• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کھانے پینے کے احکام محمد بن ابراھیم التویجری/حفظہ اللہ

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
شکار
شکار: شکارکا مطلب ہے کوئی حلال جنگلی جانورجوکسی کی ملکیت میں نہ ہواورجسکوکوئی آدمی اپنے قابومیں نہ کرسکا ہوکسی معتبرآلہ سے قصداًقتل کرنا-
شکارمیں اصل اباحت ہے الَا یہ کہ حرم میں شکارکرناجائزنہیں اورمحرم پرخشکی کا شکارحرام ہے-
اللہ تعالى فرماتا: {أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا وَاتَّقُواْ اللّهَ الَّذِيَ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ} (المائدۃ:96)
"تمہارے لئے دریا کاشکارپکڑنا اوراسکا کھانا حلال کیا گیا ہے تمہارے فائدے کے واسطے اورمسافروں کے واسطے اورخشکی کا شکارپکڑناا تمہارے لئے حرام کیا گیا ہے,جب تک حالت احرام میں رہواوراللہ تعالى سے ڈروجس کے پاس جمع کئے جاؤگے"-
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
شکارکوپانے اورروکنے کے بعداسکی دوحالتیں ہیں:
ایک یہ کہ اسکوبالکل زندہ پا ئے ایسی صورت میں یہ شکار,شکارکی شرطوں سےحلال ہوگا-
حلال شکارکی شرط یہ ہیں:
1- شکارکرنے والا ان لوگوں میں سے ہو جنکا ذبح کرنا درست مانا جاتا ہے یعنی وہ مسلمان یا اہل کتاب اوربالغ یا تمییزکرنے والا ہو-
2- شکاردوقسم کی چیزوں میں سے کسی ایک سے کیا گیا ہویا توایسی دھاردارچیزسے کیا گیا ہوجوخون کوبہانے والی ہو,دانت اورناخن کے علاوہ ,یا سکھائے ہوئے شکاری جانوریا پرندوں سے شکارکیا گیا ہوجیسے کہ کتا یا بازوشکرا وغیرہ-
3- شکاری جانوریا پرندے کوشکارکی طرف قصداً چھوڑا گیا ہو-
4- تیرپھینکتے وقت یا شکاری جانوریا پرندے کوچھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھ لی گئی ہواوراگربھول گیا اوربسم اللہ نہیں پڑھا تب بھی حلال ہوگا لیکن اگرعمداً بسم اللہ نہیں پڑھا ہے توحلال نہیں ہوگا-
5-شکارایسا ہوجسے شکارکرنے کی شرعاً اجازت دی گئی ہو,لہذا احرام باندھنے والے کا شکاراورحرم کا شکارحلال نہیں-
کتا پالنا حرام ہے کیونکہ اس سے لوگ ڈرجاتے ہیں ,گھرمیں فرشتے داخل نہیں ہوتے ہیں ,اس میں نجاست وگندگی ہے,ہردن ایک قیراط اجرکم ہوجاتا ہے,سوائے شکاری کتوں کے یا ان کتوں کے جوچوپائے یا کھیتی کی حفاظت کیلئے پالے جائیں,یعنی ضرورت ومصلحت کے تحت ہی انکا پالنا جائزہے-
اگرکسی نے لاٹھی یا پتھروغیرہ سے مارا اوروہ جانورمرگیا تواسکا کھانا جائزنہیں اسکا شمارموقوذۃ میں ہے,(یعنی جوکسی ضرب یا چوٹ سے مرگیا ہو) اوروہ آلہ چھید کرکے نکل گیا(جس سے اسکا خون بہ گیا مثلا بندوق سے مارا) تواسکا کھانا جائزہے.
لہوولعب اورتفریح کے لئے شکارکرنا جس سے نہ خود فائدہ اٹھائے نہ دوسروں کوفائدہ پہنچائے حرام ہے,کیونکہ اس میں مال ضائع کرنا ہے- بہایا گیا خون یعنی وہ خون جوپرندوں یا جانوروں کے شکارکرنے یاذبح کرنے کے وقت ان کی جان نکلنے سے پہلے بہے وہ حرام ونجس ہے-
اگرچوری یا غصب کئے ہوئے آلات سے شکارکیا جائے تووہ شکارحلال ہوگا لیکن شکارکرنے والا گناہگارہوگا-
نمازچھوڑنے والے کا ذبیحہ یا شکارکرنا مطلقا جائزنہیں ہے لیکن بچے کی نگرانی کرنا ضروری ہے تاکہ شکارکوتکلیف نہ ہو,کسی معصوم آدمی کی طرف سنجیدگی سے یامذاقا ہتھیارسے اشارہ کرنا جائزنہیں ہے . واللہ اعلم بالصواب
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
کھانا کھانے کے کیا کیا آداب ہیں؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

کھانے پینے کے آداب، تفصیلی دلائل کے ساتھ
------------------------------------------------
اسلام میں کھانے کے کیا آداب ہیں؟


الحمد للہ:

شریعتِ اسلامیہ میں کھانے پینے کہ آداب مختلف اقسام میں ہیں:
اول: کھانے سے پہلے کے آداب:
1- کھانے سے قبل دونوں ہاتھوں کو دھونا: کھانے سے پہلےدونوں ہاتھوں کو دھونا چاہئے، تا کہ دونوں ہاتھ کھانے کے دوران صاف ستھرے ہوں، کہیں پہلے سے موجود ہاتھوں پر میل کچیل کی وجہ سے نقصان نہ ہو۔

