آپ لوگ ہمارے معمولات پر دلیل خاص مانگتےہیں ، ہم بھی آپ سے یہی مطالبہ کررہے ہیں کہ صحابہ نے بھی حدیث لکھی، کسی نے ایسے عمل کیا ؟امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ہر حدیث لکھنے پر یہ عمل کیا ، اس کی کوئی دلیل صحابہ کرام کے عمل سے پیش کریں ۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
بھائی جان شاکر بھائی کی یہ تحریر دیکھیں
حضرت جابر بن عبد اللہ رضى الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
اذا ھم احدکم بالامر فلیرکع رکعتین من غیر الفریضة (بخاری)
ترجمہ :جب تم میں سے کوئی شخص کسی بھی کام کا ارادہ کرے تو اس کو چاہیے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے ۔
اب یہ کھلی چھوٹ ہے اور آپ کا تقویٰ ہے کہ آپ کتنے کاموں سے پہلے استخارہ کر سکتے ہیں۔ امام بخاری کے نزدیک ہر حدیث کی صحت و ضعف کا حکم لگانا ایک اہم معاملہ تھا۔ اس لئے انہوں نے اللہ سے مدد مانگی اور ہر حدیث سے پہلے استخارہ کیا تو اس حدیث کی روشنی میں بالکل جائز ہے۔ ہاں یہ جائز عمل بھی تب ناجائز ہو جاتا، جب امام بخاری اس پر اصرار کرتے کہ جو شخص بھی جب بھی حدیث لکھے وہ استخارہ کیا کرے، ورنہ اس کا عمل اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوگا، یا اپنے اس عمل کو جائز سے واجب کا درجہ دیتے ، جو حدیث لکھنے سے قبل استخارہ نہ کرتا اس پر فتویٰ وغیرہ لگا دیتے۔ جیسا کہ مبتدعین اپنی ایجاد کردہ بدعات کے ساتھ رویہ اپناتے ہیں۔
آج عید میلاد کو جیسے آپ حضرات دیگر شرعی و ثابت شدہ عیدوں سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اسے زیادہ بڑا اسلامی تہوار سمجھتے ہیں۔ عید میلاد جیسی بدعت سے بچنے والوں پر فتوے لگائے جاتے ہیں، اس جیسی بدعات کے ثبوت کے لئے ادھر ادھر ہاتھ مارتے ہیں، قرآن و حدیث میں لغوی تحریف سے بھی باز نہیں آتے۔ یہ عمل کسی مباح کام کو بھی ناجائز قرار دینے کے لئے کافی ہے ۔