• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے مزاج میں شدت تھی ؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سازش کا تیسرا نمونہ

( علامہ ظفراحمد تھانوی حنفی متوفی ١٣٩٤ ھ)​

اوپردو حنفی بزرگوں کے اقوال پیش کئے گئے ہیں ان اقوال کا پس منظر ہرکوئی شخص سمجھ سکتاہے ، لیکن آئیے اب ہم ایک ایسا قول پیش کرتے جس میں ابن تیمہ رحمہ اللہ کو متشدد بتلاکر پوری صراحت کے ساتھ اس کی غرض و غایت بھی بتلادی گئی اوروہ یہ کی ان کے متشدد ہونے کی وجہ سے ان کے اقوال ناقابل قبول ہیں ، توملاحظہ ہو:

علامہ ظفراحمد تھانوی حنفی فرماتے ہیں:
قلت: ممارده ابن تيمية من الأحاديث الجياد في کتابه منهاج السنة حديث ''رد الشمس لعلي رضي الله عنه و لما رأي الطحاوي قد حسنه و أثبته، جعل يجرح الطحاي بلسان ذلق و کلام طلق، و أيم الله إن درجة الطحاوي في علم الحديث، فوق آلاف من مثل إبن تيمة، وأين لإبن تيمية أن يکون کتراب نعليه! فمثل هولاء المتشددين لايحتج بقولهم إلا بعد التثبت و التأمل[قواعد فی علوم الحدیث: ص ١٠٩]۔
ترجمہ : میں کہتاہوں کہ ابن تیمہ نے اپنی کتاب منہاج السنہ میں جن جید احادیث کو رد کردیا ہے ان میں سے یہ حدیث بھی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کی خاطر سورج کو ڈوبنے کے بعد پھر سے لوٹا کر دوبارہ طلوع کیا گیا ۔
جب ابن تیمیہ نے یہ دیکھا کہ امام طحاوی نے اس حدیث کی تحسین کی ہے اوراسے ثابت قرار دیا ہے تو امام طحاوی پر چرب زبانی اورسخت اسلوب میں جرح کرنا شروع کردیا ،اوراللہ کی قسم علم حدیث میں امام طحاوی کا مقام ابن تیمہ سے ہزاروں گنا بڑھ کرہے اورابن تیمہ تو امام طحاوی کے جوتوں کی دھول کے برابر بھی نہیں ، لہذا ایسے متشددین کے اقوال کو بغیر غور فکرکے قبول نہیں کیا جائے گا۔

عرض ہے کہ ابن تیمہ رحمہ اللہ نے امام طحاوی کے خلاف کوئی سخت زبان استعمال نہیں کی ہے ہم آگے ابن تیمہ رحمہ اللہ کے کلام کو پیش کریں گے ، قارئین منتظررہیں ، اورساتھ ہی ہم اس موضوع ومن گھڑت اوربکواس حدیث ’’ کہ علی رضی اللہ عنہ کی خاطر سورج کو ڈوبنے کے بعد پھر سے لوٹا کر دوبارہ طلوع کیا گیا ‘‘ کی بھی وضاحت کریں گے۔

لیکن یہاں ہم قارئین کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ احناف کی ایک عظیم علمی شخصیت نے اپنے مذکورہ قول میں نہ صرف یہ کہ ابن تیمہ رحمہ اللہ کو متشدد بتلایا ہے بلکہ انہیں متشدد بتلانے کی وجہ بھی پوری صراحت کے ساتھ سامنے رکھ دی ہے اور وہ یہ کہ :
فمثل هولاء المتشددين لايحتج بقولهم إلا بعد التثبت و التأمل
لہذا ایسے متشددین کے اقوال کو بغیر غور فکرکے قبول نہیں کیا جائے گا۔
کیا اب بھی جمشید صاحب تاریخی دستاویزات اورثبوت کا شکوہ کریں گے؟؟ ابھی آگے ہم ایک اور حنفی بزرگ بلکہ عظیم ترین علمی شخصیت کا قول پیش کریں گے جس سے ان شاء اللہ سارے گلے شکوے دور ہوجائیں گے۔۔۔۔قارئین منتظر رہیں۔




لطیفہ

ابن تیمہ رحمہ اللہ کے حق میں ظفراحمد تھانوی صاحب نے اپنے مذکورہ قول میں جو یہ کہا کہ:
وأين لإبن تيمية أن يکون کتراب نعليه!
اورابن تیمہ تو امام طحاوی کے جوتوں کی دھول کے برابر بھی نہیں۔
اس بے اعتدالی پر کوثری گروپ کا فرد ابوغدہ بھی خوف زدہ ہوگیا اس لئے اس نے فورا ظفراحمد تھانوی صاحب کی مذکورہ عبارت پر یہ حاشیہ آرئی کی کہ ظفر تھانوی نے مذکورہ تعبیر تفاٍضل کے لئے استعمال کیا اورایسا ہندوستان والے بولتے ہیں اوراسے معیوب نہیں سمجھتے[ تعلیق بر:’’قواعد فی علوم الحدیث‘‘ : ص٤٤١، ٤٤٢]۔

ملاحظہ ہوں ابوغدہ کے الفاظ:
قولة شيخنا المؤلف في حق الامام ابن تيمية بالنسبة للإمام الطحاوي رحمهما الله تعالي: '' وأين لإبن تيمية أن يکون کتراب نعليه؟ '' هي من کلمات علماء الهند ولهجتهم کماسمعتها منهم مرارا، يقولونها في بيان التفاوت بين شخصين فاضل و أفضل ولا يقصدون بها الإزدراء بالمفضل عليه والإنتقاص له کما يتبادر لفهمنا نحن معشر العرب في الشام و مصر وغيرهما.[ تعلیق بر:’’قواعد فی علوم الحدیث‘‘ : ص٤٤١، ٤٤٢]۔
ترجمہ: ہمارے شیخ مؤلف کا امام طحاوی رحمہ اللہ کے بالمقابل امام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے حق میں یہ فرمانا کہ :’’اورابن تیمہ تو امام طحاوی کے جوتوں کی دھول کے برابر بھی نہیں‘‘ یہ ہندوستان کے علماء کا لب ولہجہ ہے جیساکہ میں نے ان سے بارہا اس طرح سنا ہے ، یہاں کے لوگ ایسا دو شخص افضل و مفضول کے بیچ تفاوت بتلانے کے لئے بولتے ہیں ، اس سے مفضول کی حقارت یا تنقیص مقصود نہیں ہوتی ہے جیساکہ شام اورمصر وغیرہ میں ہم عربوں کے ذہن میں متبادر ہوتا ہے۔
لیکن ظاہر ہے کہ یہ بے کار کا عذر تھا ، سیاق و سباق کے لحاظ سے مذکورہ تاویل کی کوئی گنجائش نہ تھی بلکہ اس تاویل پر خود ابو غدہ کا دل بھی مطمئن نہ تھا اس لئے اس نے براہ راست تھانوی مذکور کو خط لکھا اورابن تیمہ رحمہ اللہ کی شان میں ان کے مذکورہ جملہ پر سوال اٹھایا اس شکایت پر تھانوی صاحب نے اپنے اس جملہ سے رجوع کرلیا یعنی اس جملہ سے جس میں ابن تیمہ رحمہ اللہ کو امام طحاوی کے جوتوں کی خاک سے بھی کم تر قرار دیا تھا ۔[ تعلیق بر:’’قواعد فی علوم الحدیث‘‘ : ص٤٤١، ٤٤٢]۔

اس سے ابوغدہ کی بے جا تاویل کی حقیقت بھی سامنے آگئی کہ ظفر تھانوی صاحب نے تفاضل بتلانے کے لئے مذکورہ تعبیراستعمال نہیں کی تھی ، ورنہ اس سے رجوع کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
بہرحال ابوغدہ کی کرم فرمائی پر ظفر تھانوی صاحب نے اتنا کیا کہ جوتے کی خاک والےجملے سے رجوع کرلیا ، لیکن کیا کیا جائے کہ اس رجوع کے بعد بھی ابوغدہ نے اس عبارت کو شائع کردیا ۔

واضح رہے کہ اس رجوع کا تعلق صرف اس جملے سے ہے جس میں ظفر تھانوی صاحب نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو امام طحاوی کے جوتوں کی خاک سے بھی کم تر قرار دیا تھا ، کیونکہ ابوغدہ نے صرف اسی جملہ کی تاویل کی تھی اوربعد میں احتجاج بھی صرف اسی جملے سے متعلق کیا تھا جیساکہ اوپر نقل کیا گیا ہے، لیکن اس جملے کے علاوہ مذکورہ قول میں ابن تیمہ رحمہ اللہ کو متشددد بتلاکر جو یہ صراحت کی گئی کہ ان کے متشدد ہونے کی وجہ سے ان کے اقوال قابل قبول نہیں ہیں ، تو اس بات کے خلاف نہ تو ابوغدہ نے احتجاج کیا اورنہ ہی ظفرتھانوی نے اس سے رجوع کیا ہے۔

الغرض یہ کہ مذکورہ قول اس بارے میں بالکل صریح ہے کہ ابن تیمہ رحمہ اللہ کو متشدد بتلانے کا مقصد صرف اورصرف یہ ہے کہ اس بہانے ان کے اقوال کو رد کردیا جائے۔۔۔۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
اللہ آپ کے علم و عمل میں اضافہ فرمائے۔آمین
کفایت اللہ بھائی آپ قیامت خیز لکھتے ہیں اور وہ باتیں آپ کی تحریروں میں ہمیں مل جاتی ہیں جو اور کہیں دستیاب نہیں ہوتیں۔ جزاک اللہ
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سازش کا چوتھا نمونہ


