• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ڈارک ویب اور ڈیپ ویب کیا ہے؟

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
ڈارک ویب اور ڈیپ ویب کیا ہے؟

انٹرنٹ کے پراسرار اور خفیہ ترین حصے


web.png



 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
ڈارک ویب، زینب کا قتل ... خوفناک انکشافات!
اسپائلر میں سٹوری ڈالی گئی ہے زمانہ اور وقت کے مطابق اس پر معلومات ہونا ضروری ہے، اگر کچھ نامناسب سمجھیں تو اسے ہٹا سکتے ہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا، شکریہ!
ڈارک ویب، زینب کا قتل ... خوفناک انکشافات!

ایسے ہولناک حقائق کہ آپ کی روح کانپ اٹھے اوراس کے تانے بانے ایسے ایسے بارعب لوگوں سے ملتے ہیں کہ پڑھ کر آپ اپنے ملک میں جاری اس دھندے کے پیچھے چھپے کرداروں کا ایک مرتبہ تعین کرنے کا ضرور سوچیں گے۔

زینب قتل کیس کہنے کو اغوا کے بعد زیادتی اور زیادتی کے بعد قتل کی ایک عام سی واردات لگتی ہے، لیکن اس قتل کے پیچھے اتنے ہولناک حقائق ہیں جسے قطعی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ معاملہ سیریل کلنگ

(Serial Killing)
کا ہو یا ٹارگٹڈ ریپ
(Targeted Rape)
کا لیکن یہ طے ہے کہ سکیورٹی اداروں کی اس قتل اور ایسی کئی دیگر وارداتوں سے جڑے حقائق پرپردہ ڈالنے ہی میں عافیت ہے۔۔ جو پردہ اٹھائے گا، اس کا انجام بھیانک ہو گا کیونکہ یہ مافیا بزنس مینوں سے لے کر سیاست دانوں تک پھیلا ہوا ہے۔۔ عام جنسی تشدد اور شہوت سے جڑی واردات میں قاتل کارروائی کرتے ہیں اور قتل کر کے ثبوتوں کو صاف کر نے کے بعد غائب ہو جاتے ہیں لیکن جنسی زیادتی سے جڑے اس ہولناک قتل کے دوران زینب کی دونوں کلائیوں کو چھری سے کاٹا گیا، گلے کو پھندے سے جکڑا گیا، جسم پر بے پناہ تشدد کیا گیا، ؟؟؟؟ ؟؟؟؟ کو تیز دھار آلے سے نشانات پہنچائے گئے اور زبان کو نوچا گیا۔ ایسا عام طور پر جنسی زیادتی اور قتل کی وارداتوں میں نہیں ہوتا۔ ایسا کسی اور مقصد کے لیے کیا جاتا ہے اوروہ مقصد ہے بے پناہ پیسے کا حصول۔۔ پولیس حقائق سے پردہ اٹھائے یا نہ اٹھائے۔۔

پیسے سے جڑے جن حقائق سے میں پردہ اٹھانے جا رہا ہوں اس کے لیے آپ کو اپنے دلوں کی دھڑکنوں کو تھامنا ہوگا۔۔ دنیا میں انٹر نیٹ کی ایک ایسی کمیونٹی بھی ہے جسے گوگل (Google) تک سرچ نہیں کر سکتا۔ یہ کمیونٹی دنیا کے مختلف حصوں سے انسانی اعضاء کی خریدو فروخت سمیت بچوں کے ساتھ جنسی فعل

(Child Ponography)
اور بچوں پر جنسی تشدد کے بعد ان کے تشدد زدہ اعضاء کی تشہیر سے وابستہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کمیونٹی سے جڑے لوگوں کو اپنے اپنے ٹاسک پورے کرنے کے لاکھوں ڈالر ادا کیے جاتے ہیں، اور پیمنٹ کا طریقہ کار اتنا خفیہ ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں یا خفیہ ایجنسیز کو بھنک تک نہیں پڑ سکتی۔ اس کمیونٹی تک ایک عام صارف کی رسائی نہیں ہوتی بلکہ مکمل چھان بین کے بعد دنیا بھر سے سب سے زیادہ قابل اعتماد
(Most Trusted)
اور قابل بھروسہ لوگوں کو اس کمیونٹی کا ممبر بنایا جاتا ہے۔۔ ورلڈ وائیڈ ویب
(www)
یعنی انٹر نیٹ پر موجود جنسی ہیجان اور انسانی جسمانی اعضاء کی خریدو فروخت کے گورکھ دھندے سے جڑی اس حقیقت کو ڈارک ویب (DarkWeb) یا ڈارک نیٹ کا نام دیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی جریدوں کے
2007ء
کے اعدادو شمار کے مطابق اس دھندے سے وابستہ لوگوں کی تعداد چار اعشاریہ پانچ ملین ہے جو کروڑوں ڈالر کی تجارت سے جڑی ہے۔۔ جنوری
2007ء
سے دسمبر
2017ء
تک اس کاروبار کے صارفین اور ناظرین کی تعداد میں خطرناک حد تک پانچ سو گنا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

قانونی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی اس دھندے تک واضح رسائی نہ ہونے کی وجہ سے اعداد شمار کا یہ تخمینہ اس سے بھی بڑھ کر ہو سکتا ہے۔ اس دھندے کا سب سے اہم جزو پیڈوفیلیا

(Pedophilia)
یا وائلنٹ پورن انڈسٹری ہے جس میں بڑی عمر کے لوگ بچوں یا بچیوں سے جنسی فعل کرتے ہیں یا انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے دکھاتے ہیں۔۔ یہ ڈارک ویب کی سب سے زیادہ منافع پہنچانے والی انڈسٹری ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک کے بچے اور بچیاں ڈارک ویب پر بیچے جانے والے مواد کا آسان ترین ہدف ہیں۔ ان ممالک میں بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان، ایران، افغانستان اور نیپال شامل ہیں۔ یہاں پر بھارت میں ہونیوالے رادھا قتل کیس کا حوالہ دینا بہت ضروری ہے۔

2009ء میں بھارتی شہر ممبئی کے ایک اپارٹمنٹ سے رادھا نامی چھ سالہ بچی کی تشدد زدہ لاش ملی تھی جسے جنسی درندگی کے دوران شدید جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ہاتھ اور کلائیاں کاٹی گئی تھی، زبان نوچی گئی تھی اور ؟؟؟؟ ؟؟؟؟ پر چھرئیوں کے وار کیے گئے تھے۔ ممبئی پولیس نے اس کیس کی تحقیقات قاتل کے نفسیاتی ہونے کے زاویے پر کیں اور قاتل کوسیریل کلر کا نام دے کر فائل کو بند کر دیا تھا، لیکن اصل میں معاملہ یہ نہیں تھا۔ ٹھیک دوسال بعد ممبئی ہی میں بیٹھے ہوئے ایک ہیکر نے ڈارک ویب کی کچھ جنسی ویب سائیٹس کو ہیک کیا تو وہاں اسے رادھا کی ویڈیو ملی۔ ویڈیو پر دو سال قبل کیے جانے والے لائیو براڈ کاسٹ

