• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پیغام قرآن: سولہویں پارے کے مضامین

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


پیغام قرآن

سولہویں پارہ کے مضامین

مؤلف : یوسف ثانی، مدیر اعلیٰ پیغام قرآن ڈاٹ کام









یوسف ثانی بھائی کے شکریہ کے ساتھ کہ انہوں نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان پیج فائلز مہیا کیں۔
احباب سے درخواست ہے کہ کہیں ٹائپنگ یا گرامر کی کوئی غلطی پائیں تو ضرور بتائیں۔ علمائے کرام سے گزارش ہے کہ ترجمے کی کسی کوتاہی پر مطلع ہوں تو ضرور یہاں نشاندہی کریں تاکہ یوسف ثانی بھائی کے ذریعے آئندہ ایڈیشن میں اصلاح کی جا سکے۔
پی ڈی ایف فائلز کے حصول کے لئے ، وزٹ کریں:
Please select from ::: Piagham-e-Quran ::: Paigham-e-Hadees


 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
قال الم کے مضامین


۱۔ موسیٰؑ کوخضر کی وضاحت
۲۔ ذوالقرنین کاکالے پانی تک پہنچنا
۳۔یاجوج ماجوج سے بچاؤ کے لیے آہنی بند
۴۔جب صور پھونکا جائے گا
۵۔ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں ؟
۶۔سمندر بھر روشنائی بھی ناکافی ہے
۷۔زکریاؑ کوبڑھاپے میں اولاد کی خوشخبری
۸۔کنواری مریم کو بیٹے کی بشارت
۹۔ حوصلہ دینا فرشتے کا،غمزدہ مریم کو
۱۰۔گہوارے میں عیسیٰؑ کا لوگوں سے بات کرنا
۱۱۔ عیسٰیؑ ابنِ مریم اللہ کے بیٹے نہیں
۱۲۔ابراہیمؑ کا اپنے مشرک باپ سے مکالمہ
۱۳۔ذکرِ موسٰیؑ ، ہارو نؑ ، اسماعیلؑ اور ادریسؑ
۱۴۔ توبہ کر کے ایمان لانا اورنیک عمل کرنا
۱۵۔اللہ بھولنے والا نہیں ہے
۱۶۔حیات بعدموت سے انکار کرنے والے
۱۷۔ منکرینِ حق کی شاندار مجلسوں کی حقیقت
۱۸۔ سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا
۱۹۔منکرینِ حق کو شیاطین اکساتے ہیں
۲۰۔رحمن نے بیٹا بنایا کہنا سخت لغو بات ہے
۲۱۔ قرآن کو آسان زبان میں نازل کیا گیا
۲۲۔ متقی لوگوں کے لیے قرآن یاد دہانی ہے
۲۳۔ موسیٰؑ آگ لینے گئے، نبوت مل گئی
۲۴۔ عصائے موسیٰؑ کا سانپ بننے کا معجزہ
۲۵۔ کارِ نبوت :بھائی کی شرکت کی درخواست
۲۶۔صندوق میں ڈال کر دریا میں ڈالا جانا
۲۷۔سرکش فرعون کے پاس موسیٰؑ کو بھیجا جانا
۲۸۔ موسیٰؑ کا فرعون سے مکالمہ
۲۹۔ فرعون کا حق کو جھٹلانا اور مقابلہ پر آنا
۳۰۔عصائے موسیٰؑ نے جادوگروں کو ہرا دیا
۳۱۔جادوگروں کا موسٰیؑ کے رب پر ایمان لانا
۳۲۔ فرعون کا سمندر میں غرق ہونا
۳۳۔قومِ موسیٰؑ کا بچھڑے کو خدا بنا لینا
۳۴۔ موسیٰؑ کا سامری جادوگر کو اللہ سے ڈرانا
۳۵۔روزِ حشر دنیوی زندگی ایک روزہ لگے گی
۳۶۔پہاڑ دھول بن کر اڑ جائیں گے
۳۷۔قرآن میں طرح طرح کی تنبیہات ہیں
۳۸۔قیامت میں گمراہوں کو اندھا اٹھا یا جائیگا
۳۹۔دنیا کی شان و شوکت آزمائش ہے
۴۰۔ ہر ایک انجام کار کے انتظار میں ہے
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۱۔ موسیٰؑ کوخضر کی وضاحت
اس نے کہا’’میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تُم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے‘‘؟ موسٰیؑ نے کہا ’’اس کے بعد اگر میں آپ سے کچھ پوچھوں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھیں ۔ لیجئے، اب تو میری طرف سے آپ کو عذر مل گیا‘‘۔پھر وہ آگے چلے یہاں تک کہ ایک بستی میں پہنچے اور وہاں کے لوگوں سے کھانا مانگامگر انہوں نے ان دونوں کی ضیافت سے انکار کردیا۔ وہاں انہوں نے ایک دیوار دیکھی جو گرا چاہتی تھی۔ اُس شخص نے اس دیوار کو پھر قائم کردیا۔ موسٰیؑ نے کہا ’’اگر آپ چاہتے تو اس کام کی اجرت لے سکتے تھے‘‘۔ اس نے کہا ’’بس میرا تمہارا ساتھ ختم ہوا۔ اب میں تمہیں اُن باتوں کی حقیقت بتاتا ہوں جن پر تم صبر نہ کرسکے۔ اُس کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چند غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدوری کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کردوں ، کیونکہ آگے ایک ایسے بادشاہ کا علاقہ تھا جو ہر کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا۔رہا وہ لڑکا، تو اس کے والدین مومن تھے، ہمیں اندیشہ ہواکہ یہ لڑکا اپنی سرکشی اور کفر سے ان کو تنگ کرے گا۔ اس لیے ہم نے چاہا کہ ان کا رب اس کے بدلے ان کو ایسی اولاد دے جو اخلاق میں بھی اس سے بہتر ہو اور جس سے صلہ رحمی بھی زیادہ متوقع ہو۔ اور اس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ یہ دو یتیم لڑکوں کی ہے جو اس شہر میں رہتے ہیں ۔ اس دیوار کے نیچے ان بچوں کے لیے ایک خزانہ مدفون ہے اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا اس لیے تمہارے رب نے چاہا کہ یہ دونوں بچے بالغ ہوں اور اپنا خزانہ نکال لیں ۔ یہ تمہارے رب کی رحمت کی بنا پرکیاگیا ہے، میں نے کچھ اپنے اختیار سے نہیں کردیا ہے۔ یہ ہے حقیقت ان باتوں کی جن پر تم صبر نہ کرسکے‘‘۔ (سورۃ الکھف…۸۲)

