• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا کفر اور شرک کا مرتکب کافر اور مشرک نہیں ہوتا؟

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
کیا کفر اور شرک کا مرتکب کافر اور مشرک نہیں ہوتا؟


علمائے کرام نے جائز تکفیر کو شجر ممنوعہ بنا کر معاملات کو اتنا الجھا دیا ہے کہ ایک عام شخص نہ صرف یہ کہ کفر اور شرک میں مبتلا شخص کو کافر نہیں کہتا بلکہ انکے کفر اور شرک میں شک کرتے ہوئے انہیں مشرک و کافر بھی سمجھنے کے لئے تیار نہیں
بعض علماء نقصان اور فتنے کے خوف سے بھی کفریہ اور شرکیہ عقائد کے حاملین کے کافر ہونے کا فتویٰ نہیں دیتے۔اور گول مول بات کرتے ہیں۔اور بعض علماء تساہل کا عارضہ لاحق ہونے کی بنا پرہر کلمہ گو کو دائرہ اسلام کے اندر رکھنے پر سارا زور صرف کرتے نظر آتے ہیں چاہے بعض کلمہ گو شرک اور کفر کی انتہاء ہی کو کیوں نہ چھو لیں۔۔
میرا اور شاہد نذیر صاحب کا اتفاق اس فورم پر شاہد ہی کسی موضوع پر ہوا لیکن یہ واحد موضوع جس پر میرا اور شاہد نذیر صاحب کا اتفاق ہے ۔
تکفیر معین کے معاملہ میں میرا نظریہ بھی یہ ہے کہ اگر ایک شخص شرکیہ عقائد کا حامل ہے تو وہ مشرک ہی ہے ۔ البتہ اس میں اتنی احتیاط کی ضرورت ہے صرف اس کے کلام کے الفاظ پر شرک کا فیصلہ نہ کیا جائے بلکہ اس سے کچھ وضاحت مانگی جائے۔ مثلا بریلوی حضرات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب مانتے ہیں ۔ لیکن اگر ان سے وضاحت طلب کی جائے تو مختلف جواب ملتے ہیں
بعض بریلوی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اتنا علم ہی تھا جتنا اللہ تبارک و تعالی نے دیا لیکن چوں وہ علم غیب کے خزانے سے دیا اس لئيے ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب کہتے ہیں
بعض کہتے ہیں کہ نہیں ان کے پاس ہر چیز کا علم ہے ۔ میری ایک بریلوی سے بات ہوئی تو اس نے یہی بات کہی اور جب میں نے اس سے کہا اس طرح تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تبارک و تعالی برابر ہوگئے تو کا اس کہنا تھا کہ شاگرد کبی بھی استاد کے برابر نہیں ہو سکتا ۔ اس کا عقیدہ یہ تھا اللہ تبارک و تعالی ما کان و ما یکون کا علم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کردیا تھا ۔ میرے نذدیک یہ عقیدہ شرکیہ ہے اور ایسے شرکیہ عقیدہ کا حامل شخص مشرک ہے ۔
اب یہاں تکفیر معین کے حوالہ کچھ موانع گنوائے جاتے ہیں
مثلا ایک مانع ہے جہالت ،
میرا نظریہ ہے کہ اگر جہالت کی وجہ سے کسی کلمہ گو مسلمان کی تکفیر معین نہیں کی جائے گی تو پھر کئي عیسائیوں اور یہودیوں کی بھی تکفیر نہیں کی جاسکتی ۔ جہالت کا مانع تو وہاں بھی آسکتا ہے

یہاں شاہد نذیر صاحب نے جس طرح علماء پر تنقید کی ہے وہ غلط ہے ۔ میرا ذاتی طرز عمل اس طرح کا ہے میں بریلوی اور شیعہ حضرات کے ساتھ تعامل مشرکین کا سا رکھتا ہوں مثلا ہمارے ہاں ایک مرغی والا ہے اس نے اپنی دکان پر یا غوث الاعظم المدد لکھ رکھا ہے ۔ میں اس کے ذبیحہ کو جائز نہیں سمجھتا اور وہاں سے مرغی کا گوشت نہیں خریدتا ۔
اسی طرح شرکیہ عقائد کے حامل افراد کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا۔
اسی طرح بریلوی اور شیعہ حضرات کے ساتھ قربانی کے حصوں میں شامل نہیں ہوتا
میرا ذاتی عمل صرف احتیاط کی وجہ سے ہے
اب جہاں تک تکفیر معین کے سلسے میں علماء کرام کا موقف ہے تو مجھے اس سے اختلاف ضرور ہے لیکن نہ میں ان پر تنقید کرتا ہوں اور نہ اس مسئلہ کو عوامی جگہ پر اچھالتا ہوں۔
میں سمجتھا ہوں کہ یہ ممکن نہیں علماء کی کثیر تعداد کوئی علطی کر رہی ہو اور ایک مسئلہ کو سمجھ نہ سکی اور میں اس مسئلہ کو سمجھ گيا ہوں ۔ اس لئیے میں تکفیر معین کے مسئلہ پر علماء کرام سے تعارض کیے بغیر احتیاطا اپنے نظریہ پر عمل کرتا ہوں
اور میری شاہد نذیر صاحب سے گذارش ہے آپ اپنا تعامل شرکیہ عقائد کے حامل کے کے ساتھ مشرکوں والا معاملہ احتیاطا ضرور رکھیں لیکن علماء کرام پر تنقید سے گریز کریں
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,010
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

آپ شاید وہی محترم شخصیت ہیں جنھوں نے شیخ عبدالمنعم مصطفیٰ حلیمہ حفظہ اللہ کی کتاب عقیدہ طائفہ منصورہ کو اردو قالب میں ڈھالا ہے؟



