• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا ائمہ اربعہ کے علاوہ کوئی مجتہد نہیں ؟؟؟

شمولیت
فروری 24، 2014
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
3
حضرات صحابہ کرام کے بعد سعید بن مسیب ، عروہ ،قاسم بن محمد، خارجہ بن زید ، سلیمان بن یسار اور ابو بکر بن عبد الرحمان یہ وہ سات فقہا ہیں جن کے بارے محمد بن یوسف حنفی متوفی 614ھ کہتے ہیں:
الامن لا یقتدی بائمۃ فقسمتہ ضیزی من الحق خارجۃ فخذہم عبیداللہ عروۃ،قاسم،سعید،ابوبکر،خارجۃ"
یعنی خبر دار جو ان سات ائمہ کی اقتدا نہیں کرتا اس کیا قسمت کھوٹی اور وہ حق سے خارج ہے
اور امام شافعی نے تو یہاں تک کہہ دیا:
اللیث افقہ من مالک" یعنی لیث مالک سے بھی زیادہ فقیہ ہے (تہذیب :ج8، ص:463
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
امام ابن تیمیہ مطلق اجتہاد کی تایید کرتے ہوے رقم طراز ہیں:
امام ثوری جو اہل عراق کے امام اور اکثر ائمہ کے نزدیک اپنے اقران مثلا ابن ابی لیلی ، حسن بن صالح ، ابو حنیفہ وغیرہ سے بڑے مرتبہ کے تھے، کا مذہب خراسان میں اب تک موجود ہے اسی طرح امام اسحاق اور امام ابو داود کا مذہب بھی آج تک چل رہا ہے بلکہ مشرق و مغرب میں داودی مسلک کے پیرو کار موجود ہیں (الفتاوی الکبری:ج۲ ، ص۳۷۴
اسی طرح علامہ ذہبی کا تذکرہ اور سخاوی کی الضوء اللامع اٹھا کر دیکھ لیں،آپ بے شمار حضرات کے تراجم یا یہ کہ وہ کسی کی تقلید نہ کرتے تھے کے الفاظ لکھے پائیں گے اور علامہ شوکانی کی البدر الطالع میں بیسیوں مقامات پریہ جملہ آپ کو ملے گا " حل عنقہ عن عری التقلید" لہذا اس تاریخی تسلسل کے با وجود یہ رٹ لگاے جانا کہ ائمہ اربعہ کے بعد کوئی مجتہد نہین ہوا
مقدمہ کتاب التعلیم کے غالی مصنف مسعود بن شیبہ سندھی جو ساتویں صدی ہجری کے اعیان احناف میں سے شمار ہوتے ہیں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ اکثر روز راور ۔ یزد جرد ، جربازقاناور بعض اہل ہمدان آج بھی ثوری مذہب کے متبع ہین(مقدمہ کتاب التعلیم"۳۳۱
رہی یہ بات کہ ائمہ اربعہ کے نعد بڑے بڑے ائمہ حنفی ہیں یا شافعی و حنبلی تو یہ محض ایک واہمہ ہے اس قسم کا انتساب ان علماے کرام کے ساتھ طریقہ اجتہاد میں موافقت کی وجہ سے ہے نہ کہ تقلید کی وجہ سے،امام محمد اور ۡاضی ابو یوسف بھی محض اسی بنا پر حنفی ہیں ورنہ فروع کے علاوہ اصول میں بھی انھوں نے امام ابو حنیفہ کی مخالفت کی ہے۔علامہ لکھنوی شیخ شہاب الدین سے نقل کرتے ہیں:
"ولکل واحد منہم اصول مختصۃ تفردوا بہا عن ابی حنیفۃ و خالفوہ فیہا"(النافع الکبیر:ص۹۹
"ان میں سے ہر ایک کے مخصوص اصول ہیں جن میں انھوں نے امام ابوحنیفہ کی مخالفت کی ہے"