۲۔ ذوالقرنین کاکالے پانی تک پہنچنا
اور اے نبی ﷺ، یہ لوگ تم سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ ان سے کہو، میں اس کا کچھ حال تم کو سُناتا ہوں ۔ہم نے اُس کو زمین میں اقتدار عطا کررکھا تھا اور اسے ہر قسم کے اسباب و وسائل بخشے تھے۔ اس نے (پہلے مغرب کی طرف ایک مہم کا) سروسامان کیا۔ حتیٰ کہ جب وہ غروبِ آفتاب کی حد تک پہنچ گیا تو اس نے سورج کو ایک کالے پانی میں ڈوبتے دیکھا اوروہاں اسے ایک قوم ملی۔ ہم نے کہا، ’’اے ذوالقرنین، تجھے یہ مقدرت بھی حاصل ہے کہ ان کو تکلیف پہنچائے اور یہ بھی کہ ان کے ساتھ نیک رویہ اختیار کرے‘‘۔ اس نے کہا، ’’جو ان میں سے ظلم کرے گا ہم اس کو سزا دیں گے، پھر وہ اپنے رب کی طرف پلٹایا جائے گا اور وہ اسے اور زیادہ سخت عذاب دے گا۔ اور جو ان میں سے ایمان لائے گا، اور نیک عمل کرے گا، اس کے لیے اچھی جزا ہے اور ہم اُس کو نرم احکام دیں گے‘‘۔ (سورۃ الکھف…۸۸)

۳۔یاجوج ماجوج سے بچاؤ کے لیے آہنی بند
پھر اُس نے (ایک دوسری مہم کی) تیاری کی یہاں تک کہ طلوع آفتاب کی حد تک جاپہنچا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ سورج ایک ایسی قوم پر طلوع ہورہا ہے جس کے لیے دُھوپ سے بچنے کا کوئی سامان ہم نے نہیں کیا ہے۔ یہ حال تھا اُن کا، اور ذوالقرنین کے پاس جو کچھ تھا اُسے ہم جانتے تھے۔پھر اُس نے (ایک اور مہم کا) سامان کیا یہاں تک کہ جب دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا تو اسے ان کے پاس ایک قوم ملی جو مشکل ہی سے کوئی بات سمجھتی تھی۔ ان لوگوں نے کہا کہ’’اے ذوالقرنین، یاجوج اور ماجوج اس سرزمین میں فساد پھیلاتے ہیں ، تو کیا ہم تجھے کوئی ٹیکس اس کا م کے لیے دیں کہ تو ہمارے اور ان کے درمیان ایک بند تعمیر کردے؟‘‘اس نے کہا، ’’جو کچھ میرے رب نے مجھے دے رکھا ہے وہ بہت ہے۔تم بس محنت سے میری مدد کرو۔ میں تمہارے اور ان کے درمیان بند بنائے دیتا ہوں ۔ مجھے لوہے کی چادریں لادو‘‘۔ آخر جب دونوں کے درمیان خلا کو اس نے پاٹ دیا تو لوگوں سے کہا اب آگ دہکاؤ۔ حتیٰ کہ جب (یہ آہنی دیوار) بالکل آگ کی طرح سرخ کردی تواس نے کہا’’لاؤ اب میں اس پر پگھلا ہوا تانبا انڈیلوں گا‘‘۔ (یہ بند ایسا تھا کہ) یاجوج و ماجوج اس پر چڑھ کر بھی نہ آسکتے تھے اوراس میں نقب لگانا ان کے لیے اور بھی مشکل تھا۔ ذوالقرنین نے کہا ’’یہ میرے رب کی رحمت ہے۔ مگر جب میرے رب کے وعدے کا وقت آئے گا تو وہ اس کو پیوندِ خاک کردے گا، اورمیرے رب کا وعدہ برحق ہے‘‘۔ (سورۃ الکھف…۹۸)

۴۔جب صور پھونکا جائے گا
اور اس روز ہم لوگوں کو چھوڑ دیں گے کہ (سمندر کی موجوں کی طرح) ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوں اور صُور پُھونکا جائے گا اور ہم سب انسانوں کو ایک ساتھ جمع کریں گے اور وہ دن ہوگا جب ہم جہنم کو کافروں کے سامنے لائیں گے، اُن کافروں کے سامنے جو میری نصیحت کی طرف سے اندھے بنے ہوئے تھے اورکچھ سننے کے لیے تیار ہی نہ تھے۔ (سورۃ الکھف…۱۰۱)

۵۔ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں ؟
توکیا یہ لوگ، جنہوں نے کفر اختیار کیا ہے، یہ خیال رکھتے ہیں کہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو اپنا کارساز بنالیں ؟ ہم نے ایسے کافروں کی ضیافت کے لیے جہنم تیار کررکھی ہے۔ اے نبیﷺ! ان سے کہو، کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں ؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کررہے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اُ س کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا۔ اس لیے ان کے سارے اعمال ضائع ہوگئے، قیامت کے روز ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے۔ ان کی جزا جہنم ہے اس کفر کے بدلے جو انہوں نے کیا اور اس مذاق کی پاداش میں جو وہ میری آیات اورمیرے رسولوں کے ساتھ کرتے رہے۔ البتہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے، ان کی میزبانی کے لیے فردوس کے باغ ہوں گے جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور کبھی اس جگہ سے نکل کر کہیں جانے کو ان کا جی نہ چاہے گا۔ (سورۃ الکھف…۱۰۸)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۶۔سمندر بھر روشنائی بھی ناکافی ہے
اے نبی ﷺ، کہوکہ اگر سمندرمیرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے روشنائی بن جائے تو وہ ختم ہوجائے مگر میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں ، بلکہ اگر اتنی ہی روشنائی ہم اور لے آئیں تو وہ بھی کفایت نہ کرے۔ اے نبی ﷺ، کہو کہ میں تو ایک انسان ہوں تم ہی جیسا، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔ (سورۃ الکھف…۱۱۰)

