• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا الله سبحانه وتعالى کے آسمان دنیا پر نزول سے مراد "امر" ہے یا نزول؟

Adnani Salafi

رکن
شمولیت
دسمبر 18، 2015
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
32
کیا الله سبحانه وتعالى کے آسمان دنیا پر نزول سے مراد "امر" ہے یا نزول؟


وجاء ربك کی تفسیر میں امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے آسمان دنیا پر نزول کے بارے میں کہ اس سے مراد اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا "امر "ہے.
(تمہید جلد:7، صفحہ:143)
اس قول کی سند کیا صحیح ہے یا نہیں؟ اگر صحیح ہے تو کیا صفات میں تاویل جائز ہے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
امام ابن عبدالبرؒ نے التمہید میں فرماتے ہیں :
وأما قوله صلى الله عليه وسلم في هذا الحديث ينزل تبارك وتعالى إلى سماء الدنيا :
والذي عليه جمهور أئمة أهل السنة أنهم يقولون ينزل كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ويصدقون بهذا الحديث ولا يكيفون والقول في كيفية النزول كالقول في كيفية الاستواء والمجيء والحجة في ذلك واحدة وقد قال قوم من أهل الأثر أيضا إنه ينزل أمره وتنزل رحمته وروى ذلك عن حبيب كاتب ملك وغيره وأنكره منهم آخرون وقالوا هذا ليس بشيء لأن أمره ورحمته لا يزالان ينزلان أبدا في الليل والنهار وتعالى الملك الجبار الذي إذا أراد أمرا قال له كن فيكون في أي وقت شاء ويختص برحمته من يشاء متى شاء لا إله إلا هو الكبير المتعال وقد روى محمد بن علي الجبلي وكان من ثقات المسلمين بالقيروان قال حدثنا جامع بن سوادة بمصر قال حدثنا مطرف عن مالك بن أنس أنه سئل عن الحديث إن الله ينزل في الليل إلى سماء الدنيا فقال مالك يتنزل أمره ‘‘

ترجمہ : نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تبارک وتعالی آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے ‘‘
جمہور ائمہ اہل سنت کا یہی مذہب ہے کہ اللہ تعالی واقعی نازل ہوتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے ، اور وہ سب اس حدیث شریف کی تصدیق کرتے ہیں ،اور نزول کی کیفیت نہیں بتاتے ، اور نزول کی کیفیت میں بھی سلف کا وہی قول ہے جو استواء اور (مجیئ ، یعنی آنا ) میں ہے،
اور کچھ اہل اثر کا کہنا ہے کہ نزول سے مراد اللہ کا امر اور اسکی رحمت ہے ، اور یہی بات حبیب کاتب سے روایت کی گئی ہے،
جبکہ دوسرے تمام اہل علم کا اس کا انکار کرتےہیں ، اور کہتے ہیں کہ : اس تاویل کی کوئی حیثیت نہیں ، کیونکہ اللہ کا امر اور اسکی رحمت تو ہمیشہ ہروقت رات دن نازل ہوتی رہتی ہے ، وہ حقیقی بادشاہ جب چاہتا ہے کوئی بھی امر نازل فرماتا ہے ،
(آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون ) اس کیلئے وقت کی کوئی قید نہیں ، اور جس پر جب چاہتا ہے اپنی رحمت نازل فرماتا ہے ؛
کیونکہ وہ حقیقی معبود ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ( تو لازم ہے کہ اس کا امر ۔۔ اور ۔۔ رحمت ہر وقت نازل ہو )
اور محمد بن علی الجبلی جو قیروان کے اچھے مسلمانوں میں سے ہیں وہ بحوالہ جامع ابن سوادہ ، از مطرف : نقل کرتے ہیں :
کہ امام مالک سے حدیث نزول کے متعلق سوال ہوا کہ اللہ تعالی رات کے وقت آسمان دنیا پر نازل ہوتا ہے
تو انہوں نے فرمایا : اللہ کا امر نازل ہوتا ہے ‘‘ انتہی ۔۔۔۔ (التمہید جلد ۷)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام مالک سے نزول کی تاویل جس سند سے نقل کی گئی وہ انتہائی ضعیف ہے ، تفصیل درج ذیل ہے :
اس کا پہلا راوی محمَّد بن عليٍّ الجبليُّ المتوفَّى سنة (٤٣٩ﻫ)، ہے
امام الذهبيُّ «ميزان الاعتدال» میں اس کے متعلق لکھتے ہیں :یہ رافضی تھا ( اسلئے اس کی روایت کا اعتبار نہیں )
«محمَّد بن عليِّ بن محمَّد، أبو الخطَّاب الجبليُّ الشاعر، فصيحٌ سائر القول. روى عن عبد الوهَّاب الكلابيِّ، ومدح أبا العلاء المعرِّيَّ فجاوبه بأبياتٍ. قال الخطيب: «قيل: إنه كان رافضيًّا»
اور امام خطیب بغدادی کہتے ہیں : قيل:«إنه كان رافضيًّا شديدَ الرفض» بڑا سخت رافضی تھا ‘
«ميزان الاعتدال» للذهبي (٢/ ٦٥٧).