2- جب انسان کھانے پر کسی کی طرف سے مدعو ہو، اور کھانے کے بارے میں نہ جانتاہوتو میزبان سے کھانے کی نوعیت کے بارے میں پوچھ سکتا ہے، خاص طور پر جب اسے پیش کئے جانے والے کھانے کے بارے میں دلی اطمینان نہ ہو، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس وقت تک کھانا تناول نہیں فرماتے تھے جب تک آپکو کھانے کا نام نہ بتلادیا جاتا، اس بارے میں صحیح بخاری میں ہے کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے -آپ رضی اللہ عنہا ان کی اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خالہ لگتی ہیں- ان کے پاس بھنا ہوا سانڈا دیکھا، جو اِن کی بہن حفیدہ بنت حارث نجد سے لے کر آئی تھیں، میمونہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سانڈا پیش کیا اور بہت کم ایسا ہوتا تھا کہ آپ اپنا ہاتھ کسی کھانے کی طرف بڑھاتے یہاں تک کہ آپکو کھانے کے بارے میں بتلا دیا جاتاکہ یہ کیا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ سانڈے کی طرف بڑھایا، تو جو خواتین آپ کے پاس موجود تھیں ،ان میں سے ایک نے آپ کو بتایا کہ جو آپ کی بیویوں نے پیش کیا ہے یہ تو سانڈا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ سانڈے سے کھینچ لیا، تو خالد بن ولید نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا سانڈا حرام ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نہیں) لیکن میری قوم کے علاقے میں یہ نہیں پایا جاتا اور میری طبیعت اسکو ناپسند کرتی ہے، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے اس کو اپنی طرف کھینچ لیا اور اس کو کھایا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری طر ف دیکھ رہے تھے۔ بخاری ( 5391 ) اورمسلم ( 1946 )

ابن تین کہتے ہیں :آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے پوچھا کرتے تھے کہ عرب کسی چیز کو کھانے میں کراہت محسوس نہیں کرتے تھے، کیونکہ انکے پاس کھانے پینے کی قلت رہتی تھی، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ چیزوں سے کراہت محسوس کرتے تھے، اس لئے آپ پوچھ لیا کرتے تھے، اور اس بات کا بھی احتمال ہے کہ شریعت میں کچھ حیوانات حلال ہیں اور کچھ حرام ، اور عرب کسی جانور کو حرام نہیں جانتے تھے، تو جو چیز بُھون کر یا پکا کر پیش کی جارہی ہے اس کے بارے میں پوچھ کر ہی معلوم کیا جاسکتا تھا اس لئے آپ پوچھتے تھے۔
" فتح الباری " ( 9 / 534 )
3- میزبان کی طرف سے جب کھانا پیش کردیا جائے تو جلدی سے کھانا شروع کردیں، اس لئے کہ مہمان کی عزت افزائی اسی میں ہے کہ جلدی سے اسکے لئے کھانا پیش کردیا جائے، اور میزبان کے سخی ہونے کی علامت ہے کہ وہ جلدی سے کھانے کو قبول کرے، اس لئے کہ اُن کے ہاں اگر کوئی مہمان کھانا نہ کھائے تو اسکے بارے برا گمان کرتے تھے، چنانچہ مہمان پر لازمی ہے کہ وہ میزبان کے دل کو جلدی سے کھانا شروع کرتے ہوئے مطمئن کردے۔
4- کھانے سے قبل بسم اللہ پڑھنا: کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا واجب ہے، اور بسم اللہ سے مراد کھانے کی ابتدا میں صرف "بسم اللہ" ہی ہے، چنانچہ ام کلثوم عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو اللہ کا نام لے، اور اگر اللہ تعالی کا نام لینا ابتدا میں بھول جائے تو کہے: "بِسْمِ اللَّهِ أَوَّلَهُ وَآخِرَهُ"اول و آخر اللہ کے نام سے ) ترمذی ( 1858 ) ابو داود ( 3767 ) وابن ماجه ( 3264 ) ، البانی رحمہ اللہ نے اسے " صحيح سنن ابو داود " ( 3202 ) میں صحیح کہا ہے۔
اسی طرح عمر بن ابو سلمہ سے روایت ہے کہ میں جب چھوٹا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں بیٹھا تھااور میرا ہاتھ پوری تھالی میں گھوم رہا تھا، تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لڑکے! اللہ کا نام لو، اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ، اور جو تمہارے سامنے ہے اس میں سے کھاؤ) بخاری ( 3576 ) ومسلم ( 2022 )
دوم: کھانے کے دوران کے آداب:
1- دائیں ہاتھ سے کھانا: مسلمان پر دائیں ہاتھ سے کھانا واجب ہے، بائیں ہاتھ سے کھانا منع ہے، چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(تم میں سے کوئی بھی بائیں ہاتھ سے نہ کھائےپیئے، اس لئے کہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا اور پیتا ہے) مسلم ( 2020 )

یہ اس شکل میں ہے جب کوئی عذر نہ ہو، لہذا اگر کوئی عذر ہو جسکی وجہ سے دائیں ہاتھ سے کھانا پینا ممکن نہ ہو، جیسے بیماری، یا زخم وغیرہ ہے تو بائیں ہاتھ سے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔
نیز اس حدیث میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ انسان اُن تمام کاموں سے پرہیز کرے جو شیطانی کاموں سے مشابہت رکھتے ہوں۔
2- اپنے سامنے موجود کھانے میں سے کھانا:انسان کیلئے مسنون ہے کہ اپنے سامنے موجود کھانے میں سے کھائے، اور دوسروں کے سامنے سے ہاتھ بڑھا کر نہ اٹھائے، اور نہ ہی کھانے کے درمیان میں سے، اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن ابو سلمہ سے فرمایا تھا: (لڑکے! اللہ کا نام لو، اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ، اور جو تمہارے سامنے ہے اس میں سے کھاؤ) بخاری ( 3576 ) ومسلم ( 2022 )