۷۔زکریاؑ کوبڑھاپے میں اولاد کی خوشخبری
سورۂ مریم : اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔ ک، ہ، ی، ع، ص۔ ذکر ہے اُس رحمت کا جو تیرے رب نے اپنے بندے زکریاؑ پر کی تھی،جبکہ اس نے اپنے رب کو چُپکے چُپکے پکارا۔اُس نے عرض کیا ’’اے پروردگار، میری ہڈیاں تک گھل گئی ہیں اور سر بڑھاپے سے بھڑک اٹھا ہے۔ اے پروردگار، میں کبھی تجھ سے دعا مانگ کر نامراد نہیں رہا۔ مجھے اپنے پیچھے اپنے بھائی بندوں کی بُرائیوں کا خوف ہے، اورمیری بیوی بانجھ ہے۔ تومجھے اپنے فضلِ خاص سے ایک وارث عطا کردے جو میرا وارث بھی ہو اور آلِ یعقوبؑ کی میراث بھی پائے، اور اے پروردگار، اُس کو ایک پسندیدہ انسان بنا‘‘۔ (جواب دیاگیا) ’’اے زکریاؑ، ہم تجھے ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہوگا۔ ہم نے اس نام کا کوئی آدمی اس سے پہلے پیدا نہیں کیا‘‘۔ عرض کیا، ’’پروردگار، بھلا میرے ہاں کیسے بیٹا ہوگا جبکہ میری بیوی بانجھ ہے اورمیں بوڑھا ہوکر سوکھ چکا ہوں ؟‘‘ جواب ملا ’’ایسا ہی ہوگا۔تیرا رب فرماتا ہے کہ یہ تو میرے لیے ایک ذرا سی بات ہے، آخراس سے پہلے میں تجھے پیدا کرچکا ہوں جبکہ تو کوئی چیز نہ تھا، زکریا نے کہا، ’’پروردگار، میرے لیے کوئی نشانی مقرر کردے‘‘۔ فرمایا ’’تیرے لیے نشانی یہ ہے کہ تو پیہم تین دن لوگوں سے بات نہ کرسکے‘‘۔ چنانچہ وہ محراب سے نکل کر اپنی قوم کے سامنے آیا اور اس نے اشارے سے ان کو ہدایت کی کہ صبح و شام تسبیح کرو۔’’اے یحییٰ، کتاب ِالٰہی کو مضبوط تھام لے‘‘۔ہم نے اُسے بچپن ہی میں ’’حکم‘‘ سے نوازا، اورا پنی طرف سے اس کو نرم دلی اور پاکیزگی عطا کی، اور وہ بڑا پرہیزگار اوراپنے والدین کا حق شناس تھا۔ وہ جبارنہ تھا اور نہ نافرمان۔ سلام اُس پر جس روز کہ وہ پیدا ہوا اور جس دن وہ مرے اور جس روز وہ زندہ کرکے اٹھایا جائے۔(سورۃ مریم…۱۵)

۸۔کنواری مریم کو بیٹے کی بشارت
اور اے نبی ﷺ، اس کتاب میں مریم کا حال بیان کرو، جبکہ وہ اپنے لوگوں سے الگ ہوکر شرقی جانب گوشہ نشین ہوگئی تھی اور پردہ ڈال کر اُن سے چھپ بیٹھی تھی۔ اس حالت میں ہم نے اس کے پاس اپنی روح کو (یعنی فرشتے کو) بھیجا اور وہ اس کے سامنے ایک پورے انسان کی شکل میں نمودار ہوگیا۔مریم یکایک بول اٹھی کہ ’’اگر تو کوئی خداترس آدمی ہے تو میں تجھ سے خدائے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں ‘‘۔ اس نے کہا ’’میں تو تیرے رب کا فرستادہ ہوں اوراس لیے بھیجا گیا ہوں کہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا دُوں ‘‘۔ مریم نے کہا ’’میرے ہاں کیسے لڑکا ہوگا جبکہ مجھے کسی بشر نے چُھوا تک نہیں ہے اور میں کوئی بدکار عورت نہیں ہوں ‘‘۔ فرشتے نے کہا ’’ایسا ہی ہوگا، تیرا رب فرماتا ہے کہ ایسا کرنا میرے لیے بہت آسان ہے اور ہم یہ اس لیے کریں گے کہ اس لڑکے کو لوگوں کے لیے ایک نشانی بنائیں اور اپنی طرف سے ایک رحمت۔ اور یہ کام ہوکر رہنا ہے‘‘۔ (سورۃ مریم…۲۱)

۹۔ حوصلہ دینا فرشتے کا،غمزدہ مریمؑ کو
مریمؑ کو اس بچے کا حمل رہ گیا اور وہ اس حمل کو لیے ہوئے ایک دُور کے مقام پر چلی گئی پھر زچگی کی تکلیف نے اُسے ایک کھجور کے درخت کے نیچے پہنچا دیا۔ وہ کہنے لگی ’’کاش میں اس سے مرجاتی اور میرا نام و نشان نہ رہتا‘‘۔ فرشتے نے پائینتی سے اس کو پکارکر کہا ’’غم نہ کر۔ تیرے رب نے تیرے نیچے ایک چشمہ رواں کردیا ہے اور تو ذرا اس درخت کے تنے کو ہلا، تیرے اوپر تروتازہ کھجوریں ٹپک پڑیں گی۔ پس تو کھا اور پی اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر۔ پھر اگر کوئی آدمی تجھے نظر آئے تو اسے کہہ دے کہ میں نے رحمان کے لیے روزے کی نذر مانی ہے، اس لیے آج میں کسی سے نہ بولوں گی‘‘۔ (سورۃ مریم…۲۶)

۱۰۔گہوارے میں عیسیٰؑ کا لوگوں سے بات کرنا
پھر وہ اس بچے کو لیے ہوئے اپنی قوم میں آئی۔ لوگ کہنے لگے ’’اے مریمؑ ، یہ تو تُو نے بڑا پاپ کر ڈالا۔ اے ہارون کی بہن، نہ تیرا باپ کوئی بُرا آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی کوئی بدکار عورت تھی‘‘۔ مریم نے بچے کی طرف اشارہ کردیا۔ لوگوں نے کہا ’’ہم اس سے کیا بات کریں جو گہوارے میں پڑا ہوا ایک بچہ ہے؟‘‘بچہ بول اٹھا ’’میں اللہ کا بندہ ہوں ۔ اس نے مجھے کتاب دی، اور نبی بنایا، اور بابرکت کیا جہاں بھی میں رہوں ، اور نماز اورزکوٰۃ کی پابندی کا حکم دیا جب تک میں زندہ رہوں ، اور اپنی والدہ کا حق ادا کرنے والا بنایا، اورمجھ کو جبار اور شقی نہیں بنایا۔ سلام ہے مجھ پر جبکہ میں پیدا ہوا اور جبکہ میں مروں اور جبکہ زندہ کرکے اٹھایاجاؤں ‘‘۔ (سورۃ مریم…۳۳)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۱۱۔ عیسٰیؑ ابنِ مریم اللہ کے بیٹے نہیں
یہ ہے عیسٰیؑ ابنِ مریم اور یہ ہے اس کے بارے میں سچی بات جس میں لوگ شک کررہے ہیں ۔ اللہ کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔وہ پاک ذات ہے۔وہ جب کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ہوجا،اور بس وہ ہوجاتی ہے۔(اور عیسٰیؑ نے کہا تھا کہ) ’’اللہ میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی، پس تم اُسی کی بندگی کرو،یہی سیدھی راہ ہے‘‘۔ مگر پھر مختلف گروہ باہم اختلاف کرنے لگے۔سو جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لیے وہ وقت بڑی تباہی کا ہوگا جب کہ وہ ایک بڑا دن دیکھیں گے۔جب وہ ہمارے سامنے حاضر ہوں گے اس روز تو ان کے کان بھی خوب سُن رہے ہوں گے اور اُن کی آنکھیں بھی خوب دیکھتی ہوں گی، مگر آج یہ ظالم کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں ۔اے نبی ﷺ، اس حالت میں جبکہ یہ لوگ غافل ہیں اور ایمان نہیں لارہے ہیں ، انہیں اُس دن سے ڈرادو جبکہ فیصلہ کردیا جائے گا اور پچھتاوے کے سوا کوئی چارۂ کار نہ ہوگا۔ آخرکار ہم ہی زمین اور اس کی ساری چیزوں کے وارث ہوں گے اور سب ہمارے طرف ہی پلٹائے جائیں گے۔(سورۃ مریم…۴۰)

