• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پندر ہویں شعبان سے متعلق احادیث – ایک جائزہ

شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
علماء امت کے اقوال:

شیخ الإسلام ابن باز رحمہ اللہ اس شب کے حوالہ سے اپنے شہرہ آفاق رسالہ "التحذیرمن البدع" میں ارشاد فرماتے ہیں:"پندرہویں شعبان کی فضیلت کے متعلق تمام احادیث ضعیف اورموضوع ہیں ,لیکن جمہورعلماء کے نزدیک اس رات محفل رچانا بدعت ہے- اوراسکی فضیلت کے متعلق واردشدہ سب احادیث ضعیف اورباقی موضوع گھڑی ہوئی ہیں جیسا کہ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے اپنی کتاب لطائف المعارف میں بیان کیا ہے"-

عبادات میں ضعیف حدیث اس وقت قابل عمل ہوتی ہے- جب صحیح دلائل سے اسکی اصل بنیاد (شرع) سےثابت ہو- شب شعبان کے جشن کے بارے میں کوئی صحیح بنیاد ثابت نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے ضعیف حدیث قابل عمل ہو"
(دیکھئے التحذیرمن البدع کا اردوترجمہ ص 24)

امام ابوبکرطرطوشی نے اپنی کتاب "البدع والحوادث" میں کہا ہے کہ ابن وضاح نے زید بن اسلم کا قول نقل کیا ہے کہ میں نے اپنے مشائخ وفقہاء میں سے کسی ایک کوبھی پندرہویں شعبان کی رات اورمکحول کے طرزعمل کی طرف توجہ کرتے ہوئے نہیں پایا اوروہ اس رات کودوسری راتوں پرکوئی فضیلت نہیں دیتے تھے- ابن ابی ملیکہ سے کہا گیا کہ زیاد نمیری کہتا ہے کہ پندرہویں شعبان کی رات کا ثواب شب قدرکے برابرہے – اس نے کہا کہ اگرمیں اسکوسنتا اورمیرے ہاتھ میں لاٹھی ہوتی تومیں اسکوضرورمارتا کیوں کہ زیاد قصہ گوتھا-
(دیکھئے التحذیرمن البدع ص 27)-

شیخ ابن بازرحمہ اللہ نے اس طرح کی موضوع اورضعیف احادیث کے نقل کرنے کے بعد انکا من گھڑت ہونا یا ضعیف ہونےکی تفصیلات بیان کرنے کے بعد فرمایا:" مذکورہ آیات واحادیث اوراہل علم کے اقوال سے طالب حق کے لئے یہ امرواضح ہوجاتا ہے کہ شعبان کی پندرہویں شب کونماز یا کسی اورچیزکے لئے محفل منعقد کرنا اوراسکے دن کوروزہ کیلئے خاص کرنا اہل علم کے نزدیک قابل مذمت بدعت ہے اورشرع شریف میں اسکی کوئی اصل نہیں ہے- بلکہ اسلام میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دورمسعود کے بعد یہ بدعت پیداہوئی ہے"-
(التحذیرمن البدع ص 29)-

یاد رہے کہ بعض سلف سے پندرہویں شعبان کی شب میں نمازوں کے حوالے سے جوازکے کچھ آثارملتے ہیں جیسا کہ اہل شام میں سے مکحول ,خالد بن معدان اورلقمان بن عامروغیرہ کا عمل منقول ہے,اوران ہی بزرگوں کودیکھتے ہوئے لوگوں نے شب براءت کا مسئلہ اخذکیا لیکن جب اس مسئلے کی شہرت ہوئی توعلماء حجاز جیسے عطاء بن ابی رباح ,ابن ابی ملیکہ اورفقہاء مدینہ جیسے اصحاب مالک وغیرہ نے اسکا شدید نوٹس لیا اوراسکے بدعت ہونے کا فتوى جاری کیا- اب جولوگ پندرہویں شعبان کا شب منانے کا دم بھرتےہیں وہ بھی شب بیداری کی کیفیت کے مسئلہ پراختلاف کا شکارہوگئے-

بعض نے کہا کہ یہ شب بیداری مساجد میں باجماعت ہوگی جیساکہ خالدبن معدان اورلقمان بن عامروغیرہ نے کیا یہ لوگ اس شب اپنے بہترین لباس پہنتے تھے,خوشبواورسرمہ استعمال کرتے تھے- اوررات بھرمسجد میں ٹھرتے تھے- اسحاق بن راہویہ نے بھی ان لوگوں کی موافقت کی-