ایسی باتوں کیا یہ یہاں ایک فہرست ہے لیکن ہم یہاں صرف نمونے کے طورپر امام محمد کا ایک قول نقل کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں:
وَقَدْ اسْتَبْعَدَ مُحَمَّدٌ - رَحِمَهُ اللَّهُ - قَوْلَ أَبِي حَنِيفَةَ فِي الْكِتَابِ لِهَذَا وَسَمَّاهُ تَحَكُّمًا عَلَى النَّاسِ مِنْ غَيْرِ حُجَّةٍ فَقَالَ مَا أَخَذَ النَّاسُ بِقَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَصْحَابِهِ إلَّا بِتَرْكِهِمْ التَّحَكُّمَ عَلَى النَّاسِ.فَإِذَا كَانُوا هُمْ الَّذِينَ يَتَحَكَّمُونَ عَلَى النَّاسِ بِغَيْرِ أَثَرٍ، وَلَا قِيَاسٍ لِمَ يُقَلِّدُوا هَذِهِ الْأَشْيَاءَ، وَلَوْ جَازَ التَّقْلِيدُ كَانَ مَنْ مَضَى مِنْ قَبْلِ أَبِي حَنِيفَةَ مِثْلُ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ وَإِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ رَحِمَهُمَا اللَّهُ أَحْرَى أَنْ يُقَلَّدُوا(المبسوط للسرخسی:ج۱،ص۲۸
"کہ امام محمد نے امام ابو حنیفہ کے قول کو" الکتاب"میں بعید قرار دیا ہے اور اس کا نام تحکم اور سینہ زوری رکھا ہے اور کہا ہے کہ اگر تقلید جائز ہوتی تو جوحضرات امام ابو حنیفہ سے پہلے گزر چکے ہیں ، مثلا:حسن بصری اور ابراہیم نخعی وہ زیادہ حق دار ہیں کہ ان کی تقلید کی جاے "
اب بھی یہ کہنا کہ بعد میں آنے والے لوگ اصول میں ائمہ اربعہ کے مقلد تھے جہالت اور اندھی تقلید کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، اسی طرح امام طحاوی بھی حنفی معروف ہیں، حالاں کہ ان کے بارے لکھنوی صاحب رقم طراز ہیں"
"ولہم اختیارات فی الاصول والفروع" ( النافع الکبیر:۱۰۰
کہ اصول اور فروع میں ان سب کو اختیار ہے"
بلکہ جب قاضی ابو عبید جرثومہ کے ساتھ امام طحاوی کی گفتگو ہوئی تو انھوں نے صاف کہہ دیا:
"أو کل ما قالہ ابو حنیفہ أقول فقال ما ظننتک الا مقلدا، فقلت لہ و ہل یقلد الا عصی فقال لی أو غبی"(لسان المیزان:ج ۱ ،ص۲۷۰
"کیا امام ابو حنیفہ کا ہر قول میر اقول ہے، تو انھوں نے (قاضی) کہا کہ میں تو تم کو مقلد سمجھتا ہوں تو میں نے کہا کہ تقلید تو وہی کرتا ہے جو گنہگار ہے یا غبی کم عقل ہے"

اس سب کے باوجود بھی افسوس کے ساتھ یہی کہا جا سکتا ہے کہ تقلید کی بیماری سے متاثرہ اذہان انہیں مقلد باور کرانے پر ادھار کھاے بیٹھے ہیں
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
امام ابن تیمیہ مطلق اجتہاد کی تایید کرتے ہوے رقم طراز ہیں:
امام ثوری جو اہل عراق کے امام اور اکثر ائمہ کے نزدیک اپنے اقران مثلا ابن ابی لیلی ، حسن بن صالح ، ابو حنیفہ وغیرہ سے بڑے مرتبہ کے تھے، کا مذہب خراسان میں اب تک موجود ہے اسی طرح امام اسحاق اور امام ابو داود کا مذہب بھی آج تک چل رہا ہے بلکہ مشرق و مغرب میں داودی مسلک کے پیرو کار موجود ہیں (الفتاوی الکبری:ج۲ ، ص۳۷۴
اسی طرح علامہ ذہبی کا تذکرہ اور سخاوی کی الضوء اللامع اٹھا کر دیکھ لیں،آپ بے شمار حضرات کے تراجم یا یہ کہ وہ کسی کی تقلید نہ کرتے تھے کے الفاظ لکھے پائیں گے اور علامہ شوکانی کی البدر الطالع میں بیسیوں مقامات پریہ جملہ آپ کو ملے گا " حل عنقہ عن عری التقلید" لہذا اس تاریخی تسلسل کے با وجود یہ رٹ لگاے جانا کہ ائمہ اربعہ کے بعد کوئی مجتہد نہین ہوا
مقدمہ کتاب التعلیم کے غالی مصنف مسعود بن شیبہ سندھی جو ساتویں صدی ہجری کے اعیان احناف میں سے شمار ہوتے ہیں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ اکثر روز راور ۔ یزد جرد ، جربازقاناور بعض اہل ہمدان آج بھی ثوری مذہب کے متبع ہین(مقدمہ کتاب التعلیم"۳۳۱
رہی یہ بات کہ ائمہ اربعہ کے نعد بڑے بڑے ائمہ حنفی ہیں یا شافعی و حنبلی تو یہ محض ایک واہمہ ہے اس قسم کا انتساب ان علماے کرام کے ساتھ طریقہ اجتہاد میں موافقت کی وجہ سے ہے نہ کہ تقلید کی وجہ سے،امام محمد اور ۡاضی ابو یوسف بھی محض اسی بنا پر حنفی ہیں ورنہ فروع کے علاوہ اصول میں بھی انھوں نے امام ابو حنیفہ کی مخالفت کی ہے۔علامہ لکھنوی شیخ شہاب الدین سے نقل کرتے ہیں:
"ولکل واحد منہم اصول مختصۃ تفردوا بہا عن ابی حنیفۃ و خالفوہ فیہا"(النافع الکبیر:ص۹۹
"ان میں سے ہر ایک کے مخصوص اصول ہیں جن میں انھوں نے امام ابوحنیفہ کی مخالفت کی ہے"

