کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,805
- پوائنٹ
- 773
سازش کا تیسرا نمونہ
( علامہ ظفراحمد تھانوی حنفی متوفی ١٣٩٤ ھ)
اوپردو حنفی بزرگوں کے اقوال پیش کئے گئے ہیں ان اقوال کا پس منظر ہرکوئی شخص سمجھ سکتاہے ، لیکن آئیے اب ہم ایک ایسا قول پیش کرتے جس میں ابن تیمہ رحمہ اللہ کو متشدد بتلاکر پوری صراحت کے ساتھ اس کی غرض و غایت بھی بتلادی گئی اوروہ یہ کی ان کے متشدد ہونے کی وجہ سے ان کے اقوال ناقابل قبول ہیں ، توملاحظہ ہو:
علامہ ظفراحمد تھانوی حنفی فرماتے ہیں:
قلت: ممارده ابن تيمية من الأحاديث الجياد في کتابه منهاج السنة حديث ''رد الشمس لعلي رضي الله عنه و لما رأي الطحاوي قد حسنه و أثبته، جعل يجرح الطحاي بلسان ذلق و کلام طلق، و أيم الله إن درجة الطحاوي في علم الحديث، فوق آلاف من مثل إبن تيمة، وأين لإبن تيمية أن يکون کتراب نعليه! فمثل هولاء المتشددين لايحتج بقولهم إلا بعد التثبت و التأمل[قواعد فی علوم الحدیث: ص ١٠٩]۔
ترجمہ : میں کہتاہوں کہ ابن تیمہ نے اپنی کتاب منہاج السنہ میں جن جید احادیث کو رد کردیا ہے ان میں سے یہ حدیث بھی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کی خاطر سورج کو ڈوبنے کے بعد پھر سے لوٹا کر دوبارہ طلوع کیا گیا ۔
جب ابن تیمیہ نے یہ دیکھا کہ امام طحاوی نے اس حدیث کی تحسین کی ہے اوراسے ثابت قرار دیا ہے تو امام طحاوی پر چرب زبانی اورسخت اسلوب میں جرح کرنا شروع کردیا ،اوراللہ کی قسم علم حدیث میں امام طحاوی کا مقام ابن تیمہ سے ہزاروں گنا بڑھ کرہے اورابن تیمہ تو امام طحاوی کے جوتوں کی دھول کے برابر بھی نہیں ، لہذا ایسے متشددین کے اقوال کو بغیر غور فکرکے قبول نہیں کیا جائے گا۔
عرض ہے کہ ابن تیمہ رحمہ اللہ نے امام طحاوی کے خلاف کوئی سخت زبان استعمال نہیں کی ہے ہم آگے ابن تیمہ رحمہ اللہ کے کلام کو پیش کریں گے ، قارئین منتظررہیں ، اورساتھ ہی ہم اس موضوع ومن گھڑت اوربکواس حدیث ’’ کہ علی رضی اللہ عنہ کی خاطر سورج کو ڈوبنے کے بعد پھر سے لوٹا کر دوبارہ طلوع کیا گیا ‘‘ کی بھی وضاحت کریں گے۔
لیکن یہاں ہم قارئین کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ احناف کی ایک عظیم علمی شخصیت نے اپنے مذکورہ قول میں نہ صرف یہ کہ ابن تیمہ رحمہ اللہ کو متشدد بتلایا ہے بلکہ انہیں متشدد بتلانے کی وجہ بھی پوری صراحت کے ساتھ سامنے رکھ دی ہے اور وہ یہ کہ :
فمثل هولاء المتشددين لايحتج بقولهم إلا بعد التثبت و التأمل
کیا اب بھی جمشید صاحب تاریخی دستاویزات اورثبوت کا شکوہ کریں گے؟؟ ابھی آگے ہم ایک اور حنفی بزرگ بلکہ عظیم ترین علمی شخصیت کا قول پیش کریں گے جس سے ان شاء اللہ سارے گلے شکوے دور ہوجائیں گے۔۔۔۔قارئین منتظر رہیں۔لہذا ایسے متشددین کے اقوال کو بغیر غور فکرکے قبول نہیں کیا جائے گا۔
لطیفہ
ابن تیمہ رحمہ اللہ کے حق میں ظفراحمد تھانوی صاحب نے اپنے مذکورہ قول میں جو یہ کہا کہ:
وأين لإبن تيمية أن يکون کتراب نعليه!