ویسے بھی کھانے کے دوران اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے افراد کے سامنے سے کھانا کھانا بری عادت ہے، اور مُروَّت کے خلاف ہے، اور اگر سالن وغیرہ ہوتو ساتھ بیٹھنے والا زیادہ کوفت محسوس کریگا، اسکی دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "برکت کھانے کے درمیان میں نازل ہوتی ہے، اس لئے کھانے کے کنارے سے کھاؤ درمیان سے مت کھاؤ"

ترمذی ( 1805 ) اور ابن ماجہ ( 3277 ) نے اسے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے " صحيح الجامع " ( 829 ) میں صحیح قرار دیا ہے۔
لیکن اگر کھانے کی اشیاء کھجوریں اور دیگر اسی قسم کی دوسری اشیاء ہوں تو علماء کے نزدیک تھالی وغیرہ سے ہاتھ کے ذریعے مختلف کھانے کی اشیاء لی جاسکتی ہیں۔
3- کھانے کے بعد ہاتھ دھونا: کھانے کے بعد صرف پانی سے ہاتھ دھونے پر سنت ادا ہو جائے گی ، چنانچہ ابن رسلان کہتے ہیں: اشنان-ایک جڑی بوٹی- یا صابن سے وغیرہ سے دھونا بہتر ہے۔ دیکھیں: " تحفة الأحوذی " ( 5 / 485 )
کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا مستحب ہے چاہے انسان باوضو ہی کیوں نہ ہو۔
4- کھانے کے بعد کلی کرنا: کھانے سے فراغت کے بعد کلی کرنا مستحب ہے، جیسے کہ بشیر بن یسار سوید بن نعمان سے بیان کرتے ہیں کہ وہ صہباء نامی جگہ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے -جو خیبر سے کچھ فاصلے پر ہے- تو نماز کا وقت ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کیلئے کچھ طلب کیا، لیکن سوائے ستو کے کچھ نہ ملا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی کھا لیا، ہم نے بھی ستو کھایا، پھر آپ نے پانی منگوایا اور کلی کی، اور پھر دوبارہ وضو کئے بغیر نماز پڑھی اور ہم نے بھی نماز ادا کی ۔ بخاری (5390)
5- میزبان کیلئے دعا: اس کے بارے میں انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن عبادہ کی طرف آئے تو انہوں نے آپ کیلئے روٹی اور زیتون کا تیل پیش کیا، آپ نے وہ تناول فرمایا اور پھر دعا دی: " أَفْطَرَ عِنْدَكُمْ الصَّائِمُونَ ، وَأَكَلَ طَعَامَكُمْ الْأَبْرَارُ ، وَصَلَّتْ عَلَيْكُمْ الْمَلائِكَةُ " تمہارے پاس روزہ دار افطاری کرتے رہیں، اور تمہارا کھانا نیک لوگ کھائیں، اور فرشتے تمہارئے لئے رحمت کی دعائیں کریں۔ ابو داود (3854) نے اسے روایت کیا ہے اور البانی نے " صحيح سنن ابو داود " ( 3263 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
6- تین انگلیوں سے کھانا کھانا: سنت یہ ہے کہ تین انگلیوں سے کھانا کھایا جائے، قاضی عیاض کہتےہیں: تین سے زیادہ انگلیاں کھانے کیلئے استعمال کرنا بری عادت ہے، اور ویسے بھی لقمہ پکڑنے کیلئے تین اطراف سے پکڑنا کافی ہے، اور اگر کھانے کی نوعیت ایسی ہو کہ تین سے زیادہ انگلیاں استعمال کرنی پڑیں تو چوتھی اور پانچویں انگلی بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔ دیکھیں: " فتح الباری " ( 9 / 578 )
انگلیوں کا استعمال تو اسی وقت ہوگا جب ہاتھ سے کھائے، اور اگر چمچ کا استعمال کرے تو کوئی حرج نہیں ہے، جیسے کہ اسکی تفصیل آگے آئے گی۔
7- گرے ہوئے لقمے کو کھانا: اگر کھانا کھاتے ہوئے لقمہ گر جائے تو لقمہ اٹھا کر اس پر لگی ہوئی مٹی وغیرہ صاف کرکے اسے کھا لے اور شیطان کیلئے مت چھوڑے، کیونکہ یہ کسی کو نہیں پتہ کہ برکت کھانے کے کس حصے میں ہے، اس لئے یہ ممکن ہے کہ اسی لقمے میں برکت ہو جو گر گیا تھا، چنانچہ اگر لقمے کو چھوڑ دیا تو ہوسکتا ہے کہ اس سے کھانے کی برکت چلی جائے، اسکی دلیل انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کھانا کھاتے تو اپنی تینوں انگلیوں کو چاٹتے، اور آپ نے ایک بار فرمایا: (اگر تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو اس سے صاف کرکے کھا لے، شیطان کیلئے اسے مت چھوڑے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ پلیٹ کو انگلی سے چاٹ لیں، اور فرمایا: (تمہیں نہیں معلوم کہ کھانے کے کس حصے میں برکت ہے) مسلم (2034)
