• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا موجودہ حکمرانوں کو طاغوت کہنے والے ’ تکفیری‘ او ر’خارجی ‘ہیں ؟“

رانا ابوبکر

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
اہل علم حضرات توجہ فرمائیں :
”کیا موجودہ حکمرانوں کو طاغوت کہنے والے
’ تکفیری‘ او ر’خارجی ‘ہیں ؟“

سعودی علماءکے ایک اہم فتویٰ کے ضمن میں کچھ فکر انگیز اور غور طلب نکات

حامد كمال الدين
عالم اسلام کے اطراف و اکناف میں روز بروز یہ مسئلہ الحمد اﷲ مسلمانوں خصوصا نوجوانوں کی توجہ کا مرکز بنتا جارہا ہے کہ آج کے حکمرانوں کا شریعت میں کیا حکم ہے ؟ مسلمان ان کو کیا سمجھیں اور انکے ساتھ کیا برتاؤ کریں؟ شریعت میں جہاں اور حقوق و فرائض کی تفصیل ملتی ہے والدین ، زوجین ، پڑوسی ، رشتہ دار وغیرہ سب کے حقوق اور فرائض شریعت نے کھول کھول کر واضح کردیئے ہیں وہاں شریعت نے یہ رہنمائی کرنے میں بھی کمی نہیں چھوڑی کہ حکمران اور رعایا میں تعلق کی نوعیت کیا ہو اور ان دونوں کے حقوق اور فرائض کیا ہوں۔ مگر چونکہ فتوی دینے کے لیے صرف قرآن کی آیا ت اور سنت سے احادیث نکال لانا ہی کافی نہیں زمان او ر مکان کا صحیح علم و ادارک ہونا ضروری ہے اس لیے آج کے مسلمانوں کو انکے معاشرتی حقوق و فرائض بتانے میں اور انکے کرنے کا کام سمجھانے میں بہت سارے مخلص حضرات قرآن اور حدیث کے حوالے لے آنے کے باوجود کچھ غلطی ہائے مضامین کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ موجود ہ دور کے ان اہم مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ وقت کے حکمرانوں کا بھی ہے کہ موجودہ دور کے حکمرانوں کا شریعت میں کیاحکم ہے۔
یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ شریعت نے جوحقوق اور فرائض بتائے ہیں وہ مطلق نہیں ۔ پڑوسی یا رشتہ دار کافر ہوں تو بھی شریعت میں ان کے حقوق ضرو ر ہونگے مگر ظاہر ہے وہی حقوق نہیں جو ایک مسلمان ہمسایہ یا رشتہ دارکے ہوسکتے ہیں۔ کوئی صاحب اگر حقوق زوجین پر طویل وعریض تقریر کریں اور قران و حدیث سے مسلمان خاوند بیوی کے حقوق و فرائض پرسیر حاصل بحث کریں مگر بیچ سے ایک بات نظر انداز کرجائیں کہ جس واقعہ میں وہ فتوی صادر فرمارہے ہیں وہاں شوہر یا بیوی میںسے کوئی ایک کفر کا ارتکاب کرچکا ہے تو ان کی عزارت علم کے باوجود آ پ انکی فقاھت کے باریے میں کیا رائے رکھیں گے ؟
چنانچہ ایک عرصہ سے عالم اسلام میں جو سوال بار بار اٹھ رہا ہے اور عموما دین کی غیرت رکھنے والے نوجوانوں کی زبان پر رہتا ہے وہ یہ کہ موجودہ حکمرانوں کا شریعت میں کیا حکم ہے اور مسلمانوں سے انکے تعامل کی نوعیت کیا ہونا چاہیے؟ جسکا جواب ہمارے ہاں علما ءکی جانب سے عموما یہ آتا رہا ہے کہ مسلمان حکمرانوں کے حقوق و فرائض یہ یہ ہوا کرتے ہیں اور شریعت کی رو سے رعایا کے ان سے تعلقات ایسے اور ایسے ہونے چاہئیں !یعنی سوال کچھ ہے تو جواب کچھ اور ! یہی وجہ ہے کہ بار بار یہی سوال اٹھنے کے باوجود اور علماء کرام کی جانب سے بار بار اسکا جواب آنے کے باوجود کسی کی تشفی نہیں ہوپارہی کیونکہ اس مسئلہ سے جتنی بھی آنکھیں چرائی جاتی رہیں یہ اپنی جگہ برقرار ہے اور علماءدین اور زعما ئے امت سے جرات گفتار اور افضل الجہاد کا بدستور تقاضا کررہا ہے کہ وہ امت کے نوجوانوں کو کھل کر بتائیں کہ موجود ہ حکمران جو جانتے بوجھتے اور ہوش و حواس رکھتے ہوئے رب العالمین کی شریعت کو ایوان اقتدار سے بے دخل کرکے لاکھوں مربع میل کے اند ر اور کروڑوں انسانوں کی گردنوں پر صریحاً غیر اﷲ کا حکم اور قانون چلاتے ہیں آیا مسلمان ہیں یا کافر؟ موحد ہیں یا مشرک؟ اور کیا مسلمانوں کو انکی وفادار رعایا بن کر رہنا چاہیے اور(الدین النصیحتہ والی حدیث کے مطابق) انکی خیر خواہی اور اعانت کرنی چاہیے (جوکہ اس حدیث کی روسے ائمہ المسلمین کا حق ہے ) یا انکے کے لیے شریعت کا کوئی اور حکم ہے ؟ اور کیا شرک کے ارتکاب کے باوجود بلکہ بار بار سمجھائے جانے پر بھی شرک کرتے رہنے کے باوجود کلمہ گو ہونا انکے کے لیے فائدہ مند ہوسکتا ہے ؟ ملک کے طول و عرض میں شرک کی تہذیب و ثقافت ، کفر کا قانون اور استعمار کا دین پورے منظم اور باقاعدہ انداز میں رائج کرنے کے بعد بھی ان حکمرانوں کی کلمہ گوئی کا ڈھنڈورا پیٹا جانا شریعت میں کیا وقعت رکھتا ہے ؟ اخباروں میں ان کے حج و عمر ہ کرنے کی تصویریں چھپنے اور سیر ت کانفرنسوں کے افتتاح کرنے کا امت کی صحت پر کیا اثر ہوسکتا ہے ؟؟
یہ ہے وہ اصل سوال جس پر مراکش سے انڈونیشیا تک پھیلا ہو ا اور برس ہا بر س سے تہذیب کفار کے پنجوں میں گرفتار عالم اسلام چیخ چیخ کر زعمائے دین کو دعوت سخن دے رہا ہے ۔ حالات کی تیزی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جس طرح اس سوال کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے اور دوسری طرف جس انداز سے ابنائے اسلام میں دین کا شعور بھی بڑھ رہا ہے ، لگتا ہے بہت دیر تک اس سوال کو سر د خانے میں پڑا رہنے دینا اب کسی کے بس میں نہ ہوگا۔
سوال کا صحیح تعین ہوجائے تو شریعت میں اس کا جواب پانا کچھ مشکل نہیں۔ جو آدمی اﷲ کی مخلوق پر اﷲ کے حکم اور قانون کی بجائے اپنا حکم اور قانون چلائے وہ اﷲ کا شریک اور ہم سر ہے ۔ شریعت کی اصطلاح میں اس کو طاغوت کہا جاتا ہے۔ ایک طاغوت اور ایک مسلم حکمران میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ اگرچہ مسلم حکمران ظالم اور فاسق ہی کیوں نہ ہو ۔ ان دونوں کا حکم ایک کردینا کسی ظلم عظیم سے کم نہیں۔
مگر چونکہ پاکستان میں لفظ طاغوت کا استعمال بڑی حد تک شرعی سے زیادہ سیاسی رہا ہے اس لیے باوجود یہ کہ یہ لفظ زبان زد عام ہے اس کا صحیح ادراک اور درست اطلاق بہت کم لوگ کرتے ہیں ۔ ایک طرف ایسے لوگ ہیں جو کسی حکمران کو نا انصافی یا بد عنوانی یا عوامی آزادیاں سلب کرنے کی وجہ سے ناپسندیدہ قرار دینے کے لیے یا اس پر اپنا احتجاج واضح کرنے کے لیے یہ لفظ استعمال کرتے ہیں ۔ حالانکہ ایسی حرکت کسی ظالم یا فاسق مسلم حکمران سے بھی ہوسکتی ہے مذہب خوارج کے برعکس جبکہ دوسری جانب ایسے نکتہ ور حضرات ہیں جو حکمرا ن کو جھٹ سے طاغوت تو کہہ دیتے مگر اسے دائر اسلام میں بدستور داخل بھی سمجھتے ہیں اور اس پر کفر یا شرک کا اطلاق کرنا خلا ف ادب جانتے ہیں یہ حضرات طاغوت اور مسلم کے الفاظ کو قطعی متضاد نہیں سمجھتے حالانکہ شریعت کی اصطلاح میں طاغوت کسی شخص کے کافر یا مشرک ہونے کی بد ترین شکل ہے ۔ ایک آدمی غیر اﷲ کی بندگی کرکے بھی مشرک تو کہلا سکتا ہے مگر ضروری نہیں کہ وہ طاغوت کے درجے کو بھی پہنچتا ہو ۔
