• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے مزاج میں شدت تھی ؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
تلاش کرنے پر مجھے یہ عبارت امام ذہبی کی طرف منسوب ضمیمہ ’’ذیل تاریخ الاسلام ‘‘ میں ملی، اس ذمیمہ کا دوسرا نام ’’ذيل سير النبلاء‘‘ بھی بتلایا گیا ہے ، الفاظ ملاحظہ ہوں:

وكان قوَّالاً بالحق، نهاءً عن المنكر، لا تأخذه في الله لومة لائم، ذا سطوة وإقدام، وعدم مداراة الأغيار. ومن خالطه وعرفه؛ قد ينسبني إلى التقصير في وصفه، ومن نابذه وخالفه؛ ينسبني إلى التعالي فيه، وليس الأمر كذلك. مع أنني لا أعتقد فيه العصمة، كلا! فإنه مع سعة علمه، وفرط شجاعته، وسيلان ذهنه، وتعظيمه لحرمات الدين، بشرٌ من البشر، تعتريه حدة في البحث، وغضب وشظف للخصم؛ يزرع له عداوة في النفوس، ونفوراً عنه. وإلا؛ فلو لاطف الخصوم، ورفق بهم، ولزم المجاملة وحسن المكالمة؛ لكان كلمه إجماعاً؛ فإن كبارهم وأئمتهم خاضعون لعلومه وفقهه، معترفون بشفوفه وذكائه، مقرون بندور أخطائه.[ذیل تاریخ الاسلام ص: ٣٢٦]

اس کتاب کے ناسخ عبد القادر بن عبد الوهاب بن عبد المؤمن القرشي ہیں،ان کی پیدائش ٨٣٧ھ ہے اورامام ذہبی رحمہ اللہ کی وفات ٧٤٨ھ میں ہوئی ہے، لہذا ظاہر ہے کہ ناسخ کو سند پیش کرنی ہوگی ، اورناسخ نے اپنی سند بیان کرتے ہوئے کہا ہے :
بسم الله الرحمن الرحيم، اللهم صل على أشرف خلقك سيدنا محمد وآله وسلم، أخبرني غير واحد مشافهة وكتابة، عن الإمام الحافظ الكبير شمس الدين أبي عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز رحمة الله تعالى عليه؛ قال: هذا مجلد ملحق " تاريخ الإسلام " شبه الذيل عليه۔

یہ سند کئی لحاظ سے محل نظر ہے :
اولا:
یہ غیر واحد کون ہیں ان کا کوئی تذکرہ نہیں ہے، لہذا اس ضمیمہ کی نسبت امام ذہبی رحمہ اللہ کی طرف محل نظر ہے۔
ثانیا:
٢: ناسخ کے مجہول شیوخ اسے امام ذہبی سے نقل کرتے ہیں اور ناسخ کے شیوخ کو امام ذہبی کی معاصرت حاصل نہیں ہے لہذا ناسخ کے شیوخ اور امام ذہبی کے مابین انقطاع ہے اور اس بات کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ ناسخ کے شیوخ نے وجادۃ روایت کیا ہے۔
ثانیا:
اس کتاب میں ہے :
ابن السباك عالم بغداد، الإمام تاج الدين علي بن سنجر بن السبالك..... توفي رحمه الله تعالى في سنة خمسين وسبعمائة ببغداد، رحمه الله تعالى وإيانا (ذيل تاريخ الإسلام:ص:494-495)
غورکرنے کی بات ہے کہ امام ذہبی خود ٧٤٨ھ میں اس دنیا سے چلے گئے اور اس کتاب میں لکھ رہے ہیں کہ ابن السماک کی وفات ٧٥٠ ھ میں ہوئی !!!
واضح رہے کہ یہ حقیقت ہے کہ ابن السماک کی وفات ٧٥٠ ہجری میں ہوئی ہے ، چنانچہ امام تقی الدین الفاسی فرماتے ہیں:
علي بن سنجر بن السباك البغدادي تاج الدين عالم بغداد الحنفي، وسمع من الرشيد بن ابي القاسم من "صحيح البخاري"۔۔۔۔۔توفي سنة خمسين وسبعمائة
[ذيل التقييد في رواة السنن والأسانيد 2/ 193]

سوال یہ ہے کہ جب ابن السماک کی وفات سے دو سال قبل خود امام ذھبی اس دنیا سے چلے گئے تو پھر انہوں نے اپنی موت کے بعد مرنے والے کی تاریخ وفات کیسے لکھ دی؟؟؟؟
حیرت ہے کہ کتاب کے محقق نے بھی اس بارے میں کوئی حاشیہ آرائی نہیں کی ہے واضح رہے کہ اصل مخطوطہ میں بھی یہی عبارت موجود ہے
معلوم ہوا کہ یہ کتاب امام ذہبی کی ہے ہی نہیں ، اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ذہبی سے مذکورہ قول نقل کرنے میں اسی کتاب کو ماخذ بنا یا ہے جیسا کہ وہ کتاب کے شروع میں ماخذ کی فہرست دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
وتاريخ مصر لشيخ شيوخنا الحافظ قطب الدين الحلبي وذيل سير النبلاء للحافظ شمس الدين الذهبي [الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة 1/ 3]
اشاء اللہ کیازوراستدلال ہے!اللہ کرے ذراکم ہو۔جہاں سے آپ نے یہ سب میرے خیال کے مطابق اخذ کیاہے ۔ ترجمة مقحمة في كتاب: (( ذيل تاريخ الإسلام )) للإمام الذهبي. - ملتقى أهل الحديث
ایک حصہ کا کلام نقل کرلیااوردوسراحصہ جواس سے زیادہ وقیع اورقابل قدر تھا۔اس کو سرے سے نظرانداز کردیا۔
جوعربی جانتے ہیں وہ عبدالرحمن الفقیہ کی اس تحریر کو غورسے پڑھیں اوربطورخاص کفایت اللہ صاحب اگرانہوں نے جلد بازی میں صرف اپنے مفید مطلب عبارت اخذ کرنے کی روش کی طرح صرف پہلامراسلہ پڑھاہو اوردوسرامراسلہ پڑھنے سے رہ گیاہو توپھر دوبارہ غورکرین اورپڑھ لیں۔
۔

پہلے تو یہ بتائیں کہ آپ کو یہ کشف کہاں سے ہوگیا کہ میں نے مذکوہ بات آپ کے دئے گئے لنک سے اخذ کی ہے ؟
آپ کے ذریعہ دئے گئے لنک پر میرے مذکورہ طویل اقتباس میں سے صرف ایک بات ہے ابن السباک کی تاریخ وفات والی ، اس کے علاوہ بقیہ باتیں تو یہاں موجود نہیں ۔
اور یہ ایک بات صرف ملتقی کے اسی لنک پر نہیں ہیں نیٹ متعدد صفحات پر موجود ہیں مثلا یہ لنک ملاحظہ ہو:
ترجمة مقحمة في كتاب: (( ذيل تاريخ الإسلام )) للإمام الذهبي.

اوریہاں عبدالرحمن کے مراسلہ کا نام ونشان نہیں ہے پھر آن جناب نے پورے وثوق سے کیسے کہہ دیا کہ میں نے عبدالرحمن الفقیہ کے مراسلے کو نظرانداز کردیا ؟؟؟
نیز کیا اس دوسرے مراسلہ کا تعلق میرے اشکالات سے ہے ؟؟؟ اس دوسرے مراسلہ کا موضوع ہی الگ ہے اور اس میں اس کے نام پر بحث ہے نہ کہ اس نسخہ کی صحت سے۔

ابن السباک کے تذکرہ کو ذیل تاریخ الاسلام کومشتبہ بنانے کیلئے بطور دلیل کافی نہیں ہے۔ حافظ ذہبی نے ابن کثیر،ابن قیم ،اوراپنے کئی دیگر معاصرین کا ذکر کیاہے۔ اس میں توکوئی شک نہیں ہے ابن السباک حافظ ذہبی کے معاصر تھے۔ معاصر کے طورپر انہوں نے ابن السماک کا تذکرہ کیاہو ،بعد میں کسی نے حاشیہ پر ابن السماک کی وفات کی تاریخ بھی لکھ دی ہو اورکتابت کے وقت یاابھی طباعت کے وقت غلطی سے وہ مضمون میں شامل ہوگیاہو۔ایسی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں۔
۔

ایسی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن ان غلطیوں کا ثبوت چاہیے ، ہم نے جس غلطی کی نشاندہی کی ہے وہ اصل متن میں نہ کہ حاشیہ پر ؟ کتاب کے محقق نے اس مقام پر کوئی حاشیہ آرائی نہیں کی ہے، لہٰذا یہ کسی اور کی غلطی ہے اس کا ثبوت چاہئے، نیز جب اس طرح کی خلاف واقعہ بات اصل متن میں درج ہے تو اس بات کی کیا گیارنٹی ہے شیخ الاسلام کے ترجمہ میں اس طرح کی بے بنیاد باتوں کا اضافہ نہ کیا گیا ہو؟؟؟

نیز ہم نے اس نسخہ کی سند پر جو اعتراض کیا ہے موصوف نے اس کا کوئی جواب نہ دیا !!
ناسخ مجہول لوگوں سے یہ نسخہ نقل کررہا ہے ، ان مجہول لوگوں کا تعارف کون پیش کرے گا!!!

واضح رہے کہ ہمیں اس بات سے انکار نہیں ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے یہ کتاب بھی لکھی ہے لیکن ہمارے پیش نظر جو نسخہ ہے وہ مصدقہ نہیں ہے ، لہٰذا اس کی شاذ عبارتوں سے استدلال درست نہیں ہے۔


اس کی سب سے واضح مثال یہ ہے کہ جب میزان الاعتدال حیدرآباد دکن سے چھپی تھی تواس وقت کتاب کے محقق نے یہ صراحت کی تھی کہ مجھے میزان الاعتدال کے نسخوں میں امام ابوحنیفہ کاذکر نہیں ملا ایک نسخہ میں اصل کتاب سے باہر حاشیہ میں لکھاہے
۔

جمشید صاحب !
آپ صریح جھوٹ بول کر لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ ’’ایک نسخہ میں اصل کتاب سے باہر حاشیہ میں لکھاہے‘‘۔ محقق نے ایسی کوئی صراحت نہیں کی تھی بلکہ اس کی صراحت یہ تھی کہ:

’’ لما لم تکن هذه الترجمة في نسخة وکانت في أخري أوردتها علي الحاشية‘‘ (بحوالہ تحقیق الکلام : ص ١٤٤)۔

یعنی چونکہ یہ ترجمہ ایک نسخہ میں نہیں تھا اور دوسرے نسخہ میں تھا اس لئے میں نے اسے حاشیہ پر رکھ دیا ہے۔
غورکریں محقق نے جمشید صاحب کی طرح یہ نہیں کہا ہے کہ یہ ترجمہ دوسرے نسخہ کے حاشیہ پر تھا بلکہ محقق نے یہ کہا ہے کہ یہ ترجمہ دوسرے نسخہ میں تھا لیکن اس محقق نے ہی اسے حاشیہ پر ڈال دیا۔
اوریہ احناف کی کوئی نئی حرکت نہیں ہے بلکہ یہی تو ان کا عام طور سے معمول ہے کہ جس عبارت کو اصل کتاب سے غائب کرنا ہوتا ہے سب سے پہلے اسے متن سے نکال کرحاشہ پر لاتے ہیں اور پھر ایک دو طباعت کے بعد اسے حاشیہ سے بھی غائب کردیتے ہیں ۔

چنانچہ حیدرآباد دکن سے شائع ہونے والے میزان الاعتدال میں حاشیہ پر ہی امام ابوحنیفہ کاتذکرہ لکھاگیا۔جب یہی کتاب کاپی کرکے مصر سے شائع ہوئی تواس کے محققین نے بغیرکسی وضاحت کے امام ابوحنیفہ کے تذکرہ کو نفس کتاب میں شامل کردیا۔
۔
مصر سے شائع ہونے والے نسخہ کے محققین نے ایک نیک کام کیا ہے اس پر ثواب عظیم کی امید ہے ، کیونکہ پہلے یہ ترجمہ اصل متن میں تھا متعصب احناف نے اسے حاشیہ پر ڈال کے اس ترجمہ کے ساتھ ظلم کیا ہے ، اور پھر اللہ نے کسی کو یہ سعادت بخشی کی وہ اس ترجمہ کو اس کے اصل جگہ پر واپس لائے ، جزاہ اللہ خیرا والحمدللہ۔

میزان الاعتدال کے تعلق سے مزید معلومات کیلئے اسے پڑھئے۔
میزان الاعتدال میں امام ابوحنیفہ کا تذ کرہ - URDU MAJLIS FORUM
یاپھر یہ پڑھئے۔
میزان الاعتدال میں امام ابوحنیفہ کا تذکرہ
۔

مذکورہ لنک پرجواب بھی دیا جاچکا ہے ، نیز آپ بھی یہ لنک ملاحظہ فرمائیں:

حقائق حول طبعة الرسالة العالمية لـ " ميزان الاعتدال "

جاری ہے ۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
’’يثبج الحديث‘‘ اور’’يضع الحديث ‘‘


