• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وہابیوں سے ایک نہایت ہی سادہ سوال۔۔۔۔؟

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
یہ ہے مختصر توجیہ جنگ صفین جنگ جمل اور جنگ نہروان کی کہ ان جنگوں میں حضرت علی کے ہاتھوں جو اہل قریش کی گردنیں ماری گئی وہ دین کی خاطر تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل سنت کی صحیح احادیث کی رو سے
پھر آپکے نظریے کے مطابق تو اگلے امام اس دین سے پھر گئے تھے اس لئے سب کچھ دے کر صلح کر لی
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
پھر آپکے نظریے کے مطابق تو اگلے امام اس دین سے پھر گئے تھے اس لئے سب کچھ دے کر صلح کر لی
تو آپ ان روایت کو نہیں مانتے جو اس سلسلے میں ائمہ اہل سنت نے بیان کی کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ منکر حدیث ہیں ؟

اگر صلح کرنے کو دین اسلام سے پھرجانا ہی آپ اپنی ناقص عقل کے مطابق سمجھتے ہیں تو پھر صلح حدیبیہ کو آپ کیا سمجھتے ہیں ؟ جو کہ کفار سے کی گئی تھی اور اس صلح کے کرنے پر حضرت عمر کو بہت غصہ آیا تھا اور بارگاہ رسالت میں حضرت عمر کا رویہ انتہائی درجہ کا گستاخانہ تھا یہ امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری میں بیان کیا جبکہ اس صلح کو اللہ تبارک تعالیٰ نے فتح مبین قرار دیا ۔

اب اگر کوئی اس دنیا کہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے یہ دھوکہ ہے اور چند دنوں کی اس دنیا کا اگر اقتدار چھوڑ دے اور جنت میں ہمیشہ کی سرداری مل جائے تو یہ سودا مہنگا نہیں کیا خیال ہے آپ کا !

آپ سے درخواست کرونگا کہ اس صلح کی شرائط بیان فرمادیں اور اس کو کس نے توڑا یہ بھی بیان فرمادیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے شکریہ
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
تو آپ ان روایت کو نہیں مانتے جو اس سلسلے میں ائمہ اہل سنت نے بیان کی کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ منکر حدیث ہیں ؟
قران نے کسی قوم کی صفت تلبسو الحق بالباطل بتائی ہے جو انما البیع مثل الربو کا دعوی کرتے تھے آپ اس طرح نہ کریں کہ ضعف کی وجہ سے حدیث کو ترک کرنے یا مختلف الحدیث پر توقف کرنے کو انکارِ حدیث سے گڈ مڈ کر نے لگیں میں اآپکو ایسا نہیں سمجھتا - یہ بھی یاد رکھ لیں کہ ایک محدث کے حدیث کو صحیح کہ دینے پر بھی باقیوں کا رویہ دیکھنا ہو گا ہو سکتا ہے اس میں ایک شیعہ راوی ہو جس کی شیعت تقیہ کی وجہ سے اس محدث سے چھپی رہ گئی ہو - ہاں تقیہ پر یاد آیا پہلے اپنے گھر کی تو خبر لے لیتے- الکافی افی الاصول میں ہے امام جعفر کے پاس ایک آدمی آیا تو اس کو ایک آیت کی تفسیر بتائی تھوڑی دیر کے بعد دوسرا آیا تو اسی آیت کی بالکل برعکس تفسیر بتائی راوی کیتا میں سمجھ گیا یہ سب تقیہ کی وجہ سے ہے -حتی کہ فروع کافی میں نبی ﷺ پر بھی بغیرمجبوری کے تقیہ کا الزام لگا دیا لکھا ہے عبداللہ بن ابی کے جنازے پڑھائی تو عمر نےاعتراض کیا تو فایا کہ تمھیں کیا پتا میں نے کیا پڑھا ہے مین نے کیا ہے کہ اس کا پیٹ آگ سے بھر دے