( علامہ انورشاہ کشمیری حنفی متوفی ١٣٨٧ ھ)​

قارئین کرام !
آپ نے ابھی اوپر ٍٍظفر تھانوی صاحب کا قول پڑھا جس میں موصوف نے ابن تیمہ رحمہ اللہ پر نہ صرف یہ کہ تشدد کا الزام لگایا بلکہ ساتھ ہی یہ بھی صراحت کردی کہ اس تشدد کے سبب ان کے اقوال قابل قبول نہیں ہیں۔
لیکن اب اس سے بھی بڑا عجوبہ دیکھئے اوروہ بھی دنیائے حنفیت کی ایک بہت عظیم شخصیت کی زبان میں ، میری مراد علامہ انورشاہ کاشمیری صاحب ہیں ، ٍظفرتھانوی نے تو ابن تیمیہ پر تشدد کاالزام لگا کر اس سبب ان کے اقوال کو ناقابل قبول بتلایا ، مگرشاہ صاحب نے تو ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر تشددکاالزام لگا کر ان کے نقل پر بھی سوال اٹھا دیا ! انا للہ وانا الیہ راجعون !
ملاحظہ فرمائیں ، شاہ صاحب لکھتے ہیں:
أما الحافظ ابن تيمية رحمه الله تعالى فإنه ۔۔۔۔۔۔وإن نسب الزيادة والنقصان إلى إمامنا رحمه الله تعالى۔۔۔۔۔۔ لكنّ في طبعه سَوْرَةٌ وحِدَّة، فإذا عَطَفَ إلى جانب عَطَفَ ولا يبالى، وإذا تصدى إلى أحد تصدى ولا يُحاشي، ولا يُؤمَنُ مثله من الإفراط والتفريط، فالتردد في نقله لهذا، وإن كان حافظاً متبحراً.[ فيض البارى:1/ 63]۔

غورکریں کہ شاہ صاحب نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر تشدد کا الزام لگایا پھر اس کے سبب انہیں افراط وتفریط کا مرتکب قرار دیا حتی کے ان کی نقل کردہ باتوں کو بھی مشکوک قرار دے دیا۔
شاہ صاحب کے اس قول سے بھی یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ شیخ الاسلام رحمہ اللہ پر تشدد کا الزام لگانے میں کیا مصلحت کار فرما ہے، یعنی اس بہانے نہ صرف یہ کہ ان کے اقوال وفتاوی کو مہمل قراد دے دیا جائے بلکہ نقل میں بھی ان پر اعتماد قطعا نہ کیا جائے !!!! (یعنی وہ نقل میں خیانت کرسکتے ہیں) لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔

شیخ محمداسماعیل سلفی رحمہ اللہ ، شاہ صاحب کے الزام پر تبصرہ کرتے ہوئے بجاطورپرفرماتے ہیں:
فلينظر العاقل العارف بأحوال الرجال، هل لرأيه هذا قيمة علمية، لعل الشيخ لم يعلم أن نقده هذا علي ابن تيمية قد أسقط رتبته العلمية في أعين أهل المعرفة، يطعن علي ابن تيمية بالسورة والحق أنه السائر والثائر عليه. إن لم تؤمن بنقله فالعالم کله يؤمن بنقله.
وهل هذا، إلا سورة منک رحمک الله. نشأت بين العصبية المنتنة و البغض بأهل التوحيد والسنة المتمسکين بالسلفية، کأنک رحمک الله کوثري أوانک وترکماني زمانک لاتخاف في مؤمن إلا ولا ذمة.
أيش تقول إن محمد بن عبدالوهاب بليد، قليل العلم! و تقوية الايمان لشدته لم تفد شيئا! وابن تيمية لسورته لايعتمد عليه!!
أهذا علمک وذکاءک؟ رحمک الله ألا تري أن التوحيد الخالص القراني قد عم أقطار البلاد بمساعي هؤلاء الائمة رحمهم الله.
صدق المجربون: إن الخفاش لايفيده ضوء الشمس وإن کان نصف النهار.

[مقدمہ شرف اصحاب الحدیث :ص ١٥ از شیخ محمداسماعیل السفی رحمہ اللہ ، بحوالہ دعوۃ شیخ الاسلام ۔۔۔۔۔از شیخ صلاح الدین مقبول]۔
ترجمہ : شخصیات کے حالات سے واقف اورعقلمند حضرات غورکریں کہ کیا موصوف کی اس رائے کی کوئی علمی قیمت ہے ؟ شاید موصوف کو نہیں معلوم کہ ابن تیمہ رحمہ اللہ پران کی اس تنقید نے اہل علم کے درمیان خود انہیں کے علمی مرتبہ کو گرادیا ہے ، آن جناب ابن تیمہ رحمہ اللہ کو شدت سے مطعون کرتے ہیں حالانکہ موصوف خود متشدد اور ابن تیمہ رحمہ اللہ کے خلاف آگ بگولہ ہیں ، اگر آپ ابن تیمہ رحمہ اللہ کے نقل پر اعتماد نہیں کریں گے تو کیا ہوا پوری دنیا تو ان کے نقل پر اعتماد کرتی ہے۔
اللہ آپ پررحم کرے ، یہ سب کچھ محض آپ کی شدت پسندی ہی کا کرشمہ ہے ، آپ کی پرورش ہی گندی عصبیت اور اہل توحید وسنت اورسلفیت سے وابستہ حضرات کے خلاف بغض و کینہ کے درمیان ہوئی ہے ، اللہ آپ پر رحم کرے ! لگتاہے آپ اپنے وقت کے کوثری اوراپنے دور کے ترکمانی ہیں اور آپ کی نظر میں کسی مؤمن کی عزت و آبرو کا کوئی پاس ولحاظ نہیں ہے۔
آپ نے کیا کچھ نہیں کہا !!! محمدبن عبدالوہاب رحمہ اللہ نادان اور کم علم تھے ! اور’’تقویۃ الایمان‘‘ نامی کتاب ، شدت اسلوب کے باعث غیر مفید ثابت ہوئی!! اور ابن تیمہ رحمہ اللہ پر ان کی شدت کی وجہ سے اعتماد نہیں کیا جاسکتا!!!
اللہ آپ پررحم کرے یہی آپ کا علم وفہم ہے ؟ کیا آپ کو نہیں معلوم کہ ہرچہار جانب خالص قرآنی توحید، انہیں ائمہ رحمہم اللہ کی کاوشوں سے عام ہوئی ہے ۔
سچ کہا ہے تجربہ کار لوگوں نےکہ : ’’ چمگاڈر کے لئے سورج کی روشنی بے کار ہے خواہ وہ نصف نہار ہی میں کیوں نہ چمک رہا ہو۔
واضح رہے کہ یہی شاہ صاحب محمدبن عبدالوھاب رحمہ اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
أما محمد بن عبد الوهاب النَّجْدِي فإنه كان رجلاً بليداً قليلَ العلمِ، فكان يتسارع إلى الحكم بالكفر ولا ينبغي أن يقتحم في هذا الوادي إلا من يكون متيقِّظاً متقِناً عارفاً بوجوه الكفر وأسبابِهِ. [فيض البارى: 1/ 188]۔
ترجمہ : جہاں تک محمدبن عبدالوھاب نجدی کا تعلق ہے تو یہ نادان اورکم علم شخص تھا ، کسی کو کافر کہنے میں جلدی بازی کیاکرتا تھا ، اس وادی میں اسی شخص کوقدم رکھنا چاہئے جو بیدارمغز ، پختہ کار اور کفر کے اسباب و وجوہ سے واقف ہو۔
اب انصاف کریں کہ اصل متشدد کون ہے ، محمدبن عبدالوھاب النجدی رحمہ اللہ جیسی عظیم شخصیت کو نادان اورکم علم کہنا کون سا علمی انصاف ہے؟؟؟
ہم غربیوں کو بلاوجہ بدنام کیا جاتا ہے ، اوربداخلاقی و بدزبانی کا شکوہ کیا جاتاہے ایک پل کے لئے غورکریں کہ یہ ان کی زبان ہیں جودنیائے حنفیت کے علامہ ، محقق ، شیخ الحدیث بلکہ محدث کبیر ہیں ۔

الغرض انور شاہ کاشمیری کے مذکورہ قول سے بھی یہ حقیقت طشت ازبام ہوگئی کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر تشدد کا الزام لگانے کے پیچھے یہی حکمت کارفرما ہے کہ اس ہتھیار سے ان کے اقوال وفتاوی کو اپنے خلاف پاکر رد کردیا جائے حتی کہ ان کی ذریعہ نقل کردہ بات پربھی اعتماد نہ کیا جائے۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سازش کا پانچواں نمونہ


( مولوی عبدالحیی لکھنوی حنفی متوفی 1304 ھ)


مولوی لکھنوی نے شیخ الاسلام کی شان میں بدتمیزی کی حد کردی ہے ،اورشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے تعلق سے اڑائی گئی جھوٹی اورمن گھڑت باتوں کو نقل کرکے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے خطرہ سے اپنے پیروکاروں کو آگاہ کیا ہے ۔
اورپوری صراحت کے ساتھ یہ کہا ہے کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے تشدد کی وجہ سے ان کی بہت ساری باتیں مردود ہیں ، موصوف نے یہ باتیں تو بہت ساری کتب میں کہی ہیں ہم صرف ان کی ایک کتاب ’’ إمام الكلام في القراءة خلف الإمام‘‘ کے حواشی سے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں:

ان استناده في ذكر عيب الطحاوي بقول ابن تميمة ساقط عند ارباب القرائح الذكية فان مبالغات ابن تميمة وتشدداته الغير الرضية ومجماوزاته الحدود المرضية ومجازفاته الغير المرضية مشهورة بين جملة الوية الشريفة النقية [إمام الكلام في القراءة خلف الإمام 3/ 14]۔

