* سگِ(کتا)مدینہ کہنے پر ہونے والے اعتراضات کاتحقیقی جائزہ*
تحریر ............. ابو طلحہ سندھی
--------------------------------------------------------------
بعض اھل محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے شھر مدینہ منورہ سے محبت کی بناء پر اپنے کو سگ مدینہ یا اپنے بزرگوں سے محبت کی وجہ سے اپنے کو انکا سگ(کتا) کہتے ہیں تو اس پر کچھ کم فھم لوگوں کی طرف سے خاص طور پر سوشل میڈیا پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے،مغلظات بکی جاتی ہیں حتیٰ کہ انکو مسلمان اور انسانیت سے بھی خارج کر دیا جاتا ہے اور مختلف قسم کے بے تکے اعتراضات کئے جاتے ہیں مثلاً
1=انسان اشرف المخلوقات ہے اور یہ اپنے کو اس سے خارج کر رہے ہیں
2=یہ اللہ کی نعمت اشرف المخلوقات کی ناشکری ہے
3=اگر ایسا کہنا درست ہوتا تو صحابہ کرام نے اپنے کو سگ کیوں نہیں کہا
4=کتا حرام اور نجس جانور ہے لھٰذا اپنے کو سگ یعنی کتا کہنا جہالت ہے
سب سے پہلے یہ ذھن نشین کر لیجئے کہ مختلف جانور مختلف خصلتوں میں مشھور ہیں
مثلاً شیر شجاعت یعنی بھادری میں،گیدڑ بزدلی میں ،لومبڑی چالاکی میں،کچھوہ سست رفتاری میں،چیتا اور گھوڑا تیز رفتاری میں،گرخوش زیادہ سونے میں،گینڈا سستی میں
اور انہیں خصلتوں کی وجہ سے جس بندے میں ان جانوروں کی مذکورہ خصلت پائی جاتی ہے تو عرف عام میں استعارۃً ان جانوروں کے نام سے انکو موسوم کیا جاتا ہے
مثلاً دلیر آدمی کو شیر ،بزدل کو گیدڑ ،چالاک کو لومڑ، تیز رفتار کو چیتا یا گھوڑا،زیادہ سونے والے کو خواب خرگوش کے مزے لینے والا اور ساتھ کھانے اور پھر دھوکا دینے والے کو آستین کا سانپ وغیرہ کہا جاتا ہے
پھر ان میں سے بعض بطور گالی اور بعض بطور تعریف بولے جاتے ہیں
مثلاً بھادر آدمی کو شیر بطور تعریف اور بزدل کو گیدڑ بطور گالی کہا جاتا ہے ان سب کا دارومدار عرف پر ہے
اسی طرح سگ یعنی کتے میں جہاں بری خصلتیں پائی جاتی ہیں وہیں ایک عمدہ خصلت وفاداری بھی پائی جاتی ہے کہ یہ اپنے مالک کا وفادار ھوتا ھے اور اسکی وفاداری کی مثال تو قرآن پاک میں اصحاب کھف کے واقعے کے ضمن میں بھی بیان کی گئی ہے لھٰذا اگر کوئی شخص وفاداری کی خصلت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے آپکو سگ مدینہ کہتا ہے تو اس پر اعتراض کرنا بے جا ھے کیونکہ یہاں مقصود صرف وفاداری ہےنہ کہ ذات کتا یا اسکا حیوان ہونا
بلکہ وصف وفاداری میں مشابہت کی بناء پر استعارۃً ایسا کہا جاتا ہے اور کوئی بھی اھل علم ان استعارات کا انکار نہیں کرسکتا اس طرح کے اعتراضات علم دین،استعارات اور عرف عام کے محاوروں سےناواقفیت یا پھر مسلکی تعصب کی وجہ سے کئے جاتے ہیں آج تک اسکے عدم جواز پرکسی مستند مفتی کا فتوٰی نظر سے نہیں گذرا بلکہ تمام مسالک کے اکابرین نے اپنے لئے سگ(کتے) کا لفظ استعمال کیا ہے ان میں سے چند مثالیں حوالوں کے ساتھ ان شاء اللہ آگے بیان کرونگا لیکن پہلے مذکورہ بالا اعتراضات کے جوابات
پہلے اعتراض کا جواب= اپنے کو سگ کہنے سے کوئی اشرف المخلوقات سے خارج نہیں ہو جاتا اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کافروں اور نافرمانوں کے متعلق فرمایا اولٰئك كالانعام بل هم اضل یعنی وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گمراھی میں بڑھکر