اگر صلح کرنے کو دین اسلام سے پھرجانا ہی آپ اپنی ناقص عقل کے مطابق سمجھتے ہیں تو پھر صلح حدیبیہ کو آپ کیا سمجھتے ہیں ؟ جو کہ کفار سے کی گئی تھی اور اس صلح کے کرنے پر حضرت عمر کو بہت غصہ آیا تھا اور بارگاہ رسالت میں حضرت عمر کا رویہ انتہائی درجہ کا گستاخانہ تھا یہ امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری میں بیان کیا جبکہ اس صلح کو اللہ تبارک تعالیٰ نے فتح مبین قرار دیا ۔
آپ کی پچھلی پوسٹ کے مطابق علی رضی اللہ عنہ اور دوسروإ کی لڑائی حق و باطل کا معرکہ تھی اس پس منظر میں صلح دو قسموں میں محصور ہو سکتی ہے-
1.ایک گروہ دوسرے کا دیں تسلیم کرتے ہوئے لڑائی سے صلح کر لے-
2. ایک گروہ دوسرے کا دیں تو تسلیم نہ کرے مگر لڑائی نہ کرنے کا معاہدہ کر لے-
اب نبی اکرم ﷺ کی صلح تو بے شک دوسری قسم کی تھی-مگر حسن رضی اللہ عنہ کی صلح کو اگر آپ پہلی کہیں گے تو آپکی امامت کے نظریے کا مسئلہ ہو گا اور اگر دوسری کہیں تو واقعات اس کی تصدیق نہیں کرتے کیونکہ انھوں نے نہ صرف امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ تسلیم کرتے ہوئے بیت کی تھی بلکہ اغلا خلیفہ بھی حسن کو بنانے کی شرط تھی- پس ان دو صلح کی وسموں سے نکلنے کا ایک ہی چریقہ ہے کہ اس کو حق و باطل کی لڑائی نہ کہیں بلکہ حق والے دو گروہوں کی صلح تھی پس پچھلی پوسٹ کی بات جس کا میں نے پیچھے الزامی جواب دیا تھا وہ غلط ہو گئی
آپ سے درخواست کرونگا کہ اس صلح کی شرائط بیان فرمادیں اور اس کو کس نے توڑا یہ بھی بیان فرمادیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے شکریہ
صلح حسن اور امیر معاویہ رضی اللہ عنھما کے درمیان ہوئی تھی جو حسن رضی اللہ عنہ کی وفات پر ختم ہو گئی میرے ناقص علم میں یہ بات ہے اگر آپکو کوئی اور پتا ہے تو بتا دیں میرے علماء بھائی اس پر بتا دیں گے یا میں ان سے پوچھ کربتا دوں گا
ویسے آیت ان اوھن البیوت لبیت العنکبوت کے تحت ایک آدمی شیشے کے گھر میں بیٹھ کر لوہے کے گھر کو پتھر مار رہا تھا مگر وہ ٹکرا کر واپس اسی کا شیشہ ٹوٹ جاتا مگر وہ اس ٹوٹے شیشہ کو جوڑنے کی بجائے اور پتھر مار دیتا شاید پہلا شیشہ جوڑنے یعنی دلائل کا جواب دینے کی سکت نہیں تھی
محمد ارسلان
حرب بن شداد
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
قران نے کسی قوم کی صفت تلبسو الحق بالباطل بتائی ہے جو انما البیع مثل الربو کا دعوی کرتے تھے آپ اس طرح نہ کریں کہ ضعف کی وجہ سے حدیث کو ترک کرنے یا مختلف الحدیث پر توقف کرنے کو انکارِ حدیث سے گڈ مڈ کر نے لگیں میں اآپکو ایسا نہیں سمجھتا - یہ بھی یاد رکھ لیں کہ ایک محدث کے حدیث کو صحیح کہ دینے پر بھی باقیوں کا رویہ دیکھنا ہو گا ہو سکتا ہے اس میں ایک شیعہ راوی ہو جس کی شیعت تقیہ کی وجہ سے اس محدث سے چھپی رہ گئی ہو - ہاں تقیہ پر یاد آیا پہلے اپنے گھر کی تو خبر لے لیتے- الکافی افی الاصول میں ہے امام جعفر کے پاس ایک آدمی آیا تو اس کو ایک آیت کی تفسیر بتائی تھوڑی دیر کے بعد دوسرا آیا تو اسی آیت کی بالکل برعکس تفسیر بتائی راوی کیتا میں سمجھ گیا یہ سب تقیہ کی وجہ سے ہے -حتی کہ فروع کافی میں نبی ﷺ پر بھی بغیرمجبوری کے تقیہ کا الزام لگا دیا لکھا ہے عبداللہ بن ابی کے جنازے پڑھائی تو عمر نےاعتراض کیا تو فایا کہ تمھیں کیا پتا میں نے کیا پڑھا ہے مین نے کیا ہے کہ اس کا پیٹ آگ سے بھر دے
یہ ایک پرانا حربہ ہے کہ جو حدیث اپنے نفس پر بھاری ہو اس کو ضعیف بتلا کر جان چھڑالی جائے یہ کہہ دیا جائے کہ جس محدث نے ایسے صحیح کہا ہے اس کو اس روایت کے راویوں میں علم نہیں تھا لیکن یہ یاد رھئے کہ جو حدیث میں نے پیش کی ہے وہ آپ کے محدیث العصر البانی صاحب نے اپنی کتاب سلسلہ الصحیحہ میں پیش کی ہے اور اس پر صحیح ہونے کا حکم لگایا ہے کیاآپ کے محدث العصر ایسے لوگ ہیں کہ جن کو اسماء الرجال کا علم ہی نہیں ؟ جب اتنے بڑے محدث ایسے ہیں تو پھر ان کے چھوٹوں کا تو اللہ ہی حافظ ہے !
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
آپ کی پچھلی پوسٹ کے مطابق علی رضی اللہ عنہ اور دوسروإ کی لڑائی حق و باطل کا معرکہ تھی اس پس منظر میں صلح دو قسموں میں محصور ہو سکتی ہے-
1.ایک گروہ دوسرے کا دیں تسلیم کرتے ہوئے لڑائی سے صلح کر لے-
2. ایک گروہ دوسرے کا دیں تو تسلیم نہ کرے مگر لڑائی نہ کرنے کا معاہدہ کر لے-
اب نبی اکرم ﷺ کی صلح تو بے شک دوسری قسم کی تھی-مگر حسن رضی اللہ عنہ کی صلح کو اگر آپ پہلی کہیں گے تو آپکی امامت کے نظریے کا مسئلہ ہو گا اور اگر دوسری کہیں تو واقعات اس کی تصدیق نہیں کرتے کیونکہ انھوں نے نہ صرف امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ تسلیم کرتے ہوئے بیت کی تھی بلکہ اغلا خلیفہ بھی حسن کو بنانے کی شرط تھی- پس ان دو صلح کی وسموں سے نکلنے کا ایک ہی چریقہ ہے کہ اس کو حق و باطل کی لڑائی نہ کہیں بلکہ حق والے دو گروہوں کی صلح تھی پس پچھلی پوسٹ کی بات جس کا میں نے پیچھے الزامی جواب دیا تھا وہ غلط ہو گئی

صلح حسن اور امیر معاویہ رضی اللہ عنھما کے درمیان ہوئی تھی جو حسن رضی اللہ عنہ کی وفات پر ختم ہو گئی میرے ناقص علم میں یہ بات ہے اگر آپکو کوئی اور پتا ہے تو بتا دیں میرے علماء بھائی اس پر بتا دیں گے یا میں ان سے پوچھ کربتا دوں گا
ویسے آیت ان اوھن البیوت لبیت العنکبوت کے تحت ایک آدمی شیشے کے گھر میں بیٹھ کر لوہے کے گھر کو پتھر مار رہا تھا مگر وہ ٹکرا کر واپس اسی کا شیشہ ٹوٹ جاتا مگر وہ اس ٹوٹے شیشہ کو جوڑنے کی بجائے اور پتھر مار دیتا شاید پہلا شیشہ جوڑنے یعنی دلائل کا جواب دینے کی سکت نہیں تھی
محمد ارسلان
حرب بن شداد
