اپنے مضمون کی اس طرح انڈیا سے چھپنے کی جتنی خوشی ہے اس سے کہیں زیادہ دکھ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے بارے میں تبصرہ نگار کے ناروا اور غیر مناسب طرزَ تحریر پر ہے۔
شیخ رفیق احمد رئیس سلفی نے شرح حدیث جبرائیل پر تبصرہ کرتے لکھا:
کہیں کہیں ان کے اضافے متن کتاب میں بھی ہیں۔یہ کوئی اچھی روایت نہیں ہے۔مصنف کی عبارتوں کے درمیان دخل اندازی تحقیق و تصنیف کے تسلیم شدہ اصولوں کے خلاف ہے۔
یہ بات بالکل خلافِ واقعہ ہے۔ شیخ محترم حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے کہیں بھی اپنی طرف سے متن میں اضافے نہیں کئے اور اگر اس سے مراد بریکٹوں اور حاشیہ میں وضاحت وغیرہ ہے تو اس پر یہ تبصرہ سوائے تنقید برائے تنقید کے کچھ نہیں۔ کیونکہ بریکٹ میں یا حاشیہ میں اضافہ و وضاحت قطعا تحقیقی اصولوں کے خلاف نہیں۔ شاید ہمارے یہ تبصرہ نگار آج تک قرآن و حدیث کی شرح و تفسیر کے تمام کام کو بھی تحقیقی اصولوں کے خلاف قرار دے دیں کہ وہ بھی ان کی نظر میں متن میں اضافہ قرار پائے، سبحان اللہ۔
ایک اور جگہ تبصرہ نگار نے لکھا:
ایک حاشیہ میں انھوں نے لکھا ہے کہ عزرائیل کا نام کسی حدیث یا صحیح آثار سلف میں منقول نہیں ہے۔یہ بات علامہ البانی نے ”احکام الجنائز وبدعھا“میں تحریر کی ہے۔مترجم کو چاہیے تھا کہ ان کا حوالہ دیتے کیوں کہ علامہ البانی سے پہلے کسی مصنف نے اتنی صراحت کے ساتھ شاید یہ بات نہیں لکھی ہے۔
کسی بات کے بارے میں کوئی نئی چیز بطور حوالہ پیش کرنا تو درست ہے لیکن ایک چیز اگر علامہ البانی رحمہ اللہ کو بھی نہیں ملی اور شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کو بھی نہیں ملی تو یہ ان دونوں محققین کی اپنی رائے ہے اور اپنی اپنی تلاش پر مبنی ہے۔ چنانچہ کیا تبصرہ نگار الہام کے بھی دعویدار ہیں کہ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے یہ بات علامہ البانی سے دیکھ کر لکھی ہے جبکہ نہ ملنا کوئی حوالہ نہیں ہوتا، ہاں مل جانا حوالہ ہوتا ہے۔ صرف ایک یہی بات یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ تبصرہ نگار نے ایک پہلے سے بنے ذہن کے مطابق محض تنقید برائے تنقید کی ہے۔
شیخ کی ایک اور کتاب "اہل حدیث اور جنت کا راستہ" پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
کتاب کانام کچھ عجیب سا ہے۔زیر بحث مسائل جنت میں لے جائیں گے یااہل حدیث ہونے کے بعد جنت ملے گی۔دونوں میں سے کوئی بات مصنف محترم نے واضح نہیں کی ہے۔
یہ بھی تبصرہ نگار کی اپنی لاعلمی کا شاخسانہ ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ جو بھی کتب انڈیا سے شائع ہوئی ہیں شیخ محترم کی اجازت کے بغیر شائع ہوئی ہیں اور ناشرین نے ان کے ناموں میں بھی من چاہی تبدیلیاں کی ہیں اور متن کا بھی اللہ ہی حافظ ہے۔ یہی رسالہ شیخ محترم کے مقالات کی پہلی جلد میں موجود ہے اور وہاں اس کا نام صرف "جنت کا راستہ" ہے۔ دیکھئے مقالات(ج١ص ٢٧) تبصرہ نگار نے پورا تبصرہ ان ناشرین کے گن گاتے ہوئے کالا کر دیا ہے اور شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے کھاتے میں جانے کس کس بات کا بتنگڑ بنا کر تنقید کا شوق پورا کیا ہے۔
اس پر مزید لکھا:
فقہ کے چنداختلافی مسائل کواہل حدیث کے امتیازی مسائل قرار دینا میری ناقص سمجھ میں بڑی غلط تعبیر ہے اور تعبیر کی اس غلطی نے بعض بڑی غلط فہمیوں کو جنم دیا ہے۔کتاب وسنت کی جملہ تعلیمات کوزیرعمل لانا اور اس کی عملی صورت کی تعیین میں منہج سلف کو پیش نظر رکھنا جماعت اہل حدیث کا مابہ الامتیاز ہے۔
پتا نہین شاید تبصرہ نگار نے رسالے کو آنکھیں بند کر کے پڑھا ہے یا نام کی طرح متن میں بھی ناشرین نے کوئی فنکاری دکھائی ہے کیونکہ اصلی رسالے میں تو صرف چند فقہی مسائل ہی نہیں بلکہ عقیدہ و منہج کو سرِ فہرست بیان کیا گیا ہے اور یقینا جنت کا راستہ تو عقیدہ ومنہج ہی ہے ورنہ اعمال میں کون ایسا ہے جو اپنے اعمال کی بنا پر جنت میں جائے۔
