدان: وحمل ابن خراش إلى بندار عندنا جزأين وصنعهما في مثالب الشيخين، فأجازه بألفى درهم.
قلت: هذا والله الشيخ المعثر الذي ضل سعيه، فإنه كان حافظ زمانه، وله الرحلة الواسعة، والاطلاع الكثير والاحاطة، وبعد هذا فما انتفع بعلمه، فلا عتب على حمير
الرافضة وحواثر جزين ومشغرا.
وقد سمع ابن خراش من الفلاس وأقرانه بالعراق، ومن عبد الله بن عمران العابدى (1) وطبقته بالمدينة، ومن الذهلي وبابته بخراسان، ومن أبي التقى اليزنى بالشام، ومن يونس بن عبد الاعلى وأقرانه بمصر.
وعنه ابن عقدة، وأبو سهل القطان.
وقال بكر (2) بن حمدان المروزي: سمعت ابن خراش يقول: شربت بولي في هذا الشأن خمس مرات. وقال ابن عدي: سمعت أبا نعيم عبد الملك بن محمد يقول: ما رأيت أحفظ من ابن خراش، لا يذكر له شئ من الشيوخ والابواب إلا مر فيه.
مات سنة ثمان وثلاثين ومائتين.


ميزان الاعتدال (2/ 600)
کیا اب بھی ابن خراش ثقہ ہے؟

@nasim
 

محمد فراز

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 26، 2015
پیغامات
536
ری ایکشن اسکور
151
پوائنٹ
116
امام شعبہ کی جرح سماک بن حرب کی حقیقت
امام شعبہ بن الحجاج: یضعفہ.
(تاریخ بغداد: ج7 ص272 رقم الترجمۃ 4791)
امام شعبہ: روی عنه (صحیح مسلم:۲۲۴)
امام شعبہ کے بارے میں ایک قاعدہ ہے کہ وہ(عام طور پر اپنے نزدیک)صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں۔ دیکھے تہذیب التہذیب (ج۱ ص۵،۴)وقواعد فی علوم الحدیث للتھانوی الدیوبندی(ص۲۱۷)

@nasim
 

محمد فراز

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 26، 2015
پیغامات
536
ری ایکشن اسکور
151
پوائنٹ
116
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی جرح سماک بن حرب کی حقیقت
امام سفیان الثوری: یضعفہ بعض الضعف
(تاریخ الثقات: رقم 621، تاریخ بغداد: ج9 ص216)
امام سفیان رحمہ اللہ کی یہ جرح ثابت نہیں امام العجلی(مولود ۱۸۲ھ متوفی۲۶۱ھ)نے کہا:
جائز الحديث، إلا أنه كان في حديث عكرمة ربما وصل الشيء عن ابن عباس، وربما قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم، وإنما كان عكرمة يحدث عن ابن عباس وكان سفيان الثوري يضعفه بعض الضعف
تاریخ بغداد جلد ۹ پیج ۲۱۵
سفیان الثوری ۱۶۱ھ میں فوت ہوئے تھے لہذا یہ سند بھی منقطع ہے اس کے برعکس شعبہ اور سفیان دونوں سے ثابت ہے کہ وہ سماک بن حرب سے روایتیں بیان کرتے تھے لہذا اگر یہ جرح ثابت بھی ہو تو العجلی کے قول کی روشنی میں اسے’سماك عن عکرمة عن ابن عباس‘کی سند پر محمول کیا جائے گا۔ابن عدی نے احمد بن الحسین الصوفی(؟)ثنا محمد بن خلف بن عبدالحمید کی سند کے ساتھ سفیان سے نقل کیا کہ سماک ضعیف ہے(الکامل ۳/۱۲۹۹) محمد بن خلف مذکور کے حالات نامعلوم ہیں لہذا یہ قول ثابت نہیں ہے۔
@nasim
 
Top