محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
وَقُلْنَا يٰٓاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّۃَ وَكُلَا مِنْہَا رَغَدًا حَيْثُ شِـئْتُمَـا۰۠ وَلَا تَـقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِــمِيْنَ۳۵
قرآن حکیم، انسانی خلافت، انسانی علم کے بعد پہلے انسان کے لیے جو جگہ تجویز فرماتا ہے وہ جنت ہے ۔ یعنی رضائے الٰہی کاآخری مظہر۔ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ انسان کی اصلی جگہ جنت ہے ۔فطرت نے پیدا اسے اس لیے کیا ہے کہ وہ بارگاہِ رحمت وفیض میں عیش وخلود کی زندگی بسر کرے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے کہ تم یہیں رہو مگر اس درخت کو استعمال میں نہ لانا ورنہ رحمت باری سے دور ہوجاؤ گے اور تمھیں کچھ عرصے کے لیے اپنے اصلی مقام سے الگ رہنا پڑے گا۔
یہ قید اس لیے لگادی تاکہ آدم علیہ السلام کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ بعض افعال کے ارتکاب سے ناراض ہوجاتا ہے ۔ اس کا خیال رہے۔ یہی مطلب ہے اس حدیث کا۔ ان الجنۃ حفت بالمکارہ کہ جنت میں آدمی ابتلاء وآزمائش میں پورا اترنے کے بعد جاسکتا ہے ۔
ان سب آیات سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کا جو مرتبہ قرآن نے بیان کیا ہے وہ دنیا کی کسی کتاب میں مذکور نہیں۔ قرآن کہتا ہے ۔ پہلا انسان اللہ کا نائب ہے ۔ عالم اشیاء وحقائق ہے ۔ مکین جنت وفردوس ہے اور ساری کائنات کا مرکز مقصود ہے ۔ فرشتوں کا مسجود ہے ۔
۲؎ آدم علیہ السلام بوجہ بشریت شیطان کے بھرے میں آگیے اور درخت کے متعلق انھیں غلط فہمی ہوگئی۔ وہ نیک نیتی کے ساتھ یہ سمجھے کہ خدا کا منشاء کسی خاص درخت سے ممانعت کرنا ہے ۔ حالانکہ خدا کا منشاء مطلقاً اس نوع کے اشجار سے روکنا تھا۔
چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کی نیک نیتی پر خدانے شہادت دی۔ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا۔ اس لیے یہ لغزش محض منشاء یا مفہوم کے اعتبار سے ہے ۔ الفاظ کی مخالفت نہیں۔
{رَغَداً} فراوانی۔ بے کھٹکے۔ {اَلشَّجَرَۃَ} درخت۔ عربی میں جھگڑنے کے معنی ہیں۔ شجرۃ بالتاء استعمال نہیں ہوتا۔
اور ہم نے آدم (علیہ السلام) سے کہا کہ تو اور تیری جوبہشت۱؎ میں رہ اور تم دونوں اس میں جہاں چاہو بافراغت (محفوظ) کھاؤ۔ لیکن تم دونوں اس درخت کے پاس۲؎نہ جانا ورنہ تم دونوں ظالم (گناہ گار یا بے انصاف) ہوجاؤگے۔ (۳۵)
۱؎ پہلے انسان کی پہلی جگہ
یہ قید اس لیے لگادی تاکہ آدم علیہ السلام کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ بعض افعال کے ارتکاب سے ناراض ہوجاتا ہے ۔ اس کا خیال رہے۔ یہی مطلب ہے اس حدیث کا۔ ان الجنۃ حفت بالمکارہ کہ جنت میں آدمی ابتلاء وآزمائش میں پورا اترنے کے بعد جاسکتا ہے ۔
ان سب آیات سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کا جو مرتبہ قرآن نے بیان کیا ہے وہ دنیا کی کسی کتاب میں مذکور نہیں۔ قرآن کہتا ہے ۔ پہلا انسان اللہ کا نائب ہے ۔ عالم اشیاء وحقائق ہے ۔ مکین جنت وفردوس ہے اور ساری کائنات کا مرکز مقصود ہے ۔ فرشتوں کا مسجود ہے ۔
۲؎ آدم علیہ السلام بوجہ بشریت شیطان کے بھرے میں آگیے اور درخت کے متعلق انھیں غلط فہمی ہوگئی۔ وہ نیک نیتی کے ساتھ یہ سمجھے کہ خدا کا منشاء کسی خاص درخت سے ممانعت کرنا ہے ۔ حالانکہ خدا کا منشاء مطلقاً اس نوع کے اشجار سے روکنا تھا۔
چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کی نیک نیتی پر خدانے شہادت دی۔ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا۔ اس لیے یہ لغزش محض منشاء یا مفہوم کے اعتبار سے ہے ۔ الفاظ کی مخالفت نہیں۔
حل لغات