ایک بھائی نے اس روایت کی تخریج و صحت کے بارے پوچھا ہے:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ حَدَّثَنَا الْمُقْرِئُ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ عَنْ أَبِي صَخْرٍ حُمَيْدِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ فَأَخْبَرَ أَنَّهُ يَسْمَعُ الصَّلَاةَ وَالسَّلَامَ مِنْ الْقَرِيبِ وَأَنَّهُ يَبْلُغُهُ ذَلِكَ مِنْ الْبَعِيدِ.
(ابن تیمیہ : مجموع الفتاویٰ: ج26ص70 کتاب الحج، فصل؛ واذا دخل المدینۃ.. بحوالہ سنن ابو داؤد)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
مجموع فتاوی ابن تیمیہ کی اس عبارت میں عجیب گڑبڑ کی گئی ہے ۔۔ یا کم علمی و عجلت کے سبب ہوگئی ہے ۔واللہ اعلم
اصل عبارت پیش خدمت ہے :
امام ابن تیمیہ ؒ مدینہ منورہ اور مسجد نبوی کی حاضری کے آداب بتاتے ہوئے لکھتے ہیں :
ولا يقف عند القبر للدعاء لنفسه فإن هذا بدعة ولم يكن أحد من الصحابة يقف عنده يدعو لنفسه ولكن كانوا يستقبلون القبلة ويدعون في مسجده
{فإنه صلى الله عليه وسلم قال: اللهم لا تجعل قبري وثنا يعبد}
وقال: {لا تجعلوا قبري عيدا ولا تجعلوا بيوتكم قبورا وصلوا علي حيثما كنتم فإن صلاتكم تبلغني}
وقال: {أكثروا علي من الصلاة يوم الجمعة وليلة الجمعة فإن صلاتكم معروضة علي. فقالوا: كيف تعرض صلاتنا عليك؟ وقد أرمت أي بليت. قال إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء} فأخبر أنه يسمع الصلاة والسلام من القريب وأنه يبلغه ذلك من البعيد.
(مجموع فتاویٰ شیخ الاسلام ،جلد 26 ، صفحہ 147 )
فرماتے ہیں کہ :
زائر اپنے لئے دعاء کیلئے قبرشریف کے سامنے قبر کی طرف رخ کرکے دعاء کیلئے کھڑا نہ ہو ، کیونکہ یہ بدعت ہے ،
نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے کوئی صحابی اپنے لئے دعاء کے وقت قبر کے پاس اس طرح کھڑا نہیں ہوا ، بلکہ دعاء کیلئے قبلہ رخ ہوتے تھے اور دعاء مسجد میں کرتے تھے ،
کیونکہ جناب نبی اکرم ﷺ کی دعاء تھی کہ : اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنانا جس کی عبادت کی جائے ))
اور آپ ﷺ کا ارشاد گرامی تھا کہ : لوگو ! میری قبر کو میلہ گاہ نہ بنانا ، اور نہ اپنے گھروں کو قبرستان بنانا ، اور تم جہاں کہیں بھی ہو مجھ پر درود بھیجنا ،کیونکہ تمھارا درود مجھ تک پہنچایا جاتا ہے ))
اور آپ ﷺ نے فرمایا :
جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے“۔ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا جب کہ آپ (فوت ہونے کے بعد ) بوسیدہ ہو چکے ہوں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے زمین پر پیغمبروں کے بدن کو حرام کر دیا ہے“۔
( امام ابن تیمیہ اس کے بعد فرماتے ہیں ) تو آپ ﷺ نے بتایا کہ قریب پڑھا جانے والا درود وہ سنتے ہیں ، اور دور سے بھیجا جانے والا درود ان تک پہنچایا جاتا ہے ‘‘
انتہیٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تھی مجموع الفتاوی کی اصل عبارت ؛
لیکن اس میں امام صاحبؒ نے جو آخری سطر میں فرمایا کہ قریب پڑھا جانے والا درود میں خود سنتا ہوں تو یہ بات کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ؛
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
اور دوسری بات قابل توجہ یہ ہے کہ :
آپ کی سوالیہ عبارت میں جو حدیث اور اس کی اسناد لکھی ہے وہ کتابت کی ۔۔یا۔۔ قصداً واضح غلط ہے
کیونکہ اس سند کے ساتھ سنن ابی داود میں جو متن حدیث ہے وہ یوں ہے ۔۔ غور سے دیکھیں :
حدثنا محمد بن عوف، حدثنا المقرئ، حدثنا حيوة، عن أبي صخر حميد بن زياد، عن يزيد بن عبد الله بن قسيط، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «ما من أحد يسلم علي إلا رد الله علي روحي حتى أرد عليه السلام»
ترجمہ :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ پر جب بھی کوئی سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح مجھے لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں“۔
أبو داو،2041 ۔ وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۵۲۷) قال الشیخ الالبانیؒ (حسن )
علامہ البانیؒ نے اگرچہ اسے حسن کہا ہے ،لیکن شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے سنن ابوداود معہ انگریزی ترجمہ ط دارالسلام میں اس کی تحقیق میں لکھا ہے :
(( اسنادہ ضعیف ، اخرجہ احمد عن المقریء وصححہ ابن الملقن فی تحفۃ المحتاج ،
یزید بن عبد بن قسیط ثبت سماعہ من ابی ھریرۃ عند البیہقی ، ولکنہ یروی عن التابعین عن الصحابۃ ، ولم یصرح ھاھنا بالسماع ،فالسند شبہ الانقطاع ))
یعنی اسکی سند ضعیف ہے ، علامہ ابن ملقن نے گو اسے تحفۃ المحتاج میں صحیح کہا ہے ، اور یزید بن عبداللہ کا سماع ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیہقی کی ایک روایت میں ثابت ہوتا ہے ، تاہم وہ تابعین کے حوالہ سے صحابہ سے روایات بیان کرتا ہے ،اور یہاں اس سند میں اس نے سماع کی تصریح نہیں کی جس سے سند میں انقطاع کا شبہ ہے ))
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزید وضاحت مطلوب ہو تو بندہ حاضر ہے ، ان شاء اللہ