کبھی کبھی کی بات کا اعتبار نہیں کیاجاتا اس کیلئے ثبوت پیش کرنا پڑتاہے کہ ایساہواہے ۔صرف امکانیات کے دائرہ میں گردش کرتے ہوئے ہرچیز کو امکان کے خراد پر چڑھادینے سے مسئلہ بہت سنگین ہوسکتاہے ۔کبھی بھی توکتب جرح وتعدیل میں ایسابھی ہواہے کہ کسی امام نے کچھ بات کہی اوروہ نقل ہوتے ہوتے کچھ سے کچھ بن گئی توکیااس بناء پر پورے کتب جرح وتعدیل کے دفتر کو ہی ہم امکانیات کے خراد مشین پر چڑھادیں۔
یہی تو ہم کہنا چاہتے ہیں کہ نقل کرنے میں کبھی کبھی کچھ سے کچھ ہوجاتا ہے بلکہ کبھی تو کسی اور پر کی گئی جرح کسی اور پر نقل ہوجاتی ہے جیساکہ تہذیب وغیرہ میں امام بخاری ہی کے حوالہ سے مؤمل بن اسماعیل پر ’’منکرالحدیث ‘‘ کی جرح منقول ہے لیکن جب امام بخاری کی اصل کتاب کی طرف مراجعت کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ جرح مؤمل بن اسماعیل سے متصل مذکور دوسرے راوی پر ہے۔
لہٰذا جب کسی شخصیت کے تعلق سے شاذ اور منکر قول نقل ہوتا ہوا نظر آئے تو اصل مرجع سے اس کی تحقیق ضروری ہے ۔
البتہ کوئی مشہور معروف بات منقول ہو تو وہاں یہ شبہ نہیں پیدا ہوتا ، اس فرق کو ملحوظ رکھیں۔

بطور مثال ایک نمونہ لیں۔ معمر بن راشد نے اسماعیل بن شروس الصنعانی کے بارے میں کہا کان یثبج الحدیث یعنی وہ حدیث کوٹھیک طورسے ادانہیں کرتاتھا۔ ابن عدی کے یہاں وہ تحریف ہوکر بن گیاکان یضع الحدیث،اس کو حافظ ذہبی نے میزان میں اسی طورپر نقل کیاکان یضع الحدیث پھر اس کو مغنی اوردیوان الضعفاء میں لکھا کذاب،اوربعد والوں نے اسی کواختیار کیا۔
غالبا یہ نمونہ آنجناب نے کوثری پارٹی سے لیا ہے ، مشہورکذاب زاہدکوثری کے شاگرخاص ابوغدہ ہیں اورابوغدہ کے رشتہ دار عوامہ ہیں ، اورتحریف کرنا اورمغالطہ دینا ان تینوں کا مشترکہ مشغلہ رہا ہے، اورزاہدکوثری تو پکا کذاب ہے ۔
بہرحال عوامہ نے کاشف کی تحقیق میں یہ نمونہ پیش کیا ہے کہ ’’يثبج الحديث‘‘ تحریف ہوکر ’’یضع الحديث‘‘ بن گیا ہے ۔
لیکن یہ نمونہ بھی عوامہ صاحب کی دریافت نہیں ہے بلکہ عوامہ سے بھی قبل شیخ ’’عبدالله بن يوسف الجديع ‘‘ نے ’’الأسماء والكنى للإمام أحمد بن حنبل‘‘کی تحقیق میں مذکورہ رائے پیش کی ہے۔

اوربعدمیں عوامہ سمیت بہت سارے لوگوں نے اپنی اپنی تحریروں میں یہ تحقیق پیش کرنا شروع کردیا۔

بہرحال ہمیں یہ نمونہ بے بنیاد لگتا ہے اوراصل بات یہ ہے کہ امام ابن عدی رحمہ اللہ کی روایت بالمعنی ہے اس کے دلائل درج ذیل ہیں:

اولا:
میرے مطالعہ کی حدتک متقدمین میں سے کسی ایک نے بھی ابن عدی کی روایت کی تغلیط نہیں کی ہے حالانکہ روایات کا اختلاف ان کے سامنے تھا، گویا کہ باتفاق متقدمین ابن عدی کی روایت تحریف سے پاک ہے ، لہٰذا متقدمین کے بالمقابل معاصرین کی تشریحات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

علامہ البانی رحمہ اللہ مذکورہ راوی کو کذاب تسلیم کرکے اس کی ایک روایت کو اسی راوی کی وجہ سے موضوع قرار دیتے ہوئے بجاطورپرفرماتےہیں:
قلت: وهذا مع إرساله موضوع، ولوائح الصنع والوضع عليه ظاهرة ؛ آفته إسماعيل بن أبي سعيد هذا - وهو: ( إسماعيل بن شروس الصنعاني ) -: بيض له ابن أبي حاتم، وأما البخاري ؛ فقال في " التاريخ " ( 1/ 1/ 359 ):" قال عبد الرزاق عن معمر: كان يثبّج الحديث ".وعلق عليه الشيخ عبد الرحمن اليماني رحمه الله بقوله:" هكذا في الأصلين، وبهامش ( كو ): أي: لا يأتي به على الوجه.أقول: وفي " الميزان " و" لسانه " عن ابن عدي حكاية هذه الكلمة عن البخاري بلفظ: " يضع "، فلزم من ذلك ما لزم. والله المستعان ".قلت: كأنه رحمه الله يشير إلى عدم اطمئنانه لتفسير الكلمة بالوضع، وقد يكون له وجه من الناحية العربية، ولكن نحن المتأخرين لا يسعنا إلا أن نقبل تفسير المتقدمين لأعلميتهم، ما لم يكن هناك ما يدل على خطئهم، فكيف إذا كانهناك من رواه بلفظ الوضع ؟! فقد روى ابن عدي في " الكامل " ( 1/ 320 ) عن البخاري قال:"" قال عبد إلرزاق: قال معمر: كان يضع الحديث ". ولعل الأقرب إلى هذا المعنى: ما رواه ابن عدي بسنده عن أحمد: حدثنا عبد الرزاق قال: قلت لمعمر:ما لك لم تكثر عن ابن شروس ؟ قال:" كان ينتج الحديث ".فإنه بمعنى الوضع - كما هو ظاهر -.ويبدو أن الحافظ الذهبي الذي ذكر في " الميزان " رواية عبد الرزاق المتقدمة عن معمرقال:" كان يضع الحديث ". مع هذا ؛ فكأنه رواه بالمعنى حين قال في ترجمة إسماعيل هذا في "المغني ":"كذاب. قاله معمر ".كما يبدو أن ابن حبان لم يتبين له هذا الجرح البالغ، أو أنه لم يبلغه ؛ فذكره في كتابه " الثقات" ( 3/ 31 ) برواية معمر عنه! وكذلك فعل ابن شاهين ؛ فذكره في "تاريخ أسماء الثقات"، وقال ( 51/ 10 ):" ثقة من أهل اليمن ".[سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة 14/ 314]

ثانیا:
امام ذھبی رحمہ اللہ نے میزان میں ’’يثبج الحديث‘‘ اور’’يضع الحديث ‘‘ دونوں روایتوں کو ایک ساتھ نقل کیا ہے ملاحظہ ہو:
وقال ابن عدى: قال البخاري: قال معمر: كان يضع الحديث.
وقال عبد الرزاق: قلت لمعمر: مالك لم تكتب عن ابن شروس ؟ قال: كان يثبج الحديث.
[ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 234]۔

غورفرمائیں کہ امام ذھبی رحمہ اللہ نے دونوں طرح کے الفاظ کو یکجا نقل کیا ہے اس سے دوباتیں صاف ہوگئیں:

اول :
کامل میں جو ’’یضع الحدیث‘‘ ہے یہ روایت بالمعنی ہے اس میں کوئی تحریف واقع نہیں ہوئی ہے، خود عوامہ صاحب لکھتے ہیں:
أما التحريف الاول فليس مطبعيا، بل اللفظ المطبوع - " كان يضع الحديث " - هو اللفظ الذي كتبه ابن عدي بدليل نقل الذهبي له في " الميزان " ، وهذا لفظه:
" قال ابن عدي: قال البخاري: قال معمر: كان يضع الحديث.
وقال عبد الرزاق: قلت لمعمر: ما لك لم ترو عن ابن شروس ؟ قال: كان يثبج الحديث ".
[الكاشف للذهبي:(مقدمۃ التحقیق) 1/ 163]۔

دوم:
امام ذھبی رحمہ اللہ کی نگاہ میں دونوں روایتیں الگ الگ الفاظ میں اچھی طرح واضح تھیں، مگر اس کے باوجود بھی امام ذہبی رحمہ اللہ نے تحریف کا شوشہ نہیں چھوڑا بلکہ ابن عدی کی روایت کو روایت بالمعنی سمجھا اورخود بھی نقل بالمعنی کرتے ہیں اپنی بعض کتابوں میں ’’کذاب‘‘ کے ساتھ مذکورہ جرح نقل کی ہے۔
مثلا مغنی میں کہا:
كذاب قاله معمر [المغني في الضعفاء للذهبي ص: 39]۔

اوردیوان میں کہا:
’’كذاب‘‘ [دیوان الضعفاء للذهبي ص: 34 رقم 412]۔

ثالثا:
امام سبط ابن العجمي الحلبي رحمه الله (المتوفى:841)نے کہا:
إسماعيل بن شروس الصنعاني أبو المقدام روى عبد الرزاق عن معمر قال كان يثبج الحديث وقال بن عدي قال خ قال معمر كان يضع الحديث وقال عبد الرزاق قلت لمعمر لم لم تكتب عن بن شروس قال كان يثبج الحديث [الكشف الحثيث ص: 70]۔

اس سےبھی مذکورہ دونوں باتیں ثابت ہوئی یعنی اول تو ابن عدی کی روایت محرف نہیں اوردوم علامہ حلبی رحمہ اللہ نے دونوں روایت ایک ساتھ ذکرکی ہے گویا کہ ان کی نظر میں بھی ’’یضع الحدیث‘‘ روایت بالمعنی ہے۔

رابعا:
حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی لسان میں ’’یضع الحدیث‘‘ ہی نقل کیا ہے اورظاہر ہے کہ وہ میزان سمیت امام بخاری اورامام ابن عدی دونوں کی کتابوں پرمطلع تھے، لیکن آپ نے بھی تحریف کی کوئی بات نہیں کہی ہے۔

خامسا:
امام ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى:597) نے کہا:
إسماعيل بن شروس أبو المقدام الصنعاني يروي عن عكرمة قال معمر كان يضع الحديث لأهل صنعاء [الضعفاء والمتروكين لابن الجوزي 1/ 114]۔
امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے یہاں صراحت نہیں کی ہے کہ انہوں نے اس قول کے لئے صرف ابن عدی ہی کی روایت کو پیش نظر رکھاہے ، بلکہ مذکورہ ائمہ فن کی طرح ان کے سامنے بھی تمام روایتین تھی مگرانہوں نے الفاظ کی تبدیلی کوروایت بالمعنی قرار دیا ہے نہ کہ تحریف۔

سادسا:
امام ابن العراق الكناني رحمه الله (المتوفى:963)نے کہا:
إِسْمَاعِيل بن شروس الصَّنْعَانِيّ عَن عِكْرِمَة، قَالَ معمر كَانَ يضع الحَدِيث [تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة 1/ 39]
امام ابن الجوزی رحمہ اللہ ہی کی طرح امام امام ابن العراق رحمہ اللہ نے بھی یہاں صراحت نہیں کی ہے کہ انہوں نے اس قول کے لئے صرف ابن عدی ہی کی روایت کو پیش نظر رکھاہے ، بلکہ مذکورہ ائمہ فن کی طرح ان کے سامنے بھی تمام روایتین تھی مگرانہوں نے الفاظ کی تبدیلی کوروایت بالمعنی قرار دیا ہے نہ کہ تحریف۔

امام ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى:507) نے کہا:
رَوَاهُ إِسْمَاعِيل بن شروس أَبُو الْمِقْدَام الصَّنْعَانِيّ: عَن عِكْرِمَة، عَن عَبَّاس. وَإِسْمَاعِيل هَذَا قَالَ معمر: كَانَ يضع الحَدِيث[ذخيرة الحفاظ لابن القيسراني: 2/ 1232]

سابعا:
امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى:365)نے کہا:
سمعت بن حماد يقول قال البخاري إسماعيل بن شروس أبو المقدام الصنعاني يروي عن يعلى بن أمية قال عبد الرزاق قال معمر كان يضع الحديث [الكامل في الضعفاء 1/ 320]۔
غورکریں امام ابن عدی رحمہ اللہ نے یہ روایت اپنی سند سے بیان کی ہے گویا کہ یہ ایک دوسری روایت ہے ، اوریہ مسلم ہے کہ کسی راویت کی بہترتشریح وہ ہوتی ہے جودوسری روایت سے ہوجائے، لہذا ابن عدی کی روایت کو بخاری کی روایت کی تشریح سمجھنا چاہئے نہ کہ تحریف۔

ثامنا:
امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى:365)نے کہا:
حدثنا إسحاق بن إبراهيم بن يونس حدثنا أبو بكر الأثرم حدثنا احمد بن حنبل حدثنا عبد الرزاق قال قلت لمعمر ما لك لم تكثر عن بن شروس قال كان ينتج الحديث[الكامل في الضعفاء 1/ 320]۔

اس روایت میں غورکریں اس کی سندمیں امام بخاری رحمہ اللہ موجود ہی نہیں بلکہ یہ دوسرے طریق سے ہیں اوراس میں ’’ ينتج الحديث ‘‘ جو ’’یضع الحدیث‘‘ ہی کے معنی میں ہے یہ بھی اس بات کی دلیل ہے مذکورہ روایت میں کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے بلکہ وہ روایت بالمعنی ہے۔


اسی لئے متعدد محققین نے یہ صراحت کی ہے کہ’’يثبج الحديث‘‘کی جرح سے کنایۃ ’’يضع الحديث‘‘ بھی مراد لیا گیاہے۔دیکھیں: ضوابط الجرح والتعديل ص: 107 اور شرح ألفاظ التجريح النادرة أو قليلة الاستعمال ص 81.

