• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ قلیل العربیہ تھے ؟

رانا اویس سلفی

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
387
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
109
حدثنا سلیمان بن داؤد العقیلی قال سمعت احمد بن الحسن التر مذی قال سمعت احمد بن حنبل یقول ابو حنیفۃ یکذب (اسناد صحیح) (کتاب الضعفاء الکبیر جلد 4 ص 284)

ترجمہ: امام احمد بن حنبل ؒ نے کہا ابو حنیفہ جھوٹ بولتا تھا۔

سند کی تحقیق:
1۔ سلیمان بن داؤد العقیلی ثقۃ صدوق (الجرح والتعدیل جلد 4 ص 115)
2۔ احمد بن الحسن بن جنید الترمذی ابوالحسن ثقۃ حافظ (تقریب التھذیب ص 12)
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام الحرمین امام جوینی، امام غزالی اور ابن خلکان نے نحوی غلطی کو قلت عربیہ کا نام دیا ہے۔ اب میرے خیال میں ان جلیل القدر ائمہ کی عربی کسی عجمی سے تو بہتر سے ہو گی۔
جوینی کی کتابوں کی کسی نے بلحاظ عربیت تعریف نہیں کی ہے اورنہ ہی اس کی کتابوں کو کتب ادب میں شمار کیاگیاہے۔ اب جہاں تک یہ بات رہ گئی کہ امام غزالی توجیساکہ سابق میں تفصیل سے ذکر کیاجاچکاہے کہ یہ امام غزالی کے عہدشباب کا کلام ہے ۔ اگرکسی کو تفصیل دیکھنی ہو تودیکھ سکتاہے کہ امام غزالی نے احیاء علوم الدین میں امام ابوحنیفہ کے بارے میں کیالکھاہے۔
اس کے علاوہ دیگر شافعی علماء نے اس کلام کے مدخول اورملحقہ ہونے کی بھی بات کہی ہے۔ اس سب کے باوجود اگرکوئی امام غزالی کی اسی بات کو لے کر لکیر کا فقیر بنارہتاہے اوراسی لکیر کو پیٹتارہتاہے توسوائے اس کی عقل پر ماتم کرنے کے اورکچھ بھی نہیں کہاجاسکتا۔
پھرخود امام غزالی کی کتابوں میں صرف ونحو کی کمزوری اوراغلاط کی نشاندہی کی گئی ہے جیساکہ ماقبل کے روابط میں موجود ہے۔ لیکن ان سب پر غورنہ کرتے ہوئے بھی اگرکوئی قلت عربیت کا ڈھنڈورا پیٹناچاہتاہے تواسے کون روک سکتاہے اللہ یہ کہ خداہی اسے توفیق دے۔
ابن خلکان کی عبارت میں غیرمقلدین حضرات کو صرف یہی کلام دیکھائی دیتاہے ۔ اس سے پہلے انہوں نے اسی پیراگراف میں جوکچھ کہاہے اسے سرے سے نظرانداز کردیتے ہیں ۔ اگرکوئی دوسراحضرت ابن تیمیہ کے ساتھ ویساہی کرے کہ ایک جملہ نقل کرے اوردوسرا حذف کرے توشاید ان کے متعقدین ومقلدین آسمان سرپر اٹھالیں گے ۔ اورایک بحث میں تواٹھایاہی ہواہے۔
ویسے میں نے جوبات کہی تھی کہ قلب عربیت کاالزام لگانے والے جاہل ہیں کچھ اسی قسم کی بات ابن وزیر یمانی نے کہی ہے۔
وأمّا ما قدح به على الإمام أبي حنيفة من عدم العلم باللّغة العربيّة فلا شكّ أنّ هذا كلام متحامل, متنكّب عن سبيل المحامل, فقد كان الإمام أبو حنيفة من أهل اللّسان القويمة، واللّغة الفصيحة.
اگرکبھی توفیق ہو تو اقبال کلام مصنفہ مولانا عبدالسلام ندوی مطالعہ کرنے کی زحمت گواراکیجئے گااس میں مذکور ہے کہ کسی شخص نے ان پر اعتراض کیاکہ آپ کے کلام میں فنی کمیاں ہیں توانہوں نے یہی جواب دیاکہ میں مقصد پر نگاہ رکھتاہوں اور فنی خامیوں کونظرانداز کردیتاہوں۔ پھراسی کتاب میں مولانا نے ایک باب باندھا ہے جس میں کلام اقبال کے ان اشعار کی نشاندہی کی گئی ہے جوخلاف محاورہ ہیں یااس میں کوئی دوسری غلطی ہے۔
اس میں وہ مشہور شعربھی شامل ہے ۔