ولذكر هاهنا عبارات السلف الدالة على بن علم ابن تميية اكبر من عقله وعلى تشدده وتجاوزهه عن حده في تقريره وتحريره
قال الحافظ ابن حجر العسقلاني وهو من ما وحية فيترجمته في كتاب الدر المختار في اعيان المائه الثامنة نقلان عن الذهبي انا لا اعتقده في جميع ماقاله بل انا مخالف له في مسائل اصلية وفرعية فانه كان مع سعة علمه وفرط شحاعته وسيلان ؟ وتغطمه لحرمات الدين تعتريه حدة في البحث وغضب وشطف الخصم يزرع له عداوة في النفوس وكان كبارهم خاضعين لعلومه معترفين بفضله وأنه بحر لا ساحل به وكنز لا نظير له ولكن يقمون عليه خلاف واقعالا انتهىة
[إمام الكلام في القراءة خلف الإمام 3/ 14]

وقال ابن حجر ايضاً نقلاعن رحلة الاقشهري حتى زها على أبناء جنسه واستشعر أنه مجتهد فصار يرد على صغير العلماء وكبيرهم قويهم وحديثهم حتى انتهى إلى عمر فخطأه في شيء فبلغ الشيخ إبراهيم الرقي فأنكر عليه فذهب إليه واعتذر واستغفر وقال في حق علي أخطأ في سبعة عشر شيئا ثم خالف فيها نص الكتاب منها اعتداد المتوفى عنها زوجها أطول الأجلين وكان لتعصبه لمذهب الحنابلة يقع في الأشاعرة حتى أنه سب الغزالي فقام عليه قوم كادوا ، يقتلونه [إمام الكلام في القراءة خلف الإمام (3/ 14)]۔

وقال ابن حجر ايضاً في لسان الميزان طالعت رد ابن تيمية على الحليف وجدته كثير التحامل في رد الاحاديث[إمام الكلام في القراءة خلف الإمام 3/ 14]


مذکورہ اقتباسات میں وہی باتیں ہیں جنہیں جمشید صاحب نے جابجاپیش کیا ہے اوران سب کی حقیقت اس دھاگہ میں بیان کردی گئی ہے۔

لیکن لکھنوی صاحب نے تو بدتمیزی اوربے حیائی کے سارے حدود پارکرتے ہوئے ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے متعلق واضح طور پر من گھڑت اورجھوٹی باتوں تک کو نقل کردیا ہے ،مثلا ابن بطوطہ کذاب کی بات نقل کرتے ہوئے لغوطراز ہیں:
وقال المورخ المغربي ابو عبد الله محمد الشهير بان بطوطة في رحلته المسماة بتحفة النظار في غرغائب المصار عند ذكر معالم دمشق وفصلائه وكان بدمشق الفقهاء الحنابلة تقي الدين ابن تيمية كبير الشام يتكلم في الفنون الا ان في عقله شيئاً وكان اهل دمشق يعظمونه اشد التعظيم ويعظهم على المنبر انتهى ثم ذكر بعض مقالته وأنه حضر مجلس وعظم يوم الجمعة فقال في وعظه ان الله ينزل الى سماء الدنيا كنزولي هذا ونزل درجه من درج المنبر فانكر عليه ذلك [إمام الكلام في القراءة خلف الإمام 3/ 14]

عرض ہے کہ ابن بطوطہ کے حوالہ سے موصف نے یہ حوالہ نقل کرکے بہت بری خیانت کا ثبوت دیا ہے ۔
یادرہے کہ ابن بطوطہ کی محولہ کتاب پوری کی پوری غیر معتبرہے اس کتاب کو ابن بطوطہ نے خود نہیں لکھا بلکہ اس کا مصنف ایک دوسرا شخص ہے اوراسے کذاب کہا گیا ہے :
حافظ ابن حجررحمہ اللہ کہتے ہیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابو عبد الله ابن بطوطة ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قال شيخنا ابو البركات ابن البلفيقي حدثنا بغرائب مما رآه فمن ذلك انه زعم انه دخل القسطنطينيه فرآى في كنيستها اثني عشر الف اسقف ثم انتقل الى العدوة ودخل بلاد السودان ثم استدعاه صاحب فاس وامره بتدوين رحلته - انتهى وقرأت بخط ابن مرزوق ان ابا عبد الله بن جزي نمقها وحررها بامر السلطان ابي عنان[الدرر الكامنة لابن حجر: 5/ 227]۔

معلوم ہوا کہ اس سفرنامہ کو لکھنے والا ابن بطوطہ نہیں بلکہ ’’ابوعبداللہ بن جزی ‘‘ ہے ۔

اوراس شخص کو کذاب کہا گیا ہے ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وقرأت بخط ابن مرزوق ان ابا عبد الله بن جزي نمقها وحررها بامر السلطان ابي عنان وكان البلفيقي رماه بالكذب فبرأه ابن مرزوق [الدرر الكامنة لابن حجر: 5/ 227]۔
جرح و تعدیل میں تعارض ہو توجرح کو مقدم کیا جاتاہے ابن زجی کو کذاب کہی جانے والی بات جرح ہونے کے ساتھ ساتھ مفسربھی ہے لہٰذا یہی مقدم ہے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ یہ پوری کتاب ہی غیر معتبر ہے ۔

نیز خود ابن بطوطہ کو بھی کذاب کہا گیا ہے ۔
علامہ ابن خلدون الإشبيلي (المتوفى: 808)نے کہا:
فتناحى النّاس بتكذيبه ولقيت أيّامئذ وزير السّلطان فارس بن وردار البعيد الصّيت ففاوضته في هذا الشّأن وأريته إنكار أخبار ذلك الرّجل لما استفاض في النّاس من تكذيبه[تاريخ ابن خلدون 1/ 228]۔

ابن بطوطہ کی مذکورہ بکواس بھی اس کے کذاب ہونے کی دلیل ہے کیونکہ :
ابن بطوطہ نو رمضان ٧٢٦ ھ كو جمعرات كے دن دمشق پہنچا تھا جیساکہ اس نے خود بیان کیا ہے:
وخرجت منها بالغد لفرط اشتياقي إلى دمشق. وصلت يوم الخميس التاسع من شهر رمضان المعظم عام ستة وعشرين إلى مدينة الشام فنزلت منها بمدرسة المالكية المعروفة بالشرابشية ودمشق هي التي تفضل جميع البلاد حسنا وتقدمها جمالا [رحلة ابن بطوطة ط دار الشرق العربي 1/ 62]۔

اور امام ابن تيميہ اس سے ایک ماہ قبل 6 شعبان ، 726 ھ كو قلعهء دمشق ميں مجبوس ہو چکے تھے ۔ اور اسى قيد ميں ان كا انتقال ہوا ، دیکھئے طبقات الحنابلة 2/ 405 البداية والنهاية 14/ 123 العقود الدرية 329. ۔

اب سوال یہ ہے کہ جب دمشق میں ابن بطوطہ کے ورود سے ایک ماہ قبل ہی ابن تیمیہ رحمہ اللہ قید میں محبوس ہوگئے اوراسی حالات میں فوت بھی ہوگئے تو ابن بطوطہ نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو خطبہ دیتے ہوئے کیسے دیکھا لیا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
کیا یہ بیان ابن بطوطہ کے کذاب ہونے کی دلیل نہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

نیز کہاجاتا ہے کہ ابن بطوطہ سے پہلے ’’ أبو علي ، عمر بن محمد بن حمد بن خليل السكوني (المتوفی 717)‘‘ نے بھی مذکورہ بات ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب کی ہے ، واللہ اعلم۔
عبد العزيز بن محمد بن علي آل عبد اللطيف لکھتے ہیں:
وقد اشتهرت هذه المقولة عن ابن بطوطة (متوفی ٧٧٩)، وهي تنسب - أيضاً - إلى أبي علي السكوني ، وأنه نسبها إلى ابن تيمية عزّ وجل قبل ابن بطوطة (متوفی ٧٧٩).[ دعاوى المناوئين لشيخ الإسلام ابن تيمية (1/ 140)]۔

لگتاہے کہ یہ جھوٹ سب سے پہلے أبو علي السكوني (المتوفی 717) نے بولا۔
پھر ابن بطوطہ (المتوفى: 779 ) نے اس کی تائید میں اپنا ایک مشاہدہ گڑھ لیا اوراپنے سفرنامہ میں بیان کردیا۔
پھر ابو عبد الله بن جزي نے بھی بغیر کسی تدبر کے اسے تحریر کردیا۔
اورپھر مولوی لکنوی جیسے لوگوں نے بھی ان کذابین کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اسے بیان کرنا اپنا فرض سمجھا۔

گویا کہ مذکورہ بات کو ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب کرنے میں کئی کذابین نے حصہ لیا ہے اوراسی کذب بیانی میں مولوی لکھنوی نے بھی ان کا ساتھ دیا ہے ، { لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ } [آل عمران: 61]
ابن بطوطہ کی اس بکواس کے بارے میں جاننے کے لئے درج ذیل موضوعات بھی دیکھ لیں۔
امام ابن تيميہ رحمہ اللہ پر ايک افترا والا قصہ - URDU MAJLIS FORUM
امام ابن تيمیہ (رح) پر لگائے گئے ايك بہتان كى حقيقت - URDU MAJLIS FORUM