جبکہ دوسرا گروہ کہتا ہے مساجد میں نماز,قصہ خوانی اوردعاء کے لئے جمع ہونا مکروہ ہے البتہ انسان تنہا گھرمیں نمازپڑھ سکتا ہے-جیساکہ امام اوزاعی وغیرہ نے کہا ہے-

جب کہ تنہا نمازیا پھربا جماعت نمازکے متعلق علماء کے دوقول ہیں- پہلاقول یہی ہے کہ یہ بدعت ہے – جیسا کہ اکثرعلماء حجازکہتے ہیں –جب کہ دوسراقول ہے کہ انسان کا تنہا نمازپڑھنا یا خاص جماعت میں نمازپڑھنا مکروہ نہیں ہے جیسا کہ اوزاعی ابن رجب وغیرہ کہتے ہیں-

شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں امام اوزاعی کا یہ موقف اورابن رجب کا اس موقف کو اختیارکرنا عجیب وغریب اورضعیف ہے- اسلئے کہ جس چیزکا شرعی دلائل سے مشروع ہونا ثابت نہ ہوتا ہو اسکواللہ کے دین میں اضافہ کرنا جائزنہیں ہے خواہ وہ اسے تنہاکرے یا باجماعت – اورخواہ اسے خفیہ طورپرانجام دے یا علانیہ طورپراس لئے کہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
-:" من عمل عملا لیس علیه أمرنا فھوررد"اوراسی جیسی بیشماردلائل جوبدعت کی بیخ کنی کرتی ہیں-(دیکھئے التحذیرمن البدع ص 13)

توسابقہ سطورکے نتیجہ میں ہم یہ بات وثوق کے ساتھ کہ سکتے ہیں کہ پندرہویں شعبان کا میلہ ,شب بیداری اوراس حوالے سے قائم کردہ دیگرسارے اموربدعات کے زمرے میں آتے ہیں لہذا ان سے پرہیزاوراجتناب لازمی ہے-
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
صلاۃ الفیہ بدعت ہے

جیسا کہ حضرت على رضی اللہ عنہ سے منسوب روایت سے پتہ چلا کہ بعض لوگ اس رات سورکعت نمازپڑھتےہیں جس کی ہررکعت میں سورۃ الاخلاص دس دفعہ پڑھنا ہوتا ہے تواسطرح سورۃ الاخلاص سورکعت میں ایک ہزاردفعہ پڑھا جاتا ہے اسلئے اس نمازکوصلاۃ الفیہ کہا جاتا ہے – (دیکھئے:البدع الحولیۃ ص299)-


صلاۃ الفیۃ کس نے ایجاد کی ؟

پندرہویں شعبان کی شب میں صلاۃ الفیہ کا موجد ایک شخص ہے جسکوابن ابی الحمراء کہاجاتا ہے جونابلس فلسطین کا ہے,یہ شخص 448ھ کوبیت المقدس آیا اورپندرہ شعبان کی شب کو مسجد اقصى میں نماز پڑھنے لگ گیا - نماز میں اسکے پیچھے ایک شخص کھڑا ہوگیا پھردوسراپھرتیسرا پھرچوتھا یہاں تک کہ وہ ایک جماعت بن گئی-

پھردوسرے سال آیا اوران کے ساتھ یہ نماز ایک بڑی تعداد میں لوگوں نے پڑھی ,پھراس کی خبرلوگوں میں پھیل گئی جلدی جلدی اسکا رواج آس پاس کی مساجد میں بھی پڑگئی- پھرحالت یہ ہوگئی کہ گویا اب یہ نماز سنت ہی ہے-
(دیکھئے الحوادث والبدع للطرطوشی ص 121-122 اورالبدع الحولیۃ ص 299)-


صفۃ صلاۃ الفیہ(ہزاری نماز کی کیفیت):

اس نماز کی کیفیت اوراسکی ادائیگی پراجروثواب کئی طرق سے بیان کیا جاتا ہے- جنہیں ابن الجوزی رحمہ اللہ نے الموضوعات 2/127-130میں ذکرکرنے کے بعد لکھا ہے-"ہمیں اس حدیث کے من گھڑت ہونے میں کوئی شک نہیں ہے- اوراسکے اکثرروات تینوں سندوں میں مجاہیل ہیں,اوردیگرانتہائی درجہ کے ضعیف ہیں, اوریہ حدیث قطعی ناممکن ہے- (دیکھئے:سیوطی کی اللآلی المصنوعة2/57-60 اورعلامہ شوکانی کی الفوائد المجموعۃ ص 51 بھی)-