(Live Broadcast)
کا ٹیگ لگا ہوا تھا۔ ہیکر نے ممبئی پولیس کو آگاہ کیا تو تفتیش کو پورن انڈسٹری سے جوڑ کر تحقیقات کی گئیں۔

ان تحقیقات کے بعد ہولناک اور انتہائی چشم کشا انکشافات سامنے آئے۔۔ رادھا کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہوئے انٹر نیٹ پر براہ راست نشر کیا گیا۔ اس کے ساتھ کئی لوگوں نے ریپ کیا۔ ہاتھ اور کلائیاں کاٹنے کے ٹاسک ملے تو ہاتھ اور کلائیاں کاٹی گئیں۔ ؟؟؟؟ ؟؟؟؟ پر چھریاں مارنے کا ٹاسک ملا تو بے دردی سے چُھریاں ماری گئیں۔۔ اور اس براڈکاسٹ کے لیے کئی لاکھ ڈالر ادا کیے گئے۔۔ تحقیقات کا دائرہ اور بڑھایا گیا تو بڑے بڑے بزنس مینوں سے لے کر سیاست دانوں تک لوگ اس قتل کی واردات سے جڑے ہوئے پائے گئے۔ پولیس والوں کے پرَ جلنے لگے تو فائل بند کر دی گئی اور آج تک قاتل کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں۔ کچھ ایسا ہی زینب قتل کیس میں بھی ہوا ہے۔

قصور میں جنسی درندگی کے بعد تشدد اور پھر قتل کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ زینب قصور شہر میں قتل کی جانے والی بارہویں بچی ہے۔۔ پولیس کہتی ہے قاتل سیریل کلر ہے لیکن اس تک پہنچ نہیں پاتی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزم کی شکل واضح ہونے کے باوجود غلط خاکہ تیار کیا جاتا ہے۔۔ پولیس کی یہی حرکتیں ہیں جس کے باعث ان بارہ بچیوں میں سے ایک بھی مقتولہ بچی کا کیس آج تک حل نہیں ہو سکا۔ کیا پولیس واقعی اتنی نااہل ہے یا کیس اتنا ہی سادہ ہے؟۔۔ اصل میں معاملہ یہ نہیں بلکہ معاملہ مبینہ طور پر مقامی ایم این اے، ایم پی اے اور اس دھندے میں ملوث پولیس کے اعلیٰ عہدیداران کو بچانے کا ہے۔اس دھندے سے وابستہ بزنس میں بڑے بڑے نام ملوث ہیں۔

2015ء میں قصور شہر ہی میں ڈھائی سو سے زائد بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی، ریپ اور بعد ازاں ویڈیوز بنانے کا جو معاملہ میڈیا نے اٹھایا تھا، اس کے پیچھے بھی بہت بڑے مافیا کا ہاتھ تھا۔ مقامی حکومتی عہدیداروں ، ایم این اے اور ایم پی اے کے کہنے پر پولیس نے مبینہ طور پر اس کیس کی فائل کو بند کر دیا تھا کیونکہ اس کیس کے تانے بانے بین الاقوامی طور پر بد نام زمانہ چائلڈ پورنوگرافی

(Child Pornography)
اور وائلنٹ پورن سے ملتے تھے۔ اور سچی بات یہ ہے کہ جرم میں ملوث افراد اتنے بااثر ہیں کہ عام آدمی انہیں قانون کے کٹہرے میں لانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ زینب اور زینب سمیت دیگر بچیوں اور بچوں کا قتل رادھا قتل کیس سے بہت مشابہت رکھتا ہے، لیکن پولیس غلط خاکہ تیار کرنے سے لے کر تحقیقات غلط زاویے پر چلانے تک ملزمان کو ہر طرح سے پروٹیکٹ کر رہی ہے۔

ذرا سوچیے کہ زینب یا دیگر بارہ بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی، مبینہ طور پر لائیو براڈ کاسٹ یا ویڈیو بنا کر نوٹ چھاپے گئے، لاوارث سمجھ کر لاش کو کچرے میں پھینک دیا گیا لیکن پولیس اسے محض ایک جنسی زیادتی کا کیس بنانے پر تلی ہوئی ہے۔۔ اس قتل کا ڈارک ویب سے جڑے ہونے کا واضح ثبوت کٹی ہوئی کلائیاں اور جسم پر تشدد کے واضح نشانات ہیں جسے پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کھل کر بیان کیا گیا ہے۔۔

اب بھی اگر حقائق سے روگردانی کرتے ہوئے قتل میں ملوث بڑے بڑے ناموں کو بچانے کی کوشش کی گئی تو آپ اور ہم میں سے کسی کی بھی بہن یا بیٹی ڈارک ویب سے جڑے اس گورکھ دھندے کی بھینٹ کبھی بھی چڑھ سکتی ہے، اس لیے اپنی سوچوں کے زاویوں کو مثبت ڈگر پر چلاتے ہوئے اس مافیا کے خلاف یک زبان ہو جائیں، ایک ہو جائیں اور اس دھندے میں ملوث چہروں کو بے نقاب کریں۔ ایک ۔۔ صرف ایک زینب کا کیس درست سمت میں تحقیقات سے حل ہو گیا تو آیندہ کسی بدمعاش مافیا کو یہ جرات نہیں ہو گی کہ وہ ہماری بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ پیسوں کی خاطر درندوں والا سلوک کرے۔ اس لیے ڈارک ویب سے نمٹنے کے لیے برائٹ سوسائٹی کا کردار ادا کیجیے اور صرف برائٹ سوسائٹی ہی اس مافیا سے نمٹ سکتی ہے ورنہ ارباب اختیار سے وابستہ اس دھندے کے حمام میں سب کے سب ننگے ہیں۔