میرے خیال میں تکفیر مطلق اور تکفیر معین کا فرق نظر انداز ہو گیا ہے۔
مجھے افسوس ہے کہ آپ سمیت کسی بھی بھائی نے میرے مکمل مضمون کا مطالعہ ہی نہیں کیا کسی نے کچھ مقامات سے سرسری دیکھ کر، کچھ نے آغاز مضمون کا کچھ حصہ پڑھ کر، کسی نے عنوان دیکھ کر اور کسی نے کچھ بھی پڑھے بغیر صرف دیگر بھائیوں کے مضمون کے بارے میں خیالات پڑھ کر ہی من چاہا تبصرہ کردیا ہے اور اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔

میرے مضمون کا اصل موضوع تو ایک بدعی اصول (کسی شخص کا عمل اور عقیدہ تو کفر اور شرک ہو سکتا ہے لیکن اپنے اس شرکیہ و کفریہ عقیدہ اور عمل کی بنا پر خود وہ شخص کافر اور مشرک نہیں ہوتا) کا رد ہے جس میں تکفیر معین کا موضوع بھی مختصرا زیر بحث آگیا ہے۔
بہرحال آپ محترم کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کیونکہ میں تکفیر معین اور تکفیر مطلق کے مابین فرق پر بحث نہیں کررہا بلکہ ایک ایسے کلمہ گو کے کافر اور مشرک ہونے پر بحث کررہا ہوں جس کے کفر پر دلائل موجود ہیں اور جس کا کفر کسی عام مسئلہ میں نہیں بلکہ دین اسلام کے بنیادی مسئلہ توحید میں ہے۔

کفر اور شرک کا مرتکب یقینا کافر اور مشرک ہوتا ہے لیکن یہ ایک مطلق بات ہے۔سوال یہ ہے کہ ایک معین یا مخصوص شخص کافر اورمشرک ہے یا نہیں؟علما نے واضح کیا ہے کہ ایک شخص کفر کا مرتکب ہوتا ہے لیکن اس پر کفر کا حکم نہیں لگتا کیوں کہ کوئی مانع موجود ہوتا ہے مثلا جہالت اکراہ تاویل وغیرہ۔

امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
لكنَّ تكفير المطلق لا يستلزم تكفير المعين فإن بعض العلماء قد يتكلم في مسألة باجتهاده فيخطئ فيها فلا يُكفر وإن كان قد يُكفر من قال ذلك القول إذا قامت عليه الحجة المكفرة..."ا.هـ.(مجموع الفتاوى :35/99)
یعنی تکفیر مطلق سے تکفیر معین لازم نہیں آتی کہ بعض اوقات ایک عالم کسی مسئلہ میں اپنے اجتہاد کی بنا پر کوئی بات کہتا ہے اور اس میں غلطی کر جاتا ہے تو اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی اگرچہ اسی بات کے کہنے پر ایسے شخص کو کافر کہا جاسکتا ہے جس پر حجت قائم ہو چکی ہو
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
فليس لأحدٍ أن يُكفر أحداً من المسلمين وإن أخطأ وغلِط حتى تقام عليه الحجة وتبين له المحجة ( مجموع الفتاوى:12/501)
کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو کافر قرار دے خواہ اس سے غلطی اور خطا ہی سرزد ہوئی ہو تا آں کہ اس پر قیام حجت ہو جائے اور مسئلہ واضح کر دیا جائے۔
ایک موقع پر باطنیوں کے کفریہ کلمات کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
فهذه المقالات هي كُفر؛ لكن ثبوت التكفير في حقِّ الشخص المعيَّن، موقوفٌ على قيام الحجة التي يَكْفُر تاركها، وإن أطلق القول بتكفير مَن يقول ذلك، فهو مثل إطلاق القول بنُصُوص الوعيد، مع أنَّ ثُبُوت حكم الوعيد في حقِّ الشخص المعيَّن، موقوفٌ على ثبوت شروطه، وانتفاء موانعه؛ ولهذا أطلق الأئمة القول بالتَّكفير، مع أنهم لم يحكموا في عين كلِّ قائلٍ بِحُكم الكفار (بغية المرتاد في الرَّد على المتفلسفة والقرامطة والباطنية:ص۳۵۳۔۳۵۴)
یہ تمام باتیں کفر ہیں لیکن کسی معین شخص کے حق میں تکفیر کا ثبوت قیام حجت پر موقوف ہے جس کا تارک کافر گردانا جاتا ہے۔البتہ مطلق طور پر یہ کہنا کہ اس کا قائل کافر ہے تو یہ اسی طرح ہے جیسے مطلق وعید بیان کی جائے جب کہ کسی معین فرد کے بارے میں اس وعید کے حکم کا ثبوت اس کے شرائط کے ثبوت اور موانع کے عدم وجود پر موقوف ہے۔یہی وجہ ہے کہ ائمہ کرام نے مطلق تکفیر تو کی ہے لیکن ہر قائل کو معین طور پر کفار کے حکم میں شامل نہیں کیا۔
دیکھئے یہی ہے اصل مسئلہ کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا یہ کلام شرک اکبر اور کفر اکبر کے مرتکب کے بارے میں ہرگز نہیں بلکہ یہ کلام تو ان لوگوں کے بارے میں ہے جن کا کفر اور شرک اسلام کی بنیاد توحید اور ضروریات دین کے علاوہ ہے۔ ایسے شخص کی تکفیر کے ہم بھی اس وقت تک قائل نہیں جب تک کہ اس پر اتمام حجت نہ کردی جائے۔ تفصیل کے لئے مکمل مضمون کا مطالعہ فرمائیں۔

معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ اکثر علماء کرام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ایسی ہی عبارات کو کسی وضاحت کے بغیر مطلق ذکر کرتے ہیں جس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کسی بھی کلمہ گو کی کسی بھی صورت میں تکفیر معین نہیں کی جاسکتی حالانکہ یہ بات بذات خود مردود ہے اور علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر بہتان عظیم بھی۔ شیخ الاسلام فرماتے ہیں: مخالفین اہلسنت میں گمراہ مشرکین بھی ہیں جن سے شرک ظاہر ہونے پر توبہ کا مطالبہ کیا جانا چاہیے کہ اس شرک سے تائب ہوجائیں اور اگر نہ کریں تو کفار اور مرتد ہونے کی بنا پر ان کی گردن اڑائی جانی چاہیے۔(مشرک اور بے نمازی شخص کے ذبیحہ کے بارے میں شرعی حکم، صفحہ ٥٦)

ظاہر ہے ان کلمہ گو مشرکین کی گردن اسی وقت اڑائی جانا ممکن ہے جب انکی تکفیر معین کردی جائے۔

ابو عبداللہ عبدالرحمنٰ بن عبدالحمید المصری ان لوگوں کا رد کرتے ہیں جو علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بارے میں یہ بارور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ علامہ موصوف تکفیر معین کے قائل نہیں تھے۔چناچہ فرماتے ہیں:
یہ وہ کلام ہے جس کے بارے میں دین کے دشمن یہ کہتے ہیں کہ آپ تکفیر معین کے قائل نہ تھے۔ آپ دیکھئے کہ اس امت میں جو لوگ غیر اللہ کے لئے ذبح کرتے ہیں شیخ الاسلام ان کی بھی تکفیر کر رہے ہیں۔
اور بیان فرماتے ہیں کہ ایسا منافق شخص مرتد بن جاتا ہے۔ کسی کو مرتد کہنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا جب تک کسی کو مخصوص کرکے مرتد نہ کہا جائے۔
(توحید سے جاہل شخص کے بارے میں شرعی حکم، صفحہ ٨٢)

مزید فرماتے ہیں: کسی متعین کی تکفیر مطلقاً جائز نہیں صرف یہ کہا جاسکتا ہے جو شخص ایسا عمل کرے یا ایسی بات کہے وہ کافر ہے یا یہ قول یا عمل کفریہ ہے۔
لیکن ایسا کام کرنے یا کہنے والے کی تکفیر نہیں کی جاسکتی ۔ ۔ ۔ ۔ حق بات تو یہ ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اس جھوٹ سے بری الذمہ ہیں۔ کیونکہ ایسی رائے اختیار کرنے سے تو اللہ تعالیٰ کے احکامات اور حدود معطل ہوجائیں گے۔
(توحید سے جاہل شخص کے بارے میں شرعی حکم، صفحہ ٨٢)

لوگوں نے اپنے مخصوص نظریات کی تائید کے لئے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مخصوص عبارات (جن سے شیخ الاسلام کا مکمل موقف واضح نہیں ہوتا) اس کثرت سے استعمال کیں کہ امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کو اس پر ایک مستقل رسالہ تصنیف کرنا پڑ گیا۔ ابو عبداللہ عبدالرحمنٰ لکھتے ہیں: امام محمد بن عبدالوہاب نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ پر منسوب کردہ جھوٹ کے خلاف ایک مستقل رسالہ قلمبند فرمایا ہے جس میں امام شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے اقوال کا مکمل جائزہ لے کر یہ وضاحت کی گئی ہے کہ امام موصوف کا تکفیر معین کو ناجائز کہنا حجت قائم کرنے سے قبل کے بارے میں ہے اور یہ دلیل اور حجت صرف مخفی اور غیر ظاہر امور میں ہے۔(توحید سے جاہل شخص کے بارے میں شرعی حکم، صفحہ ٨١)

مطلب یہ کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک بھی جس شخص کا کفر ظاہری امور میں ہو تو اس پر اتمام حجت کے بغیر ہی اس کی تکفیر معین جائے گی کیونکہ ظاہری امور میں اتمام حجت کی ضرورت نہیں ہوتی۔

علماء کرام کا علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی صرف ایسی عبارات کا انتخاب کرنا جو ایک مخصوص موقف کی تائید کرتی ہیں اور اسکی مخالف عبارات کو مکمل نظر انداز کردینا ہی عوام الناس پر حق و باطل کو خلط ملط کرنے کا سبب بنتا ہے۔اور عوام الناس ثابت شدہ کافر اور مشرک کو بھی صرف اس وجہ سے کافر کہنے سے رک جاتے ہیں کہ اس نے مسلمانوں کا کلمہ پڑھ رکھا ہے۔جبکہ بہت سے معاملات ایسے ہیں جن میں ایک مسلمان کا کلمہ بھی قابل اعتبار نہیں رہتا۔

پس الحمداللہ ہمارا موقف بھی یہی ہے جو علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ سمیت جمہور علماء کا ہے۔

دیگر سلفی علما نے بھی اس نکتے کو اجاگر کیا ہے لیکن اس کی تفصیل ممکن نہیں۔ہاں یہ مسئلہ سلفی اہل علم کے مابین مختلف فیہ ہے کہ توحید اور عقیدہ کے جلی مسائل میں جہالت کا عذر دیا جائے گا یا نہیں؟ بہ طور خاص جب کوئی شخص نہ تو نومسلم ہو اور نہ ہی کسی صحرا یا جنگل میں سکونت پذیر ہو۔ بعض کہتے ہیں کہ اس پر اقامت حجت کی ضرورت نہیں کہ قران و حدیث اس کے پاس موجود ہیں اور علما تک بھی بہ آسانی رسائی حاصل ہے جن سے پوچھ کر اپنی جہالت دور کر سکتا ہے۔
یہی موقف حق ہے کیونکہ قرآن و حدیث کی نصوص اور سلف صالحین کا نظریہ اسی موقف کے حق و تائید میں ہیں۔

