• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یہ بھی تقلید ہے؟

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین حدیث رسول کی تصدیق کے معاملے میں کم از کم دو گواہیاں طلب کرتے تھے -
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ حنفیوں نے پھیلائیں ہیں
تم صحابہ کا یوں نام نہ لو، صحابہ کیا اہل الرائی ہیں
 
Last edited:

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ حنفیوں نے پھیلائیں ہیں
تم صحابہ کا یوں نام نہ لو، صحابہ کیا اہل الرائی ہیں

صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ (رض) ، حضرت عمر فاروق (رض) کے پاس گئے ۔ تین دفعہ اجازت مانگی ، جب کوئی نہ بولا تو آپ واپس لوٹ گئے ۔ تھوڑی دیر میں حضرت عمر نے لوگوں سے کہا ! دیکھو عبداللہ بن قیس (رض) آنا چاہتے ہیں ، انہیں بلا لو لوگ گئے ، دیکھا تو وہ چلے گئے ہیں ۔ واپس آکر حضرت عمر (رض) کو خبر دی ۔ دوبارہ جب حضرت ابو موسیٰ (رض) اور حضرت عمر (رض) کی ملاقات ہوئی تو حضرت عمر (رض) نے پوچھا آپ واپس کیوں چلے گئے تھے ؟ جواب دیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کا حکم ہے کہ تین دفعہ اجازت چاہنے کے بعد بھی اگر اجازت نہ ملے تو واپس لوٹ جاؤ ۔ میں نے تین بار اجازت چاہی جب جواب نہ آیا تو میں اس حدیث پر عمل کر کے واپس لوٹ گیا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا اس پر کسی گواہ کو پیش کرو ورنہ میں تمہیں سزا دوں گا ۔ آپ وہاں سے اٹھ کر انصار کے ایک مجمع میں پہنچے اور سارا واقعہ ان سے بیان کیا اور فرمایا کہ تم میں سے کسی نے اگر حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کا یہ حکم سنا ہو تو میرے ساتھ چل کر عمر (رض) سے کہہ دے ۔ انصار نے کہا یہ مسئلہ تو عام ہے بیشک حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے ہم سب نے سنا ہے ہم اپنے سب سے نو عمر لڑکے کو تیرے ساتھ کر دیتے ہیں ، یہی گواہی دے آئیں گے۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری (رض) گئے اور حضرت عمر (رض) سے جاکر کہا کہ میں نے بھی حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) سے یہی سنا ہے ۔ حضرت عمر (رض) اس وقت افسوس کرنے لگے کہ بازاروں کے لین دین نے مجھے اس مسئلہ سے غافل رکھا ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ہمہ وقت پیارے بھائی! ابھی تو کام کو جا رہا ہوں، شام کو واپس آکر اس اشکال کا جواب لکھتا ہوں انشاء اللہ!
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ (رض) ، حضرت عمر فاروق (رض) کے پاس گئے ۔ تین دفعہ اجازت مانگی ، جب کوئی نہ بولا تو آپ واپس لوٹ گئے ۔ تھوڑی دیر میں حضرت عمر نے لوگوں سے کہا ! دیکھو عبداللہ بن قیس (رض) آنا چاہتے ہیں ، انہیں بلا لو لوگ گئے ، دیکھا تو وہ چلے گئے ہیں ۔ واپس آکر حضرت عمر (رض) کو خبر دی ۔ دوبارہ جب حضرت ابو موسیٰ (رض) اور حضرت عمر (رض) کی ملاقات ہوئی تو حضرت عمر (رض) نے پوچھا آپ واپس کیوں چلے گئے تھے ؟ جواب دیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کا حکم ہے کہ تین دفعہ اجازت چاہنے کے بعد بھی اگر اجازت نہ ملے تو واپس لوٹ جاؤ ۔ میں نے تین بار اجازت چاہی جب جواب نہ آیا تو میں اس حدیث پر عمل کر کے واپس لوٹ گیا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا اس پر کسی گواہ کو پیش کرو ورنہ میں تمہیں سزا دوں گا ۔ آپ وہاں سے اٹھ کر انصار کے ایک مجمع میں پہنچے اور سارا واقعہ ان سے بیان کیا اور فرمایا کہ تم میں سے کسی نے اگر حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کا یہ حکم سنا ہو تو میرے ساتھ چل کر عمر (رض) سے کہہ دے ۔ انصار نے کہا یہ مسئلہ تو عام ہے بیشک حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے ہم سب نے سنا ہے ہم اپنے سب سے نو عمر لڑکے کو تیرے ساتھ کر دیتے ہیں ، یہی گواہی دے آئیں گے۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری (رض) گئے اور حضرت عمر (رض) سے جاکر کہا کہ میں نے بھی حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) سے یہی سنا ہے ۔ حضرت عمر (رض) اس وقت افسوس کرنے لگے کہ بازاروں کے لین دین نے مجھے اس مسئلہ سے غافل رکھا ۔
جزاک الله -
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم - میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ محدث کی بات سو فیصد صحیح ہوتی ہے- ظاہر ہے کہ وہ انسان ہے اور اس سے بھی غلطی کا احتمال ہو سکتا ہے لیکن اس کی بیان کردہ بات کی حیثیت ایک خبر کی ہے جو تحقیق پر مبنی ہوتی ہے اور حدیث میں راوی ایک گواہ کے طور پر پیش ہوتا ہے -جب کہ مجتہد جو کچھ کہتا ہے وہ اپنی ذاتی راے کی بنیاد پر کہتا ہے -یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین حدیث رسول کی تصدیق کے معاملے میں کم از کم دو گواہیاں طلب کرتے تھے - اور اس پر اعتماد کرتے تھے لیکن ایک صحابی دوسرے صحابی کی ذاتی راے کے معاملے میں کبھی تقلید نہیں کرتا تھا چاہے دوسرا صحابی فضیلت میں پہلے سے کتنا ہی زیادہ ہوتا -اگر ان میں سے کسی کی راے نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی بات کے موافق ہوتی تو اس کو قبول کرلیا جاتا دوسری صورت میں یا تو تاویل کی جاتی یا اس کو رد کردیا جاتا-
سب سے پہلے تو میں آپ کو اس تحریر کا معنی بتلا دوں:
کی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو اگر کوئی ایک صحابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث روایت کرتا تو تو اسے صحابہ معتبر نہیں جانتے تھے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث صحابی کے نزدیک معتبر ہونے کے لئے لازم تھا کہ کم سے کم دو صحابہ ہوں، اس لفظ ''کم از کم'' نے صراحتاً قید لگا دی ہے کہ دو سے کم صحابی اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کسی صحابی کو بیان کریں گے تو وہ صحابہ کے نزدیک معتبر نہیں ہو گی!
اب اس کا فساد بیان کر دیتا ہوں:
اس کا معنی یہ ہوا کہ وہ تمام روایات جو کسی ایک صحابی سے مروی ہیں، یعنی کہ وہ خبر آحاد ہیں، اور وہ خبر آحاد میں ''غریب مطلق'' احادیث صحابہ کے منہج کے مطابق معتبر نہیں، اور جب غریب مطلق معتبر نہیں تو ''غریب نسبی'' کیسے معتبر ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ ''غریب مطلق'' وہ حدیث ہوتی ہے جسے ایک صحابی نے روایت کیا ہو، اور ''غریب نسبی'' وہ حدیث ہوتی ہے جس میں صحابی تو ایک سے زیادہ روایت کرنے والے ہوں مگر بعد میں کسی طبقہ میں ایک ہی روای ہو!!
یہ بات خبر واحد کی حجیت پر بہت بڑا حملہ ہے!! اگر کسی کو خبر واحد کی حجیت میں کے بارے میں سمجھنا ہو تو، سلف صالحین نے اس پر کافی بیان کیا ہے۔ مختصر یہ کہ اصحاب الحدیث خبر واحد کو حجت مانتے ہیں، اور اہل الرائے مختلف حیلے بہانے بنا کر خبر واحد کو حجت نہیں مانتے! خیر یہ تفصیل بیان کرنے کا محل نہیں۔ صحیح بخاری میں امام بخاری نے خبر واحد کی حجیت ثابت کرنے اور اہل الرائی کے رد میں باقاعدہ ایک کتاب لکھی ہے، جس کا نام ہی ''كتاب أخبار الآحاد '' ہے۔ اس کے علاوہ امام الشافعي نے بھی اہل الرائی کے رد میں بہت کلام کیا ہے، جس میں بطور خاص اصول الفقہ میں ایک رسالہ تصنیف کیا، جس کا نام ہی ''الرسالة''۔ ان کا مطالعہ کافی مفید رہے گا!
اس کے علاوہ شیخ ناصر الدین البانی نے بھی اس پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے۔ الحديث حجة بنفسه في العقائد والأحكام۔
صحیح بخاری کا اردو ترجہ تو تمام تمام کے پاس ہو گا۔
الرسالہ ۔ امام الشافعی کا اردو ترجمہ یہاں سے ڈاؤنلوڈ کیا جا سکتا ہے۔
الرسالہ امام شافعی ترجمہ اردو۔ پی ڈی ایف
الرسالہ امام شافعی ترجمہ اردو - ایم ایس ورڈ فائل
خیر یوں تو اور بھی بہت کتابیں ہیں، اور اسے علاوہ یہ بات تمام عقائد و اصول و فقہ اہل السنت والجماعت کی کتب مین منتشر ہے کہ خبر واحد حجت ہے۔
اب اگر یہ کہا جائے کہ صحابہ غریب احادیث کو حجت نہیں مانتے تھے ، یعنی معتبر نہیں جانتے تھے تو یہ لازم آئے گا کہ جو انہیں معتبر جانتے ہیں، حجت جانتے ہیں ان کا عمل غلط!!
حقیقت یہ ہے کہ صحابہ بلکل خبر واحد ہو، کہ جب ایک صحابی کسی دوسرے صحابی کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث روایت کرتا تو وہ اس روایت کا اعتبار کرتے، اور اسے حجت جانتے، مگر اختلاف کی یہ صورت ہو سکتی تھی کہ ایک صحابی اسے عام سمجھ رہا ہوں اور دوسرا صحابی اسے خاص، اسی طرح اس حدیث سے استدلال پر اختلا ف ہو سکتا تھا۔ اور صحابہ کے درمیان اس طرح کا اختلاف معروف ہے۔ جیسے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رضاعت الکبیر میں باقی امہات المومنین نے اختلاف کیا، لیکن اس کا معنی یہ نہیں کہ باقی امہات المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت پر اعتبار نہیں کرتی تھیں، بلکہ ان کا اختلاف سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے استدلال پر تھا، کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اسے عام قرار دیتی تھیں، اور باقی امہات المونین رضی اللہ عنہااسے خاص قرار دیتی تھیں!!