8- کھانا کھاتے ہوئے ٹیک مت لگائے: اسکی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں ٹیک لگا کر نہیں کھاتا) بخاری (5399)، ٹیک لگانے کی کیفیت میں اختلاف ہے ۔
چنانچہ ابن حجر کہتےہیں: "ٹیک لگانے کی کیفیت میں اختلاف کیا گیا ہے، کچھ کہتے ہیں: کھانے کیلئے کسی بھی طرح سے زمین پر پسر جانا اس میں شامل ہے، اور کچھ کہتے ہیں کہ: کسی ایک طرف ٹیک لگاکر بیٹھنا، اور یہ بھی کہا گیا ہےکہ : بائیں ہاتھ کو زمین پر رکھ کر اس پر ٹیک لگا کر بیٹھنا۔۔۔، ابن عدی نے ضعیف سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے دوران بائیں ہاتھ پر ٹیک لگا کر بیٹھنے سے ڈانٹ پلائی ہے۔ امام مالک کہتے ہیں کہ یہ ٹیک لگانے کی ایک شکل ہے، میں –ابن حجر-کہتا ہوں کہ: امام مالک کی اس بات میں اشارہ موجود ہے کہ جو بھی شکل ٹیک لگانے میں شامل ہوگی وہ مکروہ ہے، چنانچہ اسکے لئے کوئی خاص کیفیت نہیں ہے" انتہی از "فتح الباری" ( 9 / 541 )
9- کھانا کھاتے ہوئے بلا ضرورت نہ تھوکے۔
10- یہ بھی کھانے کے آداب میں شامل ہے کہ :
• سب مل کر کھانا کھائیں
• کھانے کے دوران اچھی گفتگو کریں
• چھوٹے بچوں اور بیویوں کو اپنے ہاتھ سے کھلائیں
• اپنے لئے کوئی کھانا خاص نہ کرے، ہاں اگر کوئی عذر ہوتو کیا جا سکتا ہے، جیسے کہ دوا کے طور پر، بلکہ بوٹی، نرم گرم روٹی وغیرہ دوسروں کو پیش کرکے اُنہیں اپنے آپ پر ترجیح دے
• مہمان کھانے سے ہاتھ ہٹانے لگے تو میزبان کے کہنے پر دوبارہ کھانا شروع کردے یہاں تک کہ اچھی طرح سیر ہوجائے، اور تین بار سے زیادہ ایسے نہ کرے
• دانتوں میں جو کھانا پھنس جائے اسے تنکے وغیرہ سے نکال دے، اور پھر اسے تھوک دے نِگلے مت۔
سوم: آداب برائے بعد از فراغت:
کھانے سے فراغت کے بعد الحمد للہ، اور دعا پڑھنا مسنون ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کھانے سے فارغ ہوتے او دستر خوان اٹھا لیا جاتا تو فرماتے:
• (الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ غَيْرَ مَكْفِيٍّ وَلا مُوَدَّعٍ وَلا مُسْتَغْنًى عَنْهُ رَبَّنَا)
ترجمہ:بہت زیادہ ، پاکیزہ اور برکتوں والی تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں ، لیکن یہ حمدوثناء اللہ کے لیے کافی نہیں ، نہ اللہ کو چھوڑا جاسکتا ہے اور نہ اس سے کوئی بے نیاز ہوسکتا ہے۔ اے ہمارے رب۔ بخاری ( 5458 )
• نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دودھ کے علاوہ کچھ لیتے تو فرماتے:
" اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيهِ ، وَأَطْعِمْنَا خَيْرًا مِنْهُ "
ترجمہ: "یا اللہ !ہمارے لئے اس میں
برکت ڈال دے، اور ہمیں اسے بھی بہتر کھانا کھلا"
• اور جب آپ دودھ نوش فرماتے تو کہتے:
" اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيهِ ، وَزِدْنَا مِنْهُ "
ترجمہ: "یا اللہ! ہمارے لئے اس میں مزید برکت ڈال دے، اور ہمیں اس سے بھی زیادہ عنائت فرما"
ترمذی نے اسے روایت کیا ہے( 3377 ) اور البانی نے اسے" صحيح الجامع " ( 381 ) میں حسن قرار دیا ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جسے اللہ تعالی کھانا کھلائے تو کہے: " اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيهِ ، وَأَطْعِمْنَا خَيْرًا مِنْهُ "
یا اللہ !ہمارے لئے اس میں برکت ڈال دے، اور ہمیں اسے بھی بہتر کھانا کھلا، (اور جسے اللہ تعالی دودھ پلائے تو کہے: " اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيهِ ، وَزِدْنَا مِنْهُ "یا اللہ! ہمارے لئے اس میں مزید برکت ڈال دے، اور ہمیں اس سے بھی زیادہ عنائت فرما)