قارئین کرام !
غورکرین کہ مولوی لکنوی نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی صرف ایک بات کو رد کرنے کی خاطر وہ تمام جھوٹی باتین بیان کرنے پر اتر آتے جو ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے متعلق باطل طور پر مشہور ہیں ، تو بتلائیں کہ اگر ہم ابوحنیفہ سے متعلق صرف وہی باتیں نقل کریں جو بسند صحیح ثابت ہوں تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ احناف کی ان ہفوات کے سامنے آنے کے بعد مجھے یہ سبق مل گیا ہے کہ آج تمام لوگوں کو ابوحنیفہ کی اوقات سے آگاہ کردینا چاہئے ، آج دین کی سب سے بڑی خدمت یہی ہے کہ ابوحنیفہ جیسی پرفتن اورگمراہ اورگمراہ گر شخصیت کے خطرہ سے پوری امت کو آگاہ کردیا ہے۔

واضح رہے کہ احناف تو ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے متعلق جھوٹی باتین پھیلارہے ہیں ، مگر ہم ان شاء اللہ ابوحنیفہ سے متعلق تلخ حقائق لوگوں کے سامنے رکھیں گے اوراس قوم کو بتائیں گے ابوحنفیہ کس گمراہ شخصیت کا نام ہے ۔
اعتدال پسند اورنام نہاد شرافت کا ڈھڈورا پیٹنے والے مطئمن رہیں اوراچھی طرح سمجھ لیں کہ ہم ابوحنیفہ سے متعلق وہی باتیں پیش کریں گے جو جلیل القدر محدثین سے باسند صحیح ثابت ہوں گے۔
اجلہ محدثین کے بالقابل آج کے نام نہاد مصلحین وشرفاء کی باتیں ہماری نظر میں جانوروں کی نجس وپلید لید سے بھی بدترہیں جس طرح اجلہ محدثین کے نظرمیں ابوحنیفہ کے اقوال جانوروں کی گندگی کے مانند نجس و خبیث ہیں ۔


آخر میں لکھنوی صاحب ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے خلاف اس شعلہ بیانی کے بعد اس کا مقصد بتلاتے ہوئے واضح طور پرلکھتے ہیں:
فنقول لما ثبت ان ابن تیمیہ موصوف بخفة العقل وبالتجاوز عن جد التوسط الذي يختاره اهل النقل لاسيما في رد منهاج الكرامة المسمى بمنهاج السنة فهل يعتبر قوله في باب الطحاوي انه ليست عاته نقد الحديث كنقد اهل العم ولم تكن له معرفة بالاسانيد كمعرعفة اهل العلم كلا والله لايقبل قوفه في حفه لما علم من تشدده وتجاوز عن حده كما لا يقبل قوله في حق اكاب الصوفيه الصافية واعظم الايمة الراضيه الواقع منه تشدد او تفنتا [إمام الكلام في القراءة خلف الإمام 3/ 14]۔



میرے خیال سے جمشید صاحب کے لئے اس قدر تاریخی دستاویزات اورثبوت کافی ہوں گے ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
اجتہاد یا تقلید


جمشیدصاحب نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر تشدد کاالزام لگا کر بڑی معصومیت سے کہا کہ:
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے جوکچھ فرمایاہے اس سے قبل ازیں تومیں لاعلم تھا اب تومجھے اپنی رائے پراوربھی زیادہ اعتماد ہوگیاہے۔
جمشید صاحب کے اس جملے سے لگتاہے کہ موصوف نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو جومتشدد بتلایا ہے ، وہ ان کا اپنا اجتہاد ہے جو ان کے مطالعہ کا نتیجہ ہے ، بلکہ دوسری جگہ پر جمشید صاحب نے اس کی صراحت بھی کردی ہے لکھتے ہیں:

حافظ ابن عبدالبر،امام نووی ،کی تحریرمیں جواعتدال وتوازن ہے وہ حضرت علامہ کی تحریر میں نہیں پایاجاتاہے۔یہ میری رائے ہے اوریہ میں نے اپنے مطالعہ کی بناء پر قائم کی ہے۔ آپ چاہیں تواس سے بصدشوق اختلاف کیجئے۔
لیکن بعض قرائن کی بنا پر ہمیں اس پر یقین کرنے میں تامل ہورہا ہے ، اور اس کے برعکس ہمیں یہی لگ رہا ہے کہ آن جناب کی مذکورہ رائے ان کے اجتہاد اور مطالعہ کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس سلسلےمیں موصوف اپنے اسلاف کی تقلید کررہے ہیں۔

اورقرائن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تحریریں شدت سے خالی ہیں ، اس کے علاوہ اکابرین احناف نے متعدد مقامات پر یہی الزام ابن تیمیہ رحمہ اللہ پرلگایا ہے ، حوالہ جات پیش کئے جاچکے ہیں ، اورجمشید صاحب کا ان سے ناواقف ہونا بعید لگتاہے ۔
خصوصا یہ بات قابل غور ہے کہ موصوف ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی شدت کے اثبات میں جو اقتباسات پیش کررہے ہیں ان میں سے بعض اقتباسات عین وہی ہیں جنہیں ان کے اکابرین نے پیش کرکے ابن تیمہ رحمہ اللہ کو متشدد بتلایا ہے ۔

مثلا جمشید صاحب کے پیش کردہ دو اقتباسات ملاحظہ ہوں:

''لیست عادتہ نقد الحدیث کنقد اہل العلم ،ولہذا روی فی شرح معانی الآثار الاحادیث المختلفہ،وانما رجح مایرجحہ منہا فی الغالب من جہۃ القیاس الذی رآہ حجۃ ویکون اکثر ہ مجروحا من جہۃ الاسناد ولایثبت فا نہ لم یکن لہ معرفۃبالاسناد کمعرفۃ اہل العلم بہ وان کان کثیرالحد یث فقہیاعالما''

اسی کی جانب اشارہ کیاہے حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ نے
وجدتہ (این تیمیہ )کثیرا التحامل فی ردالاحادیث التی یوردھاابن المطہر ا کان معظم ذلک الموضوعات والواہیات لکنہ رد فی ردہ کثیرامن الاحادیث الجیادالتی لم یستحضرحالۃ التصنیف مظانھا ،لانہ کان لاتساعہ فی الحفظ یتکل علی مافی صدرہ،والانسان عامد للنسیان،وکم من مبالغۃ لتوھین کلام الرافضی ادتہ احیانا الی تنقیص علی(لسان المیزان316/6)
خلاصہ اس کا یہ ہے کہ ابن تیمیہٌ نے ابن مطہر شیعی کے رد میں ایک کتاب لکھی منہاج السنۃ اس میں جہاں ابن مطہرکے پیش کردہ موضوع اورواہی حدیثوں کارد کیاوہیں اس میں بہت ساری اچھی حدیثیں بھی رد کردیں اوراس کی وجہ یہ ہوئی کہ انہوں نے اپنے حافظہ پر بھروسہ کیا (اورکتابوں کی جانب رجوع نہیں کیا)اورانسان کو بھول چوک سے سابقہ پڑتاہی ہے اوراسی طرح اس رافضی کی تردید میں وہ کہیں کہیں حضرت علی کی تنقیص تک جاپہنچے۔


یہ دونوں اقتباسات ہو بہو وہی ہیں جن کے حوالے سے ٍان کے بزرگ ظفر تھانوی نے اپنی کتاب ’’ قواعد فی علوم الحدیث: ص ٤٤١ ‘‘ میں ابن تیمیہ کو متشدد بتلایا ہے، پہلے اقتباس کو تھانوی صاحب نے نقل کیا ہے اوردوسرے کی طرف اشارہ کیا ہے ، اوراس کتاب کو کوثری پارٹی نے شائع کیا ہے، بدنام زمانہ زاہد کوثری کے کلمات اس کتاب کے شروع میں تقریض کے نام سے درج ہیں اور زاہد کوثری کے شاگر ابوغدہ نے اس کتاب کی تحقیق کرکے اسے شائع کیا ہے۔

اس بنا پر ہمیں یہ کہنے میں معذور سمجھا جائے کہ جمشید صاحب کی مذکورہ رائے کوثری وتھانوی پارٹی کی تقلید کا نتیجہ ہے ، اس میں موصوف کے اجتہاد کا کوئی دخل نہیں ، واللہ اعلم۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
میں نے انہیں کن معیوب اوصاف سے متصف کیاہے ذرا مثالوں سے واضح کریں۔
شرعی مسائل پر ان کی تحریروں کو پرشدت بتلانا ، تنقیص علی تک کا الزام لگانا ، یہ معیوب اوصاف سے متصف کرنا نہیں ہے؟؟؟

طبعیت مین حدت وشدت معیوب بات ہے؟
صرف طبیعت میں نہیں بلکہ شرعی مسائل پر مبنی ان کی تحریروں میں بھی آنجناب حدت وشدت کی بات کررہے ہیں، جیساکہ آپ کے اگلے جملے میں بھی ہے۔

تحریرمیں اگرنسبتااعتدال وتوازن کی کمی ہے تویہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے
اگرنسبتااعتدال وتوازن کی کمی ہے تو نسبتایہ معیوب بات بھی ہے ۔
بلکہ اس کی وجہ یہ رہی کہ ان کی زیادہ ترتحریرین مناظرہ کے طورپر لکھی گئی اورکسی کے رد میں لکھی گئیں ایسی تحریروں میں اعتدال وتوازن عموماکم ہوتاہی ہے۔
لیکن یہاں جو اقتباس پیش کیا گیا ہے اس کا تعلق کسی مناظرہ سے نہیں ہے ۔


نقد رجال میں تشدد اور شرعی مسائل کے بیان میں تشدد دونوں الگ الگ چیز ہے ، خلط ملط نہ کریں۔
کیانکتہ بیان کیاہے آنجناب نے! شرعی مسائل کے اصول مین حدیث شامل ہے اورحدیث کے اثبات ونفی کا دارومدار نقد رجال پرہے اورآنجناب فرمارہے ہیں دونوں الگ چیز ہے۔
دورکی کوڑی مت لائے ، رجال پر نقد کرنا اور شرعی مسائل بیان کرنا دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ، اوراگرنہیں ہے تو بتلائیے کہ جن ناقدین کو متشددین کی فہرست میں شمارکیا گیا ہے کہ وہ شرعی مسائل مثلا حلال وحرام کے بیان میں بھی تشدد سے کام لیتے تھے؟؟