محمدبن محمد الغزالی نے احیاء علوم الدین 1/203میں تحریرکیا ہے -"اوررہا سوال شعبان کی نمازکا,پس پندرہ شعبان کی رات کوسورکعت پڑھی جاتی ہے- ہردورکعت ایک سلام کے ساتھ ,اورہررکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد"قل ھواللہ أحد"پڑھا جاتا ہے-


صلاۃ الفیہ کا حکم؟

جمہورعلماء کا اس بات پراتفاق ہے کہ پندرہویں شعبان کی شب صلاۃ الفیہ بدعت ہے-

(دیکھئے البدع الحولية ص 300نیزدیکھئے الباعث لأبى شامة ص 124-137و174,المنارالمنيف لابن القيم ص 98-99 تفسيرالقرطبي 16/128,الأسرارالمرفوعة ص 396,المجموع للنووي 4/56,تنزيه الشريعة 2/29,اللآلي المصنوعة 2/57,الفوائد المجموعة للشوكاني ص 63,الامربالاتباع للسيوطى ص 176-177,المدخل لابن الحاج 4/218,الاعتصام للشاطبى 2/4 اورالإبداع في مضارالابتداع لعلى محفوظ ص 54-السنن والمبتدعات للشقيرى ص 144)-

پس صلاۃ الفیۃ نہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اورنہ ہی اسے خلفاء راشدین میں سےکسی نے انجام دیا ہے- اورنہ ہی ائمہ اعلام (امام ابوحنیفہ,مالک,شافعی,احمد,ثوری,اوزاعی اورلیث بن سعد رحمہم اللہ)میں سے کسی نے انجام دیا ہے- کیونکہ اس سلسلے میں وارد حدیث تمام محدثین کے نزدیک ضعیف ہے-
(دیکھئے: مجموع فتاوى شیخ الاسلام ابن تیمیہ 23/ 131,133,134واقتضاء الصراط المستقیم 2/628 وفتاوى سید رشید رضا المصری 1/28-30, التحذیرمن البدع ص 16,11)-
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86

پندرہویں شعبان کے میلہ کی چند خرافات ومنکرات


اس طرح کے میلے عموما طرح طرح کی سماجی برائیوں اورشرعی خرافات کا مجمع ثابت ہوتے ہیں جن سے ان میلوں کی انعقاد کی حرمت دوبالا ہوجاتی ہے علامہ ابن الحاج نے ان بدعات وخرافات اوررسومات بد کی ایک مکمل فہرست ترتیب دی ہے جسکاخلاصہ یہاں ہم فائدہ عامہ کے پیش نظردے رہے ہیں تاکہ اللہ ان کے ذریعہ سے خواب غفلت کے شکارمسلمانوں کوبیدارکردے-

1- پندرہویں شعبان کے میلے اوران پراٹھنے والے بے شماراخراجات اورفضول خرچیاں ,جنہیں یہ لوگ دین کے نام پرانجام دیتے ہیں – حالانکہ اسلام ان چیزوں سے بری ہے-

(تفصیل کے لئے دیکھئے السنن والمبتدعات ص 17, بدع القراء لمحمد موسى نصرص 30,الباعث على انکارالبدع والحوادث لأبی شامۃ المقدسی 124 ,الإبداع فی مضارالابتداع لعلى محفوظ ص 286,المدخل لابن الحاج 4/181 )-

2- حلویات اورمٹھائیوں کی ایسی اقسام جن پرمحرم تصویروں کی بہتات ہوتی ہے-

3-شب چراغاں ,موم بتیاں اورطرح طرح کے برقی قمقمے اورانواع واقسام کے ڈیکوریشن کا اہتمام کہ جس پربے شمارمال خرچ ہوتا ہے-اوراگریہ مال وقف کا ہوتوایسا عمل وقف کے ناظرکی امانت ودیانت میں بھی جرح کا موجب بنتا ہے- جبکہ اس طرح کے برقی قمقموں اوردیگرزیبائش وآرائش سے شرپسند بدطینت افراد کوبھی گلچھڑیاں کھلانے کا موقع ملتا ہے,اوریہ عبادت کے مزاج خشوع وخضوع کے بھی خلاف ہے- اوراگراس طرح کی محافل میں دینی سربراہان /ذمہ داران شامل ہوں تویہ اسکی ذات میں جرح کا باعث بنتا ہے الا یہ کہ وہ توبہ کرے- ہاں اگرکوئی انکارمنکرکیلئے حاضرہوا اوراسے اسکی استطاعت بھی ہوتویہ کیا بہترہے-