ایسی باتوں کیا یہ یہاں ایک فہرست ہے لیکن ہم یہاں صرف نمونے کے طورپر امام محمد کا ایک قول نقل کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں:
وَقَدْ اسْتَبْعَدَ مُحَمَّدٌ - رَحِمَهُ اللَّهُ - قَوْلَ أَبِي حَنِيفَةَ فِي الْكِتَابِ لِهَذَا وَسَمَّاهُ تَحَكُّمًا عَلَى النَّاسِ مِنْ غَيْرِ حُجَّةٍ فَقَالَ مَا أَخَذَ النَّاسُ بِقَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَصْحَابِهِ إلَّا بِتَرْكِهِمْ التَّحَكُّمَ عَلَى النَّاسِ.فَإِذَا كَانُوا هُمْ الَّذِينَ يَتَحَكَّمُونَ عَلَى النَّاسِ بِغَيْرِ أَثَرٍ، وَلَا قِيَاسٍ لِمَ يُقَلِّدُوا هَذِهِ الْأَشْيَاءَ، وَلَوْ جَازَ التَّقْلِيدُ كَانَ مَنْ مَضَى مِنْ قَبْلِ أَبِي حَنِيفَةَ مِثْلُ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ وَإِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ رَحِمَهُمَا اللَّهُ أَحْرَى أَنْ يُقَلَّدُوا(المبسوط للسرخسی:ج۱،ص۲۸
"کہ امام محمد نے امام ابو حنیفہ کے قول کو" الکتاب"میں بعید قرار دیا ہے اور اس کا نام تحکم اور سینہ زوری رکھا ہے اور کہا ہے کہ اگر تقلید جائز ہوتی تو جوحضرات امام ابو حنیفہ سے پہلے گزر چکے ہیں ، مثلا:حسن بصری اور ابراہیم نخعی وہ زیادہ حق دار ہیں کہ ان کی تقلید کی جاے "
اب بھی یہ کہنا کہ بعد میں آنے والے لوگ اصول میں ائمہ اربعہ کے مقلد تھے جہالت اور اندھی تقلید کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، اسی طرح امام طحاوی بھی حنفی معروف ہیں، حالاں کہ ان کے بارے لکھنوی صاحب رقم طراز ہیں"
"ولہم اختیارات فی الاصول والفروع" ( النافع الکبیر:۱۰۰
کہ اصول اور فروع میں ان سب کو اختیار ہے"
بلکہ جب قاضی ابو عبید جرثومہ کے ساتھ امام طحاوی کی گفتگو ہوئی تو انھوں نے صاف کہہ دیا:
"أو کل ما قالہ ابو حنیفہ أقول فقال ما ظننتک الا مقلدا، فقلت لہ و ہل یقلد الا عصی فقال لی أو غبی"(لسان المیزان:ج ۱ ،ص۲۷۰
"کیا امام ابو حنیفہ کا ہر قول میر اقول ہے، تو انھوں نے (قاضی) کہا کہ میں تو تم کو مقلد سمجھتا ہوں تو میں نے کہا کہ تقلید تو وہی کرتا ہے جو گنہگار ہے یا غبی کم عقل ہے"

اس سب کے باوجود بھی افسوس کے ساتھ یہی کہا جا سکتا ہے کہ تقلید کی بیماری سے متاثرہ اذہان انہیں مقلد باور کرانے پر ادھار کھاے بیٹھے ہیں
اشماریہ
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
مقلدین حضرات تقلید کو ثابت کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ بعد میں آنے والے علما نے ائمہ اربعہ کی تقلید کی ہے ، حالاں کہ اس بات کی تردید علامہ ابو بکر القفال ، شیخ ابو علی اور قاضی حسین نے متعدد جگہ پر کی ہے، چناں چہ علامہ لکھنوی لکھتے ہیں:و قد نقل عن ابی بکر القفال و أبی علی و القاضی حسین من الشافعیۃانہم قالوا لسنا مقلدین للشافعی بل وافق رأینا رأیہ"
(النافع الکبیر:۱۰۰
کہ ابو بکر قفال ، ابو علی ، اور قاضی حسین جو شوافع میں شمار ہوتے ہیں سے منقول ہے کہ انھوں نے فرمای اہے کہ امام شافعی کے مقلد نہین ہیں بلکہ ہمارا اجتہاد اس کے اجتہاد کے موافق ہے"

اسی نوعیت کا تصور امام نسائی اور امام بیہقی وغیرہ ایسے محدثین کے متعلق ہے کہ وہ شافعی تھے ، حالاں کہ اس کا سبب بھی امام شافعی کے اجتہاد سے ان کی موافقت ہے جیسا کہ شاہ ولی اللہ نے بھی اس کی صراحت کی ہے (حجۃ اللہ البالغہ:ج1 ص153
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
مقلدین حضرات تقلید کو ثابت کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ بعد میں آنے والے علما نے ائمہ اربعہ کی تقلید کی ہے ، حالاں کہ اس بات کی تردید علامہ ابو بکر القفال ، شیخ ابو علی اور قاضی حسین نے متعدد جگہ پر کی ہے، چناں چہ علامہ لکھنوی لکھتے ہیں:و قد نقل عن ابی بکر القفال و أبی علی و القاضی حسین من الشافعیۃانہم قالوا لسنا مقلدین للشافعی بل وافق رأینا رأیہ"
(النافع الکبیر:۱۰۰
کہ ابو بکر قفال ، ابو علی ، اور قاضی حسین جو شوافع میں شمار ہوتے ہیں سے منقول ہے کہ انھوں نے فرمای اہے کہ امام شافعی کے مقلد نہین ہیں بلکہ ہمارا اجتہاد اس کے اجتہاد کے موافق ہے"