ویسے آنجناب میرے لفظ تشدد کو ایک موقع پر غلط باتیں بیان کرنے سے تعبیر کیاہے تواسی تعبیر کے مطابق پوچھ رہاہوں کہ کیانقد رجال میں غلط باتیں بیان کرنے کی اجازت ہے۔
بالکل اجازت نہیں ہے اسی لئے تو تشدد کے سبب جو نقد ہوتا ہے اسے رد کردیاجاتاہے۔

اس کا مفہوم مخالف یہ نکالاکہ حدیث میں آنجناب کے بقول تشدد جائز ہے شرعی مسائل میں جائزنہیں۔ یہ انوکھاقاعدہ علم جرح وتعدل کی کس کتاب سے اخذ کیاہے ہمیں بھی بتایئے۔
حدیث (نقدرجال)میں تشدد جائز ہے یہ ہم نے کب کہا ؟ یقینا اس میں بھی تشدد جائز نہیں اسی لئے تو متشددین کی جوجرحین تشدد کے نتیجہ میں صادر ہوتی ہیں انہیں رد کردیاجاتاہے۔
یادرہے کہ تشدد سے متصف جارحین کی ہرجرح رد نہیں کی جاتی ہے بلکہ خاص وہ جرح رد ہوتی ہے جس کے بارے میں قرائن سے معلوم ہوجائے کہ یہ تشدد کے نتیجہ میں صادر ہوئی ہے۔


جاری ہے۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
الزامی جواب


الزاما کوئی بات پیش کرنا طعن وتشنیع نہیں ہوتا ، پہلے ہی اس کی وضاحت کی جاچکی ہے کہ اہل تشیع کو جواب دینے کے لئے کبھی کبھار علی رضی اللہ عنہ کے بعض خوبیوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے اس سے علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص مقصود نہیں ہوتی ہے۔
کسی بات کو محض الزاما پیش کرنااکابرامت کے تعلق سے میرے نزدیک سخت قابل اعتراض بات ہے۔ کوئی تحقیقی بات ہوتوضرور کریں۔ لیکن الزاما کوئی بات پیش نہ کرسکیں۔ مثلاشیعہ حضرات حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کے تعلق سے بے ہودہ باتیں کرتے ہیں توکیاالزاماہم اہل بیت کے تعلق سے ویسی ہی بیہودہ باتیں کہیں گے نعوذباللہ من سوء الفہم،یہ خیال بھی میرے نزدیک بے غیرتی کی نشانی ہے۔
اس کی ایک معمولی مثال لیں۔ رشتہ داروں میں جھگڑے ہوتے ہیں۔ ایک جانب کے لوگ کم عقل ہیں اورجھگڑے کے مارے عقل سے مائوف ہوکر اپنے ہی بزرگ رشتہ داروں پر جوبطورفریق ہیں گالیاں دینے لگتاہے برابھلاکہتاہے توکون شریف آدمی اس کے جواب میں اپنے دوسرے بزرگوں کو گالیاں دے گا۔ یاتووہ خاموش کرائے گا۔یااپنی برات بیان کرے گا۔یااس کے مقابلہ میں لاحول پڑھے گا۔ جو شق الزاماوالی آپ نے بیان کی ہے وہ آپ کاہی جگر اورحصہ ہے۔
الزاما کا آپ نے غلط مفہوم لے لیا ہے ، الزاما کا یہ مفہوم نہیں کہ ان کی گالیوں کا جوب گالیوں سے دیا جائے بلکہ اس کامفہوم یہ ہے کہ فریق ثانی کے مسلم اصولوں کی روشنی میں بات کی جائے ۔
مثلا شیعہ حضرات شیخین رضی اللہ عنہما پر اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین میں تاخیر کی ، اب تحقیقی جواب کے ساتھ ساتھ الزاما اہل سنت کی طرف سے یہ جواب دیا جاسکتا ہے ، کہ اگرشیخین نے تاخیر کی تو علی رضی اللہ عنہ سے تاخیر کیسے ہوگئی ، کفن دفن کی ذمہ داری سب سے پہلے قریبی لوگوں ہی پر عائد ہوتی ہے ، پھر علی رضی اللہ عنہ کیوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے ؟؟؟
اس طرح کے الزامی جوابات مراد ہیں نہ کہ وہ جو آپ نے سمجھ رکھا ہے۔

ویسے تحریر کا یہ ٹکرالاجواب ہے۔
اہل تشیع کو جواب دینے کے لئے کبھی کبھار علی رضی اللہ عنہ کے بعض خوبیوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے
میرے خیال سے خوبیوں کے بجائے آنجناب خامیوں لکھناچاہ رہے ہوں گے لیکن ہمت نہیں پڑی ہوگی اس لئے اس کوخوبیوں سے بدل دیا۔ویسے یہ ٹائپنگ کی بھی غلطی ہوسکتی ہے۔ اگرٹائپنگ کی غلطی نہیں ہے توہمیں دس بارہ خامیاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بتایئے تاکہ ہمارے علم میں اضافہ ہو۔
ہم نے ’’خوبیوں‘‘ صحیح طور پر لکھا ہے ، اوراس کی ایک مثال اوپر پیش کی جاچکی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنازہ میں تاخیر کی جوخوبی شیخین میں بتلائی جاتی ہے بعینہ وہی خوبی علی رضی اللہ عنہ میں بھی بتلائی جاتی ہے ۔
اسی طرح کی خوبیاں مراد ہیں یعنی علی رضی اللہ عنہ میں ہوں تو اسے عیب نہیں مانا جاتا لیکن دیگر صحابہ میں انہیں خوبیوں کو شیعہ عیب مانتے ہیں اس لئے الزاما یہی خوبی اوروصف علی رضی اللہ عنہ کی سیرت سے بھی پیش کیا جاتاہے۔

اس کے علاوہ میں بطور مثال شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ ہی کے الفاظ میں ایک اقتباس نقل کرتاہوں جس میں شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے الزامی جواب دیا ہے اورساتھ میں یہ صراحت بھی کردی ہے کہ اس سے مقصود صرف یہ ہے کہ جس طرح علی رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں عذر پیش کیا جاتاہے اسی طرح عثمان رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں بھی عذر پیش کرنا چاہئے ۔
ملاحظہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اسی کتاب منہاج السنہ میں لکھتے ہیں:
والمقصود هنا أن ما يعتذر به عن علي فيما أنكر عليه يعتذر بأقوى منه عن عثمان، فإن عليا قاتل على الولاية، وقتل بسبب ذلك خلق كثير عظيم ، ولم يحصل في ولايته لا قتال للكفار، ولا فتح لبلادهم، ولا كان المسلمون في زيادة خير، وقد ولى من أقاربه من ولاه، فولاية الأقارب مشتركة، ونواب عثمان كانوا أطوع من نواب علي وأبعد عن الشر.[منهاج السنة النبوية (6/ 191)]۔
ترجمہ :یہاں مقصود یہ ہے کہ جس طرح کی باتوں سے علی رضی اللہ عنہ پر کی گئی تنقید سے متعلق اعتذار پیش کیا جاتا ہے ، اس سے قوی تر باتوں کے ذریعہ عثمان رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں بھی اعتذار پیش کیا جاسکتاہے ، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے حکومت کے لئے جنگ کی جس کے سبب بہت بڑی تعداد میں لوگ شہید ہوئے ،اوران کی یہ جنگ نہ توکفارکے خلاف ہوئی اورنہ ہی ان کے شہرفتح ہوئے اورنہ ہی مسلمانوں کو کوئی مزید فائدہ حاصل ہوا ، نیز علی رضی اللہ عنہ کے اقرباء میں سے بھی لوگوں کو عہدہ ملا ، تو اقرباء کو عہدہ ملنے والی بات تو دونوں کے یہاں مشترک ہے ، علاوہ ازیں عثمان رضی اللہ عنہ کے جو مصاحبین تھے وہ علی رضی اللہ عنہ کےمصاحبین کی بنسبت کہیں زیادہ فرمانبردار اوربرائیوں سے دورتھے۔
غورفرمائیں کہ یہاں ابن تیمیہ رحمہ اللہ ، علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص قطعا نہیں کررہے ہیں بلکہ وہ تو مثال کے ذریعہ سمجھا رہے ہیں کہ جس طرح علی رضی اللہ کے خلاف اس طرح کی باتیں کہی جاتی ہیں تو ان کیا دفاع کیا جاتا ہے اسی طرح عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بھی بات کی جاتے تو اس کا بھی ہمیں دفاع کرنا چاہئے ۔

خصوصا اس بات پرغورکریں کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہ الزامی دے کر اس کا مقصد بھی پوری صراحت کے ساتھ یہ کہتے ہوئے سامنے رکھ دیا ہے کہ:
والمقصود هنا أن ما يعتذر به عن علي فيما أنكر عليه يعتذر بأقوى منه عن عثمان،
ترجمہ :یہاں مقصود یہ ہے کہ جس طرح کی باتوں سے علی رضی اللہ عنہ پر کی گئی تنقید سے متعلق اعتذار پیش کیا جاتا ہے ، اس سے قوی تر باتوں کے ذریعہ عثمان رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں بھی اعتذار پیش کیا جاسکتاہے
اس کے باجود بھی اس طرح کے الزامی جوابات کو بنیاد بناکر علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص کا الزام لگانا شیعیت ہی کا نمونہ ہے۔