مزید یہ بات بھی قابل غورہے یہ مذکورہ راوی کی بیان کردہ بعض روایت کا موضوع ہونا ان کے الفاظ ہی سے ظاہر ہے ، جیساکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے درج بالا اقتباس میں کہاہے:
قلت: وهذا مع إرساله موضوع، ولوائح الصنع والوضع عليه ظاهرة ؛ آفته إسماعيل بن أبي سعيد هذا - وهو: ( إسماعيل بن شروس الصنعاني )



لطیفہ

اس کو حافظ ذہبی نے میزان میں اسی طورپر نقل کیاکان یضع الحدیث پھر اس کو مغنی اوردیوان الضعفاء میں لکھا کذاب،اوربعد والوں نے اسی کواختیار کیا۔
قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ اس عبارت میں جمشیدصاحب نےکمال تحقیق کرتے ہوئے دیوان الضعفاء کو امام ذہبی کی کتاب بتلایا ہے مگر یہ تحقیق پیش کرنے کے بعد جب موصوف کو یہ بتلایا گیا کہ اسی دیوان الضعفاء میں ابوحنیفہ کی تضعیف بھی ہے تو آنجناب نے یک قلم اس کتاب ہی کا انکار کردیا، اب اس کو کیا کہا جائے قارئین خود فیصلہ کریں۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
اس کو حافظ ذہبی نے میزان میں اسی طورپر نقل کیاکان یضع الحدیث پھر اس کو مغنی اوردیوان الضعفاء میں لکھا کذاب،اوربعد والوں نے اسی کواختیار کیا۔
یہ کہنا کہ ’’امام ذہبی رحمہ اللہ نے ایسانقل کیا پھربعد والوں نے اسی کواختیار کیا‘‘ کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے ۔
اس لئے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ(مولود 673 متوفى:748) کی پیدائش سے قبل ہی کئی ناقدین نے اسی کو اختیارکیا ہے مثلا:

امام ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى:507) نے کہا:
رَوَاهُ إِسْمَاعِيل بن شروس أَبُو الْمِقْدَام الصَّنْعَانِيّ: عَن عِكْرِمَة، عَن عَبَّاس. وَإِسْمَاعِيل هَذَا قَالَ معمر: كَانَ يضع الحَدِيث[ذخيرة الحفاظ لابن القيسراني: 2/ 1232]

امام ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى:597) نے کہا:
إسماعيل بن شروس أبو المقدام الصنعاني يروي عن عكرمة قال معمر كان يضع الحديث لأهل صنعاء [الضعفاء والمتروكين لابن الجوزي 1/ 114]۔

کیایہ مثال ہمارے لئے نمونہ بنتی ہے کہ ہم پورے طورپر میزان الاعتدال پر ہی اعتبار کرناچھوڑدیں۔
۔
میزان میں جو اقوال بے سند ہیں وہ جب تک باسند نہ مل جائیں ان پر تو بالکل بھروسہ نہیں کیا جائے گا ، یہ بات تو مسلم ہے کہ بے سند باتیں حجت نہیں ہوا کرتی ہے ۔


صاحبان عقل کاوطیرہ یہ ہوتاہے کہ وہ ہرچیز کے بارے میں معتدل رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ابن السباک کے تنہامثال کو ذیل تاریخ الاسلام کو مشبہ بنانے کیلئے بہت بھونڈی کوشش اورتحقیق سے لاعلمی کاثبوت ہے۔
ابن سباک کی تنہا مثال کو کس نے بنیاد بنا یا ہے ہماری اصل بنیاد ناسخ سے لیکر صاحب کتاب تک صحیح سندکا نہ ہونا ہے ، اورابن سباک والی بات ہم نے مزید تائید کے طور پیش کی ہے کہ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ موجودہ نسخہ مصدقہ نہیں ہے۔
اگر آپ ذیل کا کوئی ایسا مخطوطہ پیش کردیں جس میں ناسخ سے لیکر صاحب کتاب تک سند بالکل صحیح ہو اور اس میں بھی ایسی کوئی منکر بات موجود ہو تو ہم نسخہ کی صحت کو مان لیں گے ابن سباک جیسی منکر باتوں پر الحاق کا حکم لگائیں گے۔
محض ابن سباک والی بات کو لیکر اس پورے نسخہ کو مشتبہ کوئی نہیں بتا رہا ہے ، اس نسخہ کے غیر مستند ہونے کی اصل وجہ اس کی سند کی کمزوری ہے۔


یہ بھی آنجناب نے مزید ثبوت دیئے ہیں اپنی علمی اورتحقیقی کاموں سے لاعلمی کی۔ کسی عبارت کو ثابت کرنے کا یہ طریقہ کار نہیں ہوتا جوآنجناب نے اختیار کیاہے۔
حافظ ابن حجر کا زمانہ حافظ ذہبی سے بہت قریب ہے اوریہ بھی معلوم بات ہے کہ وہ بہت اورمتقین حافظ ہیں۔ ذیل تاریخ الاسلام کی عبارت سے حافظ ابن حجر کی عبارت صحیح کرنے کے بجائے حافظ ابن حجر کی عبارت سے ذیل تاریخ الاسلام کی عبارت درست کرنی چاہئے۔
۔

موجودہ نسخہ کے ناسخ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ہم عصر ہیں ، ممکن ہے حافظ ابن حجررحمہ اللہ اور ناسخ کتاب دونوں کا ماخذ ایک ہی ہو ایسی صورت میں آپ کی منطق بے کار ہے، نیز یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ نسخہ کی تصویب میں ہمیشہ متقدم کے نقل ہی کو ترجیح دی جاتی ہے کبھی کبھی متاخر کے نقل سے بھی متقدم کے نقل کی تصحیح کی جاتی ہے۔

ماشاء اللہ کہاں تو ذیل تاریخ الاسلام حافظ ذہبی کی کتاب ہی نہیں ہے اوران کی جانب نسبت صحیح نہیں ہے اورکہاں ایک حرف اپنے مطلب کا ملا تواسے وحی کی طرح پیش کرنا شروع کردیا۔ علمی مسائل میں موضوعیت یعنی غیرجانبداری بہت ضروری ہے اور "ہم طرفدار ہیں غالب کے ،سخن فہم نہیں"جیسی باتیں آدمی کی ثقاہت کے ساتھ اس کے وقار کو بھی مجروح کرتی ہیں۔
یہ حوالہ بطور الزام پیش کیا گیا تھا معلوم نہیں آپ کہاں کھوگئے !!!

ذیل تاریخ الاسلام ہی میںجب صاف صاف یہ لکھاہواہے کہ دوران بحث ان کی سخت کلامی اورگرم مزاجی کی وجہ سے علماء ان پر نکتہ چینی کرتے تھے پھر اس کو مداراۃ الاغیار سے کیاتعلق باقی رہ گیاہے۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ مداراۃ الاغیار کا شدت سے کوئی تعلق نہیں یہ ایک علیحدہ خوبی ہے، لیکن ہم نے بطور الزام پیش کیا تھا کیونکہ آپ نے شدت کے اثبات میں اپنے بعض مراسلات میں یوں لکھاتا:
حافظ ذہبی نے حدت وشدت کی جانب دوسرے پیرائے میں ایک اورمقام پر اظہار خیال کیاہے ۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
وکان فیہ قلۃ مداراۃ وعدم تودۃ غالباً،ولم یکن من رجال الدول،ولایسلک معھم تلک النوامیس واعان اعداءہ علی نفسہ بدخولہ فی مسائل کبار!لایحتملھا عقول ابناء زماننا ولاعلومھم،کمسالۃ التکفیر فی الحلف بالطلاق،ومسالۃ ان الطلاق بالثلاث لایقع الاواحدۃ وان الطلاق فی الحیض لایقع ،وساس نفسہ سیاسۃ عجیبۃ ،فحبس مرات بمصر ودمشق والاسکندریہ ،وارتفع،وانخفض،واستبدبرای ہ،وعیسی ان یکون ذلک کفارۃ لہ،وکم وقع فی صعب بقوۃ نفسہ وخلصہ اللہ ۔(تتمۃ المختصر من اخبارالبشر 2/406-412،بحوالہ الدرۃ الیتیمۃ فی سیرۃ التیمیہ)
۔

آپ نے آگے لکھا:
ٹھیک ہے وہ اغیار کے ساتھ مدارات نہ کرتے ہو لیکن اب ہمعصر علماء کے ساتھ دوران بحث مدارات میں کیاچیز مانع تھی کیاان کا تعلق اغیار سے تھا؟ ذیل تاریخ الاسلام میں دونوں باتیں لکھی ہیں کہ وہ غصے پر قابوپالیتے تھے اوردوسری جگہ کہ ان کو اثنائے بحث حدت اورتیزمزاجی کاعارضہ تھا۔
میرے خیال میں دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ جب انسان عام لوگوں سے بحث کرتاہے تو وہ اپنے غصے پر کافی قابورکھنے کی کوشش کرتاہے لیکن جب اپنے جیسے لوگوں سے کلام کی نوبت آتی ہے توایک دومرتبہ کی بحث کے بعد عمومااپناکنٹرول کھودیتاہے الاماشاء اللہ۔
۔
یہ آپ کی تطبیق ہے جو تکلف سے خالی نہیں ہے ، متعلقہ عبارتوں میں عام خاص کی بات بالکل نہیں ہے، بالکل ایک جگہ انہیں تیزمزاج بتانے کے ساتھ یہ خوبی بھی بتائی جارہی ہے کہ وہ اس پر قابوپالیتے تھے اور دوسری جگہ اس کے برے نتائج بھی بتلائے جارہے ہیں یہ واضح تضاد ہے ، جو حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے حوالہ سے اس طرح کے نقول کو اور مشکوک بنادیتاہے۔

اس کی ایک تازہ مثال توخود آنجناب ہیں کہ میرے جملے شیخ الاسلام کی تحریروں میں نسبتااعتدال وتوازن کی کمی ہے اس پر اتنے برہم ہوئے اورآپاکھویا کہ سیدھے حضرت امام ابوحنیفہ کے دامن میں پناہ ڈھونڈنے لگے۔ خیر حضرت امام آپ کے کسی کام توآئے۔
۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی پناہ سے اللہ کی پناہ !!!
یہ مظلوم امام آپ کے کام نہیں آئے اور آپ کےنزدیک عقیدہ میں گمراہ اور متروک ہوئے تو ہمارے کیا کام آئیں گے۔

میں نے امام ابوحنیفہ کا تذکرہ کیوں کیا؟؟؟؟؟


قارئیں میں بہت ہی اہم بات کہنے جارہا ہوں پوری توجہ دیں ، جمشیدصاحب کو ابن تیمہ رحمہ اللہ کے حالات میں صرف یہ ملاکہ دوران بحث ان کے مزاج میں حدت آجاتی تھی ۔

قارئین غورکریں کہ محض حدت کی بات ہے اوروہ بھی بہت ہی محدود یعنی ’’دوران بحث‘‘ مطلب عام حالات میں نہیں۔

جمشیدصاحب کو صرف اتنی سی بات ملی اوراس کا حوالہ کہاں دے رہے ہیں؟؟؟؟؟؟؟ شیخ الاسلام کے ایک سنجیدہ فتوی پیش کئے جانےپر جس کا صدور کسی بھی بحث کے دوران قطعا نہیں ہوا۔

جمشیدصاحب کے اس حوالہ کا مقصود بالکل واضح ہے کہ وہ یہ حوالہ دے کرشیخ الاسلام کے فتوی کو بے وقت ثابت کرناچاہتے ہیں۔

اب قارئین انصاف کریں !!!!!
کہ ابن تیمہ کے حالات میں صرف ایک بات اوروہ بھی بہت ہی محدود ملی ، اس کے باوجود بھی جمشید صاحب ابن تیمہ کا فتوی سامنے آنے پر اس کاحوالہ دینا ضروی سمجھتے ہیں ۔

توبتلائیے کہ ابوحنیفہ کے حالات میں ابوحنیفہ سے متعلق تو اس سے کئی گنا بڑی بات اوروہ بھی سیکڑوں اوراس سے بھی زائدحوالوں کے ساتھ ملتی ہیں تو ابوحنیفہ کا کوئی فتوی آنے پر ہمیں کیا کرنا چاہئے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

کیا ہمیں ابوحنیفہ پر کی گئی جروح کا حوالہ نہیں دیناچاہے؟

نیزغورکریں کہ جب جمشید صاحب جیسے لوگ ابن تیمیہ کے خلاف ایک معمولی بات پاگئے اوراسی کو لیکراتنا ہنگامہ کررہے ہیں ، دریں صورت اگر ان کے پاس ابن تیمہ کے خلاف اس طرح کے حوالہ جات ہوتے جو ابوحنیفہ کے خلاف ہمارے پاس ہیں تو یہ کیا کرتے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟



جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
اس کی وضاحت میں ماقبل میں کرچکاہوں کہ نفسیاتی اعتبار سے انسان اپنے سے کمتر یاعوام کے سامنے اپنے غصے پرکنٹرول رکھتاہے لیکن معاصرین کے مقابلے میں یہ برداشت بہت شاذونادر کسی کونصیب ہوتی ہے۔اسی کا نمونہ ہم کتب جرح وتعدیل میں دیکھتے ہیں کہ معاصرمحدثین نے ایک دوسرے پرکس طرح چوٹیں کی ہیں۔ ابن مندہ اورابونعیم اصبہانی کی مثال ہو،احمد بن صالح المصری ااورامام نسائی کی مثال اوراس کے علاوہ دسیوں مثال کتب تاریخ میں موجود ہے۔
ماقبل کی وضاحت پر تبصرہ ہوچکاہے۔
یہاں یہ عرض ہے کہ میں پہلے ہی کہہ چکاہوں کہ جرح وتعدیل میں شدت اورشرعی مسائل کے بیان میں شدت ددنوں میں بڑا فرق ہے ، آپ شدت کا تعلق شیخ الاسلام کے فتاوی سے جوڑ رہے ہیں ، یاد رہے کہ ہم نے شیخ الاسلام کے فتاوی ہی کا اقتباس پیش کیا ہے ۔
اوریہاں مثال جرح و تعدیل میں شدت کی دے رہے ہیں ، کیا اپ بتلائیں گے کہ جرح وتعدیل کے متشددین ائمہ کیا شرعی مسائل کے بیان اور افتاء میں بھی یہی شدت بروئے کار لاتے تھے؟؟؟؟


پھر اگربعد کے تذکرہ نگاروں نے حافظ ذہبی کے ایک کتاب کے جملے نقل کئے اوردوسرے کتاب سے نقل نہیں کیاتواس سے یہ کہاں لازم آیاہے کہ وہ غلط ہے۔غلطی توجب ثابت ہوتی جب کہ بعد کے تذکرہ نگار صراحتاانکار کرتے لیکن کسی بھی تذکرہ نگار سے اس کاانکارثابت نہیں ۔
بعد کے ترجمہ نگاروں کو اگر متنازعہ عبارت ملے گی تب تو انکار کریں گے، ظن غالب ہے کہ ان کے پاس حافظ ذہبی کے کتابوں کے جو نسخے تھے اس میں متنازعہ عبارت تھی ہی نہیں ، یہ بات بھی مذکورہ عبارت کی صحت مزید مشکوک بنا دیتی ہے۔


آپ نے پہلا حوالہ حافظ الوافی بالوفیات کادیاہے دیکھتے ہیں اس میں ہمیں ابن تیمیہ کے حوالہ سے کیاملتاہے۔وہ حضرت ابن تیمیہ کے حافظہ کی تعریف میں اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔
قلت رحمھم اللہ اجمعین ھم الاٰن قد راواعین الیقین ،فیماکانوفیہ یختلفون،وامااظنہ رای مثلہ فی الحافظۃ واری ان مادتہ کانت من کلام ابن حزم حتی شناعہ علی من خالفہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الوافی بالوفیات 7/12)
میرے خیال سے الوافی بالوفیات کی ورق گردانی کرتے وقت اس عبارت سے آنجناب کو ذہول ہوگیاہو خیر کتاب وسنت جیسے بڑے فورم پر اس جیسی چھوٹی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں ۔گزارش ہے کہ آئندہ مالہ وماعلیہ دونوں کا دھیان رکھئے گا۔
اس عبارت میں شیخ الاسلام کے حافظہ کی یقینا تعریف کی گئی ہے رہا ان کا ’’اری ‘‘ والاخیال تو یہ ان کا اپنا خیال ہے جو دلیل سے خالی ہے۔

بلکہ دلیل تو اس کے برعکس ملتی ہے مثلایہ کہ ابن حزم پر کھل رد کرتے ہیں ، چناچہ ایک مقام پر ابن تیمہ رحمہ اللہ ابن حزم پررد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وأعجب من ذلك حكايته الإجماع على كفر من نازع أنه سبحانه " لم يزل وحده، ولا شيء غيره معه، ثم خلق الأشياء كما شاء " (نقد مراتب الإجماع ص: 303)

ابن حزم کی صرف آراء پرہی نہیں بلکہ اکابرین اہل علم سے متعلق ابن حزم رحمہ اللہ کے غیرمناسب اسلوب پر شیخ الاسلام مذمت کرتے ہیں چنانچہ ایک مقام پرفرماتے ہیں:
وَإِنْ كَانَ " أَبُو مُحَمَّدٍ بْنُ حَزْمٍ " فِي مَسَائِلِ الْإِيمَانِ وَالْقَدَرِ أَقْوَمَ مِنْ غَيْرِهِ وَأَعْلَمَ بِالْحَدِيثِ وَأَكْثَرَ تَعْظِيمًا لَهُ وَلِأَهْلِهِ مَنْ غَيْرِهِ لَكِنْ قَدْ خَالَطَ مِنْ أَقْوَالِ الْفَلَاسِفَةِ وَالْمُعْتَزِلَةِ فِي مَسَائِلِ الصِّفَاتِ مَا صَرَفَهُ عَنْ مُوَافَقَةِ أَهْلِ الْحَدِيثِ فِي مَعَانِي مَذْهَبِهِمْ فِي ذَلِكَ فَوَافَقَ هَؤُلَاءِ فِي اللَّفْظِ وَهَؤُلَاءِ فِي الْمَعْنَى. وَبِمِثْلِ هَذَا صَارَ يَذُمُّهُ مَنْ يَذُمُّهُ مِنْ الْفُقَهَاءِ وَالْمُتَكَلِّمِين وَعُلَمَاءِ الْحَدِيثِ بِاتِّبَاعِهِ لِظَاهِرِ لَا بَاطِنَ لَهُ كَمَا نَفَى الْمَعَانِيَ فِي الْأَمْرِ وَالنَّهْيِ وَالِاشْتِقَاقِ وَكَمَا نَفَى خَرْقَ الْعَادَاتِ وَنَحْوَهُ مِنْ عِبَادَاتِ الْقُلُوبِ. مَضْمُومًا إلَى مَا فِي كَلَامِهِ مِنْ الْوَقِيعَةِ فِي الْأَكَابِرِ وَالْإِسْرَافِ فِي نَفْيِ الْمَعَانِي وَدَعْوَى مُتَابَعَةِ الظَّوَاهِرِ. وَإِنْ كَانَ لَهُ مِنْ الْإِيمَانِ وَالدِّينِ وَالْعُلُومِ الْوَاسِعَةِ الْكَثِيرَةِ مَا لَا يَدْفَعُهُ إلَّا مُكَابِرٌ؛ وَيُوجَدُ فِي كُتُبِهِ مِنْ كَثْرَةِ الِاطِّلَاعِ عَلَى الْأَقْوَالِ وَالْمَعْرِفَةِ بِالْأَحْوَالِ؛ (مجموع الفتاوى 4/ 19)

اب ملتقی اہل الحدیث کے ایک رکن درجہ استہشہاد پر فائز ہوگئے تو ہم کیاعرض کرسکتے ہیں ۔گزارش ہے کہ سنجیدہ مباحث میں مضحکہ خیزی نہ کریں اوراس طرح کے اوٹ پٹانگ مثالیں نہ دیاکریں ۔علامہ شبلی نعمانی کی مثال دینے پر توآنجناب برہم ہوگئے اورعلمی معیار کے گراوٹ کا شکوہ لبوں تک آگیا اب یہ بے نام ونشان ملتقی کے رکن کا بصد افتخار حوالہ دے کر غربت علم کابھی شکوہ کرلیتے توبہترتھا۔ آپ کے ملتقی والے صاحب رات دن فرمائیں ۔ہماری بحث پر اس کاکیااثر پڑتاہے۔
ہمارےاختلاف کا تعلق بعض عربی عبارت کے سمجھنے سے بھی ، جس میں آپ کی یہ عادت ہے کہ جو آپ کی مرضی کے موافق مفہوم نہیں لیتا اسے آنجناب عربی زبان نہ جاننے کا طعنہ دیتے ہیں ، اسی پس منظرمیں ایک عربی رکن کا حوالہ دیا گیا ہے، تاکہ کم ازکم عربوں کو تو عربی سے ناوقفیت کا طعنہ نہ دیا جائے، اورمیرامقصود حاصل ہوبھی گیا، یعنی آپ نے اس رکن کوعربی سے ناوقفیت کا طعنہ نہیں دیا ہے بلکہ یہاں دوسرا راستہ اختیار کرتے ہوئے اجتہادی غلطی کا طعنہ دیا ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ آن جناب جس حقیقت کے بھی منکرہوں گے، اس سے انکار کا کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈ لیں گے۔

اوریہ جو بات آنجناب فرمارہے کہ ہم کہتے ہیں اسی کہنے کاتوثبوت درکار ہے۔
ایک عربی عبارت کی وضاحت کی جارہی ہے اب اس میں معلوم نہیں آپ کو کس نوعیت کا ثبوت درکار ہے؟؟؟

پھرآپ نے جوایک فلسفہ چھانٹ رکھاہے کہ کسی بات کا کسی تک سماع ثابت ہوناالگ ہے اوراس بات کا فی نفسہ صحیح ثابت ہوناالگ ہے۔
آپ کو یہ فلسفہ معلوم ہوتا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
محترم ! یہ مسلمہ حقیقت ہے اسے فلسفہ کہنا بجائےخود ایک فلسفہ ہے۔
ایک مثال پر غور کریں فرعون نے ربوبیت کا دعوی کیا اس کا یہ قول ثابت ہے لیکن یہ قول فی نفسہ صحیح نہیں ہے بلکہ کفرہے۔


آپ کے اسی فلسفہ یاقاعدہ پر ہم بھی ایک قاعدہ وضع کرتے ہیں کہ حضرت ابن تیمیہ کے مزاج میں شدت وحدت تھی اوراسی وجہ سے ان کی تحریروں میں توازن اوراعتدال کی کمی جھلکتی ہے اب اس شدت وحدت کا مقصد کیاتھاوہ توہمارابھی حسن ظن ہے کہ للہ فی اللہ ہوگا ہم نے بھی توکہیں نہیں کہاہے کہ وہ اپنی نفسانی خواہشات کیلئے ایساکرتے تھے۔ ہاں اتنی بات ہم ضرور کہتے ہیں کہ ان کے مزاج میں شدت وحدت تھی اوراس کی وجہ سے تحریروں میں نبستا اعتدال وتوازن کی کمی جھلکتی ہے۔
قائدہ سازی مبارک ہو لیکن مشورہ یہ ہے کہ اس قائدہ میں یہ اضافہ بھی کرلیں کہ شدت کی یہ جھلک صرف انہیں تحریروں میں نظر آئے گی جن میں آپ کے موروثی فقہ کے خلاف کوئی بات آجائے ، ورنہ شافعہ ، مالکیہ ، حنابلہ کے خلاف ان کے فتووں میں شدت کی بو سونگنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

انسان کو اگراپنے مطلب کی بات اخذ کرنی ہو تو وہ ایسی ہی کوشش کیاکرتاہے جیسی آپ کررہے ہیں۔ جب یہ صاف صاف لکھاتھاکہ دوران بحث وہ طیش میں آجاتے تھے اوراسی کی وجہ سے بسااوقات ان کی زبان سے ایسے الفاظ نکل جاتے تھے جس کی وجہ سے علماء ان سے ناراض رہاکرتے تھے اگر یہ چیزیعنی حدت اورشدت ان کے اندر نہ ہوتی توان کی ذات پر علماء کا اجماع ہوتا۔ تو اس کو تاویلات کے پردے میں کیوں لپٹیا جارہاہے۔
اس عبارت کی ہم نے تاحال کوئی تاویل نہیں کی ہے، بلکہ سرے سے امام ذہبی رحمہ اللہ کی طرف اس کی نسبت ہی کو ہم نے غیر مستندبتلایا ہے، جس کے ثبوت میں آپ نے کچھ بھی نہیں پیش کیا۔
اور جودوسری عبارتیں ہیں ان میں ایسی کوئی صراحت ہے ہی نہیں۔


امام ابوحنیفہ کے تعلق سے کوئی بات ہو ایمان بالغیب کا مظاہرہ ہوگا اوراب بات چوں کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے تعلق سے ہے تورب ارنی کی صدائے مکرر لگ رہی ہے۔
اول: تو میں پھر یہاں یہ وضاحت کروں گا ، ابن تیمہ کے تعلق معمولی سے معمولی اورمحدودسے محدود تر کوئی منفی بات آپ کو ہاتھ لگے تو امت کو اس سے آگاہ کرنا آپ واجب بلکہ فرض سمجھتے ہیں لیکن امام ابوحنیفہ کے تعلق سے سیکڑوں بلکہ اس سے بھی زائد نمونے سامنے آتے ہیں تو صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ کی عملی تفسیربن جاتے ہیں۔

