• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وکیل شاتم رسو لﷺ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
درج ذیل سطور میں مولانا وحید الدین خان کی مذکورہ کتاب سے چند اقتباسات نقل کرنے کے بعد ان کی فکر کی ظلمتوں کی نشاندہی کی کوشش کی گئی ہے۔ مولانا موصوف کی درفنطنی ملاحظہ فرمائیے:
’ شتم رسول کا مسئلہ‘ کے آغاز کلام میں لکھتے ہیں:
’’موجودہ زمانہ کے مسلمان نہ صرف یہ کہ دعوت کا کام نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ مسلسل دعوت کو قتل کرنے میں مشغول ہیں۔ دوسری قوموں کو سیاسی حریف سمجھنا، ان کے مقابلہ میں احتجاجی اور مطالباتی مہم چلانا، ایسے جھگڑے کرنا جس کے نتیجہ میں داعی اور مدعو کے درمیان تعلقات خراب ہوجائیں۔ وہ دعوت و نصیحت کے قائل ہیں۔ مگر ساری دنیا کے مسلمان ہر روز انہی دعوت کش سرگرمیوں میں مشغول رہتے ہیں۔ اصاغر تو درکنار ان کے اکابر بھی سوچ نہیں پاتے کہ وہ ایسا کرکے اپنے خلاف خدا کے غضب کو بھڑکا رہے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
انہیں دعوت کش سرگرمیوں میں سے ایک سرگرمی وہ ہے جو ’شتم رسول‘ کے خلاف مسلمان ہر جگہ جاری کئے ہوئے ہیں۔ اور جس کا ایک نمایاں مظاہرہ سلمان رشدی کی کتاب (شیطانی آیات) کی اشاعت کے بعد ۱۹۸۹ء میں سامنے آیا ہے۔ اینٹی رشدی ایجی ٹیشن بلاشبہ لغویت کی حد تک غیر اسلامی تھا۔ اس لئے وہ مسلمانوں کے اصاغر و اکابر کے درمیان اس لئے جاری رہا کہ دعوتی شعور سے محرومی کی بنا پر انہوں نے وہ کسوٹی کھو دی تھی جس پر جانچ کردہ معلوم کرسکیں کہ کونسی روِش اسلام کے مطابق ہے اور کونسی روش اسلام کے مطابق نہیں۔
مسلمانوں کے اس داعیانہ منصب کا لازمی تقاضا ہے کہ وہ ہر گز کسی ایسی سرگرمی میں مبتلانہ ہوں جو دعوت کے مزاج کے خلا ف ہو، یا دعوت کے امکانات کو برباد کرنے والی ہو۔ اگر مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا تو یقینی طور پر وہ خدا کے یہاں مجرم قرار پائیں گے خواہ انہوں نے اپنے دعوت کش جلوس کا نام شوکت ِاسلام جلوس رکھ لیا ہو اور خواہ اس کی اعانت کے لئے تمام اعاظم و اکابر اکٹھے ہوگئے ہوں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
موجودہ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ کوئی شخص یا گروہ اگر ذرا بھی ان کے خلافِ مزاج بات کرے تو وہ فوراَ مشتعل ہوکر اس سے لڑنے لگتے ہیں۔… ناگوار باتوں پر مشتعل ہوجانے کی اس فہرست میں سب سے نمایاں چیز وہ ہے جس کو ’ناموسِ رسول پر حملہ‘ یا ’رسول کی شان میں گستاخی‘ جیسے جذباتی الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔ اس نوعیت کی اگر کوئی افواہ بھی پھیل جائے تو اس کے بعد مسلمان اس طرح بھڑک کر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں کہ ایسامحسوس ہوتا ہے کہ اسلام تو درکنار عقل وہوش سے بھی ان کا دور کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