4-اس طرح کے عرس ومیلوں میں عورتوں کی بے ہنگم حاضری اورجوکچھ فتنے وفسادات اس اختلاط بد کی وجہ سے وجودپذیرہوتے ہیں-

5-اس شب کومساجد میں حاضری اوروہاں جمع ہونا,اوریہ غیر شرعی عبادت ہے-

6- خانقاہوں کے صحنوں میں جوکچھ شامیانے اوردیگرفرش وغیرہ بچھائے جاتے ہیں-

7-انواع واقسام کے کوزے ,اباریق اوردسترخوان وغیرہ کا مساجد وخانقاہوں میں انتظام جیسا کہ یہ مساجد اللہ کے گھرنہ ہوں بلکہ ان کے اپنے گھرہوں,جب کہ مساجد اللہ کی عبادت کی خاطربنائی جاتی ہیں نہ کہ بچھونے فرش ہونے اورکھانے پینے کیلئے-

8-اورانہی بدعات وخرافات میں پانی رساں لوگ بھی ہیں,جوکئی طرح کی برائیوں کا باعث بنتے ہیں,جیسے بیع وشراء ,اسلئے کہ وہ لوگ اپنی سروس اورچیزوں پرپیسے لیتے ہیں,اسی طرح مساجد میں ایسی آوازیں بلند کی جاتی ہیں جونا قوس نصارى کے مشابہ ہوتی ہے- اسی طرح یہ لوگ مساجد کوطرح طرح کی آلودگیوں کا شکارکرتے ہیں ,اسی طرح لوگوں کے سروں کوبھی پھلانگتے رہتے ہیں ,اوریہ سب کی سب انتہائی بری رسمیں ہیں-

9-انکا حلقہ بناکربیٹھنا,اورہرحلقہ کا ایک بڑا مقررکرنا-اوراسی بڑے کی ذکراورقراءت میں اقتداء کرنا- اورکاش یہ ذکراورقراءت ہوتی- لیکن یہ لوگ اللہ کے دین کے ساتھ کھلواڑکرتے ہیں آپ عام طورپراسطرح کے ذکرکرنے والوں کولا الہ الا اللہ کے بجائے للاہ یللہ کہتے ہوئے سنوگے-

جب انہیں سبحان اللہ کہنا ہوتا ہے توسننے والا سنبلہ کے سواکچھ بھی سن نہیں پاتاہے- اورجب اللھم إنی أسئلک الجنة کہنا ہوتا ہے تواللھم انی سلک الجنة کہتے ہیں اسی طرح دوسرے اذکارمیں اسطرح آوازیں نکالتے ہیں کہ سننے والا کچھ بھی سن نہیں پاتا ہے- اورجب قرآن خوانی شروع کرتے ہیں توایسی چیزوں کا اسمیں اضافہ کرتے ہیں جوقرآن کا حصہ ہوتا ہی نہیں ہے- مد میں آٹھ آٹھ دس دس الف بڑھاتے ہیں جوکسی بھی طورپرقرآنی قواعد وضوابط کی موافق نہیں- اورکبھی کبھارقرآن کے اصل میں سے کتنے ہی حروف کوکم کردیتے ہیں- اورقرآنی آیات کی تلاوت اوراسکی تکرارایسی آوازمیں کرتے ہیں جوگانے سے زیادہ مشابہ ہے- جب کہ انکا ایسا کرنا کتنے ہی لوگوں کے لئے سوہان روح بنتا ہے- بیماروں ,طالب علموں کیلئے یہ عمل کتنا ہی مہلک ثابت ہوتا ہے اسکا اندازہ یہ حضرات لگانے سے تہی دامن دکھتےہیں-

