• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یزید بن معاویہ نے حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
جب محدثین کسی کے زیر اثر نہئں آسکتے تو اصحاب مصطفی کیونکر کسی کے زیر اثر آسکتے ہیں؟
ایکطرف ضمانت اور اعتماد اور دوسری طرف !؟
جہاں کہنے کا مطلب سخت پکڑ هونی هے ، جس سے روکا گیا اور روکا جارها هے وہ سب ضرور کہتے رهو بس حق نا سمجهو نا کہو ۔ چیلنج کرو ، 10 سال کی مدت دو ہمکو کتابوں ڈوب کر دلائل لانیکی !! کیا علم حاصل کر لیا اور خود کو کس مقام پر تصور کرتے هو؟
قبر سے حشر تک کا فاصلہ سہل نہیں اور یوم الحساب کا تو پوچهنا بهی نہیں ، صرف اللہ وحدہ اس روز کا مالک هے ۔
ویسے ہماری هر کوشش رائیگاں گئی اب تک ، اس لئیے آپکا معاملہ اللہ کے سپرد ۔
خلافت کے خواب نا دیکهو ۔ بلکہ اپنی آخرت کی فکر کرو ۔
محترم ،
مجھے تو اپ کی اردو پڑھ کے لگتا تھا کہ اپ کو اردو سے بڑا شغف ہو گا مگر اپ نے صبر اور زیر اثر کو ایک معنی میں متحمل کر دیا میں نے کبھی یہ نہیں کہا کے نعوذ باللہ صحابہ زیر اثر آ گئے تھے میں موقف شروع سے یہی رہا ہے کہ ظلم اتنا تھا کہ انہوں نےصبر کر لیا اور فتنہ کی وجہ سے خاموش ہو گئے اور دین کی باتیں جو وہ اپنی زندگی میں بتا نہ سکے مرتے ہوۓ بتا گئے اور اپ جو فرما رہے ہیں زیر اثر ہو گئے اس سے تو یہ معنی بناتا ہے کہ ان کے غلط کاموں میں شریک ہو رہے ہیں جیسا اپ نے محدثین پر الزام لگایا کے بنو عباس کے زیر اثر آ کر انہوں نے روایات گھڑ لی مگر یہ تو بتاؤ پھر یہ اپ کو کیسے پتا چلا کہ راویات گھڑی ہوئی ہے یہ بھی محدثین نے ہی کیا ہے تو اپ کی بات کہ صحابہ کا (زیر اثر) کچھ اور بات ہے میں نے فتنہ کی وجہ سے ان کا صبر کرنا اور خاموش ہونا لکھا ہے جیسے نبی صلی الله علیہ وسلم نے نماز کے حوالہ سے خود فرمایا ہے تمارے حکمران نماز لیٹ کریں گے تو تم اپنے وقت پر پڑھ لینا اورفتنہ نہ ہو اس کی وجہ سے ان کے ساتھ بھی پڑھ لینا "
تو اپ اپنے گستاخانہ الفاظ میرے منہ میں ڈالنے کی کوشش نہ کریں محدثین کے بارے میں ہی جو اپ نے فرمایا ہے وہی اس بات کے لئے کافی ہے کے اپ وحی خفی جس کی حفاظت کا وعدہ الله نے کر رکھا ہے اس کو مشکوک بنا رہے ہیں اس لئے میں یہی کہتا ہوں کے تاریخ کو چھوڑ کر کتب احادیث کی جانب تشریف لائیں
اور میں الحمد اللہ آخرت پر قبر کی سختی اور اس کی حشر کی سختی (الله اس سے تمام مسلمانوں کو پناہ دے ) یقین رکھتا ہوں اور جہاں تک علم کی بات ہے تو میں الله کا عجز بندہ ہوں جو اس نے سکھایا اس پر اس کا شکر ادا کرتا ہوں اور اس کو اپنے لیے دنیا اور آخرت میں نفع بنے کی دعا کرتا ہوں اور یہ دس سال والی بات جس کو اپ پکڑ کر مجھ پر تنقید فرما رہے ہے یزید کے حوالے سے میں ایسے دعوے اس فورم پر پڑھ چکا ہوں وہاں تو اپ نے ایسی کوئی تنبیہ نہیں فرمائی مثلا .
(١) یزید کی شراب نوشی کے حوالے سے ایک روایت بھی درست نہیں کا دعوا
(٢) یزید سے ایک بھی جرم بسند صحیح ثابت نہ ہونے کا دعوا
(٣) واقعہ حرہ میں کسی ایک بھی صحابہ کی شہادت نہ ہونے کا دعوا
(٤) اہل شام نے خانہ کعبہ میں اگ نہیں لگائی وغیرہ
یہ سب اس فورم پر موجود ہے اس پر اس لئے کچھ نہیں کہا جاتا کہ ناصبی افکار کو ان دعووں سے تسلی ہوتی ہے اور یہ یزید کی شان میں ہے اس لئے ان پر یہ نہیں کہا جاتا ہے کہ خود کو کہاں تصور کر رہے ہیں بلکہ جزاک اللہ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں اور یہی اگر یزید کے خلاف ہو تو اگ بگولہ ہو کر اس طرح آخرت کی تلقین کی جاتی ہے الله ہدایت دے اور اپ کو یہ سمجھنے کی توفیق دے کہ وہ کیا ظلم کی کالی رات تھی جس کے خلاف ایک روشنی کی شمع جلی تھی جس نے پھرسب کو یہ رہ دکھا دی کے ظالم کے خلاف آٹھ کھڑے ہو اور اس خلافت کی طرف لوٹو جو اس اسلام کی جڑ ہے اور یہ آخرت کی ہی فکر ہے تب ہی میں خلافت کے لئے کوشش کرتا ہوں دین میں جیسے نماز ضروری ہے اس طرح الله کی دین کے غلبہ اور اس کی کوشش ضروری ہے ورنہ یہ میرا گمان ہے کہ الله یہ نہ پوچھے کہ ہر نماز میں کہتا تو تھا الله اکبر مگر بڑا تو نے طاغوت کے نظام کو مانا تھااور میں یہ اتنے عرصہ میں نوٹ کیا ہے کہ لوگوں کو اس کا شعور ہی نہیں ہے کہ الله کے دین کو الله کی زمین پر نافذ کرنے کی کوئی کوشش بھی کرنی ہے لوگوں کے ذہن میں دین کا تصور ہی یہ ہیں کہ نماز ،روزہ ،حج زکات اور اسی کو کل دین سمجھ لیا ہے جیسا علامہ اقبال نے کہا ہے
ہند میں گر ملا کو سجدے کی اجازت
نادان یہ سمجھاتا ہے اسلام ہے آزاد
اور خلافت کے حوالے سے بھی یہ فرما دوں کہ اس بنو امیہ اور بنو مروان کے اثرات ذہن پر ایسے اثر انداز ہوۓ ہیں کہ خلافت کو قائم کرنے کے حوالے سے مسلمانوں میں کوئی تصور ہی نہیں ہے کہ اس حوالے سے جدوجہد بھی کرنی چاہیے یا یہ دین کی ایک بنیاد ہے اس حوالے سے یہ شعر بڑا مناسب ہے اپ بھی پڑھ لیں شاید الله ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کے لئے کوشش کریں نہیں تو کم از کم دل میں تو آرزو رکھیں
اس طرح لوٹا خلافت کا باغ چمن
افسوس کہ آج احساس ضیاع بھی نہیں
الله سمجھنے کی توفیق دے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304