اسی نوعیت کا تصور امام نسائی اور امام بیہقی وغیرہ ایسے محدثین کے متعلق ہے کہ وہ شافعی تھے ، حالاں کہ اس کا سبب بھی امام شافعی کے اجتہاد سے ان کی موافقت ہے جیسا کہ شاہ ولی اللہ نے بھی اس کی صراحت کی ہے (حجۃ اللہ البالغہ:ج1 ص153
سب سے پہلے تو ایک بات عرض کردوں کہ میں اس بات کا ہرگز قائل نہیں ہوں کہ ائمہ اربعہ کے علاوہ کوئی مجتہد تھا ہی نہیں اور غالبا احناف میں کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے۔ میں اس بات کو پہلے ذکر بھی کرچکا ہوں غالبا۔
دوسری بات یہ کہ ایسے علماء کو بھی مقلد شمار کیا جاتا ہے کیوں کہ یہ مجتہد فی المذہب یا مجتہد منتسب کے درجے کے ہوتے ہیں اور اصول میں اکثر کسی امام کی پیروی کی وجہ سے ان کے بعض اجتہاد ان سے ملتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ان کی تقلید کرتے ہیں۔ اس بات کو شاہ صاحبؒ نے الانصاف میں ذکر کیا ہے۔ ان کی عبارت یہ ہے:۔


فقد قال الرافعي في أول كتاب الزكاة من الشرح تفرد ابن جرير لا يعد وجها في مذهبنا وان كان معدودا في طبقات أصحاب الشافعي قال النووي في التهذيب ذكره أبو عاصم العبادي في الفقهاء الشافعية فقال هو من أفراد علمائنا وأخذ فقه الشافعي على الربيع المرادي والحسن الزعفراني انتهى ومعنى انتسابه إلى الشافعي أنه جرى على طريقته في الاجتهاد واستقراء الأدلة وترتيب بعضها على بعض ووافق اجتهاده وإذا خالف أحيانا لم يبال بالمخالفة ولم يخرج عن طريقه إلا في مسائل وذلك لا يقدح في دخوله في مذهب الشافعي
ومن هذا القبيل محمد بن إسماعيل البخاري فانه معدود في طبقات الشافعية
وممن ذكره في طبقات الشافعية الشيخ تاج الدين السبكي وقال إنه تفقه بالحميدي والحميدي تفقه بالشافعي واستدل شيخنا العلامة على ادخال البخاري في الشافعية بذكره في طبقاتهم وكلام النووي الذي ذكرناه شاهد له وذكر الشيخ تاج الدين السبكي في طبقاته ما لفظه كل تخريج أطلقه المخرج إطلاقا فظهر أن ذلك المخرج إن كان ممن يغلب عليه المذهب والتقليد كالشيخ أبي حامد والقفال عد من المذهب وان كان ممن يكثر خروجه كالمحمدين الأربعة يعني محمد بن جرير ومحمد بن خزيمة ومحمد بن نصر المروزي ومحمد بن المنذر فلا يعد أما المزني وبعده ابن شريح فبين الدرجتين لم يخرجوا خروج المحمدين ولم يتقيدوا بقيد العراقيين والخراسانيين انتهى
وممن ذكره السبكي في طبقاته الشيخ أبا الحسن الأشعري إمام أهل السنة والجماعة وقال إنه معدود من الشافعية فانه تفقه بالشيخ أبي إسحاق المروزي انتهى قول ابن زياد
ومن شواهد ما ذكره أيضا ما في كتاب الأنوار حيث قال والمنتسبون إلى مذهب الشافعي وأبي حنيفة ومالك وأحمد أصناف
أحدها العوام وتقليدهم للشافعي متفرع على تقليد المنتسب
الانصاف ص76 ط دار النفائس

اس حوالے میں اس تھریڈ میں موجود بہت سی چیزوں کا ذکر آجاتا ہے۔ جیسے امام شافعی کا مجتہد منتسب ہونا، اور قفال وغیرہ کا شافعی ہونا۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ مجتہد فی المذہب کی تقلید اور عامی کی تقلید میں بہت فرق ہوتا ہے۔ آپ لوگ انہیں مقلد کہنے پر اگر عامی کی طرح مقلد سمجھ رہے ہیں تو یہ آپ کی غلطی ہے۔
لیکن مجھے اگر وقت ملا تو ان شاء اللہ تفصیلا بھی لکھوں گا۔

