السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
احناف کے نزدیک جھینگے مکروہ ہیں جبکہ علمائے سلف انہیں مچھلی کی قسم پر محمول کرتے ہوئے حلال قرار دیتے ہیں۔جھینگے کے حلال ہونے کے بارے میں تفصیلی جواب چاہیے۔جزاکم اللہ خیرا
@اسحاق سلفی
@محمد عامر یونس
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اولاً :
معروف دینی سوال وجواب کی سائیٹ (الاسلام سوال و جواب ) کا ایک فتوی ملاحظہ فرمائیں :
پانی میں رہنے والے جانور انڈے دینے والے ہوں یا بچے دینے والے سب حلال ہیں۔
سوال: میں یہ جانتا ہوں کہ تمام پانی کے جانور حلال ہیں، لیکن ایک شخص کا کہنا ہے کہ "حوت" [وہیل یا ویل مچھلی] کھانا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ بچے دیتی ہے، دیگر مچھلیوں کی طرح انڈے نہیں دیتی، اپنے اس دعوے کیلئے اس نے دلیل یہ دی کہ جیسے دریائی بچھڑا [Seal]، کچھوا، اور سمندری ہاتھی ۔۔۔ الخ کو کھانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ یہ بھی بچے دیتے ہیں، انڈے نہیں دیتے۔
تو کیا یہ بات ٹھیک ہے کہ ان جانوروں کو کھانا جائز نہیں ہے؟ اور کیا اس بارے میں قرآن مجید یا صحیح احادیث میں کچھ بیان ہوا ہے؟
ایک اور بات یہ ہے کہ ہم سمندری مخلوقات میں حلال اور حرام میں فرق کیسے کریں گے؟ مثلا : شارک سمندر میں رہتی ہے، اس اعتبار سے یہ حلال ہے، لیکن یہ مچھلی خونخوار اور درندہ صفت بھی ہے، اس اعتبار سے اس جانور کو کھانا حرام ہوگا، کیونکہ خونخوار ، درندہ صفت جانوروں کو کھانا جائز نہیں ہے، مجھے تفصیل کیساتھ آگاہ کردیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
جواب :
الحمد للہ:
اول:
پہلے یہ بات گزر چکی ہے کہ جو جانور صرف پانی ہی میں رہتے ہیں، انہیں زندہ مردہ، ہر حالت میں کھانا حلال ہے، کیونکہ فرمانِ الہی عام ہے:
( أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ ) تمہارے لئے سمندر کا شکار اوراسکا کھانا حلال قرار دیا گیا ہے[المائدة: 96]
اور ابو داود (83) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمندر کے بارے میں فرمایا: (سمندر [کا پانی] پاک کرنیوالا ہے، اور اسکا مردار حلال ہے) البانی نے "صحیح ابو داود " میں اسے صحیح کہا ہے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ:
"سمندر کے ایسے جانور جو فطرتاً پانی ہی میں رہتے ہیں، اصولی طور پر حلال ہیں"انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (22 /313)
چنانچہ سمندری جانوروں کے بارے میں قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ کوئی بھی جانور جو پانی کے بغیر نہیں رہتا، اسے کھانا حرام نہیں ہے۔
جبکہ برمائی جانور[جو خشکی اور پانی دونوں جگہ رہنے کی صلاحیت رکھتے ہوں] وہ سب کے سب حلال نہیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوم:
"حوت" [وہیل یا ویل مچھلی] کھانا حلال ہے، کیونکہ یہ بھی مچھلی کی ہی ایک قسم ہے۔
چنانچہ لسان العرب (2/26)میں ہے کہ:
"حوت مچھلی کو کہتے ہیں، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بہت بڑی مچھلی کو حوت کہتے ہیں"انتہی
سنن ابن ماجہ: (3218) میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ہمارے لئے دو مردار حلال کر دئیے گئے ہیں: مچھلی اور ٹڈی)اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے "صحیح ابن ماجہ " میں صحیح کہا ہے۔
اور یہ بات پہلے ہی گزر چکی ہے کہ سمندر کے تمام [پانی والے]جانور حلال ہیں۔
اور صحیح بخاری : (4362) اور مسلم: (1935) میں ہے کہ
سیدناجابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ہم نے "جیش الخبط" کیلئے تیاری کی، اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو ہمارا امیر مقرر کیا گیا، ہمیں اس دوران شدید بھوک کا سامنا کرنا پڑا، تو سمندر نے بہت بڑی مچھلی کنارے لگا دی، ہم نے اتنی بڑی مچھلی کبھی نہیں دیکھی تھی، اسے "عنبر" کہا جاتا تھا، ہم نے آدھا مہینہ اسکا گوشت کھایا، اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اسکا ایک کانٹا پکڑ کر [کھڑا کروایا] تو ایک سوار آدمی اسکے نیچے سے گزر گیا، [راوی کہتا ہے کہ ]مجھے ابو زبیر نے کہا: میں نے جابر رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ ابو عبیدہ نے ہمیں کہا: "مچھلی کو کھاؤ" جب ہم مدینہ آئے تو ہم نے یہ سارا ماجرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بیان کیا، تو آپ نے فرمایا: (اسے کھاؤ، یہ اللہ کی طرف سے تمہارئے لئے رزق ہے، اور اگر اس میں سے کچھ بچا ہوا ہو تو ہمیں بھی کھلاؤ) تو صحابہ کرام نے اپنے پاس بچا ہوا گوشت پیش کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تناول فرمایا۔
مچھلی کے انڈے یا بچے دینے کا شرعی حکم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، اور نہ ہی اس سے شرعی حکم متاثر ہوگا، کیونکہ شریعت میں ایسی کوئی قید نہیں ہے کہ پانی کا جو بھی جانور بچے جنے اور انڈے نہ دے اسے کھانا حرام ہے، بلکہ شرعی دلائل کا عموم مطلق طور پر انہیں کھانے کی اجازت دیتا ہے، اور یہ دلائل سے واضح ہے، اس میں کسی قسم کا اشکال نہیں ہے۔
سوم:
شارک مچھلی بھی مندرجہ بالا دلائل کی وجہ سے حلال ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام فرمان ہے کہ: (تمہارے لئے دو مردار، اور دو خون حلال قراد دئیے گئے ہیں، مردار سے مچھلی ، اور ٹڈی مراد ہے، جبکہ خون سے جگر اور تلی مراد ہیں)ابن ماجہ: (3314) البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
اس مچھلی کے خونخوار ہونے کی وجہ سے یہ حرام نہیں ہوگی، کیونکہ کچلی والے جانوروں کی حرمت خشکی کے جانوروں کیلئے مختص ہے، چنانچہ پانی کے جانوروں پر یہ حکم لاگو نہیں ہوگا۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بات درست نہیں ہے کہ جو کچھ خشکی میں حرام ہے اسی طرح کا جانور سمندر میں ہو تو وہ بھی حرام ہوگا، کیونکہ سمندر کے احکامات بالکل الگ ہیں، حتی کہ کچھ ایسے جانور بھی ہیں جو کہ کچلی والے اور چیر پھاڑ کرنے والے ہیں، مثلا: شارک مچھلی۔۔۔، خلاصہ کلام یہ ہے کہ کہ کچھ چیزیں سمندر میں ایسی ہیں جو قتل کی حد تک خونخوار ہیں، لیکن اسکے باوجود وہ حلال ہیں"انتہی مختصراً
"الشرح الممتع" (15 /34)
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"شارک مچھلی حلال ہے یا حرام؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"مچھلی کی تمام اقسام حلال ہیں، حتی کہ شارک وغیرہ سب حلال ہیں، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان عام ہے: ( أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ ) تمہارے لئے سمندر کا شکار اوراسکا کھانا حلال قرار دیا گیا ہے[المائدة: 96] اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (سمندر [کا پانی] پاک کرنیوالا ہے، اور اسکا مردار حلال ہے)"انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (22 /320)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دارالعلوم دیوبند کا فتوی درج ذیل ہے
سوال # 1705
کیا کیکڑا ور جھینگا کھانا حلال ہے؟ براہ کرم ، قرآن کے حوالے سے جواب دیں۔ (۲) اگر الکوحل کو شوگر اسکریپ (گنے کے رس کا فضلہ) سے بنا یا جائے تو کیا اس الکوحل کو پر فیوم میں استعمال کرنا حلال ہے؟
Published on: Nov 3, 2007 جواب # 1705
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 619/ م= 614/ م