طاغوت وہ اس صورت میں قرار پائے گا جب وہ مخلوق سے خود اپنی ہی بندگی کرائے اور اس پر اپنا حکم چلانے لگے شرک کے اس آخر ی درجے کو پہنچنے کے بعد ہی اس پر اس گھناؤنے لفظ کا اطلاق ہوگا چنانچہ جب آپ نے کسی کو طاغوت کہہ دیا تو اسے کافر اور مشرک کہنے میں آپ نے کوئی کسر ہی نہ چھوڑی ۔ بلکہ ایسا ویسا مشرک ہی نہیں آپ نے اسکو بدترین مشرک کہہ دیا ہے ۔ بشرطیکہ آپ اس لفظ کا مطلب جانتے ہوں ۔ بلکہ تو یہ کہنا بہتر ہوگا کہ آپ نے یہ لفظ بول کر اس پر اﷲ کا شریک اور باطل خدا ہونے کا فتوی لگایا ہے جب ایسا ہے تو پھر اسکو تاحال مسلمان ہی قرار دینا چہ معنی دارد ؟
عقیدہ توحید میں یہ مسئلہ بہت واضح ہے ۔ گو یہ مسئلہ مسلمان طبقوں میں عام کرنا اشد ضروری ہے اور ایقاظ کی تو مسلسل ترجیحات میں شامل ہے مگر اس وقت ہم ایک بہت اہم موقع کو فائدہ اٹھائے بغیر جانے نہیں دینا چاہتے ۔ لہذا اس مسئلہ پر اصولی بحث کے لیے یہاں قارئین سے ہمیں معذر ت کرنی پڑے گی ۔البتہ ایقاظ کے آئندہ شماروں میں اس کی تفصیل سے وضاحت کی کوشش کی جاتی رہے گی ۔ انشاءاﷲ
امت اسلام پر وقت کے باطل نظاموں اور مشرکانہ تہذیب وتمدن کی صورت میں لگ بھگ ایک ڈیڑھ صدی سے جو بدترین آفت مسلط ہے وہ امت کی پوری تاریخ میں اس برے انداز سے اور اس بڑی سطح پر کبھی نہیں دیکھی گئی ۔ ایسے میں امت کے مخلص اور سنجیدہ ذہنوں میں بار بار یہ سوال اٹھنا ایک طبعی امر تھا کہ ان نظاموں کا شریعت میں کیا حکم ہے اوریہاں ارباب اختیار کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جس نے بھی دقت نظر سے شریعت میں اس سوال کا جواب تلا ش کرنے کی کوشش کی اسے ایک ہی واضح جواب ملا ۔۔ طاغوت !نتیجتاً وقت کے حکمرانوں کا یہ شرعی لقب رفتہ رفتہ معروف ہوتا گیا ۔ چونکہ امت کی تاریخ میں یہ مسئلہ ہی بالکل نیا تھا اس سے پہلے غیر اﷲ کے حکم کو ملک کے طول و عرض میں باقاعدہ رسمی اور آئینی طور پر قانون عام کی حیثیت کبھی دی ہی نہیں گئی اور نہ کبھی تہذیب اور ثقافت میں
کفا ر کی ایسی حرف بہ حرف اتباع کروائی گئی [ واضح رہے گفتگو امت کی مجموعی سطح پر ہو رہی ہے۔ تاریخ میں کہیں کہیں اور اکا دکا انداز میں اس سے پہلے بھی ایسا ہوا ہو تو اس کا یہاں انکار مقصود نہیں۔ جیسے کلمہ پڑھ لینے کے بعد بعض تاتاری حکومتوں کا قانون یا سق چلانا یا مثلاً برصغیر میں مغل حکمران جلال الدین اکبر کا کفر و زندقہ] اس لیے حکمرانوں کا یہ لقب طاغوت بھی ظاہر ہے نیا ہی ہوسکتا تھا اور شریعت کی رو سے حکام وقت کی حیثیت بھی نئی ہی ہونی چاہیے تھی مگر یہ نئی بات ہوجانے پر کچھ لوگوں کے کان کھڑے ہونا بھی ضروری تھے ہوتا بھی کیوں نہ جہاں عربی پڑھانے کے لیے ابھی تک فارسی کا ذریعہ استعمال ہوتا ہو(حالانکہ برصغیر میں سوسال سے اس کی ضرورت مائل بہ زوال ہے) وہاں اس اتنی بڑی بات کو طرز کہن سے خروج کیوں نہ سمجھا جاتا ! ان حضرات کو اس بات سے تو کچھ خاص غرض نہیں تھی کہ امت میں یہ مسئلہ ہی سرے سے نیا ہے اور یہ کہ جب سے ہمارے حکمران فرنگ سے درآمد ہونے لگے ہیں یہ سوال ہی تب سے اٹھا ہے - البتہ احتجاج صرف اس بات پر ضروری جانا گیا کہ اس مسئلہ کا حل نیا کیوں ہے؟ یعنی اسکا اب بھی وہ پہلے والا حل کیوں نہیں بتایا جاتا جو آج تک امت کے اندر رائج رہا! اور یہ کہ اس سوال کا آخر عین وہی جواب کیوں نہیں دیا جاتا جو سلف کے دور میں رائج رہا اور بنو امیہ و بنو عباس سے لے کر سلاطین دہلی کے زمانے تک اور نیل سے لے کر کاشغر تک بھلے وقتوں میں مشاہیر اسلام کی زبان سے دیا جاتا رہا!!!
رفتہ رفتہ ان معترضین نے یہ باقاعدہ مذہب اختیار کر لیا کہ وقت کے حکمرانوں کو طاغوت یا مشرک کہنا- حتیٰ کہ بعض کے نزدیک تو ان حکمرانوں کی خالی مخالفت کرنا اور اﷲ کے عباد اور بلاد پر انکی طاقت کا سکہ چلنے نہ دینے کی بات کرنا ہی- ’سلف کے منہج کے خلاف ہے‘!!! اور یہ کہ سلف کے منہج پر چلنے والے صرف وہی لوگ ہیں جوان حکمرانوں کے جنود میں شامل نظر آئیں!! یا کم از کم بھی وہ لوگ ہیں جو اپنے ملک کے نظام سے کوئی سروکار نہ رکھیں! ان میں سے ’تحقیق‘ میں آگے گزرنے والے اصحاب نے تو ان غیور مسلمانوں کے تانے‘ جو باطل نظاموں اور حکمرانوں کی وفادار رعایا بن کر رہنے کےلئے تیار نہیں، سیدھے خوارج سے جا ملائے اور عوام الناس میں انکے لیے ’تکفیری‘ اور ’خارجی‘ کے الفاظ عام کیے۔
[ ہمیں تسلیم ہے کہ کئی ملکوں میں ایسے چھوٹے چھوٹے گروپ بھی پائے گئے ہیں جو واقعی تکفیری تھے اور جنہوں نے حکمرانوں کی تکفیر پر ہی بس نہ کی مسلمان ملکوں میں پوری کی پوری فوج، پولیس، سرکاری ملازمین حتی کہ عوام الناس اور علماءو مشائخ تک پر بلا تفریق و امتیاز تکفیر کی مشین چلائی۔ اس فتنہ کی ابتداءمصر میں ’جماعت التکفیر والھجرہ‘ سے ہوئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بہت سارے ملکوں میں اسکے چربے تیار ہوئے۔ مگر ایسے گمراہوں کی تعداد کہیں بھی الحمد ﷲ درجنوں سے تجاوز نہ کر پائی۔ جبکہ مروجہ نظاموں اور حکمرانوں سے براءت کی بات کرنے والی اصولی تحریکوں کے لوگ ہزاروں میں رہے ہیں۔پھر یہ بات بھی معلوم ہے کہ ان تکفیری گروہوں کی سب سے زیادہ مذمت ان اصولی تحریکوں کی جانب سے ہی ہوئی ۔ یہ صرف میڈیا اور سرکار کے وظیفہ خوار مولویوں کی کرشمہ سازی تھی کہ ایسے چند گمراہوں کی کالک ہر ایسی تحریک اور شخصیت کے چہرے پر مل دینے کی کوشش ہوتی رہی جو کسی بھی مسلمان خطے میں حقیقی اصلاح کا علم لے کر اٹھی یا آئیندہ اٹھے گی۔