تحریر: جمیل فاروقی
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ذرا سی تصحیح. ڈارک ویب کوئی ایک کمیونٹی نہیں ہے بلکہ کئی کمیونٹیاں اس پر مختلف کام کر رہی ہیں.
زینب کیس کے بارے میں مجھے بھی یہی شبہ ہو رہا تھا.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اس کہانی کے مطابق ، بچوں پر ظلم کرنا ، ان کی کلائیاں کاٹنا وغیرہ ، یہ سب چیزیں کن لوگوں کے لیے دلچسپ اور لذت کا باعث ہیں ، کہ انہیں خوش کرنے کے لیے یہ ایک مکمل انڈسٹری بن رہی ہے؟؟
یہ بات بھی سمجھنا تھوڑا مشکل ہورہا ہے کہ ایسے نفسیاتی مریض معاشرے میں اتنی تعداد میں اور اتنے مضبوط ہیں کہ کوئی انہیں ہاتھ ڈالنے سے بھی ڈرتا ہے ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اس کہانی کے مطابق ، بچوں پر ظلم کرنا ، ان کی کلائیاں کاٹنا وغیرہ ، یہ سب چیزیں کن لوگوں کے لیے دلچسپ اور لذت کا باعث ہیں ، کہ انہیں خوش کرنے کے لیے یہ ایک مکمل انڈسٹری بن رہی ہے؟؟
یہ بات بھی سمجھنا تھوڑا مشکل ہورہا ہے کہ ایسے نفسیاتی مریض معاشرے میں اتنی تعداد میں اور اتنے مضبوط ہیں کہ کوئی انہیں ہاتھ ڈالنے سے بھی ڈرتا ہے ۔
مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کو پکڑنا بہت مشکل ہے. ڈارک ویب کی سائٹس سرچ نہیں کی جا سکتیں اور استعمال بھی صرف "ٹور" کی مدد سے ہوتی ہیں جو صارف کو کافی حد تک چھپا دیتا ہے. پھر اس کے ساتھ وی پی این بھی استعمال کیا جائے تو کم از کم ہمارے جیسے نسبتا غیر ترقی یافتہ ممالک کی حکومتوں کے لیے پکڑنا تقریبا ناممکن ہی ہے.
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
ڈارک ویب کیا ھے؟
آپ جو انٹرنیٹ دن رات چلاتے ہیں، اس کے متعلق کتنی معلومات ہیں آپ کو؟؟؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ جتنا انٹرنیٹ آپ روز استمعال کرتے ہیں وہ کل انٹرنیٹ کا صرف چار فیصد ھے—؟
جی ہاں ! اور اسے Surface web یا lightweb کہتے ہیں —!

اس کے بعد نمبر آتا ھے deeb web کا، جو کل انٹرنیٹ کا باقی 96% ھے—-! اور یہ آپکے استعمال میں موجود Surface web سے 5000 ہزار گنا بڑا اور وسیع ھے، اس میں Surface web استعمال کرنے والے ہر شخض، ہر ادارے اور ہر حکومت کی ہر قسم کی معلومات جمع ہیں —!

لیکن کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی! کیونکہ Deep web کا ایک حصہ ھے جو تمام انٹرنیٹ کا تھل ھے، وہ Dark web یا Black net کہلاتا ہے—! کوئی نہیں جانتا کہ یہ کتنا حجم رکھتا ھے مگر، یہاں دنیا کا ہر غیر قانونی و غیر انسانی کام ہوتا ھے—-! منشیات، اسلحہ اور عورت کی خرید و فروخت سے لے کر ایک انسان کو ذبح کر کے گوشت کھانے تک Deep web عام براؤذرکے ذریعہ باآسابی کھل سکتی ہے۔ مگر اسے کوئی سرچ نہیں کر سکتا۔ اسکے کھلنے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ جس نے ڈیپ ویب کی وہ سائٹ بنائی ہے اسکا لنک جو چند الٹے سیدھے کوڈ نما الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے اسے کسی بھی برائوذر میں میں ڈال کر انٹر کر دیا جائے تو سائٹ کھل جاتی ہے۔ جب کہ dark web کسی بھی عام برائوذر سے کبھی بھی نہیں کھلتی ماسوائے ٹور پراجیکٹ نامی برائوذر کے جسکی سائٹس کی ایکسٹینشنز onion ہوتی ہیں جو صرف ٹور برائوزر پر ہی کھلتی ہے. اسکا بھی سائٹ لنک عجیب الٹے سیدھے کوڈ نما نمبرز پر مشتمل ہوتا ہے اور اسکا سائٹ کوڈ معلوم ہو تب ہی کھلتی ہے. مگر tor کے کچھ اپنے سرچ انجن ہیں جن پر مطلوبہ سائٹ یا مطلوبہ ویڈیوز یا مطلوبہ مواد کو گوگل کی طرح سرچ کر کے باآسانی تلاش کیا جا سکتا ہے۔

اسی میں مزید ایک قدم آگے red rooms ہے۔ جہاں بند کمروں میں دنیا کا بدترین تشدد دکھایا جاتا ہے۔جیسے زندہ انسانوں کی کھال اتارنا۔ آنکھیں نکالنا۔ناک کان آلئہ ؟؟؟؟ وغیرہ کاٹنا اسمیں سلاخیں گھسانا وغیرہ وغیرہ۔

اس سب کے بعد اس سب کا باپ Marianas web ہے۔ جسے نہ کوئی جان سکا نہ جانتا ہے اور نہ اس تک پہنچنا آسان ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں دنیا کی چند بڑی طاقتوں کے قیمتی راز دفن ہیں جیسے اسرائیل امریکہ وغیرہ نیز اسکے ٹاپ آپریٹرز iluminaties ہیں جہاں دنیا بھر کے الومناٹیز کا ڈیٹا بیس موجود ہے۔

ڈارک ورلٖڈ میں ایک خاص قسم کی ویب سائٹس کو ریڈ رومز کہا جاتا ہے وہاں تک رسائی تقریبا ناممکن ہے ۔۔۔ ڈارک ویب ورلڈ میں یہ سب سے خفیہ رومز ہیں۔ ۔۔وہاں تک رسائی بنا پیسوں کے نہیں ہوتی ۔۔۔ ان سائٹس پر جانور یہ انسانوں پر لائیو تشدد کیا جاتا ہے اور بولیاں لگائی جاتی ہیں ۔۔۔ آپ بٹ کوئن کی شکل میں پیسے ادا کر کے فرمائش کر سکتے ہو کہ اس جانور یا انسان کا فلاں اعضا نکال دو ۔۔۔ حقیقی زندگی میں اگر آپ اعتراف کرتے ہیں کہ آپ ریڈ رومز تک گئے ہو ۔۔۔ آپ کو صرف وہاں جانے کے اعتراف پر بھی جیل جانا پڑے گا۔۔

۔ ایسی ایک ویب سائٹ بھی موجود ہے جہاں پر یورپ بھر میں کسی کے بھی قتل کی سپاری دے سکتے ہیں ۔۔۔ عام شخص کا قتل بیس ہزار یورو ۔۔۔۔ صحافی کا قتل ستر ہزار یورو اور سلیبرٹی کے قتل کا ریٹ ایک لاکھ یورو سے شروع ہوتا ہے۔ ایک ویب سائٹ کا کلیم ہے کہ وہ مردہ بچوں کی روحیں فروخت کرتے ہیں۔