۱۲۔ابراہیمؑ کا اپنے مشرک باپ سے مکالمہ
اور اس کتاب میں ابراہیمؑ کا قصہ بیان کرو، بے شک وہ ایک راست باز انسان اور ایک نبی تھا۔(انہیں ذرا، اس موقع کی یاد دلاؤ) جبکہ اس نے اپنے باپ سے کہاکہ ’’اباجان، آپ کیوں ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ سُنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کا کوئی کام بناسکتی ہیں ؟ اباجان، میرے پاس ایک ایسا علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا، آپ میرے پیچھے چلیں ، میں آپ کو سیدھا راستہ بتاؤں گا۔ اباجان، آپ شیطان کی بندگی نہ کریں ، شیطان تو رحمن کا نافرمان ہے۔ اباجان، مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ رحمن کے عذاب میں مُبتلا نہ ہوجائیں اور شیطان کے ساتھی بن کر رہیں ‘‘۔ باپ نے کہا، ’’ابراہیمؑ ، کیا تومیرے معبودوں سے پھر گیا ہے؟ اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسارکردوں گا۔ بس تو ہمیشہ کے لیے مجھ سے الگ ہوجا‘‘۔ ابراہیمؑ نے کہا ’’سلام ہے آپ کو۔ میں اپنے رب سے دعا کروں گا کہ آپ کو معاف کردے، میرا رب مجھ پر بڑا ہی مہربان ہے۔ میں آپ لوگوں کو بھی چھوڑتا ہوں اور ان ہستیوں کو بھی جنہیں آپ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہیں ۔ میں تو اپنے رب ہی کو پکاروں گا، امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکار کرنا مرادنہ رہوں گا‘‘۔ پس جب وہ ان لوگوں سے اور ان کے معبودانِ غیراللہ سے جدا ہوگیا تو ہم نے اس کو اسحاقؑ اور یعقوبؑ جیسی اولاد دی اور ہر ایک کو نبی بنایا اور ان کو اپنی رحمت سے نوازا اور ان کو سچی نام وری عطا کی۔ (سورۃ مریم…۵۰)

۱۳۔ذکرِ موسٰیؑ ، ہارو نؑ ، اسماعیلؑ اور ادریسؑ
اور ذکر کرو اس کتاب میں موسٰیؑ کا۔وہ ایک چیدہ شخص تھا اور رسول نبی تھا۔ ہم نے اُس کو طُور کے داہنی جانب سے پکارا اور راز کی گفتگو سے اس کو تقرب عطا کیا، اوراپنی مہربانی سے اس کے بھائی ہارونؑ کو نبی بناکر اسے (مددگار کے طور پر) دیا۔اور اس کتاب میں اسماعیلؑ کا ذکر کرو۔ وہ وعدے کا سچا تھا اور رسول نبی تھا۔ وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا اور اپنے رب کے نزدیک ایک پسندیدہ انسان تھا۔اور اس کتاب میں ادریسؑ کا ذکر کرو۔ وہ ایک راست باز انسان اور ایک نبی تھا۔ اور اسے ہم نے بلند مقام پر اٹھایا تھا۔یہ وہ پیغمبر ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا آدمؑ کی اولاد میں سے، اور اُن لوگوں کی نسل سے جنہیں ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی پرسوار کیا تھا، اور ابراہیم کی نسل سے اور اسرائیل کی نسل سے۔اور یہ اُن لوگوں میں سے تھے جن کو ہم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ کیا۔ان کا حال یہ تھا کہ جب رحمن کی آیات ان کو سنائی جاتیں تو روتے ہوئے سجدے میں گرجاتے تھے۔ (سورۃ مریم…۵۸)

۱۴۔ توبہ کر کے ایمان لانا اورنیک عمل کرنا
پھر ان کے بعد وہ ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کی، پس قریب ہے کہ وہ گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں ۔البتہ جو توبہ کرلیں اور ایمان لے آئیں اورنیک عملی اختیار کرلیں وہ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرہ برابر حق تلفی نہ ہوگی۔ ان کے لیے ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن کا رحمن نے اپنے بندوں سے درپردہ وعدہ کررکھا ہے اور یقینا یہ وعدہ پورا ہوکر رہنا ہے۔وہاں وہ کوئی بیہودہ بات نہ سنیں گے، جو کچھ بھی سنیں گے ٹھیک ہی سنیں گے۔ اور ان کا رزق انہیں پیہم صبح و شام ملتا رہے گا۔ یہ ہے وہ جنت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اس کو بنائیں گے جو پرہیزگار رہاہے۔ (سورۃ مریم…۶۳)

۱۵۔اللہ بھولنے والا نہیں ہے
اے نبی ﷺ، ہم تمہارے رب کے حکم کے بغیر نہیں اترا کرتے۔جو کچھ ہمارے آگے ہے اورجو کچھ پیچھے ہے اور جو کچھ اس کے درمیان ہے ہرچیزکا مالک وہی ہے اور تمہارا رب بھولنے والا نہیں ہے۔وہ رب ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور ان ساری چیزوں کا جو آسمانوں اور زمین کے درمیان ہیں ، پس تم اس کی بندگی کرو اور اُسی کی بندگی پر ثابت قدم رہو۔ کیا ہے کوئی ہستی تمہارے علم میں اس کی ہم پایہ؟ (سورۃ مریم…۶۵)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۱۶۔حیات بعدموت سے انکار کرنے والے
انسان کہتا ہے کیا واقعی جب میں مرچکوں گا تو پھر زندہ کرکے نکال لایا جاؤں گا؟ کیا انسان کو یاد نہیں آتا کہ ہم پہلے اس کو پیدا کرچکے ہیں جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھا؟تیرے رب کی قسم، ہم ضرور ان سب کو اور ا ن کے ساتھ شیاطین کو بھی گھیر لائیں گے، پھر جہنم کے گرد لاکر انہیں گھٹنوں کے بل گرادیں گے، پھر وہ ہرگروہ میں سے ہر اس شخص کو چھانٹ لیں گے جو رحمن کے مقابلے میں زیادہ سرکش بنا ہوا تھا، پھر یہ ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے کون سب سے بڑھ کر جہنم میں جھونکے جانے کا مستحق ہے۔تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو جہنم پر وارد نہ ہو۔ یہ تو ایک طے شدہ بات ہے جسے پورا کرنا تیرے رب کا ذمہ ہے۔ پھر ہم ان لوگوں کو بچالیں گے جو (دنیا میں ) متقی تھے اور ظالموں کو اُسی میں گرا ہوا چھوڑ دیں گے۔ (سورۃ مریم…۷۲)