اور روایت کا دوسرا راوی : جامع بن سوادة ہے جس کے متعلق حافظ ابن حجر لسان میں امام دارقطنی کا قول نقل کرتے ہیں کہ اس کی حدیث باطل ہے ،اور یہ خود ضعیف ہے
قال الدَّارَقُطْنِيّ: هذا الحديث باطل، وجامع ضعيف،
(«لسان الميزان» للحافظ ابن حجر (٢/ ٤١٥))،
اور امام ذھبی اس کی ایک موضوع روایت نقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس روایت میں آفت یہی ابن سوادہ ہے
وأورد له الذهبيُّ حديثًا موضوعًا في الجمع بين الزوجين، ثمَّ قال: «كأنه آفَتُه»(«ميزان الاعتدال» للذهبي (١/ ٣٨٧).)،
اور علامہ ابن جوزی نے اسے مجہول رواۃ میں شمار کیا ہے
(«الموضوعات» لابن الجوزي (٢/ ٢٧٩).).
تو إمام دار الهجرة مالک رحمہ الله سے اس روایت کی اسنادی حالت واضح ہے کہ یہ قابل اعتبار نہیں ؛؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اندلس کے نامور امام أبو عبد الله المعروف ابن أبي زَمَنِين المالكي (المتوفى: 399هـ)
اپنی مشہور عالم کتاب ’’ اصول السنۃ ‘‘ میں بالاسناد نقل فرماتے ہیں کہ :
عَنْ زُهَيْرِ بْنِ عُبَادَةَ قَالَ: كُلُّ مَنْ أَدْرَكْتُ مِنْ اَلْمَشَايِخِ: مَالِكٍ وَسُفْيَانَ وَفُضَيْلِ بْنِ عِيَاضٍ وَعِيسَى وَابْنِ اَلْمُبَارَكِ وَوَكِيعٍ كَانُوا يَقُولُونَ: اَلنُّزُولُ حَقٌّ »
یعنی زہیر کہتے ہیں : میں نے جن ائمہ مشائخ کو پایا جیسے امام مالک ؒ، امام سفیانؒ ،امام فضیل ؒ، امام وکیعؒ اور عیسی بن مبارک سب کا قول یہی تھا کہ ’’ اللہ تعالی کا نازل ہونا حق ہے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

Adnani Salafi

رکن
شمولیت
دسمبر 18، 2015
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
32
جزاك الله خيرا .
الله سبحانه وتعالى آپ کو علم نافع کی بے پناہ دولت عطا فرمائے.
میں جب بھی آپ کا جواب پاتا ہوں تو آپ کے لیے دل سے خیر کی ہی دعا نکلتی ہے.اور میں آپکے جواب سے اطمینان محسوس کرتا ہوں. جس کی وجہ آپ کی تحریر میں مدلل پن اور آسان فہم ہونا ہے. اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپ سے اسطرح دین کا کام لیتا رہے. اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ محدث فورم کے لیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ایک نعمت ہیں.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
جزاك الله خيرا .
الله سبحانه وتعالى آپ کو علم نافع کی بے پناہ دولت عطا فرمائے.
میں جب بھی آپ کا جواب پاتا ہوں تو آپ کے لیے دل سے خیر کی ہی دعا نکلتی ہے.ا
آمین یا رب العالمین
اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ، اور سلامتی اور خیر میں آباد رکھے ۔
 

Adnani Salafi

رکن
شمولیت
دسمبر 18، 2015
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
32
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اسحاق بهائی مجھے آپ سے امام مالک رحمہ اللہ کے دوسرے قول کے بارے رہنمائی چاہیے.
جو کہ"استواء مجهول" کے بارے میں ہیں؟.
کیا اس قول میں واقع ہی "تحریف" ہوئی ہے؟
اور کیا اس قول کی "سند" صحیح ہے؟.
 