10-اس طرح کے میلوں اوراعراس کی ایک برائی یہ بھی ہےکہ اگرایک شخص قراءت قرآن شروع کرتا ہے اوردوسراشعرخوانی کرتا ہے یا شعرخوانی کرنا چاہتا ہے ,تویہ قارئ قرآن کوہی خاموش کرادیتے ہیں یا اسے خاموش کرانے کی کوشش کرتے ہیں-اورایسا اسلئے ہوتا ہےکہ یہ لوگ شعروشاعری اورنغمہ سرائی کی طرف قرآن کی نسبت زیادہ رغبت رکھتے ہیں-پس یہی سب باتیں دین کے ساتھ کھلواڑہیں,اگریہ باتیں مساجد سے باہرانجام دی جائیں توان سے روکنا ضروری ہوگا پھرجب یہ حرکات مساجد کے اندرہوتوپھراسکی شناعت کس قدربڑھ جاتی ہے,اسکا اندازہ لگایا جاسکتا ہے-

11-عرس ومیلوں کی خواہشمند خواتین اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کولے کرحاضرہوجاتی ہیں جن کی وجہ سے مسجد کا آلودہ ہونا یا نجاست کے مسجد میں پڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں-

12-اس شب بہت سی خواتین قبرستانوں کی طرف نکلتی ہیں جب کہ عورتوں کا مقابرکی زیارت شرعا ممنوع ہے- جب کہ ان میں سے بعض خواتین کے ساتھ ڈھول بھی ہوتے ہیں جنہیں وہ بجاتی رہتی ہیں ,جبکہ بعض دیگرخواتین مردوں کی موجودگی میں گاتی پھرتی ہیں, اوروہ بھی بے غیرتوں کی طرح انہیں تاڑتے رہتے ہیں اورایسا اسلئے ہوتا ہے کہ ان عورتوں میں قلت حیاء کی بیماری ہوتی ہے اوراس وجہ سے بھی کہ انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوتا ہے-

13- بعض مرد حضرا ت بھی اس رات قبرستان کی زیارت کیلئے نکلتے ہیں وہ چراغاں کرتے ہیں ,جوقطعی طورپربدعت ہے
,-(دیکھئے:تلبیس ابلیس لابن الجوزی ص 429,المدخل لابن الحاج 1/310,احکام الجنائزللالبانی ص 258,الإبداع فی مضارالابتداع لعلى محفوظ ص 289,الأمرباتباع للسیوطی ص177)-

14-قبرستانوں میں اختلاط مردوزن ,جب کہ عورتوں نے اپنے وجود سے حیاء اوروقارکی پردہ اٹھادیا ہو-

15- قبرستانوں میں اسطرح کی حرکات مزید قباحت کا باعث ہیں جب کہ ان جگہوں پرخوف وفزع اورعبرت پکڑنے کا موقع ہوتا ہے- اورنیک عمل کرنے کا جذبہ پیداکرنے کی یہاں سے تحریک ملنی چاہئےتھی لیکن ہوتا اسکے برعکس ہے-اوراسطرح کے مواقع کویہ لوگ فرحت وسروراورگناہوں کی محافل میں بدل دیتے ہیں-

16- قبرستانوں میں ان امورکی انجام دہی سے مسلم اموات کی توہین ہوتی ہے-

17-بعض لوگ قبروں پرچادریں چڑھاتے ہیں اوربعض نذرانے پیش کرتے ہیں ,میت کے سرہانے لکڑی کا ٹکڑاکھڑا کرتے ہیں اوراسے طرح طرح کے کپڑے پہناتے ہیں-

پس اگروہ میت کوئی بزرگ ہستی یا کوئی عالم ہوتویہ لوگ اسے اپنی مصیبتوں کی داستان سناکرفریاد رسی کرتے ہیں اوراس سے وسیلہ کے طلبگارہوتے ہیں,اوراگروہ اہل وعیال یا اقرباء میں سے ہوتواسکے ساتھ محوگفتگوہوجاتے ہیں اوراسکے مرنے کے بعد کے پیش آمدہ واقعات ومسائل اسے بیان کرتے ہیں – اوراگروہ دلہن یا دولہا ہوتواسے ایسا لباس پہناتے ہیں جووہ خوشی کے موقع پرپہنتے تھے- اوروہاں بیٹھکرآہ وفغاں ,گریہ زاری اورروروکراپنا براحال کرتے ہیں اوران لوگوں کا اس لکڑی کے ٹکڑے کولباس پہنانا بہ ظاہر نصاری کے اس عمل سے مشابہت رکھتا ہے جواپنے بتوں اورتصویروں کولباس پہنواتے ہیں,اورجوکسی قسم کی مشابہت اختیارکرتا ہے وہ ان میں سے ہی ہوتا ہے-