دوم: شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ پر ہزار شدت کا الزام لگ جائے لیکن پھر بھی اس سے ان کی ثقاہت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ، اور نہ ہی ان کی دینی خدمات سے اہل علم بے نیاز ہوسکتے ہیں ، مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا معاملہ الگ ہے اول تو وہ ضعیف الحدیث تھے جس کے سبب تھوڑی بہت جو احادث ان کو ملیں بھی ، اسے صحیح سے یاد نہ کرسکے ، دوم ، انہوں نے رائے و قیاس ہی کو ترجیح دینے کو اپنا فن بنالیا ، جس کے سبب لوگوں میں بہت سی گمراہیاں پھیلیں ، یقینا ان سب کے پیچھے ان کی نیت مخلصانہ ہی صحیح لیکن امت کو ان کی خدمات سے بہت نقصان پہنچاہے، اس کا احساس خود امام صاحب کوبھی تھا اسی لئے انہوں نے اپنے ان خرافات سے براءت ظاہر کردی۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
ثالثا:
مذکورہ اقتاس میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ صاف لکھتے ہیں:
لا يؤتى من سوء فهم فإن له الذكاء المفرط ولا من قلة علم فإنه بحر زخار ولا كان متلاعبا بالدين ولا ينفرد بمسائله بالتشهي ولا يطلق لسانه بما اتفق بل يحتج بالقرآن والحديث والقياس ويبرهن ويناظر أسوة من تقدمه من الأئمة فله أجر على خطائه وأجران على إصابته
یعنی ابن تیمہ رحمہ اللہ کی کوئی بات سوء فہم یا کم علمی یا دین سے کھلواڑ کرنے یا من مانی یا زبان درازی کی نتیجہ میں نہیں ہوتی تھی بلکہ دلائل کے ساتھ ہوتی تھی اس لئے اگر ان سے کوئی ٍغلط بات بھی ہوگئی ہے تو اس پر بھی انہیں ایک اجر ملے گا ، اورصحیح باتوں پر دو اجر ملے گا۔
ماشاء اللہ دیکھاحافظ ابن حجر کی کتاب میں ایک بات مفید مطلب ملی تواسے اس طرح اخذ کرلیااورجودوسری بات ہے اسے کون نقل کرے گا۔لیجئے آپ کی خاطر اقدس کی خاطر ہم ہی نقل کردیتے ہیں تاکہ عزت مآب کو زیادہ زحمت نہ کرنی پڑے۔
ومن ثم نسب أصحابه إلى الغلو فيه واقتضى له ذلك العجب بنفسه حتى زها على أبناء جنسه واستشعر أنه مجتهد فصار يرد على صغير العلماء وكبيرهم قويهم وحديثهم حتى انتهى إلى عمر فخطأه في شيء فبلغ الشيخ إبراهيم الرقي فأنكر عليه فذهب إليه واعتذر واستغفر وقال في حق علي أخطأ في سبعة عشر شيئا ثم خالف فيها نص الكتاب منها اعتداد المتوفى عنها زوجها أطول الأجلين وكان لتعصبه لمذهب الحنابلة يقع في الأشاعرة حتى أنه سب الغزالي فقام عليه قوم كادوايقتلونه۔۔۔۔۔۔۔۔(1/179)
اورپھر ان کے ساتھیوں نے ان کی ذات مین غلو کیا جس کی وجہ سے ان کے اندر عجب (خود پسندی) پیداہوگئی۔یہاں تک کہ انہوں نے خود کوبھی مجتہد شمار کرناشروع کردیااوراس کی وجہ سے چھوٹے بڑے تمام علماء پر رد کرنے لگے معاملہ یہاں تک پہنچاکہ انہوں نے حضرت عمررضی اللہ کوکسی چیز کے سلسلے میں خطاکار بتایا۔اس کی خبر جب شیخ ابراہیم رقی تک پہنچی توانہوں نے اس پر انکار کیاجس کے بعد حضرت ابن تیمیہ خود ان سے ملے اورمعذرت پیش کی اورانہوں نے اسی طرح حضرت علی رضی اللہ کے حق میں کہاہے کہ انہوں نے سترہ مواقع پر غلطیاں کی ہیں۔اورایک مسئلہ میں توکتاب اللہ کے نص کی مخالفت کی ہے۔اورحنابلہ کے ساتھ تعصب کی وجہ سے وہ اشاعرہ کی مخالفت کرتے تھے۔یہاں تک کہ انہوں نے ایک موقع پر امام غزالی کو برابھلاکہاجس پر لوگ ان کی طرف ایساجھپٹے گویاان کو قتل کردیں گے۔
حافظ ابن حجر کیاکہہ رہے ہیں غورکیاکفایت اللہ صاحب۔اوریہ صرف حافظ ابن حجر ہی کاکہنانہیں ہے بلکہ دیگر افراد نے بھی کہاہے ۔یہ اوربات ہے جوش عقیدت میں یہ تحریریں نظرنہ آتی ہوں۔
میری نقل کردہ عبارت اور آپ کی نقل کردہ عبارت میں بنیادی فرق یہ ہے کہ میری نقل کردہ عبارت میں جوکچھ ہے وہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ کا اپنا تبصرہ ہے جب کہ آپ کی نقل کردہ عبارت میں جو کچھ ہے وہ واقعات کی حکایت ہے جس سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بالکل متفق نہیں کیونکہ ان کا اپنا تبصرہ اس پر شاہد ہے ۔
جناب اگر نقل کردہ حکایت مولف کا موقف ہے یا ہر نقل کردہ بات درست ہے تو کیا خیال ہے امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں بھی بہت کچھ نقل کررکھا ہے کیا وہ سب درست ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
یقینا وہ سب درست نہیں ہے البتہ جو بات مستند ذرائع سے ثابت ہے وہی درست ہے ، اگر آپ سے ہوسکے تو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے تعلق سے مستند باتیں نقل کریں ، ادھر ادھر کی باتوں پر ایمان لائیں گے ، تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اسلام سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔

ذرا زغل العلم کابھی مطالعہ کرلیجئے گا۔اس میں حافظ ذہبی نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کو کیاکچھ کہاہے وہیں مذکور ہے۔اگرآنجناب کااصرار ہواتواس عبارت کو ہم نقل کردیں گے۔
آپ کی یہی مصیب ہے کہ جھوٹی تحریروں سے استدلال کرتے ہیں ، یہ زغل العلم بھی اکاذیب کا مجموعہ ہے جسے باطل طورپر امام ذہبی رحمہ اللہ کی طرف منسوب کردیا گیا ہے۔
اس کتاب کی صحت نسبت کا کوئی ثبوت نہیں اگر ہے تو پیش کریں لیکن ان باتوں کو پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے جسے آپ نے یہاں پیش کیا ہے ، کوئی ٹھوس دلیل ہو لیکرحاضرہوں ۔

اورہاں اسی کتاب میں حافظ ذھبی رحمہ اللہ کی طرف سے احناف کی شان میں جوقصیدے کہے گئے ہیں ذرا اسے بھی کبھی پڑھ لیں :
یہ دیکھیں اسی زغل العلم میں احناف سے متعلق کیا ہے:
الحنفية​
الفقهاء الحنفية أولو التدقيق والرأي والذكاء والخير من مثلهم إن سلمو من التحيل والحيل على الربا وإبطال الزكاة ونقر الصلاة والعمل بالمسائل التي يسمعون النصوص النبوية بخلافها فيا رجل دع ما يريبك إلى مالا يريبك واحتط لدينك ولا يكن همك الحكم بمذهبك فمن اتقى الشبهات فقد استبرأ لدينه وعرضه فإذا عملت بمذهبك في المياه والطهارة والوتر والأضحية فأنت أنت وإن كانت همتك في طلب الفقه الجدال والمراء والإنتصار لمذهبك على كل حال وتحصيل المدارس والعلو فماذا فقها أخرويا بل ذا فقه الدنيا فما ظنك تقول غدا بين يدي الله تعالى تعلمت العلم لوجهك وعلمته فيك فاحذر أن تغلط وتقولها فيقول لك كذبت إنما تعلمت ليقال عالم وقد قيل ثم يؤمر بك مسحوبا إلى النار كما رواه مسلم في الصحيح فلا تعتقد أن مذهبك أفضل المذاهب وأحبها إلى الله تعالى فإنك لا دليل لك على ذلك ولا لمخالفك أيضا بل الأئمة رضي الله عنهم على خير كثير ولهم في صوابهم أجران على كل مسألة وفي خطئهم أجر على كل مسألة
[زغل العلم ص: 35]۔

اس کے برخلاف شوافع کےبارے میں کتنا عمدہ کلام ہیں پڑھیں ، اورعبرت حاصل کریں:
الشافعية​
الفقهاء الشافعية أكيس الناس وأعلم من غيرهم بالدين فأس مذهبهم مبني على اتباع الأحاديث المتصلة وإمامهم من رؤوس أصحاب الحديث ومناقبه جمة فإن حصلت يا فلان مذهبه لتدين الله به وتدفع عن نفسك الجهل فأنت بخير
[زغل العلم ص: 36]

پھر آپ نے غلط لائن پکڑی ہے۔میرا کہناہے کہ نسبتا اعتدال وتوازن کی کمی تھی اورآپ اس کو کہہ رہے ہیں کہ غلط باتیں کہہ دیاکرتے تھے۔کیادونوں جملے ایک ہیں۔ براہ کرم اگر دوباتوں کے درمیان فرق وامتیاز نہیں کرسکتے میری باتیں کوٹ کرکے بیان کریں۔ آپ نے جوطریقہ کار اختیار کیاہے وہ رائی کوپہاڑ بنانے کی مثال ہے۔ میں نے کہاکہ ان کی تحریروں میں نسبتااعتدال وتوازن کی کمی ہے اورآنجناب نے اس کو بنادیا
اگر تشدد کی بات کرکے شیخ الاسلام کی تغلیط مقصود نہیں ہے تو پھر ان کی ایک عبارت پرتبصرہ کرتے ہوئے اس بحث کو چھیڑنے کامقصد ہی کیا ہے ، اس سے زیادہ فضول بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ان کی ایک صحیح بات پر ان کی شدت کا حوالہ دیا جائے ۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
’’حدت‘‘ مگر ’’شدت‘‘ نہیں

(تھانوی علاج)

تاویل ہوتوکفایت اللہ بھائی جیسی۔ حافظ ذہبی کہتے ہیں کہ بحث ومباحثہ کے دوران وہ اتنے طیش میں آجاتے تھے گویاکہ میدان جنگ میں کوئی شیر دہاڑ رہاہے۔اس کو کفایت اللہ صاحب فرماتے ہیں اعلان حق میں سخت ۔کیا بات ہے !یہی بات حافظ ذہبی کو کہنے میں کیامانع تھاکہ وہ اعلان حق میں شیر کی طرح سخت تھے میرے خیال سے اتنی عربی تووہ جانتے ہی تھے اوراس کو عربی میں بیان کرسکتے تھے۔
وہ تو صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ بحث ومباحثہ کے دوران حدت وشدت کے بناء پر ایسے ہوجاتے تھے گویامیدان جنگ میں کوئی شیر دہاڑرہاہے۔لیکن ہمارے کفایت اللہ صاحب کی تاویل کچھ اور ہے ۔
محترم ذرا اس شدت والی پوری عبارت پر غور کریں ، عبارت یہ ہے :
وله حدة قوية تعتريه في البحث حتى كأنه ليث حرب، وهو أكبر من أن ينبه مثلي على نعوته،[الدرة اليتيمية في السيرة التيمية ص: 4]۔
خط کشیدہ الفاظ پردھیان دیں امام ذہبی رحمہ اللہ پہلے بحث میں شدت کی بات کرتے ہیں پھر میدان جنگ کے شیرسے تشبیہ دیتے ہیں اور اس کے فوربعد کہتے ہیں’’وهو أكبر من أن ينبه مثلي على نعوته‘‘ یعنی ان کا مقام اس سے کہیں بلند ہے مجھ جیسا شخص ان کی خوبیاں بیان کرے۔
جناب اس جملے میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے جو کچھ کہا ہے اسے خوبیاں بیان کرنے سے تعبیر کررہے ہیں اور آپ زبردستی اسے منفی معنی پر محمول کررہے ہیں۔
اورالٹا تاویل کا الزام دوسروں پر لگارہے ہیں، ذرا اس پورے جملے پر دوبارہ غورکریں۔

سچ ہے کفایت اللہ صاحب نے اپنے دستخط میں جوایک شعر لگایاہے
وعين الرضا عن کل عيب کليلةٌ ...................... کما أن عين السخط تبدي المساويا
اس کامصداق اس سے بڑھ کر کیاہوسکتاہے کہ امام ابوحنیفہ کے بارے میں جس نے جوکچھ کہہ دیاہے وہ سب بغیر کسی غوروفکر کے قبول ہے لیکن قبول نہیں ہے توحافظ ذہبی کی بات اوراس کوتاویل کے خراد مشین پر چڑھاکرکچھ اوربنادیناچاہتے ہیں۔
آپ کا یہ عجیب و غریب معمول بن چکا ہے آئے دن جابجا میری دستخط کا حوالہ دیتے پھرتے ہیں ، حالانکہ آپ جیسے لوگوں کی ہرتحریرکے لئے آدھا جواب میری یہی دستخط ہے ، لیکن کیا کیا جائے چور چلائے چورچور والی بات پر عمل کرکے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے بہت بڑا تیرمارلیا ، حدت کی تاویل کا الزام مجھ پر بعدمیں لگائیں پہلے اپنے حکیم صاحب سے رجوع ہوکر اس کا مطلب سمجھ لیں ، تو ملاحظہ ہو:

تھانوی علاج

آپ کے استدلال کا مرکزی لفظ ’’حدت‘‘ ہے اس کا کیا مطلب ہوتا ہے ذرا یہ بھی انہیں تھانوی صاحب سے سن لیں جن کی باتیں سامنے آنے پر آپ کو اطمینان قلب حاصل ہوتاہے ، ملاحظہ فرمائیں ’’حدت‘‘ سے متعلق تھانوی وضاحت :

حکیم الامت اشرف علی تھانوی صاحب ارشاد فرماتے ہیں:
’’میں نے قصائنی کا دددھ پیا ہے اس لئے بھی میرے مزاج میں ’’حدت ‘‘ ہے مگر الحمدللہ ’’شدت‘‘ نہیں ۔(اشرف السوانح :ج ١ص١٨)

کیاخیال ہے؟؟
حکیم الامت صاحب نے تو آپ کے استدلال کی پوری عمات ہی منہدم کردی ، آپ جس لفظ ’’حدت ‘‘ کو دیکھ کر بہک گئے تھے ، حکیم صاحب کے مطب میں اس کا بہترین علاج موجود ہے آپ اس کا استعمال کریں:
جس سے انشاء اللہ آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی اوردل کو سکون وقرار حاصل ہوگا(ابتسامہ)

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
حافظ ذہبی کہتے ہیں
وفیہ قلۃ مداراۃ وعدم تودۃ غالبا واللہ یغفر لہ
یہاں بھی ماشاء اللہ آپ کا "تحقیقی ذوق"آشکاراہورہاہے۔ جناب نے کہیں سے مداراۃ الدولۃ کا لفظ پالیاہے اوراس کو بغیر غوروفکر کئے یہاں فٹ کرناچاہتے ہیں۔ ایک سوال توپوچھ ہی سکتاہوں کہ حافظ ذہبی کو کیاچیز مانع تھی کہ جیسے وہاں تصریح کی ہے ۔یہاں بھی تصریح کردیتے ۔کہ یہ مدارات کس کے ساتھ تھی اورکس کے ساتھ نہیں تھی۔
ہے ۔یہ جملہ ایک مستقل جملہ ہے اس کا آگے پیچھے سے کوئی تعلق نہیں ہے جیساکہ خود نفس کتاب میں اس کو الگ پیراگراف میں بیان کیاگیاہے۔
دوسری بات جناب کو شاید عربی کا کچھ ذوق ووق نہیں۔ اگریہ جملے تعریف کے ہیں جیساکہ کفایت اللہ صاحب ہمیں باور کراناچاہتے ہیں توپھر واللہ یغفر لہ کا کیاموقع بنتاہے۔
یہ تو اردو جاننے والابھی جانتاہے کہ تعریف کے کلمات کے بعد اس طرح کی باتیں نہیں کی کہی جاتیں کہ اللہ ان سے درگزرکرے ان کی مغفرت کرے ۔ یہ باتیں وہیں کہی جاتیں ہیں جہاں کسی شخصیت کے کچھ ایسے امور کا تذکرہ کیاجاتاہے جونامناسب ہوں ۔ایک مثال ذکر کروں ۔
اگرمیں کہوں کہ کفایت اللہ صاحب حق بات میں کسی سے دبتے نہیں ہیں ۔ اعلان حق کے سامنے کسی کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔حتی کہ امام ابوحنیفہ کے مثالب تک نقل کردیتے ہیں
پھراس کے بعد کہوں کہ اللہ ان کی مغفرت کرے ان سے درگزرکرے توشاید آنجناب کوبھی یہ جملہ بہت بے موقع لگے گا۔
اس کی جگہ اگرمیں یہ کہوں کہ
کفایت اللہ صاحب بحث میں اصول کا خیال نہیں رکھتے ہیں۔ موضوع سے اترجاتے ہیں اورکسی کی بات کو بڑھاچڑھاکر پیش کرتے ہیں اورخواہ مخواہ کی تاویل سے کام لیتے ہیں ۔
پھرکہوں کہ اللہ ان سے درگزرکرے تویہ واقعتاصحیح جملہ ہوگا۔ مجھے امید ہے کہ آنجناب بھی اس سے اتفاق کریں گے۔
اولا:
یہاں تو آپ ناچیز کو سیاق وسباق کا درس دے رہے ہیں لیکن خود جہاں سیاق و سباق سے تجاہل برتنے ہیں وہاں یہ سب کچھ یاد نہیں آتا، آخر اس وقت سیاق و سباق کا یہ اصول کہاں گم ہوگیا تھا جب آپ نے امام ذھبی کے اس قول کو پیش کیا تھا:
وله حدة قوية تعتريه في البحث حتى كأنه ليث حرب، وهو أكبر من أن ينبه مثلي على نعوته،[الدرة اليتيمية في السيرة التيمية ص: 4]۔
خط کشیدہ الفاظ پردھیان دیں امام ذہبی رحمہ اللہ پہلے بحث میں شدت کی بات کرتے ہیں پھر میدان جنگ کے شیرسے تشبیہ دیتے ہیں اور اس کے فوربعد کہتے ہیں’’وهو أكبر من أن ينبه مثلي على نعوته‘‘ یعنی ان کا مقام اس سے کہیں بلند ہے مجھ جیسا شخص ان کی خوبیاں بیان کرے۔
اس جملے میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے جو کچھ کہا ہے اسے خوبیاں بیان کرنے سے تعبیر کررہے ہیں اور آپ سیاق وسباق کو نظرانداز کرتے ہوئے، زبردستی اسے منفی معنی پر محمول کررہے ہیں۔
یہاں تو سیاق وسباق میں پوری صراحت ہے کہ امام ذھبی رحمہ اللہ ، شیخ الاسلام کی خوبیاں ہی بیان کررہے ہیں ، جبکہ مداراۃ والے جملہ میں غیرمناسب بات کی کوئی صراحت قطعانہیں ہے۔

ثانیا:
آپ ’’وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَهُ‘‘ پر اپنے استدلال کی عمارت کھڑی کررہے ہیں ، اوریہ الفاظ امام ذھبی رحمہ اللہ کے ہیں اس لئے امام ذھبی رحمہ اللہ ہی کے اسلوب کو پیش نظررکھنا ضروی ہے آپ نے جو منطقی مثال دی ہے کہ ان الفاظ کا تذکرہ ذکرخیر میں نہیں ہوسکتا ، تو عرض ہے کہ امام ذھبی رحمہ اللہ کی عبارت میں دیگرمقامات پربھی ایسی مثال ملتی ہے کہ انہوں نے کسی کا ذکرخیر کرتے ہوئے بھی اس کا استعمال کیا ہے ، مثلا امام ذھبی رحمہ اللہ معجم الشيوخ الكبير میں اپنے ایک شیخ کا ذکر خیر کرتے ہوئے جو کچھ لکھا ہے میں من وعن پوری باتیں نقل کردیتاہوں ، امام ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عُثْمَانُ بْنُ قَايِمَازَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ التُّرْكُمَانِيُّ الْفَارِقِيُّ ثُمَّ الدِّمَشْقِيُّ النَّجَّارُ أَبُو أَحْمَدَ فَخْرُ الدِّينِ رَجُلٌ أُمِّيٌّ حَسَنُ الْيَقِينِ بِاللَّهِ، وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَهُ سَمِعْتُ الشَّيْخَ أَبَا الْحَسَنِ بْنَ الْعَطَّارِ، يَقُولُ لِي: كَانَ جَدُّكَ الْفَخْرُ يَسْأَلُ اللَّهَ أَنْ يَتَوَفَّاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، فَأَعْطَاهُ اللَّهُ ذَلِكَ. قُلْتُ: شَهِدْتُ دَفْنَهُ بِسَفْحِ قَاسِيُونَ عَقِيبِ الْجُمُعَةِ فِي سَنَةِ ثَلاثٍ وَثَمَانِينَ وَسِتِّ مِائَةٍ. وَكَانَ رَحِمَهُ اللَّهُ يُدَمِّينِي فِي النُّطْقِ بِالرَّاءِ، فَيَقُولُ: قُلْ جَرَّةُ بَرَّا جَرَّةُ جَوَّا، وَكَثِيرًا مَا كُنْتُ أَسْمَعُهُ يَقُولُ: يَا مُدَبِّرِي، وَلَمْ أَدْرِ. مَاتَ فِي عُشْرِ السَّبْعِينَ، وَمَاتَ أَبُوهُ الْحَاجُّ قَايِمَازُ فِي سَنَةِ إِحْدَى وَسِتِّينَ وَسِتِّ مِائَةٍ، وَقَدْ أُضِرَّ، وَدَخَلَ فِي الْهَرِمِ، وَجَاوَزَ الْمِائَةَ بِيَسِيرٍ. [معجم الشيوخ الكبير للذهبي 1/ 436]۔

امام ذھبی رحمہ اللہ نے اپنے اس شیخ کے بارے میں جو کچھ کہا تھا میں نے مکمل نقل کردیا ہے ، اس میں غورکریں کہ امام ذھبی رحمہ اللہ نے اپنے استاذ کا تذکرہ کرتے ہوئے بیچ میں ’’وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَهُ ‘‘ کہا ہے !!! لیکن کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ امام ذھبی رحمہ اللہ نے یہاں ’’وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَهُ ‘‘ کے ذریعہ اپنے شیخ کی کس معیوب بات کی طرف اشارہ کیا ہے؟؟؟؟؟؟؟

معلوم ہوا کہ امام ذھبی رحمہ اللہ ذکر خیر میں بھی بطور دعاء یہ الفاظ کہہ دیا کرتے تھے لہٰذا بغیر کسی قرینہ اورواضح اشارہ کے ہم اسے منفی معنی میں نہیں لے سکتے ، جبکہ ہمیں معلوم ہے امام ذھبی رحمہ اللہ نے شیخ الاسلام کا اپنی متعدد کتب میں تذکرہ کیا ہے اورکسی میں بھی ان کے سلسلے میں یہ منفی بات نہیں کہی ہے۔

ثالثا:
مذکورہ وضاحت پڑھ کرممکن ہے کہ آن جناب ، حسب معمول عربی زبان میں میری بے ذوقی کا شکوہ کریں اس لئے اطمئنان قلب کے لئے مذکورہ عبارت سے متعلق اہل عرب میں سے ایک عربی باحث کی وضاحت پیش خدمت ہے:
وكانت له عبارات قد يفهم منها أصحاب الفهم المقلوب والعقل المنكوس! أنّها طعنُ وغمزٌ في شيخه شيخ الإسلام. مثل قوله..:"وفيه قلة مداراة وعدم تؤدة غالباً، والله يغفر له!"
یعنی امام ذہبی کی کچھ عبارتیں ایسی ہیں جن سے الٹی فہم اور ٹیڑھی عقل والے یہ سمجھتے ہیں کہ امام ذہبی نے اپنے شیخ ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر طعن وتشنیع کی ہے جیسا کہ امام ذہبی کی یہ عبارت ہے ’’وفيه قلة مداراة وعدم تؤدة غالباً، والله يغفر له‘‘ ہے
رابعا:
ہمارے معاصرین تو جانیں دیں خود امام ذھبی رحمہ اللہ کے معاصرین نے امام ذھبی رحمہ اللہ (المتوفى: 748) کے اس کلام کا کیا مطلب سمجھا وہ ملاحظہ کریں ، چنانچہ محمد بن شاكر الكتبي رحمه الله (المتوفى:764) امام ذھبی رحمہ اللہ کا کلام نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قال الشيخ شمس الدين: وصنف في فنون، ولعل تواليفه تبلغ ثلثمائة مجلدة. وكان قوالاً بالحق، نهاءً عن المنكر، ذا سطوة وإقدام وعدم مداراة، وكان أبيض أسود الرأس واللحية، قليل الشيب، شعره إلى شحمة أذنيه، كأن عيينه لسانان ناطقان، ربعة من الرجال، جهوري الصوت، فصيح اللسان، سريع القراءة، توفي محبوساً في قلعة دمشق على مسألة الزيارة، وكانت جنازته عظيمة إلى الغاية، ودفن في مقابر الصوفية صلى عليه قاضي القضاة الشيخ علاء الدين القونوي، انتهى كلام الشيخ شمس الدين الذهبي.[فوات الوفيات لابن شاكر الكتبي: 1/ 75]۔

اس عبارت میں غور کریں اس میں بھی ’’وعدم مداراة‘‘ منقول ہے مگر بتلائیں کہ یہ پوری عبارت مدح میں ہے یا ذم میں ؟؟؟؟ کیا انہیں بھی عربی کا ذوق نہیں تھا اورمدح کے سیاق میں ایسے الفاظ بھی نقل کردئے جو عیب پردلالت کرتے تھے۔