مسلمانوں کا یہ لغو مزاج صرف اسی لئے ہے کہ انہوں نے دعوت کا شعور کھو دیا ہے، دوسری اقوام کو وہ اپنا قومی رقیب اور دنیوی حریف سمجھتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ ان کے اندر دعوتی شعور پیدا کیا جائے کہ وہ داعی ہیں اور دوسری قومیں ان کے لئے مدعو کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اسی سے ان کی جھوٹی جذباتیت ختم ہوگی۔ اسی سے ان کے اندر یہ حکمت آئے گی کہ وہ ناگوار باتوں سے اعراض کریں اور اشتعال انگیز باتوں پر مشتعل نہ ہوں‘‘ (صفحہ۶ ،۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قارئین کرام! مولانا وحید الدین خان کی کتاب کے مذکورہ طویل اقتباس کا پڑھنا آپ کے لئے شاید تکلیف دہ ہو، میرے لئے اس کو نقل کرنا بھی ایک روح فرسا تجربہ سے کم نہیں ہے۔ میں نے یہ طویل اقتباس ایک ہی جگہ پر نقل کردیا ہے تاکہ اب اس پر کھل کر اظہار کیا جاسکے اور بار بار ذہن کی یکسوئی نہ ٹوٹے۔ یہ مولانا وحید الدین خان جیسے نام نہاد داعی ٔاسلام کی حد درجہ گمراہ کن، ظلمت مآب اور اسلام کے متعلق بے حمیتی کے اظہار کا عظیم شاہکار ہے۔ درج ذیل نکات ہماری توجہ کے متقاضی ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
1۔مولانا وحید الدین خان اپنی تعقل پسندی کا بہت ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ وہ مریضانہ پندار ذات کے شیش محل میں براجمان ہو کر اپنے ناقدین کی آراء کو بے محابہ لغو قرار دیتے ہیں اوریہ ان کا تقریباً تکیہ کلام بن چکا ہے۔ خود ان کا اپنا حال یہ ہے کہ ان کی اپنی باتیںمبالغہ آمیز اور ان کی ’عقل پسندی‘ حد درجہ غیر حقیقت پسندانہ اور ساقط الاعتبار ہوتی ہے۔ عقل عام "Common Sense"یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے کہ’ساری دنیا‘ کے مسلمان ’ہرروز‘ دعوت کش سرگرمیوں میں مشغول رہتے ہیں۔ اس کرہ ٔ ارض پر ایک ارب سے زیادہ مسلمان بستے ہیں۔ مولانا موصوف کا ان کے بارے میں حسن تخیل ملاحظہ فرمائیے جو کسی کو بھی مستثنیٰ قرار دینے کے روا دار نہیں کہ وہ ’ہرروز‘ دعوت کش سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں گویا انہیں کرنے کو اور کچھ کام نہیں ہے، ایک معمولی فہم رکھنے والا فرد بھی اس ’نابغہ ٔ عصر‘ کی رائے کی اس نامعقولیت کو بڑی آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
2۔مولانا وحید الدین خان کا عتاب جو ار بھاٹا کی صورت میں مسلمانوں پر نازل ہوتا ہے۔ وہ مسلمانوں پر اس بنا پر خوب برستے ہیں کہ انہوں نے ’دوسری قوموں کو سیاسی حریف‘ سمجھ رکھا ہے اور وہ خواہ مخواہ ’ایسے جھگڑے کھڑے‘ کرتے ہیں جن سے دوسری اقوام سے ’تعلقات خراب ہوجائیں‘موصوف اسلامی تاریخ کے علوم کے ’قارون‘ ہیں اور اپنی دعوت کو قرآن و سنت کے عین مطابق قرار دیتے ہیں۔ مگر ان کے طاقتور حافظے میں وہ قرآنی آیات قائم نہیں رہتیں یا وہ علمی بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں نظرانداز کردیتے ہیں جس میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ کفار مومنوں کے دوست ہرگز نہیں ہوسکتے۔ یہاں تک کہ مسلمان دین اسلام چھوڑ کر ان کا دین نہ اَپنا لیں اور پھر صحابہ کرام﷢ نے تو (معاذ اللہ) خواہ مخواہ ہی ایران، فلسطین اور شام پر حملے کئے تھے؟ ایرانیوں اور رومی سلطنتوں سے ٹکر لے کر انہوں نے ’دعوت کے امکانات خراب‘ ہی کئے تھے؟ اور پھر خود رسالت ِمآبﷺ جو داعی ٔ اعظم تھے، انہوں نے بھی مولانا وحید الدین خان کے ’معیار ِدعوت‘ کے مطابق ۲۸ ؍غزوات میں شریک ہو کر عرب قبائل کے اسلام قبول کرنے کے امکانات کو معاذ اللہ خراب ہی کیا تھا۔ اس سے زیادہ اسلامی تاریخ سے لغو، غیر منطقی اور بھونڈا استنباط اور اسلامی دعوت کے اسلوب کا اس سے زیادہ مسخ شدہ تصور شاید ہی کسی اسلامی مبلغ نے پیش کیا ہو۔ مولانا وحید الدین خان دوسروں پر ’خدا کے غضب کو بھڑکانے‘ کا الزام لگا کر خود اسلامی تاریخ کے مستند حقائق کو اپنے خود ساختہ عقلی معیارات کے انگاروں پر رکھ کر سلگانے کے غضب انگیز فعل کے مرتکب ہوئے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