لیکن یہ علم و ہنر سے کورے، اور عقل و خرد سے عاری، اہل الرائے اپنے اٹکل پچو لگا کر یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ صحابہ بھی خبر واحد کو حجت نہیں مانتے تھے۔ اگر اصول فقہ حنفیہ کا مطالعہ کیا جائے تو معوم ہو گا کہ انہوں نے احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسل کو رد کرنے کے لئے عجیب و غریب قسم کے اصول گڑھے ہیں۔ اور عجیب و غریب قسم کے استدالال پیش کئے ہیں۔ انہیں کا سہارہ لے کر آگے منکرین حدیث نے کھل کر احادیث کی حجیت کا انکار کیا ہے، جب کہ اس کی داغ بیل فقہ حنفیہ کے اصولین نے رکھی ہے!!
صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ (رض) ، حضرت عمر فاروق (رض) کے پاس گئے ۔ تین دفعہ اجازت مانگی ، جب کوئی نہ بولا تو آپ واپس لوٹ گئے ۔ تھوڑی دیر میں حضرت عمر نے لوگوں سے کہا ! دیکھو عبداللہ بن قیس (رض) آنا چاہتے ہیں ، انہیں بلا لو لوگ گئے ، دیکھا تو وہ چلے گئے ہیں ۔ واپس آکر حضرت عمر (رض) کو خبر دی ۔ دوبارہ جب حضرت ابو موسیٰ (رض) اور حضرت عمر (رض) کی ملاقات ہوئی تو حضرت عمر (رض) نے پوچھا آپ واپس کیوں چلے گئے تھے ؟ جواب دیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کا حکم ہے کہ تین دفعہ اجازت چاہنے کے بعد بھی اگر اجازت نہ ملے تو واپس لوٹ جاؤ ۔ میں نے تین بار اجازت چاہی جب جواب نہ آیا تو میں اس حدیث پر عمل کر کے واپس لوٹ گیا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا اس پر کسی گواہ کو پیش کرو ورنہ میں تمہیں سزا دوں گا ۔ آپ وہاں سے اٹھ کر انصار کے ایک مجمع میں پہنچے اور سارا واقعہ ان سے بیان کیا اور فرمایا کہ تم میں سے کسی نے اگر حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کا یہ حکم سنا ہو تو میرے ساتھ چل کر عمر (رض) سے کہہ دے ۔ انصار نے کہا یہ مسئلہ تو عام ہے بیشک حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے ہم سب نے سنا ہے ہم اپنے سب سے نو عمر لڑکے کو تیرے ساتھ کر دیتے ہیں ، یہی گواہی دے آئیں گے۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری (رض) گئے اور حضرت عمر (رض) سے جاکر کہا کہ میں نے بھی حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) سے یہی سنا ہے ۔ حضرت عمر (رض) اس وقت افسوس کرنے لگے کہ بازاروں کے لین دین نے مجھے اس مسئلہ سے غافل رکھا ۔
آب اس مذکورہ اثر کو اگر اس بات پر کہ'' صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین حدیث رسول کی تصدیق کے معاملے میں کم از کم دو گواہیاں طلب کرتے تھے'' بطور دلیل پیش کیا جائے تو اس سے بڑا فساد پیدا ہوتا ہے۔
اول کہ صحابی رسول ابو موسی اشعری رضی اللہ کی روایت مقبول نہیں ٹھہرتی، اور ان کی ثقاہت پر سوال اٹھتا ہے۔ جبکہ یہ محال ہے!
دوم کہ پھر یہ کہنا بھی لازم آتا ہے کہ عمر بن خطاب ابو موسی اشعری کو اللہ کے رسول کی جانب جھوٹ منسوب کرنے کا گمان بھی کر سکتے تھے، کیونکہ ابو موسی اشعری نے بلا واسطہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث روایت کی ہے ! اور نہ صرف ابو موسی اشعری بلکہ اس اصول کی رو سے کوئی صحابی بھی نہیں بچتا!! اور یہ بھی محال ہے!!
یقیناً معاملہ کچھ اور ہی ہے!!
اور اسی کی وضاحت یوں تو کئی علماء نے کی ہے، امام شافعی نے الرسالة میں، امام ابن عبدالبر نے التمهيد اور الاستذكار میں، اور امام ابن حزم نے حجة الوداع اور الإحكام في أصول الأحكام میں بیان کی ہے۔
توضیح کے لئے اگلے مراسلہ کا انتظار کریں!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
امام شافعی پہلے ان و آثار کو بیان کرتے ہیں ، جس میں عمر بن خطاب رضی اللہ ونہ نے خبر واحد کو قبو کیا اور بھر اس اثر کے اس مفہوم کو رد کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب ایک صحابی کی روایت کو قبول نہیں کرتے تھے۔
فإن قال قائل: فادلُلْني على أن عمر عمل شيئاً، ثم صار إلى غيره بخبرٍ عن رسول الله.
قلت: فإن أوجدْتُكَهُ؟
قال: ففي إيجادكَ إياي ذلك دليل على أمرين: أحدهما: أنه قد يقول من جهة الرأي إذا لم توجد سنة، والآخر: أن السنة إذا وُجدت وجب عليه ترك عمل نفسه، ووجب على الناس ترك كل عمل وُجدت السنة بخلافه، وإبطالُ أن السنة لا تثبت إلا بخبرٍ بعدها، وعُلم أنه لا يُوهِنُها شيء إن خالفها.
قلت: أخبرنا سفيان عن الزهري عن سعيد بن المسيب: أن عمر بن الخطاب كان يقول: الدية للعاقلة، ولا ترث المرأة من دية زوجها شيئاً. حتى أخبره الضّحّاك بن سفيان أن رسول الله كتب إليه: أن يُوَرِّث امرأة أَشْيَمَ الضِّبَابيِّ من ديته، فرجع إليه عمر.
وقد فَسَّرت هذا الحديث قبل هذا الموضع.
سفيان عن عمرو بن دينار وابن طاوس عن طاوس: أن عمر قال: أُذَكِّرُ اللهَ امرأً سمع من النبي في الجنين شيئاً، فقام حَمَلُ بن مالك بن النابغة، فقال: كنت بين جارتين لي - يعني ضرتين - فضربت إحداهما الأخرى بِمِسْطَح فألقت جنيناً ميتاً، فقضى فيه رسول الله بِغُرَّةٍ . فقال عمر: لو لم أسمع فيه لقضينا بغيره.
وقال غيره: إن كِدْنا أن نقضي في مثل هذا برأينا.
فقد رجع عمر عما كان يقضي به لحديث الضّحّاك إلى أن خالف حكم نفسه، وأخبر في الجنين أنه لو لم يسمع هذا لَقَضَى فيه بغيره، وقال: إن كِدنا أن نقضي في مثل هذا برأينا.
قال "الشافعي": يخبر - والله أعلم - أن السنة إذا كانت موجودة بأن في النفس مائةً من الإبل، فلا يعدو الجنين أن يكون حياً فيكونَ فيه مائةٌ من الإبل، أو ميتاً فلا شيء فيه.
فلما أُخبر بقضاء رسول الله فيه سَلَّمَ له، ولم يجعل لنفسه إلا اتِّبَاعه، فيما مضى بخلافه، وفيما كان رأياً منه لم يبلغه عن رسول الله فيه شيء، فلما بَلَغَه خلاف فعله صار إلى حكم رسول الله، وترك حكم نفسه، وكذلك كان في كل أمره.
وكذلك يلزمُ الناسَ أن يكونوا.
أخبرنا مالك عن ابن شهاب عن سالم: أن عمر بن الخطاب إنما رجع بالناس عن خبر عبد الرحمن بن عوف.
قال "الشافعي": يعني حين خرج إلى الشام، فبلغه وقوع الطاعون بها.
مالك عن جعفر بن محمد عن أبيه: أن عمر ذكر المجوس، فقال: ما أدري كيف أصنع في أمرهم؟ فقال له عبد الرحمن بن عوف: أشهد لَسَمِعت رسول الله يقول: سُنُّوا بهم سُنَّة أهل الكتاب.
سفيان عن عمرو: أنه سمع بَجَالَةَ يقول: ولم يكن عمر أخذ الجزية حتى أخبره عبد الرحمن بن عوف أن النبي أخذها من مجوس هَجَرٍَ.
قال "الشافعي"وكل حديث كتبته منقطعاً، فقد سمعته متصلاً أو مشهوراً عن من رُوي عنه بنقل عامةٍ من أهل العلم يعرفونه عن عامةٍ، ولكني كرهت وَضع حديثٍ لا أتقنه حفظاً، وغاب عني بعض كتبي، وتحققت بما يعرفه أهل العلم مما حفظتُ، فاختصرت خوف طول الكتاب، فأتيت ببعض ما فيه الكفايةُ دون تقصِّي العلم في كل أمره.
فقبل عمر خبر عبد الرحمن بن عوف في المجوس، فأخذ منهم وهو يتلو القُرَآن {من الذين أوتوا الكتاب حتى يعطوا الجزية عن يد وهم صاغرون} ، ويقرأ القُرَآن بقتال الكافرين حتى يسلموا، وهو لا يعرف فيهم عن النبي شيئاً، وهم عنده من الكافرين غيرِ أهل الكتاب، فقبل خبر عبد الرحمن في المجوس عن النبي فاتبعه. وحديث بَجَالة موصول، قد أدرك عمر بن الخطاب رجلاً، وكان كاتباً لبعض ولاته.
فإن قال قائل: قد طلب عمر مع رجل أخبره خبراً آخر؟
قيل له لا يطلب عمر مع رجلٍ أَخبَرَه آخرَ إلا على أحد ثلاث معاني:
إما أن يحتاط فيكونَ، وإن كانت الحجة تثبت بخبر الواحد، فخبر اثنين أكثر، وهو لا يزيدها إلا ثبوتًا.
وقد رأيت ممن أثبت خبر الواحد مَن يطلب معه خبراً ثانياً، ويكونُ في يده السنة من رسول الله من خمس وجوه فَيُحَدِّثُ بسادس فيكتبُهُ، لأن الأخبار كلما تواترت وتظاهرت كان أثبتَ للحجة، وأطيبَ لنفس السامع.
وقد رأيت من الحكام مَن يَثبت عنده الشاهدان العدلان والثلاثةُ، فيقول للمشهود له: زدني شهوداً وإنما يريد بذلك أن يكون أطيبَ لنفسه، ولو لم يَزِده المشهود له على شاهدين لَحَكَمَ له بهما.
ويحتمل أن يكون لم يعرف المخبر فيقفَ عن خبره حتى يأتي مخبرٌ يعرفه.
وهكذا ممن أخبر ممن لا يُعرف لم يُقبل خبره. ولا يُقبل الخبر إلا عن معروف بالاستئهال له، لأن يُقبل خبره.
ويحتمل أن يكون المخبر له غير مقبول القول عندَه، فيَرُدُّ خبره حتى يجد غيره ممن يَقبل قولَه.
فإن قال قائل: فإلى أي المعاني ذهب عندكم عمر؟
قلنا: أما في خبر أبي موسى فإلى الاحتياط، لأن أبا موسى ثقة أمين عنده، إن شاء الله.
فإن قال قائل: ما دل على ذلك؟
قلنا: قد رواه مالك بن أنس عن ربيعة عن غير واحد من علمائهم حديثَ أبي موسى، وأن عمر قال لأبي موسى: وأَمَا إني لم أتهمك، ولكن خشيت أن يَتَقَوَّلَ الناس على رسول الله.
فإن قال: هذا منقطع.
فالحجة فيه ثابتة، لأنه لا يجوز على إمام في الدين - عمرَ ولا غيرِهِ -: أن يقبل خبر الواحد مرة، وقبولُه له لا يكون إلا بما تقوم به الحجة عنده، ثم يَرُدُّ مثله أخرى. ولا يجوز هذا على عالم عاقل أبداً، ولا يجوز على حاكم أن يقضي بشاهدين مرة، ويمنع بهما أخرى، إلا من جهة جَرحهما أو الجهالَةِ بِعَدلهما. وعمر غايةٌ في العلم والعقل والأمانة والفضل.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 425 - 435 جلد 01 الرسالة - امام الشافعي - مكتبه الحلبي، مصر