پنک متھ ایک ویب سائٹ ہوتی تھی جو کہ 2014 میں ٹریس کر کے بین کر دی گئی ۔۔۔ وہاں لوگ اپنی سابقہ گرل فرینڈز، بیوی سے انتقام کی خاطر ان کی عریاں تصاویر بیچتے تھے اور ویب سائٹس ان لڑکیوں کے نام، ہوم ایڈریس اور فون نمبر کے ساتھ یہ تصاویر شیئر کرتی تھی ۔۔۔ اس ویب سائٹ کی وجہ سے چار سے زیادہ لڑکیاں خود کشی کر چکی تھیں۔ لیکن یہ ویب سائٹ باز نہیں آئی ۔۔۔ ایف بی آئی نے دو ہزار چودہ میں اس کے خلاف تحقیات شروع کیں اور اس کا سرور ٹریس کر کے بند کر دیا۔۔ مالکان آج تک فرار ہیں۔۔۔ (ویب سائٹ چونکہ اب آپریٹ نہیں کرتی اسلیے نام بتا دیا)۔

ڈارک ورلڈ یا ڈیپ ورلڈ میں کچھ ایسی گیمز بھی پائی جاتی ہیں جو عام دنیا میں شاید بین کر دی جائیں۔ ایسی ہی ایک خوفناک گیم کا نام ” سیڈستان (شیطان ) ” ہے ۔۔۔ اس گیم کے گرافکس اس قدر خوفناک ہیں کہ عام دنیا میں کوئی بھی گیم اسٹور اس گیم کی اجازت نہیں دے گا۔ انسانی اسمگلنگ کا سب سے بڑا گڑھ ڈارک ویب ورلڈ کو کہا جاتا ہے ۔۔۔ یہاں خواتین کو بیچنے کا کام بھی کیا جاتا ہے۔۔ جوزف کاکس جو کہ ایک ریسرچر ہیں وہ 2015 میں ڈیپ ویب ورلڈ پر ریسرچ کر رہے تھے ۔۔۔ ایسے میں اسی ورلڈ میں انھیں گروپ ٹکرایا جس کا نام "بلیک ڈیتھ ” تھا اور انھوں نے جوزف کو ایک عورت بیچنے کی آفر کی جس کا نام نکول بتایا اور وہ گروپ اس عورت کی قیمت ڈیڑھ لاکھ ڈالرز مانگ رہا تھا۔۔

کینی بال یعنی آدم خوروں کا ایک فورم ہے جہاں کے اراکین ایک دوسرے کو اپنے جسم کے کسی حصے کا گوشت فروخت کرتے ہیں ۔۔۔ جیسا پچھلے دنوں وہاں ایک پوسٹ لگی جس کے الفاظ یہ تھے
” کیا کوئی میری ران کا آدھا پاونڈ گوشت کھانا چاہے گا؟ صرف پانچ ہزار ڈالرز میں ۔۔۔ اسے خود کاٹنے کی اجازت ہو گی۔۔۔”

جہاز تباہ ہونے کے بعد بلیک باکس (جہاز کا ایک آلہ) تلاش کیا جاتا ہے کیوں کہ وہ ایسے میٹریل سے بنا ہوتا ہے جو تباہ نہیں ہوتا ۔۔۔ اس بلیک باکس میں پائلٹ اور کو پائلٹ کی آخری ریکاڈنگز ہوتی ہے ۔۔۔ اس سے پتا چل جاتا ہے کہ تباہ ہونے سے پہلے کیا ہوا تھا ۔۔۔ ایک ویب سائٹ پر تباہ شدہ جہازوں کی آخری ریکاڈنگز موجود ہیں ۔۔۔ وہاں نائن الیون کے جہاز کی آڈیو فائل بھی موجود ہے ۔۔۔

ایک ویب سائٹ جوتے، پرس، بیلٹ وغیرہ بیچتی ہے اور ان کا یہ دعوی ہے کہ یہ انسانی کھالوں سے بنے ہیں۔۔۔

لکھنے کو بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔۔۔ آپ اس بارے بزنس انسائیڈر، ریڈٹ، یا مختلف فورمز پر آرٹیکلز بھی پڑھ سکتے ہیں لیکن ڈارک ویب ورلڈ ایسی گھناونی دنیا ہے جس کے بارے بس اتنا سا ہی جاننا ضروری ہے۔۔۔

دنیا میں تین قسم کے ویب ہیں۔

۱ سرفیس ویب
۲ ڈیپ ویپ
۳ مریانہ ویب یا ڈارک ویب
۱ سرفیس ویب

سرفیس ویب وہ ویب ہے جو ہم میں سے ہر کوئی استعمال کرتا ہے جس میں روز مرہ کے کام یعنی گوگل فیس بک ویکیپیڈیا یوٹیوب وغیرہ تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔ یہ وہ ویب سائٹس ہوتیں جو انڈیکسڈ ہوئیں ہوتیں ہیں۔ جن کے لنکس کو گوگل کے اندر ایڈ کیا جاتا ہے۔ جنھیں ہم سرچ کرتے ہیں تو اُن کے تک رسائی ممکن ہے۔

۲ ڈیپ ویب
یہ وہ ویب سائٹس ہوتیں ہیں جو انڈیکسڈ نہیں ہوئی ہوتیں۔
یہ بنک ریکارڈز، میڈیکل ریکارڈز، سائنٹیفک رپورٹز، اکیڈیمک انفارمیشن، یعنی تمام ایسی سائٹز ہیں۔ جن تک رسائی تب ہی حاصل کی جا سکتی ہے جب اُن کا ایڈریس ہمارے پاس ہو۔ یعنی اُن کے ایمپلائی یا کسٹمر یا سٹوڈنٹس ہی رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ جن کے پاس پاسورڈ اور یوزر آئی۔ ڈی ہو مریانہ ویب یا ڈارک ویب اسے مریانہ ٹرنچ کی نسبت سے مریانہ ویب کا نام دیا گیا ہے جو سمندر کا سب سے گہرا حصہ ہوتا جہاں پہنچنا مُشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا۔ ان ویب سائٹس تک پہنچنے کے لیے مخصوص براوزر یوزر آئی۔ ڈی اور پاسورڈ کی ضرورت ہوتی۔

یہ وہ وہ جگہ ہے جہاں ایک عجیب ہی دنیا شیطانیت میں ڈوبی ہوتی ہے۔ یہ وہ ویب ہے جہاں تک پہنچا نہیں جا سکتا اور پہنچنا چاہیں تو غیر قانونی ہونے کے ساتھ انتہائی خطرناک بھی ہے۔ یہاں جو لوگ کام کرتے ہیں اُن کے سرورز بھی پرائیویٹ ہوتے ہیں۔ یہاں پر کسی بھی ریگولر براوزر سے رسائی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ ایک مخصوص براوزر ہے ٹی۔ او۔ آر۔ یعنی TOR اسی کے ذریعے ہم یہاں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس ویب تک رسائی حاصل کرنے سے ہماری انفارمیشن اِن تک جا سکتی ہے جس کو یہ اپنے کسی بھی گندے مقصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں اور ہمیں پھنسا سکتے ہیں۔ یہاں پیسوں کی ادائیگی کے لیے بِٹ کوئین کرنسی متعارف کروائی گئی ہے جو ایک ڈیجیٹل کرنسی ہے۔