مزید برآں یہ کے دیگرمقامات پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کھل کر علی رضی اللہ عنہ کے مقام ومرتبہ کی وضاحت کردی ہے ۔
مثلا اسی کتاب میں فرماتے ہیں:
وعلي أفضل ممن هو أفضل من معاوية - رضي الله عنه -، فالسابقون الأولون الذين بايعوا تحت الشجرة كلهم أفضل من الذين أسلموا عام الفتح، وفي هؤلاء خلق كثير أفضل من معاوية، وأهل الشجرة أفضل من هؤلاء كلهم، وعلي أفضل جمهور الذين بايعوا تحت الشجرة، بل هو أفضل منهم كلهم إلا الثلاثة، فليس في أهل السنة من يقدم عليه أحدا غير الثلاثة، بل يفضلونه على جمهور أهل بدر وأهل بيعة الرضوان، وعلى السابقين الأولين من المهاجرين والأنصار. [منهاج السنة النبوية (4/ 396)]۔

نیزاسی کتاب میں فرماتے ہیں:
فضل علي وولايته لله وعلو منزلته عند الله معلوم ، ولله الحمد، من طرق ثابتة أفادتنا العلم اليقيني، لا يحتاج معها إلى كذب ولا إلى ما لا يعلم صدقه[منهاج السنة النبوية (8/ 165)]۔

ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ان تصریحات کے ہوئے ہوئے کیا یہ سوچا جاسکتاہے کہ وہ علی رضی اللہ عنہ کی نقیص کریں گے۔
قابل غوربات یہ بھی ہے کہ امام ذھبی رحمہ اللہ نے اپنے استاذ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اسی کتاب کی تلخیص کی مگر ان انہوں نے بھی ان تیمیہ رحمہ اللہ پر ایسا کوئی الزام نہیں لگایاہے۔

ہم جمشید صاحب سمیت ان کی پوری پارٹی سے گذارش کرتے ہیں کہ اگر امام ابن تیمہ رحمہ اللہ کی کوئی ایک عبارت پیش کریں جس میں علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص کی گئی ہو۔





جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
بے بنیاد الزامات


ویسے بقول ابن حجر حضرت ابن تیمیہ نے 17مسائل بتائے ہیں اورایک موقع پر کہاکہ حضرت علی نے کتاب اللہ کی مخالفت کی ۔ یہ ان کاہی جگر تھا۔ جیساکہ الدرالکامنہ میں موجود ہے۔ اورایک موقع پر تو حضرت عمرکی غلطی بھی بیان کی تھی۔
حتى انتهى إلى عمر فخطأه في شيء فبلغ الشيخ إبراهيم الرقي فأنكر عليه فذهب إليه واعتذر واستغفر وقال في حق علي أخطأ في سبعة عشر شيئا ثم خالف فيها نص الكتاب منها اعتداد المتوفى عنها زوجها أطول الأجلين وكان لتعصبه لمذهب الحنابلة يقع في الأشاعرة حتى أنه سب الغزالي فقام عليه قوم كادوا يقتلونه۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (1/179)
یہ اقتباس جو اردو اورعربی عبارت پرمشتمل ہے دونوں کو ایک ساتھ دیکھیں تو ان میں درج ذیل الزمات ہیں :


  1. ابن تیمہ رحمہ اللہ نے سترہ مسائل میں علی رضی اللہ عنہ کی غلطی بیان کی۔
  2. علی رضی اللہ عنہ پر کتاب اللہ کی مخالفت کا الزام لگایا۔
  3. خلیفہ دوم عمر فارق رضی اللہ کی بھی غلطی بیان کی ۔
  4. مذہب حنابلہ سے تعصب رکھتے تھے۔
  5. اوراس کے سبب اشاعرہ پر نکتہ چینی کیا کرتے تھے۔
  6. امام غزالی کو برابھلا کہا جس کے سبب لوگ ان کے قتل کے در پے ہوگئے۔



ان سب کا مختصرجواب تو یہ ہے کہ یہ باتیں بے حوالہ ہیں اگر واقعی ایسا ہے تو آپ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتابوں سے ان باتوں کا ثبوت دیں ، یا کسی اورکتاب سے نقل کررہے ہیں تو ابن تیمیہ رحمہ اللہ تک اس کی صحیح سند بیان کریں۔

واضح رہے کہ جب امام ابوحنیفہ کی طرف منع تقلید یا اس جیسی کوئی بات منسوب کی جاتی ہے ہے تواحناف فورا مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کی صحیح سند پیش کرو ، مجھے یاد ہے کہ میں نے بہت پہلے بھی جمشدصاحب کے سامنے یہ بات رکھی تھی ، اوراس پر جمشید صاحب اس کا ثبوت مانگنے لگے ! میں نے ان کی خواہش کے مطابق ویڈیو کی شکل میں ثبوت بھی فراہم کردیا مگر جمشیدصاحب اس پر مطمئن نہ ہوئے تفصیل اس دھاگہ میں ملاحظہ فرمائیں۔

بہرحال ویڈیو کاثبوت تو میں دے چکاہوں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک ایک تحریری ثبوت بھی حاضر کردیتا ہوں ، جسے جمشید صاحب بھی غیر معتبر نہیں کہہ سکیں گے، تو ملاحظہ ہو:

انور شاہ کاشمیری جو ابن تیمیہ رحمہ اللہ پرتشدد کا الزام لگانے میں سرفہرست ہیں ، یہی بزرگ فرماتے ہیں:
واعلم أن نفي الزيادة والنقصان وإن اشتهر عن الإمام الأعظم، لكني متردد فيه بعد. وذلك لأني لم أجد عليه نقلاً صحيحاً صريحاً، وأما مانسب إليه في «الفقه الأكبر» فالمحدِّثون على أنه ليس من تصنيفه. بل من تصنيف تلميذه أبي مطيع البلخِي، وقد تكلم فيه الذهبي، وقال: أنه جَهْمِيٌّ. أقول: ليس كما قال، ولكنه ليس بحجةٍ في باب الحديث، لكونه غير ناقد. وقد رأيت عدة نُسخ للفقه الأكبر فوجدتُها كلها متغايرة. وهكذا «كتاب العالم والمتعلم» «والوسيطين» الصغير والكبير، كلها منسوبة إلى الإمام، لكن الصواب أنها ليست للإمام.[فيض البارى: (1/ 63)]۔
ترجمہ :اورجان لو کہ گرچہ امام اعظم (ابوحنیفہ ) سے ایمان میں کمی وزیادتی کی نفی مشہورہے لیکن مجھے اس میں تردد ہے ، اورایسا اس لئے کیونکہ میں نے اس سلسلے میں کوئی ایسا قول نہیں پایا جو صریح اور نقلا (سندا) صحیح ہو۔ اورجہاں تک امام صاحب کی طرف منسوب فقہ اکبر نامی کتاب کی بات ہےتو محدثین کا فیصلہ یہ ہے کہ یہ کتاب امام ابوحنیفہ کی تصنیف نہیں ہے ، بلکہ ان کے شاگر ابومطیع البلخی کی تصنیف ہے اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس پر جرح کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جہمی تھا ۔ میں کہتاہوں کہ یہ ایسا نہیں تھا لیکن حدیث کے باب میں یہ حجت نہیں ہے کیونکہ یہ غیر ناقد تھا ، نیز میں نے فقہ اکبر کے کئی نسخے دیکھے ہیں ، اور ہرایک کو ایک دوسرے سے مختلف پایا ہے ، یہی حال ’’کتاب العالم والمتعلم‘‘ اور ’’ الوسيطين‘‘ الصغير والكبير نامی کتابوں کا بھی ہے ، یہ ساری کتابیں امام ابوحنیفہ کی طرف منسوب ہیں لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ ابوحنیفہ کی کتابیں نہیں ہیں ۔
قارئین غور فرمائیں کہ شاہ صاحب نے یہ ماننے سے انکار کردیا کہ امام ابوحنیفہ نے ایمان میں کمی وزیادتی کی نفی کی ہے ، کیونکہ امام صاحب سے یہ قول بسندصحیح ثابت نہیں ہے اور فقہ اکبر میں ابوحنیفہ کے جو اقوال ہیں وہ بھی حجت نہیں کیونکہ ان کا ناقل ابومطیع البلخی ہے اور یہ مجروح ہے۔

اس حوالے سے یہ بات صاف ہوگئی کہ جب تک امام ابوحنیفہ کی کوئی بات بسند صحیح منقول نہ ہو تب تک وہ بات امام ابوحنیفہ کی نہیں مانی جاسکتی ۔

ہم بھی ابن تیمہ رحمہ اللہ سے متعلق اسی اصول کے تحت کہتے ہیں کہ جب تک امام ابن تیمیہ کی کوئی بات بسند صحیح منقول نہ ہو تب تک وہ بات امام ابن تیمہ کی نہیں مانی جاسکتی ۔

یہ تو مختصراجوب تھا اب تفصلی جواب آگے ملاحظہ ہو۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
علی رضی اللہ عنہ کی تغلیط کاالزام


مذکورہ اقتباس میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کی غلطی بیان کی ، اول تو اس کا کوئی حوالہ نہیں ، دوم یہاں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ غلطی بیان کرنے سے کیا مراد ہے؟؟؟ کیا اجتہادی غلطی کی طرف اشارہ ہے ؟؟؟

اگر ایسا ہی ہے تو بتلائے کہ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اجتہادی غلطیاں نہیں ہوئی ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟
اگر نہیں تو ذیل میں علی رضی اللہ عنہ کے کچھ فتاوے و اعمال درج کئے جاتے ہیں اس بارے وضاحت کریں کہ احناف نظر میں یہ درست ہیں یا نہیں ؟؟؟
اگر درست ہیں تو احناف کے یہاں یہ قابل قبول کیونکہ نہیں اوردرست نہیں ہیں ؟؟ تو احناف کو یہ حق کہاں سےملا کہ وہ علی رضی اللہ عنہ کی تغلیط کریں:

١: علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک موزے پرمسح درست ہے۔
امام ابن المنذر رحمه الله (المتوفى:319) نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، ثنا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، ثنا يَزِيدُ بْنُ مَرْدَانَبَةَ، ثنا الْوَلِيدُ بْنُ سَرِيعٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا بَالَ، ثُمَّ تَوَضَّأَ، وَمَسَحَ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ[الأوسط لابن المنذر: 1/ 462 ]۔

٢:علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک بغیر ولی کے نکاح جائز نہیں۔
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى:458) نے کہا:
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ وأبو سعيد بن أبي عمرو قالا ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب أنا أحمد بن عبد الحميد ثنا أبو أسامة عن سفيان عن سلمة بن كهيل عن معاوية بن سويد يعني بن مقرن عن أبيه عن علي رضي الله عنه قال : أيما امرأة نكحت بغير إذن وليها فنكاحها باطل لا نكاح إلا بإذن ولي هذا إسناده صحيح وقد روي عن علي رضي الله عنه بأسانيد أخر وإن كان الاعتماد على هذا دونها [السنن الكبرى للبيهقي: 7/ 111 ]۔

٣: علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک وترکی نماز سنت ہے۔
امام احمد رحمہ اللہ (المتوفى: 241) نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، سَمِعْتُ عَاصِمَ بْنَ ضَمْرَةَ، يُحَدِّثُ عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: " لَيْسَ الْوَتْرُ بِحَتْمٍ كَالصَّلَاةِ، وَلَكِنَّهُ سُنَّةٌ فَلَا تَدَعُوهُ " قَالَ شُعْبَةُ: " وَوَجَدْتُهُ مَكْتُوبًا عِنْدِي: وَقَدْ أَوْتَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " [مسند أحمد ط الرسالة (2/ 205) ]۔

٤:علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک بے نمازی کافر ہے۔
امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ(المتوفى: 235) نے کہا:
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي إِسْمَاعِيلَ , عَنْ مَعْقِلٍ الْخَثْعَمِيِّ قَالَ: أَتَى عَلِيًّا رَجُلٌ وَهُوَ فِي الرَّحْبَةِ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ , مَا تَرَى فِي امْرَأَةٍ لَا تُصَلِّي؟ قَالَ: «مَنْ لَمْ يُصَلِّ فَهُوَ كَافِرٌ»[مصنف ابن أبي شيبة (6/ 171)]۔

٥:علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک مرد اپنی فوت شدہ بیوی کو غسل دے سکتاہے۔
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى:211) نے کہا:
أَخْبَرَنِي عُمَارَةُ بْنُ مُهَاجِرٍ، عَنْ أُمِّ جَعْفَرِ بِنْتِ مُحَمَّدٍ، عَنْ جَدَّتِهَا أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ قَالَتْ: أَوْصَتْ فَاطِمَةُ إِذَا مَاتَتْ أَنْ لَا يُغَسِّلَهَا إِلَّا أَنَا وَعَلِيٌّ قَالَتْ: «فغَسَّلْتُهَا أَنَا وَعَلِيٌّ»[مصنف عبد الرزاق: 3/ 409]

٦:علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک متوفی عنہا کی عدت ابعدالاجلین ہے۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235) نے کہا:
حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْقِلٍ، قَالَ: شَهِدْتُ عَلِيًّا وَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ امْرَأَةٍ تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا وَهِيَ حَامِلٌ، قَالَ: «تَتَرَبَّصُ أَبْعَدَ الْأَجَلَيْنِ»[مصنف ابن أبي شيبة: 3/ 555]

٧:علی رضی اللہ عنہ کے نے آگ سے جلا کرسزادی ۔
امام بخاري رحمه الله (المتوفى:256) نے کہا:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عِكْرِمَةَ أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَرَّقَ قَوْمًا فَبَلَغَ ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ لَوْ كُنْتُ أَنَا لَمْ أُحَرِّقْهُمْ لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تُعَذِّبُوا بِعَذَابِ اللَّهِ وَلَقَتَلْتُهُمْ كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ[صحيح البخاري: 7/ 568]

٨:علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک عیدمیں بارہ تکبیرات ہیں۔
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى:211)نے کہا:
عَنِ ابْنِ أَبِي يَحْيَى، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: «عَلِيٌّ يُكَبِّرُ فِي الْأَضْحَى وَالْفِطْرِ وَالِاسْتِسْقَاءِ سَبْعًا فِي الْأُولَى، وَخَمْسًا فِي الْأُخْرَى، وَيُصَلِّي قَبْلَ الْخُطْبَةِ وَيَجْهَرُ بِالْقِرَاءَةِ» قَالَ: «وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ يَفْعَلُونَ ذَلِكَ»[مصنف عبد الرزاق: 3/ 292]۔

٩: علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک لوطی کو قتل کیا جائے گا۔
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى:458)نے کہا:
أخبرنا أبو الحسين بن بشران أنبأ الحسين بن صفوان ثنا بن أبي الدنيا ثنا محمد بن الصباح ثنا شريك عن القاسم بن الوليد عن بعض قومه أن عليا رضي الله عنه رجم لوطيا
[السنن الكبرى للبيهقي: 8/ 232]

امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235): نے کہا:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ الْوَلِيدِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ قَيْسٍ: «أَنَّ عَلِيًّا رَجَمَ لُوطِيًّا»[مصنف ابن أبي شيبة: 5/ 497]

امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى:456)نے کہا:
نا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ نُبَاتٍ نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَصْرٍ نا قَاسِمُ بْنُ أَصْبَغَ نا ابْنُ وَضَّاحٍ نا مُوسَى بْنُ مُعَاوِيَةَ نا وَكِيعٌ نا ابْنُ أَبِي لَيْلَى عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ الْوَلِيدِ الْمِهْرَانِيِّ عَنْ يَزِيدَ بْنِ قَيْسٍ أَنَّ عَلِيًّا رَجَمَ لُوطِيًّا[المحلى لابن حزم: 12/ 390]

١٠علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک ربع دینار کی چوری پرہاتھ کاٹنا درست ہے۔
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى:458):
أخبرنا أصحاب جعفر بن محمد عن أبيه أن عليا رضي الله عنه قال القطع في ربع دينار فصاعدا[السنن الكبرى للبيهقي: 8/ 260]۔

امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى:211):
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ , قَالَ: أَخْبَرَنِي جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ , عَنْ أَبِيهِ , أَنَّ عَلِيًّا: «قَطَعَ فِي بَيْضَةٍ مِنْ حَدِيدٍ»[مصنف عبد الرزاق: 10/ 237]

امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235) نے کہا:
حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ: «أَنَّهُ قَطَعَ يَدَ سَارِقٍ فِي بَيْضَةِ حَدِيدٍ ثَمَنُهَا رُبْعُ دِينَارٍ» [مصنف ابن أبي شيبة: 5/ 475]

١١: علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک اپنی بیوی کو’’ أَنْتِ عَلَيَّ حَرَامٌ‘‘ کہنے سے تین طلاقیں پڑجائیں گی۔
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى:211)نے کہا:
عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنَّهُ قَالَ فِي الرَّجُلِ يَقُولُ لِامْرَأَتِهِ: أَنْتِ عَلَيَّ حَرَامٌ قَالَ: «هِيَ ثَلَاثٌ»[مصنف عبد الرزاق: 6/ 403]۔

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى:458):
أخبرنا أبو القاسم مجالد بن عبد الله بن مجالد البجلي بالكوفة نا مسلم بن محمد بن أحمد بن مسلم التميمي نا الحضرمي نا سعيد بن عمرو الأشعثي أنا عبثر بن القاسم عن مطرف عن عامر هو الشعبي : في الرجل يجعل امرأته عليه حراما قال يقولون إن عليا رضي الله عنه جعلها ثلاثا[السنن الكبرى للبيهقي: 7/ 351]

١٢: علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک زبردستی کی طلاق مردود ہے۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235):
نا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَوَكِيعٌ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَلِيٍّ، «أَنَّهُ كَانَ لَا يَرَى طَلَاقَ الْمُكْرَهِ شَيْئًا»[مصنف ابن أبي شيبة: 4/ 82]

امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى:456)نے کہا:
وَمِنْ طَرِيقِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ الْحَسَنِ: أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: لَيْسَ لِمُسْتَكْرَهٍ طَلَاقٌ.[المحلى لابن حزم: 7/ 206]۔

١٣:علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک نکاح سے قبل طلاق نہیں ہے۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235)نے کہا:
حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنِ النِّزَالِ بْنِ سَبْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: «لَا طَلَاقَ إِلَّا بَعْدَ نِكَاحٍ» وَذُكِرَ أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ قَالَ: إِنْ حَلَفَ بِطَلَاقِهَا ثُمَّ تَزَوَّجَهَا طُلِقَتْ[مصنف ابن أبي شيبة: 7/ 305]۔

١٤: ھدم طلاق سے متعلق علی رضی اللہ عنہ کا موقف۔
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى:458)نے کہا:
أخبرنا أبو محمد عبد الله بن يوسف أنا أبو سعيد بن الأعرابي نا الحسن بن محمد بن الصباح الزعفراني نا عبد الوهاب بن عطاء عن سعيد عن الحكم عن رجل من أهل هجر يقال له مزيدة عن أبيه أن عليا رضي الله عنه قال : هي عنده على ما بقي من طلاقها قال قال سعيد كان قتادة يأخذ بهذا القول يعني في الرجل يطلق تطليقة أو تطليقتين ثم تزوج ثم يراجعها[السنن الكبرى للبيهقي: 7/ 365]۔

