• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اِس آیتِ مبارکہ سے وسیلہ کی شرعی حیثیت ثابت ہوتی ہے؟

AAIslami

رکن
شمولیت
اپریل 21، 2012
پیغامات
14
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
55
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

ذیل میں قرآنِ کریم سے ایک آیت اور تفسیر ابنِ کثیر سے اس آیت کے حوالے سے ایک عبارت نقل کی گئی ہے۔
میرا سوال اہلِ علم حضرات سے یہ ہے خصوصاً اہلِ حدیث بھائیوں سے، کہ آیا اس دلیل سے وسیلہ کی شرعی حیثیت صحیح ہے یا غلط؟

سورۃ النساء، آیت نمبر ۶۴
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاۗءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیمًا
اور ہم نے تمام پیغمبروں کو خاص اسی واسطے معبوث فرمایا ہےکہ بحکم خداوندی ان کی اطاعت کیجاوے اور اگر جس وقت اپنانقصان کربیٹھتے تھے اس وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے پھر الله تعالیٰ سے معافی چاہتے اور رسول بھی ان کے لیے الله تعالیٰ سے معافی چاہتے اور ضرور الله تعالیٰ کو تو بہ قبول کرنے والا اور رحمت کرنے والا پاتے ۔ (ف۲) (64)

تفسیر ابنِ کثیر:
جاری۔۔۔۔۔۔پھر اللہ تعالیٰ عاصی اور خطاکاروں کو ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیے اور خود رسول سے بھی عرض کرنا چاہیے کہ آپ ہمارے لئے دعائیں کیجئے جب وہ ایسا کریں گے تو یقینا اللہ ان کی طرف رجوع کرے گا انہیں بخش دے گا اور ۔۔۔۔۔۔الخ

جواب کا انتظار رہے گا۔ ان شاء اللہ۔
جزاک اللہ خیراً
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

بھلہ یہ سوال اوپن سیکشن میں کیا گیا ھے جس پر ہر کوئی حصہ لے سکتا ھے پھر بھی طالب علم یا کتابیں پڑھ کر جواب دینے والے اگر پرہیز کریں تو بہتر ہو گا سوال کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے پہلے صاحب علم حضرات کو جواب دینے کا موقع عنایت فرمائیں۔ اگر طالب علم نے کوئی جواب پہلے لکھ دیا تو پھر استاذ حضرات جواب نہیں دے پائیں گے کیونکہ طالب علم کی غلطیوں کی وجہ سے وہ حصہ نہیں لے پاتے۔

باقی ہر کوئی لکھنے میں آزاد ھے زبردستی نہیں بات صرف سمجھ کی ھے۔

والسلام
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اللہ تعالیٰ عاصی اور خطاکاروں کو ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیے اور خود رسول سے بھی عرض کرنا چاہیے کہ آپ ہمارے لئے دعائیں کیجئے جب وہ ایسا کریں گے تو یقینا اللہ ان کی طرف رجوع کرے گا انہیں بخش دے گا اور ۔۔۔۔۔۔الخ

جواب کا انتظار رہے گا۔ ان شاء اللہ۔
جزاک اللہ خیراً
یہ ساری معلومات آپ نے کہاں سے جمع کیں۔۔۔ یہ بتانا پسند کریں گے۔۔۔
 

AAIslami

رکن
شمولیت
اپریل 21، 2012
پیغامات
14
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
55
جی محترم حرب بن شداد بھائی۔
میں نے فیس بک پر ایک پوسٹ میں یہ معلومات دیکھیں اور پھر میں نے قرآن سے یہ آیت اور اسی کی تفسیر تفسیر ابن کثیر میں دیکھی جس میں یہ عبارت بھی درج تھی تو میں نے ذکر کر دی۔
ٰآپ
ٰEasy Quran Wa Hadith
سافٹ ویئر سے تفصیل دیکھ سکتے ہیں۔ ان شاء اللہ۔ باقی کتب اہلِ علم حضرات کے پاس موجود ہوتی ہیں، ان شاء اللہ۔ تو امید ہے کہ وہ میری رہنمائی فرمائیں گے۔ ان شاء اللہ۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
ا
سورۃ النساء، آیت نمبر ۶۴
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاۗءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیمًا
اللہ تبارک وتعالٰی اوامر کے ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور فرمانبرداری کی ترغیب دیتے ہوئے آگاہ فرماتا ہے کہ انبیاء ورسل کو مبعوث کرنے کی غرض وغایت صرف یہی ہے کہ اُن کی اطاعت کی جائے اور جن کی طرف رسول بھیجا گیا ہے وہ اس کے تمام احکام کی تعمیل کریں، اس کے نواہی سے اجتناب کریں اور وہ اس کی ویسے ہی تعظیم کریں جیسے اطاعت کرنے والا مطاع کی تعظیم کرتا ہے اس آیت میں عصمت انبیاء کا اثبات ہے یعنی وہ اللہ تعالٰی کا پیغام پہنچانے حکم دینے اور منع کرنے میں ہر لغزش سے پاک ہیں کیونکہ اللہ تبارک وتعالٰی ان کی مطلق اطاعت کا حکم نہ دیتا۔۔۔

بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ اللہ کے فرمان یعنی اطاعت کرنے والے کی اطاعت اللہ تعالٰی کی قضاء وقدر سے صادر ہوتی ہے پس اس آیت میں قضاوقدر کا اثبات ہے نیز اس میں اس امر کی ترغیت ہے کہ ہمیشہ اللہ تعالٰی سے مدد مانگنی چاہئے نیز اس میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان اس وقت تک رسول کی اطاعت نہیں کرسکتا جب تک کہ اللہ تعالٰی کی مدد شامل حال نہ ہو۔۔۔

پھر اللہ تعالٰی نے اپنے عظیم جودوکرم کا ذکر فرمایا یہ اور ان لوگوں کو دعوت دی ہے جن سے گناہ سرزد ہوئے کہ وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کریں توبہ کرکے اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کریں چنانچہ فرمایا۔۔۔

وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاۗءُوْكَ اور اگر یہ لوگ جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا آپ کے پاس آجاتے یعنی اپنے گناہوں کا اعتراف اور اقرار کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیمًا اور اللہ سے استغفار کرتے اور رسول ان کے لئے استغفار کرتا تو یقینا یہ لوگ اللہ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے۔۔۔ یعنی اللہ تعالٰی ان کا ظلم بخش کر ان کی طرف پلٹ آتا اللہ تعالٰی ان کی توبہ قبول کرکے توبہ کی توفیق اور اس پر ثواب عطاء کرکے ان پر رحم فرماتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس حاضری کا تعلق آپ کی زندگی کے ساتھ مختص تھا کیونکہ سیاق دلالت کرتا ہے کہ رسول کی طرف سے استغفار آپ کی زندگی ہی میں ہوسکا ہے آپ کی وفات کے بعد آپ سے کچھ نہ مانگا جائے۔۔۔ بلکہ یہ شرک ہے۔۔۔

واللہ اعلم۔۔۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

ذیل میں قرآنِ کریم سے ایک آیت اور تفسیر ابنِ کثیر سے اس آیت کے حوالے سے ایک عبارت نقل کی گئی ہے۔
میرا سوال اہلِ علم حضرات سے یہ ہے خصوصاً اہلِ حدیث بھائیوں سے، کہ آیا اس دلیل سے وسیلہ کی شرعی حیثیت صحیح ہے یا غلط؟

سورۃ النساء، آیت نمبر ۶۴
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاۗءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیمًا
اور ہم نے تمام پیغمبروں کو خاص اسی واسطے معبوث فرمایا ہےکہ بحکم خداوندی ان کی اطاعت کیجاوے اور اگر جس وقت اپنانقصان کربیٹھتے تھے اس وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے پھر الله تعالیٰ سے معافی چاہتے اور رسول بھی ان کے لیے الله تعالیٰ سے معافی چاہتے اور ضرور الله تعالیٰ کو تو بہ قبول کرنے والا اور رحمت کرنے والا پاتے ۔ (ف۲) (64)

تفسیر ابنِ کثیر:
جاری۔۔۔۔۔۔پھر اللہ تعالیٰ عاصی اور خطاکاروں کو ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیے اور خود رسول سے بھی عرض کرنا چاہیے کہ آپ ہمارے لئے دعائیں کیجئے جب وہ ایسا کریں گے تو یقینا اللہ ان کی طرف رجوع کرے گا انہیں بخش دے گا اور ۔۔۔۔۔۔الخ

جواب کا انتظار رہے گا۔ ان شاء اللہ۔
جزاک اللہ خیراً
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

جی بالکل! اس آیت کریمہ سے زندہ بزرگوں کے پاس جاکر خود بھی اپنے لئے دُعا کرنے اور ان سے بھی اپنے لئے دُعا کرانے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔

اور یہ وسیلہ کی تین جائز اقسام میں سے ایک قسم ہے۔

اس کی ایک اور دلیل سورۂ یوسف کی یہ آیت کریمہ بھی ہے:
﴿ قالوا يـٰأَبانَا استَغفِر‌ لَنا ذُنوبَنا إِنّا كُنّا خـٰطِـٔينَ ٩٧ ﴾
انہوں نے کہا ابا جی! آپ ہمارے لئے گناہوں کی بخشش طلب کیجئے بیشک ہم قصور وار ہیں (97)