(۱) دریائی جانوروں میں صرف مچھلی حلال ہے اور کیکڑا مچھلی میں داخل نہیں، لہٰذا کیکڑا حلال نہیں، در مختار میں ہے: فلا یجوز اتفاقًا کحیات وضبّ و ما في بحرٍ کسرطان إلا السمک۔ جھینگے کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ مچھلی ہے یا نہیں؟ جن حضرات کے نزدیک اس کا مچھلی ہونا محقق ہے وہ جائز کہتے ہیں۔ اور جن کے نزدیک مچھلی کی تعریف اس پر صادق نہیں آتی وہ اسے ناجائز کہتے ہیں، بہرحال یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے کسی جانب تشدد اختیار کرنا ٹھیک نہیں، اورجھینگا کھانے سے اجتناب کرنا زیادہ مناسب اور احوط ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن جامعہ اشرفیہ لاہور کا فتوی مندرج ذیل ہے
سوال :
سمندری جانوروں میں سے کون کون سے جانور حلال ہیں اور کون سے حرام ہیں نیز جھینگے کا کیا حکم ہے؟
ــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب:
سمندری جانوروں میں سے صرف مچھلی حلال ہے اس کے سوا تمام جانور حرام ہیں جھینگا کو بھی چونکہ عرف میں مچھلی ہی کہا جاتا ہے اس لیے یہ حلال ہے۔ (ردالمحتار ۵/۲۰۶، ۳۱۶)"
http://ashrafulfatawa.com/bookdetail.php?bid=1&t=12&ln=ur&type=c&ct=2&qid=408
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جامعہ بنوریہ سے بھی اس کے حلال ہونے کا فتوی دیا گیا ہے
دیکھئے :(
http://www.banuri.edu.pk/readquestion/jheengay-ka-hukum/-0001-11-30 )
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور مشہور عربی سائیٹ اسلام ویب پر بھی اس کی حلت کا فتوی صادر کیا ہے
حكم أكل الجمبري
رقم الفتوى: 78187
السؤال
أريد أن أعرف مدى مشروعية أكل الجمبري لأني قد سمعت أن أكل الجمبري مكروه؟ جزاكم الله خيراً.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الإجابــة
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:
فإن جميع ما يخرج من البحر يعتبر مباح الأكل عند جمهور أهل العلم، لقول الله عز وجل: أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ... {المائدة:96}، وقول النبي صلى الله عليه وسلم في البحر: هو الطهور ماؤه الحل ميتته. رواه أصحاب السنن.
وقال مالك في المدونة: يوكل كل ما في البحر الطافي وغير الطافي من صيد البحر كله...
ولذلك فأكل الجمبري يعتبر مباحاً لأنه داخل في عموم النصوص المذكورة، وللمزيد من الفائدة نرجو أن تطلع على الفتوى رقم: 5215، والفتوى رقم: 46453.
والله أعلم.
اور اوپر ابن قدامہ بھائی نے علامہ رفیق طاہر حفظہ اللہ کا فتوی نقل کیا ہے ،
انہوں سورہ المائدہ آیت (۹۶ ) کا حوالہ دے کر جھینگے کی حلت بیان کی ہے ،اس آیت کا ترجمہ و تفسیر پیش خدمت ہے :
ترجمہ :
’’ تمہارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کیا گیا ہے۔ تم بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہو اور قافلہ والے زاد راہ بھی بنا سکتے ہیں۔ ‘‘
اس کی تفسیر علامہ عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ہر طرح کا سمندری جانور حلال ہے :۔
اس آیت کی رو سے تمام سمندری جانور حلال ہیں۔ البتہ مینڈک اور مگر مچھ یا اسی قبیل کا کوئی اور جانور جو پانی اور خشکی دونوں جگہ زندہ رہ سکتا ہو ان کی حلت میں اختلاف ہے۔ مزید یہ کہ ان سمندری جانوروں کو ذبح کرنے کی بھی ضرورت پیش نہیں آتی۔ کیونکہ وہ پانی سے جدا ہوتے ہی مر جاتے ہیں اور اگر چند لمحے زندہ بھی رہیں تو بھی انہیں ذبح کرنے کی ضرورت نہیں جیسے مچھلی خواہ وہ زندہ ہو یا مر چکی ہو ہر حال میں حلال ہے۔ اور اگر زندہ مچھلی کو پانی سے نکال لیا جائے تو وہ چند ساعت بعد خودبخود مر جاتی ہے۔