یہ ویب خفیہ ادارے، مافیا، ہٹ مین، سیکرٹ سوسائٹیز استعمال کرتیں ہیں۔ یہاں پر کاروبار ہوتا ہے۔ ڈرگز کا، ویپنز کا، کنٹریکٹ کلنگز کا، چائیلڈز پورنو گرافی کا، پرائیویٹ لائیو فائٹس کا، ملکوں کے راز چُرانے اور بیچنے کا، انسانی اعضاء بیچنے اور خریدنے کا، لوگوں کے بنک اکاونٹس ہیک کرنے کا۔ یعنی ہر دو نمبر کام یہاں پر ہوتا ہے۔ ان کو پکڑنا بہت ہی مُشکل ہے ایک طرح سے ناممکن ہے۔

ہمارا اصل مُدعا یہ نہیں اصل مُدعا ہے پاکستان میں ہونے والے لگاتار بچوں کے اغوا اُن کے ساتھ جنسی تشدد اور اُن کو مار دینا۔ بچوں کا قتل پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن پاکستان میں سچ کو ہمیشہ مسخ کیا جاتا رہا۔ اور پاکستان میں ہی کیوں دنیا کے بیشتر ممالک میں یہی سب ہو رہا ہے۔آج سے بائیس برس پہلے کا ایک کیس کچھ دوستوں کو یاد ہو گا جاوید اقبال مغل سو بچوں کو قتل کرنے والا درندہ جو بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کرتا تھا اُن کو قتل کرتا تھا اور اُن کی لاشوں کو تیزاب میں جلا دیتا تھا۔ جاوید اقبال مغل جسے جسٹس اللہ بخش رانجھا نے سو دفعہ پھانسی پر چڑھانے کا حُکم دیا تھا۔ اُسے ایک نفسیاتی مریض کہا گیا تھا۔ روزنامہ ڈان کی 2001 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطاق جاوید اقبال مغل نے ایک ویڈیو گیم سینٹر بنایا ہوا تھا جہاں وہ بچوں کو ٹریپ کرتا تھا اُن کے ساتھ جنسی تشدد کرتا تھا اُنھیں پیسے دیتا تھا اور ڈرا دھمکا کر چپ کروا دیتا تھا۔

قتل کرنے کے لیے وہ گھر سے بھاگے بچوں اور فُٹ پاتھ پر رہنے والے غریب بچوں کا انتخاب کرتا تھا۔ 3 دسمبر 1999 کو ایک اردو اخبار کے دفتر پہنچ کر اُس نے اعتراف کیا تھا۔ کہ میں جاوید اقبال ہوں سو بچوں کا قاتل میں نے سو بچوں کا قتل کیا ہے اور مجھے نفرت ہے اس دنیا سے مجھے بچوں کو قتل کرنے پر کوئی ندامت نہیں ہے۔ جاوید اقبال مغل اور اُس کی اعانت کرنے والوں کو موت کی سزا سنائی گئی اور بعد میں جاوید اقبال اور اُسکے ساتھی نے جیل میں زہر کھا کر خود کشی کر لی تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کسی خفیہ ہاتھ نے اُن کو ختم کروا دیا تھا اور یہ کیس تھا ہیومین آرگنز کی اسمگلنگ کا۔ یعنی بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کی ویڈیوز اور بعد میں اُن کو قتل کرکے اُن کے جسمانی اعضاء بیچے گئے تھے اور جاوید اقبال مغل کو خاموش کروا دیا گیا۔ خفیہ ہاتھوں کے لیے کئی جاوید اقبال کام کرتے ہیں۔

2015 کا ایک بڑا اسکینڈل جس میں 2006 سے لیکر 2015 تک تین سو بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کر کے اُن کی ویڈیوز بنائی گئیں اور اُس سارے معاملے میں پولیس اور ایم۔ پی۔ اے ملک احمد سعید کو ملوث بتایا گیا۔ ہم جس طرح سے ہر کیس کو جہالت اور نفسیاتی پیچیدگیوں کو وجہ بنا کر چُپ ہو جاتے ہیں ایسا نہیں ہے۔ یہ ایک ملٹی ٹریلین انڈسٹری ہے۔ ابھی حال ہی میں قصور میں زینب بھی اسی جنسی تشدد کا شکار ہوئی اور بعد میں اُس کی لاش کچرے میں پائی گئی۔ اور پورے پاکستان میں ہی یہ ہو رہا مذہبی کمیونٹی لبرلز کو اسکی وجہ مانتے ہیں اور لبرلز اس کو مولویوں پر تھوپ رہے بھائی لوگ یہ اتنا سادہ کام نہیں ہے یہ کسی محرومی کی وجہ سے یا نفسیاتی پیچیدگیوں کی وجہ سے نہیں ہو رہا یہ کاروبار ہے۔ بہت بڑا کاروبار ہے مثال کے طور دنیا کے کچھ امیر لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر ڈارک ویب پر جاتے جہاں وہ کسی مخصوص ویب سائیٹ کے ممبر ہوتے وہاں باقاعدہ لائیو دیکھایا جاتا یہ سب وہ باقاعدہ اپنی ڈیمانڈ پر بچے کے ساتھ یا عورت کے ساتھ جنسی تشدد کرواتے اور بولی لگاتے کہ اس کے ساتھ یہ کرو تو اتنے پیسے لے لو اور وہ کرو تو اتنے پیسے۔


پرائیویٹ فائٹس میں کسی ایک فائٹر کے مرنے تک یہ لوگ بولیاں لگاتے رہے ہم لوگ ایک ایسی شیطانی دنیا میں رہ رہے ہیں جس کی شیطانیت پوری طرح سے انسانیت پر غالب آچُکی ہے جس کی وجہ ہے اچھے لوگوں کی خاموشی۔ نکلو جاگو اُٹھو ورنہ دنیا سے اُٹھ جاو گے۔ یہاں کچھ بُرے لوگ اپنے تھوڑے سے فائدے کے لیے انسانی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ ہمارے ملک کی کیا حالت ہے۔ کرپشن، بے ایمانی، رشوت خوری ہمارا شیوہ بن چکا ہے۔ ہم چُپ ہیں یوں جیسے مر چُکے ہیں۔ میری مُلک کے اہم اداروں سے درخواست ہے کہ قصور میں بھارتی دخل اندازی کو بھی چیک کیا جائے۔ مجھے پورا یقین ہے ان آرگنائزڈ کرائم کے پیچھے سرحد پار سے بھی کچھ سرکاری اور غیر سرکاری لوگ ضرور شامل ہوں گے۔ ہمیں اُٹھنا پڑیگا ورنہ ایک عام انسان کی پہلے سے جہنم زندگی اور بھی جہنم بن جائے گی.