پھر یہ بات تو شاید بہت کم لوگ جانتے ہونگے کہ تکفیریوں کے یہ ٹولے بھی درون خانہ سرکار ہی کے پروردہ تھے اور انکی خفیہ پشت پناہی کا کام کچھ ہی دیر کے اندر مصر سے سعودی انٹیلی جنس کے سپرد ہو گیا۔ اس کے پیچھے جو مقصد کار فرما تھا وہ یہ کہ خالص عقیدہ کی ترجمان اسلامی تحریکوں کو بد نام کیا جائے اور انکے نا پختہ اور جذباتی نوجوانوں کو معاشروں کی تکفیر کی ڈالی پر لگا کر انکی صلاحیتیں ضائع کروائی جائیں، پھر ہو سکے تو قبل از وقت کارروائیوں میں الجھا کر بھی انکو خراب کیا جائے اور انکی قوت پر امن طور پر بڑھنے سے روک دی جائے۔ واقفان حال تو یہ بھی جانتے ہیں کہ آج سے بیس سال پہلے سعودی عرب میں ’حرم پر قبضہ کروانے کا مشہور واقعہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھی جس کا مقصد وہاں اصلاح کے عمل کو سبوتاژ کرنا اور ناقابل تلافی نقصان پہنچانا تھا۔ اور اس طرح اصلاح اور تبدیلی کے عمل کو کئی عشروں تک کےلئے پیچھے دھکیل دینے میں بالفعل کامیابی حاصل کر بھی لی گئی۔ ومکروا مکرھم و عند اﷲ مکرھم وان کان مکرھم لتزول منہ الجبال]
اب بھلا ’سلف کے منہج کے خلاف‘ چلنے کی جرات کون کرے! آخر ایمان بچانے کی فکر کسے نہ ہو! پھر ایمان کے ساتھ جان بھی بچتی ہو تو حکمرانوں سے وفا داری سے انکار کی کیادلیل ہو سکتی ہے!! یوں توحید کی فطرت پہ چلنے والے غیور مسلمانوں کو علم کی مار دینے کی ایک اسکیم تیار کر لی گئی جو کہ حکمرانوں کی ایک اہم ضرورت تھی۔ گو اغلب یہی ہے کہ یہ ’دریافت‘ پہلے پہل حکمرانوں کی فرمائش کے بغیر وجود میں آئی البتہ ظہور میں آجانے کے بعد تو اسے پزیرائی دلانے میں کسی کومضائقہ بھی کیا ہو سکتا تھا! یوں بھی بڑے بڑے منصوبے حکومتی سر پرستی کے بغےر چلنے کے نہیں ہوتے۔ چنانچہ عالم عرب کے اندر مسلسل دیکھنے میں آرہا ہے کہ منہج سلف کے ’سرکاری ترجمانوں‘ نے اصلاح کےلئے میدان میں اترنے والی ہر تحریک اور ہر شخصیت کا جینا دوبھر کر رکھا ہے اور اسے باغی، بدعتی، ایمان کےلئے خطرہ، قابل قید و مشقت اور گردن زدنی قرار دے رکھا ہے۔
یہاں ہمارے ان قارئین کو، جو صرف اردو جرائد کا مطالعہ کرتے ہیں صورتحال کا اندازہ کرنے میں شاید کچھ مشکل پیش آرہی ہو ۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں حاکمیت کی بحثوں نے ابھی وہ زور نہیں پکڑا جو عرب ملکوں میں ایک عرصہ سے دیکھنے میں آرہا ہے۔ خصوصاً وہ معرکہ آرائی جو پچھلے کئی سالوں سے سعودی عرب میں برپا ہے اور شیخ سفر الحوالی اور شیخ سلمان العودہ کی تقریرو تحریر کی محنت اور پھر آخر میں انکی گرفتاریوں نے جو اس فضا میں مزید ارتعاش پیدا کر دیا ہے اس کے تناظر میں علمی حلقوں کے اندر اس مسئلہ پر لے دے بہت بڑھ گئی ہے اور اس کی بازگشت اب پورے عالم عرب بلکہ عالم اسلام میں سنی جانے لگی ہے۔
اﷲ کی شریعت کو پس پشت ڈال کر مخلوق کی شریعت کو قانون عام کا درجہ دینے والے یہ حکمران کفر کے مرتکب کہلانے سے صرف ایک صورت میں بچ سکتے تھے۔۔۔ یا بچائے جا سکتے تھے! اور وہ یہ کہ ’ارجاء‘ کے عقیدے کو امت میں عام کر دیا جائے، جبکہ وہ پہلے ہی بہت عام ہے اور اﷲ کے دشمنوں کا اب تک برسر اقتدار رہنا اسی کا مرہون منت ہے۔ یہ ’ارجاء‘ کیا ہے؟ امت کی تاریخ میں ایک مشہور بدعت ہو گزری ہے۔ بلکہ گزری بھی کیا مختلف شکلوں اور صورتوں میں اب تک چل رہی ہے۔ اس کی رو سے آدمی عملاً شرک کرتے رہنے سے مشرک نہیں ہوتا صرف اسکا اعتقاد رکھنے سے ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک کلمہ گو شرک اور کفر کا خواہ کوئی کام کرے بس دل میں اسکو صحیح نہ سمجھے اور زبان سے اس کو حلال کہنے کی حماقت نہ کرے تو وہ مسلمان اور موحد ہی گنا جائے گا! یعنی کفر اور شرک کے افعال بھی عام گناہوں کی طرح ایک گناہ ہیں اور محض انکے عملی ارتکاب سے کوئی شخص دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ خوارج جہاں ایک انتہا پر گئے اور عام گناہ کے کاموں کو بھی افعال شرک کے ساتھ ملا دیا وہاں یہ مرجئہ دوسری انتہا پر گئے جنہوں نے افعال شرک و کفر کو بھی عام گناہوں کے ساتھ یکجا کر دیا۔۔
اصولی طور پر یہ دونوں گمراہیاں اس مسئلہ پر ایک ہو جاتی ہےں کہ کفریہ اعمال اور عام گناہوں میں کوئی فرق نہیں! جبکہ اہلسنت کے نزدیک ان میں واضح فرق ہے؛ جن افعال کو شریعت میں صرف گناہ اور فسق کہا گیا ہے ان پر اصرار سے آدمی فاسق ہو گا اور جن افعال کو اﷲ اور رسول کفر یا شرک کہیں ان پر اصرار کرنے سے وہ کافر اور مشرک ہو سکتا ہے۔۔ اور یہ تو واضح ہے کہ اﷲ کے قانون کی بجائے کوئی دوسرا قانون چلانے کو اﷲ اور رسول نے کفر کہا ہے۔
چنانچہ طاغوتوں کو ’اولی الامر‘ کا درجہ دلانے کےلئے ارجاءکے اس عقیدہ کا ایک نئے زور شور سے ڈول ڈالا گیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف اس کا یوں غلغلہ کر دیا گیا کہ آدمی اس سے واقعی سمجھ لے کہ شاید سلف اور اہلسنت کا یہی عقیدہ ہے اور حاکم بغیر ما انزل اﷲ کو کافر کہنا بالفعل خوارج ہی کا مذہب ہے۔ پاکستان میں بھی دھیمے سروں پر یہ نغمہ سننے کو مل جاتا رہا ہے تاہم عرب میں تو اس کاآھنگ اتنا اونچا رہا ہے کہ کان پھٹنے کو آنے لگے۔ تصنیفات اور تالیفات کی بھر مار ہوئی اور ان کی اشاعت کا تو کوئی حد و حساب ہی نہ رہا۔ کچھ عرصہ پیشتر اس سلسلہ کی ایک اہم تصنیف ”الحکم بغیر ما انزل اﷲ و اصول تکفیر“ سعودی عرب میں بطور خاص مقبول کروائی گئی اور حکام کے ’پکا مسلمان‘ ہونے کے مسئلہ میں سلف اور اہلسنت کے منہج پر اتھارٹی قرار دی گئی۔ خالد بن علی العنبری نامی ایک صاحب کی یہ کتاب، جو حکمرانوں کےلئے نعمت غیر مترقبہ کی حیثیت رکھتی تھی، لازمی تھا کہ علمی حلقوں میں بھی موضوع بحث بنتی کیونکہ اس میں بہت بڑی بڑی باتیں سلف سے زبردستی منسوب کر دی گئی تھیں۔ اس کتاب پر بھی تفصیلی روشنی تو کسی اور مضمون میں ڈالی جا سکتی ہے یہاں ہمارے لیے صرف اس کے مرکزی خیال کا ذکر کرنا ہی ممکن ہو گا اور وہ بھی اس لیے کہ مضمون کے اختتام پر اس کتاب کے بارے میں سعودی علماءکاجو فتویٰ دیا جا رہا ہے قارئین کو اسے سمجھنے میں آسانی رہے۔ چنانچہ اس کتاب کے بنیادی نکات یہ تھے۔