یہ روایت کیا معلوم بنو امیہ کے زیر اثر ہو کر لکھی ہوں ایسا ماننا اپ کا ہی ہے کہ محدثین زیر اثر آ سکتے ہیں
میں کسی راویت کو ضعیف نہیں کہتا جو صحیح ہو اس روایت میں واقعی ایک دعا ہے قبول ہونا ہوئی یا نہیں الله جانتا ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی تمام دعا قبول نہیں ہوئی ہے اور یہ حدیث سے ثابت ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عُمَيْرَةَ ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لِمُعَاوِيَةَ : " اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِ بِهِ .
[جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » أبوابُ الْمَنَاقِبِ » بَاب مَنَاقِبِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ ... رقم الحديث: 3806]

ترجمہ: حضرت عبد الرحمٰن بن ابی عميرة المزني سے روایت ہے، اور وہ نبی ﷺ کے صحابہ میں سے، وہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ بیشک انہوں نے (دعا) فرمائی حضرت معاویہؓ کے لئے: اے الله ! اس کو ہادی بنا اور مہدی (ہدایت-یافتہ) بنا اور اس سے (دوسروں کو) ہدایت دے-
حكم المحدثین: صحيح

ملا علی قاری رح فرماتے ہیں:
ولا ارتياب أن دعاء النبي - صلى الله عليه وسلم - مستجاب ، فمن كان هذا حاله كيف يرتاب في حقه
[مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح » كتاب المناقب والفضائل » باب جامع المناقب ... 6244 (11/438)]

ترجمہ : اس میں کچھ شک نہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی دعا یقیناً مستجاب ہوتی ہے تو جس شخص کے حق میں یہ دعائیں ہوتی ہیں اس کے حق میں قبولیت میں کس طرح شبہ کیا جاسکتا ہے؟

البتہ بعض دعائیں نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی بارگاہ الہی میں جو قبول نہیں ہوئیں ان کے بارے میں خود نبی کریم نے اپنی احادیث میں بتا دیا کہ میری فلاں دعا کو شرف قبولیت حاصل نہیں ہوئی- ورنہ تو اہل بیعت اور علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی نبی کریم کی دعائیں منقول ہیں- کیا اس اصول کے تحت ان کی قبولیت میں بھی شبہ کیا جا سکتا ہے ؟؟
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
بسم الله الرحمن الرحیم
امابعد !
جناب اگر شہادت حسینؓ رضی اللہ عنہ کے پیچھے یزیدؒ رحمۃاللہ کی مرضی یا سازش ہوتی تو عبداللہ بن عمرؓ رضی اللہ عنہ یہ کبھی نہ کہتے کہ ان کو اہل عراق نے قتل کیا ہے ۔ وہ کبھی حق کو چھپانے والے نہیں تھے اور اُس وقت موجود تمام صحابہؓ رضی اللہ عنہما اس سانحہ پر خاموش ہیں جس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ اُس وقت تمام صحابہؓ رضی اللہ عنہما اس سانحہ کا الزام یزیدؒ کو نہیں دیتے تھے بلکہ اہل عراق کو مجرم سمجھتے تھے ۔ کیونکہ وہ بھی ان پیشنگوئیوں کے متعلق جانتے تھے ، اور یزیدؒ کا کردار بھی ان کے سامنے تھا ۔
اور عبد اللہ بن عمر ؓ کا یہ کہنا کہ حسین ؓ کو اہل عراق نے قتل کیا ہے ۔ اس پرعراقی شخص کی خاموشی بتا رہی ہے کہ عبد اللہ بن عمر ؓ کا یہ کہنا صحیح تھا کہ حسین ؓ کو اہل عراق نے قتل کیا ہے۔