سائل:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا کوئی ایسا عمل بتائیے جسے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے حدیث ملنے کے بعد ترک کر دیا ہو۔
شافعی: میرے یہ مثال دینے سے کیا ہو گا؟
سائل: آپ کے مثال دینے سے دو اصول واضح ہو جائیں گے: ایک تو یہ کہ اگر سنت سے کوئی بات پتہ نہ چلے تو آپ اپنی رائے سے کوئی بات کہہ سکتے ہیں اور دوسرے یہ کہ اگر کسی معاملے میں سنت مل جائے تو پھر اپنی (رائے کے مطابق) عمل کو ترک کر دینا چاہیے کیونکہ سنت کے خلاف ہر عمل کو ترک کرنا ضروری ہے۔ اس سے یہ رائے بھی غلط ثابت ہو جائے گی کہ سنت کا ثبوت بعد والوں کے عمل سے ملتا ہے اور یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ سنت کے خلاف کوئی چیز اسے کمزور نہیں کر سکتی۔
شافعی: (اس روایت پر غور کیجیے۔)
سفیان نے زھری سے، انہوں نے سعید بن مسیب سے روایت کی کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ "دیت عاقلہ کی ذمہ داری ہے۔ ایک خاتون کو اپنے خاوند کی دیت میں بطور وراثت کچھ نہ ملے گا۔" ضحاک بن سفیان رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے انہیں لکھ کر بھیجا تھا کہ اشیم الضبابی کی اہلیہ کو ان کی دیت میں وراثت کا حصہ دیا جائے۔ یہ بات سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے سے رجوع کر لیا۔ (احمد، ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ)
یہ بات میں پہلے بھی ایک موقع پر (کتاب الام میں) بیان کر چکا ہوں۔
سفیان نے عمرو بن دینار اور ابن طاؤس سے، انہوں نے طاؤس سے روایت کی کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے، "اگر تم نے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے ایسی چوٹ جس میں حمل ساقط ہو جائے سے متعلق کوئی بات سنی ہو تو مجھے بتاؤ۔" حمل بن مالک بن النابغہ اٹھے اور بولے، "میری دو لونڈیاں تھیں۔ ایک کا ڈنڈا دوسری کو جا لگا جس سے اس کے پیٹ میں پلنے والا بچہ مر گیا۔ اس معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے غرہ (یعنی پانچ اونٹ بطور ہرجانہ ادا کرنے کا) فیصلہ فرمایا۔ "عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا، "اگر میں یہ حدیث نہ سنتا تو اس سے مختلف فیصلہ کرتا۔" دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ بھی فرمایا، "میں تو اس مقدمے میں اپنی رائے سے تقریباً فیصلہ کر ہی چکا تھا۔" (نسائی، ابو داؤد، ابن ماجہ)
جب ضحاک نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو حدیث سنائی جو ان کے اپنے فیصلے کے خلاف تھی تو انہوں نے اپنے فیصلے سے رجوع کر لیا۔ حمل ساقط ہونے کے معاملے میں آپ نے فرمایا کہ اگر میں یہ حدیث نہ سنتا تو اس سے مختلف فیصلہ کرتا اور میں تو اس مقدمے میں اپنی رائے سے تقریباً فیصلہ کر ہی چکا تھا۔
سنت سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ غلطی سے کسی کو قتل کر دینے کی دیت سو اونٹ ہے۔ اگر پیٹ میں پلنے والا بچہ ایک زندہ چیز ہو تو اس کی دیت سو اونٹ ہونی چاہیے اور اگر بے جان ہو تو پھر دیت نہیں ہونی چاہیے۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تک نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا فیصلہ پہنچا تو انہوں نے اسے قبول کر لیا کیونکہ ہر شخص پر صرف آپ کی اتباع ہی لازم ہے۔ جب تک انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے کوئی بات نہ پہنچی تھی، انہوں نے اپنی رائے سے اس سے مختلف فیصلہ کر لیا۔ جب انہیں اس معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حدیث مل گئی تو انہوں نے اپنے فیصلے کو چھوڑتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے فیصلے کی پیروی کی۔ ہر معاملے میں ایسا ہی ہونا چاہیے۔ یہی کچھ ہر انسان کو کرنا چاہیے۔
مالک، ابن شھاب سے اور وہ سالم سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے حدیث "طاعون زدہ علاقے میں مت جاؤ" سن کر واپس آ گئے۔
یہ اس وقت ہوا جب آپ شام کے لئے نکلے تھے اور آپ کو وہاں طاعون کی وبا پھوٹ پڑنے کی خبر ملی تھی۔
مالک نے جعفر بن محمد رضی اللہ عنہما سے، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی، انہوں نے فرمایا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجوسیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا، "مجھے معلوم نہیں کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہیے۔" سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہا، "میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ان کے ساتھ وہی معاملہ کرو جو تم اہل کتاب (یعنی یہود و نصاریٰ) کے ساتھ کرتے ہو۔ (مالک)
سفیان، عمرو سے اور وہ بجالۃ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا، "سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مجوسیوں سے جزیہ وصول نہ کرتے اگر انہیں سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے یہ بات پتہ نہ چلتی کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے (خلیج فارس کے قریب واقع) ھجر کے مجوسیوں سے جزیہ وصول کرنے کا حکم نہ دیا ہوتا۔
یہ جو احادیث میں نے لکھی ہیں، ان کی سند منقطع (ٹوٹی ہوئی) ہے۔ میں نے ان احادیث کو متصل (ملی ہوئی) سند کے ساتھ سنا ہے۔ یہ مشہور روایتیں ہیں جنہیں اھل علم سے متواتر طریقے سے نقل کیا ہے۔ میں مکمل طور پر یاد کئے بغیر یا بعض کتابوں (جن میں احادیث لکھی ہوئی تھیں) کے گم ہو جانے کے بعد (ان میں موجود) حدیث بیان کرنا پسند نہیں کرتا۔ بہرحال ان احادیث کے درست ہونےکو میں نے اہل علم کی محفوظ شدہ معلومات سے چیک کر لیا ہے۔ اس کتاب کی طوالت کے خوف سے میں یہ تفصیلات بیان نہیں کر رہا۔ میں نے ان علوم کے تمام پہلوؤں سے بحث کرنے کی بجائے جو کافی سمجھا ہے بیان کر دیا ہے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجوسیوں سے متعلق سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی حدیث کو قبول کر لیا۔ اس وجہ سے انہوں نے قرآن کے حکم "من الذين أوتوا الكتاب حتى يعطوا الجزية عن يد وهم صاغرون" یعنی "اھل کتاب کے بارے میں حکم یہ ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں اور ماتحت بن کر رہیں۔" کے تحت ان سے جزیہ وصول کیا۔ انہوں نے قرآن میں (حضور کے زمانے کے) کفار کے بارے میں یہ حکم پڑھا تھا کہ اسلام لانے تک ان سے جنگ کی جائے گی۔ مجوسیوں کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منقول کوئی بات ان کے علم میں نہ تھی۔ (شاید) ان کے نزدیک یہ بھی اھل کتاب کی بجائے کفار ہی کے حکم میں تھے۔ انہوں نے مجوسیوں کے بارے میں عبدالرحمٰن سے جب نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حدیث سنی تو اسی کی پیروی کی۔
بجالۃ کی بیان کردہ روایت کی سند (سیدنا عمر تک) پہنچتی ہے۔ وہ ان سے ذاتی طور پر ملے ہوئے تھے اور ان کے کسی گورنر کے کاتب (سیکرٹری) تھے۔
سائل: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص سے حدیث سن کر اسے دوسرے سے بھی تو کنفرم کیا تھا۔
شافعی: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دوسرے شخص سے پہلے کی بیان کردہ حدیث کو کنفرم کرنے کی وجہ ان تین میں سے ایک ہی ممکن ہے:
  • (ایک تو یہ کہ) آپ محتاط رہنا چاہتے ہوں گے۔ اگرچہ حدیث تو ایک شخص کی خبر سے بھی ثابت ہو جاتی ہے لیکن دو سے اس کا ثبوت زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ اس سے سوائے ثبوت کے اور تو کسی چیز میں اضافہ نہیں ہوتا۔ میں نے کئی لوگوں کو دیکھا ہے کہ خبر واحد کو ثابت کرنے کے لئے اس کے ساتھ دوسرے شخص کی خبر کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ ہو سکتا ہے کہ کسی کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت پانچ ذرائع سے پہنچی ہو اور وہ چھٹے ذریعے سے اسے کنفرم کرنے کے بعد اسے لکھ (کر پیش کرے۔) ایسی خبریں جو تواتر سے اور مشہور طریقے سے پہنچتی ہیں وہ زیادہ مضبوط ثبوت پر مبنی ہوتی ہیں اور ان سے سننے والا بھی زیادہ مطمئن ہوتا ہے۔ میں نے بعض ججوں کو دیکھا ہے کہ ایک شخص کے حق میں ان کے پاس دو اچھے کردار والے افراد کی گواہی موجود ہوتی ہے لیکن اپنے اطمینان کے لئے وہ مزید گواہوں کو طلب کرتے ہیں۔ اگر اس شخص کو مزید گواہ میسر نہ آ سکیں تو پھر وہ انہی دو گواہوں کی گواہی کی بنیاد پر ہی اس کے حق میں فیصلہ سنا دیتے ہیں۔
  • (دوسری ممکنہ وجہ یہ ہے کہ) آپ حدیث سنانے والے سے واقف نہ ہوں تو آپ نے اس وقت رکے رہے ہوں جب تک کہ کسی دوسرے ایسے شخص نے وہی بات نہ بتائی ہو جسے آپ جانتے ہوں۔ جس شخص کو آپ نہیں جانتے ہوں گے تو اس کی خبر آپ کیسے قبول کر سکتے ہیں۔ کسی شخص کی دی ہوئی خبر کو اسی وقت قبول کیا جا سکتا ہے جب اس کے اھل ہونے کا علم ہو۔
  • (تیسری ممکنہ وجہ یہ ہے کہ) حدیث بیان کرنے والا ایسا شخص ہو جس کی دی ہوئی خبر ان کے نزدیک ناقابل قبول ہو۔ انہوں نے اس کی خبر کو اس وقت تک قبول نہیں کیا جب تک کہ کسی اور قابل اعتماد شخص نے وہی بات آ کر نہ بتائی۔
سائل: آپ کے خیال میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان میں سے کس وجہ سے ایسا کیا تھا؟
شافعی: جہاں تک سیدنا ابو موسی (اشعری) رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث کا تعلق ہے تو (دوسرے شخص سے اس حدیث کو کنفرم کرنا) احتیاط کے باعث تھا کیونکہ آپ ابو موسی کو قابل اعتماد اور دیانت دار سمجھتے تھے۔
سائل: اس کی کیا دلیل ہے؟
شافعی: ابو موسی کی روایت کو امام مالک بن انس نے ربیعۃ سے اور انہوں نے متعدد علماء سے روایت کیا ہے۔ (اس میں یہ بھی ہے کہ) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ سے کہا، "میں آپ کے بارے میں تو شک نہیں کرتا لیکن مجھے یہ ڈر ہے کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے جھوٹی باتیں منسوب نہ کرنے لگ جائیں۔"
سائل: اس روایت (کی سند) تو منقطع ہے۔
شافعی: اس میں بیان کردہ بات تو ثابت شدہ ہے۔ دین کے کسی بھی امام، خواہ وہ سیدنا عمر ہوں یا کوئی اور، کے لئے یہ بات درست نہیں کہ ایک موقع پر تو خبر واحد کو قبول کر لیں اور دوسرے موقع پر رد کر دیں۔ اس کی قبولیت تبھی ہو گی اگر آپ کے نزدیک اس سے بات ثابت ہو رہی ہو گی۔ یہ بات تو کسی بھی عالم کے لئے درست نہیں اور نہ ہی کسی جج کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ ایک موقع پر تو دو گواہوں کی گواہی کو قبول کر لے لیکن دوسرے موقع پر اسے رد کر دے سوائے اس کے کہ (دوسرے موقع پر) جرح کے نتیجے میں وہ غلط ثابت ہو جائیں یا پھر وہ جج (پہلے موقع پر) ان کے اچھے کردار کے بارے میں غلط رائے قائم کر بیٹھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تو علم، عقل، دیانت داری اور مرتبے میں انتہائی مقام پر تھے۔