تحریر: رستم علی خان
22/01/2018
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
یہ معاملہ سمجھ سے باہر ہے ۔ ایک طرف تو ڈارک ویب سسٹم بہت خفیہ ، اور اس تک پہنچنا بہت مشکل ، غیر قانونی اور قابل سزا ہے ، دوسری طرف اس پر ہونے والا کاروبار بہت فائدے مند ہے ، اور اتنا فائدے مند کہ اس کے حصول کے لیے انسانوں پر بد ترین ظلم اور تشدد تک کیا جاتا ہے ۔
جب نیٹ کا مصدر اور گیٹ وے حکومت کے کنٹرول میں ہے ، تو اس کے ذریعے سے اس غیر قانونی دنیا میں داخل ہونے والے پکڑے کیوں نہیں جاتے ؟
اس قسم کی خبریں ، اور کہانیاں کوئی نیا فتنہ پھیلانے کے لیے تو نہیں مشہور کی جارہیں ؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ویب انٹرنیٹ سے کنیکٹ کمپیوٹروں کا مجموعہ ہے۔ ہر وہ کمپیوٹر جو انٹرنیٹ سے کسی بھی شکل میں کنیکٹ ہے وہ "ورلڈ وائڈ ویب" کا ایک حصہ ہے۔
اگر کسی سرور پر باقاعدہ سرچ کرنے کے قابل ویب پیج بنا کر رکھا جائے تو وہ نارمل ویب کی کیٹیگری میں آتا ہے۔ اس کے علاوہ سب ڈیپ ویب ہوتا ہے۔ اگر کسی کمپنی کے کمپیوٹروں کا نیٹ ورک یا اس کا ڈیٹا بیس سرور انٹر نیٹ سے کنیکٹ ہے تو وہ بھی ڈیپ ویب کا حصہ ہے اس لیے ڈیپ ویب کوئی بری چیز نہیں ہے۔ کسی کمپنی کے نیٹ ورک تک آپ عام طور پر اسی وقت رسائی حاصل کر سکتے ہیں جب آپ کے پاس ان کا ایڈریس اور آئی ڈی ہو۔ اسے آپ قانونی طور پر بھی حاصل کر سکتے ہیں اور غیر قانونی طور پر چرا بھی سکتے ہیں۔ اگر کسی کمپنی نے اپنا نیٹ ورک باہر کے لوگوں کے لیے نہیں کھولا ہوا تو آپ بھی اس تک عموما اس وقت تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے جب تک آپ اس میں بیک ڈور نہ کھول لیں
ڈارک ویب وہ ویب سائٹس ہوتی ہیں جو مخصوص مقاصد سے بنائی جاتی ہیں۔ ان ویب سائٹس کا ایڈریس کچھ اس طرح کا ہوتا ہے:
http://auutwvpt2zktxwng.onion/
یہ ایک حقیقی ایڈریس ہے لیکن یہ سائٹ ہیک ہو چکی ہے۔ اس لیے اگر آپ اسے کھول لیں تو اس کے مندرجات پر یقین نہیں کیجیے گا۔ اس کے ایڈریس کو ذرا غور سے دیکھیے! اس کے آخر میں ڈاٹ اونین لکھا ہے اور اس کا ایڈریس عجیب و غریب الفاظ کا مجموعہ ہے۔ یہ ویب سائٹ صرف "ٹور" براؤزر کی مدد سے کھلتی ہے۔
ٹور براؤزر یہ کرتا ہے کہ وہ آپ کی آئی پی کو پوری دنیا میں باؤنس کرتا ہے۔ مثلاً اگر آپ نے محدث فورم کھولنا ہے تو عام حالات میں آپ کا لنک یوں ہوگا:
آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محدث
لیکن ٹور براؤزر کی صورت میں لنک یوں ہوگا:
آپ۔۔۔۔۔۔۔۔کمپیوٹر 1۔۔۔۔۔۔۔۔۔کمپیوٹر2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کمپیوٹر3۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محدث
ایسی صورت میں آپ کی حکومت صرف یہ دیکھ سکتی ہے کہ آپ کمپیوٹر 1 سے کنیکٹ ہوئے ہیں۔ آگے کی تلاش اس کے لیے بہت مشکل ہے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ حکومت یا آئی ایس پی یہ دیکھ لے کہ آپ کے پاس کمپیوٹر 1 سے آنے والا ڈیٹا کون سا ہے۔ اس کو چھپانے کے لیے "وی پی این" سے کنیکٹ کیا جاتا ہے جو خود ایک سرور ہوتا ہے۔ اب لنک یوں بنتا ہے:
آپ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، وی پی وین سرور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کمپیوٹر 1۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کمپیوٹر 2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کمپیوٹر 3۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محدث
یہاں آپ کے اور وی پی این سرور کے درمیان کا تعلق میں نے "،" سے ظاہر کیا ہے۔ وی پی این سے آپ کے پاس آنے والا ڈیٹا "انکرپٹڈ" ہوتا ہے یعنی وہ کوڈ کی شکل میں ہوتا ہے۔ حکومت اسے ڈی کرپٹ کیے بغیر نہیں دیکھ سکتی اور ڈیکرپٹ کرنا آسان کام نہیں ہے، حتی کہ حکومتوں کے لیے بھی۔ انہیں کسی ایک کمپیوٹر کو نہیں دیکھنا ہوتا۔ وی پی این سرور سے ڈیٹا پاکستانی حکومت نہیں لے سکتی۔ البتہ اگر امریکا کی بات ہو اور سرور امریکا میں ہو تو وہ لوگ اس سے ڈیٹا لے سکتے ہیں (اس لیے ہوشیار رہیے!)۔ ہیکرز عموماً امریکا میں کام کے لیے روس کے وی پی این استعمال کرتے ہیں۔