فتاویٰ علمیہ پر تبصرہ کرتے لکھا:
میں نے ابھی کتاب کو یہاں وہاں سے سرسری دیکھا ہے۔اس لیے محتویات پر تبصرہ ان شاء اللہ بعد میں کروں گا۔ناشرین نے کتاب کے آغاز میں یہ لکھ کر اپنی پوزیشن صاف کرلی ہے کہ کتاب وسنت اور منہج سلف کے خلاف علی زئی صاحب کے جو تفردات ہیں،ادارے کوان سے اتفاق نہیں ہے۔اس نوٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اندرون میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
ناشرین کا یہ لکھنا اتنی بڑی بات نہیں تھی کیونکہ بطور منہج یہ تو اہل حدیث کا امتیازی شعار ہے کہ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ ہی نہیں بلکہ کسی بھی عالم کی کوئی بات اگر کتاب و سنت یا منہج سلف صالھین کے خلاف ہے تو وہ قابل قبول نہیں۔ مگر اس بات پر یہ تبصرہ میری سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ بطور منہج یہ بات تقریبا تمام اہل حدیث علماء کے فتاویٰ میں موجود ہے۔ دیکھئے فتاویٰ ثنائیہ و فتاویٰ علمائے اہل حدیث کے مقدمے۔ تبصرہ نگار کو بھی شوق ہے تو مردِ میدان بنیں شیخ محترم کے وہ مسائل جو کتاب و سنت کے دلائل اور سلف صالحین کے منہج کے خلاف ہوں با دلائل پیش کریں۔ شیخ محترم ان لوگوں میں سے نہیں جو اپنی کہی ہر بات پر ڈٹ جائیں بلکہ اللہ نے انہین غلطی سے رجوع کرنے کی صفت سے نوازا ہے۔ آپ کے دلائل پر بھی ضرور گور فرمائین گے لیکن خالی کارتوس چلانے کا کیا فائدہ۔۔۔؟
محترم تبصرہ نگار نے یہ بھی لکھا:
پاکستان کے مشہور بزرگ مصنف مولانامحمداسحاق بھٹی صاحب نے ان کا تذکرہ اپنی کتاب ”گلستان حدیث“میں کیا ہے اور یہ شکایت کی ہے کہ وہ مخالف مسلک کے علمائے کرام کانام سابقے اور لاحقے کے بغیر لیتے ہیں۔اس رویے کو محترم بھٹی صاحب نے جماعت اہل حدیث کے معتبر علما کے معروف رویے کے خلاف بتایا ہے اور ان سے درخواست کی ہے کہ اس سلسلے میں اپنے طرز تخاطب پر نظر ثانی کریں اور دوسرے مسالک کے علمائے کرام کے نام اس انداز میں ذکرکریں جوان کے اپنے حلقے میں مروج ہے۔
مجھے اس وقت ضرورت نہیں کہ میں محترم اسحاق بھٹی صاحب کی ذات کو اپنے تبصرے کے لئے وقف کروں۔ شخصیات کے بارے میں سنی سنائی باتیں لکھنا اور علمی کام کرنا ظاہر ہے دو الگ باتیں ہیں۔ رہی بات یہ کہ شیخ محترم مخالف مسلک کے علماء کا نام سابقے لاحقے کے بغیر لیتے ہیں تو عرض ہے کہ کیا یہ قرآنی حکم ہے یا حدیث یا سلف صالحین کا مستقل التزامی عمل۔۔۔؟ پہلے ثابت تو کریں کہ یہ ہے کیا؟ سلف صالحین کی کتب میں تو مخالف چھوڑ اپنے علماء کے ناموں کے ساتھ بھی سابقون لاحقوں کا التزام نہیں ملتا۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ سابقے لاحقے لگانا جرم ہے لیکن صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ نہ لگانا بھی کوئی جرم نہیں۔ پھر اپنے ان مہربانوں سے یہ بھی گزارش ہے کہ نہ جاننے والا جاننے والے پر حجت نہیں۔ سلف صالحین نے کبھی بھی اہل بدعت کے لئے تعظیمی سابقے لاحقے نہیں لگائے اور شیخ محترم جن مخالف مسالک کے علماء کو اہل بدعت شمار کرتے ہیں ان کے ساتھ سابقے لاحقے نہیں لگاتے اور اگر یہ بات سلف صالحین کے مسلک کے خلاف ہے تو یہ مسئلہ ثابت کریں۔ کسی شخصیت پر تو یہ بحث ممکن ہے کہ وہ اہل بدعت میں سے ہے کہ نہیں اور اس کا حق ہم آپ سے نہین چھینتے کہ آپ فلاں یا فلاں کو اہل بدعت کی بجائے دلائل کے ساتھ اہل سنت مانیں لیکن اس اصول کو تو تسلیم کریں کہ جو اہل بدعت ثابت ہو اس کے ساتھ تعظیمی سابقے لاحقے منہج سلف صالحین کے خلاف ہیں۔ اس میں شیخ محترم کا مئوقف سخت نہین بلکہ کچھ اہل حدیث علماء تساہل کا شکار ہیں۔ والسلام