اس آیت میں ان نافرمانوں کو انکی نافرمانیوں کی وجہ سے جانور بلکہ ان سے بھی بدتر فرمایا گیا تو کیا وہ انسانیت اور اشرف المخلوقات ہونے سے خارج ہو گئے؟
اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کا لقب اسد اللہ یعنی اللہ کا شیر مشھور ہے اور ساری دنیا کے مسلمان انکو اسداللہ کہتے ہیں حالانکہ شیر بھی حرام اور نجس جانور ہے تو کیا معاذاللہ وہ اشرف المخلوقات سے نکل گئے؟
ہرگز نہیں کیونکہ ہر انسان جانتا ہے کہ انکو اللہ کا شیر شیر کے ساتھ وصف حیوانیت کی وجہ سے نہیں بلکہ وصف بھادری میں مشابھت کی وجہ سے کہا جاتا ہے
اسی طرح سگ کا معاملہ بھی ہے کہ وھاں بھی وصف وفاداری کی بناء پر کہا جاتا ہے
یہاں پر ایک اعتراض یہ بھی کیاجاتا ہے کہ اگر ھم کسی کو شیر کہتے ہیں تو اسکو شیر کا بیٹا کہ کر بھی بلایا جاسکتا ہے کہ "اوئے شیر کے پتر"
اگر کتا کہنا درست ہے تو کیا ھم اسکو کتے کا پتر کہ سکتے ہیں؟
اگر دیکھا جائے تو یہ اعتراض بھی بلکل بے تکا اور عجیب سا ہے کیونکہ ان تمام تشبیھات کے استعمال کا سارا دارومدار عرف پر ھے جس لفظ کا جیسا عرف ہے اسکو اسی طرح استعمال کیا جائے گا اسکے برعکس کرینگے تو غلط ہوگا کسی کو شیر یا شیر کا بیٹا کہنے کا عرف ہےجبکہ کتے میں اس طرح کا عرف نہیں ہے بلکہ لفظ کتا وفاداری کے معنی میں اضافت کے ساتھ مثلاً مدینے کا کتا کہ کر ہی مستعمل ہے جبکہ بغیر اضافت کے کسی کو خالی کتا کہنا یا کتے کا پتر کہنا عرف عام میں گالی شمار کیا جاتا ھے
لھٰذا اسکو استعمال کرنے میں عرف کا اعتبار کیا جائے گا جہاں اسکا عرف نہیں ھوگا وہاں اسکو استعمال نہیں کرسکتے جیسے کسی کو شیر کا باپ کہنے کا عرف نہیں ھے تو کسی بھادر آدمی کو شیر یا شیر کا بیٹا تو کہا جاتا ھے لیکن شیر کا باپ نہیں کہا جاتا
دوسرے اعتراض کا جواب= یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناشکری بھی نہیں ھے اگر ایسا ہوتا تو صحابہ کرام علیھم الرضوان جو ھم سب سے زیادہ اشرف المخلوقات اور عظمت انسانی کے مفھوم کو سمجھنے والے ہیں وہ اپنے لئے درخت ،پتھر اور پرندہ وغیرہ ہونے کی تمنا نہ کرتے
جی ہاں! بہت سارے صحابہ کرام علیھم الرضوان سے اس طرح کی آرزوئیں کرنا ثابت ہیں اختصار کے پیش نظر صرف چند مثالیں پیش کرتا ہوں
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خوف خدا کے غلبہ کے سبب ایک بار ایک پرندے کو دیکھ کر فرمایا اے پرندے!تو خوش بخت ہے وللہ کاش! میں بھی تیری طرح پرندہ ہوتا درخت پر بیٹھتا پھل کھاتا پھر اڑ جاتا(اور مجھ سے تیری طرح حساب وکتاب نہ ھوتا) پھر فرمایا کاش! میں انسان نہ ہوتا
(مصنف ابن ابی شیبہ جلد 8 ص 144)
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے ایک بار فرمایا یٰلیتنی کنت شجرۃ تعضد یعنی ھائے کاش! میں درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا (مشکاۃ المصابیح حدیث# 5347)
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے عاجزی اور خوف خدا کے غلبہ کی وجہ سے ایک بار فرمایا! کاش میں دنبہ ہوتا کاش! میں انسان نہ ہوتا (حلیۃ الاولیاء جلد 1 ص88 حدیث#136)
اب اعتراض کرنے والے ان جلیل القدر صحابہ کے بارے میں کیا کہینگے؟
کیا معاذاللہ انہوں نے بھی اللہ تعالی کی نعمت اشرف المخلوقات کی ناشکری کی؟