آگے جو مرینہ ویب، ڈارک رومز، شیڈو ویب اور دوسری کیٹیگریاں بنائی گئی ہیں یہ حقیقت میں کوئی الگ سے چیزیں نہیں ہیں بلکہ ڈارک ویب کی مخصوص کاموں والی ویب سائٹس کو الگ الگ نام دے دیے گئے ہیں اور ان کے الگ الگ زمرہ جات فرض کر لیے گئے ہیں۔
ہر زمانے میں ایسے لوگ موجود رہتے ہیں جو تشدد کی انتہا کو پسند کرتے ہیں اور اس کے لیے پیسے لگاتے ہیں۔ یہ نہ ہوں تو جرائم ہی ختم ہو جائیں۔ اس طرح کے لوگ اگر پیسے والے نہ ہوں تو خود جرم کرتے ہیں اور اگر پیسے والے ہوں تو دوسروں سے جرائم کرواکے خود حظ اٹھاتے ہیں۔ اس لیے یہ ویب سائٹس استعمال ہوتی ہیں۔ چونکہ ان ویب سائٹس کو سرچ نہیں کیا جا سکتا اس لیے ان کے ایڈریس "سینہ بہ سینہ" چلتے ہیں اور صرف مخصوص لوگ ہی ان تک آ پاتے ہیں۔ البتہ اپنی معلومات میں اضافے کے لیے اگر آپ کھولنا چاہیں تو چند عمومی ویب سائٹس کے ایڈریس آپ http://kpvz7ki2lzvnwve7.onion/wiki/index.php/Main_Page سے لے سکتے ہیں۔ اس کے لیے ٹور انسٹال کیجیے اور اس ایڈریس پر چلے جائیے۔ یہاں تک تو میرے علم کے مطابق غیر قانونی نہیں ہے۔ آگے آپ پر منحصر ہے۔
یہ یاد رہے کہ ڈیپ و ڈارک ویب پر ہونے والا اکثر (شاید پچانوے فیصد سے زائد) کام فراڈ پر مشتمل ہےاور یہاں قدم قدم پر ہیکرز پلکیں بچھائے آپ کے منتظر ہوتے ہیں کہ کب آپ تشریف لائیں اور کب وہ آپ کے کمپیوٹر کو اپنے مقاصد کے لیے شکار کریں۔ آپ کے سارے اینٹی وائرس صرف آپ کے دل کی تسلی کے لیے ہیں۔ اس لیے ذرا خیال سے آگے جائیے گا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ویب انٹرنیٹ سے کنیکٹ کمپیوٹروں کا مجموعہ ہے۔ ہر وہ کمپیوٹر جو انٹرنیٹ سے کسی بھی شکل میں کنیکٹ ہے وہ "ورلڈ وائڈ ویب" کا ایک حصہ ہے۔
اگر کسی سرور پر باقاعدہ سرچ کرنے کے قابل ویب پیج بنا کر رکھا جائے تو وہ نارمل ویب کی کیٹیگری میں آتا ہے۔ اس کے علاوہ سب ڈیپ ویب ہوتا ہے۔ اگر کسی کمپنی کے کمپیوٹروں کا نیٹ ورک یا اس کا ڈیٹا بیس سرور انٹر نیٹ سے کنیکٹ ہے تو وہ بھی ڈیپ ویب کا حصہ ہے اس لیے ڈیپ ویب کوئی بری چیز نہیں ہے۔ کسی کمپنی کے نیٹ ورک تک آپ عام طور پر اسی وقت رسائی حاصل کر سکتے ہیں جب آپ کے پاس ان کا ایڈریس اور آئی ڈی ہو۔ اسے آپ قانونی طور پر بھی حاصل کر سکتے ہیں اور غیر قانونی طور پر چرا بھی سکتے ہیں۔ اگر کسی کمپنی نے اپنا نیٹ ورک باہر کے لوگوں کے لیے نہیں کھولا ہوا تو آپ بھی اس تک عموما اس وقت تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے جب تک آپ اس میں بیک ڈور نہ کھول لیں
ڈارک ویب وہ ویب سائٹس ہوتی ہیں جو مخصوص مقاصد سے بنائی جاتی ہیں۔ ان ویب سائٹس کا ایڈریس کچھ اس طرح کا ہوتا ہے:
http://auutwvpt2zktxwng.onion/
یہ ایک حقیقی ایڈریس ہے لیکن یہ سائٹ ہیک ہو چکی ہے۔ اس لیے اگر آپ اسے کھول لیں تو اس کے مندرجات پر یقین نہیں کیجیے گا۔ اس کے ایڈریس کو ذرا غور سے دیکھیے! اس کے آخر میں ڈاٹ اونین لکھا ہے اور اس کا ایڈریس عجیب و غریب الفاظ کا مجموعہ ہے۔ یہ ویب سائٹ صرف "ٹور" براؤزر کی مدد سے کھلتی ہے۔
ٹور براؤزر یہ کرتا ہے کہ وہ آپ کی آئی پی کو پوری دنیا میں باؤنس کرتا ہے۔ مثلاً اگر آپ نے محدث فورم کھولنا ہے تو عام حالات میں آپ کا لنک یوں ہوگا:
آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محدث
لیکن ٹور براؤزر کی صورت میں لنک یوں ہوگا:
آپ۔۔۔۔۔۔۔۔کمپیوٹر 1۔۔۔۔۔۔۔۔۔کمپیوٹر2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کمپیوٹر3۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محدث
ایسی صورت میں آپ کی حکومت صرف یہ دیکھ سکتی ہے کہ آپ کمپیوٹر 1 سے کنیکٹ ہوئے ہیں۔ آگے کی تلاش اس کے لیے بہت مشکل ہے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ حکومت یا آئی ایس پی یہ دیکھ لے کہ آپ کے پاس کمپیوٹر 1 سے آنے والا ڈیٹا کون سا ہے۔ اس کو چھپانے کے لیے "وی پی این" سے کنیکٹ کیا جاتا ہے جو خود ایک سرور ہوتا ہے۔ اب لنک یوں بنتا ہے:
آپ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، وی پی وین سرور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کمپیوٹر 1۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کمپیوٹر 2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کمپیوٹر 3۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محدث
یہاں آپ کے اور وی پی این سرور کے درمیان کا تعلق میں نے "،" سے ظاہر کیا ہے۔ وی پی این سے آپ کے پاس آنے والا ڈیٹا "انکرپٹڈ" ہوتا ہے یعنی وہ کوڈ کی شکل میں ہوتا ہے۔ حکومت اسے ڈی کرپٹ کیے بغیر نہیں دیکھ سکتی اور ڈیکرپٹ کرنا آسان کام نہیں ہے، حتی کہ حکومتوں کے لیے بھی۔ انہیں کسی ایک کمپیوٹر کو نہیں دیکھنا ہوتا۔ وی پی این سرور سے ڈیٹا پاکستانی حکومت نہیں لے سکتی۔ البتہ اگر امریکا کی بات ہو اور سرور امریکا میں ہو تو وہ لوگ اس سے ڈیٹا لے سکتے ہیں (اس لیے ہوشیار رہیے!)۔ ہیکرز عموماً امریکا میں کام کے لیے روس کے وی پی این استعمال کرتے ہیں۔