ترمذی ( 3455 ) نے اسے روایت کیا ہے اور البانی نے صحيح سنن ترمذی ( 2749 ) میں اسے حسن قرار دیا ہے۔
چہارم: کھانے عمومی آداب:
1- کھانے کے عیب نہ نکالے جائیں، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کھانے کے عیب نہیں نکالے، اگر اچھا لگا تو کھا لیا، اور پسند نہ آیا تو آپ چھوڑ دیتے تھے۔ بخاری ( 3370 ) اورمسلم ( 2046 )
یہاں کھانے سے مراد ایسا کھانا ہے جسکو کھانا جائز ہے، جبکہ حرام کھانے کے بارے میں اسکی مذمت فرماتے، اور اس سے روکتے بھی تھے۔
نووی کہتے ہیں:
"کھانے کے آداب میں سے ضروری یہ ہے کہ کھانے کے بارے میں یہ نہ کہاجائے: "نمک زیادہ ہے"، "کھٹا ہے"، " نمک کم ہے"، "گھاڑا ہے"، "پتلا ہے"، "کچا ہے"، وغیرہ وغیرہ۔
ابن بطال کہتےہیں:
یہ بہت اچھے آداب میں سے ہے، اس لئے کہ انسان کو کوئی چیز اچھی نہیں لگتی لیکن دوسروں کو پسند ہوتی ہے، جبکہ دونوں ہی شریعت میں جائز ہیں، کسی پر بھی شریعت کی طرف سے کوئی عیب نہیں ہے" " شرح مسلم " ( 14 / 26 )
2- میانہ روی سے کھانا کھانا اور مکمل طور پر پیٹ نہ بھرنا بھی کھانے کے آداب میں شامل ہے، اس کے لئے ایک مسلمان کو اپنے پیٹ کے تین حصے کرنے چاہئیں، ایک تہائی کھانے کیلئے، ایک تہائی پانی کیلئے اور ایک تہائی سانس لینے کیلئے، جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے: "کسی انسان نے اپنے پیٹ سے بُرا برتن کبھی نہیں بھرا ابن آدم کے لیے چند نوالے کافی ہیں جو اس کی کمر سیدھی رکھیں اور اگر زیادہ کھانا ضروری ہو تو تہائی پیٹ کھانے کے لیے، تہائی پینے کے لیے اور تہائی سانس کے لیے مختص کر دے" ترمذی ( 2380 ) ابن ماجہ ( 3349 ) البانی نے اسے صحيح ترمذی ( 1939 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
جسم کو ہلکا پھلکا اور معتدل رکھنے کیلئے یہ ضروری ہے، کیونکہ زیادہ کھانے سے بدن بھاری ہوجاتا ہے، جس سے عبادت اور کام کرنے میں سستی آتی ہے، اور "تہائی " سے کھانے کی وہ مقدار مراد ہے جس سے انسان مکمل پیٹ بھر لے اسکا تیسرا حصہ ۔
" الموسوعة الفقہیہ الکویتیہ" ( 25 / 332 )
3- کھانے پینے کیلئے سونے اور چاندی کے برتن استعمال نہ کرے ، کیونکہ یہ حرام ہے، اسکی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (موٹی اور باریک ریشم مت پہنو، اور نہ ہی سونے چاندی کے برتنوں میں پئو، اور نہ ہی اسکی بنی ہوئی پلیٹوں میں کھاؤ، اس لئے یہ کفار کیلئے دنیا میں ہیں اور ہمارے لئے آخرت میں ہیں) بخاری ( 5426 ) ومسلم ( 2067 )
و اللہ اعلم۔
4- کھانے سے فراغت کے بعد اللہ کی تعریف کرنا : اسکی بہت بڑی فضیلت ہے، چنانچہ انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بے شک اللہ تعالی اپنے بندے سے راضی ہوتا ہے جب وہ ایک لقمہ کھائے تو اللہ کی تعریف کرے، یا پانی کا گھونٹ بھی پئے تو اللہ کی تعریف کرے" مسلم (2734)
اس کیلئے متعدد الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں:
1- بخاری نے ابو امامہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دستر خوان اٹھایا جاتا تو فرماتے: " الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ غَيْرَ مَكْفِيٍّ وَلَا مُوَدَّعٍ وَلَا مُسْتَغْنًى عَنْهُ رَبَّنَا " اسے بخاری (5458) نے روایت کیا ہے۔
ابن حجر کہتے ہیں " غَيْرَ مَكْفِيٍّ" کے بارے میں کہا گیا ہے کہ: وہ ذات اپنے بندوں میں سے کسی کی محتاج نہیں ہے وہی اپنے بندوں کو کھلاتا ہے، اور اپنے بندوں کیلئے کافی ہے، اور "وَلَا مُوَدَّعٍ" کا مطلب ہے کہ اُسے چھوڑا نہیں جاسکتا۔
2- معاذ بن انس اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص کھانا کھائے اور پھر کہے:

"الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنِي هَذَا وَرَزَقَنِيهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلَا قُوَّةٍ"

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جس نے مجھے یہ کھانا کھلایا، اور مجھے بغیر کسی مشقت اور تکلیف کے رزق سے نوازا۔اسکے سابقہ سارے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔
ترمذی ( 3458 ) وابن ماجہ ( 3285 ) ، البانی نے اسے " صحيح ترمذی " ( 3348 ) میں حسن قرار دیا ہے۔
3- ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کچھ کھاتے یا پیتے تو فرماتے:

(الحمدُ لله الذي أطعَمَ وسَقَى وسَوَّغهُ وجَعَلَ له مَخْرَجَاً)
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جس نے کھلایا اور پلایا اور اسے خوش ذائقہ بنایا، اور پھر اسکے لئے خارج ہونے کا راستہ بنایا۔ ابو داود نے اسے روایت کیا ہے( 3851 ) اور اسے البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔

4- عبد الرحمن بن جبیر کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آٹھ سال تک خدمت کرنے والے خادم نے بتلایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کھانا پیش کیاجاتا تھا آپ کہتے تھے: "بسم اللہ" اور جب فارغ ہوتے تو کہتے: " اللَّهُمَّ أَطْعَمْتَ وَأَسقَيْتَ، وَهَدَيْتَ، وَأَحْيَيْتَ، فَلَكَ الْحَمْدُ عَلَى مَا أَعْطَيْتَ"