اس بے اعتدالی پر کوثری گروپ کا فرد ابوغدہ بھی خوف زدہ ہوگیا اس لئے اس نے فورا ظفراحمد تھانوی صاحب کی مذکورہ عبارت پر یہ حاشیہ آرئی کی کہ ظفر تھانوی نے مذکورہ تعبیر تفاٍضل کے لئے استعمال کیا اورایسا ہندوستان والے بولتے ہیں اوراسے معیوب نہیں سمجھتے[ تعلیق بر:’’قواعد فی علوم الحدیث‘‘ : ص٤٤١، ٤٤٢]۔اورابن تیمہ تو امام طحاوی کے جوتوں کی دھول کے برابر بھی نہیں۔
ملاحظہ ہوں ابوغدہ کے الفاظ:
قولة شيخنا المؤلف في حق الامام ابن تيمية بالنسبة للإمام الطحاوي رحمهما الله تعالي: '' وأين لإبن تيمية أن يکون کتراب نعليه؟ '' هي من کلمات علماء الهند ولهجتهم کماسمعتها منهم مرارا، يقولونها في بيان التفاوت بين شخصين فاضل و أفضل ولا يقصدون بها الإزدراء بالمفضل عليه والإنتقاص له کما يتبادر لفهمنا نحن معشر العرب في الشام و مصر وغيرهما.[ تعلیق بر:’’قواعد فی علوم الحدیث‘‘ : ص٤٤١، ٤٤٢]۔
لیکن ظاہر ہے کہ یہ بے کار کا عذر تھا ، سیاق و سباق کے لحاظ سے مذکورہ تاویل کی کوئی گنجائش نہ تھی بلکہ اس تاویل پر خود ابو غدہ کا دل بھی مطمئن نہ تھا اس لئے اس نے براہ راست تھانوی مذکور کو خط لکھا اورابن تیمہ رحمہ اللہ کی شان میں ان کے مذکورہ جملہ پر سوال اٹھایا اس شکایت پر تھانوی صاحب نے اپنے اس جملہ سے رجوع کرلیا یعنی اس جملہ سے جس میں ابن تیمہ رحمہ اللہ کو امام طحاوی کے جوتوں کی خاک سے بھی کم تر قرار دیا تھا ۔[ تعلیق بر:’’قواعد فی علوم الحدیث‘‘ : ص٤٤١، ٤٤٢]۔ترجمہ: ہمارے شیخ مؤلف کا امام طحاوی رحمہ اللہ کے بالمقابل امام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے حق میں یہ فرمانا کہ :’’اورابن تیمہ تو امام طحاوی کے جوتوں کی دھول کے برابر بھی نہیں‘‘ یہ ہندوستان کے علماء کا لب ولہجہ ہے جیساکہ میں نے ان سے بارہا اس طرح سنا ہے ، یہاں کے لوگ ایسا دو شخص افضل و مفضول کے بیچ تفاوت بتلانے کے لئے بولتے ہیں ، اس سے مفضول کی حقارت یا تنقیص مقصود نہیں ہوتی ہے جیساکہ شام اورمصر وغیرہ میں ہم عربوں کے ذہن میں متبادر ہوتا ہے۔
اس سے ابوغدہ کی بے جا تاویل کی حقیقت بھی سامنے آگئی کہ ظفر تھانوی صاحب نے تفاضل بتلانے کے لئے مذکورہ تعبیراستعمال نہیں کی تھی ، ورنہ اس سے رجوع کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
بہرحال ابوغدہ کی کرم فرمائی پر ظفر تھانوی صاحب نے اتنا کیا کہ جوتے کی خاک والےجملے سے رجوع کرلیا ، لیکن کیا کیا جائے کہ اس رجوع کے بعد بھی ابوغدہ نے اس عبارت کو شائع کردیا ۔
واضح رہے کہ اس رجوع کا تعلق صرف اس جملے سے ہے جس میں ظفر تھانوی صاحب نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو امام طحاوی کے جوتوں کی خاک سے بھی کم تر قرار دیا تھا ، کیونکہ ابوغدہ نے صرف اسی جملہ کی تاویل کی تھی اوربعد میں احتجاج بھی صرف اسی جملے سے متعلق کیا تھا جیساکہ اوپر نقل کیا گیا ہے، لیکن اس جملے کے علاوہ مذکورہ قول میں ابن تیمہ رحمہ اللہ کو متشددد بتلاکر جو یہ صراحت کی گئی کہ ان کے متشدد ہونے کی وجہ سے ان کے اقوال قابل قبول نہیں ہیں ، تو اس بات کے خلاف نہ تو ابوغدہ نے احتجاج کیا اورنہ ہی ظفرتھانوی نے اس سے رجوع کیا ہے۔
الغرض یہ کہ مذکورہ قول اس بارے میں بالکل صریح ہے کہ ابن تیمہ رحمہ اللہ کو متشدد بتلانے کا مقصد صرف اورصرف یہ ہے کہ اس بہانے ان کے اقوال کو رد کردیا جائے۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