تیسرے اعتراض کا جواب= ایسے تو بہت سارے ایسے القابات ہیں جو ھم اپنے علماء کیلئے بطور تعظیم استعمال کرتے ہیں مثلاً علامہ مولانا، شیخ الحدیث ،شیخ التفسیر، فقیہ العصر، قاطع بدعت، وغیرہ وغیرہ حالانکہ صحابہ میں سے کسی نے یہ الفاظ استعمال نہیں کئے تو کیا ھم کہ سکتے ہیں کہ اگر یہ القابات اچھے ہوتے تو صحابہ کرام نے استعمال کیوں نہیں کئے؟
اسکا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ان چیزوں کا اس دور میں عرف نہیں تھا بلکل اسی طرح سگ کہنے کا بھی عرف نہیں تھا بلکہ آج بھی عرب میں اپنے کو سگ کہنے کا عرف نہیں ھے اسکا عرف فارسی اور اردو زبان بولنے والوں میں ھے
اور کسی استعارے یا محاورے کا عربی زبان میں مستعمل نہ ھونا اسکے عدم جواز کی ھرگز دلیل نہیں بن سکتا
مثلاً عربی زبان میں ماں باپ کو اف کہنا وہاں کے عرف کے مطابق تکلیف کا سبب بنتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ماں باپ کو اف کہنے سے منع فرمادیا
چناچہ فرمایا
ولا تقل لھما اف یعنی والدین کو اف تک نہ کہو
لیکن فقھاء کرام نے اس بات کی صراحت فرمائی ھے کہ اگر کسی زبان میں اف کہنا تکلیف کا سبب نہ بنتا ھو بلکہ یہ لفظ تعظیمًا بولا جاتا ہو تو وہاں ماں باپ کو اف کہناحرام نہیں ھوگا
اس سے بھی معلوم ہوا کہ کسی لفظ کا ایک زبان میں کسی معنی کیلئے مستعمل نہ ہونا اسکے عدم جواز کی دلیل نہیں ھے
چوتھے اعتراض کا جواب ضمناً پیچھے گذر چکا
لفظ سگ( کتا) تقریباً تمام ہی مکاتب فکر کے اکابرین نے وفاداری کے معنی میں اپنے لئے استعمال کیا ھے لھٰذا معترضین کو اعتراض کرنے سے پہلے سوچنا چاھئے کہ انکے اپنے اکابرین بھی ان کے اعتراض اور تنقید کی ضد میں آرھے ہیں
اختصار کے طور پر صرف چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں
سنی بریلوی مکتب فکر کے علماءِ کرام تو اسکا استعمال کرتے ہی ہیں دیگر مکاتب فکر کے اکابرین کے مثالیں پیش خدمت ہیں
چناچہ دارالعلوم دیوبند کے بانی مولانا قاسم نانوتوی اپنے ایک قصیدے میں کہتے ہیں
امیدیں لاکھ ہیں لیکن بڑی امید ہے یہ،
کہ ھو سگانِ مدینہ(مدینے کے کتوں میں )میں میرا نام شمار،
جیئوں تو ساتھ سگان حرم کے تیرے پھروں،
مروں تو کھائیں مدینے کے مجھ کو مور و غار. (قصائد قاسمی ص8)
اس قصیدہ میں مولانا قاسم نانوتوی مدینے کے کتوں میں اپنے کو شمار اور انکے ساتھ جینے کی تمنا کر رھے ہیں
اسی طرح مولانا اشرف علی تھانوی ایک جگہ لکھتے ہیں
میں حلف اٹھا سکتا ہوں کہ میں کتوں اور سوروں سے کم تر ہوں
(اشرف السوانح حصہ سوئم اور چہارم)
اھل حدیث کے مشھور عالم پروفیسر ساجد میر کے دادا اور سابق امیر جمیعت اھل حدیث مولانا محمد ابراھیم میر سیالکوٹی اپنی کتاب سراجاً منیرًا ص# 102پر مولانا جامی کا تذکرہ کرتے ہوئے انکا ایک شعر لکھا جس میں انہوں نے اپنے لئے لفظ سگ استعمال کیا اس شعر کےلکھنے کے بعد اپنے بارے میں کھتے ہیں "میں اس نسبت سے بھی کمتر نسبت والا ہوں" یعنی کتے کی نسبت سے بھی کمتر ولا ہوں
اسی طرح اسی مسلک ایک عالم مولوی عبدالسلام مبارکپوری اپنی کتاب "سیرت البخاری" کے صفحہ 25 پر اپنے لئے لفظ سگ کا استعمال کیا ھے
لھٰذا کسی پر اعتراض کرنے سے پہلے سوچنا چاھئیے کہ میرا اعتراض کرنا درست بھی ھے یا نہیں!
پہلے اسکی پوری تحقیق ھونی چاھئیے صرف سنی سنائی باتوں پر کسی جائز کام کو غلط کہنا اور اسکے کرنے پر گالی گلوچ کرنا قطعًا درست نہیں ھے بلکہ یہ بہت بڑی جہالت ہے اور اسلام اسکی ھرگز اجازت نہیں دیتا.