نشہ پلاکے گراناتوسب کو آتاہے
مزہ توجب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی
اب اگران مثالوں کی بنیاد پر کوئی اقبال کے بارے میں کہے اردو سے ان کی واقفیت کم تھی یااسی قسم کی کوئی بات تواس کو جاہل قراردینے میں آنجناب بھی پیچھے نہیں رہیں گے لہذا ہمیں بھی اجازت دیجئے کہ ایک مرتبہ اوران کولوگوں کو جاہل کہہ لیں جو لحن اورقلت عربیت میں فرق محسوس نہیں کرتے ۔
ویسے آنجناب سے گزارش ہے کہ اگراس موضوع پر بحث کا شوق ہی ہے توپہلے یہ طئے کرلیں کہ قلت عربیت کہتے کس کو ہیں اور کتنی اورکیسی غلطیوں پرکسی کے بارے میں کہاجائے گاکہ وہ عربی زبان سے کمتر واقفیت رکھتاہے یاقلیل العربیۃ کا خطاب دینااس کو صحیح ہوگا؟ پہلے اس خلیج کو پرکرلیں پھرآگے قدم بڑھائیں۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
حدثنا سلیمان بن داؤد العقیلی قال سمعت احمد بن الحسن التر مذی قال سمعت احمد بن حنبل یقول ابو حنیفۃ یکذب (اسناد صحیح) (کتاب الضعفاء الکبیر جلد 4 ص 284)

ترجمہ: امام احمد بن حنبل ؒ نے کہا ابو حنیفہ جھوٹ بولتا تھا۔
سند کی تحقیق:
1۔ سلیمان بن داؤد العقیلی ثقۃ صدوق (الجرح والتعدیل جلد 4 ص 115)
2۔ احمد بن الحسن بن جنید الترمذی ابوالحسن ثقۃ حافظ (تقریب التھذیب ص 12)
آنجناب کا تعلق بھان متی کے کس کنبہ سے ہے؟جو جہاں تہاں کا روڑا اورپتھر یہاں لاکر جوڑرہے ہیں؟
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
حدثنا سلیمان بن داؤد العقیلی قال سمعت احمد بن الحسن التر مذی قال سمعت احمد بن حنبل یقول ابو حنیفۃ یکذب (اسناد صحیح) (کتاب الضعفاء الکبیر جلد 4 ص 284)

ترجمہ: امام احمد بن حنبل ؒ نے کہا ابو حنیفہ جھوٹ بولتا تھا۔

سند کی تحقیق:
1۔ سلیمان بن داؤد العقیلی ثقۃ صدوق (الجرح والتعدیل جلد 4 ص 115)
2۔ احمد بن الحسن بن جنید الترمذی ابوالحسن ثقۃ حافظ (تقریب التھذیب ص 12)
بھائی آپ نے غالبا یہ تحقیق جناب خرم صاحب کی کتاب سے نقل کیا ہے لیکن عرض ہے کہ اس کی سند صحیح نہیں ہے ، امام عقیلی کے استاذ ’’ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعُقَيْلِيُّ‘‘ میرے ناقص علم کے مطابق مجہول ہیں ، الجرح والتعدیل میں مذکور سلیمان بن داؤد دوسرے ہیں۔