نوٹ: اگر اشکال باقی ہے، تو ابن عبد البر اور ابن حزم کا کلام بھی پیش کروں:
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
عامی کے لیے عالم سے بلا تعیین شرعی حکم دریافت کرنا بالکل درست ہے۔اسے تقلید غیر شخصی بھی کہا جاتا ہے ۔اہل حدیث اسے اتباع کہتے ہیں۔یہ نزاع لفظی ہے۔اصل تقلید شخصی ہے اور وہ بھی عالم کے لیے۔اس کی مجھے آج تک سمجھ نہیں آءی کہ ایک چھابڑی والا بھی تقلید کرے اور شیخ الہند بھی فیا للعجب
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
عامی کے لیے عالم سے بلا تعیین شرعی حکم دریافت کرنا بالکل درست ہے۔اسے تقلید غیر شخصی بھی کہا جاتا ہے ۔اہل حدیث اسے اتباع کہتے ہیں۔یہ نزاع لفظی ہے۔اصل تقلید شخصی ہے اور وہ بھی عالم کے لیے۔اس کی مجھے آج تک سمجھ نہیں آءی کہ ایک چھابڑی والا بھی تقلید کرے اور شیخ الہند بھی فیا للعجب
متفق۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسان کا علم جتنا بڑھتا جاتا ہے وہ تقلید سے اتنا نکلتا جاتا ہے (میری بات کا غلط مطلب نہ لیا جائے)۔ ہوتا یہ ہے کہ بعض اوقات انسان کسی خاص کیفیت کی وجہ سے یا کسی خاص مسئلہ میں اپنے موقف اور دوسرے موقف کے درمیان ابہام کا شکار ہو جاتا ہے۔ یا بعض اوقات مخاطبین کی فہم کا لحاظ کرنا پڑتا ہے کہ میں تو اپنا موقف اس طرح بیان کر رہا ہوں لیکن سامنے موجود کچے علم والے ہر مسئلے میں بلا علم یہ کام نہ شروع کر دیں۔ ایسی صورتوں میں ایسے الفاظ ادا ہوتے ہیں۔
اس کی واضح مثال یہ ہے کہ کتنے ایسے مسئلے ہیں جن میں احناف یا متاخرین احناف بلکہ زمانہ قریب کے علماء احناف کا فتوی امام مالک یا شافعی یا احمد یا زفر رحمہم اللہ وغیرہ کے قول پر ہے۔ تو یہ تو تقلید شخصی ظاہر ہے نہیں ہوئی۔ لیکن اگر ہر جاہل و کم علم بھی علماء کے اقوال ایسے لیتا رہے گا تو ظاہر ہے وہ بہت سی جگہ نفس کا شکار ہو جائے گا اس وجہ سے اس کی کھلی اجازت نہیں دی جاتی۔
بہت سے احناف کے مناظرین و علماء نے اس مسئلہ کو بہت گھمبیر بھی کر دیا ہے اور بہت پیچیدہ بھی۔ لیکن حقیقتا یہ اس قدر جامد مسئلہ نہیں ہے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

