السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
آپ شاید وہی محترم شخصیت ہیں جنھوں نے شیخ عبدالمنعم مصطفیٰ حلیمہ حفظہ اللہ کی کتاب عقیدہ طائفہ منصورہ کو اردو قالب میں ڈھالا ہے؟
میرے خیال میں تکفیر مطلق اور تکفیر معین کا فرق نظر انداز ہو گیا ہے۔
مجھے افسوس ہے کہ آپ سمیت کسی بھی بھائی نے میرے مکمل مضمون کا مطالعہ ہی نہیں کیا کسی نے کچھ مقامات سے سرسری دیکھ کر، کچھ نے آغاز مضمون کا کچھ حصہ پڑھ کر، کسی نے عنوان دیکھ کر اور کسی نے کچھ بھی پڑھے بغیر صرف دیگر بھائیوں کے مضمون کے بارے میں خیالات پڑھ کر ہی من چاہا تبصرہ کردیا ہے اور اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔
میرے مضمون کا اصل موضوع تو ایک بدعی اصول (کسی شخص کا عمل اور عقیدہ تو کفر اور شرک ہو سکتا ہے لیکن اپنے اس شرکیہ و کفریہ عقیدہ اور عمل کی بنا پر خود وہ شخص کافر اور مشرک نہیں ہوتا) کا رد ہے جس میں تکفیر معین کا موضوع بھی مختصرا زیر بحث آگیا ہے۔
بہرحال آپ محترم کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کیونکہ میں تکفیر معین اور تکفیر مطلق کے مابین فرق پر بحث نہیں کررہا بلکہ ایک ایسے کلمہ گو کے کافر اور مشرک ہونے پر بحث کررہا ہوں جس کے کفر پر دلائل موجود ہیں اور جس کا کفر کسی عام مسئلہ میں نہیں بلکہ دین اسلام کے بنیادی مسئلہ توحید میں ہے۔
کفر اور شرک کا مرتکب یقینا کافر اور مشرک ہوتا ہے لیکن یہ ایک مطلق بات ہے۔سوال یہ ہے کہ ایک معین یا مخصوص شخص کافر اورمشرک ہے یا نہیں؟علما نے واضح کیا ہے کہ ایک شخص کفر کا مرتکب ہوتا ہے لیکن اس پر کفر کا حکم نہیں لگتا کیوں کہ کوئی مانع موجود ہوتا ہے مثلا جہالت اکراہ تاویل وغیرہ۔
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
لكنَّ تكفير المطلق لا يستلزم تكفير المعين فإن بعض العلماء قد يتكلم في مسألة باجتهاده فيخطئ فيها فلا يُكفر وإن كان قد يُكفر من قال ذلك القول إذا قامت عليه الحجة المكفرة..."ا.هـ.(مجموع الفتاوى :35/99)
یعنی تکفیر مطلق سے تکفیر معین لازم نہیں آتی کہ بعض اوقات ایک عالم کسی مسئلہ میں اپنے اجتہاد کی بنا پر کوئی بات کہتا ہے اور اس میں غلطی کر جاتا ہے تو اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی اگرچہ اسی بات کے کہنے پر ایسے شخص کو کافر کہا جاسکتا ہے جس پر حجت قائم ہو چکی ہو
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
فليس لأحدٍ أن يُكفر أحداً من المسلمين وإن أخطأ وغلِط حتى تقام عليه الحجة وتبين له المحجة ( مجموع الفتاوى:12/501)
کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو کافر قرار دے خواہ اس سے غلطی اور خطا ہی سرزد ہوئی ہو تا آں کہ اس پر قیام حجت ہو جائے اور مسئلہ واضح کر دیا جائے۔
ایک موقع پر باطنیوں کے کفریہ کلمات کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
فهذه المقالات هي كُفر؛ لكن ثبوت التكفير في حقِّ الشخص المعيَّن، موقوفٌ على قيام الحجة التي يَكْفُر تاركها، وإن أطلق القول بتكفير مَن يقول ذلك، فهو مثل إطلاق القول بنُصُوص الوعيد، مع أنَّ ثُبُوت حكم الوعيد في حقِّ الشخص المعيَّن، موقوفٌ على ثبوت شروطه، وانتفاء موانعه؛ ولهذا أطلق الأئمة القول بالتَّكفير، مع أنهم لم يحكموا في عين كلِّ قائلٍ بِحُكم الكفار (بغية المرتاد في الرَّد على المتفلسفة والقرامطة والباطنية:ص۳۵۳۔۳۵۴)