بلکہ یہ بھی ممکن ہے یہ امام عقیلی نے اپنے جس استاذ کو ’’ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعُقَيْلِيُّ‘‘ کہا ہے وہ ’’دَاوُد بْن سليمان بْن خُزَيْمة، أبو محمد الكَرْمِينيّ القطّان.‘‘ ہوں ، کیونکہ امام عقیلی نے اسی کتاب میں کہا:
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْقَطَّانُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَيْنِ التِّرْمِذِيُّ ، قَالَ , حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ضِرَارُ بْنُ صُرَدَ , قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمٌ الْمُقْرِئُ قَالَ: سَمِعْتُ الثَّوْرِيَّ يَقُولُ: قَالَ لَنَا حَمَّادٌ: أَفِيكُمْ مَنْ يَأْتِي أَبَا حَنِيفَةَ؟ بَلِّغُوا عَنِّي أَبَا حَنِيفَةَ أَنِّي بَرِيءٌ مِنْهُ. وَكَانَ يَقُولُ: الْقُرْآَنُ مَخْلُوقٌ ضِرَارٌ لَيْسَ بِثِقَةٍ [الضعفاء الكبير للعقيلي: 4/ 268]۔

اس سند میں بھی امام عقیلی نے اپنے استاذ اور ’’أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَيْنِ التِّرْمِذِيُّ ‘‘ کے شاگردکو ’’سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْقَطَّانُ‘‘ کہا ہے یعنی ان کے ساتھ ’’الْقَطَّانُ‘‘ کہا ہے۔

اوردوسری جگہ اپنے اسی استاذ سے نقل کرتے ہوئے کہا:
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْقَطَّانُ بِالرَّيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ السَّمَرْقَنْدِيُّ، يَقُولُ: قَدِمْتُ الْكُوفَةَ حَاجًّا فَأَوْدَعْتُ يَحْيَى بْنَ عَبْدِ الْحَمِيدِ الْحِمَّانِيَّ كُتُبًا لِي , وَخَرَجْتُ إِلَى مَكَّةَ , فَلَمَّا رَجَعْتُ مِنَ الْحَجِّ أَتَيْتُهُ فَطَلَبْتُهَا , فَجَحَدَنِي , وَأَنْكَرَ فَوَقَفْتُ بِهِ فَلَمْ يَنْفَعْ ذَلِكَ , فَصَايَحْتُهُ وَاجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَيْنَا , فَقَامَ إِلَيَّ وَرَّاقُهُ , فَأَخَذَ بِيَدِيَ فَنَحَّانِي , وَقَالَ لِي: إِنْ أَمْسَكْتَ تَخَلَّصْتُ لَكَ الْكُتُبَ , فَأَمْسَكْتُ فَإِذَا الْوَرَّاقُ قَدْ جَاءَنِي بِالْكُتُبِ , وَكَانَتْ مَشْدُودَةً فِي خِرْقَةٍ , وَلُبَدٍ , فَإِذَا الشَّدُّ مُتَغَيِّرٌ , فَنَظَرْتُ فِي الْأَجْزَاءِ , فَإِذَا فِيهَا عَلَامَاتٌ بِالْحُمْرَةِ , وَلَمْ يَكُنْ نَظَرَ فِيهَا أَحَدٌ , وَإِذَا أَكْثَرُ الْعَلَامَاتِ عَلَى حَدِيثِ مَرْوَانَ الطَّاطَرِيِّ , عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ , وَعَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ الدَّرَاوَرْدِيِّ , فَافْتَقَدْتُ مِنْهَا جُزْأَيْنِ[الضعفاء الكبير للعقيلي: 4/ 414]

معلوم ہواکہ امام عقیلی کے استاذ’’سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْقَطَّانُ‘‘ یہ ’’عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ السَّمَرْقَنْدِيُّ، ‘‘ کے شاگرد ہیں ۔
لیکن ’’عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ السَّمَرْقَنْدِيُّ، ‘‘کے شاگردوں میں ’’سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْقَطَّانُ‘‘ القطان کے بجائے ’’داود بن سليمان القطّان‘‘ کا تذکرہ ملتاہے جیساکہ [تهذيب الكمال للمزي: 15/ 213] میں ہے۔

