• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز کی ابتدا فارسی میں فقہ حنفی شریف

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
موجودہ احناف امام صاحب کا اس قول سے رجوع بتاتے ہیں ،لیکن یہ رجوع مشکل لگتا ہے ،بلکہ ناممکن ،،کیونکہ امام صاحب کے فارسی میں نماز اور قرآن پڑھنے کے جواز کا جو پس منظر صاحب ھدایہ نے بیان کیا ہے ،،وہ اس قول سے بھی بڑا اور خطرناک قول ہے ،اس پر کسی توجہ ہی نہیں دی ، صاحب ھدایہ لکھتے ہیں :
وأماالكلام في القراءة فوجه قولهما إن القرآن اسم لمنظوم عربي كما نطق به النص إلا أن عند العجز يكتفى بالمعنى كالإيماء بخلاف التسمية لأن الذكر يحصل بكل لسان.
ولأبي حنيفة رحمه الله تعالى قوله تعالى: {وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ} [الشعراء:196] ولم يكن فيها بهذه اللغة ولهذا يجوز عند العجز إلا أنه يصير مسيئا لمخالفته السنة المتوارثة ويجوز بأي لسان كان سوى الفارسية هو الصحيح لما تلونا.والمعنى: لا يختلف باختلاف اللغات والخلاف في الاعتداد ولا خلاف في أنه لا فساد،،۔

ترجمہ : دونوں شاگردوں کا قول کہ نماز اور قرآن بزبان فارسی پڑھنا جائز نہیں کی دلیل یہ ہے ،کہ۔ قرآن نام ہے اس خاص عربی نظم کا جس پر قرآنی نص دلالت کررہی ہے وَهُوَ قَوْله تَعَالَى {إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا} [يوسف: 2]
جبکہ ابوحنیفہ ؒ نے فارسی والے قول کی دلیل یہ بتائی ہے کہ قرآن میں ہے وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ}یہ قرآن پہلے صحیفوں میں بھی تھا "
اور ظاھر ہے اس عربی زبان میں نہیں تھا ،( بلکہ موجودہ عربی الفاظ کا معنی ہی تھا ،لھذا عجز کی صورت میں فارسی میں جائز ہونا چاہئیے،
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
یہاں عمومی بات نہیں ہورہی بلکہ فقہ حنفی کے حوالے سے ہورہی ہے ۔ ہدایہ فقہ حنفی کی معتبر ترین کتاب ہے ۔ اگر فقہ حنفی والے مانتے ہیں کہ امام صاحب نے رجوع کرلیا تھا تو پھر ہمیں اس پر اعتراض کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟
ہم بھی عمومی بات نہیں کررہے بلکہ یہ بتارہے ہیں کہ جس راوی نے یہ بیان دیا ہے کہ ابوحنیفہ نے فارسی میں نماز سے رجوع کرلیا تھا وہ راوی خود دیوبندیوں و حنفیوں کے نزدیک کذاب، متروک اور ضعیف ہے۔ اس صورت میں یہ رجوع حنفیوں کے نزدیک کیسے قابل قبول ہوسکتا ہے؟؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
موجودہ احناف امام صاحب کا اس قول سے رجوع بتاتے ہیں ،لیکن یہ رجوع مشکل لگتا ہے ،بلکہ ناممکن ،،کیونکہ امام صاحب کے فارسی میں نماز اور قرآن پڑھنے کے جواز کا جو پس منظر صاحب ھدایہ نے بیان کیا ہے ،،وہ اس قول سے بھی بڑا اور خطرناک قول ہے ،اس پر کسی توجہ ہی نہیں دی ، صاحب ھدایہ لکھتے ہیں :

وأماالكلام في القراءة فوجه قولهما إن القرآن اسم لمنظوم عربي كما نطق به النص إلا أن عند العجز يكتفى بالمعنى كالإيماء بخلاف التسمية لأن الذكر يحصل بكل لسان.


ولأبي حنيفة رحمه الله تعالى قوله تعالى: {وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ} [الشعراء:196] ولم يكن فيها بهذه اللغة ولهذا يجوز عند العجز إلا أنه يصير مسيئا لمخالفته السنة المتوارثة ويجوز بأي لسان كان سوى الفارسية هو الصحيح لما تلونا.والمعنى: لا يختلف باختلاف اللغات والخلاف في الاعتداد ولا خلاف في أنه لا فساد،،۔
ترجمہ : دونوں شاگردوں کا قول کہ نماز اور قرآن بزبان فارسی پڑھنا جائز نہیں کی دلیل یہ ہے ،کہ۔ قرآن نام ہے اس خاص عربی نظم کا جس پر قرآنی نص دلالت کررہی ہے وَهُوَ قَوْله تَعَالَى {إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا} [يوسف: 2] کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ہم اس قرآن کو عربی میں نازل فرمایا ہے "
جبکہ ابوحنیفہ ؒ نے فارسی والے قول کی دلیل یہ بتائی ہے کہ قرآن میں ہے
{وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ} یعنییہ قرآن پہلے صحیفوں میں بھی تھا "
اور ظاھر ہے اس عربی زبان میں نہیں تھا ،( بلکہ موجودہ عربی الفاظ کا معنی ہی تھا ،لھذا عجز کی صورت میں فارسی میں جائز ہونا چاہئیے،
 