البتہ اس آیت کریمہ سے مزاروں پر جا کر دُعا کرنا یا فوت شدگان کو دُعا میں وسیلہ بنانا قطعی طور ثابت نہیں ہوتا۔ نہ کسی صحابی نے اس آیت کریمہ سے یہ سمجھا ہے، نہ اس پر عمل کیا ہے۔ بلکہ ان کا متفق علیہ عمل اس کے بالکل مخالف ہے کہ صحابہ کرام﷢ نے کبھی بھی نبی کریمﷺ کے فوت ہونے کے بعد انہیں وسیلہ نہیں بنایا۔ سیدنا عمرؓ کی استسقاء والی حدیث اس پر صریح شاہد ہے۔
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

جی بالکل! اس آیت کریمہ سے زندہ بزرگوں کے پاس جاکر خود بھی اپنے لئے دُعا کرنے اور ان سے بھی اپنے لئے دُعا کرانے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔

اور یہ وسیلہ کی تین جائز اقسام میں سے ایک قسم ہے۔

اس کی ایک اور دلیل سورۂ یوسف کی یہ آیت کریمہ بھی ہے:
﴿ قالوا يـٰأَبانَا استَغفِر‌ لَنا ذُنوبَنا إِنّا كُنّا خـٰطِـٔينَ ٩٧ ﴾
انہوں نے کہا ابا جی! آپ ہمارے لئے گناہوں کی بخشش طلب کیجئے بیشک ہم قصور وار ہیں (97)

البتہ اس آیت کریمہ سے مزاروں پر جا کر دُعا کرنا یا فوت شدگان کو دُعا میں وسیلہ بنانا قطعی طور ثابت نہیں ہوتا۔ نہ کسی صحابی نے اس آیت کریمہ سے یہ سمجھا ہے، نہ اس پر عمل کیا ہے۔ بلکہ ان کا متفق علیہ عمل اس کے بالکل مخالف ہے کہ صحابہ کرام﷢ نے کبھی بھی نبی کریمﷺ کے فوت ہونے کے بعد انہیں وسیلہ نہیں بنایا۔ سیدنا عمرؓ کی استسقاء والی حدیث اس پر صریح شاہد ہے۔
بالکل بجا فرمایا انس نضر صاحب نے بلکہ اس سلسلے میں ایک مشہور روایت ہے کہ حضرت عمر کے دور خلافت میں بارش کی ضرورت تھی تو صحابہؓ دعا کے لئے حضرت عباس ؓ رسول اللہﷺ کے چچا کو لے کر آئے تھے۔
چنانچہ وہ مرقد مبارک پر نہیں گئے۔ اور دوسری وہی بات کہ کوئی نیک شخصیت بقید حیات ہو تو وہ دوسروں کے لئے دعا کر سکتی ہے ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
بالکل بجا فرمایا انس نضر صاحب نے بلکہ اس سلسلے میں ایک مشہور روایت ہے کہ حضرت عمر کے دور خلافت میں بارش کی ضرورت تھی تو صحابہؓ دعا کے لئے حضرت عباس ؓ رسول اللہﷺ کے چچا کو لے کر آئے تھے۔
چنانچہ وہ مرقد مبارک پر نہیں گئے۔ اور دوسری وہی بات کہ کوئی نیک شخصیت بقید حیات ہو تو وہ دوسروں کے لئے دعا کر سکتی ہے ۔
جزاکم اللہ خیرا!
سیدنا عمرؓ کی استسقاء والی روایت سے میرا اشارہ اسی مشہور حدیث کی طرف تھا۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
جزاکم اللہ خیرا انس بھائی اور کیلانی بھائی
انس بھائی! آپ نے بہت اچھا کیااس موضوع پر لکھ کر، یہاں ہماری ایک گفتگو چل رہی ہے، مخالف کا کہنا ہے کہ زندہ شخص کا وسیلہ دے کر اللہ سے دعا کی جا سکتی ہے، یعنی فلاں زندہ شخص کے صدقے یا فلاں زندہ شخص کے طفیل۔۔۔ اور وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اِسی روایت کو دلیل بنا کر پیش کر رہا ہے،اور ساتھ میں ایک اور روایت بھی پیش کی ہے جس میں ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کے توسل سے بارش مانگنے کا ذکر ہے، اور اسی کو یہاں صدقے اور طفیل کی دلیل بنایا جا رہا ہے۔۔۔ اس پر بھی تھوڑی روشنی ڈالیں۔
 
Top