سب سے پہلے تو میں آپ کو اس تحریر کا معنی بتلا دوں:
کی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو اگر کوئی ایک صحابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث روایت کرتا تو تو اسے صحابہ معتبر نہیں جانتے تھے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث صحابی کے نزدیک معتبر ہونے کے لئے لازم تھا کہ کم سے کم دو صحابہ ہوں، اس لفظ ''کم از کم'' نے صراحتاً قید لگا دی ہے کہ دو سے کم صحابی اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کسی صحابی کو بیان کریں گے تو وہ صحابہ کے نزدیک معتبر نہیں ہو گی!
اب اس کا فساد بیان کر دیتا ہوں:
اس کا معنی یہ ہوا کہ وہ تمام روایات جو کسی ایک صحابی سے مروی ہیں، یعنی کہ وہ خبر آحاد ہیں، اور وہ خبر آحاد میں ''غریب مطلق'' احادیث صحابہ کے منہج کے مطابق معتبر نہیں، اور جب غریب مطلق معتبر نہیں تو ''غریب نسبی'' کیسے معتبر ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ ''غریب مطلق'' وہ حدیث ہوتی ہے جسے ایک صحابی نے روایت کیا ہو، اور ''غریب نسبی'' وہ حدیث ہوتی ہے جس میں صحابی تو ایک سے زیادہ روایت کرنے والے ہوں مگر بعد میں کسی طبقہ میں ایک ہی روای ہو!!
یہ بات خبر واحد کی حجیت پر بہت بڑا حملہ ہے!! اگر کسی کو خبر واحد کی حجیت میں کے بارے میں سمجھنا ہو تو، سلف صالحین نے اس پر کافی بیان کیا ہے۔ مختصر یہ کہ اصحاب الحدیث خبر واحد کو حجت مانتے ہیں، اور اہل الرائے مختلف حیلے بہانے بنا کر خبر واحد کو حجت نہیں مانتے! خیر یہ تفصیل بیان کرنے کا محل نہیں۔ صحیح بخاری میں امام بخاری نے خبر واحد کی حجیت ثابت کرنے اور اہل الرائی کے رد میں باقاعدہ ایک کتاب لکھی ہے، جس کا نام ہی ''كتاب أخبار الآحاد '' ہے۔ اس کے علاوہ امام الشافعي نے بھی اہل الرائی کے رد میں بہت کلام کیا ہے، جس میں بطور خاص اصول الفقہ میں ایک رسالہ تصنیف کیا، جس کا نام ہی ''الرسالة''۔ ان کا مطالعہ کافی مفید رہے گا!
اس کے علاوہ شیخ ناصر الدین البانی نے بھی اس پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے۔ الحديث حجة بنفسه في العقائد والأحكام۔
صحیح بخاری کا اردو ترجہ تو تمام تمام کے پاس ہو گا۔
الرسالہ ۔ امام الشافعی کا اردو ترجمہ یہاں سے ڈاؤنلوڈ کیا جا سکتا ہے۔
الرسالہ امام شافعی ترجمہ اردو۔ پی ڈی ایف
الرسالہ امام شافعی ترجمہ اردو - ایم ایس ورڈ فائل
خیر یوں تو اور بھی بہت کتابیں ہیں، اور اسے علاوہ یہ بات تمام عقائد و اصول و فقہ اہل السنت والجماعت کی کتب مین منتشر ہے کہ خبر واحد حجت ہے۔
اب اگر یہ کہا جائے کہ صحابہ غریب احادیث کو حجت نہیں مانتے تھے ، یعنی معتبر نہیں جانتے تھے تو یہ لازم آئے گا کہ جو انہیں معتبر جانتے ہیں، حجت جانتے ہیں ان کا عمل غلط!!
حقیقت یہ ہے کہ صحابہ بلکل خبر واحد ہو، کہ جب ایک صحابی کسی دوسرے صحابی کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث روایت کرتا تو وہ اس روایت کا اعتبار کرتے، اور اسے حجت جانتے، مگر اختلاف کی یہ صورت ہو سکتی تھی کہ ایک صحابی اسے عام سمجھ رہا ہوں اور دوسرا صحابی اسے خاص، اسی طرح اس حدیث سے استدلال پر اختلا ف ہو سکتا تھا۔ اور صحابہ کے درمیان اس طرح کا اختلاف معروف ہے۔ جیسے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رضاعت الکبیر میں باقی امہات المومنین نے اختلاف کیا، لیکن اس کا معنی یہ نہیں کہ باقی امہات المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت پر اعتبار نہیں کرتی تھیں، بلکہ ان کا اختلاف سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے استدلال پر تھا، کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اسے عام قرار دیتی تھیں، اور باقی امہات المونین رضی اللہ عنہااسے خاص قرار دیتی تھیں!!
لیکن یہ علم و ہنر سے کورے، اور عقل و خرد سے عاری، اہل الرائے اپنے اٹکل پچو لگا کر یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ صحابہ بھی خبر واحد کو حجت نہیں مانتے تھے۔ اگر اصول فقہ حنفیہ کا مطالعہ کیا جائے تو معوم ہو گا کہ انہوں نے احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسل کو رد کرنے کے لئے عجیب و غریب قسم کے اصول گڑھے ہیں۔ اور عجیب و غریب قسم کے استدالال پیش کئے ہیں۔ انہیں کا سہارہ لے کر آگے منکرین حدیث نے کھل کر احادیث کی حجیت کا انکار کیا ہے، جب کہ اس کی داغ بیل فقہ حنفیہ کے اصولین نے رکھی ہے!!