ابن عمر ؓ سے ایک شخص نے مچھر کے مارنے کا خون بہا ( کفارہ)پوچھا تو انہوں نے پوچھا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو اس نے بتایا کہ میں عراق کا رہنے والا ہوں ، فرمایا کہ اس شخص کو دیکھو مچھر کے خون کا کفارہ (تاوان) پوچھتا ہے ، حالانکہ اس کے ملک والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے نواسہ کو (دھوکے سے بلاکر) قتل کر ڈالا ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ سنا ہے کہ یہ دونوں (حسنؓ اور حسینؓ ) دنیا میں میرے دو پھول ہیں ۔
(صحیح بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الولد )
اگر یزیدؒ نے کوئی قصور کیا ہوتا تو کیا ابن عمر ؓ یہ جواب دیتے ؟؟؟کیا آپ مانتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمرؓ نے جھوت بولا تھا ؟؟؟؟
اور جناب عبداللہ بن زبیرؓ کےمقابلے میں بھی اس وقت عبداللہ بن عمرؓ ،و عبداللہ بن زید ؓ ،و انسؓ اور دوسرے صحابہؓ و تا بعیین نے نہ تو بیعت توڑی اور نہ اس بغاوت کو اچھا سمجھا بلکہ انہوں نے باقیوں کو بھی منع کر دیا کہ نہ تو یزیدؒ کی بیعت توڑیں اور نہ ہی اس سازش میں شریک ہوں ۔
جس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ یزیدؒ ایک اچھے انسان تھے اور خلافت کا اہل بھی تھے اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر اس وقت موجود اصحابؓ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ان کو کبھی بھی برداشت نہ کرتے ۔
عبداللہ بن عمرؓ کا یہ کہنا کہ "ہم نے یزید ؒ کے ہاتھ پر اللہ اوررسول صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت پر بیعت کی تھی" اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ یزیدؒ امارت کے اہل تھے-
والحمد للہ رب العالمین
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
یہ درایت کے اصول آج اپ لوگوں کو معلوم ہو گئے اتنے محدثین جو اس کو صحیح کہ رہے ہے وہ اس درایت کے علم سے ناواقف تھے اور وہ رافضیت کے بھوت کے زیر اثر تھے
مشہور محدث عمر بن بدر الموصلی لکھتے ہیں :
لم یقف العلماء عند نقد الحدیث من حیث سندہ بل تعدوا الی النظر فی متنہ فقضوا علی کثیر من لاحادیث بالوضع وان کان سندا سالما اذا وجدوا فی متونھا عللا تقضی بعدم قبولھا ۔ (تقی امینی، حدیث کا درایتی معیار ۱۷۹)

علما نے نقد حدیث کے معاملے میں صرف سند پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس دائرے میں متن کو بھی شامل کیا ہے۔ چنانچہ بہت سی ایسی حدیثوں کو موضوع قرار دیا گیا جن کی سندیں اگرچہ درست ہیں، لیکن ان کے متن میں ایسی خرابیاں پائی جاتی ہیں جو ان کو قبول کرنے سے مانع ہیں۔‘‘
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412

یہ روایت کیا معلوم بنو امیہ کے زیر اثر ہو کر لکھی ہوں ایسا ماننا اپ کا ہی ہے کہ محدثین زیر اثر آ سکتے ہیں
میں کسی راویت کو ضعیف نہیں کہتا جو صحیح ہو اس روایت میں واقعی ایک دعا ہے قبول ہونا ہوئی یا نہیں الله جانتا ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی تمام دعا قبول نہیں ہوئی ہے اور یہ حدیث سے ثابت ہے
استغفر اللہ!
اب صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں بخشو گے؟؟؟؟
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
761
پوائنٹ
290
جو کہنا تها مجهے وہ کہا میں نے ، اس سے زیادہ کہنا میں غیر ضروری محسوس کرتا هوں ۔ ہماری باتوں میں تضاد نہیں هے کیونکہ ہم نے نا دعوی کیا نا چیلنج کیا ۔ عجب تماشہ هیکہ یا تو اکسایا جائے یا طعن هو یا علم کی تمام منازلیں سر کرلی جائیں اور پهر معصوم بن جایا جائے ، عجز و انکساری بتائی (جتائی) جائے اور خود کو کم علم کہا جائے ۔
میرے خیال سے تو کافی سے زیادہ هو گیا ۔ اگر انکے مراسلات میں کوئی ایسی بات هوتی جسکا جواب دیا جانا ضروری هوتا تو فورم پر موجود اہل علم نے ضرور جواب دیا هوتا ۔ یہ اشارہ ہی کافی سے زیادہ هے ۔ ورنہ صاحب مضمون (جن کے مضمون پر ردود پیش کئئے جارہے ہیں) نے ضرور بہ ضرور جواب دیا هوتا ۔
واللہ اعلم
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
[FONT=simplified arabic, serif]محترم ،[/FONT]
[FONT=simplified arabic, serif]اپ کی یہ غلط فہمی دور کرنے کے لئے چند حوالے [/FONT]
[FONT=simplified arabic, serif](١) امام عبدالرازق نے سب سے پہلے یہ روایت نقل کی ہے (مصنف عبدالرزاق رقم ٢٠٧٥٣)ولد ١٢٦ہجری وفات ٢١١ ہجری [/FONT]
[FONT=simplified arabic, serif]امام طبری کے ١٠٠ سال پہلے[/FONT]
[FONT=simplified arabic, serif](٢)امام ابن ابی شیبہ ولد ١٥٩ہجری وفات ٢٣٥ ہجری امام طبری سے ٧٠ سال پہلے [/FONT]
[FONT=simplified arabic, serif](٢) امام احمد بن حنبل جن کی سند بھی صحیح ہے ولد ١٦٤ وفات ٢٢٨ ہجری [/FONT]
[FONT=simplified arabic, serif]امام طبری کے ٤ سال بعد [/FONT]
[FONT=simplified arabic, serif]یہ سب امام طبری سے کئی سال پہلے پیدا ہوۓ ہے اور انہوں نے وہ روایت اپنی کتب میں درج کی ہے تو اپ کا یہ مغالطہ ہے جو اپ دور ہو جانا چاہیے [/FONT]
[FONT=simplified arabic, serif]