خامسا:
مذکورہ جملے کو آپ الگ تھلگ جملہ مان رہے ہیں جیساکہ آپ نے خود لکھا :
یہ جملہ ایک مستقل جملہ ہے اس کا آگے پیچھے سے کوئی تعلق نہیں ہے جیساکہ خود نفس کتاب میں اس کو الگ پیراگراف میں بیان کیاگیاہے۔
پس دریں صورت اس جملے کا بحث میں شدت سے کوئی تعلق ہی نہیں رہا، آپ کے اس اعتراف کے ساتھ:
ذیل تاریخ الاسلام ہی میںجب صاف صاف یہ لکھاہواہے کہ دوران بحث ان کی سخت کلامی اورگرم مزاجی کی وجہ سے علماء ان پر نکتہ چینی کرتے تھے پھر اس کو مداراۃ الاغیار سے کیاتعلق باقی رہ گیاہے۔

رہی ذیل تاریخ الاسلام کی عبارت تو میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ یہ نسخہ مصدقہ نہیں ہے لٰہذا اس کی شاذ عبارت سے استدلال درست نہیں ، کیونکہ دیگر جن کتابوں میں بھی شیخ الاسلام کا تذکرہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے کیا ہے کہیں بھی انہیں اس عیب سے متصف نہیں کیا ہے ، لہٰذا ایک غیر مصدقہ نسخہ کی شاذ عبارت کوئی عمارت نہیں کھڑی کی جاسکتی، واضح رہے کہ ہم اس نسخہ کی عبارت پر عدم اعتماد کی بات صرف اس لئے کررہے ہیں کیونکہ اس کی نسبت ثابت نہیں ہے ورنہ اگر یہ نسخہ ثابت ہوجائے تو پھر ہمیں مذکورہ عبارت کو امام ذہبی رحمہ اللہ کی طرف منسوب کرنے میں کوئی تامل نہیں ہوگا، گرچہ امام ذہبی رحمہ اللہ کی کسی بھی دوسری کتاب میں اس کا تذکرہ نہیں ہے۔


یہ تحریر بڑے غور کی متقاضی ہے اس کو بغوروامعان پڑھئے اورسرسری مت گزرجائیے اس سے۔
حافظ ذہبی نے ان کے بارے میں تین قسم کے لوگ بیان کئے ہیں آخر الذکر کو انہوں نے خود قلت علم اورخواہش نفسانی کا حامل بتایاہے۔اس سے ہمیں بحث بھی نہیں ہے۔
دوسری قسم ان لوگوں کی بتائی ہے جوان کے علم وفضل کے معترف ہیں لیکن ان کے اخلاق وافعال کی نکتہ چینی کی ہے ۔حافظ ذہبی نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیاہے ۔
ویسے ایک کام کی بات بتادوں کہ حافظ ذہبی چوں کہ بذات خود حضرت ابن تیمیہ کے بڑے مداح ہیں اس لئے وہ ہمیشہ اشارہ سے کام چلاتے ہیں کبھی بھی تصریحا کچھ نہیں کہتے۔
یہ حوالہ بھی بے کار ہے دوسری قسم کے لوگوں کی بات امام ذہبی رحمہ اللہ کی اپنی بات نہیں ہے ، امام ذھبی رحمہ اللہ نے دوسرے قول پر بے شک تبصرہ نہیں کیا ہے لیکن انہوں نے پہلے قول پر بھی تبصرہ نہیں کیا ، پھر کس قول کے ساتھ آپ کے اتفاق کا دعوی کیا جائے ، نیز اس دوسری بات کو مکمل دیکھیں اس میں کیا ہے:
وثم اناس من اضدادہ یعتقدون فیہ وفی علمہ لکن یقولون فیہ طیش وعجلۃ وحدۃ ومحبۃ للریاسۃ
اس میں ایک الزام حب ریاست کا بھی ہے ، کیا ایک لمحہ کے لئے بھی یہ باورکیا جاسکتا ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ شیخ الاسلام کے حق میں یہ رائے رکھیں گے، جب کہ خود ابن تیمہ رحمہ اللہ اپنی کتب میں بہت سی جگہوں پر اس کی مذمت کرتے ہیں ، بلکہ ایک جگہ امام داؤد رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قَالَ أَبُو دَاوُد السجستاني صَاحِبُ السُّنَنِ الْمَشْهُورَةِ: الْخَفِيَّةُ حُبُّ الرِّيَاسَةِ. وَذَلِكَ أَنَّ حُبَّ الرِّيَاسَةِ هُوَ أَصْلُ الْبَغْيِ وَالظُّلْمِ كَمَا أَنَّ الرِّيَاءَ هُوَ مِنْ جِنْسِ الشِّرْكِ أَوْ مَبْدَأُ الشِّرْكِ[مجموع الفتاوى 18/ 162]۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
خود امام ذہبی کی مثال لیں ان کی طرف بھی من گھڑت کتب منسوب ہیں مثلا النصیحہ وغیرہ ، اسی طرح ظالموں نے امام ذہبی کی طرف ایک خط بھی منسوب کیا ہے جس میں امام ذہبی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو سمجھاتے ہیں اور ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہیں ایسی صورت میں یہ جاننا ضروری ہے کہ کس کتاب سے کیا نقل کیا جارہا ہے اور س کتاب کی پوزیش کیاہے۔
آپ ذرااپنی ایک غلطی درست کرلیں عموماجوش بحث میں ایسی غلطیاں ہوجاتی ہیں خط کا نام ہی النصیحۃ ہے خط اورالنصیحۃ کوئی الگ الگ چیز نہیں ہے ویسے اس کی جانب سب سے پہلے حافظ سخاوی نے اشارہ کیاہے اورپھر حافظ کی کتابوں کے سب سے بڑے محقق اورماہر بشارعواد معروف نے بھی اس خط کو حافظ ذہبی کاہی ماناہے ۔ خواہ وہ ان کی ہو یانہ ہو ہمارے سامنے یہ چیز موضوع بحث نہیں ہے۔
آپ کی بات درست ہے دراصل میں کتاب کانام زغل العلم لکھنا چاہتا تھا ، لیکن جلد بازی میں ’’النصحیحہ‘‘ لکھا گیا ، حالانکہ ’’النصحیحۃ ‘‘ تو کوئی کتاب ہے ہی نہیں بلکہ وہ ایک مکذوب خط ہے، میں بعد میں خود اس کی اصلاح کرلیتا مگر چونکہ آپ نے تعاقب کردیا تھا اس لئے میں نے اسے باقی ہی رہنے دیا۔

زیر بحث کتاب توحافظ ذہبی کی طرف بالکلیہ ثابت ہے لیکن مسئلہ انجناب کے ساتھ یہ ہے کہ اپ صرف اپنے حق مین بیان کی گئی چیزوں کواخذ کرلیتے ہیں اوردوسرے دلائل سے صرف نظرکرلیتے ہیں اورپھر بھاری بھرکم الفاظ میں نتائج بیان کرتے ہیں۔
صرف دعوی کرنے سے کام نہیں چلے گا اس کتاب کی سند میں کمزوری ہے آپ اس کا ازالہ پیش کریں۔

ہرکلام میں جھلک کس نے دیکھاہے ۔ حافظ ابن تیمیہ کی ایک بات ائی اس پر بات کہی گئی ۔ ہرکلام نہ اپ نے نقل کیااورنہ ہی ہرکلام پر تبصرہ ہواہے۔
خیرسلفیوں کے ساتھ عمومابحث میں ایسے ہی نتائج کاسامناکرپڑتاہے میری عبارت دیکھیں اورپھر اپنااظہارخیال دیکھیں۔ نیند پوری نہ ہوایک مرتبہ براہ کرم نیندپوری کرلیں اورپھر جولکھیں پورے ہوش وحواس مین لکھیں۔
یہ میں نے کہاں کہا کہ ہرعبارت میں حدت اورشدت ہے۔ فیاللعجب
جو اقتباس نقل کیا گیا تھا اس میں شدت کی معمولی جھلک بھی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی آپ نے شدت کا حوالہ دیا ایسی صورت یہی ظاہر ہورہا ہے کہ اپنے خلاف ان کی ہربات میں آپ کو شدت ہی نظر آئے گی۔

مذکورہ جملے میں شدت کو ایک معیوب چیز مان کر جواب دیا گیا تھا لہٰذا یہاں یہ حدیث پیش کرنے کا کوئی محل ہی نہیں ہے یہ حدیث آپ تب پیش کرتے جب ہم نے یہ کہا ہوتا کہ اسلوب میں شدت کے باوجود اسلوب پسندیدہ ہوتا ہے لیکن ہم نے سخت اسلوب میں پیش کے گئے حق پر بات کیا تھا یعنی حق اگر معیوب طریقہ سے پیش کیا جائے تو اس کی وجہ سے حق کو ٹھکرانے کا جواز نہیں ملتا ہے، اگر اس سے آپ کو اتفاق نہیں تو اسی حدیث کی روشنی میں بتلائے کہ اگر کوئی باطل کو نرمی کے ساتھ پیش کرے توکیا اسے قبول کرلیا جائے گا؟؟؟
نفس شدت کس طرح ایک معیوب چیز ہے وہ توآنجناب نے واضح نہیں کیا۔پھرنرمی لطافت کی حدیث کس طرح پیش کرنامناسب اورموقع ومحل کے مطابق نہیں ہے۔اس کی بھی وضاحت لگے ہاتھوں کردیتے۔
سخت اسلوب شریعت میں کس قدر پسندیدہ ہے۔اگلے مراسلات مین واضح کردیجئے گا اوریہ بھی کہ کہاسخت اسلوب کونرمی اسلوب پر ہرحال میں فوقیت حاصل ہے۔
حدیث کے الفاظ بھی عام ہیں،قران نے جدال احسن کاحکم دیاہے جدال مطلق کاحکم نہیں دیا ہے۔ نرمی جتنااثرکرتی ہے سختی اتنااثرنہیں کرتی ۔حافظ ابن تیمیہ کی سخت کلامی سے ہی توعلماء متنفر تھے ورنہ ان کی ذات پرعلماء کا اجماع ہوتا۔ ابن حزم کے ساتھ کیاچیز پیش آئی ۔ سیر اعلام النبلاء اوردوسری کتابیں پڑھ کر خود معلوم کرلیں۔ خود قران میں موجود ہے کہ اللہ نے جب حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس جانے کا حکم دیاتوقول لین کاحکم دیا ۔
اب دوسرا کوئی نہ توحضرت موسی سے افضل ہے اورنہ اس کا مخاطب فرعون سے زیادہ بدتر ہوسکتاہے حضرت موسی کو فرعون کے ساتھ ایمان کی دعوت دینے کیلئے بھیجاگیاتھایعنی اصولی مسئلہ تھا،فروعی نہیں جب وہاں پر قول لین کا حکم ہے توفروعات میں توبدرجہ اولی قول لین اختیار کرناچاہئے۔
مخطوط الفاظ پر غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کی یہ ساری باتیں منقولہ اقتباس سے غیر متعلق ہیں ، ہم نے یہ کہا ہے کہ اگر شدید اسلوب میں حق پیش کیا جائے تو کیا اسلوب میں شدت کی آمیزش سے حق باطل ہوجائے گا؟؟
یا نرم اسلوب میں باطل پیش کیا جائے تو کیا اسلوب میں نرمی کے باعث وہ حق ہوجائے گا؟؟؟
بتلانا یہ مقصود ہے کہ اسلوب میں شدت کا بہانہ بناکر آپ کسی کی بات کو غلط قرار نہیں دے سکتے ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
کوثری کذاب کی ہاں میں ہاں


خط کا نام ہی النصیحۃ ہے خط اورالنصیحۃ کوئی الگ الگ چیز نہیں ہے ویسے اس کی جانب سب سے پہلے حافظ سخاوی نے اشارہ کیاہے
ویسے یہ جھوٹ سب سے پہلے مشہورکذاب کوثری نے بولاہے کہ امام سخاوی رحمہ اللہ نے اس خط کی طرف اشارہ کیا ہے ، ورنہ درحقیقت امام سخاوی رحمہ اللہ کی ایسی کوئی تحریر نہیں ملتی جس میں انہوں نے النصیحیۃ کو امام ذہبی کا خط قرار دیا ہو ، یا اس کی طرف کوئی ادنی اشارہ بھی کیا ہو، لیکن کیا کیا جائے کہ جنہیں کوثری جیسے کذاب و بدعقیدہ اورقبرپرسست سے عقیدت ہوجائے ان کے لئے کچھ بھی کہہ اورکر گذرنا بعید نہیں۔

امام سخاوی کی جس عبارت کے حوالہ سے مذکورہ جھوٹ بولا جاتا ہے ، ملاحظہ ہو، امام سخاوی نے کہا:
ورسالة كتبها لابن تيمية هي لدفع نسبته لمزيد تعصبه مفيدة [الإعلان بالتوبيخ لمن ذم التاريخ ص: 179]۔

اولا:
پرانی کتاب میں کسی کتاب یا رسالے یا خط وغیرہ کے تذکرہ سے یہ قظعا ثابت نہیں ہوتا کہ اس کی موجودہ کاپی بھی مستندہے۔

ثانیا:
مذکورہ عبارت میں امام سخاوی نے مطلق ایک رسالہ کا ذکرکیا ہے النصیحۃ کا نام قطعا نہیں لیا ہے لہٰذا اس سے النصیحہ مرادلینا زاہد کوثری جیسے کذاب لوگوں ہی کا کام ہوسکتاہے۔

ثالثا:
امام سخاوی نے اس رسالہ سے کوئی عبارت نقل نہیں کی ہے کہ موجودہ کاپی سے اس کا موازنہ کرکے یہ معلوم ہوسکے کہ ان کا اشارہ اسی خط کی طرف ہے۔


