• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نومولود کا استقبال

شمولیت
جنوری 22، 2012
پیغامات
1,129
ری ایکشن اسکور
1,053
پوائنٹ
234

بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیثِ شریف: عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ ’’ كُلُّ غُلاَمٍ ‏رَهِينَةٌ بِعَقِيقَتِهِ تُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ سَابِعِهِ وَيُحْلَقُ وَيُسَمَّى‘‘ {سنن ابوداود:2838 الاضاحی ۔ سنن الترمذی : ‏‏1522 الاضاحی ۔ سنن النسائی : 4225 العقیقہ}‏
ترجمہ : حضرت سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد ‏فرمایا :" ہر بچہ اپنے عقیقہ کے بدلے گروی ہوتا ہے ،{لہذا}پیدائش کے ساتویں دن اسکی طرف سے{عقیقے کا جانور ‏‏}ذبح کیا جائے ، اسکا سر منڈ وایا جائے اور اسکا نام رکھا جائے " ۔ {سنن ابوداود ، سنن الترمذی ، سنن النسائی }‏
تشریح : بچہ اللہ تعالٰی کی نعمت اور نسلِ انسانی کے چلتے رہنے کاذریعہ ہے ، بچہ ہر میاں ، بیوی کی خواہش اور انکے دل کی دھڑ کن ‏ہے ، بچہ گھر کی زینت ، اہل ِخانہ کے آنکھوں کا نور اور انکے دل کا سرور ہے ، یہی وجہ ہے کہ شادی کے بعد میاں بیوی کی سب سے بڑی ‏خواہش اولاد کی ہوتی ہے، اولاد اللہ تعالٰی کا عطیہ ہے ، اس الٰہی نعمت کی قدر وہی شخص جانتا ہے جسے اللہ تعالٰی نے اس نعمت سے محروم ‏رکھا ہو
بچے کی شکل میں گھر میں جو نیا مہمان آرہا ہے اسلام نے اسکے استقبال کیلئے کچھ آداب رکھے ہیں جن کا لحاظ رکھنے میں متعدد شرعی ‏ودنیوی فوائد ہیں ، بدقسمتی سے آج مسلمانوں نے ان شرعی آداب کو تو بالائے طاق رکھ دیا ہے ،جبکہ انکے عوض بہت سے غیر شرعی ‏آداب غیر قوموں کی تقلید میں ایجاد کر رکھے ہیں ، زیر بحث حدیث میں نوزائید بچے کے استقبال کے تین آداب مذکور ہیں ۔
‏1) عقیقہ کرنا : عقیقہ اس جانور کو کہا جاتا ہے جو بچے کی پیدائش کے ساتویں دن بطور شکرِالہٰی کے ذبح کیا جاتا ہے ، اس ‏بارے میں اہل علم کی زیادہ صحیح رائے یہی ہے کہ عقیقہ سُنّتِ موکدہ ہے ، جس کے ترک سے گناہ تو نہیں لا زم آتا البتہ نبی کریم صلی ‏اللہ علیہ وسلم کی ایک ایسی تاکیدی سنت چھوٹ جاتی ہے جسکے ذریعہ بچے کی پیدائش پراللہ تعالٰی کا شکر اداکیا جا تا ہے ، حضرت ابرہیم ‏علیہ السلام کی سنّت زندہ کی جاتی ہے اور یہ جانور بچے کا فدیہ بنتا ہے ،چناچہ اس حدیث میں یہ کہا گیا کہ" ہر بچہ اپنے عقیقے کے عوض ‏گروی ہوتا ہے " یعنی اگر اسکا عقیقہ نہ کیا جا ئے اور وہ بچپن ہی میں فوت ہوجائے تو اسکے والدین اسکی شفاعت کے حقدار نہ ہونگے ، ‏اور اللہ تعالٰی کی اس عظیم نعمت کا شکریہ ادانہ ہو گا ۔‏
واضح رہے کہ شریعت نے عقیقہ کے لئے ساتواں دن متعین کیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس تاریخ کا التزام کیا جائے اور ‏بغیر کسی شرعی عذر کے محض اس بہانے سے کہ ابھی اہلیہ ہسپتال میں ہیں ،یا بچے کی صحت برابر نہیں ہے ، یا ابھی میری تنخواہ نہیں ‏ملی ہے ، یا ہم اپنے اہل خانہ اور اہل خاندان سے دور ہیں وغیرہ وغیرہ عقیقہ کا موخر کرنا قطعا مناسب نہیں ہے۔ جبکہ یہ امرمشاہدے ‏میں ہے اس قسم کا عذر پیش کرنے والے حضرات ایسے موقع پر ٹیلیفون ، مٹھائیوں کی تقسیم اور دیگر غیر ضروری مصروفات میں عقیقے ‏کے جانور کے قریب یا اس سے زیادہ خرچ کردیتے ہیں ۔ بعض ضعیف روایات اور بعض صحابہ کے فتوے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ‏کسی شرعی عذر کی بناپر ساتویں دن عقیقہ نہ کیا جاسکا تو چودھویں یا اکیسویں دن کردیا جائے {مستدرک الحاکم } یہ بات بھی دھیان میں ‏رہے کہ لڑکے کی طرف سے دوجانور اور لڑ کی کی طرف سے ایک جانور عقیقے میں ذبح کئے جائیں گے ۔{سنن ابوداود:2836 ، ‏سنن الترمذی : 1516}‏