۱۷۔ منکرینِ حق کی شاندار مجلسوں کی حقیقت
ان لوگوں کو جب ہماری کھلی کھلی آیات سنائی جاتی ہیں تو انکار کرنے والے ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں ’’بتاؤ ہم دونوں گروہوں میں سے کون بہتر حالت میں ہے اور کس کی مجلسیں زیادہ شاندار ہیں ؟‘‘ حالانکہ ان سے پہلے ہم کتنی ہی ایسی قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں جو ان سے زیادہ سروسامان رکھتی تھیں اور ظاہری شان و شوکت میں ان سے بڑھی ہوئی تھیں ۔ ان سے کہو، جو شخص گمراہی میں مبتلا ہوتا ہے اسے رحمن ڈھیل دیا کرتا ہے یہاں تک کہ جب ایسے لوگ وہ چیزدیکھ لیتے ہیں جس کا ان سے وعدہ کیاگیاہے ، خواہ وہ عذابِ الٰہی ہو یا قیامت کی گھڑی … تب انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ کس کا حال خراب ہے اور کس کاجتھا کمزور! اس کے برعکس جو لوگ راہ راست اختیار کرتے ہیں اللہ اُن کو راست روی میں ترقی عطا فرماتا ہے اور باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک جزا اور انجام کے اعتبار سے بہتر ہیں ۔ (سورۃ مریم…۷۶)

۱۸۔ سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا
پھر تو نے دیکھا اس شخص کو جو ہماری آیات کو ماننے سے انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تو مال اور اولاد سے نوازا ہی جاتا رہوں گے؟ کیا اسے غیب کا پتہ چل گیا ہے یا اس نے رحمن سے کوئی عہد لے رکھا ہے؟ … ہر گز نہیں ، جو کچھ یہ بکتا ہے اسے ہم لکھ لیں گے اور اس کے لیے سزا میں اور زیادہ اضافہ کریں گے۔ جس سروسامان اور لاؤ لشکرکا یہ ذکر کررہا ہے وہ سب ہمارے پاس رہ جائے گا اور یہ اکیلا ہمارے سامنے حاضر ہوگا۔ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے کچھ خدا بنا رکھے ہیں کہ وہ ان کے پشتیبان ہوں گے۔ کوئی پشتیبان نہ ہوگا۔ وہ سب ان کی عبادت کا انکارکریں گے اور الٹے ان کے مخالف بن جائیں گے۔ (سورۃ مریم…۸۲)

۱۹۔منکرینِ حق کو شیاطین اکساتے ہیں
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ ہم نے منکرینِ حق پر شیاطین چھوڑ رکھے ہیں جو انہیں خوب خوب (مخالفتِ حق پر) اکسارہے ہیں ؟ اچھا، تو اب ان پرنُزولِ عذاب کے لیے بیتاب نہ ہو۔ ہم ان کے دن گن رہے ہیں ۔وہ دن آنے والا ہے جب متقی لوگوں کو ہم مہمانوں کی طرح رحمن کے حضور پیش کریں گے، اورمجرموں کو پیاسے جانوروں کی طرح جہنم کی طرف ہانک لے جائیں گے۔اس وقت لوگ کوئی سفارش لانے پر قادر نہ ہوں گے بجز اس کے جس نے رحمن کے حضور سے پروا نہ حاصل کرلیاہو (مریم…۸۷)

۲۰۔رحمن نے بیٹا بنایا کہنا سخت لغو بات ہے
وہ کہتے ہیں کہ رحمن نے کسی کو بیٹا بنایا ہے … سخت بے ہودہ بات ہے جو تم لوگ گھڑ لائے ہو۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں ، زمین شق ہوجائے اور پہاڑ گرجائیں ، اس بات پر کہ لوگوں نے رحمن کے لیے اولاد ہونے کا دعویٰ کیا! رحمن کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔ زمین اور آسمانوں کے اندر جوبھی ہیں سب اس کے حضور بندوں کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں ۔ سب پروہ محیط ہے اور اُس نے اُن کو شمار کررکھا ہے۔ سب قیامت کے روز فرداً فرداً اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔ (سورۃ مریم…۹۵)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۲۱۔ قرآن کو آسان زبان میں نازل کیا گیا
یقینا جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور عملِ صالح کررہے ہیں عنقریب رحمن ان کے لیے دلوں میں محبت پیدا کردے گا۔ پس اے نبی ﷺ، اس کلام کو ہم نے آسان کرکے تمہاری زبان میں اسی لیے نازل کیا ہے کہ تم پرہیز گاروں کو خوشخبری دے دو اور ہٹ دھرم لوگوں کو ڈرا دو۔ ان سے پہلے ہم کتنی ہی قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں ، پھر آج کہیں تم ان کا نشان پاتے ہو یا اُن کی بِھَنک بھی کہیں سنائی دیتی ہے؟(مریم۹۸)

۲۲۔ متقی لوگوں کے لیے قرآن یاد دہانی ہے
سورۂ طٰہٰ :اللہ کے نام سے جو بے انتہامہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔طٰہٰ، ہم نے یہ قرآن تم پر اس لیے نازل نہیں کی ہے کہ تم مصیبت میں پڑجاؤ۔ یہ تو ایک یاددہانی ہے ہر اس شخص کے لیے جو ڈرے۔ نازل کیاگیا ہے اس ذات کی طرف سے جس نے پیدا کیا ہے زمین کو اور بلند آسمانوں کو۔وہ رحمن (کائنات کے) تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہے۔ مالک ہے ان سب چیزوں کا جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور جو زمین و آسمان کے درمیان ہیں اور جو مٹی کے نیچے ہیں ۔ تم چاہے اپنی بات پکار کر کہو، وہ تو چپکے سے کہی ہوئی بات بلکہ اُس سے مخفی تر بات بھی جانتا ہے۔ وہ اللہ ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ، اس کے لیے بہترین نام ہیں ۔(سورۃ طٰہٰ…۸)