اس کے بر عکس دیگر کا کہنا ہے کہ فی زمانہ شبہات اور مغالطوں کی کثرت ہے اور جہالت اس قدر عام ہے کہ پہلے اسے سمجھایا جائے اور مسئلے کی وضاحت کے بعد ہی اس پر شرعی حکم لگایا جائے۔
باوجود کوشش کہ مجھے اس موقف کے دلائل دستیاب نہیں ہوسکے۔ کیا آپ بتانا پسند فرمائینگے کہ متقدمین میں کون کون سے علماء اس موقف کے حامل رہے ہیں اور کتاب و سنت میں اسکے دلائل کیا ہیں؟ کیونکہ اہل باطل تو ہر زمانے میں رہے ہیں اور شبہات اور مغالطے تو اہل باطل کا تحفہ ہے جس سے کسی دور کے مسلمان محفوظ نہیں رہے۔اور فی زمانہ اگر شبہات اور مغالطوں کی کثرت ہے تو علم بھی ماضی کے مقابلے میں اتنی ہی آسانی اور کثرت سے دستیاب ہے۔

اگر شاہد نذیر صاحب اس ضمن میں پہلے گروہ کے موقف سے اتفاق رکھتے ہوں تو یہ لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے کہ اس تعلق محض توحید اور ضروریات دین یا قطعی و جلی قسم کے امور سے ہے ہر قسم کا کفر پھر بھی مراد نہیں جب کہ ان کا عنوان مطلق کفر اور شرک کا ہے۔
میں نے اس کا پورا پورا لحاظ رکھا ہے اور وضاحت کی ہے کہ ہر قسم کے کفر کے مرتکب کی تکفیر نہیں کی جاسکتی جب تک اسے علم نہ پہنچا دیا جائے اور اسکے شبہات (جن کی وجہ سے وہ کفر میں مبتلا ہے) دور نہ کردیئے جائیں۔

جہاں تک عنوان کا تعلق ہے تو
اول: چونکہ کفر اور شرک سے عام طور پر کفر اکبر اور شرک اکبر مراد لیا جاتا ہے اس لئے اسے مطلق ذکر کیا گیا ہے۔
دوم: جس اصول کے رد میں مضمون لکھا گیا ہے چونکہ اس اصول کو لوگ مطلقاً پیش کرتے ہیں اس لئے اس اصول کا رد کرتے ہوئے عنوان کو بھی مطلقاً پیش کیا گیا ہے۔
سوم: چونکہ عنوان کو اثباتی انداز کے بجائے سوالیہ انداز میں لکھا گیا ہے اس لئے اس سے مطلق معنی لینا درست نہیں۔
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!


مجھے افسوس ہے کہ آپ سمیت کسی بھی بھائی نے میرے مکمل مضمون کا مطالعہ ہی نہیں کیا کسی نے کچھ مقامات سے سرسری دیکھ کر، کچھ نے آغاز مضمون کا کچھ حصہ پڑھ کر، کسی نے عنوان دیکھ کر اور کسی نے کچھ بھی پڑھے بغیر صرف دیگر بھائیوں کے مضمون کے بارے میں خیالات پڑھ کر ہی من چاہا تبصرہ کردیا ہے اور اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔

میرے مضمون کا اصل موضوع تو ایک بدعی اصول (کسی شخص کا عمل اور عقیدہ تو کفر اور شرک ہو سکتا ہے لیکن اپنے اس شرکیہ و کفریہ عقیدہ اور عمل کی بنا پر خود وہ شخص کافر اور مشرک نہیں ہوتا) کا رد ہے جس میں تکفیر معین کا موضوع بھی مختصرا زیر بحث آگیا ہے۔
بہرحال آپ محترم کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کیونکہ میں تکفیر معین اور تکفیر مطلق کے مابین فرق پر بحث نہیں کررہا بلکہ ایک ایسے کلمہ گو کے کافر اور مشرک ہونے پر بحث کررہا ہوں جس کے کفر پر دلائل موجود ہیں اور جس کا کفر کسی عام مسئلہ میں نہیں بلکہ دین اسلام کے بنیادی مسئلہ توحید میں ہے۔
شاہد بھائی اگر آپ صرف اصولی طور پر ایک بات کا ذکر کر رہے تھے جس سے آپ کا مقصد صرف یہ تھا کہ لوگوں پر یہ واضح کر دیا جائے کہ شرک و کفر میں مبتلا کافر و مشرک ہوتا ہے اور اس سے صرف اصول مراد ہے اس کا اطلاق نہیں تو پھر علماء پر نکتہ چینی کس معنی میں؟ میرا نہین خیال کے اہل حدیث میں کوئی بھی ثقہ عالم اصولی طور پر اس بات سے ناواقف ہو ہا اس سے اکتلاف کرتا ہو کہ تکفیر معین ہو ہی نہیں سکتی۔ مسئلہ تو اطلاق کا ہی ہے کہ کس کے پاس یہ حق ہے کہ وہ تکفیر معین کرے اور جاہل پر حجت کا اتمام کرے یا دیگر شروطِ تکفیر و موانع کا لحاظ کرے۔
بہرحال آپ کی یہ وضاحت ہمارے لئے قابل قدر ہے، اللہ تعالیٰ مزید سمجھنے کی توفیق دے، آمین۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
شاہد نذیر بھائی یہ شیخ ابو عبداللہ عبدالرحمنٰ بن عبدالحمید المصری زندہ ہیں اگر آپ ان سے ملاقات کے متمنی ہیں تو میں ان کا ایڈریس آپ کو بتاسکتا ہوں۔ باقاعدہ کلاسسز لیتے ہیں ۔