آب اس مذکورہ اثر کو اگر اس بات پر کہ'' صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین حدیث رسول کی تصدیق کے معاملے میں کم از کم دو گواہیاں طلب کرتے تھے'' بطور دلیل پیش کیا جائے تو اس سے بڑا فساد پیدا ہوتا ہے۔
اول کہ صحابی رسول ابو موسی اشعری رضی اللہ کی روایت مقبول نہیں ٹھہرتی، اور ان کی ثقاہت پر سوال اٹھتا ہے۔ جبکہ یہ محال ہے!
دوم کہ پھر یہ کہنا بھی لازم آتا ہے کہ عمر بن خطاب ابو موسی اشعری کو اللہ کے رسول کی جانب جھوٹ منسوب کرنے کا گمان بھی کر سکتے تھے، کیونکہ ابو موسی اشعری نے بلا واسطہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث روایت کی ہے ! اور نہ صرف ابو موسی اشعری بلکہ اس اصول کی رو سے کوئی صحابی بھی نہیں بچتا!! اور یہ بھی محال ہے!!
یقیناً معاملہ کچھ اور ہی ہے!!
اور اسی کی وضاحت یوں تو کئی علماء نے کی ہے، امام شافعی نے الرسالة میں، امام ابن عبدالبر نے التمهيد اور الاستذكار میں، اور امام ابن حزم نے حجة الوداع اور الإحكام في أصول الأحكام میں بیان کی ہے۔
توضیح کے لئے اگلے مراسلہ کا انتظار کریں!
السلام و علیکم و رحمت الله -