جب آپ کو علم ہی نہیں تو پھر آپ کیوں اس طرح کے معاملات میں اپنی رائے کا اظہار فرمارہے ہیں ہونا یہ چاہے کہ پہلے آپ جس موضوع پر آپ اظہار خیال فرمارہے ہیں اس پر آپ کو علم ہونا چاہئے اس کے بعد آپ اپنی رائے کا اظہار فرمائیں تو یہ ذیادہ مناسب بات ہوگی اور کچھ نہیں تو آپ کم از کم اردو میں ترجمہ کی گئی تاریخ ابن کثیر کا ہی مطالعہ فرمالیں کہ وہ آپ کے لئے ایک مستند تاریخ ہے اور ایسی میں سے دیکھ کر میرے سوال کا جواب عنایت فرمادیں کہ


جو معاہدہ امام حسن اور معاویہ کے درمیان ہوا اس کی شرائط کیا تھیں
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
یہ ایک پرانا حربہ ہے کہ جو حدیث اپنے نفس پر بھاری ہو اس کو ضعیف بتلا کر جان چھڑالی جائے یہ کہہ دیا جائے کہ جس محدث نے ایسے صحیح کہا ہے اس کو اس روایت کے راویوں میں علم نہیں تھا لیکن یہ یاد رھئے کہ جو حدیث میں نے پیش کی ہے وہ آپ کے محدیث العصر البانی صاحب نے اپنی کتاب سلسلہ الصحیحہ میں پیش کی ہے اور اس پر صحیح ہونے کا حکم لگایا ہے کیاآپ کے محدث العصر ایسے لوگ ہیں کہ جن کو اسماء الرجال کا علم ہی نہیں ؟ جب اتنے بڑے محدث ایسے ہیں تو پھر ان کے چھوٹوں کا تو اللہ ہی حافظ ہے !
اتامرون الناس بالبر وتنسون انفسکم کے تحت ہمیں نفس پہ بھاری حدیث کو رد کرنے کی بات بتا رہے ہیں اور خود اپنا یہ حال ہے کہ جو نفس پہ بھاری نہیں تھی وہاں بھی نعوذ باللہ نبی ﷺ سے تقیہ کروا دیا
دوسرا آپ نے کہا ہے کہ ہم نفس کی وجہ سے ضعیف کہ کر ترک کرتے ہیں جبکہ اس کو ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے- تو دیکھیں اوپر میں نے اس حدیث کو ضعیف نہیں کہا (اگرچہ اس پر ابن تیمیہ وغیرہ کا اعتراض ہے) بلکہ ضعیف حدیث کے علاوہ ترک کی ایک اور وجہ بھی لکھی ہے یعنی مختلف الحدیث- جو صحیح حدیثوں میں اختلاف ہی کو کہتے ہیں جو آپ گول کر گئے پس میرا جواب یہ ہے
1.اگر آپکو پہلی قسم پر اعتراض ہے تو پہلے یہ دعوی کریں کہ آپ ایسا نہیں کرتے آپ خود اپنے اماموں کے علاوہ روایات قبول نہیں کرتے اور پھر امام کی بھی کوئی روایت وجدنا اباءنا کے خلاف محسوس ہو تو بے دھڑک تقیہ کا سہارا لے لیتے ہیں- آج آپ اعلان کریں کہ آپ کے نزدیک بھی صحیح اور ضعیف روایت کے کوئی اصول نہیں آپ ہر ایک کو قبول کر لیں گے تو میں ابھی پیچھے ہٹ جاتا ہوں اور اگر آپ کو ہمارے ضعیف کے اصولوں پر اعتراض ہے یا یہ اعتراض ہے کہ ان اصولوں کو توڑ دیتے ہیں تو اس پر بات کر لیتے ہیں
2.مختلف الحدیث میں پہلے تو ہم تطبیق کرتے ہیں جیسے ناسخ منسوخ سے، راجح مرجوح سے، یا کلام کے معنی میں مختلف احتمال کیصورت میں مطابق معنی کی تاویل کر کے، وغیرہ- اس اصول کی بھی آپ پیروی کرتے ہیں مگر آپ کو شاہدناسخ منسوخ وغیرہ کی ضرورت نہیں پڑتی ہوگی کیونکہ آپ کے پاس تقیہ جیساہتھیار جو موجود ہے- آپ کو اسکے اصولوں پر یا ان کی پابندی نہ کرنے پر اگر اعتراض ہے تو پھ اس پر بھی جب چاہیں بات کر لیں