18-مساجد لغو اورباطل کلام کرنا اس طرح کی محافل میں عام سی چیزہے جوانتہائی برامنکرہے-

19-مساجد کوپولیس چوکیوں میں تبدیل کیا جاتا ہے اس حیثیت سے کہ اس طرح کی محافل میں حکمران,گورنر,وزراء,پولیس سربراہان شرکت کرتے ہیں داد فریاد بھی ہوتی ہے شوروغل بلند ہوتا ہے اس حیثیت سے مساجد عبادتگاہ کے بجائے پولیس چھاونی کا منظرپیش کرتی ہے-

20-یہ لوگ اس طرح کی بدعات وخرافات انجام دینے کے بعد یہ اعتقادرکھتے ہیں کہ انہوں نے شعائراللہ کی تعظیم کی اوراس رات کی حرمت کی پاسداری کی اوراس طرح کے اعمال کونیک گردانتے ہیں جب کہ یہ خالص شرکیات,بدعات وخرافات کا مجموعہ ہوتا ہے حقائق کومسخ کردیا جاتا ہے جنون کا نام خردپڑتا ہے اورخرد کا جنون ,عقیدت کے نام محبت کی پینگیں اورمحبت کے نام پرعشق بازی- یہی کچھ اس طرح کی محافل میں دیکھنے کوملتے ہیں اب توعشق کے ماروں کیلئے ملنے کی جگہیں یہی محافل اوراعراس ومیلے بنتے ہیں والعیاذباللہ-

21-پندرہویں شعبان کی شب کی مخصوص دعاء معروف بدعات میں سے ہے یہ وہ دعاء ہے جسمیں یہ لوگ اللہ سے مانگتے ہیں کہ اشقیاء کا نام (ام الکتاب) میں اشقیاء کی لسٹ سے مٹادیا جائے- اوراس دعاء کی عبارت یہ ہے:"


اللهم يا ذالمن ولايمن عليه,يا ذالجلال والإكرام ,يا ذالطول والإنعام ,لا إله إلا أنت ظهراللاجئين,وجارالمستجيرين,وأمان الخائفين,اللهم إن كنت كتبتني عندك في أم الكتاب شقيا أومحروما أومطرودا أومقترا على في الرزق,فامح اللهم بفضلك شقاوتي وحرماني,وطردي وإقتار رزقي,وأثتبتني عندك في أم الكتاب سعيدا مرزوقا موفقا للخيرات ,فإنك قلت وقولك الحق في كتاب المنزل على لسان نبيك المرسل :
(يمحوالله مايشاء ويثبت وعنده أم الكتاب)
(الرعد 39) "
(ديكھئے :بدع القراء لمحمد موسى ص 29 ,الإبداع فی مضارالابتداع ص 153,ورسالة فی فضل لیلة النصف من شعبان لمحمد حسنین مخلوف ص 32-33)-


جبکہ شریعت میں اس دعاء کی کوئی اصل نہیں ہے اورنہ ہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورنہ ہی آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اورنہ ہی سلف صالحین سے اسطرح کی دعا اس شب میں پڑھنا ثابت ہے (دیکھئے:مجلة المنارللشیخ رشید رضا3/667,والسنن والمبتدعات ص 149 والابداع فی مضارالابتداع ص 290)-

یہ لوگ اس دعاء کی قبولیت کے لئے سورہ یاسین کے پڑھنے کو,دعاء سے قبل دو رکعتیں پڑھنے کوشرط قراردیتےہیں ,سورۃ یاسین پھردورکعتیں اورپھریہ دعاء اس شب میں تین دفعہ مانگتے ہیں,پہلی دفعہ میں لمبی عمرکی نیت کرتے ہیں,دوسری دفعہ میں مصیبتوں کے ٹالنے کی اورتیسری دفعہ میں لوگوں سے بے نیازی کی نیت کرتے ہیں,اوریہ گمان کرتے ہیں کہ یہ شعائردینیہ میں سے ہے اورپندرہویں شعبان کی شب کی خصوصیات میں سے ہے- حتى کہ وہ اسکا اہتمام فرائض وواجبات اورسنن سے زیادہ کرتے ہیں,پس آپ اس رات کے غروب کے وقت لوگوں کواس دعاء کے لئے دھکم پیل کرتے ہوئے گرتے پڑتے دیکھیں گے- جب کہ ان میں کتنے ہی تارک صلاۃ ہوتے ہیں اوریہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ دعاء ہرطرح کی کوتاہی کی تلافی کردے گی اورعمرمیں زیادتی ہوگی اوروہ لوگ اس دعاء کے فوت ہونے سے اپنے لئے بدفال لیتے ہیں -پس اس دعا کا اس طرح اس شب میں قائم کرنا اوراسے دین کا ایک شعارماننا دین میں بدترین بدعت ہے- جس سے احترازاورپرہیزانتہائی ضروری ہے-