نیز خطیب بغدادی نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن يوسف القطان، أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بْن عَبْد اللَّه بْن مُحَمَّد بْن حمدويه الحافظ، حدّثني أحمد بن محمّد بن وكيع، حدثني داود بن سليمان القطّان، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ السَّمَرْقَنْدِيُّ، حَدَّثَنَا هارون بن أبي عبيد الله عن أبيه قَالَ:قَالَ لي المهدي: ألا ترى ما يقول لي هذا؟ - يعني مقاتلا. قَالَ: إن شئت وضعت لك أحاديث في العباس، قَالَ: قلت لا حاجة لي فيها.[تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية 13/ 168].

معلوم ہواکہ مذکورہ سند میں امام عقیلی کے استاذ یہ ’’داود بن سليمان القطّان‘‘ ہیں الجرح والتعدیل میں مذکور ’’سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ‘‘ یہ دوسرے ہیں، اور یہ مجہول ہیں ۔
امام ذہبی نے ان کے بارے میں صرف اتنالکھا:
دَاوُد بْن سليمان بْن خُزَيْمة. أبو محمد الكَرْمِينيّ القطّان. روى التفسير عَنْ: عَبْد بْن حُمَيْد. وروى عَنْ: الدّارميّ، ورجاء بْن مُرَجّا. وعنه: أبو القاسم عَبْد الرَّحْمَن بْن محمد بْن إبراهيم، وعبد الكريم بْن محمد الطّواويسيّ.[تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 23/ 536]۔

یعنی ان کی تعدیل و توثیق سے متعلق کوئی معلومات نہیں دی۔
اگرکوئی ہماری اس بات سے اتفاق نہ کرے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ مذکورہ سند میں امام عقیلی کے استاذ ’’سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ‘‘ کی تعیین دلائل کے ساتھ کرے۔

فائدہ :
ایک روایت میں امام ’’ جعفر بن محمد الفِرْيابيّ ‘‘ سے دَاوُد بْن سليمان کی متابعت بھی منقول ہے چنانچہ
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى:463) نے کہا:
أَخْبَرَنَا عُبَيْد الله بن عمر الواعظ، حدّثنا أبي، حَدَّثَنَا عُثْمَان بن جَعْفَر بن مُحَمَّد السبيعي، حدّثنا الفريابي جعفر ابن محمّد، حدثني أحمد بن الحسن الترمذي قَالَ: سمعت أَحْمَد بْن حَنْبَل يَقُولُ: كَانَ أَبُو حنيفة يكذب[تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية 13/ 421]۔
اس کے سارے رجال ثقہ ہیں سوائے’’عُثْمَان بن جَعْفَر بن مُحَمَّد السبيعي‘‘کے، ان کی توثیق مجھے نہیں مل سکی، لہٰذا یہ سند میرے نزدیک ضعیف ہے۔
تاہم جو لوگ حسن لغیرہ کو حجت مانتے ہیں ان کے اصول کی روشنی میں یہ روایت حسن ہونی چاہئے ۔
بہرحال ہمارے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے اور یہ بات ثابت نہیں کہ امام احمد رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ کو جھوٹا کہا ہو۔

جناب خرم صاحب تک جن کی رسائی ہو وہ ان سے رابطہ کریں اور معلوم کریں کہ انہوں نے مذکورہ سند کوصحیح کہا ہے تو امام عقیلی کے استاذ کی تعیین انہوں نے کن دلائل کے رو سے کی ہے، ممکن ہے ان کے پاس کچھ مزید دلائل ہوں اور میرا مطالعہ ہی ناقص ہو اس لئے اس سلسلے میں کوئی بھائی خرم صاحب سے رابطہ کرکے ہمیں ان کے موقف سے آگاہ کریں۔
 
Top