۲۳۔ موسیٰؑ آگ لینے گئے، نبوت مل گئی
اور تمہیں کچھ موسٰیؑ کی خبر بھی پہنچی ہے؟ جبکہ اس نے ایک آگ دیکھی اور اپنے گھر والوں سے کہاکہ ’’ذرا ٹھیرو، میں نے ایک آگ دیکھی ہے۔شاید کہ تمہارے لیے ایک آدھ انگارا لے آؤں ، یا اس آگ پر مجھے (راستے کے متعلق) کوئی رہنمائی مل جائے‘‘۔وہاں پہنچا تو پکاراگیا ’’اے موسٰیؑ ! میں ہی تیرا رب ہوں ، جُوتیاں اتار دے۔ تو وادی مقدسِ طُویٰ میں ہے اورمیں نے تجھ کو چُن لیا ہے، سُن جو کچھ وحی کیا جاتا ہے۔میں ہی اللہ ہوں ، میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تو میری بندگی کر اورمیری یاد کے لیے نماز قائم کر۔ قیامت کی گھڑی ضرور آنے والی ہے۔ میں اس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں ، تاکہ ہرمتنفس اپنی سعی کے مطابق بدلہ پائے۔ پس کوئی ایسا شخص جو اُس پر ایمان نہیں لاتا اورا پنی خواہش نفس کا بندہ بن گیا ہے تجھ کواس گھڑی کی فکر سے نہ روک دے، ورنہ تو ہلاکت میں پڑجائے گا۔ (سورۃ طٰہٰ…۱۶)

۲۴۔ عصائے موسیٰؑ کا سانپ بننے کا معجزہ
اور اے موسیٰؑ ،یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے؟‘‘موسٰیؑ نے جواب دیا ’’یہ میری لاٹھی ہے، اس پرٹیک لگاکر چلتا ہوں ، اس سے اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں ، اور بھی بہت سے کام ہیں جو اس سے لیتا ہوں ‘‘۔ فرمایا ’’پھینک دے اس کو موسٰیؑ ‘‘ ۔ اس نے پھینک دیا اور یکایک وہ ایک سانپ تھی جو دوڑ رہا تھا۔ فرمایا ’’پکڑلے اس کو اور ڈر نہیں ، ہم اسے پھر ویسا ہی کردیں گے جیسی یہ تھی۔ اور ذرا اپنا ہاتھ اپنی بغل میں دبا، چمکتا ہوا نکلے گا بغیر کسی تکلیف کے۔ یہ دوسری نشانی ہے اس لیے کہ ہم تجھے اپنی بڑی نشانیاں دکھانے والے ہیں ۔ اب تو فرعون کے پاس جا، وہ سرکش ہوگیا ہے‘‘۔(سورۃ طٰہٰ…۲۴)

۲۵۔ کارِ نبوت :بھائی کی شرکت کی درخواست
موسٰیؑ نے عرض کیا ’’پروردگار، میرا سینہ کھول دے، اور میرے کام کو میرے لیے آسان کردے اور میری زبان کی گرہ سلجھا دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور میرے لیے میرے اپنے کُنبے سے ایک وزیر مقرر کردے۔ ہارون،ؑ جو میرا بھائی ہے، اس کے ذریعہ سے میرا ہاتھ مضبوط کر اور اس کو میرے کام میں شریک کردے، تاکہ ہم خوب تیری پاکی بیان کریں اور خوب تیرا چرچا کریں ۔ تو ہمیشہ ہمارے حال پر نگراں رہا ہے‘‘۔(سورۃ طٰہٰ…۳۵)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۲۶۔صندوق میں ڈال کر دریا میں ڈالا جانا
فرمایا ’’دیاگیا جو تو نے مانگا، اے موسٰیؑ ، ہم نے پھر ایک مرتبہ تجھ پر احسان کیا۔ یاد کرو وہ وقت جبکہ ہم نے تیری ماں کو اشارہ کیا، ایسا اشارہ جو وحی کے ذریعہ سے ہی کیاجاتا ہے کہ اس بچے کو صندوق میں رکھ دے اور صندوق کو دریا میں چھوڑ دے۔ دریا اسے ساحل پر پھینک دے گا اور اسے میرا دشمن اور اس بچے کا دشمن اٹھالے گا‘‘۔’’میں نے اپنی طرف سے تجھ پر محبت طاری کردی اور ایسا انتظام کیا کہ تو میری نگرانی میں پالاجائے۔یاد کر جبکہ تیری بہن چل رہی تھی، پھرجاکر کہتی ہے، میں تمہیں اس کا پتہ دوں جو اس بچے کی پرورش اچھی طرح کرے؟ اس طرح ہم نے تجھے پھر تیری ماں کے پاس پہنچا دیا تاکہ اس کی آنکھ ٹھنڈی رہے اور وہ رنجیدہ نہ ہو۔ (سورۃ طٰہٰ…۴۰)

۲۷۔سرکش فرعون کے پاس موسیٰؑ کو بھیجا جانا
اور (یہ بھی یاد کرکہ) تو نے ایک شخص کو قتل کردیا تھا، ہم نے تجھے اس پھندے سے نکالا اور تجھے مختلف آزمائشوں سے گزارا اور تُو مدین کے لوگوں میں کئی سال ٹھیرا رہا۔ پھر اب ٹھیک اپنے وقت پر تو آگیا ہے اے موسٰیؑ ۔ میں نے تجھ کو اپنے کام کا بنالیا ہے۔ جا، تُو اور تیرا بھائی میری نشانیوں کے ساتھ۔اور دیکھو تم میری یاد میں تقصیر نہ کرنا۔جاؤ تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہوگیا ہے۔ اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈرجائے‘‘۔ دونوں نے عرض کیا ’’پروردگار، ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا یا پِل پڑے گا‘‘۔ فرمایا ’’ڈرو مت، میں تمہارے ساتھ ہوں ، سب کچھ سُن رہا ہوں اوردیکھ رہا ہوں ۔ جاؤ اس کے پاس اور کہو کہ ہم تیرے رب کے فرستادے ہیں ، بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لیے چھوڑ دے اور ان کو تکلیف نہ دے۔ ہم تیرے پاس تیرے رب کی نشانی لے کر آئے ہیں اور سلامتی ہے اس کے لیے جو راہِ راست کی پیروی کرے۔ ہم کو وحی سے بتایاگیا ہے کہ عذاب ہے، اس کے لیے جو جھٹلائے اور منہ موڑے‘‘۔ (طٰہٰ…۴۸)