اب مسئلہ یہ ہے کہ آپ کے ہاتھ میں ڈاکٹر کا نشتر آجائے باقی ڈاکٹری سے آپ کا دور نزدیک کا بھی واسطہ نہ ہو اور آپ اس ہتھیار سے ڈاکے ڈالنے پر مصر ہوں تو ہم کیا کہ سکتے ہیں آپ حوالے ہمارے دیتے ہیں مگر اس پر اصول اور لاگو کر کے اپنی مرضی کا نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں کم از کم اپنے اصول ہی لاگو کر دیتے جو آپ کے فقہ والے مانتے ہیں تو یہ تلبیس ابلیس نہ کرتے
آپ یا تو اصولوں پر اعتراض کریں یا ان کی پیروی پر اعتراض کریں یا پھر ان اصولوں کو مانتے ہوئے اعتراض داخل کریں چور کی داڑھی میں تقیہ کا تنکہ دیکھ کر یہ نہ کہیں کہ نفس کی وجہ سے حدیث رد کی
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
جب آپ کو علم ہی نہیں تو پھر آپ کیوں اس طرح کے معاملات میں اپنی رائے کا اظہار فرمارہے ہیں ہونا یہ چاہے کہ پہلے آپ جس موضوع پر آپ اظہار خیال فرمارہے ہیں اس پر آپ کو علم ہونا چاہئے اس کے بعد آپ اپنی رائے کا اظہار فرمائیں تو یہ ذیادہ مناسب بات ہوگی اور کچھ نہیں تو آپ کم از کم اردو میں ترجمہ کی گئی تاریخ ابن کثیر کا ہی مطالعہ فرمالیں کہ وہ آپ کے لئے ایک مستند تاریخ ہے اور ایسی میں سے دیکھ کر میرے سوال کا جواب عنایت فرمادیں کہ

جو معاہدہ امام حسن اور معاویہ کے درمیان ہوا اس کی شرائط کیا تھیں
الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے محاورہ بچپن میں سنا تھا آج دیکھ لیا
یارو میرے پاس جو علم تھا میں نے اتنی ہی بات کا جواب دیا کیونکہ مجھے قران کی آیت ولا تقف ما لیس لک بہ علم کا پتہ ہے اسلئے جس چیز کا مجھے علم نہیں تھا تو بے جھجک کہ دیا کہ جب ضرورت پڑے گی علما بھائیوں سے درخواست کر دوں گا مگر آپ بار بار بغیر علم کے بول رہے ہیں اسی لئے تو ایک بات کا جواب دیتا ہوں تو اس کو چھوڑ کر دوسری شروع کر دیتے ہیں اگر میرا بلوانا بند کرنا چاہتے ہیں تو حکم دیں چپ کر جاوں گا
جیہں تک شرائط کا تعلق ہے اور ابن کثیر کے مطالعے کا مشورہ ہے تو میں اپنے حوالے تب آپ کو دوں گا جب ہمارے سب حوالے آپ مانیں یا پھر حوالوں اور اصولوں پر ہی بات کر لیں اور اصول طے ہو جائیں ورنہ میں پاگل نہیں کہ ڈاکٹر کا نشتر کسی رہزن کے حوالے کر دوں
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
آپ یا تو اصولوں پر اعتراض کریں یا ان کی پیروی پر اعتراض کریں یا پھر ان اصولوں کو مانتے ہوئے اعتراض داخل کریں
سوچا آپکے سہولت کے لئے حدیث پر عمل کے اپنے کچھ اصول لکھ دوں تاکہ اگر بحث کا ارادہ ہو تو سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے (محترم علما بھائیوں سے گزارش ہے کہ اگر اصلاح کی گنجائش ہو تو لازمی کریں)
آپ نے مناظروں میں دیکھا ہو گا کہ کیا جاتا ہے کہ فلاں چیز کی کوئی صحیح، مرفوع، محکم اور صریح حدیث لاو- پس اسی کو بنیاد بناتے ہیں چنانچہ
1۔ہم پہلے حدیث کا بلحاظ صحت قبول یا رد دیکھتے ہیں کہ وہ صحیح ہے یا حسن- صحیح اور حسن کی شرائط کہ سند متصل، راوی ثقہ(بلحاظ عدل وضبط)، غیر شاذ و معلل-حسن میں ضبط پر کمرومائز ہو سکتا ہے-
2۔اگر قبول ہو تو پھر عمل کے لحاظ سے قبول یا رد دیکھتے ہیں
