• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا نماز تراویح بدعت ہے؟

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207

"نماز تراویح بدعت نہیں بلکہ سنت ہے"


نماز تراویح بدعت نہیں بلکہ سنت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سارا سال یہ نماز ادا کیا کرتے تھے۔ کبھی اکیلے اور کبھی با جماعت۔ نماز تراویح، نماز تہجد, قیام اللیل , قیام رمضان, ایک ہی نماز کے مختلف اعتبارات سے مختلف نام ہیں۔ چونکہ یہ نماز رات کی نیند ترک کرکے ادا کی جاتی ہے اور رات کے آخری پہر کی نیند کو ترک کرنا عربی زبان میں ہجود کہلاتا ہے۔ لہذا اسے تہجد کی نماز کہا جاتا ہے۔
چونکہ یہ نماز، عشاء سے فجر تک، رات کے کسی بھی حصہ ادا کی جاسکتی ہے ۔ اس لیے اسے قیام اللیل کہا جاتا ہے۔

رمضان المبارک میں اسکا اہتمام وہ لوگ بھی کرتے ہیں جو شاید سارا سال نہیں کرتے , رمضان کی راتوں میں اہتمام کے ساتھ قیام کرنے کی نسبت سے اسے قیام رمضان کانام دیا جاتا ہے۔
یہ نماز لمبے قیام پر مشتمل ہوتی ہے۔ جسکی وجہ سے کچھ لوگ کبھی دائیں پاؤں پہ وزن ڈالتے ہیں اور کبھی بائیں پاؤں ۔ یعنی ایک ایک کرکے پاؤں کو باری باری قیام کے دوران راحت پہنچاتے ہیں ۔ اس وجہ سے اس نماز کو نماز تراویح کہتے ہیں۔
اسے نماز تراویح کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر دو رکعتوں کے بعد کچھ وقفہ کرکے پھر اگلی دو رکعات کا آغاز کیا جاتا ہے۔ راحت وسکون اور ذکر ودعاء کے لیے ہر دو رکعات کے درمیانی وقفہ کی وجہ سے بھی اسے نماز تراویح کا نام دیا گیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سارا سال قیام اللیل فرماتےتھے۔ اس نماز کو قیام اللیل اور تہجد کا نام اللہ تعالى نے دیا ہے۔ قیام اللیل کا معنى ہے رات کا قیام, رات کے وقت قیام کرنے کا حکم دیتے ہوئے اللہ تعالى نے ارشاد فرمایا:
يَاأَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ * قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا * نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا * أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا *
اے کمبل اوڑھنے والے!۔ رات کا تھوڑا حصہ چھوڑ کر باقی رات قیام کیا کر۔ آدھا حصہ یا اس سے کچھ کم۔ یا اس سے زائد، اور قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھ۔ سورۃ المزمل:1-4

اور تہجد کا حکم دیتے ہوئے اللہ تعالى نے ارشاد فرمایا:
وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ
اور رات کے وقت اس (قرآن ) کے ساتھ تہجد ادا کر، یہ تیرے لیے نفل ہے۔ سورۃ الإسراء:79

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالى کی بتائی ہوئی اس نفل نماز کا اتنا اہتمام کیا کہ اسے کبھی نہیں چھوڑا۔ حتى کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
«كَانَ إِذَا فَاتَتْهُ الصَّلَاةُ مِنَ اللَّيْلِ مِنْ وَجَعٍ، أَوْ غَيْرِهِ، صَلَّى مِنَ النَّهَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً»
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے رہ جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن کے وقت (اسکی قضاء دینے کے لیے) بارہ رکعتیں پڑھتے۔ صحیح مسلم:746

لہذا اس نماز کو بدعت کہنا کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔ رہی ان اسلاف کی بات جو اسے غلطی سے بدعت کہتے رہے کہ انکا کیا حکم ہے ؟ تو ان سب کے بارہ میں اس سوال کا ہماری طرف سے ایک ہی جواب ہے۔ وہ جواب جو موسى علیہ السلام نے فرعون کو اس وقت دیا تھا جب فرعون نے اسلاف کے بارہ میں حکم موسى علیہ السلام سے دریافت کیا تھا۔ فرعون نے پوچھا :
فَمَا بَالُ الْقُرُونِ الْأُولَى

پہلے زمانے (والوں) کا پھر کیا بنے گا؟

تو موسى علیہ السلام نے اسکے جواب میں فرمایا:
عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي فِي كِتَابٍ لَا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنْسَى
انکا علم میرے رب کے پاس ایک کتاب میں ہے، میرا رب نہ تو بھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔ سورۃ طہ: 51-52

سو ہم بھی آپکے سوال
" اگر نہیں تو نواب صدیق حسن کے بارے میں کیا فتویٰ ہے ؟؟؟"
کے جواب میں یہی کہتے ہیں
عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي فِي كِتَابٍ لَا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنْسَى
انکا علم میرے رب کے پاس ایک کتاب میں ہے، میرا رب نہ تو بھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔

اور اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ موسی علیہ السلام کا فرعون کو یہ جواب درست تھا تو پھر اسی طرح کے سوال کے جواب میں ہماری طرف سے وہی جواب آپکو درست تسلیم کرنا ہوگا۔
اور گر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ موسى علیہ السلام کا وہ جواب درست نہیں تھا تو پھر آپکو اپنے ایمان کی فکر کرنا ہوگی ! اور ویسے بھی اللہ سبحانہ وتعالى نے گزرے ہوئے لوگوں کے بارہ میں فرمایا ہے :
تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ
یہ لوگ گزر چکے، جو انہوں نے کمایا وہ انکے لیے ہے, اور جو تم نے کمایا وہ تمہارے لیے ہے, اور تم انکے اعمال کے بارہ میں نہیں پوچھے جاؤگے۔ سورۃ البقرۃ: 134

لہذا فوت شدگان کو مسائل میں گھسیٹنا یہ مسلمانوں کا کام نہیں ہے ۔ ہاں فرعون کو جب دلیل نہیں ملی اور بات نہیں بن سکی , وہ لاجواب ہوا تو اس نے فوت شدگان کو درمیان میں گھسیٹا،کہ شاید اس طرح موسى علیہ السلام پھنس جائیں گے۔
سو آپ اپنے اس قسم کے سوالات پہ نظر ثانی فرمائیں! ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی انہیں "فرعونی سوالات" کا نام دے دے اور پھر آپکو پشیمانی ہو۔
"بشکریہ محترم شیخ [SIZE=6]@رفیق طاھر[/SIZE] حفظہ اللہ"
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
موسیؑ کا جواب فرعون کے شر سے بچنے کے لیے تھا۔ کیوں کہ دیگر انبیاء نے یہ جواب نہیں دیا بلکہ پچھلی قوموں کے عذاب سنائے ہیں۔ قرآن کریم نے بھی مشرکین کے آباء کا سختی سے رد کیا ہے۔
فتوی دیتے وقت اس طرح کا جواب کیسے مناسب ہو سکتا ہے؟ ہاں بحث میں جان چھڑانے کے لیے کیا جائے تو الگ بات ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
کیا تہجد کی نماز کو رات کے آخری حصے میں ادا کرنا افضل ہے؟
اور نماز تراویح کا افضل وقت کون سا ہے؟
 
Top