عبد الحئی لکھنویؒ کا حوالہ اگر آپ ایک بار چیک کرلیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔ میں شاملہ میں اسے سرچ کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہا۔ اور اس صفحہ نمبر پر یہ موجود نہیں ہے۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
اس حوالے میں اس تھریڈ میں موجود بہت سی چیزوں کا ذکر آجاتا ہے۔ جیسے امام شافعی کا مجتہد منتسب ہونا، اور قفال وغیرہ کا شافعی ہونا
جب یہ لوگ خود کہہ رہے ہیں کہ ہم کسی کے مقلد نہین ہیں تو ان کے بارے کسی کا یہ کہنا کہ یہ مقلد تھے ، بالکل نا مناسب بات ہے ، چلیں اگر آپ کی بات کو مان لیا جاے کہ یہ لوگ مقلد ہیں ،ان کے بارے یہ ثابت کر دیں کہ انھوں نے کہا ہو کہ ہم مقلد ہیں جب کہ ان سے یہ کہنا ثابت ہے کہ وہ خود کو کسی کا بھی مقلد نہین کہتے تھے،امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ أجمعین کے مکتب اور مدرسہ سے تعلق رکھنے والے کی اپنے اپنے امام کی طرف نسبت کو ان لوگوں نے تسلیم کیا ہے ، اگر حقیقت میں دیکھا جاے تو پتہ چلتا ہے کہ تقلید کو ثابت کرنے کے لیے یہ مقلدین کا ایک ہربہ ہے جس کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مقلدین نے کسی کو بھی معاف نہیں کیا بلکہ ہر ایک کے گلے میں تقلید کا پھندہ ڈالتے گئے ۔ یہاں تک کہ شاگردوں کو بھی اپنے اپنے اساتذہ کا مقلد بنا دیا ہے۔ حالانکہ ان میں سے کسی نے بھی اپنے آپ کو حنفی یا شافعی یا مالکی یا حنبلی نہیں لکھا ہے اور اگر ان کے شاگردوں کے اپنے اساتذہ کے ساتھ جو اختلافات ہوئے ہیں ان مسائل کو جمع کیا جائے تو کئی ضخیم جلدیں تیار ہو جائیں ۔
آپ خود ہی دیکھ لیں کہ جن کو یہ مقلدین حنفی یا شافعی کہتے ہیں وہ خود اپنے بارے میں کیا لکھتے ہیں ۔علامہ شامی لکھتے ہیں :الأئمۃ الشافعیۃ کالقفال والشیخ ابن علی والقاضی حسین رحمہ اﷲ أنھم کانوا یقولون لسنا مقلدین للشافعی رحمہ اﷲ بل وافق رأینا رأیہ ویقال مثلہ فی أصحاب أبي حنیفۃ مثل أبی یوسف رحمہ اﷲ ومحمد رحمہ اللہ بالأولی وقد خالفوہ فی کثیر من الفروع۔ (عقود رسم المفتی ص ۲۵)
ترجمہ: علماء شوافع مثلاً قفال، شیخ ابن علی اور قاضی حسین رحمہ اللہ ان سب کا یہ کہنا ہے کہ ہم امام شافعی کے مقلد نہیں ہیں بلکہ ہماری رائے ان کی رائے کے موافق ہو گئی ہے اور اسی طرح امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے ۔( کہ وہ اما م ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد نہیں تھے) مثلاً ابو یوسف رحمہ اللہ اور محمد رحمہ اللہ کیونکہ انہوں نے اکثر مسائل میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی مخالفت کی ہے۔
اسی طرح امام طحاوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب شرح معانی الأثار میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بے شمار مسائل رد کئے ہیں ۔
قال الطحاوی لا بن حربویہ لا یقلد الا عصبي أو غبي (عقود رسم المفتی ص۲۶)
ترجمہ: اما م طحاوی امام ابن حربویہ سے کہتے ہیں تقلید تو متعصب یا بے وقوف ہی کرتا ہے۔
اور ہر بات پر شاہ ولی اللہ کا حوالہ سامنے آتا ہے، کیا شاہ ولی اللہ نے خود کو کسی امام کی طرف منسوب کیا ہے؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
امام ابن تیمیہ مطلق اجتہاد کی تایید کرتے ہوے رقم طراز ہیں:
امام ثوری جو اہل عراق کے امام اور اکثر ائمہ کے نزدیک اپنے اقران مثلا ابن ابی لیلی ، حسن بن صالح ، ابو حنیفہ وغیرہ سے بڑے مرتبہ کے تھے، کا مذہب خراسان میں اب تک موجود ہے اسی طرح امام اسحاق اور امام ابو داود کا مذہب بھی آج تک چل رہا ہے بلکہ مشرق و مغرب میں داودی مسلک کے پیرو کار موجود ہیں (الفتاوی الکبری:ج۲ ، ص۳۷۴
اسی طرح علامہ ذہبی کا تذکرہ اور سخاوی کی الضوء اللامع اٹھا کر دیکھ لیں،آپ بے شمار حضرات کے تراجم یا یہ کہ وہ کسی کی تقلید نہ کرتے تھے کے الفاظ لکھے پائیں گے اور علامہ شوکانی کی البدر الطالع میں بیسیوں مقامات پریہ جملہ آپ کو ملے گا " حل عنقہ عن عری التقلید" لہذا اس تاریخی تسلسل کے با وجود یہ رٹ لگاے جانا کہ ائمہ اربعہ کے بعد کوئی مجتہد نہین ہوا
مقدمہ کتاب التعلیم کے غالی مصنف مسعود بن شیبہ سندھی جو ساتویں صدی ہجری کے اعیان احناف میں سے شمار ہوتے ہیں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ اکثر روز راور ۔ یزد جرد ، جربازقاناور بعض اہل ہمدان آج بھی ثوری مذہب کے متبع ہین(مقدمہ کتاب التعلیم"۳۳۱
رہی یہ بات کہ ائمہ اربعہ کے نعد بڑے بڑے ائمہ حنفی ہیں یا شافعی و حنبلی تو یہ محض ایک واہمہ ہے اس قسم کا انتساب ان علماے کرام کے ساتھ طریقہ اجتہاد میں موافقت کی وجہ سے ہے نہ کہ تقلید کی وجہ سے،امام محمد اور ۡاضی ابو یوسف بھی محض اسی بنا پر حنفی ہیں ورنہ فروع کے علاوہ اصول میں بھی انھوں نے امام ابو حنیفہ کی مخالفت کی ہے۔علامہ لکھنوی شیخ شہاب الدین سے نقل کرتے ہیں:
"ولکل واحد منہم اصول مختصۃ تفردوا بہا عن ابی حنیفۃ و خالفوہ فیہا"(النافع الکبیر:ص۹۹
"ان میں سے ہر ایک کے مخصوص اصول ہیں جن میں انھوں نے امام ابوحنیفہ کی مخالفت کی ہے"

