محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
ملٹی نیشنل کمپنیاں کس طرح ممالک اسلامیہ کو کس طرح دھوکہ کے جال میں پھنسا رہی ہیں اس کا اندازہ اس مختصر مضمون سے ہو سکتا ہے جو ایک ساتھی نے مجھے میل کیا ہے کہ لوگوں کو بتائیں کہ یہ ایک دھوکہ ہے جو اسلام میں جائز نہیں ہے
اقتصادی اور اسلامی نقطئہ نظر
آج کے ترقی یافتہ دور میں ایجادات و اختراعات کی کمی نہیں، مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نت نئی تبدیلیاں ہورہی ہیں، تجارت و معیشت کے فروغ کی بے شمار صورتیں وجود میں آگئی ہیں، جب کوئی نئی شکل سامنے آتی ہے تو اسے اختیار کرنے، یا نہ کرنے کے لیے ہر مسلمان جواز اور عدمِ جواز سے متعلق معلومات چاہتاہے؛ کیوں کہ ان کی تعیین کے بغیر عملی زندگی میں ایک قدم چلنا بھی مشکل ہے، اہلِ فقہ وفتاویٰ کے لیے ان احکام کابتانا تو مشکل نہیں ہوتا، جو قرآن، حدیث اور فقہ میں صراحت کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں، لیکن تغیر زمانہ کی وجہ سے جو نئی صورتیں پیدا ہوتی ہیں، ان کا شرعی حکم بتانا، ذرا مشکل ہوتا ہے؛ اس لیے کہ حلت و حرمت کی تعیین کے لیے پہلے علت معلوم کرنی ہوتی ہے، یا نظائرِ فقہیہ کو دیکھ کر علتِ مشترکہ کی بنیاد پر حکم لگایا جاتاہے، یہ بہت ہی نازک مرحلہ ہے؛ اس لیے کہ جس طرح کسی حرام کوحلال کہنا جائز نہیں، اسی طرح کسی حلال کو حرام کہنا بھی درست نہیں ہے، اس موڑ پر مسئلہ بتانے والا واقعتا اپنے کو جنت اورجہنم کے درمیان محسوس کرنے لگتا ہے۔
معیشت کے انھیں جدید طریقوں میں نیٹ ورکنگ (Net working) طریقہ آج کل بہت عام ہورہاہے، پہلے تو کمپنیاں کم تھیں، لیکن آج کل مختلف کمپنیاں اپنے کاروبار کو اس انداز پر پھیلارہی ہیں، دارالافتاء میں اس طرح کے سوالات کثرت سے آرہے ہیں کہ ان کمپنیوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ آیا ان میں شرکت جائز ہے یا ناجائز؟ زیرِ قلم مقالہ میں اسی سے متعلق تفصیلی بحث پیش کی جارہی ہے، اس کی شرعی عقلی اور معیشتی حیثیت پر بحث کرنے سے پہلے اس طریقہٴ تجارت کا تعارف پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
اقتصادی اور اسلامی نقطئہ نظر
آج کے ترقی یافتہ دور میں ایجادات و اختراعات کی کمی نہیں، مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نت نئی تبدیلیاں ہورہی ہیں، تجارت و معیشت کے فروغ کی بے شمار صورتیں وجود میں آگئی ہیں، جب کوئی نئی شکل سامنے آتی ہے تو اسے اختیار کرنے، یا نہ کرنے کے لیے ہر مسلمان جواز اور عدمِ جواز سے متعلق معلومات چاہتاہے؛ کیوں کہ ان کی تعیین کے بغیر عملی زندگی میں ایک قدم چلنا بھی مشکل ہے، اہلِ فقہ وفتاویٰ کے لیے ان احکام کابتانا تو مشکل نہیں ہوتا، جو قرآن، حدیث اور فقہ میں صراحت کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں، لیکن تغیر زمانہ کی وجہ سے جو نئی صورتیں پیدا ہوتی ہیں، ان کا شرعی حکم بتانا، ذرا مشکل ہوتا ہے؛ اس لیے کہ حلت و حرمت کی تعیین کے لیے پہلے علت معلوم کرنی ہوتی ہے، یا نظائرِ فقہیہ کو دیکھ کر علتِ مشترکہ کی بنیاد پر حکم لگایا جاتاہے، یہ بہت ہی نازک مرحلہ ہے؛ اس لیے کہ جس طرح کسی حرام کوحلال کہنا جائز نہیں، اسی طرح کسی حلال کو حرام کہنا بھی درست نہیں ہے، اس موڑ پر مسئلہ بتانے والا واقعتا اپنے کو جنت اورجہنم کے درمیان محسوس کرنے لگتا ہے۔
معیشت کے انھیں جدید طریقوں میں نیٹ ورکنگ (Net working) طریقہ آج کل بہت عام ہورہاہے، پہلے تو کمپنیاں کم تھیں، لیکن آج کل مختلف کمپنیاں اپنے کاروبار کو اس انداز پر پھیلارہی ہیں، دارالافتاء میں اس طرح کے سوالات کثرت سے آرہے ہیں کہ ان کمپنیوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ آیا ان میں شرکت جائز ہے یا ناجائز؟ زیرِ قلم مقالہ میں اسی سے متعلق تفصیلی بحث پیش کی جارہی ہے، اس کی شرعی عقلی اور معیشتی حیثیت پر بحث کرنے سے پہلے اس طریقہٴ تجارت کا تعارف پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