محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,799
- پوائنٹ
- 1,069
دیوبندی حکیم الامت ان کی سوانح عمری ( تذکرۃ الرشید : 121 ،ط: بلالی پریس سادھوڑہ ) میں لکھتے ہیں :السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم! یہیں سے اہلَ حدیث کی کم علمی اور کم فہمی کا پتہ چلتا ہے!!!!!!
جناب حنفی اسی لئے کہلاتے ہیں کہ وہ فقہی اجتہادی مسائل میں ابو حنیفہ کی تقلید کرتے ہیں اُن کو اِن مسائل میں صواب پر جان کر۔ یا تو آپ اس بات کو سمجھے نہیں یا پھر خواہ مخواہ دھوکہ دینا چاہتے ہو جیسا کہ موجودہ اہلِ حدیث کا شعار ہے۔
محترم آپ نے لکھا ہے ’’اہل الحدیث ہر مسئلہ میں براہ راست ۔۔یا ۔۔بذریعہ عالم‘‘ جناب کتنے ہیں جو براہِ راست قرآن و حدیث میں مسائل دیکھ کر اہلِ حدیث ہوئے ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
جتنے بھی مقلد، غیر مقلد ہوئے ہیں ان کی کار گزاریاں سن لیں یا پڑھ لیں پتہ چل جائے گا کہ یہ قرآن اور حدیث پڑھ کر ایسے ہوئے یا کسی اورطرح سے !!!!!
دوسرے یہ کہ وہ جو بذریعہ عالم مسئلہ پوچھتا ہے اس کو کیوں کر پتہ چلے گا کہ اس کے ساتھ دھوکہ ہو رہا ہے۔ وہ بے چارہ تو قرآن اور حدیث سے نابلد ہوتا ہے اسی لئے تو اس کو پوچھنے کی ضرورت پیش آئی۔
بہت سے اندھوں کی تقلید چھوڑ کر صرف ایک بینا کی انگلی پکڑ لیں کامیاب ہوجاؤ گے وگرنہ کیا ہوگا وہی جو اس تصویر میں ہے
والسلام
مقلدین عوام بلکہ خواص اس قدر جامد ہوتے ہیں کہ اگر قول مجتہد ( یعنی اپنے مذہب کے امام کے خلاف کوئی آیت یا حدیث کان میں پڑتی ہے تو ان کے قلب میں انشراح و انبساط نہیں رہتا بے چین ہو جاتے ہیں ) بلکہ اول استنکا قلب میں پیدا ہوتا ہے پھر تاویل کی فکر ہوتی ہے خواہ کتنی ہی بعید ہو خواہ کتنی ہی دلیل قوی اس کے معارض ہو بلکہ مجتہد کی دلیل اس مسلہ میں بجز قیاس کچھ نہ ہو بلکہ خود اپنے دل میں بھی اس تاویل کی وقعت نہ ہو مگر نصرت مذہب کے لیے تاویل ضروری سمجھتے ہیں یہ دل نہیں مانتا کہ قول مجتہد ( اپنے مذہب ) کو چھوڑ کر صحیح حدیث پر عمل کرلیں ۔
تقلید کی شرعی حیثیت
تالیف: جلال الدین قاسمی