ایسی باتوں کیا یہ یہاں ایک فہرست ہے لیکن ہم یہاں صرف نمونے کے طورپر امام محمد کا ایک قول نقل کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں:
وَقَدْ اسْتَبْعَدَ مُحَمَّدٌ - رَحِمَهُ اللَّهُ - قَوْلَ أَبِي حَنِيفَةَ فِي الْكِتَابِ لِهَذَا وَسَمَّاهُ تَحَكُّمًا عَلَى النَّاسِ مِنْ غَيْرِ حُجَّةٍ فَقَالَ مَا أَخَذَ النَّاسُ بِقَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَصْحَابِهِ إلَّا بِتَرْكِهِمْ التَّحَكُّمَ عَلَى النَّاسِ.فَإِذَا كَانُوا هُمْ الَّذِينَ يَتَحَكَّمُونَ عَلَى النَّاسِ بِغَيْرِ أَثَرٍ، وَلَا قِيَاسٍ لِمَ يُقَلِّدُوا هَذِهِ الْأَشْيَاءَ، وَلَوْ جَازَ التَّقْلِيدُ كَانَ مَنْ مَضَى مِنْ قَبْلِ أَبِي حَنِيفَةَ مِثْلُ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ وَإِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ رَحِمَهُمَا اللَّهُ أَحْرَى أَنْ يُقَلَّدُوا(المبسوط للسرخسی:ج۱،ص۲۸
"کہ امام محمد نے امام ابو حنیفہ کے قول کو" الکتاب"میں بعید قرار دیا ہے اور اس کا نام تحکم اور سینہ زوری رکھا ہے اور کہا ہے کہ اگر تقلید جائز ہوتی تو جوحضرات امام ابو حنیفہ سے پہلے گزر چکے ہیں ، مثلا:حسن بصری اور ابراہیم نخعی وہ زیادہ حق دار ہیں کہ ان کی تقلید کی جاے "
اب بھی یہ کہنا کہ بعد میں آنے والے لوگ اصول میں ائمہ اربعہ کے مقلد تھے جہالت اور اندھی تقلید کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، اسی طرح امام طحاوی بھی حنفی معروف ہیں، حالاں کہ ان کے بارے لکھنوی صاحب رقم طراز ہیں"
"ولہم اختیارات فی الاصول والفروع" ( النافع الکبیر:۱۰۰
کہ اصول اور فروع میں ان سب کو اختیار ہے"
بلکہ جب قاضی ابو عبید جرثومہ کے ساتھ امام طحاوی کی گفتگو ہوئی تو انھوں نے صاف کہہ دیا:
"أو کل ما قالہ ابو حنیفہ أقول فقال ما ظننتک الا مقلدا، فقلت لہ و ہل یقلد الا عصی فقال لی أو غبی"(لسان المیزان:ج ۱ ،ص۲۷۰
"کیا امام ابو حنیفہ کا ہر قول میر اقول ہے، تو انھوں نے (قاضی) کہا کہ میں تو تم کو مقلد سمجھتا ہوں تو میں نے کہا کہ تقلید تو وہی کرتا ہے جو گنہگار ہے یا غبی کم عقل ہے"