[FONT=simplified arabic, serif]ماشاء الله [/FONT]
[FONT=simplified arabic, serif]اس کا مطلب محدثین اور کے لکھے میں اپ فرق کیسے کریں گے اور دوسری بات اس سے ذخیرہ حدیث تو مشکوک ہو گیا نعوذ باللہ پھر اپ اس بارے میں کیا فرمائیں گے کے بنو امیہ ٩٠ سال حکومت پر قابض رہی تو یزید کے فضائل میں جو روایات اور تاریخ میں جو کچھ ہے محدثین نے وہ متاثر ہو کر لکھا ہے توان سے بھی محدثین کا متاثر ہونا فطری بات ہے کیوں؟[/FONT]

٩٠ سال بنو امیہ کا بھی شام سے لے کر اندلس اور روم تک تسلط تھا اور جہاں تک گالیوں کی بات ہے تو جب عباسیوں نے گالیاں دی ہیں تو بنو امیہ نے ٩٠ سال اپنے منبروں پر اہل بیت میں سے علی رضی الله عنہ کو گالیاں دی ہیں .
یہ ہے پس آئینہ ان باتوں کا جو اپ نے شاید نادانستہ طور پر کر دی ہیں تاریخ روایات اور کتب کے حوالے سے صرف اتنا کہا جاسکتا ہے ان میں راویوں کی چھان پھٹک میں تساہل برتا گیا ہے مگر احادیث وحی خفی ہے اس کے بارے میں ایسے گمان بھی کہاں لیجا سکتےہیں یہ اپ خود سمجھدار ہیں




[/FONT]
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ "خاندان بنو امیہ ٩٠ سال حکومت پر قابض رہی تو یزید کے فضائل میں جو روایات اور تاریخ میں جو کچھ ہے محدثین نے وہ متاثر ہو کر لکھا ہے توان سے بھی محدثین کا متاثر ہونا فطری بات ہے"-

تو محترم یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھنی ضروری ہے کہ بنو امیہ کا دور حکومت لگ بھگ ٤١ ہجری سے لیکر ١٣٠ ہجری تک رہا- اسی دوران عہد صحابہ کے مابین جنگیں اور کربلا جیسے واقعات وقوع پذیر ہوئے تھے۔ جو لوگ ان واقعات کے عینی شاہد تھے، ان میں سے بعض نے انہیں اگلی نسل کے سامنے بیان کیا، اس اگلی نسل نے اپنے سے اگلی نسل کے سامنے یہ واقعات بیان کیے۔ ایسا کم ہی ہوا کہ کسی بیان کرنے والے نے پورے واقعے کو مکمل تفصیلات کے ساتھ بیان کیا ہو بلکہ کسی نے مختصراً بات بیان کی اور کسی نے کچھ تفصیل سے۔ اس طرح سے یہ واقعات بیان کرنے والوں کے "بیانات" کی صورت میں مرتب ہوئے۔ اور یہ بیانات یا روایات بھی صحیفوں کی شکل میں آئمہ و محدثین کے پاس محفوظ تھے- بہت کم ایسا ہوا کہ کسی نے ان کو کتابی شکل دی- اس دور میں احادیث نبوی بھی کتابی شکل میں مرتب نہیں تھیں - زیادہ سے زیادہ موطا امام مالک یا مسند علی بن حسین کتب کی مثال ملتی ہے جن میں روایات کو جمع کیا گیا وغیرہ- اس لئے یہ کہنا کہ یزید کے فضائل میں روایات بنو امیہ دور میں گھڑی گئیں ایک لغو اور غلط نظریہ ہے- روایات کی ترتیب و تدوین اور ان پر جرح و نقد دوسری و تیسری صدی ہجری میں منظم طور پر شروع کی گئی -یہ عباسیوں کا دور تھا اور اسی دور میں مورخین و آئمہ نے روایت پر تحقیق شروع کیں - اور عباسی دور میں ان روایت پر تنقید تادیب کے سلسلے نے زور پکڑا -یہ بات ہم جانتے ہیں کہ کوئی مصنف جب کتاب لکھتا ہے تو وہ اپنے زمانے کے لوگوں کی علمی اور ذہنی سطح ہی کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھتا ہے۔ اور اس دور کے نشیب و فراز سے متاثر ہوے بغیر نہیں رہ پاتا- عجمیوں میں ویسے بھی اہل فارس کا خون دوڑ رہا تھا اس لئے وہ مورثیت کو اپنے ذہن سے نہیں نکال سکے - اس بنیاد پر انہوں نے عبد الله بن سبا کے مذموم افکار کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی اور فضائل اہل بیعت میں طرح طرح کی ان گنت روایات گھڑیں کہ آئمہ و محدثین کے لئے باوار کرنا مشکل ہو گیا کہ کون سی روایت صحیح ہے اور کون سی غلط -لیکن اس معاملے میں ہم آئمہ و محدثین کو قصور وار بھی نہیں ٹہرا سکتے کیوں کہ انہوں نے اپنی پورری کوشش ضرور کی لیکن زمانے کا اثر اپنی جگہ باقی رہا- (واللہ اعلم)
 