ملاحظہ: یہاں کوئی یہ گمان نہ کرے کہ ہم دعا کے مخالف ہیں بلکہ دعا عبادت کی روح ہے اورشرعی طورپرہروقت مطلوب ہے لیکن رسول صلى اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق, نہ کہ بدعتی طریقہ کے موافق, اللہ کا تقرب مسنون اعمال سے حاصل ہوسکتا ہے نہ کہ امورمبتدعہ سے- فافہم ولا تکن من القاصرین-

22- اس شب کی خطرناک بدعات میں سے ایک بدعت یہ ہے کہ اس رات چراغاں کا زبردست اہتمام کیا جاتا ہے جگہ جگہ شمعیں جلانا ,قندیلیں روشن کرنا,برقی قمقموں پربے شماراسراف ان لوگوں کی دینی علوم سے بے خبری کی سب سے بڑی علامت ہے- یاد رہے کہ شمعیں جلانا اورقندیلیں روشن کرنا مجوسیوں سے مشابہت کے مترادف ہےکیونکہ وہی لوگ آگ اورروشنی کا اہتمام کرکے اسکی پوجا کرتے ہیں- (دیکھئے الباعث ص 33- 34 اورالبدع الحولیۃ ص 304) جب کہ شعبان میں شمعیں جلانے اورقندیلیں روشن کرنے کا آغازسب سے پہلے برمکیوں نے کیا ہے- (دیکھئے الإبداع فی مضارالابتداع لعلى محفوظ ص 273) برمکیوں میں سے خالد بن برمک بن جاماس بن یشتاسف نے اسکا آغازکیا ہے جبکہ خالد کا باپ برمک بلخ کے مجوسیوں میں سے تھا.(تفصیل کے لئے دیکھئے:البدع الحولیۃ ص 304 معجم البدع ص300 اورالبدایہ والنہایہ لابن کثیر10/215-225 وغیرہ)-

23- پندرہویں شعبان کی شب سورۃ یاسین کی قراءت کا التزام کرنا (دیکھئے بدع القراء لمحمد موسى ص 29,السنن والمبتدعات للشقیری ص 144)-

یہ اوراسطرح کی بے شماربدعات وخرافات اوربے حیائی وبے شرمی کی بیشمار داستانیں اسطرح کی راتوں میں رقم کی جاتی ہیں جن کی وجہ سے اس دن یا شب یہ میلہ منعقد کرنے کی بدعت مزید قباحتوں ,شناعتوں اوربرائیوں کا باعث بن جاتی ہے-

لہذا مسلمانان عالم کواس برے مفاسد کومد نظررکھتے ہوئے فوراَ اسے بیشتراسطرح کی بدعات ورسومات بد سے توبہ کرکے توحید وسنت کے گلستان میں واپس آنا چاہئے تاکہ قیامت کے روز رسول اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے حوض کوثرکے جام نصیب ہوسکیں اورانکی شفاعت کی امید رکھی جائے اوریہ سب تبھی ممکن ہے ,جب ایک انسان مکمل طورپرآپکی سنت کا پابند ہو-

اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کوقرآن وسنت کی توفیق ارزانی نصیب فرمائے - اورامت مسلمہ کی فتح ونصرت سے سرفرازکرے- آمین.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
جزاکم اللہ تعالی خیر الجزاء
بہت ضروری موضوع پر ۔۔آپ نے بہت مفید مضمون پیش فرمایا ؛
اللہ تعالی سب کو اس سے استفادہ کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
 

ارشد

رکن
شمولیت
دسمبر 20، 2011
پیغامات
44
ری ایکشن اسکور
150
پوائنٹ
66
پندرہویں شعبان کی رات سے متعلق احادیث:

اس سلسلے میں جتنی بھی احادیث ہیں وہ ضعف اوروضع سے خالی نہیں صرف ایک حدیث ہے جوگرچہ طعن سے خالی نہیں مگرعلامہ البانی کے نزدیک اس کے سارے طرق ملانے کے بعد درجہ صحت کوپہونچتی ہے –وہ حدیث یہ ہے-

1-حدثنا راشد بن سعيد بن راشد الرملي حدثنا الوليد عن ابن لهيعة عن الضحاك بن ايمن عن الضحاك بن عبد الرحمن بن عرزب عن ابي موسى الاشعري عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:‏‏‏‏"إن الله ليطلع في ليلة النصف من شعبان فيغفر لجميع خلقه إلا لمشرك او مشاحن".