اس سب کے باوجود بھی افسوس کے ساتھ یہی کہا جا سکتا ہے کہ تقلید کی بیماری سے متاثرہ اذہان انہیں مقلد باور کرانے پر ادھار کھاے بیٹھے ہیں
اشماریہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جب یہ لوگ خود کہہ رہے ہیں کہ ہم کسی کے مقلد نہین ہیں تو ان کے بارے کسی کا یہ کہنا کہ یہ مقلد تھے ، بالکل نا مناسب بات ہے ، چلیں اگر آپ کی بات کو مان لیا جاے کہ یہ لوگ مقلد ہیں ،ان کے بارے یہ ثابت کر دیں کہ انھوں نے کہا ہو کہ ہم مقلد ہیں جب کہ ان سے یہ کہنا ثابت ہے کہ وہ خود کو کسی کا بھی مقلد نہین کہتے تھے،امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ أجمعین کے مکتب اور مدرسہ سے تعلق رکھنے والے کی اپنے اپنے امام کی طرف نسبت کو ان لوگوں نے تسلیم کیا ہے ، اگر حقیقت میں دیکھا جاے تو پتہ چلتا ہے کہ تقلید کو ثابت کرنے کے لیے یہ مقلدین کا ایک ہربہ ہے جس کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مقلدین نے کسی کو بھی معاف نہیں کیا بلکہ ہر ایک کے گلے میں تقلید کا پھندہ ڈالتے گئے ۔ یہاں تک کہ شاگردوں کو بھی اپنے اپنے اساتذہ کا مقلد بنا دیا ہے۔ حالانکہ ان میں سے کسی نے بھی اپنے آپ کو حنفی یا شافعی یا مالکی یا حنبلی نہیں لکھا ہے اور اگر ان کے شاگردوں کے اپنے اساتذہ کے ساتھ جو اختلافات ہوئے ہیں ان مسائل کو جمع کیا جائے تو کئی ضخیم جلدیں تیار ہو جائیں ۔


میرے محترم بھائی!
میں نے اس بات کے لیے حوالہ شاہ صاحبؒ کا دیا تھا۔ کیا آپ ان کو بھی ایسے کام کرنے والا سمجھتے ہیں؟ اسی طرح ابن کثیرؒ و دیگر کو بھی؟
بات یہ ہے کہ کسی بہت کم افراد نے نسبت کسی کی جانب کی ہوگی لیکن ہم اس میں علماء امت کی رائے کا اعتبار کرتے ہیں۔
کیا کسی راوی نے خود کو ضعیف کہا ہے؟ خود کو کذاب کہا ہے؟
کتنے رواۃ ہیں جنہوں نے خود کو معتزلی، قدری یا رافضی کہا ہے؟
ان سب پر حکم لگانے کے لیے آپ کو علماء کی آراء قبول ہیں لیکن اگر وہی کسی کو شافعی یا مالکی کہہ دیں تو آپ کو قبول نہیں؟ کیسی عجیب باتیں کرتے ہیں؟
دیکھیں اسی دیے ہوئے حوالے میں شاہ صاحبؒ نے فرمایا ہے:۔
واستدل شيخنا العلامة على ادخال البخاري في الشافعية بذكره في طبقاتهم وكلام النووي الذي ذكرناه شاهد له
" اور ہمارے شیخ العلامہ نے بخاری کو شافعیہ میں داخل کرنے میں ان کے طبقات شافعیہ میں ذکر سے استدلال کیا ہے۔ اور نووی کا وہ کلام جو ہم نے ذکر کیا اس کا شاہد ہے۔"
شاہ صاحب نے اس بات کا رد نہیں کیا بلکہ شیخ کو علامہ قرار دیا۔ اسی طرح اوپر بھی بات کی ہے۔ تو علماء نے اس ذکر سے باقاعدہ استدلال کیا ہے۔ آپ انکار کر رہے ہیں تو کس بنیاد پر؟

آپ خود ہی دیکھ لیں کہ جن کو یہ مقلدین حنفی یا شافعی کہتے ہیں وہ خود اپنے بارے میں کیا لکھتے ہیں ۔علامہ شامی لکھتے ہیں :الأئمۃ الشافعیۃ کالقفال والشیخ ابن علی والقاضی حسین رحمہ اﷲ أنھم کانوا یقولون لسنا مقلدین للشافعی رحمہ اﷲ بل وافق رأینا رأیہ ویقال مثلہ فی أصحاب أبي حنیفۃ مثل أبی یوسف رحمہ اﷲ ومحمد رحمہ اللہ بالأولی وقد خالفوہ فی کثیر من الفروع۔ (عقود رسم المفتی ص ۲۵)
ترجمہ: علماء شوافع مثلاً قفال، شیخ ابن علی اور قاضی حسین رحمہ اللہ ان سب کا یہ کہنا ہے کہ ہم امام شافعی کے مقلد نہیں ہیں بلکہ ہماری رائے ان کی رائے کے موافق ہو گئی ہے اور اسی طرح امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے ۔( کہ وہ اما م ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد نہیں تھے) مثلاً ابو یوسف رحمہ اللہ اور محمد رحمہ اللہ کیونکہ انہوں نے اکثر مسائل میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی مخالفت کی ہے۔
اسی طرح امام طحاوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب شرح معانی الأثار میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بے شمار مسائل رد کئے ہیں ۔
قال الطحاوی لا بن حربویہ لا یقلد الا عصبي أو غبي (عقود رسم المفتی ص۲۶)
ترجمہ: اما م طحاوی امام ابن حربویہ سے کہتے ہیں تقلید تو متعصب یا بے وقوف ہی کرتا ہے۔