یہ تمام باتیں کفر ہیں لیکن کسی معین شخص کے حق میں تکفیر کا ثبوت قیام حجت پر موقوف ہے جس کا تارک کافر گردانا جاتا ہے۔البتہ مطلق طور پر یہ کہنا کہ اس کا قائل کافر ہے تو یہ اسی طرح ہے جیسے مطلق وعید بیان کی جائے جب کہ کسی معین فرد کے بارے میں اس وعید کے حکم کا ثبوت اس کے شرائط کے ثبوت اور موانع کے عدم وجود پر موقوف ہے۔یہی وجہ ہے کہ ائمہ کرام نے مطلق تکفیر تو کی ہے لیکن ہر قائل کو معین طور پر کفار کے حکم میں شامل نہیں کیا۔
دیکھئے یہی ہے اصل مسئلہ کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا یہ کلام شرک اکبر اور کفر اکبر کے مرتکب کے بارے میں ہرگز نہیں بلکہ یہ کلام تو ان لوگوں کے بارے میں ہے جن کا کفر اور شرک اسلام کی بنیاد توحید اور ضروریات دین کے علاوہ ہے۔ ایسے شخص کی تکفیر کے ہم بھی اس وقت تک قائل نہیں جب تک کہ اس پر اتمام حجت نہ کردی جائے۔ تفصیل کے لئے مکمل مضمون کا مطالعہ فرمائیں۔
معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ اکثر علماء کرام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ایسی ہی عبارات کو کسی وضاحت کے بغیر مطلق ذکر کرتے ہیں جس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کسی بھی کلمہ گو کی کسی بھی صورت میں تکفیر معین نہیں کی جاسکتی حالانکہ یہ بات بذات خود مردود ہے اور علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر بہتان عظیم بھی۔ شیخ الاسلام فرماتے ہیں:
مخالفین اہلسنت میں گمراہ مشرکین بھی ہیں جن سے شرک ظاہر ہونے پر توبہ کا مطالبہ کیا جانا چاہیے کہ اس شرک سے تائب ہوجائیں اور اگر نہ کریں تو کفار اور مرتد ہونے کی بنا پر ان کی گردن اڑائی جانی چاہیے۔(مشرک اور بے نمازی شخص کے ذبیحہ کے بارے میں شرعی حکم، صفحہ ٥٦)
ظاہر ہے ان کلمہ گو مشرکین کی گردن اسی وقت اڑائی جانا ممکن ہے جب انکی تکفیر معین کردی جائے۔
ابو عبداللہ عبدالرحمنٰ بن عبدالحمید المصری ان لوگوں کا رد کرتے ہیں جو علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بارے میں یہ بارور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ علامہ موصوف تکفیر معین کے قائل نہیں تھے۔چناچہ فرماتے ہیں:
یہ وہ کلام ہے جس کے بارے میں دین کے دشمن یہ کہتے ہیں کہ آپ تکفیر معین کے قائل نہ تھے۔ آپ دیکھئے کہ اس امت میں جو لوگ غیر اللہ کے لئے ذبح کرتے ہیں شیخ الاسلام ان کی بھی تکفیر کر رہے ہیں۔
اور بیان فرماتے ہیں کہ ایسا منافق شخص مرتد بن جاتا ہے۔ کسی کو مرتد کہنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا جب تک کسی کو مخصوص کرکے مرتد نہ کہا جائے۔ (توحید سے جاہل شخص کے بارے میں شرعی حکم، صفحہ ٨٢)
مزید فرماتے ہیں:
کسی متعین کی تکفیر مطلقاً جائز نہیں صرف یہ کہا جاسکتا ہے جو شخص ایسا عمل کرے یا ایسی بات کہے وہ کافر ہے یا یہ قول یا عمل کفریہ ہے۔
لیکن ایسا کام کرنے یا کہنے والے کی تکفیر نہیں کی جاسکتی ۔ ۔ ۔ ۔ حق بات تو یہ ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اس جھوٹ سے بری الذمہ ہیں۔ کیونکہ ایسی رائے اختیار کرنے سے تو اللہ تعالیٰ کے احکامات اور حدود معطل ہوجائیں گے۔(توحید سے جاہل شخص کے بارے میں شرعی حکم، صفحہ ٨٢)
لوگوں نے اپنے مخصوص نظریات کی تائید کے لئے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مخصوص عبارات (جن سے شیخ الاسلام کا مکمل موقف واضح نہیں ہوتا) اس کثرت سے استعمال کیں کہ امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کو اس پر ایک مستقل رسالہ تصنیف کرنا پڑ گیا۔ ابو عبداللہ عبدالرحمنٰ لکھتے ہیں:
امام محمد بن عبدالوہاب نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ پر منسوب کردہ جھوٹ کے خلاف ایک مستقل رسالہ قلمبند فرمایا ہے جس میں امام شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے اقوال کا مکمل جائزہ لے کر یہ وضاحت کی گئی ہے کہ امام موصوف کا تکفیر معین کو ناجائز کہنا حجت قائم کرنے سے قبل کے بارے میں ہے اور یہ دلیل اور حجت صرف مخفی اور غیر ظاہر امور میں ہے۔(توحید سے جاہل شخص کے بارے میں شرعی حکم، صفحہ ٨١)
مطلب یہ کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک بھی جس شخص کا کفر ظاہری امور میں ہو تو اس پر اتمام حجت کے بغیر ہی اس کی تکفیر معین جائے گی کیونکہ ظاہری امور میں اتمام حجت کی ضرورت نہیں ہوتی۔
علماء کرام کا علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی صرف ایسی عبارات کا انتخاب کرنا جو ایک مخصوص موقف کی تائید کرتی ہیں اور اسکی مخالف عبارات کو مکمل نظر انداز کردینا ہی عوام الناس پر حق و باطل کو خلط ملط کرنے کا سبب بنتا ہے۔اور عوام الناس ثابت شدہ کافر اور مشرک کو بھی صرف اس وجہ سے کافر کہنے سے رک جاتے ہیں کہ اس نے مسلمانوں کا کلمہ پڑھ رکھا ہے۔جبکہ بہت سے معاملات ایسے ہیں جن میں ایک مسلمان کا کلمہ بھی قابل اعتبار نہیں رہتا۔
پس الحمداللہ ہمارا موقف بھی یہی ہے جو علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ سمیت جمہور علماء کا ہے۔
دیگر سلفی علما نے بھی اس نکتے کو اجاگر کیا ہے لیکن اس کی تفصیل ممکن نہیں۔ہاں یہ مسئلہ سلفی اہل علم کے مابین مختلف فیہ ہے کہ توحید اور عقیدہ کے جلی مسائل میں جہالت کا عذر دیا جائے گا یا نہیں؟ بہ طور خاص جب کوئی شخص نہ تو نومسلم ہو اور نہ ہی کسی صحرا یا جنگل میں سکونت پذیر ہو۔ بعض کہتے ہیں کہ اس پر اقامت حجت کی ضرورت نہیں کہ قران و حدیث اس کے پاس موجود ہیں اور علما تک بھی بہ آسانی رسائی حاصل ہے جن سے پوچھ کر اپنی جہالت دور کر سکتا ہے۔
یہی موقف حق ہے کیونکہ قرآن و حدیث کی نصوص اور سلف صالحین کا نظریہ اسی موقف کے حق و تائید میں ہیں۔
اس کے بر عکس دیگر کا کہنا ہے کہ فی زمانہ شبہات اور مغالطوں کی کثرت ہے اور جہالت اس قدر عام ہے کہ پہلے اسے سمجھایا جائے اور مسئلے کی وضاحت کے بعد ہی اس پر شرعی حکم لگایا جائے۔
باوجود کوشش کہ مجھے اس موقف کے دلائل دستیاب نہیں ہوسکے۔ کیا آپ بتانا پسند فرمائینگے کہ متقدمین میں کون کون سے علماء اس موقف کے حامل رہے ہیں اور کتاب و سنت میں اسکے دلائل کیا ہیں؟ کیونکہ اہل باطل تو ہر زمانے میں رہے ہیں اور شبہات اور مغالطے تو اہل باطل کا تحفہ ہے جس سے کسی دور کے مسلمان محفوظ نہیں رہے۔اور فی زمانہ اگر شبہات اور مغالطوں کی کثرت ہے تو علم بھی ماضی کے مقابلے میں اتنی ہی آسانی اور کثرت سے دستیاب ہے۔
اگر شاہد نذیر صاحب اس ضمن میں پہلے گروہ کے موقف سے اتفاق رکھتے ہوں تو یہ لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے کہ اس تعلق محض توحید اور ضروریات دین یا قطعی و جلی قسم کے امور سے ہے ہر قسم کا کفر پھر بھی مراد نہیں جب کہ ان کا عنوان مطلق کفر اور شرک کا ہے۔
میں نے اس کا پورا پورا لحاظ رکھا ہے اور وضاحت کی ہے کہ ہر قسم کے کفر کے مرتکب کی تکفیر نہیں کی جاسکتی جب تک اسے علم نہ پہنچا دیا جائے اور اسکے شبہات (جن کی وجہ سے وہ کفر میں مبتلا ہے) دور نہ کردیئے جائیں۔
جہاں تک عنوان کا تعلق ہے تو
اول: چونکہ کفر اور شرک سے عام طور پر کفر اکبر اور شرک اکبر مراد لیا جاتا ہے اس لئے اسے مطلق ذکر کیا گیا ہے۔
دوم: جس اصول کے رد میں مضمون لکھا گیا ہے چونکہ اس اصول کو لوگ مطلقاً پیش کرتے ہیں اس لئے اس اصول کا رد کرتے ہوئے عنوان کو بھی مطلقاً پیش کیا گیا ہے۔
سوم: چونکہ عنوان کو اثباتی انداز کے بجائے سوالیہ انداز میں لکھا گیا ہے اس لئے اس سے مطلق معنی لینا درست نہیں۔