• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یزید بن معاویہ سنت کوبدلنے والے تھے (غیرمتعلق تبصرے)

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
جیسا کہ آپ خود ہی اس بات کے قائل ہیں کہ شیخ اپنی بات غلط ثابت ہونے پر رجوع کرتے ہیں اور آپ نے اس طرف اشارہ بھی کیا اور مزید حوالہ جات میں اپنی پچھلی پوسٹ میں دے چکا ہوں۔۔۔۔۔اب ان ساری باتوں کو تسلیم کرنے کے باوجود یہ کہنا کہ "لیکن اس سے رجوع شاید نہیں کیا اور نہ ہی ممکن نظر آتاہے ۔کیونکہ جس منھج پر چل کر ساری زندگی کام کیا ہے اگر اس منھج سے رجوع کرلیا جائے تو ان گنت تحقیقات سے رجوع لازم آئے گا مثلا زیادۃ الثقۃ ،حسن لغیرہ ،مسئلہ تدلیس وغیرہ" محل نظر ہے۔
یہ ایک ایسی بات ہے کہ اگر ثابت ہو جائے تو شیخ کے ساری زندگی کے کیے گیے رجوع بھی بے فائدہ ہیں اور پھر شیخ کے اس موقف کو موانع ہدایت میں سے سمجھا جائے گا !!!
لیکن اس بات کے صحیح نہ ہونے کے لیے مندرجہ ذیل اقتباس ہی کافی ہے :
(ماہنامہ الحدیث ٨٧،ص ٣٢)
مندرجہ بالا رجوع کسی ایک روایت کی تحقیق سے رجوع نہیں ۔۔۔بلکہ حمید الطویل کی تدلیس کے بارے میں ایک اصول سے رجوع ہے اور جس کی وجہ سے کوئی ایک حدیث نہیں بلکہ بہت سی احادیث کی صحت و ضعف پر فرق پڑتا ہے۔۔۔۔اور شیخ ساری زندگی جس منھج پر قائم رہے اس سے رجوع ثابت ہوتا ہے ۔والحمدللہ!
باقی جہاں تک تعلق ہے زیادۃ الثقۃ ،حسن لغیرہ ،مسئلہ تدلیس وغیرہ کے بارے میں اپنے موقف سے رجوع کرنے کا تو ایک بڑی ہی سادہ سی بات ہے رجوع تب کیا جاتا ہے جب کسی کے موقف کو دلائل کے ساتھ غلط ثابت کردیا جائے ۔۔۔۔نہ کہ صرف کسی کے موقف کے تعاقب میں مطلقا لکھ دینے سے !!
اور چونکہ شیخ زبیر حفظہ اللہ کے موقف کو دلائل کی روشنی میں ابھی تک غلط ثابت نہیں کیا جا سکا لہذا وہ اپنے موقف پر قائم ہیں۔اس کی ایک زبردست مثال شیخ کے اس موقف کے بارے میں بڑے بڑے شیوخ کا ان کے موقف سے اتفاق ہے، جیسا کہ ماہنامہ الحدیث شمارہ نمبر ١٠٣ میں مسئلہ تدلیس کے بارے میں شیخ کے موقف پر شیخ مبشر احمد ربانی اور شیخ داود ارشد حفظہما اللہ کی تقاریظ چھپ چکی ہیں۔
ایک بڑی ہی عجیب حقیقت ہے کہ شیخ ساری زندگی ایک ایسے منھج پر قائم رہے جو کہ راجح نہیں تھا(بعض حضرات کی رائے میں) لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں مکتبہ دارلسلام جس کا دنیا میں ایک نام ہے،شیخ کی تحقیق و تخریج سے کتب کی ایک کثیر تعداد (سنن ابن ماجہ ،ابی داود،نسائی،منہاج المسلم،ریاض الصالحین،بلوغ المرام،صحیح نماز نبوی وغیرہ وغیرہ) دنیا کی مختلف زبانوںمیں چھاپتا رہا اور ابھی تک چھاپ رہا ہے(گو کہ شیخ اس سے متفق نہیں)۔اللہ اکبر !
http://www.kitabosunnat.com/forum/اصول-حدیث-47/مسئلہ-تدلیس-اور-علمائ-اہلحدیث-پاکستان-11457/#post76938
 