آگے جو مرینہ ویب، ڈارک رومز، شیڈو ویب اور دوسری کیٹیگریاں بنائی گئی ہیں یہ حقیقت میں کوئی الگ سے چیزیں نہیں ہیں بلکہ ڈارک ویب کی مخصوص کاموں والی ویب سائٹس کو الگ الگ نام دے دیے گئے ہیں اور ان کے الگ الگ زمرہ جات فرض کر لیے گئے ہیں۔
ہر زمانے میں ایسے لوگ موجود رہتے ہیں جو تشدد کی انتہا کو پسند کرتے ہیں اور اس کے لیے پیسے لگاتے ہیں۔ یہ نہ ہوں تو جرائم ہی ختم ہو جائیں۔ اس طرح کے لوگ اگر پیسے والے نہ ہوں تو خود جرم کرتے ہیں اور اگر پیسے والے ہوں تو دوسروں سے جرائم کرواکے خود حظ اٹھاتے ہیں۔ اس لیے یہ ویب سائٹس استعمال ہوتی ہیں۔ چونکہ ان ویب سائٹس کو سرچ نہیں کیا جا سکتا اس لیے ان کے ایڈریس "سینہ بہ سینہ" چلتے ہیں اور صرف مخصوص لوگ ہی ان تک آ پاتے ہیں۔ البتہ اپنی معلومات میں اضافے کے لیے اگر آپ کھولنا چاہیں تو چند عمومی ویب سائٹس کے ایڈریس آپ http://kpvz7ki2lzvnwve7.onion/wiki/index.php/Main_Page سے لے سکتے ہیں۔ اس کے لیے ٹور انسٹال کیجیے اور اس ایڈریس پر چلے جائیے۔ یہاں تک تو میرے علم کے مطابق غیر قانونی نہیں ہے۔ آگے آپ پر منحصر ہے۔
یہ یاد رہے کہ ڈیپ و ڈارک ویب پر ہونے والا اکثر (شاید پچانوے فیصد سے زائد) کام فراڈ پر مشتمل ہےاور یہاں قدم قدم پر ہیکرز پلکیں بچھائے آپ کے منتظر ہوتے ہیں کہ کب آپ تشریف لائیں اور کب وہ آپ کے کمپیوٹر کو اپنے مقاصد کے لیے شکار کریں۔ آپ کے سارے اینٹی وائرس صرف آپ کے دل کی تسلی کے لیے ہیں۔ اس لیے ذرا خیال سے آگے جائیے گا۔
کافی تسلی بخش معلومات ہیں ۔
مطلب واقعتا یہ دھندا اس انداز سے ہوسکتا ہے ۔
ایک قابل اشکال بات رہ گئی ہے ، جب سب ڈارک ویب سائٹس میں ڈاٹ کام کی طرح ایک الگ ایڈریس موجود ہے ، تو کیا حکومت یا انٹرنیٹ فراہم کرنے والے ادارے ، اس سیریل کو بند نہیں کرسکتے ؟ یا پھر جان بوجھ کر یہ چور راستہ کھلا چھوڑا ہوا ہے ، تاکہ بلیک میلنگ سے ہونے والے فوائد کا کچھ حصہ انہیں بھی ملتا رہے ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
کافی تسلی بخش معلومات ہیں ۔
مطلب واقعتا یہ دھندا اس انداز سے ہوسکتا ہے ۔
ایک قابل اشکال بات رہ گئی ہے ، جب سب ڈارک ویب سائٹس میں ڈاٹ کام کی طرح ایک الگ ایڈریس موجود ہے ، تو کیا حکومت یا انٹرنیٹ فراہم کرنے والے ادارے ، اس سیریل کو بند نہیں کرسکتے ؟ یا پھر جان بوجھ کر یہ چور راستہ کھلا چھوڑا ہوا ہے ، تاکہ بلیک میلنگ سے ہونے والے فوائد کا کچھ حصہ انہیں بھی ملتا رہے ۔
آپ کا سوال جو میں سمجھا ہوں اس کے متعلق عرض کرتا ہوں۔ جو ایڈریس ہمیں اپنے براؤزر کی ایڈریس بار میں نظر آتا ہے (جیسے محدث ڈاٹ کام) یہ حقیقت میں ایک آئی پی کا ظاہری نام ہوتا ہے۔ مثلاً محدث ڈاٹ کام کی آئی پی 185.24.99.103 ہے۔ جب ہم بار میں "محدث ڈاٹ کام" لکھتے ہیں تو وہ دراصل اسے اس آئی پی میں تبدیل کرکے 185.24.99.103 پر جاتا ہے۔ اسی طرح گوگل کی آئی پی 172.217.9.14 ہے۔ اس آئی پی کو یہاں سے کاپی کرکے ایڈریس بار میں لکھیں تو آپ ڈائریکٹ گوگل کے مین پیج پر پہنچ جائیں گے۔ محدث کا مین سرور شاید شئیرڈ آئی پی استعمال کرتا ہے اس لیے ایرر آ جائے گا۔
ان تمام آئی پیز کو یاد رکھنا تقریباً ناممکن ہے اس لیے انہیں محدث ڈاٹ کام جیسے ایڈریس میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ جب کسی سائٹ کو بلاک کرنا ہوتا ہے تو اس کی اسی آئی پی کو حقیقت میں بلاک کیا جا رہا ہوتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب ہم اسے کھولنے کی کوشش کریں گے تو ہماری ریکوئسٹ اس سائٹ تک پہنچنے ہی نہیں دی جائے گی۔
گزشتہ سالوں میں پاکستان میں یو ٹیوب بلاک تھی لیکن لوگ اسے وی پی این کی مدد سے کھول رہے تھے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وی پی این سرور خود دوسرے ملک میں ہوتا ہے اور آپ کا وی پی این تک کنکشن بلاک نہیں ہوتا۔ اسی طرح ٹور بھی بلاک ویب سائٹس کو کھول سکتا ہے کیوں کہ وہ بھی کسی اور ملک سے کھول رہا ہوتا ہے جہاں وہ آئی پی ایڈریس بلاک نہیں ہوتا۔
اونین کی ہر ویب سائٹ بھی ایک آئی پی ہوتی ہے جس تک رسائی صرف ٹور کی مدد سے ہوتی ہے۔ ایک اور براؤزر نما چیز "آئی ٹو پی" ہے۔ اس کی اپنی سائٹس ہیں اور یہ ٹور سے بھی زیادہ محفوظ اور پوشیدہ ہے لیکن اس کا استعمال کم ہے۔ حکومت زیادہ سے زیادہ ایک آئی پی بلاک کر سکتی ہے لیکن وہ آئی پی پاکستان میں بلاک ہوگی۔ ٹور اسے فرانس یا کینیڈا سے کھولے گا تو اس پر بلاک ہونے کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔
ہاں اگر دنیا بھر کے تمام نیٹ پرووائیڈر اونین (پیاز) کے لفظ کو ہی بلاک کر دیں (جو کہ عملاً ناممکن ہے) تو شاید یہ سائٹس عارضی طور پر رک جائیں۔ اگلے دن یہ اس میں ذرا سی تبدیلی کر لیں گے اور پھر آن لائن ہو جائیں گے۔ یہ کوئی ایک سرور بھی نہیں ہے جسے بلاک کر دیا جائے تو یہ سب رک جائیں۔ ڈارک ویب کے اکثر سرورز پرائیوٹ کمپیوٹروں پر بنتے ہیں کیوں کہ کوئی کمپنی ایسے کاموں کے لیے سروس فراہم نہیں کر سکتی۔ اب اگر میرے کمپیوٹر پر ایک ڈارک ویب کا سرور بنا ہوا ہو تو جب تک مجھ پر کسی کو شک نہیں ہوگا تب تک نہ یہ معلوم ہو سکتا ہے اور نہ بلاک کیا جا سکتا ہے۔
 
Top