3۔پہلے محکم اور مختلف الحدیث میں فرق کرتے ہیں- محکم پر عمل ہو گا محکم سے مراد جس کے خلاف کوئی اور قرآن و حدیث سے دلیل نہ ہو-
4۔اگر مختلف الحدیث سے مراد جب صحیح احادیث آپس میں برعکس ہوں-اسمیں تطبیق دی جاتی ہے
5۔تطبیق میں راجح مرجوح، ناسخ منسوخ، صریح غیر صریح کو دیکھا جاتا ہے-
6۔راجح مرجوح میں مرفوع و غیر مرفوع، قول و عمل، وغیرہ میں موازنہ کرتے ہیں- ناسخ منسوخ کا تو پتا ہو گا صریح کی وضاحت کر دوں جو میں نے اوپر کسی پوسٹ میں بھی حوالہ دیا ہے کہ جس حدیث کے الفاظ میں ایک سے زیادہ معنی کا احتمال ہو وہ غیر صریح ہوتی ہے پس تطبیق کے لئے باقی احادیث کے مطابق جو معنی ہوتا ہے وہ لے لیتے ہیں
مثلا اگر حدیث ملے کہ صحابی قبر پر کھڑا ہو کر دعا مانگ رہا تھا تو اس کے تین احتمال ہو سکتے ہیں ا-قبر والے کی مغفرت کے لئے اللہ سے مانگ رہا ہو ب-قبر والے کا واستہ دے کر اللہ سے مانگ رہا ہو ج-قبر والے سے مانگ رہا ہو-
اب اہل حدیث پہلے معنی کو صحیح سمجھیں گے کیونکہ باقی انکی مقبال احادیث میں یہی معنی نکلتا ہے جبکہ دیوبندی پہلے دونوں معنی نکال سکتا ہے کیونکہ ان کے ذخیرہ احادیث میں دونوں معنی سے تطبیق ہو سکتی ہے اور مشرک تینوں معنی نکال لے گا
7۔پس اس کے بعد بھی تطبیق نہ ہو تو توقف ہو گا
اب آپ کی حدیث کی صحت کو چھوڑ دیں تو معنی میں بھی صریح نہیں تو اس کو باقی احادیث سے ملا کر دیکھنا ہو گا اپنی مرضی سے احتمال نہیں چن سکتے
ہاں یہ وہاں ہے جہاں ایک سے زیادہ احتمال ہوں مگر جہاں ایک ہی احتمال ہو جیسے کوئی انسان قبر پر سجدہ کر رہا ہے تو وہاں میرے نزدیک ایک ہی احتمال ہو سکتا ہے کہ وہ اسکی عبادت کر رہا ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اب آپ کی حدیث کی صحت کو چھوڑ دیں تو معنی میں بھی صریح نہیں تو اس کو باقی احادیث سے ملا کر دیکھنا ہو گا اپنی مرضی سے احتمال نہیں چن سکتے
آپکی حدیث کے مندرجہ ذیل احتمال ہو سکتے ہیں
1۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر و عمر کو غلط سمجھتے تھے اور علی کو اصلی جانشین سمجھتے تھے مگر ڈر اور تقیہ کی وجہ سے کچھ کہ نہیں سکتے تھے(نعوذ باللہ)
2۔تاویل قران کا واقعہ ہی ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنھما کے دور کے بعد ہونا تھا چونکہ ایمان داری، تقوی وغیرہ کی کمی آ جانی تھی اس لئے ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنھما نے تو ہونا نہیں تھا اس وقت علی رضی اللہ عنہ نے ہونا تھا تو انھوں نے کرنا تھا
اب حالات و واقعات سے اور باقی ڈخیرہ احادیث سے دوسرا ہی احتمال ہو سکتا ہے جو علی رضی اللہ عنہ نے خوارج سے تاویل قران پر قتال کیا تھا-
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
محترم علما بھائیوں سے گزارش ہے کہ اگر اصلاح کی گنجائش ہو تو لازمی کریں)
محترم بھائیوں سے گزارش ہے کہ اگر کہیں غلطی ہو تو پی ایم کے ذریعے بلا جھجک میری اصلاحکرتے رہیں- جزاکم اللہ
 
Top