‏{2} سر کے بال اتارنا: سر کاوہ بال جو بچہ لیکر پیدا ہوا ہے حدیث میں اسے "اذی" { گندگی یا تکلیف}کہا گیا ہے ‏‏{صحیح البخاری }لہذا ساتویں دن جب کہ اسکے چمڑے میں قدرے پختگی آگئ اور اسکے بال اتارنا ممکن ہو گیا تو اب اسکے سر سے اس ‏گندگی کو دور کردیا جائے جسکا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ اب دوبارہ اسکے بال اور خوبصورت شکل میں اگیں گے اور بالوں کی چڑیں ‏مضبوط ہونگی ۔واضح رہے کہ اتارے ہوئے بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرنا مسنون ہے ۔{سنن الترمذی }‏
‏{3} نام رکھا نا اوراچھے نام رکھنا: اس نئے مہمان کے استقبال کا تیسرا ادب اس حدیث میں یہ بیان ہو اہے کہ ‏اگر اس سے قبل اسکا نام نہیں رکھا گیا تو اسکا نام رکھا جائے ، یعنی ساتویں دن تک اسکا نام رکھ جانا چاہئے ،اس سے موخر نہ کیا جا ئے ‏، البتہ نام رکھنے میں اس بات کا لحاظ رکھنا چاہئے کہ وہ نام ظاہری ومعنوی لحاظ سے شرعی تقاضوں کے مطابق ہو یعنی وہی نام رکھے ‏جائیں جو مسلمانوں میں معروف ہوں ، ان میں کافروں اور فاسقوں کی مشابہت نہ ہو اللہ کے نیک بندوں ‏اور صالحین کے نام کے موافق ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا : "اللہ تعالٰی کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ ‏نام عبد اللہ وعبد الرحمن ہیں "۔{صحیح مسلم }‏
اسی طرح نام رکھنے میں معنٰی کا لحاظ بھی بہت ضروری ہے ،ہر ایسا نام جس سے شرک لا زم آتا ہو ، یا اس میں غیر قوم کی مشابہت ‏ہو جائز نہیں ہے جیسے عبد الحسین ، پیر بخش ، امیر بخش ،عبد النبی یاکافروں کے ساتھ مخصوص نام ۔ اسی طرح جن ناموں سے خود ‏ستائی کا پہلو نکلتا ہو یا انکے معنی میں مذمت کا پہلو ہو وغیرہ نام رکھنے مناسب نہیں ہیں ، چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ‏ایسے بہت سے ناموں کو بدل دیا تھا ۔{سنن ابو داود }‏
‏{4} نوزائید ہ بچے کے کان میں اذان و اِقامت: نو مولود بچے کے استقبال کا ایک ادب حدیثوں میں یہ ‏بھی بیان ہوا ہے کہ پیدائش کے فورا ً بعد اسکے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جا ئے ، اس سلسلے میں ‏مروی حدیث کی صحت علماء کے نزدیک مختلف فیہ ہے، البتہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ وغیرہ سے اس پر عمل ثابت ہے اور ‏جمہور علماء کی رائے بھی یہی ہے ، لہذا اس پر عمل کرنے پر کوئی حرج نہیں ہے ۔
‏{5} تحنیک {گھٹی دینا}: کھجور یا کوئی میٹھی چیز چباکر بچے کے منھ میں دینے کا نام تحنیک ہے، علماء نے ‏اسے مُستحب لکھا ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تحنیک کرتے تھے {صحیح مسلم و ابوداود} البتہ بہتر یہ ہے کہ ‏کوئی نیک اور صالح آدمی ہی یہ عمل کرے ۔
فوائد :‏
‏1۔ اولاد اللہ تعالٰی کی نعمت ہے جس کے شکریہ کا اظہاریہ ہے کہ اسکا عقیقہ کیا جائے ۔
‏2 ۔ عقیقہ سنت موکدہ ہے ۔
‏3 ۔ عقیقہ ساتویں دن ہی مشروع ہے ۔
‏4 ۔ جس شخص کا عقیقہ نہ ہوا ہو اسے اپنا عقیقہ بعد میں خود کرنا چاہئے ۔
فضیلۃ الشیخ/ ابو کلیم مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ
الغاط، سعودی عرب
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
نو مولود بچے کے استقبال کا ایک ادب حدیثوں میں یہ ‏بھی بیان ہوا ہے کہ پیدائش کے فورا ً بعد اسکے دائیں کان میں اذان