razijaan

رکن
شمولیت
جولائی 21، 2015
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
35
کیا یزید بن معاویہ نے حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا؟

سوال: زینب بنت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما نے سانحہ کربلا کے بعد شام میں یزید کے سامنے خطاب کرتے ہوئے کیا کہا تھا؟ اور یزید نے حسین رضی اللہ عنہ کے خاندان کا راستہ چھوڑنے سے کیوں انکار کیا؟ اور اگر یزید نے خود یہ کام نہیں کیا تھا تو جو کچھ بھی آل بیت کے ساتھ ہوا وہ سب کچھ یزید کے حکم سے نہیں ہوا تھا؟

Published Date: 2016-05-15

الحمد للہ:

اول:

مسلمانوں کو ہمیشہ سے تاریخی کتب کے جھوٹے قصوں اور واقعات کی وجہ سے مشکلات کا سامنا رہا ہے، اگر کوئی عقل مند اس فرمانِ باری تعالی پر غور کرے:

( تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ )

ترجمہ: یہ امت ہے جو گزر گئی جو اس نے کمایا اس کیلیے وہی ہےاور تمہارے لئے وہ ہےجو تم نے کمایا، اور تم سے ان کے اعمال کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔[ البقرة:134]

اور پھر اس آیت پر عمل کرتے ہوئے اپنی زبان کو لگام دے، اور فتنوں سے متعلقہ گفتگو میں مت پڑے، تاکہ اللہ کے سامنے جب جائے تو اس نے کسی پر ظلم نہ کیا ہو، نبوی خانوادے سے محبت کرے اور ان کے دشمنوں سے دشمنی روا رکھے تو وہ اپنے رب کے ہاں متقی شخص ہو گا اور اس کا دین بھی صحیح سلامت ہوگا۔

مسلمانوں کے مابین ہونے والے اختلافات اور جھگڑوں کو بیان کرنے والے عام طور پر راوی جھوٹے ، نا معلوم اور کذاب ہوتے ہیں، اس لیے ان راویوں کی جانب سے بیان کردہ روایات پر بالکل بھی اعتماد نہیں کرنا چاہیے؛ کیونکہ وہ عادل راوی نہیں ہیں، جبکہ کسی کی بات پر اعتماد کرنے کیلیے اللہ تعالی نے اصول بیان فرمایا کہ:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ )

ترجمہ: اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو اس کی تاکید کر لو [مبادا] تم کسی قوم کو لا علمی کی بنا پر کوئی گزند پہنچاؤ اور پھر تمھیں اپنے کیے پر ندامت اٹھانی پڑے۔[ الحجرات:6]

انہی جھوٹے قصوں میں سے وہ ہے جو طبرانی نے اپنی کتاب "تاریخ": (5/461) میں اور ابن عساکر نے "تاریخ دمشق" (69/176) میں ابو مخنف کی سند سے بیان کیا ہے کہ وہ حارث بن کعب سے وہ فاطمہ بنت علی سے بیان کرتے ہیں کہ:

"جس وقت ہمیں یزید بن معاویہ کے سامنے بٹھایا گیا تو اس نے ہمارے ساتھ نرم لہجہ اپنایا اور ہمیں کچھ دینے کا حکم دیا، اور اچھا برتاؤ کیا، وہ مزید کہتی ہیں کہ: اہل شام میں سے سرخ رنگ کا آدمی یزید کے پاس گیا اور اس سے کہا: "امیر المؤمنین! یہ لڑکی -یعنی میں فاطمہ بنت علی-مجھے ہبہ کردیں" اور میں خوبرو لڑکی تھی، تو میں یہ سن کر کانپ گئی اور سہم گئی، اور سمجھنے لگی کہ ان کیلیے ایسا کرنا جائز ہے، تو میں نے اپنی بہن زینب کے کپڑے پکڑ لیے ، زینب مجھ سے بڑی اور سمجھدار تھیں ، نیز انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا، تو انہوں نے کہا:
"اللہ کی قسم! تم غلط کہتے ہو، تم کمینے ہو! یہ بات نہ تیرے لیے جائز ہے اور نہ ہی اس [یزید] کیلیے۔
تو یزید نے کہ: تم غلط کہتی ہو! یہ بات میں کر سکتا ہوں، اور اگر میں چاہوں تو اسے پورا بھی کر سکتا ہوں۔
تو زینب نے کہا: تم ہر گز ایسا نہیں کر سکتے! اللہ تعالی نے تمہارے لیے ایسا کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رکھی، الا کہ تم ہمارے دین سے خارج ہو جاؤ، اور کسی دوسرے دین کے پیرو کار بن جاؤ۔