تعريف بالشيخ
رحلة عمر .... مع الدعوة المباركة
حجم النص: + | -

بدأت رحلة الشيخ مع الدعوة المباركة إبّان الستينيات حين اشتد الصراع في نفسه بين ما تعوّد الشباب من ثقافة وحياة تعلن الإسلام إسماُ وتنكره واقعاً وبين ثقافة وحياة إسلامية يقرؤونها ولا يجدون صداها في واقعهم المشهود، كذلك حين اشتد الصراع في الأرض الإسلامية بين العلمانية والطغيان الذي حمل رايته جمال عبد الناصر وبين صحوة إسلامية تتحسس طريقها على استحياءٍ بين صفوف الشباب ممن صدمه الواقع المرير الذي تمخضت عنه دعوة القومية العربية التي أراد عبد الناصر أن يجعلها بديلا للإسلام.

كان العامل الأساسيّ الذي حسم الصراع في نفس الشيخ وفي الواقع المصري آنذاك هو محاكمة الأستاذ سيد قطب رحمة الله عليه، ثم إعدامه على يد الطاغية عبد الناصر عام 1966. حُسم الصراع في نفسه لصالح الدعوة المباركة، كما حُسم في الواقع المصريّ لصالح الدعوة كذلك كما يعرف ذلك من عايش حقبة السبعينيات فى مصر، وهو أمر لا محل للتوسع فيه في هذا التعريف.

بدأت رحلة الدعوة المباركة، إذن، في منتصف الستينيات بنسخ كتب الأستاذ الشهيد سيد قطب باليد وتوزيعها بين طلاب الجامعة، ثم تدرجت بعدها وامتدت مساحة أربعين عاما في الزمان والعالم العربي وأوروبا وأمريكا في المكان، والله سبحانه الهادي لما كان.

كانت القراءة هي النشاط الأساسي الذي يشغل الشيخ منذ صباه، ثم حين حدث ما حدث من حسم للصراع النفسيّ توجه الشيخ للقراءة في كل مجالات المعرفة الإنسانية، فولع بقراءة وحفظ الشعر العربيّ قديمه وحديثه، وطالع أمهات الكتب في التاريخ العالمي وفي التاريخ الإسلامي على السواء، وفي الفلسفة الغربية من يونانيها إلى حديثها، واطلع على العديد من الكتب في علم النفس والرياضيات، ثم اتجه إلى التخصص في دراسة العلوم الإسلامية، فالتحق بمعهد الدراسات الإسلامية بالزمالك وأمضى عامين تتلمذ فيهما على أيدي أكابر الشيوخ في مجالات شتى كالشيخ الباقورى في اللغة العربية، والدكتور محمود قاسم في تاريخ العلوم الإسلامية والدكتور حسن إبراهيم حسن في التاريخ الإسلاميّ، والدكتور غريب الجمال والدكتور محمود حلمي وغيرهم.

ثم بدأ الشيخ رحلته مع العلوم الإسلامية في أوائل السبعينيات، فقرأ أعمال شيخ الإسلام بن تيمية وبن القيم وتلاميذهما كابن عبد الهادي وبن رجب الحنبليّ، ثم الشيخ محمد بن عبد الوهاب والإمام المودودي، وتعرف على التوحيد والإيمان وحدودهما . كما اطلع على أمهات كتب التاريخ وموسوعات الفقه المقارن وكتب الحديث وأصوله. كما قرأ ما دوّن الأستاذ سيد وغيره من أئمة العصر الحديث كالعلامة محمود شاكر والإمام أحمد شاكر ود. محمد محمد حسين والإمام العثيمين والإمام بن باز وغيرهم كثير من أهل الفضل والعلم.

ولكن الشيخ كان قلبه قد تعلق بحب علم أصول الفقه لما فيه من تناسب للطبيعة المنطقية الرياضية التي زرعها الله سبحانه في فطرته، ولأن علم الأصول هو الذي يُصلح ما اعوجّ من مناهج النظر وأصول الإستدلال بفعل الثقافة الحديثة التي بدّلت قوالب النظر واستبدلت أصول الإستدلال. فقرأ الشيخ غالب ما دونته الإئمة في علم الأصول كأصول السرخسيّ وبن الحاجب وإحكام بن حزم وإحكام بن عبد السلام وموافقات الشاطبيّ والمستصفى والمنخول للغزالي والبرهان للجويني وإرشاد الفحول للشوكاني وغير ذلك من الكتب قديمها وحديثها، وهو ما اعتمد عليه بعد توفيق الله سبحانه في تدوين كتابه في الأصول "مفتاح الدخول إلى علم الأصول".

وقد أسعد الله الشيخ بمقابلة ومعاشرة العديد من مشايخ الدعوة المباركة فصاحب منهم من صاحب وتتلمذ على يد من تتلمذ، وانتفع بهذا وبذاك أيما انتفاع فجزى الله أصحابه ورفاق طريقه خيرا كثيراً.