اورپھر حافظ کی کتابوں کے سب سے بڑے محقق اورماہر بشارعواد معروف نے بھی اس خط کو حافظ ذہبی کاہی ماناہے ۔ خواہ وہ ان کی ہو یانہ ہو ہمارے سامنے یہ چیز موضوع بحث نہیں ہے۔
سب سے پہلے اس تعلق سے بشارعواد صاحب کے الفاظ ملاحظہ ہوں:

سیر اعلام کے مقدمہ میں عواد صاحب کہتے ہیں:
وأرسل إليه نصيحته الذهبية التي يلومه، وينتقد بعض آرائه وآراء أصحابه بها [سير أعلام النبلاء للذهبي: المقدمة/ 38]۔

دوسری کتاب میں کہتے ہیں:
وھی رسالۃ بعث بھا الی شیخہ ورفیقہ ابی العباس ابن تیمیۃ الحرانی ’’ت ٧٢٨ھ ‘‘ ینصحہ فیھا ویعاتبہ فی بعض تصرفاتہ ، وھی رسالۃ مفیدۃ فی تبیان عقیدۃ الذھبی ، و قد ذکرھا شمس الدین السخاوی فی الاعلان فقال:’’وقد رأيت له عقيدة مجيده ورسالة كتبها لابن تيمية هي لدفع نسبته لمزيد تعصبه مفيدة‘‘ وذھب بعضھم الی القول بانھا مزورۃ ، ولا عبرۃ بذالک [الذهبي ومنهجه في كتابه تاريخ الإسلام : ص ١٤٦]۔

اورپھر حاشیہ میں اس کےبعض نسخوں کا تذکرہ کے منکرین کا موقف نقل کیا ہے اوراسی پر خاموش ہوگئے ہیں ، ملاحظہ [الذهبي ومنهجه في كتابه تاريخ الإسلام : ص ١٤٦ ، ١٤٧ حاشیہ رقم ١٠ ]۔

ان تمام عبارتوں میں عواد صاحب کا صرف دعوی ہے تحقیق اوردلائل کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے ، لہٰذا دلیل سے خالی ان کے اس دعوی کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، واضح رہے کہ جن لوگوں نے اس خظ کو مکذوب قرار دیا ہے انہوں نے دلائل کے انبار لگادئے ہیں ، بلکہ اس پر مستقل رسالے تصنیف کئے ہیں ، ذیل میں چند حوالے پیش خدمت ہیں ، قارئین اس خط کی حقیقت جاننے کے لئے ان کا مطالعہ کریں:

  • التوضيح الجلي في الرد على النصيحة الذهبية المنحولة على الإمام الذهبي ۔
  • دعوۃ شیخ الاسلام ابن تیمہ و اثرھا فی الحرکات الاسلامیۃ المعاصرہ ۔
  • أضواء على الرسالة المنسوبة إلى الحافظ الذهبي ۔
  • كتب حذر منها العلماء ۔


لطیفہ

جمشید صاحب نے یہاں شیخ بشار عواد کو بڑے محقق اورماہر کے القاب سے نوازا ہے عرض ہے کہ اسی محقق اورماہر نے اسی کتاب ’’الذهبي ومنهجه في كتابه تاريخ الإسلام‘‘ میں ص ١٦٧ پر دیوان الضعفاء اورص ١٧١ پر ذیل دیوان الضعفاء کو امام ذھبی رحمہ اللہ کی کتاب قرار دیا ہے ،لیکن یہاں شیخ عواد کی تحقیق اورمہارت جمشید صاحب کو قطعا نظر نہیں آئی، حالانکہ دیوان الضعفاء کا تذکرہ کرتے ہوئے شیخ عواد نے اس کی نسبت سے متعلق کسی اختلاف کا تذکرہ نہیں کیا ہے جبکہ النصیحۃ پر بات کرتے ہوئے دوسرا موقف بھی ذکرکیا ہے ، بلکہ یہ بھی کہا کہ امام سخاوی کے علاوہ کسی نے اس کا تذکرہ نہیں کیا ہے اورکئی لوگوں نے اس کتاب کی صحت پر شک کیا ہے ، شیخ عواد صاحب فرماتےہیں:

وهو الوحيد الذي أشار إلى رسالة الذهبي إلى ابن تيمية، مما وثق نسبتها إليه لا سيما وقد شك فيها غير واحد[الذهبي ومنهجه في كتابه تاريخ الإسلام : ص ٦١]۔

واضح رہے کہ امام سخاوی نے بھی النصیحہ کا تذکرہ نہیں کیا ہے جیساکہ اوپر تفصیل پیش کی گئی۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سازشی ٹولہ


لگتاہے کہ آنجناب نے سازش کا پوراسبق پڑھ رکھاہے ایک ہمارے اسرار عالم صاحب تھے جنہوں نے یہودیوں پر کئی کتابیں لکھیں اورایسالگتاتھاکہ اگران کے باورچی خانے میں گلاس بھی ٹوٹے تواس میں یہودیوں کا ہاتھ ہوگا اورایک آنجناب ہیں کہ حنفیہ کی سازش کو سونگھنے میں لگے ہیں۔ قوت شامہ اگربہت اچھی ہے توآپ بہت کام کے آدمی ہیں۔
یہ بتاناپسند کریں گے کس نے یہ سازش کی۔ اس سازش کاانکشاف کسی نےآپ کے پاس جاکر کیایہ اس کے حق مین تاریخی دستاویزات اورثبوت موجود ہیں اوریہ سازش کب سے شروع ہوئی اوریہ صرف سازش ہے یاعلمی وفکری اختلاف ہے؟
آپ کی خواہش کے مطابق ہم اس سازشی ٹولے کی فہرست تاریخی دستاویزات اورثبوت کے ساتھ پیش کرتے ہیں ، پڑھیں اورعبرت حاصل کریں:

سازش کا پہلا نمونہ

(حکیم الامت اشرف علی تھانوی)​

حکیم الامت اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں:
’’ابن تیمہ بزرگ ہیں ، عالم ہیں ، متقی ہیں اللہ ورسول پر فدا ہیں، دین پر جاننثار ہیں ، دین کی بڑی خدمت کی ہے مگر ان میں بوجہ فطرۃ تیز مزاج کے تشدد ہوگیا ‘‘ [ملفوظات حکیم الامت :ج١٠ص ٤٩]۔


سازش کا دوسرا نمونہ

(محمدحسن سنبھلی متوفی ١٣٠٥)​

محمدحسن سنبھلی صاحب لکھتے ہیں:
’’خلفاء هذه الملة أربعة: ابن تيمية، وابن قيم، والشوکاني، فيقولون ثلاثة رابعهم کلبهم، وإذا انضم إليهم ابن حزم، وداؤد الظاهري بأن صاروا ستة، و يقولون خمسة سادسهم کلبهم رجما بالغيب، وخاتم المکلبين مثله کمثل الکلب إن تحمل عليه يلهث، و إن تترکه يلهث، يشنع علي أهل الحق في التنزيه ‘‘
[حاشیہ نظم الفوائد: ص ١٠٢ ، نیز ملاحظہ ہو تحریک آزادی فکر اور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی: ص ١٧٤ از شیخ محمداسماعیل سلفی رحمہ اللہ ، اوراس کا عربی ترجمہ حرکۃ الانطلاق الفکری ص ١٩٥]۔

غورکریں کہ مذکورہ عبارت میں علامہ ومحقق محمدحسن سنبھلی نے غلاظت اوربے حیائی کی حد کردی اور ابن تیمیہ ، ابن قیم ، ابن حزم وغیرہم کو ’’کلب‘‘ کتا تک کہہ ڈلا، استغراللہ۔

شیخ اسماعیل سلفی رحمہ اللہ اس بدزبانی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
یہاں ابن تیمہ ، ابن قیم ، شوکانی ، ابن حزم ، داؤد ظاہری ،نواب حسن خان کے متعلق جس طرح بدزبانی کی ہے ، مجھے اس کے ترجمہ کا بھی حوصلہ نہیں، یہ کوثر کی زبان آپ حضرات کی طرف سے آئی ہے ، اس کے آگے صفحہ ١٤٠ پر اس سے بھی زیادہ بدزبانی کی گئی ہے ، میراتو تجربہ ہے کہ جب تک دنیا میں تقلید شخصی موجود ہے، اہل علم کی آبرو محفوظ نہیں رہ سکتی۔[ تحریک آزادی فکر اور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی: ص ١٧٤ از شیخ محمداسماعیل سلفی رحمہ اللہ ، اوراس کا عربی ترجمہ حرکۃ الانطلاق الفکری ص ١٩٦]۔

قارئین کرام !
یہ محمد حسن سنبھلی نام کے بزرگ جو ابن تیمہ رحمہ اللہ اوران کے موافقین کو ’’کلب‘‘ کتے کے لقب سے نواز رہے ہیں یہ کوئی عام آدمی نہیں ہیں بلکہ تقلیدی گروپ کی بڑی اونچی اورعلمی شخصیت ہیں حتی کہ کوثری گروپ کے ابوغدہ انہیں العلامہ اورالمحقق کے القابات سے نوازتے ہوئے کہتے ہیں:

وهو العلامة المحقق الشيخ السنبهلي[ تعلیق بر ’’قواعد فی علوم الحدیث‘‘ : ص ١٠٩]۔

جب علامہ اورمحقق کی زبان ایسی ہے تو ان کے عوام کی زبان کیسی ہوگی ، سب کو معلوم ہوجانا چاہئے اس کے باوجودبھی بے جا شکوہ کیا جاتاہے اورالٹا تشدد کا الزام ہم جیسے غریبوں کو بلکہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کو دیا جاتاہے۔

مجھے نہیں معلوم کہ کسی اہل حدیث عالم دین نے بھی احناف کے خلاف اتنی غلیظ اور بے ہودہ زبان استعمال کی ہے ۔


لطیفہ

علی میان ندوی کا نام محتاج تعارف نہیں ہے گرچہ ان کے بہت سارے کاموں پر پردہ پڑا ہوا ہے کیونکہ موصوف دو چہروں کے مالک تھے انڈیا میں ان کا چہرہ کچھ اورتھا اور عرب میں ان کا چہرہ کچھ اور ، شیخ صلاح الدین مقبول حفظہ اللہ نے اہل عرب کے سامنے ان کے دوسرے چہرے کو بھی بے نقاب کردیا ، اور ایک کتاب لکھ دی:’’الاستاذ ابو الحسن الندوي الوجه الاخر من كتاباته‘‘ جزاہ اللہ خیرا واحسن الجزاء۔
عرب میں اس کتاب کے آنے کے بعد خواص کے ساتھ ساتھ عوام بھی موصوف کے مخفی چہرہ سے آگاہ ہوگئے ایک نمونہ یہاں دیکھیں۔

بہرحال لطیفہ یہ ہے کہ مذکورہ کتاب کو ایک خط کے ساتھ علی میاں ندوی کے پاس بھیجا گیا اورکہا گیا کہ اس میں کوئی غلط بات لکھ دی گئی ہو تونشاندہی کردیں ، لیکن علی میاں ندوی نے جوابا لکھا کہ ہم اس کتاب کو پڑھ بھی نہیں سکتے کیونکہ اس میں ہمیں ’’کتا‘‘ کہا گیا ہے اور باطل کے خلاف ابن تیمہ و ابن قیم آپ لوگوں سے کہیں زیادہ غیرت مند تھے مگرانہوں نے بھی اپنی کتابوں میں اپنے مخالفین کو ’’کتا‘‘ نہیں کہا۔

اس کے جواب میں شیخ صلاح الدین مقبول حفظہ اللہ نے لکھا کہ ہم نے اس کتاب میں آپ کو یاکسی کو کتا ہرگز نہیں کہا ہے جس عبارت سے اپنے آپ کو کتا سمجھ لیا گیا ہے اس میں فرقہ ’’کلابیہ ‘‘ کا ذکرہے ، یہ ایک گمراہ فرقے کا نام ہے کتے کے معنی میں یہ لفظ استعمال نہیں کیاگیا ہے۔
اوراگر کلابیہ کا مطلب’’ کتا‘‘ ہی ہوتا ہے تو یاد رہے کہ اس فرقہ کلابیہ کا ذکر تو ابن تیمہ و ابن قیم رحمہا اللہ کی کتابوں میں بھی ملتا ہے،[ملخص از مقدمہ کتاب مذکور، اس مقدمے میں ان خطوط کے اسکین دئے گے ہیں]۔


قارئیں غور کریں ، علی میاں ندوی کو ’’کتا‘‘ کسی نے نہیں کہا لیکن اس کے باوجود کس طرح اس کے خلاف شکوہ کیا گیا ، ایک طرف یہ بات ذھن میں رکھیں اور دوسری طرف محمد حسن سنبھلی کی بدزبانی دیکھیں ، اور باقی خود سمجھ لیں ، ہم کیا عرض کریں ۔

بہرحال مذکورہ دونوں حنفی بزرگوں نے ابن تیمہ رحمہ اللہ کو جس وصف سے متصف کیا اس سے ان کا مقصدصاف ظاہر ہے کہ ایساکرکے اپنے خلاف شیخ لاسلام کی تحریروں کو عیب دار ثابت کرنا چاہتے ہیں ، اوراپنی قوم میں ان کی ثقاہت کو مجروح کرنا چاہتے ہیں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top