فاطمہ کہتی ہیں: یہ سن کر یزید غصہ سے لال پیلا ہو گیا ۔
اور کہنے لگا: کیا تم مجھے اس انداز سے مخاطب کرتی ہو! دین سے تو تمہارا باپ اور بھائی خارج ہو چکا ہے۔
تو زینب نے کہا: اللہ کے دین ، میرے والد، بھائی اور نانا کے دین پر ہی تو تیرا باپ، اور دادا ہدایت یافتہ ہوئے تھے۔

یزید نے کہا: اللہ کی دشمن! تم غلط کہتی ہو!
زینب نے کہا: تو ہم پر مسلط کیا گیا حکمران ہے، ظلم کرتے ہوئے گالیاں دیتے ہو! اور اپنی طاقت کے بل بوتے پر مسلط ہو۔

زینب کہتی ہیں کہ : پھر ایسا محسوس ہوا کہ یزید کو کچھ شرم آئی اور خاموش ہو گیا، اس پر اُس شامی شخص نے دوبارہ مطالبہ کیا کہ: "امیر المؤمنین! یہ لڑکی مجھے ہبہ کر دیں"
تو یزید نے کہا: اللہ تجھے نیست و نابود کرے !تو بن بیاہے ہی رہے گا"


ابن کثیر نے اسے ابو مخنف کی سند کیساتھ البداية والنهاية (11/562) میں اسی طرح بیان کیا ہے ۔

جبکہ ابو مخنف کا نام : لوط بن یحیی ہے ، اس کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

" أخباري تالف، لا يوثق به. تركه أبو حاتم وغيره "پرلے درجے کا قصہ گو ہے، اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، اسے ابو حاتم وغیرہ نے ترک کر دیا تھا۔

دارقطنی کہتے ہیں: ضعیف ہے۔

ابن معین کہتے ہیں:

" ليس بثقة "یعنی: یہ ثقہ نہیں ہے، اور ایک بار یہ بھی کہا ہے کہ: " ليس بشيء "یعنی: اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
ابن عدی کہتے ہیں کہ: " شيعي محترق، صاحب أخبارهم "کٹر شیعہ تھا اور انہی کے قصے بیان کرتا تھا"

دیکھیں: ميزان الاعتدال (3 /419)

لہذا یہ روایت ہی صحیح نہیں ہے بلکہ جھوٹ ہے۔

اسی طرح کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ یزید بن معاویہ چھڑی سے حسین رضی اللہ عنہ کے دانتوں کو چھیڑ رہا تھا تو اس پر زینب نے کہا:

" یزید! کیا تو سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے تنگ کر دئیے ہیں اور ہمیں ایسے ہانکا گیا جیسے لونڈیوں کو ہانکا جاتا ہے، اس طرح تو اللہ کی بارگاہ میں سرفراز ہو گیا اور ہم رسوا ہو گئے ہیں؟ کیا تیرے خیال میں یہ سب کچھ اللہ کی بارگاہ میں تیرے شان و مقام کی وجہ سے ہے؟ آج تو اپنی ناک اٹھائے پھر رہا ہے ، مسرت و شاد مانی سے سرشار ہو کر مغرور ہے۔ آزاد کردہ غلاموں کی اولاد! کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کیا ہوا ہے جبکہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹیوں در بدر پھرا رہا ہے ۔ تو نے ان کی بے پردگی کی اور ان کے چہرے سب کیلیے عیاں کیے ، تیرے حکم پر دشمنوں نے انہیں شہر شہر پھرایا ۔۔۔"

یہ قصہ بے بنیاد ہے اہل علم کی کتابوں میں اس کا کوئی تصور ہی نہیں ہے، اس قصہ کو بیان کرنے کیلیے صرف رافضیوں کی کتابیں ہیں جو کہ جھوٹ بولنے میں مشہور ہیں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"صحیح بخاری میں جو بات ثابت ہے کہ: حسین رضی اللہ عنہ کا سر عبید اللہ بن زیاد کے سامنے لایا گیا اور وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے سامنے حسین رضی اللہ عنہ کے اگلے دانتوں کو چھڑی سے کریدنے لگا"

جبکہ مسند میں ہے کہ:

"یہ ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں ہوا"

لیکن کچھ لوگ منقطع سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ یہ یزید بن معاویہ کے موجودگی میں ہوا تھا، لیکن یہ بات بالکل باطل ہے" انتہی

مجموع الفتاوى (27/ 469)

اسی طرح انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ:

"یزید بن معاویہ شام میں تھا، حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت وہ عراق میں نہیں تھا، چنانچہ جو یہ بات نقل کرتا ہے کہ یزید بن معاویہ کی موجودگی میں عبید اللہ بن زیاد نے انس بن مالک اور ابو برزہ رضی اللہ عنہ کے سامنے حسین رضی اللہ عنہ کے دانتوں پر چھڑی سے کریدا یہ بالکل واضح جھوٹ ہے اور متواتر روایات سے اس کا جھوٹ ہونا معلوم ہوتا ہے" انتہی

مجموع الفتاوى (27/ 470)

دوم:

مشہور و معروف یہ بات ہے کہ یزید بن معاویہ نے حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا تھا اور نہ ہی اسے پسند جانا بلکہ ابن زیاد کو حسین رضی اللہ عنہ کے قتل پر برا بھلا بھی کہا ، نیز حسین رضی اللہ عنہ کے جو اہل خانہ ان کے ساتھ تھے ان کی تکریم بھی کی اور انہیں شایان شان طریقے سے مدینہ واپس بھیج دیا، اپنے پاس نہیں رکھا۔

اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"یزید بن معاویہ کی پیدائش عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں ہوئی ، یزید دینداری اور خیر میں مشہور نہیں تھا، نوجوان مسلمان تھا، اس نے اپنے والد کے بعد حکمرانی کی باگ دوڑ سنبھالی ، اگرچہ کچھ مسلمانوں نے اسے اس لائق نہیں سمجھا ، اور کچھ اس پر راضی تھے ، تاہم اس میں بہادری اور سخاوت کے اوصاف پائے جاتے تھے، اعلانیہ طور پر گناہوں کا رسیا نہیں تھا جیسے کہ اس کے بارے میں ان کے مخالفین کہتے ہیں۔

نیز اس نے حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم نہیں دیا، اور نہ ہی حسین رضی اللہ عنہ کے قتل پر اظہارِ خوشی کیا ، نہ ہی حسین رضی اللہ عنہ کے دندان کو چھڑی سے کریدا، نہ ہی حسین رضی اللہ عنہ کا سر شام اس کے پاس لے جایا گیا، تاہم اس نے حسین رضی اللہ عنہ کو روکنے کا حکم دیا تھا، نیز سیاسی معاملات سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی چاہے اس کیلیے مسلح راستہ اپنانا پڑے۔

لیکن یزید کے مشیر اس کے حکم سے بھی آگے بڑھ گئے اور شمر بن ذی الجوشن نے عبید اللہ بن زیاد کو قتل کرنے کی ترغیب دلائی ، چنانچہ عبید اللہ بن زیاد نے حسین رضی اللہ عنہ پر تشدد کیا ، تو حسین رضی اللہ عنہ نے ان سے مطالبہ کیا کہ مجھے یزید کے پاس جانے دیں، یا میں اسلامی سرحدوں پر پہرے دار بن جاتا ہوں یا مکہ واپس چلا جاتا ہوں۔

لیکن انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کی کوئی بات نہ مانی اور انہیں گرفتاری دینے کا کہا اور عمر بن سعد کو حسین رضی اللہ عنہ سے لڑنے کا کہا انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کے ان کے اہل خانہ کے ساتھ قتل کر دیا، اللہ تعالی حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل خانہ سے راضی ہو۔

آپ رضی اللہ عنہ کا قتل بہت بڑا سانحہ تھا، کیونکہ حسین رضی اللہ عنہ اور ان سے پہلے عثمان رضی اللہ عنہ کا قتل اس میں امت میں بڑے بڑے فتنوں کا باعث بنا، نیز ان کے قاتلین اللہ تعالی کے ہاں بد ترین مخلوق ہیں۔

اس کے بعد جب حسین رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ یزید بن معاویہ کے پاس آئے تو یزید نے ان کا احترام کیا اور انہیں مدینہ روانہ کر دیا، یزید کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے ابن زیاد پر حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کرنے کی وجہ سے لعنت بھی کی ، یزید نے یہ بھی کہا کہ میں اہل عراق سے حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کے بغیر ہی راضی تھا۔

لیکن ان باتوں کے با وجود یزید نے حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کی مذمت نہیں کی اور نہ ہی حسین رضی اللہ عنہ کیلیے کوئی اقدامات کیے اور قصاص بھی نہیں لیا ، حالانکہ قصاص لینا یزید پر واجب تھا، چنانچہ اسی وجہ سے اہل حق یزید کو اس واجب کے ترک کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر امور کی وجہ سے ملامت کرنے لگے ۔

لیکن یزید کے مخالفین یزید کے خلاف باتیں کرتے ہوئے بہت سی جھوٹی چیزیں بھی شامل کر دیتے ہیں۔" انتہی

مجموع الفتاوى (3/ 410)

کتب میں یہ بھی موجود ہے کہ یزید کو حسین رضی اللہ عنہ کے قتل پر ندامت ہوئی ، وہ کہا کرتا تھا:

"مجھے کیا ہوتا اگر میں اس تکلیف کو برداشت کر لیتا، اور ان[حسین رضی اللہ عنہ] کو اپنے گھر میں ٹھہراتا، اور پھر انہیں ان کے بارے میں مکمل خود مختاری دے دیتا، اگرچہ اس کی وجہ سے مجھے اپنی سلطنت میں کمی اٹھانی پڑتی؛ تا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خانوادے کے حقوق کی پامالی نہ ہو"