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى:458)نے مزید کہا:
أخبرنا أبو محمد بن يوسف أنا أبو سعيد بن الأعرابي نا الزعفراني نا أبو عباد نا شعبة نا الحكم عن مزيدة بن جابر عن أبيه أنه سمع عليا رضي الله عنه يقول : هي عنده على ما بقي [السنن الكبرى للبيهقي: 7/ 365]

١٥: اپنی ایک بیوی کو ایک ہزار طلاق دینے سے متعلق علی رضی اللہ عنہ کا موقف۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235) نے کہا:
نا وَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَلِيٍّ فَقَالَ: إِنِّي طَلَّقْتُ امْرَأَتِي أَلْفًا قَالَ: «بَانَتْ مِنْكَ بِثَلَاثٍ، وَاقْسِمْ سَائِرَهَا بَيْنَ نِسَائِكَ»[مصنف ابن أبي شيبة: 4/ 62]

امام دارقطنی رحمہ اللہ ( 507) نے کہا:
نا بن صاعد نا محمد بن زنبور نا فضيل بن عياض عن الأعمش عن حبيب بن أبي ثابت قال : جاء رجل إلى علي بن أبي طالب فقال إني طلقت امرأتي ألفا قال علي يحرمها عليك ثلاث وسائرهن اقسمهن بين نسائك [سنن الدارقطني: 4/ 21]

اس کے علاوہ فقہ علی نامی کتاب میں درج ذیل اقوال بھی ان سے منقول ہیں :

: علی رضی اللہ عنہ مدینہ کے حرم ہونے کے قائل تھے (فقہ علی :ص٦٩٤)۔
: علی رضی اللہ عنہ سجدوں کے درمیان دعاکے قائل تھے ، (فقہ علی: ٤٨٠)۔
: علی رضی اللہ عنہ دوبارہ جنازہ کے جواز کے قائل تھے،(فقہ علی:٥٠٦)۔
: علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک شاتم رسول کا ذمہ ٹوٹ جاتاہے،(فقہ علی:٣٣٦)۔
: علی رضی اللہ عنہ سفر میں جمع بین الصلاتین کے قائل تھے،(فقہ علی: ٤٢٧)۔
: علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک حرم میں کفارداخل نہیں ہوسکتے،(فقہ علی:٦٩٩)۔
: علی رضی اللہ عنہ ، عیدگاہ میں جاتے وقت تکبیرکے قائل تھے (فقہ علی:٦٠٤)۔


نوٹ : فقہ علی نامی کتاب تک ہماری رسائی نہیں اس کتاب کے حوالے ’’علمی مقالات: ج٢ ص ٦١٥ تا ٦١٨ سے ماخوذ ہیں۔

علی رضی اللہ عنہ کے ان اقوال یا اعمال کو تمام احناف یا جمہور احناف نہیں مانتے اس کی وجہ کیا ہے ؟؟؟؟ بتانے کی زحمت کریں !!

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
کتاب اللہ کی مخالفت

مذکورہ اقتباس میں بغیر کسی حوالہ اوربغیر کسی تفصیل کے یہ بھی کہا گیا کہ شیخ الاسلام نے علی رضی اللہ عنہ پر کتاب اللہ کی مخالفت کا الزام لگایا، لاحول ولاقوۃ الاباللہ۔

قارئین ! آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اسی فورم پر ’’مام ابوحنیفہ کا فتویٰ بابت مدت رضاعت ‘‘ کے عنوان سے ایک ٹھریڈ شروع کیا گیا جس میں بتلایا گیا کہ ابوحنیفہ نے قران کی صریح مخالفت کی ہے ، اور قران کے خلاف ابوحنیفہ نے جو بات کہی ہے اس کی تائید میں کوئی صحیح تو درکنار ، ضعیف حتی کی موضوع روایت تک کا بھی وجود نہیں۔

اس ٹھریڈ میں محترم شاہد نذیر بھائی جزاہ ربی خیرا مسلسل دریافت کرتے رہے کہ امام ابوحنیفہ نے قران کے خلاف فتوی کیوں دیا؟ اس سلسلے میں ان کےپاس کیادلیل تھی لیکن دنیائے حنفیت کے کسی ایک شخص سے بھی یہ نہ ہوسکا کہ ابوحنیفہ کی دلیل دریافت کرسکے ، جس سے یہی نتیجہ سامنے آیا کہ امام ابوحنیفہ نے کتاب اللہ کی مخالفت کی ہے۔

لیکن جب جمشدصاحب نے یہ دیکھا کہ ہمارے امام پر کتاب اللہ کی مخالفت کا الزام لگ رہا ہے تو موصوف نے کسی اورکی نہیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہی تحریریں سامنے رکھ دیں کہ ، اورشیخ الاسلام رحمہ اللہ کی کتاب ’’رفع الملام‘‘ سےاقتباسات پیش کئے جس کا ماحصل یہ تھا کہ کوئی بھی امام کتاب اللہ یا حدیث رسول کی مخالفت عمدا نہیں کرسکتا بلکہ اس اگر اس نے کتاب وسنت کے خلاف کوئی بات کہی ہے تو ضرور اس کے پاس کوئی نہ کوئی عذر رہا ہو گا ، شیخ لاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ نے اس قبیل کے تمام اعذار کو بڑی تفصیل سے اپنی اس کتاب میں بیان کیا ہے، قارئین ابن تیمہ رحمہ اللہ کی یہ کتاب پڑھ کر پوری تفصیل سے آگاہی حاصل کرسکتے ہیں۔


ٖقارئین کرام!!
ذرا غورکریں ابن تیمیہ جیسی عظیم شخصیت نے جب عام ائمہ کے بارے میں یہ نصیحت کی ہے کہ کتاب و سنت کے خلاف ان کی کوئی بات ملے تو ان ائمہ کی ملامت قطعا نہ کی جائے بلکہ کوئی نہ کوئی عذر مان کر ان کے ساتھ حسن ظن رکھا جائے ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے باقائدہ اس پر ایک پوری کتاب بھی لکھ دی۔

اب ذرا ٹھندے دل اورانصاف کے ساتھ سوچیں کہ :
کیا ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی نظر میں علی رضی اللہ عنہ کا مقام ابوحنیفہ جیسے لوگوں سے بھی کم تھا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟

نہیں ! یہ ناممکن ہے ، کیونکہ شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے علی رضی اللہ عنہ کو پوری امت میں خلفاء ثلاثہ ابوبکر ، عمر ، اورعثمان رضی اللہ عنہم کے بعد سب سے افضل قرار دیاہے ، چنانچہ شیخ الاسلام علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت بتلاتے ہوئے لکھتے ہیں:
وعلي أفضل ممن هو أفضل من معاوية - رضي الله عنه -، فالسابقون الأولون الذين بايعوا تحت الشجرة كلهم أفضل من الذين أسلموا عام الفتح، وفي هؤلاء خلق كثير أفضل من معاوية، وأهل الشجرة أفضل من هؤلاء كلهم، وعلي أفضل جمهور الذين بايعوا تحت الشجرة، بل هو أفضل منهم كلهم إلا الثلاثة، فليس في أهل السنة من يقدم عليه أحدا غير الثلاثة، بل يفضلونه على جمهور أهل بدر وأهل بيعة الرضوان، وعلى السابقين الأولين من المهاجرين والأنصار. [منهاج السنة النبوية (4/ 396)]۔

اسی پر بس نہیں بلکہ یہاں تک کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت، ان کی ولایت اوراللہ کے نزدیک ان کا بلندمقام قطعی دلائل سے ثابت ہے ، اس میں شک کی گنجائش ہی نہیں۔
شیخ الاسلام کے الفاظ:
فضل علي وولايته لله وعلو منزلته عند الله معلوم ، ولله الحمد، من طرق ثابتة أفادتنا العلم اليقيني، لا يحتاج معها إلى كذب ولا إلى ما لا يعلم صدقه[منهاج السنة النبوية (8/ 165)]۔

اب ذراغورکریں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جن علی رضی اللہ عنہ کو شیخ الاسلام تمام صحابہ میں بجز خلفاء ثلاثہ ، سب سے افضل قراردیں ، جن کی فضیلت و ولایت کو یقینی بتلائیں !!! دوسری طرف انہیں علی رضی اللہ عنہ پرکتاب اللہ کی مخالفت کا الزام لگائیں ۔
جبکہ ابوحنیفہ اوران جیسے ائمہ ، علی رضی اللہ عنہ تو دور کی بات کسی ادنی صحابی تک کے مقام پر نہیں ، حتی کہ تابعین کی فہرست میں بھی ان کا شمار نہیں ، لیکن ان کے تعلق سے یہ کہاجانا قطعا گوارا نہ کریں کہ انہوں نے کتاب وسنت کی مخالفت کی ، بلکہ ایسا کہنے والوں کو روکنے کے لئے پوری کتاب لکھ ڈالیں!!!!!!!!!!


لطف بالائے لطف تو یہ کہ جمشید صاحب کو یہ سب پتہ ہے بلکہ اگر کوئی ان کے امام ابوحنیفہ سے متعلق اس طرح کی کوئی بات کہے تو موصوف کسی اور کی نہیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہی کی تحریریں پیش کرکے حسن ظن کی تعلیم دیتے ہیں ۔
مگرافسوس کہ خود ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہی کو اس حسن ظن کے قابل نہیں سمجھتے ۔

اللہ ہدایت دے !!!!!


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top