وقد صدر للشيخ العديد من الكتب التي غطت مساحة من العلوم الإسلامية كالعقيدة والفرق وأصول الفقه كما نشر مئات من المقالات السياسية والدينية والأدبية في عدد من الصحف والدوريات كالمنار الجديد ومجلة البيان التى شارك بجهد في إصدارها بلندن في منتصف الثمانينيات من القرن المنصرم. كما أصدر الشيخ كتابا بالإنجليزية – فتنة أدعياء السلفية وانحرافاتهم - وقد ترجم كذلك للعربية. ونشر العديد من المقالات بالإنجليزية التي كان لها أثر كبير في مقاومة البدعة وخاصة الصوفية، وفي تنمية الحسّ السنيّ في تلك الناحية من العالم. كذلك فقد ترجم العديد من كتبه للغة الأردية ككتاب المعتزلة، والصوفية ومفتاح الدخول إلى علم الأصول، وحقيقة الإيمان، وذاعت في أوساط أهل السنة والجماعة في باكستان.

كما شارك الشيخ طارق عبد الحليم في عدة مؤتمرات بأمريكا وكندا ولكنه اختار العزلة بعد أن رأي ضعف الفائدة التي تعود على المسلمين من مثلها إلى جانب ضياع الوقت والمال.

وقد أنشأ الشيخ "دار الأرقم" بعد اسقراره في كندا في أواخر الثمانينيات، وبدأ تدريس دبلوم الشريعة الإسلامية بالتعاون مع الجامعة الإمريكية المفتوحة عام 1998 ومنح الدبلوما للعديد من الطلبة. كذلك أخرج مجلة "أمة الإسلام" في العربية والإنجليزية لعدة أعوام في تورونتو.

ولا يزال الشيخ يدعو ربه أن يفسح له في الأجل ليتم بعض ما عزم على إتمامه من عمل، ثم أن يتقبله منه خالصاً لوجهه بريئا من الرياء، مستقيماً على سنة نبيه صلى الله عليه وسلم.

وهاكم بعض ما تفضلت به المنة الإلهية علي الشيخ من كتب ومقالات.

كـتـب مـنـشـورة :

"الجواب المفيد في حكم جاهل التوحيد"، مطبعة المدني، القاهرة 1978، نشرته مكتبة الطرفين بالطائف عام1991 ضمن مجموعة "عقائد الموحدين" تقديم الشيخ بن باز رحمة الله عليه.
"حقيقة الإيـمان"، طبعات متعددة، مطبعة المدني، القاهرة 1979.
"مقدمة في إختلاف المسلمين وتفرقهم" طارق عبد الحليم ومحمد العبدة، طبعات متعددة، دار الأرقم الكويتية طبعة أولى 1986 .
"الصـوفية: نشأتها وتطورها" طارق عبد الحليم ومحمد العبدة، طبعات متعددة، دار الأرقم لندن طبعة أولى 1986 .
"المعتـزلة: بين القديم والحديث" طارق عبد الحليم ومحمد العبدة، طبعات متعددة، دار الأرقم لندن طبعة أولى 1987.
"مفتاح الدخول إلى علم الأصول"، دار الأرقم 2007.
"فتنة أدعياء السلفية وإنحرافاتهم" 2004 بالعربية والإنجليزية
مختارات من مقالات منشورة :

"الإرجاء والمرجئة"، مجلة البيان اللندنية 1986
"الحرية العرجاء"، مجلة البيان اللندنية 1986
"مفهوم السببية في الإسـلام" 3 مقالات، مجلة البيان اللندنية 1987
"قراءات في الفكر العربي : نقد فكر د. زكي نجيب محمود ، د. محمد عابد الجابري ، د. زكريا إبراهيم"، مجلة البيان اللندنية 1988
"قيام وسقوط الدول العظمى : بول كينيدي" تحليل د. طارق عبد الحليم ، مجلة البيان اللندنية 1988
"الإخوان المسلمون في نصف قرن"، مجلة المنار الجديد، 200 .
"حركة الفكر وفكر الحركة"، مجلة المنار الجديد، 2000
"معالم في الفكر السياسي الإسلامي"، مجلة المنار الجديد، 2001
"نعم..أين الحياد وأين الموضوعية!.. تعقيب على مقال الدكتور جابر قميحة"، مجلة المنار الجديد، 2002
"هكذا تحدث مشاهير أمريكا – رياح باردة تهب على بلادنا"، مجلة الأسبوع القاهري


انظر ترجمة الشيخ في موسوعة ويكيبيديا.
 

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
اگر کوئی بھائی یا بہین طاغوت کے متعلق جامع اور شرعی نصوص پر مبنی موقف جاننا چاہتا ہے تو شیخ عبداللہ ناصر رحمانی کا خطاب جو کہ دو حصوں میں مندرجہ ذیل لنک پر موجود ہے او سنے، جزاک اللہ
Ahlulhadeeth - Downloads

خطاب میں سے مختصر اقتباس

مَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىَ لاَ انفِصَامَ لَهَا وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (البقرۃ: 256)