شمولیت
اگست 25، 2011
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
216
پوائنٹ
0
فرق صرف یہ ہے کہ جو شیخ محترم نے منھج اپنا لیا ہے اس منھج کی طرف اہل علم مسلسل توجہ دلا رہے ہیں لیکن اس سے رجوع شاید نہیں کیا اور نہ ہی ممکن نظر آتاہے ۔کیونکہ جس منھج پر چل کر ساری زندگی کام کیا ہے اگر اس منھج سے رجوع کرلیا جائے تو ان گنت تحقیقات سے رجوع لازم آئے گا مثلا زیادۃ الثقۃ ،حسن لغیرہ ،مسئلہ تدلیس وغیرہ۔۔۔۔۔اور اسی کی طرف خضر حیات بھائی اور غاذی بھائی کا اشارہ ہے واللہ اعلم ۔۔۔۔۔
اس کے جواب میں آپ ہی کے الفاظ میں عرض ہےکہ بعض اہل علم نے جو منہج اختیار کیا ہے شیخ زبیر حفظہ اللہ مسلسل توجہ دلا رہے ہیں لیکن بعض اہل علم نے اس سے شاید رجوع نہیں کیا اور نہ ہی ممکن نظر آتا ہے۔ ۔کیونکہ جس منھج پر چل کر ساری زندگی کام کیا ہے اگر اس منھج سے رجوع کرلیا جائے تو ان گنت تحقیقات سے رجوع لازم آئے گا مثلا زیادۃ الثقۃ ،حسن لغیرہ ،مسئلہ تدلیس وغیرہ۔۔۔۔۔
 
شمولیت
مارچ 11، 2013
پیغامات
35
ری ایکشن اسکور
123
پوائنٹ
0
میرا سوال یہاں بھی وہی ہے کہ اس طرح کی پوسٹیں سے اسلام کو کیا فائدہ ملا ؟؟؟
ایک ساتھی ایک بات کرتا ہے تو دوسرا اسی کو اپنے حق مین پیش کر دیتا ہے ؟؟؟
کیا اہل علم اس طرح اصول حدیث کی بحوث پر اتفاق نہیں کر سکتے ؟؟
اللہ کے سوچیں کہ اسلام کو کن چیلنجز کا سامنا ان کی طرف توجہ نہیں اور پرانے اختلافی مسائل پر قوتیں صرف ہو رہی ہیں ؟؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
میرا سوال یہاں بھی وہی ہے کہ اس طرح کی پوسٹیں سے اسلام کو کیا فائدہ ملا ؟؟؟
ایک ساتھی ایک بات کرتا ہے تو دوسرا اسی کو اپنے حق مین پیش کر دیتا ہے ؟؟؟
کیا اہل علم اس طرح اصول حدیث کی بحوث پر اتفاق نہیں کر سکتے ؟؟
اللہ کے سوچیں کہ اسلام کو کن چیلنجز کا سامنا ان کی طرف توجہ نہیں اور پرانے اختلافی مسائل پر قوتیں صرف ہو رہی ہیں ؟؟
سیف الإسلام بھائی ہم آپ کے جذبات کی قدر کرتےہیں اللہ کرے آپ عالم اسلام کو درپیش مسائل حل کرنے میں زیادہ سے زیادہ کام کر سکیں ۔
بھائی کچھ باتیں ذہن میں رکھیں :
تمام انسانوں کا مزاج ایک طرح کا نہیں ہوسکتا ۔ علوم و فنون بھی مختلف اقسام کے ہوتے ہیں ۔
ہر انسان کا ایک خاص ذوق ہوتا ہے وہ اپنے خاص ذوق کے مطابق یا کہیں ذوق کے مناسب چیزوں پر بات کرنا پسند کرتا ہے ۔ بہت سارے لوگ ہیں جو علم ادب سے لگاؤ رکھتے ہیں کچھ لوگ ہیں جو علم حدیث سے لگاؤ رکھتے ہیں بعض لوگ ایسے ہیں جو فقہ و اصول فقہ میں غور کرنا پسند کرتے ہیں ۔ وعلی ہذا القیاس ۔
یہاں تک بات بالکل ٹھیک ہے کہ ہر کوئی اپنے ذوق کے مطابق علوم و فنون سے مستفید ہوتا ہے اور اس ضمن خدمات انجام دیتا ہے یوں مل ملا کر تمام علوم وفنون میں ترقی ہوتی رہتی ہے ۔
لیکن اب اگر کوئی یہ کہنے شروع کردے کہ بھلا جی فلاں فن سے اسلام کو کیا فائدہ ہونے والا ہے ؟ کرنے والا اصل کا م تو یہ ہے ۔۔۔۔ تو اب اسطرح اگر کسی خاص اہل فن کو آپ دوسرے فن کی طرف اس طرح کی باتیں کرکے جانے پر مجبور کردیں تو اس میں دو نقصان ہوں گے ۔
پہلی بات : کسی شخص کو ایسی جگہ پر کام کرنے کے لیے مجبور کیا گیا ہے جس میں وہ دلچسپی ہی نہیں رکھتا یا یوں کہہ لیں کہ اس کا اہل ہی نہیں ۔
دوسری بات :سابقہ فن ایک ماہر فن سے محروم ہو جاتا ہے ۔ ایک شخص علم حدیث کا ذوق رکھتا ہے آپ کو اس کو علم ادب میں لے جائیں ظاہر ہے علم حدیث ایک باذوق شخص سے محروم ہو گیا ہے ۔