١- حکم بغیر ما انزل اﷲ کا فعل کفر نہیں، الا یہ کہ حکمران اس کو جائز اور حلال کہے۔ یعنی اس فعل کی فی نفسہ نوعیت باقی گناہوں جیسے ایک گناہ کی ہو گی۔
٢- اتنا ہی نہیں بلکہ مصنف کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کی اس بات پر تمام اہل سنت کا اجماع ہے!
٣- پھر اس کی اس بات سے اختلاف رکھنا اسکے خیال میں خوارج کا عقیدہ ہے۔
٤- چونکہ قاضی کا کسی ایک قضیہ میں بد دیانتی یا بد عنوانی کے باعث خلاف شریعت فیصلہ دینا سلف کے ہاں کفر دون کفر(وہ چھوٹا کفر جس سے آدمی ملت سے خارج نہیں ہوتا) شمار ہوتا ہے اس لیے مصنف کے نزدیک تشریع عام بھی ویسا ہی ایک گناہ ہے۔ یعنی مصنف کے نزدیک فہم سلف کی رو سے:
اس بات میں کہ اسلامی نظام کے اندر کوئی قاضی یا حاکم کسی ایک آدھ قضیے میں کسی ایک آدھ بار بد دیانتی سے شریعت کے خلاف فیصلہ دیدےاور اس بات میں کہ ملک میں ایک خلاف شریعت امر کو باقاعدہ رسمی طور پر قانون عام (پبلک لائ) کا درجہ حاصل ہو اور عدالتوں میں اسے مرجع اور سند کی حیثیت دےدی جائےکوئی فرق نہیں۔ ہر دو صورت میں حکمران بدستور مسلمان رہے گا!!
اتنے بڑے بڑے اور بے بنیاد دعوے ظاہر ہے کہ دن کی روشنی میں کام نہیں دے سکتے تھے۔ گو مصنف نے اپنے دعویٰ کے اثبات میں شرعی نصوص کے مفہومات اور علمائے سلف کے اقوال کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی (جیساکہ فتویٰ کی عبارت میں بھی اس کی اس حرکت کی نشاندہی کی گئی ہے) مگر یہ کوشش اس کو فائدہ تو کیا دیتی الٹا اسکے لیے گلے کا پھندہ بن گئی۔ سمجھ دار لوگوں نے اس کے مدلل جواب تو لکھے ہی مگر انہوں نے اس کتاب کو سعودی کبار علماءکے سامنے رکھ کر ان سے اس پر فتویٰ کا تقاضہ بھی کیا۔ سعودی علماءکی کمیٹی برائے افتاءنے اس پر جو فتویٰ دیا وہ اردو ترجمہ سمیت یہاں دیا جا رہا ہے۔
سعودی بادشاہت کے کثیر معاملات میں اسلام سے انحراف کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ وہاں کے علمی حلقوں میں بڑی حد تک شیخ الاسلام محمد بن عبد الوھاب کی دعوت کے علمی اصول اور قواعد ابھی تک مسلم ہیں۔ مذکورہ فتویٰ دینے والے علماءگو وہاں کی حکومت سے کسی نہ کسی انداز میں تعاون کرتے ہیں اور اس کےلئے جو وجوہات وہ اپنے پاس رکھتے ہونگے وہ ہمیں معلوم نہیں تاہم اس فتویٰ سے یہ ضرور واضح ہو جاتا ہے کہ نظریاتی سطح پر ابھی تک وہاں شیخ محمد بن عبدالوھاب کے پڑھائے ہوئے اصولوں کی دھاک سب پر کس طرح بیٹھی ہوئی ہے اور عملی سطح پر وہاں جو بھی صورتحال ہو کم از کم علمی سطح پر ان اصولوں سے انحراف کا چلن عام ہو جانا ہر گز اتنا آسان نہیں۔ بہر حال اﷲ تعالی
ان علماءکو اس فتویٰ پر جزائے خیر عطا فرمائے۔
علاوہ ازیں ہمارا اس فتویٰ کو شائع اور عام کرنے کا ایک اور اہم سبب بھی ہے۔
برصغیر میں ایک وقت تھا کہ علماءنجد کی دعوت و فکر شدید تنقید اور مخالفت کا نشانہ بنی رہی۔ گو ایک طبقہ ابھی تک اس سے دشمنی پر قائم ہے مگر محمد بن عبد الوھاب کی کتابوں کی یہاں نشر و اشاعت ہو جانے کے بعد اور پھر احناف اور اہلحدیث مدارس کے طلبہ کی ایک معتدبہ تعداد کے عرب جامعات میں پڑھ آنے سے صورتحال میں اب بہت فرق آچکا ہے۔ اور اب نہ صرف اس کے خلاف وہ پہلے والا تعصب کم ہو گیا ہے بلکہ طلبہ اور علماءو مشائخ کا ایک قابل لحاظ طبقہ مشائخ نجد کے علمی ورثے کو وزن بھی دینے لگا ہے۔ مگر بد قسمتی سے ہمارے اس صالح ترین طبقہ میں عقیدہ کے جدید معاشرتی پہلوؤں نے تا حال وہ مطلوبہ اہمیت حاصل نہیں کی جو کہ انکا حق تھا۔ پھر یہاں کچھ لوگ ایسے بھی پائے جانے لگے جو حاکمیت کے مسئلہ کو بڑی حد تک غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ کم از کم اس کو عقیدہ کا مسئلہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ اور چند ایک حضرات تو لا علمی یا بے توجہی کے باعث اس بات کو خارجیت گردانتے ہیں کہ کوئی غیر اﷲ کا قانون چلانے والے حکمرانوں کوطاغوت کہہ دے۔ اور جو ایسا کہے اسے یہ قابل قدر حضرات ’تکفیری‘ کا خطاب دیتے ہیں۔ غرض انہی باتوں کے تقریباً سوچے سمجھے بغیر قائل ہیں جو خالد العنبری کی کتاب میں سوچ سمجھ کر ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بہر حال اس صالح اور موحد طبقہ میں گو ایسے حضرات بہت زیادہ نہیں اور جو ہیں بھی تو وہ ہمارے خیال میں کسی بد دیانتی کی بنا پر ایسا نہیں کرتے بلکہ اس کا سبب شاید انکی بے توجہی اور اس مسئلہ پر پوری طرح غور و خوض نہ کیا ہونا ہے۔
پھر اس طبقہ میں ایسے لوگ بھی کثیر تعداد میں ہیں جو حکم و قانون کے باب میں توحید کے زبردست پرچار کے قائل ہیں مگر پہلے نوجوانوں میں علمی وثوق پیدا کرنے کو ضروری سمجھتے ہےں، جو کہ ایک صالح سوچ ہے۔
غرض اس پورے طبقے کےلئے ہی سعودی علماءکا یہ فتویٰ یقیناً فکر انگیز ہو گا جو کہ اس مسئلہ میں اصولی طور پر بہت واضح ہے کہ حکم بغیر ما انز ل اﷲ پر حکمران کی تکفیر کرنا دراصل خوارج کا نہیں بلکہ سلف اور اہلسنت کا منہج ہے اور یہ کہ اسے کافر قرار دینے کےلئے یہ ہرگز شرط نہیں کہ وہ اپنے فعل کو زبان سے جائز اور حلال بھی کہتا ہو بلکہ یہ شرط لگانا اہلسنت کے مذہب کے خلاف ہے۔۔ بہر حال
اپنے ان سب قابل احترام اساتذہ کرام، علماءو مشائخ اور طلبہ علم کے خصوصی استفادہ کےلئے بھی ہم نے یہ فتویٰ شائع کیا ہے۔
عوام الناس کی سہولت کےلئے اس کا اردو ترجمہ بھی دے دیا گیا ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ علماءمیں اسے زیادہ سے زیادہ عام کریں اور ان سے اس پر رائے طلب کریں۔
اﷲ تعالیٰ جلد وہ وقت لائے کہ دین توحید کو ان ملکوں اور خطوں میں ایک بار پھر عزت و سر بلندی نصیب ہو۔
اللّٰھم ابرم لھذہ الامہ امر رشد یعزفیہ اھل طاعتک، ویزل فیہ اھل معصیتک، ویومر فیہ با لمعروف و ینھی فیہ عن المنکر، انک علی ما تشاءقدیر۔
وصلی اﷲ علی نبیہ محمد و آلہ۔
مملکت سعودی عرب (فتویٰ نمبر)21154
سربراہی برائے علمی تحقیقات و افتاء مورخہ 24 شوال1420ھ
جنرل سیکریٹریٹ‘ کمیٹی برائے اکابر علماء

دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات و افتاء(اللجنہ الدائمہ للبحوث العلمیہ والافتاء)
کا بیان بابت خالد علی العنبری کی تصنیف کردہ ایک کتاب بعنوان
”الحکم بغیر ما انزل اﷲ و اصول التکفیر“
الحمد ﷲ وحدہ والصلوہ والسلام علی من لا نبی بعدہ، و علی آلہ و صحبہ، و بعد
دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات و افتاءنے خالد العنبری کی تصنیف ”الحکم بغیر ما انزل اﷲ و اصول التکفیر“ کا جائزہ لیا ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد واضح ہوا ہے کہ اس کتاب میں اہلسنت و جماعت کے علماءکے جو حوالے دیے گئے ہیں ان( کے نقل کرنے) میں علمی دیانت سے کام نہیں لیا گیا اور دلائل کے اس مفہوم میں تحریف کی گئی ہے جس کا عربی زبان اور مقاصد شریعت دراصل تقاضا کرتے ہیں۔ ذیل میں اس کی کچھ تفصیل ہے۔
١۔ مصنف نے شرعی دلائل کے مفہوم اور معانی میں تحریف کی ہے۔ اہل علم کی بعض تحریروں میں تصرف سے کام لیا ہے۔ عبارت کہیں یوں حذف کر دی ہے اور کہیں اس انداز سے تبدیل کر دی ہے کہ جس سے عبارت کی سرے سے مراد ہی اور نظر آئے۔
٢۔ اہل علم کے بعض اقوال کی ایسی تفسیر کی ہے جو ان کا مقصود اور مراد ہی نہیں۔
٣۔ مصنف نے اہل علم پر جھوٹ بھی باندھا ہے جیسا کہ اس نے علامہ شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ رحمہ اﷲ سے وہ قول منسوب کر دیا ہے جو انہوں نے کہیں نہیں کہا۔
٤۔ مصنف نے دعویٰ کیا ہے کہ اہلسنت کا اس بات پر اجماع ہے کہ ایسا آدمی کافر نہیں جو قانون عام میں اﷲ کی نازل کردہ شریعت کے بغیر حکم چلائے الا یہ کہ وہ اس عمل کو دل سے جائز سمجھتا ہو، یعنی یہ ان باقی گناہوں جیسا ایک گناہ ہے جو کفر تک نہیں پہنچتے۔ حالانکہ یہ مذہب اہلسنت پر نرا بہتان ہے جو یا تو جہالت کا شاخسانہ ہے یا بد نیتی کا۔ اﷲ تعالیٰ اپنی عافیت میں رکھے۔
مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر کمیٹی یہ رائے اختیار کرتی ہے کہ مذکورہ کتاب کی طباعت، تقسیم اور فروخت ممنوعہ قرار دی جائے۔ مصنف کو نصیحت کرتی ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ سے توبہ کرے اور معتمد اہل علم سے رجوع کرے تاکہ ان سے علم حاصل کرے اور وہ اس کی غلطیوں کی اس کو نشان دہی کر کے دیں۔
اﷲ سے دعا ہے کہ وہ سبھی کو اسلام اور مذہب سنت پر چلنے کی ہدایت اور توفیق عطا فرمائے اور اس پر ثابت قدم رکھے۔ وصلی اﷲ وسلم علی نبینا و آلہ وصحبہ
دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات و افتاء
دستخط صدر کمیٹی دستخط رکن کمیٹی
عبد العزیز بن عبد اﷲ بن محمد آل شیخ
عبد اﷲ بن عبد الرحمٰن الغدیان
بکر بن عبد اﷲ ابو زید
صالح بن فوزان الفوزان

