• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہائے ری تقلید! تیرا بیڑا غرق

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,979
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
ہدایت کی پیروی کرنے والے پر سلام

محترم جناب سہج صاحب آپ کو میرے مضمون پر اصل اعتراض یہ تھا:

جس میں آپ نے کھڑے ھو کر پیشاب کرنے کو (معاذ اللہ ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک ثابت کرنے کی کوشش کی ھے ۔ بلکہ آپ کے مراسلے اور بعد والے مراسلوں سے یہی ظاھر ھوتا ھے کہ آپ لوگ کھڑے ھوکر پیشاب کرنے کو ہی سنت سمجھتے ہیں۔
حالانکہ آپ کے اس اعتراض کی بنیاد کذب بیانی اور دھوکہ دہی پر تھی، یہی وجہ ہے کہ ہمارے مسلسل اصرار کے باوجود بھی آپ اپنے دعویٰ اور الزام جو آپ نے مذکورہ بالا سطور میں ہم پر عائد کیا،کو ثابت کرنے سے مکمل طور پر عاجز رہے۔ پھر آپ نے اپنے الزام کو مختلف انداز میں کئی مرتبہ دھرایا جس کا آپ کو جواب دیا گیا۔ اس کے علاوہ میرا جو اصل موضوع تھا کہ مقلدین اپنے مذہب کے دفاع اور تعصب میں صحیح احادیث کا مذاق اڑاتے اور مختلف حیلوں اور بہانوں سے ان کا انکار کرتے ہیں ، اس پر بھی آپ نے کوئی بحث نہیں کی اور نہ ہی کوئی اظہار خیال فرمایا۔

مطلب یہ کہ میرے مضمون میں جو کچھ آپ کو قابل اعتراض اور غلط لگا اس پر آپ نے اعتراض کیا اور جو کچھ صحیح لگا یا پھرصحیح تو نہیں لگا لیکن اس پر اختلاف کرنے کے لئے آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی اورنہ ہی آپ میں اس پر بحث کرنے کی سکت تھی، لہذا اسے چھوڑ دیا۔ اس طرح اس موضوع پر ہمارے اور آپ کے درمیان بحث و مباحثہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیااور جو بحث ہونی تھی وہ ہو چکی اس لئے مزید کسی بحث کی ضرورت باقی نہیں رہی۔لیکن آپ مجھے اصطلاحی چکروں میں الجھا کر ایک نئی بحث کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔

جناب شاھد نذیر صاحب السلام علیکم
الگ بحث نہ سمجھئے میں اس بحث کو سمیٹ کر ایک نقطہ پر لارہا ھوں ، اور یہ اس وقت ھوگا جب آپ سنت اور حدیث کے بارے میں بتادیں گے کہ “صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل“ کیا کہلاتا ھے “سنت“ یا “حدیث“؟
میں جانتا ہوں کہ منکرین حدیث کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آج مقلدین نے اپنے گرتے ہوئے اور شکست خوردہ مذہب کو کچھ باطل اصولوں کے ذریعے سہارا دینے کے لئے جو حدیث اور سنت میں فرق کیا ہے پھر اس کے لئے جو جو مغالطے دئے ہیں۔ آپ بھی انہیں مغالطوں کے جوہر دکھا کر اپنے مناظرانہ جذبات کی تسکین کرنا چاہتے ہیں تاکہ آپ کو اطمینان حاصل ہو کہ آپ نے اہل حدیثوں کو بحث میں الجھا کر لاجواب کر دیا۔

لیکن! حسرت ان غنچوں پر جو بن کھلے مرجھا گئے۔​

میں نے آج تک کسی اہل حدیث کو غیر اہل حدیث کے سامنے لاجواب ہوتے ہوئے نہیں دیکھا بلکہ اہل حدیث تو ہمیشہ غالب رہتے ہیں، اس میں اہل حدیثوں کا کوئی کمال نہیں بلکہ کمال تو اس وحی کا ہے جس کی اہل حدیث اتباع کرتے ہیں۔ اگر آپ بھی ناقابل شکست بننا چاہتے ہیں تو وحی کی اتباع شروع کردیں، کوئی بھی آپ کو زیر نہیں کرسکے گا۔