کسی فن میں عدم اختلاف ہونا یہ ناممکن بات ہے آپ دنیا جہاں کا کوئی بھی فن اور اس کے قواعد و ضوابط چھان ماریں اس میں متفق علیہ مسائل کے ساتھ ساتھ مختلف فیہ مسائل کی فہرست بھی ملے گی جو قرنا بعد قرن چلے آرہے ہیں ۔
آپ نے کہا کہ اسلام کو درپیش چیلنجز کی طرف توجہ دینی چاہیے ۔
اس بات پر آپ دو پہلوؤں سے غور کریں کہ اس طرح کے مسائل پر ہمیشہ سے توجہ دیے جانے کا یہ نتیجہ ہے کہ آج یہ ہمارے لیے چیلنج نہیں ہیں ۔۔۔ اگر یہ باتیں اتنی وضاحت و تفصیل کے ساتھ نہ کی گئی ہوتیں تو یہ سب کچھ بھی چیلنجز کی فہرست میں شامل ہوتا ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اسلام کو کسی متعین جہت سے مسائل درپیش نہیں ہیں بلکہ تمام اسلامی علوم و فنون کی کما حقہ حفاظت کرنا یہ بھی امر مطلوب ہے ۔
غالبا سیر أعلام النبلاء میں حافظ ذہبی علیہ الرحمہ نے بہت سارے علماء مثلا بخاری ، ابن المدینی ، ابن معین ، احمد بن حنبل ، ابن راہویہ اور جماعتِ اہل حدیث کی ایک فہرست ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے
لو لا هؤلاء الأكابر لخطبت الزنادقة على المنابر
اگر اکابرین کی یہ جماعت نہ ہوتی تو یقینا منبرو محراب زندیقوں کے قبضے میں ہوتے ۔
اب محدثین کی یہ جماعت کتنے چھوٹے چھوٹے مسائل کی وضاحت کرتی رہی ہے کتب علل و سؤالات اس کی گواہ ہیں ۔ کسی دن اصول حدیث کی کوئی کتاب پکڑیں اور اس کی فہرست الموضوعات پر نظر دوڑائیں آپ کو اندازہ ہوگا کہ محدثین کس طرح مختلف پہلوؤں سے چھوٹی چھوٹی باتوں کو لمبے لمبے دفتروں میں پھیلا دیتے ہیں ۔
اب بظاہر ان تمام دفاتر علل کا ملحدین اور زنادقہ سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا لیکن پھر بھی انہی اصحاب دفاتر کو زنادقہ کا توڑ بتایا جارہا ہے ۔ آخر کیوں ؟
ایک مثال سے سمجھیں ڈاکٹر ذاکر نائیک اور شیخ البانی کی مثال لیں اول الذکر عالمی سطح پر تقابل ادیان کے ذریعے اسلام کے دفاع کرنے کے حوالے سے مشہور و معروف ہیں اور بہت سارے لوگ ان کی وجہ سے دائرہ اسلام میں داخل ہور رہے ہیں جبکہ ثانی الذکر تحقیق حدیث میں ایک بلند پایہ مقام رکھتے ہیں ۔ لوگ سمجھتے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ اصل کام تو ذاکر نائیک کر رہے ہیں یہ ملاں بیچارے کیا کر سکتے تھے ؟
لیکن اگر ہم غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات جن کی حقانیت و سچائی کی وجہ سے ذاکر نائیک کی بات میں قوت اور وزن ہوتا ہے وہ اس نے کہاں سے لی ہیں ؟ ذاکر نائیک مسلمان کرنے کے لیے جو کلمہ پڑھاتے ہیں اگر وہی ایک حدیث انہیں کہہ دیا جائے کہ محدثین کی خدمات سے استفادہ کیے بغیر ثابت کردیں تو بات نہیں بن سکے گی ۔
آج ذاکر نائیک یہ جملہ کہہ کر ایک منٹ میں آگے بڑھ جاتے ہیں کہ اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح یا ضعیف کہا ہے اگر یہ سارا کچھ البانی نے نہ کیا ہوتا اور انہیں اتنا ہی وقت لگانا پڑتا جتنا شیخ البانی نے کسی حدیث کی تحقیق میں صرف کیا ہے تو کیا ذاکر نائیک اتنی تیزی سے تبلیغ اسلام کا فریضہ سر انجام دے سکتے تھے ۔ ؟
شیخ البانی نے اپنے ذوق کے مطابق کام کیا ذاکر نائیک اپنے ذوق کے مطابق کام کر رہا ہے اور دونوں کی کوششیں مل وہ کام کر رہی ہیں جو دونوں اکیلے اکیلے نہیں کر سکتے تھے ۔
اب اگر شیخ البانی کا کام ذاکر نائیک کے سپرد کردیں (کہ یہ زیادہ اہم ہے ) یا شیخ البانی کو ذاکر نائیک کی ذمہ داریاں سونپ دی جاتیں (کیوں کہ یہ زیادہ اہم ہے ) تو نتیجہ کیا نکلتا ؟
 