محترم میرے خیال میں نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی حدیث سے متعلق صحابہ کرام کا کم از کم دو گواہیاں طلب کرنے کا یہ اصول اس کی قطیعت کو جانچنے کے لئے تھا- اس کو غلط یا صحیح ثابت کرنے لئے نہیں- کسی خبر جب کہ وہ ہو بھی حکم ربّی تو اس معاملے میں خود نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم اس بات کا التزام کرتے کہ دو شہادتوں پرعمل ہو- جس کی ایک مثال رمضان کا چاند دیکھ کر روزہ رکھنے سے متعلق ہے - نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ :

حضرت عبدالرحمن بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں، مجھے صحابہ کرام نے بیان کیا کہ اللہ کے رسول نے فرمایا:
وإن شھد شاھدان مسلمان فصوموا وأفطروا له ( سنن نسائی:۲۱۱۶، مسنداحمد:۴؍۳۲۱ صحیح)

اس میں نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم سے دو گواہیوں پرچاند دیکھنے کا حکم ثابت ہو رہا ہے - اس کے علاوہ بھی ایسے قرآنی احکامات ہیں جن میں دو گواہیاں ضروری سمجھی جاتی ہیں- صحابہ کرام رضوان الله اجمعین شاید اس بنا پر قول رسول کے معاملے میں اکثر و بیشتر دو گواہیوں کا التزام رکھتے تھے-

جہاں تک محدثین کا تعلق ہے تو محدثین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہونے والی روایتوں کو جب مختلف اقسام میں تقسیم کیا تو اصل میں ذریعے ہی کو بنیا د بنا کر تقسیم کیا۔ جس روایت میں انھیں یہ ذریعہ زیادہ قوی محسوس ہوا، اسے انھوں نے خبر متواتر قرار دیا۔ ذریعے ہی کے قوی ہونے کی بنا پر روایات کو صحیح اور حسن قرار دے کر مقبول اور لائق حجت قرار دیا گیا اور ذریعے ہی کے ضعف کی بنا پر انھیں ضعیف، معلق، مرسل، مدلس، موضوع، متروک، منکرکہہ کر مردود قرار دیا گیا۔

خبر احاد کے معاملے میں صحابہ کرام اکثر و بیشتر اس وقت تک توقف کرتے تھے - جب تک کہ انھیں کسی حکم کے بارے میں کسی اور ذریے سے یا کسی دوسرے صحابی سے قول رسول پر کوئی دلیل نہ مل جاتی - ورنہ دوسری صورت میں وہ خبر واحد پر بھروسہ کرتے- اس کی ایک مثال حضرت عباس رضی الله انہ کا شروع میں "متعہ" کے حلال ہونے کا بارے میں موقف تھا - انہوں نے ایک صحابی سے اس کے حرام ہونے کے متعلق سنا لیکن اطمنان نہ ہوا - اس اثناء میں حضرت علی رضی الله عنہ آے اور حضرت عباس رضی الله عنہ سے فرمایا کہ "میں نے خود خیبر والے دن نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کو فرماتے سنا کہ:

قال النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن المتعة وعن لحوم الحمر الأهلية زمن خيبر‏.‏
رسول الله صل الله علیہ و آ له وسلم نے فرمایا کہ (الله نے) آج (خیبر والی دن) سے تمھارے لئے پالتو گدھے کا گوشت اور متعہ حرام قرار دے دیا "

جس پر حضرت عباس رضی الله عنہ نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا -

یہاں یہ بات واضح رہے کہ جب کوئی صاحب علم خبر واحد کے مقابلے میں قولی و عملی تواتر کو ترجیح دیتا ہے یا کسی روایت کے بارے میں توقف کا فیصلہ کرتا ہے تو اس تردید اور اس توقف کے معنی صرف یہ ہوتے ہیں کہ اس نے اس خبر واحد کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت کی صحت یا اس کی قطعیت پروہ اعتماد نہیں کیا جس طرز پرخبر تواتر پر کیا جاتا ہے-

(واللہ اعلم)
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
السلام و علیکم و رحمت الله -

محترم میرے خیال میں نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی حدیث سے متعلق صحابہ کرام کا کم از کم دو گواہیاں طلب کرنے کا یہ اصول اس کی قطیعت کو جانچنے کے لئے تھا- اس کو غلط یا صحیح ثابت کرنے لئے نہیں- کسی خبر جب کہ وہ ہو بھی حکم ربّی تو اس معاملے میں خود نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم اس بات کا التزام کرتے کہ دو شہادتوں پرعمل ہو- جس کی ایک مثال رمضان کا چاند دیکھ کر روزہ رکھنے سے متعلق ہے - نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ :

حضرت عبدالرحمن بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں، مجھے صحابہ کرام نے بیان کیا کہ اللہ کے رسول نے فرمایا:
وإن شھد شاھدان مسلمان فصوموا وأفطروا له ( سنن نسائی:۲۱۱۶، مسنداحمد:۴؍۳۲۱ صحیح)

