السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
سب سے پہلے تو میں آپ کو اس تحریر کا معنی بتلا دوں:
کی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو اگر کوئی ایک صحابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث روایت کرتا تو تو اسے صحابہ معتبر نہیں جانتے تھے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث صحابی کے نزدیک معتبر ہونے کے لئے لازم تھا کہ کم سے کم دو صحابہ ہوں، اس لفظ ''کم از کم'' نے صراحتاً قید لگا دی ہے کہ دو سے کم صحابی اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کسی صحابی کو بیان کریں گے تو وہ صحابہ کے نزدیک معتبر نہیں ہو گی!
اب اس کا فساد بیان کر دیتا ہوں:
اس کا معنی یہ ہوا کہ وہ تمام روایات جو کسی ایک صحابی سے مروی ہیں، یعنی کہ وہ خبر آحاد ہیں، اور وہ خبر آحاد میں ''غریب مطلق'' احادیث صحابہ کے منہج کے مطابق معتبر نہیں، اور جب غریب مطلق معتبر نہیں تو ''غریب نسبی'' کیسے معتبر ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ ''غریب مطلق'' وہ حدیث ہوتی ہے جسے ایک صحابی نے روایت کیا ہو، اور ''غریب نسبی'' وہ حدیث ہوتی ہے جس میں صحابی تو ایک سے زیادہ روایت کرنے والے ہوں مگر بعد میں کسی طبقہ میں ایک ہی روای ہو!!
یہ بات خبر واحد کی حجیت پر بہت بڑا حملہ ہے!! اگر کسی کو خبر واحد کی حجیت میں کے بارے میں سمجھنا ہو تو، سلف صالحین نے اس پر کافی بیان کیا ہے۔ مختصر یہ کہ اصحاب الحدیث خبر واحد کو حجت مانتے ہیں، اور اہل الرائے مختلف حیلے بہانے بنا کر خبر واحد کو حجت نہیں مانتے! خیر یہ تفصیل بیان کرنے کا محل نہیں۔ صحیح بخاری میں امام بخاری نے خبر واحد کی حجیت ثابت کرنے اور اہل الرائی کے رد میں باقاعدہ ایک کتاب لکھی ہے، جس کا نام ہی ''
كتاب أخبار الآحاد '' ہے۔ اس کے علاوہ امام الشافعي نے بھی اہل الرائی کے رد میں بہت کلام کیا ہے، جس میں بطور خاص اصول الفقہ میں ایک رسالہ تصنیف کیا، جس کا نام ہی
''الرسالة''۔ ان کا مطالعہ کافی مفید رہے گا!
اس کے علاوہ شیخ ناصر الدین البانی نے بھی اس پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے۔
الحديث حجة بنفسه في العقائد والأحكام۔
صحیح بخاری کا اردو ترجہ تو تمام تمام کے پاس ہو گا۔
الرسالہ ۔ امام الشافعی کا اردو ترجمہ یہاں سے ڈاؤنلوڈ کیا جا سکتا ہے۔
الرسالہ امام شافعی ترجمہ اردو۔ پی ڈی ایف
الرسالہ امام شافعی ترجمہ اردو - ایم ایس ورڈ فائل
خیر یوں تو اور بھی بہت کتابیں ہیں، اور اسے علاوہ یہ بات تمام عقائد و اصول و فقہ اہل السنت والجماعت کی کتب مین منتشر ہے کہ خبر واحد حجت ہے۔
اب اگر یہ کہا جائے کہ صحابہ غریب احادیث کو حجت نہیں مانتے تھے ، یعنی معتبر نہیں جانتے تھے تو یہ لازم آئے گا کہ جو انہیں معتبر جانتے ہیں، حجت جانتے ہیں ان کا عمل غلط!!
حقیقت یہ ہے کہ صحابہ بلکل خبر واحد ہو، کہ جب ایک صحابی کسی دوسرے صحابی کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث روایت کرتا تو وہ اس روایت کا اعتبار کرتے، اور اسے حجت جانتے، مگر اختلاف کی یہ صورت ہو سکتی تھی کہ ایک صحابی اسے عام سمجھ رہا ہوں اور دوسرا صحابی اسے خاص، اسی طرح اس حدیث سے استدلال پر اختلا ف ہو سکتا تھا۔ اور صحابہ کے درمیان اس طرح کا اختلاف معروف ہے۔ جیسے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رضاعت الکبیر میں باقی امہات المومنین نے اختلاف کیا، لیکن اس کا معنی یہ نہیں کہ باقی امہات المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت پر اعتبار نہیں کرتی تھیں، بلکہ ان کا اختلاف سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے استدلال پر تھا، کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اسے عام قرار دیتی تھیں، اور باقی امہات المونین رضی اللہ عنہااسے خاص قرار دیتی تھیں!!
لیکن یہ علم و ہنر سے کورے، اور عقل و خرد سے عاری، اہل الرائے اپنے اٹکل پچو لگا کر یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ صحابہ بھی خبر واحد کو حجت نہیں مانتے تھے۔ اگر اصول فقہ حنفیہ کا مطالعہ کیا جائے تو معوم ہو گا کہ انہوں نے احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسل کو رد کرنے کے لئے عجیب و غریب قسم کے اصول گڑھے ہیں۔ اور عجیب و غریب قسم کے استدالال پیش کئے ہیں۔ انہیں کا سہارہ لے کر آگے منکرین حدیث نے کھل کر احادیث کی حجیت کا انکار کیا ہے، جب کہ اس کی داغ بیل فقہ حنفیہ کے اصولین نے رکھی ہے!!
آب اس مذکورہ اثر کو اگر اس بات پر کہ'' صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین حدیث رسول کی تصدیق کے معاملے میں کم از کم دو گواہیاں طلب کرتے تھے'' بطور دلیل پیش کیا جائے تو اس سے بڑا فساد پیدا ہوتا ہے۔
اول کہ صحابی رسول ابو موسی اشعری رضی اللہ کی روایت مقبول نہیں ٹھہرتی، اور ان کی ثقاہت پر سوال اٹھتا ہے۔ جبکہ یہ محال ہے!
دوم کہ پھر یہ کہنا بھی لازم آتا ہے کہ عمر بن خطاب ابو موسی اشعری کو اللہ کے رسول کی جانب جھوٹ منسوب کرنے کا گمان بھی کر سکتے تھے، کیونکہ ابو موسی اشعری نے بلا واسطہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث روایت کی ہے ! اور نہ صرف ابو موسی اشعری بلکہ اس اصول کی رو سے کوئی صحابی بھی نہیں بچتا!! اور یہ بھی محال ہے!!
یقیناً معاملہ کچھ اور ہی ہے!!
اور اسی کی وضاحت یوں تو کئی علماء نے کی ہے، امام شافعی نے
الرسالة میں، امام ابن عبدالبر نے
التمهيد اور
الاستذكار میں، اور امام ابن حزم نے
حجة الوداع اور
الإحكام في أصول الأحكام میں بیان کی ہے۔
توضیح کے لئے اگلے مراسلہ کا انتظار کریں!