غازی

رکن
شمولیت
فروری 24، 2013
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
183
پوائنٹ
90
جس بھائی نے ماہنامہ اشاعۃ الحدیث کے تازہ شمارہ یعنی شمارہ نمبر ١٠٣ کا سرسری سا مطالعہ بھی کیا ہو گا اس کے علم میں مندرجہ ذیل بات ہوگی:
(ماہنامہ اشاعۃ الحدیث ١٠٣،ص ١٣)
اسی طرح کے بہت سے حوالے شیخ حفظہ اللہ کی کتب اور رسالے میں سے پیش کئے جا سکتے ہیں،مزید ایک حوالہ بطور مثال پیش خدمت ہے :
(فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام،ص ٤٧٧)
لہٰذا مندرجہ بالا حوالہ جات کے پیش کئے جانے کے بعد اس عبارت "رجوع کے امکانات کم ہی ہوتے ہیں" پر تبصرے کی ضرورت نہیں ہے۔
جو بھائی مزید تحقیق کرنا چاہتے ہوں،ان کے لیے ایسے ہی مزید تراجعات کی تلاش کے سلسلہ میں شیخ کی کتب (خاص طور سے انوار الصحیفۃ طبع جدید)اور رسالے کا مطالعہ مفید رہے گا۔ان شاءاللہ تعالیٰ۔

محترم خضر حیات بھائی ! ان ہی کتب کے بارے میں میں پہلے ہی ایک دوسرے تھریڈ میں تفصیلا لکھ چکا ہوں کہ یہ وہی کتب ہیں جن کی شیخ زبیر حفظہ اللہ سے مراجعت ہی نہیں کروائی گئی اور شیخ ان کتب کی ذمہ داری سے برات کا اظہار کرچکے ہیں۔
ثانیا:یہ نظرثانی شیخ زبیر حفظہ اللہ نے نہیں کروائی بلکہ یہ مکتبہ دارالسلام کے صاحبان نے کروائی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔اور اسی قسم کی وجوہات کی بنا پر شیخ کو دارالسلام کی طرف سے چھپی ہوئی سنن ابن ماجہ کو بھی چوں چوں کا مربہ کہنا پڑا !!
مزید تحقیق کے لئے آپ دارالسلام کی طرف سے چھپی ہوئی تفسیر احسن البیان(جدید ایڈیشن) کے عرض ناشر کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔۔۔۔جس کے پہلے ایڈیشن میں صفات باری تعالیٰ(مثلا تفسیر سورہ التین) کے حوالے سے حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ سے کچھ سہو ہو گئے تھے۔۔۔۔اس طبع جدید میں حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کے تو کسی رجوع کا ذکر نہیں البتہ مفتی عبدالولی حفظہ اللہ سے اس کی نظرثانی کروا کر اس کو درست کروا دیا گیا ہے اور اس بارے میں حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کے موقف کا کچھ پتا نہیں چل سکا کہ آیا وہ بھی اپنے سابقہ موقف سے رجوع کر چکے ہیں یا نہیں !!!
جزاک اللہ خیرا ۔
اصل آزمائش اسی رجوع میں ہوتی ہے کہ آدمی دوسرے کے کہنے سے اپنا موقف تبدیل کردے ۔
 