کاش کہ آپ نے پوری بحث پڑھی ہوتی ان دونوں جگہوں میں۔ یہاں مجتہد منتسب و مجتہد فی المذہب کی بات چل رہی ہے۔ بلکہ امام طحاوی کا یہ قول تو ہے ہی ایک عالم کو مجتہد فی المذہب یا صاحب التخریج ثابت کرنے کے سلسلے میں۔ اور میں نے اوپر عرض کیا تھا:۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ مجتہد فی المذہب کی تقلید اور عامی کی تقلید میں بہت فرق ہوتا ہے۔ آپ لوگ انہیں مقلد کہنے پر اگر عامی کی طرح مقلد سمجھ رہے ہیں تو یہ آپ کی غلطی ہے۔
آپ اگر اس سلسلے میں مفتی تقی صاحب کی کتاب "تقلید کی شرعی حیثیت" پر ایک نظر ڈال لیں تو ان شاء اللہ بہت مناسب رہے گا۔

تھوڑا اور انتظار فرمائیں تو نوازش ہوگی۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
میرے محترم بھائی!
میں نے اس بات کے لیے حوالہ شاہ صاحبؒ کا دیا تھا۔ کیا آپ ان کو بھی ایسے کام کرنے والا سمجھتے ہیں؟ اسی طرح ابن کثیرؒ و دیگر کو بھی؟
بات یہ ہے کہ کسی بہت کم افراد نے نسبت کسی کی جانب کی ہوگی لیکن ہم اس میں علماء امت کی رائے کا اعتبار کرتے ہیں۔
کیا کسی راوی نے خود کو ضعیف کہا ہے؟ خود کو کذاب کہا ہے؟کتنے رواۃ ہیں جنہوں نے خود کو معتزلی، قدری یا رافضی کہا ہے؟
ان سب پر حکم لگانے کے لیے آپ کو علماء کی آراء قبول ہیں لیکن اگر وہی کسی کو شافعی یا مالکی کہہ دیں تو آپ کو قبول نہیں؟ کیسی عجیب باتیں کرتے ہیں؟
دیکھیں اسی دیے ہوئے حوالے میں شاہ صاحبؒ نے فرمایا ہے:۔
محترم اشماریہ صاحب!
بات کیا ہو رہی ہے اور آپ نے جواب کیا دیا ہے ۔ بات نسبت کی ہے اور آپ اس کو جرح و تعدیل کی طرف لے گئے ہیں ، جب ایک عالم خود کے بارے میں یہ کہہ رہا ہے کہ میں کسی کا مقلد نہیں ہوں تو آپ اس کو مقلد کیون ثابت کرنا چاہتے ہیں اور شاہ صاحب کا کسی ایسے فقیہ کو کسی کی طرف منسوب کر دینا نامناسب ہے جو خود کو مقلد نہین سمجھتا ،جیسا کہ ان علما نے وضاحت کی ہے:آپ خود ہی دیکھ لیں کہ جن کو آپ مقلدین حنفی یا شافعی کہتے ہیں وہ خود اپنے بارے میں کیا لکھتے ہیں ۔علامہ شامی لکھتے ہیں :الأئمۃ الشافعیۃ کالقفال والشیخ ابن علی والقاضی حسین رحمہ اﷲ أنھم کانوا یقولون لسنا مقلدین للشافعی رحمہ اﷲ بل وافق رأینا رأیہ ویقال مثلہ فی أصحاب أبي حنیفۃ مثل أبی یوسف رحمہ اﷲ ومحمد رحمہ اللہ بالأولی وقد خالفوہ فی کثیر من الفروع۔ (عقود رسم المفتی ص ۲۵)
یہ صراحت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ محدثین کسی کو بھی اپنے لیے قابل تقلید نہیں سمجھتے تھے یہ صرف آپ کی خام خیالی ہے کہ محدثین کسی کے مقلد تھے،امام طحاوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب شرح معانی الأثار میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بے شمار مسائل رد کئے ہیں ۔
قال الطحاوی لا بن حربویہ لا یقلد الا عصبي أو غبي (عقود رسم المفتی ص۲۶)
’: اما م طحاوی امام ابن حربویہ سے کہتے ہیں تقلید تو متعصب یا بے وقوف ہی کرتا ہے۔
اتنی واضح بات کے باوجود بھی آپ یہ کہیں کہ یہ لوگ مقلد ہیں تو میری آپ سے معذرت ہے اور جہاں تک شاہ صاحب کا تعلق ہے تو مجھے ان کا ایک صریح اور غیر معارض قول ثابت کر دیں کہ وہ کس کے مقلد ہیں
 
Top