الم تر إلى الذین یزعمون أنّهم آمنوا بما أنزل إلیک وما أنزل من قبلک یریدون أن یتحاکموا إلى الطاغوت وقد أُمروا أن یکفروا به ویرید الشیطان أن یُضلَّهم ضلالا بعیداً (النساء: ۶۰).
طاغوت اورفتنہ طاغوت ہمارا موضوع ہے
پہلے یہ سمجھنا ہے کہ طاغوت کیا ہے؟
اس کا مادہ ط-غ-ی، یہ تین حروف ہیں طغیٰ، اس کا معنی ہے سرکشی اختیار کرنا، اپنی حد سے بڑھ جانا
جو حد کسی بھی چیز کی شریعت نے مقرر کی ہے، اس حد سے بڑھ جانا، یا اس حد سے کسی کو بڑھا دینا
اگر وہ خود بڑھتا ہے تو وہ خود طاغوت بن گیا
اور اگر کسی نے اسے اس کی حد سے بڑھایا ہے تو اسے اس طاغوت بنا دیا ، شریعت نے ہر چیز کے لیے ایک میزان مقرر کی ہے، ایک حد مقرر کی ہے اس حد سے اسے بڑھاو گے اسے طاغوت بنا دو گے، اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہوگا الا یہ کہ اس میں اس کی اپنی رضا ہو اپنی رغبت ہو
جیسے عیسائیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو رب بنا دیا اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے
کوئی عمل دخل نہیں
لیکن عیسائیوں نے انہیں طاغوت بنا دیا، وہ طاغوت نہیں بنے، وہ بے قصور ہیں، بری الزمہ ہیں
تو طاغوت کیا ہے، کسی چیز کا شریعت کی مقرر کردہ حد سے بڑھ جانا یا اس کو بڑھا دینا
یہ لفظ آپ استعمال کرتے ہیں طغیانی، جب دریا میں مقررہ حد سے زیادہ پانی آ جائے آپ کہتے ہیں دریا میں طغیانی آ گئی، مقررہ حد سے بڑھ گیا اور وہ طغیانی سیلاب کا سبب بن جاتی ہے
ہر چیز کو برباد کر دیتی ہے،
----------------------------
----------------------------------------

اب شریعت نے ہر چیز کی ایک حد مقرر کی
لا الہ الا اللہ
اس کے معنی اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں
اس حد کا تعین اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہو سکتا، کوئی انسان، کوئی جن، کوئی فرشتہ، کوئی نبی، کوئی ولی، حجر کوئی شجر معبود نہیں‌ہو سکتا
اب آپ اس ایک مخلوق کو معبود مان لیں تو آپ نے اسے اس کی حد سے بڑھا دیا
معنی یہ کہ اسے طاغوت بنا دیا
یا کوئی شخص، کوئی بہروہپہ یا شعبدہ باز اگر لوگوں سے سجدہ کرواتا ہے کہ مجھے سجدہ کرو، یہ اس کی حد نہیں ہے
مسجود صرف خالق کائنات ہے، تو وہ طاغوت بن گیا
اگر آپ اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ کریں گے، کسی کی عبادت کریں گے، اسے آپ نے طاغوت بنا دیا
کیونکہ جو اس کی شرعی حد ہے اس حد سے آپ نے بڑھا دیا
ابھی آپ نے سنا کہ اطاعت صرف محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حق ہے وہ بھی اس لیے کہ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کبھی اپنی بات نہیں کرتےجب بھی اس دین کے بارہے میں بولتے ہیں تو اللہ کی بات کرتے ہیں
و ما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی
-----------------------------------
-------------------------------------


دوسرا اقتباس

سیدنا عمرابن خطاب رضی اللہ عنہ سے طاغوت کا ایک معنی منقول ہے، آپ نے تفسیر کی
اللہ تعالیٰ کے فرمان: يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ کی
اس کی تشریح آپ نے کی ،اس کی تفسیر آپ نے کی
کہ: جو مشرکین ہیں وہ جبت اور طاغوت پر ایمان لاتے ہیں
فرماتے ہیں:
--------
الطاغوت :‌الشیطان
حافظ ابن کثیر نے امام بغوی سے معنی نقل کیا ہے
اور پھر تبصرہ کیا ہے: فرماتے ہیں کہ امیر عمر کا طاغوت کا معنی شیطان بیان کرنا بڑا صیح اور مکمل معنی ہے
کیونکہ ہر برائی کا منبع اور مصدر شیطان ہے
اللہ کے سوا دوسروں‌کی عبادت ہو رہی ہے، دوسروں کی اطاعت ہو رہی ہے
اس کا بڑا جو محرک ہے اور جو داعی ہے وہ شیطان ہے
ان برائیوں کا مصدر جو ہے وہ شیطان ہے
اس لیے یہ بڑا جامع معنیٰ ہے
جو حضرت عمررض نے بیان کیا
اب میرے بھائیو! اگر کوئی طاغوت بنا یا کسی کو طاغوت کہا گیا
تو اس کا معنی یہ ہے :
اسے آپ نے شیطان کہا
اس کا معنی یہ ہے کہ:
اسے آپ نے کافر قرار دیا
اس کا معنی یہ ہے کہ:
اسے آپ نے مرتد قرار دیا

---------


الحمدللہ، شیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کی یہ تقریر اتنی جامع ہے کہ اس تھریڈ میں چلنے والی تمام بحثوں کا تسلی بخش جواب اس میں موجود ہے۔
تقریر کا لنک:Ahlulhadeeth - Downloads
اقتباس از: 20 تا 21 منٹ
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,010
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
الحمدللہ، شیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کی یہ تقریر اتنی جامع ہے کہ اس تھریڈ میں چلنے والی تمام بحثوں کا تسلی بخش جواب اس میں موجود ہے۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ!