اس میں نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم سے دو گواہیوں پرچاند دیکھنے کا حکم ثابت ہو رہا ہے - اس کے علاوہ بھی ایسے قرآنی احکامات ہیں جن میں دو گواہیاں ضروری سمجھی جاتی ہیں- صحابہ کرام رضوان الله اجمعین شاید اس بنا پر قول رسول کے معاملے میں اکثر و بیشتر دو گواہیوں کا التزام رکھتے تھے-

جہاں تک محدثین کا تعلق ہے تو محدثین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہونے والی روایتوں کو جب مختلف اقسام میں تقسیم کیا تو اصل میں ذریعے ہی کو بنیا د بنا کر تقسیم کیا۔ جس روایت میں انھیں یہ ذریعہ زیادہ قوی محسوس ہوا، اسے انھوں نے خبر متواتر قرار دیا۔ ذریعے ہی کے قوی ہونے کی بنا پر روایات کو صحیح اور حسن قرار دے کر مقبول اور لائق حجت قرار دیا گیا اور ذریعے ہی کے ضعف کی بنا پر انھیں ضعیف، معلق، مرسل، مدلس، موضوع، متروک، منکرکہہ کر مردود قرار دیا گیا۔

خبر احاد کے معاملے میں صحابہ کرام اکثر و بیشتر اس وقت تک توقف کرتے تھے - جب تک کہ انھیں کسی حکم کے بارے میں کسی اور ذریے سے یا کسی دوسرے صحابی سے قول رسول پر کوئی دلیل نہ مل جاتی - ورنہ دوسری صورت میں وہ خبر واحد پر بھروسہ کرتے- اس کی ایک مثال حضرت عباس رضی الله انہ کا شروع میں "متعہ" کے حلال ہونے کا بارے میں موقف تھا - انہوں نے ایک صحابی سے اس کے حرام ہونے کے متعلق سنا لیکن اطمنان نہ ہوا - اس اثناء میں حضرت علی رضی الله عنہ آے اور حضرت عباس رضی الله عنہ سے فرمایا کہ "میں نے خود خیبر والے دن نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کو فرماتے سنا کہ:

قال النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن المتعة وعن لحوم الحمر الأهلية زمن خيبر‏.‏
رسول الله صل الله علیہ و آ له وسلم نے فرمایا کہ (الله نے) آج (خیبر والی دن) سے تمھارے لئے پالتو گدھے کا گوشت اور متعہ حرام قرار دے دیا "

جس پر حضرت عباس رضی الله عنہ نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا -

یہاں یہ بات واضح رہے کہ جب کوئی صاحب علم خبر واحد کے مقابلے میں قولی و عملی تواتر کو ترجیح دیتا ہے یا کسی روایت کے بارے میں توقف کا فیصلہ کرتا ہے تو اس تردید اور اس توقف کے معنی صرف یہ ہوتے ہیں کہ اس نے اس خبر واحد کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت کی صحت یا اس کی قطعیت پروہ اعتماد نہیں کیا جس طرز پرخبر تواتر پر کیا جاتا ہے-

(واللہ اعلم)

کیا صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین حدیث رسول کی تصدیق کے معاملے میں کم از کم دو گواہیاں طلب کرتے تھے

جیسا کہ اس حدیث میں بیان ہوا ہے

صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ (رض) ، حضرت عمر فاروق (رض) کے پاس گئے ۔ تین دفعہ اجازت مانگی ، جب کوئی نہ بولا تو آپ واپس لوٹ گئے ۔ تھوڑی دیر میں حضرت عمر نے لوگوں سے کہا ! دیکھو عبداللہ بن قیس (رض) آنا چاہتے ہیں ، انہیں بلا لو لوگ گئے ، دیکھا تو وہ چلے گئے ہیں ۔ واپس آکر حضرت عمر (رض) کو خبر دی ۔ دوبارہ جب حضرت ابو موسیٰ (رض) اور حضرت عمر (رض) کی ملاقات ہوئی تو حضرت عمر (رض) نے پوچھا آپ واپس کیوں چلے گئے تھے ؟ جواب دیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کا حکم ہے کہ تین دفعہ اجازت چاہنے کے بعد بھی اگر اجازت نہ ملے تو واپس لوٹ جاؤ ۔ میں نے تین بار اجازت چاہی جب جواب نہ آیا تو میں اس حدیث پر عمل کر کے واپس لوٹ گیا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا اس پر کسی گواہ کو پیش کرو ورنہ میں تمہیں سزا دوں گا ۔ آپ وہاں سے اٹھ کر انصار کے ایک مجمع میں پہنچے اور سارا واقعہ ان سے بیان کیا اور فرمایا کہ تم میں سے کسی نے اگر حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کا یہ حکم سنا ہو تو میرے ساتھ چل کر عمر (رض) سے کہہ دے ۔ انصار نے کہا یہ مسئلہ تو عام ہے بیشک حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے ہم سب نے سنا ہے ہم اپنے سب سے نو عمر لڑکے کو تیرے ساتھ کر دیتے ہیں ، یہی گواہی دے آئیں گے۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری (رض) گئے اور حضرت عمر (رض) سے جاکر کہا کہ میں نے بھی حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) سے یہی سنا ہے ۔ حضرت عمر (رض) اس وقت افسوس کرنے لگے کہ بازاروں کے لین دین نے مجھے اس مسئلہ سے غافل رکھا


جواب

حدیث کو تواتر اور خبر واحد میں تقسیم کیا گیا ہے تواتر کی روایات ایک ہجوم پیش کرتا ہے جس کا کذب پر جمع ہونا نہ ممکن لگتا ہے اس میں راوی ضعیف بھی ہوتے ہیں ثقہ بھی اور ایسی روایات صرف چند روایات ہی ہیں – دوسری نوع خبر واحد کی ہے جس کو ایک صحابی بیان کرے ایسی روایات پر اختلاف رہا ہے کہ ان سے کیا کیا ثابت ہوتا ہے اہل رائے کے نزدیک یعنی احناف کے نزدیک اس سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا جبکہ متقدمین اہل حدیث اس کو قابل اعتماد سمجھتے رہے ہیں

آپ نے جو حدیث پیش کی ہے وہ خود ایک خبر واحد ہے اور اس میں صرف یہ ہے کہ عمر رضی الله عنہ کو شک ہوا کہ ابو موسی رضی الله عنہ صحیح بات پیش نہیں کر رہے یہ عمر رضی الله عنہ کا مخصوص عمل ہے جو انہوں نے دیگر اصحاب کے ساتھ نہیں کیا اور بہت سے موقعہ پر صرف ایک صحابی یا تابعی کی بات کو قبول کر لیا لیکن یہ تمام قبول رد عمل میں تھا عقیدے میں اس کی مثال نہیں ملتی

امام شافعی نے بھی اس پر بحث کی لیکن وہ بھی فقہی مسائل کی بحث میں ہے نہ کہ عقائد میں متاخرین اہل حدیث نے اخبار احاد سے عقائد کا اثبات کیا ہے

اب اس تمہید کے بعد یہ بات کہ صحابہ، قول رسول پر دو گواہیاں طلب کرتے تھے درست نہیں – عمر اور ابو موسی کی اس خبر واحد کے علاوہ کوئی اور دلیل نہیں ہے- اگر ایسا ہوتا تو یہ بات تواتر سے نقل ہوئی چاہیے تھی
 
Top