[١٤٤] سمندری وہیل مچھلی اور غزوہ سیف البحر :۔ سیدنا جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ ''رسول اللہ نے (٨ ھ میں) سمندر کے کنارے ایک لشکر بھیجا اور سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح ص کو اس کا سردار مقرر کیا۔ یہ تین سو آدمی تھے اور میں بھی ان میں شامل تھا۔ راستہ میں ہمارا زاد راہ ختم ہوگیا۔ ابو عبیدہ نے حکم دیا کہ سب لوگ اپنا اپنا توشہ لا کر اکٹھا کریں۔ ایسا کیا گیا تو کل زاد راہ کھجور کے دو تھیلے جمع ہوئے۔ ابو عبیدہ ان میں سے ہم کو تھوڑا تھوڑا دیا کرتے۔ حتیٰ کہ وہ بھی ختم ہونے کو آئے تو فی کس ایک کھجور یومیہ دینے لگے۔ وہب کہتے ہیں کہ میں نے (رض) سے پوچھا کہ ایک کھجور سے تمہارا کیا بنتا ہوگا۔ انہوں نے کہا جب وہ بھی نہ رہی تب ہمیں معلوم ہوا کہ وہ ایک کھجور بھی غنیمت تھی۔ پھر جب ہم سمندر پر پہنچے تو دیکھا کہ پہاڑ کی طرح ایک بہت بڑی مچھلی پڑی ہے۔ لشکر کے لوگ اٹھارہ دن تک اسی میں سے کھاتے رہے۔ پھر ابو عبیدہ نے حکم دیا۔ اس کی دو پسلیاں کھڑی کی گئیں تو اونٹ ان کے نیچے سے نکل گیا اور پسلیوں کی بلندی تک نہ پہنچا۔'' (بخاری۔ باب الشرکۃ فی الطعام وغیرہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور حافظ عبد السلام بھٹوی لکھتے ہیں :
اُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ۔۔ :
” الْبَحْرِ“ سے مراد پانی ہے، اس میں سمندر اور غیر سمندر سب پانی برابر ہیں اور اس میں وہ تمام جانور شامل ہیں جو پانی سے باہر زندہ نہیں رہ سکتے، وہ مچھلی ہو یا کوئی اور جانور۔ زندہ بھی پکڑے جائیں تو ذبح کی ضرورت ہی نہیں۔ قرآن و حدیث میں پانی کے شکار کو حلال کہا گیا ہے اور کسی صحیح حدیث میں یہ نہیں کہ مچھلی کے سوا سب حرام ہیں۔ ” صَيْدُ الْبَحْرِ“ سے مراد پانی کا ہر وہ جانور ہے جو زندہ پکڑا جائے اور ” طَعَام“ سے مراد پانی کا وہ جانور ہے جو وہیں مر جائے اور سمندر یا دریا اسے باہر پھینک دے، یا مر کر پانی کے اوپر آ جائے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی یہ تفسیر آئی ہے۔ ابن جریر (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان نقل کیا ہے : ( طَعَامُہُ مَا لَفِظَہُ الْبَحْرُ مَیْتًا) یعنی اس آیت میں ” طَعَام“ سے مراد وہ جانور ہے جسے سمندر مردہ حالت میں کنارے پر پھینک دے۔ ” ہدایۃ المستنیر“ کے مصنف نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ ابن جریر نے بہت سے صحابہ سے یہی معنی نقل فرمایا ہے۔ بعض لوگوں نے صرف مچھلی کو حلال اور پانی کے دوسرے تمام جانوروں کو حرام کہہ دیا ہے اور وہ بھی صرف وہ جو زندہ پکڑی جائے، اگر مر کر پانی کے اوپر آجائے تو اسے حرام کہتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں درست نہیں، کیونکہ وہ اس آیت کے خلاف ہیں۔
صحابہ کرام (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سمندر کے پانی کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا :
( ھُوَ الطَّھُوْرُ مَاؤُہُ، الْحِلُّ مَیْتَتُہُ) ” سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے۔“ [ الموطأ، الطہارۃ، باب الطھور للوضوء : ١٢۔ أبوداوٗد : ٨٣۔ ترمذی : ٦٩، صححہ الألبانی ] اسی طرح کچھ صحابہ کرام (رض) کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جنگی مہم پر بھیجا، ان کے پاس کھانے کی چیزیں ختم ہوگئیں تو انھوں نے ٹیلے جیسی ایک بہت بڑی مچھلی دیکھی، جسے سمندر کا پانی کنارے پر چھوڑ کر ہٹ چکا تھا۔ ابو عبیدہ (رض) امیر تھے، انھوں نے اسے کھانے کی اجازت دے دی، ایک ماہ تک تین سو آدمی اسے کھاتے رہے اور خشک کر کے ساتھ بھی لے آئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تمھارے پاس اس کا کچھ گوشت ہے تو ہمیں بھی دو۔“ چنانچہ صحابہ نے کچھ گوشت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بھیجا تو آپ نے تناول فرمایا۔ [ مسلم، الصید والذبائح،
باب إباحۃ میتات البحر : ١٩٣٥ ]