پھر کہا کرتا تھا: "اللہ تعالی مرجانہ کے بیٹے [عبید اللہ بن زیاد]پر لعنت فرمائے کہ اس نے حسین رضی اللہ عنہ کو باہر نکال کر مجبور کیا ، حالانکہ حسین رضی اللہ عنہ نے اس سے تین مطالبے کیے تھے: کہ اس کا راستہ چھوڑ دیا جائے، یا وہ میرے [یزید بن معاویہ کے]پاس آ جائیں، یا پھر مسلمانوں کی سرحدوں پر پہرے دار کی حیثیت بقیہ زندگی گزاریں یہاں تک کہ اللہ تعالی انہیں موت دے دے، لیکن عبید اللہ نے ایسا نہ کیا اور انہیں قتل کر دیا، اس طرح سے عبید اللہ نے مسلمانوں میں میرے بارے میں نفرت پھیلا دی، اور ان کے دلوں میں میرے بارے میں دشمنی کا بیج بو دیا، پھر نیک و بد ہر شخص مجھ سے نفرت کرنے لگا؛ کیونکہ لوگوں نے حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کو بہت ہی زیادہ اہمیت دی حالانکہ میرا اس میں کوئی دخل نہیں تھا یہ کارستانی صرف ابن مرجانہ کی تھی، اللہ تعالی اس پر لعنت فرمائے اور اپنا غضب نازل کرے۔"

البداية والنهاية (11/ 651)، سير أعلام النبلاء (4/370)

ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"یزید بن معاویہ کے بارے میں سب سے سنگین الزام جو لگایا جاتا ہے وہ شراب نوشی سمیت دیگر کچھ اور غلط کام ہیں لیکن حسین رضی اللہ عنہ کا قتل نہ تو اس کے حکم سے ہوا اور نہ ہی اسے برا لگا، جیسے کہ یزید کے دادا ابو سفیان نے احد کے دن کہا تھا۔

اور ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ یزید نے کہا تھا:

"اگر میں حسین کے پاس ہوتا تو ایسا نہ کرتا جیسا ابن مرجانہ یعنی عبید اللہ بن زیاد نے کیا "

اس نے حسین رضی اللہ عنہ کا سر لیکر آنے والوں کو کہا کہ: تمھیں اس سے کم اطاعت بھی کافی تھی! اور انہیں اس کارستانی پر کچھ نہیں دیا، جبکہ حسین رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ کا احترام کیا اور ان سے چھینا گیا سب مال سمیت بہت کچھ انہیں دیا اور انہیں بڑے تزک و احتشام کے ساتھ مکمل شایانِ شان انداز میں مدینہ واپس بھیج دیا ، اور جس دوران حسین رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ یزید کے اہل خانہ کے گھر میں تھے تو یزید کے گھر والوں نے ان کے ساتھ تین دن تک سوگ بھی کیا" انتہی

البداية والنهاية (11/ 650)

یہ سب کچھ یزید کا دفاع یا یزید کی جانب میلان رکھنے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یزید کے بارے میں معتدل رائے ہی یہ ہے کہ: یزید کا حکم دیگر ظالم حکمرانوں جیسا ہے کہ نہ تو اس سے بنائی جائے اور نہ ہی بگاڑی جائے ، اس سے محبت بھی نہ کی جائے اور اسے گالی بھی نہ دی جائے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"یہی وجہ ہے کہ اہل سنت اور امت اسلامیہ کے ائمہ کرام کا موقف یہ ہے کہ: یزید کو گالی دی جائے اور نہ ہی اس سے محبت کی جائے، چنانچہ صالح بن احمد بن حنبل کہتے ہیں : میں نے اپنے والد سے کہا: کچھ لوگ کہتے ہیں کہ: وہ یزید سے محبت کرتے ہیں، تو میرے والد [امام احمد بن حنبل]نے کہا: "بیٹا! کوئی اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان لانے والا بھی یزید سے محبت کر سکتا ہے؟
تو اس پر میں نے کہا: اباجی! پھر آپ اس پر لعنت کیوں نہیں کرتے؟
تو انہوں نے کہا: بیٹا! آپ نے اپنے والد کو کبھی کسی پر لعنت کرتے ہوئے دیکھا ہے؟" انتہی

مجموع الفتاوى (3/ 412)

ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ:

" ابو محمد المقدسی کہتے ہیں: جس وقت ان سے یزید کے بارے میں پوچھا گیا-تو جیسے مجھے بات پہنچی ہے - انہوں نے کہا تھا: اسے گالی دی جائے نہ محبت کی جائے۔
اور مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ہمارے دادا ابو عبد اللہ ابن تیمیہ سے جب یزید کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: "بے عزتی نہ کرو اور نہ ہی احترام کرو"
اور یہ یزید اور اس جیسے دیگر لوگوں کے بارے میں معتدل ترین اور بہترین موقف ہے" انتہی

مجموع الفتاوى (4/ 483)

یزید کے بارے میں مزید صحیح موقف جاننے کیلیے آپ فتوی نمبر:
(23116) کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم.

اسلام سوال و جواب

https://islamqa.info/ur/241102
صحیح بخاری باب فتن سارا پڑھ لیں. آپ کو کسی سے سوال کی.ضرورت نہیں رہے گی.
باقی جو بھائی نے آیات لگائی ہیں میرا سوال ہے کہ پھر آپ احمد رضا بریلوی اور اشرف علی تھانوی کے بارے کیا خیال ہے؟

Sent from my LG-D855 using Tapatalk
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
صحیح بخاری باب فتن سارا پڑھ لیں. آپ کو کسی سے سوال کی.ضرورت نہیں رہے گی.
باقی جو بھائی نے آیات لگائی ہیں میرا سوال ہے کہ پھر آپ احمد رضا بریلوی اور اشرف علی تھانوی کے بارے کیا خیال ہے؟

Sent from my LG-D855 using Tapatalk
احمد رضا اور تھانوی بیچ میں کہاں سے آگۓ؟؟؟؟
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top