3۔ ناموسِ رسالتﷺ کا تحفظ مسلمانوں کے نزدیک دین کی اَساس ہے۔ جیسا کہ علامہ قرطبی﷫ لکھتے ہیں: ’’نبی کریمﷺ کی تعظیم و تکریم ہی مذہب کی بنیاد ہے اور یوں اس سے محرومی مذہب سے انحراف ہے‘‘ مگر دورِ جدید کا ایک بدبخت، برخود غلط مبلغ اسلام کس دھڑلے سے کہہ رہا ہے کہ ’شتم رسول‘ کے خلاف مسلمانوں کی سرگرمی ایک ’دعوت کش‘ سرگرمی ہے اور اس کی فکری لغویت کی معراج کا بھی اندازہ کیجئے کہ وہ جذباتی تشنج سے یہاں تک کہ جاتا ہے ’’اینٹی رشدی ایجی ٹیشن بلاشبہ لغویت کی حد تک غیراسلامی تھا‘‘ یہ فتویٰ مولانا وحید الدین خان کے ظلمت مآب فتویٰ خانہ کی جعلی ٹکسال کا کوئی سکہ تو ہوسکتا ہے، مگر اس کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ مولانا موصوف ’شتم رسول کے خلاف سرگرمی‘ کو ’غیر اسلامی‘ قرار دینے سے پہلے اگر شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ﷫ کی کتاب’’الصارم المسلول علی شاتم الرسول‘‘کے علاوہ علامہ تقی الدین سبکی﷫کی کتاب ’’السیف المسلول علی من سب الرسول‘‘ اور علامہ زین العابدین شامی﷫ کی’’تنبیہ الولاۃ والحکام علی أحکام شاتم خیرالأنام‘‘ اور علامہ ابن الطلاع اندلسی﷫ کی مایہ ناز تالیف ’’أقضیۃ الرسول‘‘کا بالاسیتعاب مطالعہ فرمانے کا تردد کرلیتے تو ان پر اپنی جہالت کا انکشاف کوئی ناممکن امر نہیں تھا، لیکن انہوں نے تو اپنے مخصوص تصورات کی تبلیغ کے لئے قرآن و سنت سے محض اپنے مطلب کے ان حوالہ جات کے انتخاب کا شغل اختیار کر رکھا ہے جس سے ان کے خانہ زاد اسلام کی تائید کا پہلو نکلتا ہو۔ دور ِجدید میں مولانا وحید الدین خان سوئے تاویل کا میٹھا زہر گھول کر نوجوان اَذہان کو متاثر کرنے کا جو فن جانتے ہیں، اس میں بہت کم لوگ ان کی ہمسری کا دعویٰ کرسکیں گے۔ اسلام میں توہین رسالت کا اِرتکاب ہمیشہ ایک سنگین جرم سمجھا جاتا رہا ہے اور اس کے مرتکب کے لئے سزائے موت کا مسئلہ رسولِ کریمﷺ کے دورِ اَقدس سے لے کر آج تک ملت ِاسلامیہ میں کبھی بھی مختلف فیہ نہیں رہا۔ مگر ’وحید خانی فتنہ‘ کی جسارتیں ملاحظہ کیجئے کہ وہ اسے ایک ’دعوت کش‘ اور ’لغویت کی حد تک غیر اسلامی‘ قرار دینے میں کسی شرمساری کا شکار نہیں ہوتے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
4۔ملعون رشدی کے خلاف مسلمانوں کے احتجاج کی وجہ بقول وحید الدین خان ’دعوتی شعور سے محرومی‘ اور اس کسوٹی سے ان کا ہاتھ دھو بیٹھنا ہے جس سے وہ جانچ سکیں کہ اسلام کی روِش کیا ہے۔ اگر وحید الدین خان کے نزدیک اسلام کا ’دعوتی شعور‘یہی ہے تو پھر یقین کرنا پڑے گا کہ اس سے بڑا ’فتور‘ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ وحید خان صاحب مسلمانوں میں جس درجے کا ’دعوتی شعور‘ پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے عواقب و نتائج کے اعتبار ایک بہت بڑا فتنہ اور ایک دین کش فتور ہے۔ ایسے دعوتی شعور کو مسلمان پائے حقارت سے ٹھکراتے ہیں کہ جو انہیں ناموسِ رسالت کے مسئلہ کے بارے میں بے غیرت و بے حمیت بنا دے اور جو رشدی جیسے ملعون شاتم رسول کے خلاف انہیں احتجاج برپا کرنے سے باز رکھے۔ اگر یہی’دعوتی شعور‘ خدانخواستہ حضرت زبیر﷜ میں بھی پیدا ہوجاتا تو وہ کبھی ایک شاتم رسول کی گردن نہ اُڑاتے۔ مصنف عبدالرزاق میں ابن عباس﷜ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرمﷺ کو گالی دی۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’کون ہے جو مجھے میرے دشمن سے بچائے‘ ‘حضرت زبیر﷜ نے کہا: ’میں‘ چنانچہ زبیر﷜ نے اسے للکارا اورقتل کردیا۔ رسول اللہﷺنے مقتول کا سامان حضرت زبیر﷜ کو دلوا دیا‘‘ (۵؍۲۳۷،۳۰۷) مولانا وحید الدین خان اگر اَخلاقی جرأت رکھتے ہیں تو برملا اِعلان کریں کہ حضرت زبیر﷜ کی یہ سرگرمی بھی ’غیر اسلامی‘ تھی۔ حضرت خالد بن ولید﷜ نے بھی اس عورت کو قتل کر دیاتھا جو رسول اکرمﷺ کو گالیاں دیا کرتی تھی۔(مصنف عبد الرزاق:۱۹۷۰۵) مسلمان فقہاء کا اجماع ہے کہ شاتم رسول ’مباح الدم‘(جس کا خون جائز ہو) ہے۔ مذکورہ بالا معروف کتب میں ایسے درجنوں واقعات درج کئے گئے ہیں جن میں شاتم رسول کو قتل کرنے کا ذکر ملتا ہے۔ مگر ہندوستان کا مالیخولیااور اَخلاقی بزدلی کا شکار، بزعم خویش داعی ٔ اسلام آج ’شتم رسول‘ کی سرگرمی کو ’دعوت کش‘ اور ’غیر اسلامی ‘ کہہ کر اپنی گمراہ کن فکر کا پرچار کر رہا ہے۔ مولانا وحید الدین خان کی فکر کے ’گمراہ‘ ہونے کے لئے محض یہی بات ہی کافی ہے کہ وہ ناموسِ رسالت کے تحفظ کے بارے میں بے حمیتی کا شکار ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
5۔ مولانا وحید الدین خان کو مسلمانوں سے شکایت ہے کہ ’’کوئی شخص یا گروہ اگر ذرا بھی ان کے خلافِ مزاج بات کرے تو وہ فوراً مشتعل ہو کر اس سے لڑنے لگتے ہیں ‘‘ بھارت کے اس عقل پرست مسلمان متجدد کی بے حسی کا کس قدر نوحہ رقم کریں۔ وہ ملعون رشدی کے معاملہ پر کتاب لکھ رہاہے۔ مگر رشدی کی گستاخی کو ’ذرا بھی خلاف ِمزاج‘ بات سمجھتا ہے۔ اگر اس نے رشدی کی کتاب پڑھی ہے او رپھر بھی اس کی رائے میں ’ذرا سی‘ بات ہے تو سمجھ لینا چاہئے ؎
عزت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے​
رسولِ اکرمﷺ کی شان میں گستاخانہ کلمات سن کر یا گستاخی کا کوئی مظاہرہ دیکھ کر اگر کوئی مسلمان اشتعال میں نہیں آتا تو وہ بلاشبہ بے حمیت ہے۔ کیونکہ نبی اکرمﷺکاارشادِ مبارک ہے کہ ’’کوئی مسلمان اس وقت تک سچا مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ مجھے اپنے ماں باپ سے بھی زیادہ محبوب نہ جانے۔‘‘(صحیح البخاري:۱۴) آج کے دور میں اگر ایک مسلمان حتیٰ کہ غیر مسلم اپنی ماں کے خلاف غلیظ گالیاں سنتا ہے اور پھر اس پر خاموش رہتا ہے تو اس کو ’بے غیرت‘ کہا جائے گا۔ جب حضور اکرم ﷺسے محبت ماں باپ سے محبت سے بھی زیادہ ہو تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی مسلمان آپﷺ کے خلاف گستاخی پر اشتعال میں نہ آئے۔ اکابر صحابہ کرام﷢ بالخصوص حضرت عمر﷜ کی سیرت ِمبارکہ کا مطالعہ تو ظاہر کرتا ہے کہ وہ حضور اکرمﷺ کے خلاف معمولی سی گستاخی بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت عمر﷜ نے ایک یہودی کو محض اس بنا پر قتل کردیا کہ اسے حضور اکرمﷺنے جو فیصلہ کیا تھا اس پر اعتماد نہیں تھا اور وہ حضرت عمر﷜ سے فیصلہ کرانے آگیاتھا۔ حضرت عمر﷜ تو معمولی معمولی باتوں پر تلوار نکال لیتے تھے ۔یہ ان کی غیر متوازن جذباتیت نہیں بلکہ دینی حمیت کا اظہار تھا۔
 
Top