Last edited:

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
موجودہ احناف امام صاحب کا اس قول سے رجوع بتاتے ہیں ،لیکن یہ رجوع مشکل لگتا ہے ،بلکہ ناممکن ،،کیونکہ امام صاحب کے فارسی میں نماز اور قرآن پڑھنے کے جواز کا جو پس منظر صاحب ھدایہ نے بیان کیا ہے ،،وہ اس قول سے بھی بڑا اور خطرناک قول ہے ،اس پر کسی توجہ ہی نہیں دی ، صاحب ھدایہ لکھتے ہیں :

وأماالكلام في القراءة فوجه قولهما إن القرآن اسم لمنظوم عربي كما نطق به النص إلا أن عند العجز يكتفى بالمعنى كالإيماء بخلاف التسمية لأن الذكر يحصل بكل لسان.


ولأبي حنيفة رحمه الله تعالى قوله تعالى: {وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ} [الشعراء:196] ولم يكن فيها بهذه اللغة ولهذا يجوز عند العجز إلا أنه يصير مسيئا لمخالفته السنة المتوارثة ويجوز بأي لسان كان سوى الفارسية هو الصحيح لما تلونا.والمعنى: لا يختلف باختلاف اللغات والخلاف في الاعتداد ولا خلاف في أنه لا فساد،،۔
ترجمہ : دونوں شاگردوں کا قول کہ نماز اور قرآن بزبان فارسی پڑھنا جائز نہیں کی دلیل یہ ہے ،کہ۔ قرآن نام ہے اس خاص عربی نظم کا جس پر قرآنی نص دلالت کررہی ہے وَهُوَ قَوْله تَعَالَى {إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا} [يوسف: 2]
جبکہ ابوحنیفہ ؒ نے فارسی والے قول کی دلیل یہ بتائی ہے کہ قرآن میں ہے وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ}یہ قرآن پہلے صحیفوں میں بھی تھا "
اور ظاھر ہے اس عربی زبان میں نہیں تھا ،( بلکہ موجودہ عربی الفاظ کا معنی ہی تھا ،لھذا عجز کی صورت میں فارسی میں جائز ہونا چاہئیے،

@محمد باقر بھائی - @اشماریہ بھائی کیا کہیں گے یہاں -
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
موجودہ احناف امام صاحب کا اس قول سے رجوع بتاتے ہیں ،لیکن یہ رجوع مشکل لگتا ہے ،بلکہ ناممکن ،،کیونکہ امام صاحب کے فارسی میں نماز اور قرآن پڑھنے کے جواز کا جو پس منظر صاحب ھدایہ نے بیان کیا ہے ،،وہ اس قول سے بھی بڑا اور خطرناک قول ہے ،اس پر کسی توجہ ہی نہیں دی ، صاحب ھدایہ لکھتے ہیں :

وأماالكلام في القراءة فوجه قولهما إن القرآن اسم لمنظوم عربي كما نطق به النص إلا أن عند العجز يكتفى بالمعنى كالإيماء بخلاف التسمية لأن الذكر يحصل بكل لسان.


ولأبي حنيفة رحمه الله تعالى قوله تعالى: {وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ} [الشعراء:196] ولم يكن فيها بهذه اللغة ولهذا يجوز عند العجز إلا أنه يصير مسيئا لمخالفته السنة المتوارثة ويجوز بأي لسان كان سوى الفارسية هو الصحيح لما تلونا.والمعنى: لا يختلف باختلاف اللغات والخلاف في الاعتداد ولا خلاف في أنه لا فساد،،۔
ترجمہ : دونوں شاگردوں کا قول کہ نماز اور قرآن بزبان فارسی پڑھنا جائز نہیں کی دلیل یہ ہے ،کہ۔ قرآن نام ہے اس خاص عربی نظم کا جس پر قرآنی نص دلالت کررہی ہے وَهُوَ قَوْله تَعَالَى {إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا} [يوسف: 2]
جبکہ ابوحنیفہ ؒ نے فارسی والے قول کی دلیل یہ بتائی ہے کہ قرآن میں ہے وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ}یہ قرآن پہلے صحیفوں میں بھی تھا "
اور ظاھر ہے اس عربی زبان میں نہیں تھا ،( بلکہ موجودہ عربی الفاظ کا معنی ہی تھا ،لھذا عجز کی صورت میں فارسی میں جائز ہونا چاہئیے،

 
Top