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,596
پوائنٹ
139
جزاک اللہ خیرا ۔
اصل آزمائش اسی رجوع میں ہوتی ہے کہ آدمی دوسرے کے کہنے سے اپنا موقف تبدیل کردے ۔
جی بالکل بجا فرمایا غازی بھائی آپ نے۔۔۔۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
خضرحیات بھائی میرے دل کی بات کہہ دی ہے آپ نے بارک اللہ فیک۔
میں بھی یہی باتیں لوگوں سے ایک مدت سے کہتے آرہاہوں ۔
الحمد لله الذي هدانا لهذا و ما كن لنهتدي لو لا أن هدانا الله ۔

اللہ آپ کی کوششوں میں برکت عطا فرمائے ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
چونکہ اوپر کیے گئے وعدے کے مطابق ہم نے شیخ کفایت اللہ کا مضمون شیخ زبیر حفظہ اللہ کو ارسال کردیا تھا۔ سو شیخ زبیر حفظہ اللہ کی اجازت اور ان کے حکم کے مطابق ہم کفایت اللہ بھائی کے مضمون کا شیخ زبیر حفظہ اللہ کے قلم سے دیا گیا جواب اگلے تھریڈ میں پیش کر رہےہیں۔ نیز سہ ماہی مجلہ المکرم میں شائع شدہ مضمون کو بھی جواب دیتے وقت شیخ زبیر حفظہ اللہ نے ملحوظِ خاطر رکھا ہے۔
اسد بھائی اللہ آپ کو جزائے خیردے آپ نے شیخ حفظہ اللہ تک ہماری تحریر پہنچائی اور ان کا رد بھی پیش کررہے ہیں جب ان کا یہ رد پیش کرکے آپ فارغ ہوجائیں تو آپ سے گذارش ہے کہ اس رد کی اصل کاپی فراہم کریں ۔
اگرشیخ حفظہ اللہ نے اپنے رسالہ میں رد لکھا ہے تو اس کی پی ڈی ایف فائل دیں اور اگرکسی اور رسالہ میں یا یوں ہی الگ سے کچھ کاغذات پر لکھا ہے تو ان کا اسکیں دیں۔
تاکہ اس بار ہم جواب دیتے وقت پورے اطمینان کے ساتھ کوئی بات محترم شیخ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کی جانب منسوب کرسکیں ۔
بارک اللہ فیک۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
چند شبہات کا ازالہ
۱) کفایت اللہ سنابلی صاحب کی طرف سے حسین بن ابراہیم الجورقانی کی کتاب الاباطیل و المناکیر و الصحاح والمشاھیر (۱/ ۱۲۶ ح ۱۲۲) سے ایک روایت پیش کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ۱۲/ ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔ یہ روایت تین وجہ سے ضعیف ہے:
۱: محمد بن طاہر المقدسی کے بارے میں خود کفایت اللہ صاحب نے ’’ کان کثیر الوہم‘‘ وغیرہ کی جرح نقل کی ہے۔
۲: جور قانی پر بھی شدید جرح ہے۔
۳: عیسیٰ بن علی بن علی بن عیسیٰ کی توثیق مع تعین مطلوب ہے۔
سوال یہ ہے کہ اہلِ بدعت صرف اسی ایک روایت سے استدلال کرتے ہیں؟
امام المغازی محمد بن اسحاق نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ربیع الاول کی بارہ راتیں گزرنے کے بعد سوموار والے دن (یعنی ۱۲/ربیع الاول کو ) پیدا ہوئے۔
(سیرت ابن ہشام ۱/ ۱۶۷، دلائل النبوۃ للبیہقی ۱/ ۷۴)
کیا اس قدیم ترین قول کے مقابلے میں کوئی حدیث یا صحابی و تابعی کا کوئی اثر ہے؟
امام جورقانی رحمہ اللہ وغیرہ سے متعلق جروح ہماری نظروں سے اوجھل نہیں ہیں ، بڑی مہربانی ہو گی اگر امام جورقانی رحمہ اللہ کے بارے میں محترم حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کا دو ٹوک موقف بتلادیں کہ آیا یہ امام شیخ کی نظر میں ضعیف ہیں یا ثقہ یا حسن الحدیث ؟؟؟؟ صریح موقف بیان کریں ۔
جزاکم اللہ خیرا۔

ہاں اصل تحریر کے ہم منتظر ہیں ۔
 
Top