ترجمہ: یا اللہ! توں نے ہی کھلایا، پلایا، ہدایت دی، اور زندہ رکھا، چنانچہ تیری ان عنائتوں پر تیرے لئے ہی تعریفیں ہیں ۔

مسند احمد ( 16159 ) اور البانی نے " السلسلة الصحيحة " ( 1 / 111 ) میں اسے صحیح کہا ہے۔
فائدہ: مذکورہ بالا حمدِ باری تعالی کے تمام الفاظ کو باری باری کہنا مستحب ہے، ایک بار ایک انداز سے اور دوسری بار دوسرے الفاظ سے اللہ کی تعریف کی جائے، اس سے ایک تو تمام الفاظ یاد رہیں گے، اور سب الفاظ کی برکت حاصل کر پائیں گے، اور اسکے ساتھ ساتھ ان الفاظ میں موجود معنی بھی ذہن میں رہے گا، کیونکہ جب انسان ایک ہی چیز کو عادت بنا لے تو اسکے معانی زیادہ تر ذہن میں نہیں آتے۔
ماخوذاز کتاب : "الآداب" مؤلف : شہلوب (155) .
اسلام سوال وجواب
 

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
بہت اچھا مضمون ہے لیکن بہت لمبا ہے قسطوں میں آتا تو بہت اچھا ھوتا
 

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
شکارکوپانے اورروکنے کے بعداسکی دوحالتیں ہیں:
ایک یہ کہ اسکوبالکل زندہ پا ئے ایسی صورت میں یہ شکار,شکارکی شرطوں سےحلال ہوگا-
حلال شکارکی شرط یہ ہیں:
1- شکارکرنے والا ان لوگوں میں سے ہو جنکا ذبح کرنا درست مانا جاتا ہے یعنی وہ مسلمان یا اہل کتاب اوربالغ یا تمییزکرنے والا ہو-
2- شکاردوقسم کی چیزوں میں سے کسی ایک سے کیا گیا ہویا توایسی دھاردارچیزسے کیا گیا ہوجوخون کوبہانے والی ہو,دانت اورناخن کے علاوہ ,یا سکھائے ہوئے شکاری جانوریا پرندوں سے شکارکیا گیا ہوجیسے کہ کتا یا بازوشکرا وغیرہ-
3- شکاری جانوریا پرندے کوشکارکی طرف قصداً چھوڑا گیا ہو-
4- تیرپھینکتے وقت یا شکاری جانوریا پرندے کوچھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھ لی گئی ہواوراگربھول گیا اوربسم اللہ نہیں پڑھا تب بھی حلال ہوگا لیکن اگرعمداً بسم اللہ نہیں پڑھا ہے توحلال نہیں ہوگا-
5-شکارایسا ہوجسے شکارکرنے کی شرعاً اجازت دی گئی ہو,لہذا احرام باندھنے والے کا شکاراورحرم کا شکارحلال نہیں-
کتا پالنا حرام ہے کیونکہ اس سے لوگ ڈرجاتے ہیں ,گھرمیں فرشتے داخل نہیں ہوتے ہیں ,اس میں نجاست وگندگی ہے,ہردن ایک قیراط اجرکم ہوجاتا ہے,سوائے شکاری کتوں کے یا ان کتوں کے جوچوپائے یا کھیتی کی حفاظت کیلئے پالے جائیں,یعنی ضرورت ومصلحت کے تحت ہی انکا پالنا جائزہے-
اگرکسی نے لاٹھی یا پتھروغیرہ سے مارا اوروہ جانورمرگیا تواسکا کھانا جائزنہیں اسکا شمارموقوذۃ میں ہے,(یعنی جوکسی ضرب یا چوٹ سے مرگیا ہو) اوروہ آلہ چھید کرکے نکل گیا(جس سے اسکا خون بہ گیا مثلا بندوق سے مارا) تواسکا کھانا جائزہے.
لہوولعب اورتفریح کے لئے شکارکرنا جس سے نہ خود فائدہ اٹھائے نہ دوسروں کوفائدہ پہنچائے حرام ہے,کیونکہ اس میں مال ضائع کرنا ہے- بہایا گیا خون یعنی وہ خون جوپرندوں یا جانوروں کے شکارکرنے یاذبح کرنے کے وقت ان کی جان نکلنے سے پہلے بہے وہ حرام ونجس ہے-
اگرچوری یا غصب کئے ہوئے آلات سے شکارکیا جائے تووہ شکارحلال ہوگا لیکن شکارکرنے والا گناہگارہوگا-
نمازچھوڑنے والے کا ذبیحہ یا شکارکرنا مطلقا جائزنہیں ہے لیکن بچے کی نگرانی کرنا ضروری ہے تاکہ شکارکوتکلیف نہ ہو,کسی معصوم آدمی کی طرف سنجیدگی سے یامذاقا ہتھیارسے اشارہ کرنا جائزنہیں ہے . واللہ اعلم بالصواب
بہت اچھا مضمون ہے لیکن بہت لمبا ہے قسطوں میں آتا تو بہت اچھا ھوتا
نمازچھوڑنے والے کا ذبیحہ یا شکارکرنا مطلقا جائزنہیں ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
كھانا كھاتے وقت بيٹھنے كا طريقہ



صفة الجلوس المستحبة لمن أراد أن يأكل
-----------------------------------
السؤال:
ما هي السنة في كيفية الجلوس على الأرض أثناء تناول الطعام؟ لقد سمعت
ثلاث طرق ولكن لا دليل على أي منها.. فأرجوا التوضيح بالدليل.