(رواه ابن ماجة في سننه:كتاب إقامة الصلاة1/455 برقم 1390,وابن أبي عاصم في السنة ص 223 برقم 510, واللالكائي في شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة برقم 763من طريق ابن لهيعة عن الزبيربن سليم عن الضحاك بن عبد الرحمن عن أبيه عن أبي موسى به-
وقال الألباني رحمه الله: "وهذا اسناد ضعيف من أجل ابن لهيعة وعبد الرحمن وهو ابن عزوب والد الضحاك مجهول,وأسقطه ابن ماجة في رواية له عن ابن لهيعة" انظرسلسلة الصحيحة3/136 تحت رقم 1144)-


"حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"اللہ تعالى پندرہویں شب مطلع ہوتے ہیں اوراپنی ساری مخلوق ماسوائے مشرک اوربغض رکھنے والے کی مغفرت فرماتے ہیں-
جبکہ یہی حدیث معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے- دیکھئے:
صحیح ابن حبان:کتاب الحظروالإباحة ,باب ماجاء فی التباغض والتحاسد والتنابز 12/ 184 برقم5656,وابن ابي عاصم في السنة ص 224 برقم 512,والطبراني في المعجم الكبير20/108-109 برقم 215,نيزديکھئے طبرانی کی ہی مسند الشامین زیرنمبر205, وابونعیم فی حلیۃ الأولیاء 5/191-

امام البانی رحمہ اللہ نے "السنة" ص 224میں فرمایا:"حدیث صحیح,ورجاله موثوقون,لکنه منقطع بین مکحول ومالک بن یخامرولولا ذلک لکان الإسنادحسنا,ولکنه صحیح بشواهدہ المتقدمة" یہ حدیث صحیح ہے - اسکے رواۃ توثیق شدہ ہیں ,لیکن اسمیں مکحول اورمالک بن یخامرکے درمیان سند میں انقطاع ہے- ورنہ سند حسن ہوتی - لیکن یہ دوسرے شواہد کی وجہ سے صحیح ہے" علامہ البانی نے ایسا ہی کلام سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ 3/135میں بھی ذکرکیا ہے-

اس حدیث کواگرصحیح لغیرہ بھی مان لیا جائے لیکن اسمیں پندرہویں شب کی فضیلت دوسری راتوں کے مقابلے میں بالکل ثابت نہیں ہوتی ہے- اسلئے کہ صحیحین کی حدیث کے مطابق ایسا بلکہ اس سے زیادہ فضیلت ہررات کی توبہ واستغفارکوحاصل ہے- چنانچہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
(ينزل ربنا تبارك وتعالى كل ليلة إلى سماء الدنيا حين يبقى ثلث الليل الآخريقول:من يدعوني فأستجيب له,من يسألني فأعطيه ,من يستغفرني فأغفرله "-
(اخرجه البخاري في صحيحه :كتاب التهجد 3/29 برقم 1145,ومسلم في صحيحه :كتاب صلاة المسافرين 1/125 برقم 758)-

همارے رب تبارک وتعالى ہرشب کی آخری تہائی میں نچلے آسمان پرنزول فرماتے ہیں ,اورفرماتے ہیں :"کون میرے دربارمیں دعا گوہےکہ میں اسکی قبولیت کا پروانہ لکھوں,کون ہے جو مجھ سے مانگے کہ میں اسے عطا کروں ,کون ہے جومجھ سے مغفرت طلب کرے کہ میں اسکی مغفرت کروں" – پس رب کریم کا نزول ,اپنی مخلوقات پرمطلع ہونا اورانکی مغفرت کسی معینہ رات پرہی موقوف نہیں - بلکہ یہ ہرشب ہوتا ہے توپھرپندرہویں شب کی فضیلت میں اس حدیث کوپیش کرنا کسی خصوصی فضیلت کا باعث نہیں.-
 
Top