مضمون کا لنک
 
شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
ہم خوارج نہیں" !!! ( عصر حاضر کے خوارج کی ایک خطرناک تلبیس کا جائزہ و رد)

(عصر حاضر کے خوارج کی ایک خطرناک تلبیس کا جائزہ و رد)‏


بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علیٰ إمام الأنبیاء والمرسلین وعلیٰ آلہ وأصحابہ أجمعین ‏ومن تبعھم إلی یوم الدین امابعد‎!‎

خوارج کا یہ پرانا وطیرہ رہا ہے کہ وہ عوام میں، مسلمانوں میں اپنا گھناونا چہرہ چھپانے کی خاطر اپنے لئے طرح طرح کے خوشنما نام رکھتے ہیں ، اپنی مظلومیت کا پرچار کرتے ہیں اور نئی نئی خلاف قرآن و سنت دلیلیں گھڑ کر خود کو خوارج کی چھاپ سے بچانے اور خارجیت کی مہر مٹانے کے لئے سعی لاحاصل کرتے ہیں۔ کبھی خود کو "مجاہدین اسلام "، کبھی "غربا"، کبھی "مظلومیت کی داستانیں" وغیرہ وغیرہ۔یہ لوگ خود کو جہاد و مجاہدین کے ساتھ ایساخلط ملط کرتے ہیں کہ عام مخلص مسلمان ان میں اور صحیح مجاہدین و جہاد میں تمیز کرنے ناکام ہو جاتا ہے اور اس عظیم فتنہ خوارج کا شکار ہو کر انجام بد سے دوچار ہوجاتا ہے۔

آج کے دور میں جب بھی کوئی اہل علم چاہے وہ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ ہوں ، البانی رحمہ اللہ، ‏الشیخ العثیمین رحمہ اللہ، الشیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ، الشیخ عبدالعزیز آل الشیخ حفظہ اللہ یا پھر عبد السلام بن محمد و الشیخ مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ اور دوسرے علماء، خوارج پر محکم رد و خبرار کرتا ہیں تو خارجی سوچ و فکر کے حاملیں نہایت ہی چلاکی اور ہوشیاری سے طرح ‏طرح کہ شبہات و اشکالات گھڑنے میں مصروف ہو جاتے ہیں تاکہ وہ لوگوں میں اپنے کالے چہروں اور گندے دماغوں کے باوجود، صحیح طرح پہچانے نہ جا سکیں بلکہ انکی تصویر مبہم ہی رہے اور وہ دین اور دین داروں کو مسلسل ‏آلائم و مصیتبوں سے دوچار کرتے رہیں۔

ان شبہات میں سے ایک شبہ جو عموما پیدا کیا جاتا ہے وہ یہ کہ

تلبیس خوارج:


خوارج تو وہ ہوتے ہیں جو صرف اسلامی خلیفہ یا اسلامی ریاست کہ جس نے اسلامی قوانین مکمل نافذ کیئے ہوں، انکے ‏خلاف خروج کرتے ہیں، نہ ظالم و غیر اسلامی قوانین کے مطابق فیصلے کرنے والے نام نہاد مسلم حکمران کے خلاف۔
آج کل کے حکمران نہ تو اسلامی خلیفہ ہے ، نہ اسلامی ریاست اور نہ ہی حکمران شریعت کو مکمل نافذ کرتے ہیں۔ لہذا ہم خوارج ‏نہیں ، کیوں کہ خروج تو اسلامی خلیفہ کے خلاف ہوتا ہے اور کیوں کہ عصر حاضر میں اسلامی خلیفہ ‏نہیں تو خوارج کیسے ہوں گے؟؟؟

تلبیس خوارج کی حقیقت:‏

ان ظالموں کی کم علمی و کج فہمی پر مبنی اعتراض کی تاریخ بھی انہیں کی طرح کافی پرانی ہے اور یہ کوئی پہلی بار نہیں کہ مسلمانوں کو انکی خوشنما تلبیسات کا سامنا ہے۔ اس پہلے یہ سلسلہ دور صحابہ سے شروع ہوکر سلف صالحین کے دور سے ہوتا ہوا ہی ہم تک پہنچا ہے۔
مگر بحمد اللہ ہر دور میں اہل حق نے ان گمراہ لوگوں کی تلبیسات و شبہات کا بھر پور رد پیش کیا ہے۔