بلا شک شیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ جماعت اہل حدیث کا قابل فخر سرمایہ ہیں۔ میں نجی محفلوں میں بارہا اس بات کا اقرار و اعتراف کرچکا ہوں کہ میں نے صرف دو شخصیات ایسی سنی ہیں جن کے بیان سے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے جس میں سے سرفہرست شخصیت عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کی ہے۔ ماہنامہ دعوت اہل حدث میں، میں نے کچھ تجاویز بھیجیں تھیں اس میں بھی اس بات کا اظہار تھا جو دعوت اہل حدیث میں خطوط کے زمرہ میں شائع بھی ہوئیں تھیں۔اسکے باوجود شیخ سے مجھے کچھ اختلافات بھی ہیں۔ ایک مرتبہ جمعہ کے خطبہ میں، میں نے انہیں سوال بھیجا کہ چونکہ بریلوی مشرک ہیں اور مشرک کا ذبیحہ حرام ہے تو بریلویوں کے ذبیحہ کا کیا حکم ہے؟ اس کے جواب میں انہوں نے بھرے مجمع میں فرمایا کہ پاکستان میں سب مسلمان ہیں اس لئے مسلمان کا ذبیحہ کھانا جائز ہے۔
میرے نزدیک بلا تخصیص تمام بریلویوں کو مسلمان کہہ دینا بھی کسی طور درست بات نہیں۔ اسکے علاوہ سب سے پہلے میں نے انہیں کے منہ سے یہ اصول سنا تھا کہ ہم کسی کے عمل اور عقیدہ کو تو کفریہ اور شرکیہ کہہ سکتے ہیں لیکن اس کفریہ اور شرکیہ عقیدہ و عمل کی بنیاد پر اس شخص کا کافر اور مشرک نہیں کہہ سکتے۔ شیخ اپنی تقریروں میں بارہا اس اصول کا ذکر کرتے ہیں۔ جس طرح اس اصول کو مطلقا ذکر کیا جاتا ہے اس طرح یہ اصول سراسر باطل ہے۔ اس کے دلائل آپ کو ہمارے اسی مضمون میں ملیں گے یوں سمجھیں کہ کئی لوگوں کے ساتھ شیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کے اسی اصول کے رد میں میں نے یہ مضمون لکھا ہے۔ اس لئے طالب علم کا یہ سمجھنا غلط فہمی ہے کہ ہمارے مضمون کا جواب پروفیسر عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کی تقریر میں موجود ہے بلکہ یہ حقیقت ہے کہ ان کے اصول کا رد ہمارے مضمون میں موجود ہے۔والسلام
 

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
معزز قارئین کے لیے یہ اضافہ کرتا چلوں کہ شیخ عبداللہ ناصر رحمانی کا موقف اس ضمن میں محترم شاہد نزیر بھائی سے مختلف ہے
1۔ تکفیر معین صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حق ہے
2۔ جس کو طاغوت کہہ دیا جائے اس کو شیطان کا ہم معنی بنا دیا جاتا ہے
3۔ کسی کے ظاہر عقائد کو دیکھ کر کفر کا فتویٰ نہ لگائیں ہو سکتا ہے کہ وہ توبہ کر لے اور اس کی توبہ آپ کو معلوم نہ ہو
4۔ کسی کا گناہ کتنا بھی شدید ہو جیسا کہ اصحاب الاخدود کا گناہ تھا لیکن توبہ کرنے پر وہ معاف ہو جائے گا
5۔ حکمرانوں کو نصیحت کی جائے گی نہ کہ ان کی تکفیر
6۔کلمہ گو پر لعنت سے پرہیز
7۔نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی احادیث میں موجود 'ہرج' کا لفظ اور موجودہ حالات اس پیشنگوئی کے مصداق
8۔کسی مشرکانہ عقائد رکھنے والے کی انا کو بھی ٹھیس نہ پہنچائیں اگر اس کو مشرک کہہ دیا تو اس کی انانیت کو ٹھیس پہنچے گی اور اس کی اصلاح نہیں ہو سکے گی

یہ خطاب اہل الحدیث۔نیٹ پر موجود ہیں
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
السلام علیکم !

صآحب تھریڈ اور دیگر بھائی ایک اور نکتہ بھی سامنے رکھیں جو موضوع زیر بحث میں کافی کام کا ثابت ہو سکتا ہے، اور وہ ہے علماء کے ہاں ان گروہوں کے بارے میں "اصل کا اعتبار اور ا سمیں اختلاف۔

ایک طرف وہ علماء ہیں جو مسلم معاشرے میں ان گروہوں کو اصلا مسلمان سمجھتے ہیں ، اسی بنا پر وہ پورے قواعد التکفیر کو مد نظر رکھتے ہیں جب بھی ان میں سے کسی کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے ، اطلاق یا تعیین دونوں صورتوں میں وہ موانع کا لحاظ کرتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے کسی صحیح العقیدہ بارے کیا جاتاہے۔ آج ہمارے برسغیر کے الثر علماء اسی کے قائل نظر آتے ہیں۔

دوسری طرف علماء کا وہ طبقہ ہے جن کے نزدیک ایسے گروہوں کی اصل شرک ہے ۔ مثلا قبوری شرک والے گروہ وغیرہ۔ شیعہ کو بھی شامل کیا جاتا ہے کچھ کے ہاں۔ اس کی رو سے ان فرقوں کی بنیاد کفر و شرک ہے بالکل قادیانیوں یا بہائیوں وغیرہ کی طرح ۔ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ ، علماءے نجد کی اکثریت اسی کی قائل ہے۔ اس سلسلے میں الدرر السنیہ ، رسائل الشخصیہ اور بالخصوص کشف الشبہات میں اجمال اور تفصیل دونوں طرح سے کھل کر بات کی گئ ہے۔

میرا خیال اگر ہمیں کسی نقطے پر پہنچنا ہی ہے تو علماء کے دونوں طبقات کے دلائل کو سامنے لانا ہو گا۔ کیونکہ کفر و شرک میں مبتلا ہونے پر ان سب کا اتفاق ہے صرف ان کے حکم میں اختلاف ہے جس کی بنیاد اپنے ناقص علم کی حد تک میں نے بیان کی ہے۔

والسلام
 
Top