الجواب :
الحمد لله
أولاً :
روى البخاري (4979) عن أبي جحيفة رضي الله عنه قال : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ( لَا آكُلُ مُتَّكِئًا ) .
ومعنى الاتكاء : كل جِلْسة يكون الأكل فيها متمكناً مطمئناً ، لأن ذلك مدعاه ليأكل كثيراً ، وهو مذموم شرعاً .
ولهذا قال النووي :
"وَمَعْنَاهُ : لَا آكُل أَكْل مَنْ يُرِيد الِاسْتِكْثَار مِنْ الطَّعَام وَيَقْعُد لَهُ مُتَمَكِّنًا, بَلْ أَقْعُد مُسْتَوْفِزًا, وَآكُل قَلِيلًا " انتهى من "شرح مسلم" .

قال الحافظ رحمه الله : " واختلف في صفة الاتكاء فقيل أن يتمكن في الجلوس للآكل على أي صفة كان وقيل أن يميل على أحد شقيه وقيل أن يعتمد على يده اليسرى من الأرض. قال الخطابي: تحسب العامة أن المتكئ هو الأكل على أحد شقيه وليس كذلك بل هو المعتمد على الوطاء الذي تحته قال ومعنى الحديث إني لا أقعد متكئاً على الوطاء عند الأكل فعل من يستكثر من الطعام، فإني لا آكل إلا
البلغة من الزاد، فلذلك أقعد مستوفزاً " انتهى من "فتح الباري"(9/541)، وينظر
معالم السنن للخطابي(4/242) وينظر أيضاً وزاد المعاد لابن القيم(4/202)

وقال القاري في المرقاة : " نقل في الشفاء عن المحققين أنهم فسروه بالتمكن للأكل والقعود في الجلوس كالمتربع المعتمد على وطاء تحته؛ لأن هذه الهيئة تستدعي كثرة الأكل وتقتضي الكبر" انتهى من "عون المعبود شرح سنن أبي داود"(10/244).
ثانياً :
أما كيفية الجلوس لمن أراد أن يأكل ، فقد روى مسلم في صحيحه (3807) عن أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ: "رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُقْعِيًا يَأْكُلُ تَمْرًا" .قال الشيخ ابن عثيمين رحمه الله: " والإقعاء أن ينصب قدميه ويجلس على عقبيه هذا هو الإقعاء وإنما أكل النبي صلى الله عليه وسلم كذلك لئلا يستقر في الجلسة، فيأكل أكلا كثيراً؛ لأن الغالب أن الإنسان إذا كان مقعياً لا يكون مطمئنا
في الجلوس فلا يأكل كثيراً وإذا كان غير مطمئن فلن يأكل كثيراً وإذا كان
مطمئناً، فإنه يأكل كثيراً هذا هو الغالب..." انتهى من شرح "رياض الصالحين" .

وقال الحافظ رحمه الله : " فالمستحب في صفة الجلوس للآكل أن يكون جاثياً على ركبتيه وظهور قدميه أو ينصب الرجل اليمني ويجلس على اليسرى..." انتهى من "فتح الباري"
فهذه ثلاث جلسات للآكل :
1ـ الإقعاء..
2ـ أن يعتمد على ركبتيه وظهور قدميه.
3ـ أن يجلس على اليسرى وينصب اليمنى.

وقال الشيخ ابن عثيمين رحمه الله: "...ولكن أحسن ما يكون ألا تجلس جلسة الإنسان المطمئن المستقر لئلا يكون ذلك سبباً لإكثار الطعام وإكثار الطعام لا ينبغي" انتهى من شرح "رياض الصالحين"
والله أعلم
الإسلام سؤال وجواب


--------------------------------------------
ترجمہ
كھانا كھاتے وقت بيٹھنے كا طريقہ
-------------------------------------
سنت نبويہ ميں كھانا كھاتے وقت بيٹھنے كى كيا كيفيت اور طريقہ ہے ؟
ميں نےاس كے متعلق تين طريقے سنے ہيں، ليكن اس ميں سے كسى كى بھى دليل نہيں برائے مہربانى اس كى وضاحت فرمائيں كيا كونسا طريقہ سنت كے مطابق ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الحمد للہ:

اول:
امام بخارى رحمہ اللہ نے ابو جحيفہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ميں سہارا لگا كر نہيں كھاتا " صحيح بخارى حديث نمبر ( 4979 ).
سہارا لگا كر كھانے معنى يہ ہے كہ: الاتكاء ہر اس بيٹھنے كے طريقہ كو كہا جائيگا جس ميں كھانا كھانے والا شخص مطمئن اور متمكن ہو كر كھائے،
كيونكہ يہ چيز زيادہ كھانے كا باعث ہے جو كہ شرعا قابل مذمت ہے.
اسى ليے امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس كا معنى يہ ہے كہ: ميں اس طرح نہيں كھاتا جس طرح زيادہ كھانا كھانے والا صحيح اور متمكن ہو كر بيٹھتا ہے بلكہ ميں غير مطئمن ہو كر
بيٹھتا ہوں تا كہ جلدى اٹھا جا سكے، اور تھوڑا كھاتا ہوں " انتہى
ماخوذ از: شرح مسلم للنووى.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" الاتكاء يعنى سہارا لگا كر كى كيفيت ميں اختلاف ہے كہ يہ كس طرح كا طريقہ ہے:
ايك قول يہ ہے كہ: آدمى كھانے كے ليے مطئمن ہو كر بيٹھے چاہے وہ كسى بھى شكل ميں بيٹھا ہو.
اور ايك قول يہ ہے كہ: ايك جانب مائل ہو كر بيٹھے. اور ايك قول يہ ہے كہ: باياں ہاتھ زمين پر ركھ كر اس پر ٹيك لگا كر بيٹھے.
خطابى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عام لوگ يہ سمجھتے ہيں كہ متكئ وہ شخص ہے جو ايك طرف مائل ہو كر كھائے، حالانكہ ايسا نہيں ہے بلكہ اس سے مراد تو يہ ہے كہ وہ اپنے
نيچے والى چيز پر اعتماد اور سہار لے كر بيٹھے. اور حديث كا معنى يہ ہے كہ: ميں كھانا كھاتے وقت زيادہ كھانے والے كے
طرح اپنے نيچے والى چيز پر سہارا لگا كر نہيں بيٹھتا، كيونكہ ميں تو تھوڑا سا كھاتا ہوں اس ليے غير مطمئن ہو كر بيٹھتا ہوں تا كہ جلدى اٹھا جا
سكے " انتہى
ماخوذ از: فتح البارى ( 9 / 541 ) مزيد آپ امام خطابى كى كتاب معالم السنن ( 4 / 242 )
اور ابن قيم رحمہ اللہ كى زاد المعاد ( 4 / 202 ) بھى ديكھيں.
ملا على القارى مرقاۃ ميں لكھتے ہيں:
الشفاء ميں محققين سے منقول ہے كہ انہوں نے اس كى شرح اس طرح كى ہے كہ كھانے كے ليے مطئمن ہو كر بيٹھنا اور چہار زانو ہو كر اپنے نيچے بچھى ہوئى چيز پر ٹيك اعتماد كرتے ہوئے بيٹھنا، كيونكہ اس كا معنى يہ ہے كہ زيادہ كھايا جائے اور يہ چيز تكبر كى متقاضى ہے " انتہى
ديكھيں: عون المعبود شرح سنن ابى داود ( 10 / 244 ).
دوم:
رہى كھانے كے ليے بيٹھنے كى كيفيت تو اس سلسلہ ميں امام مسلم رحمہ اللہ نے انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے.
انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو دونوں پاؤں كى ايڑيوں پر بيٹھ كر كھجوريں كھاتے ہوئے ديكھا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 3807 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
الاقعاء يہ ہے كہ آدمى دونوں پاؤں كھڑے كر كے ان كى ايڑيوں پر بيٹھے تو يہ اقعاء كہلاتا ہے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےاس كيفيت ميں بيٹھ كر كھايا تا كہ انہيں بيٹھنے ميں استقرار نہ ہو اور وہ زيادہ نہ كھائيں. كيونكہ جب انسان دونوں پاؤں كو كھڑا كر كے بيٹھے تو وہ اطمنان سے نہيں بيٹھےگا اور زيادہ نہيں كھائےگا، اور جب كوئى غير مطئمن بيٹھےگا تو وہ زيادہ نہيں كھائےگا، غالب يہى ہے، ليكن جب وہ مطئمن ہو كر بيٹھےگا تو غالبا زيادہ كھائےگا .... " انتہى
ماخوذ از: شرح رياض الصالحين.
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" كھانے والے كے ليے بيٹھنے كا مستحب طريقہ يہ ہے كہ وہ دو زانو ہو كر اپنے پاؤں پر بيٹھے يا پھر داياں پاؤں كھڑا كر كے بائيں پر بيٹھے... "
انتہى ماخوذ از: فتح البارى.

ذيل ميں ہم كھانے كے ليے بيٹھنے كے تين طريقے بيان كرتے ہيں:
پہلا:
اقعاء يعنى دونوں پاؤں كھڑے كر كے ايڑيوں پر بيٹھنا.
دوسرا:
دو زانو ہو كر دونوں پاؤں پر بيٹھنا.
تيسرا:
داياں پاؤں كھڑا كر كے بائيں پاؤں پر بيٹھنا.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" .... ليكن بہتر يہى ہے كہ آپ اس طرح نہ بيٹھے جس طرح كوئى انسان مطمئن ہو كر بااعتماد بيٹھتا ہے، تا كہ زيادہ كھانے كا سبب نہ بن سكے،
كيونكہ زيادہ نہيں كھانا چاہيے " انتہى
ماخوذ از: شرح رياض الصالحين.
واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
نمازچھوڑنے والے کا ذبیحہ یا شکارکرنا مطلقا جائزنہیں ہے
مفتی عبداللہ صاحب یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے جس کی کی بنیاد اس امر پر ہے کہ تارک نماز خارج من الملۃ ہے یا کبائر کا مرتکب ہے اگر رو خارج عن الملۃ ہے جیسا کہ حنابلہ کا مذہب ہے تو پھر آپ کی بات ٹھیک ہے وگرنہ محل نظر ہے اور ویسے بھی ایسے فتاوی سے اجتناب کرنا بہتر ہے کیوں کہ پھر معاشرے کا ایک بہت بڑا حصہ فارغ ہو جائے گا اور اس سے متعلقہ مسائل کی ایک لا متناہی طویل فہرست ہے جس کا تعین کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے
مثال کے طور پر جس کا ذبیحہ یا شکار کرنا مطلقا جائز نہیں اس کے ساتھ اور کیا کیا معاملات طے نہیں کیے جا سکتے
اس پر سوچیے گا
 
Top