جو تلبیس اوپر مذکور ہے ،اس ‏بارے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کلام انتہائی اہم ہے۔
آئیے ، اب ہم ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی زبانی خوارج کے اس شبہ اور تلبیس کی حقیقت جانتے ہیں

رد تلبیس خوارج از امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ

امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

کانوا أهل سيف وقتال، ظهرت مخالفتهم للجماعة؛ حين کانوا يقاتلون الناس. وأما اليوم فلا ‏يعرفهم أکثر الناس.. . . ومروقهم من الدين خروجهم باستحلالهم دماء المسلمين وأموالهم. ‏‏(1‏‎(‎

‎’’‎وہ اسلحہ سے لیس اور بغاوت پر آمادہ تھے، جب وہ لوگوں سے قتال کرنے لگے تو اُن کی صحابہ کرام ‏رضی اللہ عنہم کی جماعت سے مخالفت و عداوت ظاہر ہوگئی۔ تاہم عصرِ حاضر میں (بظاہر دین کا لبادہ ‏اوڑھنے کی وجہ سے) لوگوں کی اکثریت انہیں پہچان نہیں پاتی۔ ۔ ۔ ۔ وہ دین سے نکل گئے کیوں کہ وہ ‏مسلمانوں کے خون اور اَموال (جان و مال) کو حلال و مباح قرار دیتے تھے۔

امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں‎ ‎
وهؤلاء الخوارج ليسوا ذلک المعسکر المخصوص المعروف فی التاريخ، بل يخرجون إلی زمن ‏الدجّال.(2) وتخصيصه صلی الله عليه وآله وسلم للفئة التی خرجت فی زمن علی بن أبی طالب، ‏إنما هو لمعان قامت بهم، وکل من وجدت فيه تلک المعانی ألحق بهم، لأن التخصيص بالذکر لم ‏يکن لاختصاصهم بالحکم، بل لحاجة المخاطبين فی زمنه عليه الصلاة والسلام إلی تعيينهم.‏[‎‎[/ARB

اور یہ خوارج (سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے عہد کا) وہ مخصوص لشکر نہیں ہے جو تاریخ میں معروف ہے ‏بلکہ یہ دجال کے زمانے تک پیدا ہوتے اور نکلتے رہیں گے۔ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‏کا اُس ایک گروہ کو خاص فرمانا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نکلا تھا، اس کے کئی معانی ‏ہیں جو ان پر صادق آتے ہیں۔ ہر وہ شخص یا گروہ جس میں وہ صفات پائی جائیں اسے بھی ان کے ساتھ ‏ملایا جائے گا۔ کیونکہ ان کا خاص طور پر ذکر کرنا ان کے ساتھ حکم کو خاص کرنے کے لئے نہیں تھا بلکہ ‏حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے ان مخاطبین کو (مستقبل میں) ان خوارج کے تعین کی ‏حاجت تھی"۔

یہ بات صحیح احادیث سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اسلامی خلافت وخلیفہ آپ صلی اللہ کے فرامین کے ‏مطابق صرف تیس سال رہے گی اور رہی۔

جیسا کہ ایک روایت میں آیا ہے :
وعن حذیفۃ بن الیمان أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:‏‎ ‎
"‎تکون النبوۃ فیکم ماشاء اللہ أن تکون، ثم یرفعھا اللہ إذا شاء أن یرفعھا، ثم تکون خلافۃ ‏علی منھاج النبوۃ، فتکون ما شاء اللہ أن تکون، ثم یرفعھا اللہ إذا شاء أن یرفعھا، ثم تکون ملکا ‏عاضا فیکون ما شاء اللہ أن تکون، ثم یرفعھا اللہ إذا شاء أن یرفعھا، ثم تکون ملکا جبریا فتکون ‏ما شاء اللہ أن تکون، ثم یرفعھا إذا شاء أن یرفعھا، ثم تکون خلافۃ علی منھاج" النبوۃ[ 4]‏
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کا ارشاد ہے‏:
‎ ‎نبوت تمہارے اندر باقی رہےگی جب تک اللہ اسے باقی رکھنا چاہےگا۔ پھر جب اللہ اسے اٹھانا ‏چاہےگا تو اٹھا لےگا۔ پھر نبوت کے طرز پر خلافت قائم ہوگی تو اسے بھی جب تک اللہ باقی رکھنا ‏چاہےگا یہ بھی باقی رہےگی۔ پھر وہ اسے بھی اٹھا لےگا جب اسے اٹھانا چاہےگا۔ پھر کاٹ کھانے والی ‏بادشاہت ہوگی تو یہ بھی جب تک اللہ رکھنا چاہے رہےگی پھر اللہ اسے بھی اٹھا لےگا جب وہ اسے ‏اٹھانا چاہےگا۔ پھر جبری بادشاہت ہوگی تو یہ بھی جب تک اللہ اسے رکھنا چاہےگا رہےگی۔ پھر جب ‏اسے اٹھانا چاہےگا اٹھا لےگا۔ پھر نبوت کے طرز پر خلافت ہوگی۔‎"‎
(اس روایت کو علامہ عراقی اور البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے‎)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا:
خلافت تیس سال رہے گی اس کے بعد بادشاہت آجائے گی ۔‘‘([ 5]‏‎)

جب ہم ان احادیث کا مطالعہ کریں تو یہ بات نکھر کے سامنے آجاتی ہے کہ اسلامی خلیفہ و خلافت کا ‏دور تو کب کا ختم ہوچکا، اس بعد کاٹ کھانے والی بادشاہت بھی اپنی بساط لپیٹتی نظر آرہی ہے اور عصر ‏حاضر میں ہر جمہوری الیکشنز و انتخابات میں جس کی لاٹھی اسکی بھینس کا مصداق نظام، یعنی جو جتنی ‏رشوت و دھاندلی و دونمبری کا ماہر ہو یا پھر اقتدار پر قبضے کی قوت رکھنے والا ملٹری جرنیل ہو ، وہی حکمران بن ‏جاتا ہے اور جبرا لوگوں پر مسلط ہو جاتا ہے چاہے وہ کوئی آمر ہو یا جمہوری صدر۔۔۔اور پھر یہ اقتدار ‏بادشاہت کے انداز میں اس کے وارثوں میں ہی منتقل ہوتا جاتا ہے۔ اور عصر حاضر میں یہ کسی کی ‏نظروں سے اوجھل نہیں۔۔تو یہ دور جبری بادشاہت کا دور ہے، ظلم و جور کا دور ہے کہ جس کہ بعد ‏اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت علی منہاج النبوی کی خوشگوار پیش گوئی کی ہے واللہ واعلم

اب اگر خوارج کی اس تلبیس پر غور کیا جائے کہ خروج تب ہوگا یا ہم خوارج تب ہوں گے جب ہم ‏کسی اسلامی خلیفہ و حکمران کے خلاف خروج یا علم بغاوت و قتال بلند کریں گے ورنہ ہم خوارج نہیں، اور نہ ہی ہم خروج کر رہے ہیں۔