لیکن اگر آپ فقہ حنفی کے ذریعے اہل حدیثوں کو مغلوب کرنا چاہتے ہو تو یہ محض آپ کی خام خیالی ہے اس میں کامیابی ناممکن ہے۔ کیونکہ باطل افکار و نظریات کے مقدر میں ہمیشہ کے لئے ذلت، رسوائی اور مغلوبیت ہے۔

جیسے بعض موقعوں اور معاملات میں جھوٹ بولنا جائز ھے لیکن ہر جگہ جھوٹ بولا جائے تو گناہ ھوتا ھے ۔ جیسے سچ بولنا ہمیشہ ثواب کا باعث ھے لیکن “غیبت“ میں سچ بولنا بھی گناہ ھے ۔
ایسے ہی ہر حال میں کھڑے ھوکر پیشاب کرنا ناجائز اور گناہ ھے، یعنی بغیر عزر کے کھڑے ھوکر پیشاب کرنا ۔ جیسا کہ کفار اور ان کے ناقل مسلمان پبلک اور رہائشی مقامات پر دیوار میں چھوٹا کموڈ لگاتے ہیں جس میں مرد کھڑے ھوکر پیشاب کرلیتے ہیں ۔
میرے بھائی آپ اپنی ناقص عقل اور باطل قیاس کے زور پر اپنے موقف کو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہو۔ جس جگہ جھوٹ بولنا جائز ہے اور جس جگہ ناجائز اور گناہ ہے وہ تمام جگہیں اور مواقع احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں۔ یہی حال غیب کا بھی ہے۔ جیسے تجارت اور سود میں بظاہر کوئی فرق نہیں لیکن ایک چیز کو اللہ نے حلال اور دوسری چیز کو حرام کیا ہے۔ ان تمام مثالوں میں ہر کیفیت ثابت شدہ ہے۔ لیکن کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کا معاملہ ان مثالوں سے بالکل مختلف ہے۔ اسی لئے آپ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو ان مثالوں پر قیاس نہیں کرسکتے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہوکر پیشاب کیا اور اس سے اپنی امت کو روکا نہیں لہٰذا یہ جائز عمل ہوا۔

لیکن یاد رہے کہ نبی کریم ﷺ کی اتباع یہی ہے کہ جو کام نبی کریم ﷺ نے کثرت سے کیا ہمیں بھی وہ کام کثرت سے کرنا چاہیے اور جسے کبھی کبھی یا کسی عذر کی بنا پر سر انجام دیا، ہمیں بھی اس کام کو کبھی کبھی اور اسی عذر کے لاحق ہو جانے کی بنا پر کرنا چاہیے۔

لیکن ایسا کسی صورت میں درست نہیں کہ کوئی شخص اپنے خود ساختہ مذہب کی وجہ سے اس جائز عمل کو غلط اور گناہ قرار دے دے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو۔

جس کام کو رسول اللہ ﷺ نے ناجائز اور گناہ نہیں کہا اسے اپنے طور پر گناہ قرار دینا شریعت سازی ہے اور شریعت سازی کفر اور شرک ہے کیونکہ یہ صرف اور صرف اللہ رب العالمین کا حق ہے۔

اس کے علاوہ آپ نے جو صرف بغیر عذر کے کھڑے ہوکرپیشاب کرنے کو گناہ اور ناجائز کہا ہے۔ اوّل تو یہ بلادلیل ہے اس لئے آپکو اس بات کو حدیث سے ثابت کرنا پڑے گا کہ بلاعذر یہ عمل گناہ ہے اور عذر کی وجہ سے جائز ہے۔ کیونکہ ایسی کوئی تفریق ہمیں احادیث میں نہیں ملتی۔