Adnani Salafi

رکن
شمولیت
دسمبر 18، 2015
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
32
السلام علیکم محترم اسحاق بھائی!
کیا محمد بن علی الجبلی الگ ہے اور محمد بن علی البغدادی جو الجبلی سے مشھور ہے جس پر خطیب و ابن حجر رح کی جرح ہے الگ ہے
 

Adnani Salafi

رکن
شمولیت
دسمبر 18، 2015
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
32
قال الخطيب البغدادي في تاريخه 4/170 برقم 1362 - طبعة الغرب الإسلامي- ما نصه: "محمد بن على بن محمد بن إبراهيم أبو الخطاب الشاعر المعروف بالجبلي كان من أهل الأدب حسن الشعر فصيح القول مليح النظم سافر في حداثته إلى الشام فسمع بدمشق من أبى الحسين المعروف بأخي تبوك ثم عاد إلى بغداد وقد كفَّ بصره فأقام بها إلى حين وفاته سمعت منه الحديث وعلقت عنه مقطعات من شعره وقيل انه كان رافضياً شديد الرفض".انتهـى

فهذا الشاعر لم يرو الحديث لا في القيروان و لا في مصر و لا ذهب إليها قطّ كما قال الخطيب البغدادي. فعُلم انه غير الفقيه القيرواني. وزيادة على ذلك فقد نقل الخطيب هذه الرواية بأسلوب التمريض: "قيل" كما هو مذكور ، وأكد ذلك الحافظ ابن حجر فقال في لسان الميزان 5/303 حيث قال : "ولفظ الخطيب :" قيل : إنه كان رافضيا شديد الرفض" ، وكان ضريرا مات في ذي القعدة سنة تسع وثلاثين وأربع مائة" . انتهى

فالفقيه محمد بن علي الجبلي القيرواني هو ثقة كما نص على ذلك الحافظ ابن عبد البر الذي هو أعلم بفقهاء المغرب من غيره من المشارقة.
 

Adnani Salafi

رکن
شمولیت
دسمبر 18، 2015
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
32
اور یہ جو جامع بن سوادہ ہے

- جامع بن سوادة :هو أبو سليمان جامع بن سوادة الأزدي المصري . ليس بمجهول كما زعم بعض المجسمة. ذكره المزي في ترتيب الكمال و أبو سعيد خلف بن أبي القاسم القيرواني البراذعي في التهذيب في اختصار المدونة عند ترجمتهما لمطرف بن عبد الله و عدّاه من جملة تلاميذه. وذكره أيضا ابن عساكر في تاريخ دمشق عند ترجمة ابراهيم بن بكر أبو الأصبع البجلي

ونص عبارة ابن عساكر كما في تاريخ دمشق :"ابراهيم بن بكر أبو الأصبع البجلي: أَخُو بِشْرِ بْنِ بَكْرٍ مِنْ أَهْلِ دِمَشْقَ. حَدَّثَ بِمِصْرَ عَنْ : ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ ، وَأَبِي زُرْعَةَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْقُرَشِيِّ ، وإِبْرَاهِيمَ بْنِ مُعَاوِيَةَ الشَّامِيِّ. رَوَى عَنْهُ : أَبُو بَكْرِ بْنُ الْبَرْقِيِّ ، وَأَبُو سُلَيْمَانَ جَامِعُ بْنُ سَوَادَةَ الْمِصْرِيَّانِ". انتهى

و أبو سليمان جامع بن سوادة الأزدي هو غير جامع بن سوادة الحمزاوي الذي عدَّه ابن الجوزيِّ مِن جملة المجاهيل و ليس هو الذي نقل ابن حجرٍ تضعيفَ الدارقطنيِّ له، و ليس هو أيضا الذي أورد له الذهبيُّ في الميزان حديثًا موضوعًا في الجمع بين الزوجين، وضعّف بسببه حديث: "آخر من يدخل الجنة رجل من جهينة.

قال ابن الجوزي في الموضوعات: "أنبأنا محمد بن ناصر أنبأنا أحمد بن الحسين بن قريش أنبأنا إبراهيم بن عمر البرمكي حدثنا أبو بكر محمد بن إسماعيل الوراق حدثنا أبو الحسن علي بن أحمد ابن محمد الفقيه حدثني جامع بن سوادة الحمزاوي حدثنا آدم بن أبي إياس حدثنا ابن أبي ذئب عن الزهري عن أبي سلمة عن أبي هريرة وابن عباس قالا:" آخر خطبة خطبها رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يخطب غيرها حتى خرج من الدنيا فقال: من مشى في تزويج بين اثنين حتى يجمع الله عز وجل أعطاه الله عز وجل بكل خطوة وبكل كلمة تكلم في ذلك عبادة
سنة، " الحديث". انتهى
 
Top