جب اس تلبیس پر دلیل و برھان کی تیز روشنی پڑتی ہے تو تلبیس کا یہ جال ،مکڑی کے اس خوشنما جال کی طرح چمکنا شروع ہوجاتا ہے جو کہ اندھیرے میں نظر نہیں ‏آتا ہے اور شکار کو پھنساتا چلے جا رہا ہوتا ہے۔

اسلامی خلافت تو ابتدائی تیس کے بعد اختتام پزیر ہو گئی تھی۔

اس کے بعد تو ظلم و جور اور ایسی بادشاہت کا ‏دور رہا کہ جن میں شاید سوائے چند خوش نصیبوں کہ کسی حکمران نے اسلامی قوانین کو مکمل نافذ کیا ‏ہو، کیونکہ تابعین و تبع تابعین کا دور ہو، یا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا ، یا ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور یا پھر ‏الشیخ محمد بن عبد الوھاب رحمہ اللہ کا ، نہ تو اسلامی خلافت تھی اور نہ اسلامی حکمران اور نہ ہی اللہ کے ‏دین کا نفاذ مگر پھر بھی ان تمام سلف و آئمہ کے دور کا مطالعہ کریں تو آپ کو انکے ادوار میں خوارج کی ‏موجودگی بھی ملے گی اور یہی ہستیاں اپنے اپنے زمانے میں خوارج کے وجود و اثرات اور مذمت ‏میں مصروف بھی نظر آئیں گی۔

جن میں احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے دور میں خلق قرآن کے کفریہ عقیدے کے قائلین حکام ہوں یا پھر ‏ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے دور میں یا خالد ابن الولید المدد کے نعرے لگانے والا سلطان یا پھر محمد بن ‏عبدالوھاب کے دور میں خلافت عثمانیہ (6) میں سود کو جائز و حلال قرار دینے اور غیر اللہ کے ‏فیصلوں پر عمل پیرا حکمران، خروج اور خوارج کا وجود تب بھی رہا اور ان آئمہ نے انکی مذمت بھی اور ‏ان کا تعاقب بھی۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
کس قسم کے’’تصور جہاد‘‘کے آپ حامی ہیں؟؟؟جو ان قوتوں سے سند یافتہ ہےجو اسلامی شریعت سے بغض و عناد کا سا معاملہ رکھتی ہیں،جو’’ اساسیات دین‘‘’’ ضروریات دین‘‘سے عملی طور پر منحرف ہیں،جو اس قانون کی وفادار ہیں جو اللہ کے مقابل اپنی ایک اتھارٹی منواتا ہے،آپ کا تصور جہاد ان غلام زدہ ذہینوں سے برآمد ہوگا جن کی جبین نیاز غیراللہ کے چرنوں کا بوسہ لیتی ہے،آپ کا ’’قانونی تصور جہاد‘‘وہاں سے امر ہے،جو عفت وعصمت سے مرقع بیٹیوں کے ناتواں جسموں کا فاسفورس بموں سے بھسم کر کے فتح کے تازیانے بجاتے ہیں،ہمیں بھی بتائیں کہ ’’تصور جہاد‘‘کا کوئی مصدر ہے آپ کے نزدیک قرآن وسنت سے۔۔۔یا اس مصدر کو وہ طبقہ متعین کرتا ہے جو سرسید کی نرسری سے پروان چڑھنے والے الحاد ودہریت کے جرثومے۔۔۔۔
آپ اس بات کے مدعی ہیں کہ موجودہ ’’نام نہاد اسلامی ریاستوں‘‘کی بیخ کنی والے عناصر’’خوارج‘‘کی صفات پر پورا پورا اترتے ہیں۔۔تو جناب رکیے نہ بلکہ اس لفظ کے دائرے کو وسیع کر لیں تاکہ اس میں ہمارے سلف کا وجود بھی سما جائے،’’امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر ’’خارجی‘‘کی بے نیام تلوارچلا دیں،جنہوں نے نفس زکیہ رحمہ اللہ کے ساتھ تعاون کو امر سے تعبیر کیا تھا(جو ظالمانہ حکومت کے خلاف نبرد آزما تھے)۔
۱۴۵ہجری کا واقعہ ہےکہ خلفائے بنو عباس کے فرماں روا منصور عباسی کے خلاف بصرہ وغیرہ میں محمد نفس زکیہ رحمہ اللہ اور ابراہیم نفس مرضیہ رحمہ اللہ دو بھائیوں نے تنفیذ شریعت اور اقامت دین حقہ کی غرض سے مسلح جہاد کا اعلان کیا،ان حضرات کو کئی شہروں میں کامیابی بھی حاصل ہوئی،جہاں پر یہ حضرات قابض ہوجاتے تھےوہاں مکمل طور پر شریعت نافذ کرتے تھے۔اس موقع پر جہاں دیگر علمائے کرام ان کے حامی تھے وہیں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اس تحریک کے روح رواں تھے۔
امام شافعی رحمہ اللہ نے لکھا ہےکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ،ابراہیم نفس مرضیہ رحمہ اللہ کی حمایت کے لیے لوگوں کو علی الاعلان جہاد پر ابھارتے تھےاور لوگوں کو حکم دیتے تھے کہ ان کے ساتھ ہوکر حکومت کا مقابلہ کرو۔امام زفر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابراہیم رحمہ اللہ کے زمانے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ان کی حمایت میں بڑے شدومد کے ساتھ بولنے لگے تھے۔اس کا مطلب یہ ہو ا کہ امام صاحب حکومت کے انتقام اور داروگیر سے قطعا بے پرواہ ہو کر اعلانیہ ابراہیم رحمہ اللہ کی حمایت کا دم بھرنے لگے اور نہ صرف خود بلکہ جو بھی ان کے زیر اثر تھا اس کو ابراہیم رحمہ اللہ کی حمایت پر آمادہ کرتے تھےاورامر کرتے تھے۔اگر امر کے اصطلاحی معنی لے لیے جائیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ان کا ساتھ دے کر حکومت ظالمہ کے مقابلے کو فرض قرار دیتے تھے اور کیسا فرض؟ذرا دیکھو کہ کوفہ کے مشہور محدث ابراہیم بن سوید رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ میں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ابراہیم نفس مرضیہ رحمہ اللہ کے خروج کے زمانے میں دریافت کیا کہ حج جو فرض ہے،کہ ادا کرنے کے بعدآپ کا کیا خیال ہےکہ مزید حج کرنا زیادہ بہتر ہےیااس شخص یعنی ابراہیم رحمہ اللہ کی رفاقت میں حکومت کا مقابلہ کرنا زیادہ ثواب کاکام ہے؟ابراہیم بن سوید کہتے ہیں کہ غور کے ساتھ میں نے دیکھا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرما رہے ہیں کہ اس جنگ میں شرکت ایسے پچاس حج سے زیادہ افضل ہے۔
(امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی سیاسی زندگی مولفہ سید مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ،ص:343)
’’عقل والوں‘‘کے لیے اس میں نشانیاں ہیں۔
 
Top