سوال(5): نومولود کے کان میں اذان دینے کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟

جواب : نومولود کے کان میں پیدائش کے وقت اذان دینا مشروع ہے ۔ ترمذی میں ہے۔
عن عبيد الله بن أبي رافع عن أبيه قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أذن في أذن الحسن بن علي حين ولدته فاطمة بالصلاة(سنن الترمذي: 1514)
ترجمہ:ابو رافع رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نےحضرت حسن جنم دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کان میں نماز کی طرح اذان دی ۔
اس حدیث کو ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے اور پھر آگے لکھتے ہیں "العمل علیہ" یعنی اس حدیث پر مسلمانوں کا عمل ہے ۔ ایک طرح سے امام ترمذی اپنے اس قول کے ذریعہ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ اس پہ اہل علم کا اجماع ہے یا تمام مسلمانوں کا اس پر عمل واتفاق ہے ۔ اس قول کے تناظر میں شیخ زیبر علی زئی رحمہ اللہ نے بھی لکھاہے کہ اذان پر مسلمانوں کا اجماع معلوم ہوتا ہے۔شارح الترمذی علامہ مبارک پوری رحمہ اللہ نے کہا کہ امام ترمذی کاقول" العمل علیہ" کا مطلب ہے کہ پیدائش کے بعد نومولود کے کان میں اذان دینے کے سلسلے میں ابورافع کی حدیث پر مسلمانوں کا عمل ہے ۔مزید آگے لکھتے ہیں کہ اگر آپ کہیں گے کہ کیسے اس پر مسلمانوں کا عمل ہے جبکہ یہ ضعیف ہے اس کی سند میں عاصم بن عبیداللہ ہے جیساکہ آپ نے جانا تو میں کہوں گا کہ ہاں وہ ضعیف ہے لیکن اسے حسین بن علی رضی اللہ عنہماکی حدیث سے تقویت ملتی ہے جسے ابویعلی موصلی اور ابن السنی نے روایت کیا ہے ۔ خلاصہ یہ کہ مبارک پوری صاحب کا بھی رجحان نولود کے کان میں اذان دینے کی طرف ہے ۔ معلوم ہوا کہ بچے کی پیدائش پر اس کے دائیں کان میں اذان دینا چاہئے لیکن اگر کوئی نہیں دیتا ہے تو کوئی حرج بھی نہیں ہے یہی بات شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے کہ نولود کے کان میں اذان دینا تمام اہل علم کے نزدیک مشروع ہے اگر کوئی اس پر عمل کرتا ہے جیساکہ اس سے متعلق احادیث وارد ہیں اور ایک دوسرے کو تقویت پہچاتی ہیں تو اچھی بات ہے اور اگر کوئی چھوڑ دیتا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

مقبول احمد سلفی کے بلاگ سے

بائیں کان میں اقامت کہی جا ئے
اس کے جواز کی صحیح دلیل نہیں ملتی لہذا دائیں کان میں اذان پر اکتفا کیا جائے اور بائیں کان میں اقامت نہ کہی جائے ۔
 
Top