۲۸۔ موسیٰؑ کا فرعون سے مکالمہ
فرعون نے کہا ’’اچھا، تو پھر تم دونوں کا رب کون ہے اے موسیٰؑ ؟‘‘ موسٰیؑ نے جواب دیا ’’ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی ساخت بخشی، پھر اس کو راستہ بتایا‘‘۔ فرعون بولا ’’اور پہلے جو نسلیں گزر چکی ہیں ان کی پھر کیاحالت تھی‘‘؟موسٰیؑ نے کہا ’’اس کا علم میرے رب کے پاس ایک نوشتے میں محفوظ ہے۔ میرا رب نہ چوکتا ہے نہ بھولتا ہے‘‘۔…وہی جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا، اور اُس میں تمہارے چلنے کو راستے بنائے، اور اوپر سے پانی برسایا، پھر اُس کے ذریعہ سے مختلف اقسام کی پیداوارنکالی۔ کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی چراؤ۔ یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں عقل رکھنے والوں کے لیے۔ اسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیاہے، اسی میں ہم تمہیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے۔ (سورۃ طٰہٰ…۵۵)

۲۹۔ فرعون کا حق کو جھٹلانا اور مقابلہ پر آنا
ہم نے فرعون کو اپنی سب ہی نشانیاں دکھائیں مگر وہ جھٹلائے چلاگیا اور نہ مانا کہنے لگا ’’اے موسٰیؑ ، کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے ہم کو ہمارے ملک سے نکال باہر کرے؟ اچھا، ہم بھی تیرے مقابلے میں ویسا ہی جادو لاتے ہیں ۔ طے کرلے کب اور کہاں مقابلہ کرنا ہے۔نہ ہم اس قرار داد سے پھریں گے نہ تو پھریو۔ کھلے میدان میں سامنے آجا‘‘۔ موسٰیؑ نے کہا ’’جشن کا دن طے ہوا، اور دن چڑھے لوگ جمع ہوں ‘‘۔ فرعون نے پلٹ کر اپنے سارے ہتھکنڈے جمع کیے اور مقابلے میں آگیا۔ موسٰیؑ نے (عین موقع پر گروہِ مقابل کو مخاطب کرکے) کہا ’’شامت کے مارو، نہ جھوٹی تہمتیں باندھو اللہ پر، ورنہ وہ ایک سخت عذاب سے تمہارا ستیا ناس کردے گا۔ جھوٹ جس نے بھی گھڑا وہ نامراد ہوا‘‘۔ (طٰہٰ:۶۱)

۳۰۔عصائے موسیٰؑ نے جادوگروں کو ہرا دیا
یہ سُن کر ان کے درمیان اختلاف رائے ہوگیا اور وہ چپکے چپکے باہم مشورہ کرنے لگے۔ آخرکار کچھ لوگوں نے کہاکہ ’’یہ دونوں تومحض جادوگر ہیں ۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تم کو تمہاری زمین سے بے دخل کردیں اور تمہارے مثالی طریقِ زندگی کا خاتمہ کردیں ۔ اپنی ساری تدبیریں آج اکٹھی کرلو اور ایکا کرکے میدان میں آؤ۔ بس یہ سمجھ لو کہ آج جو غالب رہاوہی جیت گیا‘‘۔ جادوگربولے، ’’موسٰیؑ ،تم پھینکتے ہو یا پہلے ہم پھینکیں ؟‘‘موسٰیؑ نے کہا، ’’نہیں ، تم ہی پھینکو‘‘۔یکایک ان کی رسیاں اور ان کی لاٹھیاں ان کے جادو کے زور سے موسیٰؑ کو دوڑتی ہوئی محسوس ہونے لگیں ، اور موسٰیؑ اپنے دل میں ڈرگیا۔ ہم نے کہا ’’مت ڈر، تو ہی غالب رہے گا۔ پھینک جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے، ابھی ان کی ساری بناوٹی چیزوں کو نگلے جاتا ہے۔ یہ جوکچھ بناکر لائے ہیں ، یہ تو جادوگر کا فریب ہے، اور جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ خواہ کسی شان سے وہ آئے‘‘۔(سورۃ طٰہٰ…۶۹)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۳۱۔جادوگروں کا موسٰیؑ کے رب پر ایمان لانا
آخر کو یہ ہوا کہ سارے جادوگر سجدے میں گرادیئے گئے اور پُکار اٹھے ’’مان لیا ہم نے ہارونؑ اور موسٰیؑ کے رب کو‘‘۔ فرعون نے کہا ’’تم اس پرایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اس کی اجازت دیتا؟ معلوم ہوگیا کہ یہ تمہارا گرو ہے جس نے تمہیں جادوگری سکھائی تھی۔اچھا، اب میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹواتا ہوں اور کھجور کے تنوں پر تم کو سُولی دیتا ہوں ۔ پھر تمہیں پتہ چل جائے گا کہ ہم دونوں میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اوردیرپا ہے‘‘ (یعنی میں تمہیں زیادہ سخت سزا دے سکتا ہوں یا موسٰیؑ )۔ جادوگروں نے جواب دیا ’’قسم ہے اس ذات کی کہ جس نے ہمیں پیداکیا ہے، یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ ہم روشن نشانیاں سامنے آجانے کے بعد بھی (صداقت پر) تجھے ترجیح دیں ۔تو جو کچھ کرنا چاہے کرلے۔ تو زیادہ سے زیادہ بس اِسی دنیا کی زندگی کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ ہم تو اپنے رب پر ایمان لے آئے، تاکہ وہ ہماری خطائیں معاف کردے اور اس جادوگری سے، جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا تھا، درگزر فرمائے۔ اللہ ہی اچھا ہے اور وہی باقی رہنے والا ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ جو مجرم بن کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگا اس کے لیے جہنم ہے جس میں وہ نہ جیے گا نہ مرے گا۔ اور جو اس کے حضور مومن کی حیثیت سے حاضر ہوگا، جس نے نیک عمل کیے ہوں گے، ایسے سب لوگوں کے لیے بلنددرجے ہیں ،سدابہار باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی،ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ جزا ہے اس شخص کی جو پاکیزگی اختیار کرے۔ (طٰہٰ:۷۶)

۳۲۔ فرعون کا سمندر میں غرق ہونا
ہم نے موسٰیؑ پر وحی کی کہ اب راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چل پڑ، اور ان کے لیے سمندر میں سوکھی سڑک بنالے، تجھے کسی کے تعاقب کا ذرا خوف نہ ہو اور نہ (سمندر کے بیچ سے گزرتے ہوئے) ڈر لگے۔پیچھے سے فرعون اپنے لشکر لے کر پہنچا، اور پھر سمندر ان پر چھاگیا جیسا کہ چھاجانے کا حق تھا۔ فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ ہی کیا تھا، کوئی صحیح رہنمائی نہیں کی تھی۔اے بنی اسرائیل، ہم نے تم کو تمہارے دشمن سے نجات دی، اور طُورکے دائیں جانب تمہاری حاضری کے لیے وقت مقرر کیا اور تم پر من وسلویٰ اتارا۔ کھاؤ ہمارا دیا ہوا ۔پاک رزق اور اسے کھاکر سرکشی نہ کرو، ورنہ تم پر میرا غضب ٹوٹ پڑے گا۔ اور جس پر میرا غضب ٹوٹا وہ پھر گرکر ہی رہا۔البتہ جو توبہ کرلے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھا چلتا رہے اس کے لیے میں بہت درگزرکرنے والا ہوں ۔ (سورۃ طٰہٰ…۸۲)

۳۳۔قومِ موسیٰؑ کا بچھڑے کو خدا بنا لینا
اورکیاچیز تمہیں اپنی قوم سے پہلے لے آئی موسٰیؑ ؟ اس نے عرض کیا ’’وہ بس میرے پیچھے آہی رہے ہیں ۔میں جلدی کرکے تیرے حضور آگیا ہوں ، اے میرے رب،تاکہ تو مجھ سے خوش ہوجائے، فرمایا ’’اچھا، تو سنو، ہم نے تمہارے پیچھے تمہاری قوم کو آزمائش میں ڈال دیا اور سامری نے انہیں گمراہ کرڈالا‘‘۔موسٰیؑ سخت غصے اور رنج کی حالت میں اپنی قوم کی طرف پلٹا۔ جاکر اس نے کہا ’’اے میری قوم کے لوگو، کیا تمہارے رب نے تم سے اچھے وعدے نہیں کیے تھے؟ کیا تمہیں دن لگ گئے ہیں ؟ یا تم اپنے رب کا غضب ہی اپنے اوپر لانا چاہتے تھے کہ تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی؟‘‘انہوں نے جواب دیا ’’ہم نے آپ سے وعدہ خلافی کچھ اپنے اختیار سے نہیں کی، معاملہ یہ ہوا کہ لوگوں کے زیورات کے بوجھ سے ہم لد گئے تھے اور ہم نے بس اُن کو پھینک دیا تھا‘‘۔ پھر اسی طرح سامری نے بھی کچھ ڈالا اوران کے لیے ایک بچھڑے کی مُورت بناکرنکال لایا جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی۔ لوگ پکار اٹھے ’’یہی ہے تمہارا خدا اور موسٰیؑ کاخدا، موسٰیؑ اسے بُھول گیا‘‘۔کیاوہ دیکھتے نہ تھے کہ نہ وہ ان کی بات کا جواب دیتا ہے اور نہ ان کے نفع و نقصان کا کچھ اختیار رکھتا ہے۔ (طٰہٰ۸۹)

۳۴۔ موسیٰؑ کا سامری جادوگر کو اللہ سے ڈرانا
ہارونؑ (موسٰیؑ کے آنے سے) پہلے ہی ان سے کہہ چکا تھا کہ ’’لوگوتم اس کی وجہ سے فتنے میں پڑگئے ہو، تمہارا رب تو رحمن ہے، پس تم میری پیروی کرو اور میری بات مانو‘‘۔ مگر انہوں نے اس سے کہہ دیا کہ ’’ہم تو اسی کی پرستش کرتے رہیں گے جب تک کہ موسٰیؑ ہمارے پاس واپس نہ آجائے‘‘۔موسٰیؑ (قوم کو ڈانٹنے کے بعد ہارون کی طرف پلٹا اور) بولا ’’ہارون، تم نے جب دیکھا تھا کہ یہ گمراہ ہورہے ہیں تو کس چیزنے تمہارا ہاتھ پکڑا تھا کہ میرے طریقے پر عمل نہ کرو؟ کیا تم نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی؟‘‘ہارونؑ نے جواب دیا ’’اے میری ماں کے بیٹے، میری ڈاڑھی نہ پکڑ، نہ میرے سر کے بال کھینچ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ تو آکر کہے گا کہ تم نے بنی اسرائیل میں پُھوٹ ڈال دی اورمیری بات کا پاس نہ کیا‘‘۔موسٰیؑ نے کہا ’’اور سامری، تیرا کیامعاملہ ہے؟‘‘اس نے جواب دیا ’’میں نے وہ چیز دیکھی جو ان لوگوں کو نظر نہ آئی، پس میں نے رسول کے نقشِ قدم سے ایک مٹھی اٹھالی اور اس کو ڈال دیا۔ میرے نفس نے مجھے کچھ ایسا ہی سُجھایا‘‘۔ موسٰیؑ نے کہا ’’اچھا تو جا، اب زندگی بھر تجھے یہی پکارتے رہنا ہے کہ مجھے نہ چھونا۔ اور تیرے لیے باز پُرس کا ایک وقت مقرر ہے جو تجھ سے ہرگز نہ ٹلے گا۔ اوردیکھ اپنے اس خدا کو جس پر تو ریجھا ہوا تھا، اب ہم اسے جلاڈالیں گے اور ریزہ ریزہ کرکے دریا میں بہاد یں گے۔ لوگو، تمہارا خدا تو بس ایک ہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے، ہر چیز پر اس کا علم حاوی ہے‘‘۔ (طٰہٰ…۹۸)

۳۵۔روزِ حشر دنیوی زندگی ایک روزہ لگے گی
اے نبی ﷺ، اس طرح ہم پچھلے گزرے ہوئے حالات کی خبریں تم کو سناتے ہیں ، اور ہم نے خاص اپنے ہاں سے تم کو ایک ’’ذکر‘‘ (درس نصیحت) عطا کیا ہے۔جو کوئی اس سے منہ موڑے گا وہ قیامت کے روز سخت بارِ گناہ اٹھائے گا، اور ایسے سب لوگ ہمیشہ اس کے وبال میں گرفتار رہیں گے، اور قیامت کے دن ان کے لیے (اس جرم کی ذمہ داری کا بوجھ) بڑا تکلیف دہ بوجھ ہوگا۔ اس دن جبکہ صُور پھونکا جائے گا اور ہم مجرموں کو اس حال میں گھیرلائیں گے کہ ان کی آنکھیں (دہشت کے مارے) پتھرائی ہوئی ہوں گی، آپس میں چُپکے چپکے کہیں گے کہ ’’دنیا میں مشکل ہی سے تم نے کوئی دس دن گزارے ہوں گے‘‘۔ ہمیں خوب معلوم ہے کہ وہ کیا باتیں کررہے ہوں گے۔ (ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ) اس وقت ان میں سے جو زیادہ محتاط اندازہ لگانے والا ہوگا وہ کہے گا کہ نہیں ، تمہاری دنیا کی زندگی بس ایک دن کی زندگی تھی۔ (سورۃ طٰہٰ…۱۰۴)
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top