دوم: عذر کے ساتھ اور عذر کے بغیر والی آپ کی خود ساختہ شرط خود آپ کے فقہی ابن نجیم اور اکابرین دیوبند کے خلاف ہے۔ ابن نجیم نے مطلقاً (چاہے عذر کے ساتھ ہو یا بغیر عذر کے) کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو گناہ قرار دیا ہے اور اکابرین دیوبند نے اپنی تصدیقات کے ذریعے اس موقف کی موافقت کی ہے۔ اگر ابن نجیم کے نزدیک یہ عمل عذر کی وجہ سے جائز ہوتا اور بغیر عذر کے گناہ ہوتا تو یقیناً وہ اس کا اظہار کرتے لیکن جیسا کہ انہوں نے ایسا کوئی اظہار یا وضاحت نہیں کی اس لئے ثابت ہوا کہ اکابرین دیوبند اور ان کے بہت بڑے فقہی کے نزدیک ہر حال میں کھڑے ہوکر پیشاب کرنا گناہ ہے۔

سہج صاحب اب آپ خود غور فرمالیں کہ آپ کا موقف کچھ اور ہے اور آپکے اکابرین کا موقف کچھ اور۔ میری آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ پہلے آپ یہ فیصلہ کر لیں کہ آپکا موقف کون سا ہے؟ وہ جو آپ کے اکابرین کا ہے یا وہ جو اس کے خلاف ہے؟

اور یہ بھی بتا دیجئے گا کہ دیوبندیت کو آپ زیادہ جانتے ہیں یا آپ کے اکابرین؟ یا اگر کسی معاملے میں آپ اپنے اکابرین سے اختلاف کریں تو آپ کی مانی جائے گی یا آپ کے اکابرین کی؟

جب آپ کسی حتمی نتیجے پر پہنچ کر کوئی فیصلہ کرلیں تو ہمیں مطلع فرما دیجئے گا تاکہ آگے بحث ممکن ہوسکے۔ لیکن اگر آپ اسی طرح تناقضات کے سمندر میں غوطہ زن رہے تو بحث کا کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوگا۔

حضور یہاں آپ نے واقعی سمجھداری کا مظاھرہ کیا ھے ۔ جائز اور ناجائز کا تو مسئلہ ھے ہی نہیں بلکہ سنت اور غیر سنت کا ھے۔
جناب والا یہ مسئلہ سنت یا غیر سنت کا نہیں بلکہ جائز اور ناجائز و گناہ کا ہے جیسا کہ میں نے اوپر تفصیل سے وضاحت کر دی ہے۔ لیکن یہ بات اور ہے کہ آپ کا موقف آپکے اکابرین کے خلاف ہو اور آپ خود ایک مستقل مجتہد ہوں!

امید ھے آپ میری بات کو سمجھ گئے ھوں گے اور اپنے اگلے مراسلے میں میرے واحد سوال کا جواب دے کر اس بحث کا خاتمہ کردیں گے ۔
یہاں بحث کا خاتمہ نہیں ہوگا بلکہ ایک دوسری بحث کا آغاز ہوگا، بہرحال چونکہ آپ بضد ہیں کہ میں آپ کے سوال کا جواب دوں تو میرے بھائی جواب حاضر ہے:
صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل سنت بھی ہوتا ہے اور نہیں بھی۔

اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ لغوی طور پر ہر حدیث پر سنت کا اطلاق ہوتا ہے اور اسے سنت کہا جاتا ہے تفصیل کے لئے دیکھئے ابوالحسن علوی حفظہ اللہ کا یہ مضمون: http://www.kitabosunnat.com/forum/یونیکوڈ-فارمیٹ-میں-119/اہل-سنت-کا-تصور-سنت-888/

آپ کے شہید دیوبندیت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رقم طراز ہیں: جب کہا جائے کہ فلاں چیز سنت ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ ’’بدعت‘‘ نہیں اور جب کہا جائے کہ یہ چیز ’’بدعت‘‘ ہے تو اس کے دوسرے معنی یہ ہوتے ہیں کہ یہ چیز خلاف سنت ہے۔(اختلاف امت صراط مستقیم، ص٩٥)

محمد یوسف لدھیانوی کی سنت کی اس تشریح کا اطلاق اگر ہم زیر بحث مسئلہ پر کریں اور کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کو ’’سنت‘‘ کہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ عمل ناجائز اور گناہ (یعنی بدعت) نہیں ہے۔ یعنی یہاں لفظ سنت کو بطور لغوی معنوں میں استعمال کیا گیا ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت شدہ عمل کو اس لئے سنت کہا جاتا ہے کہ اسے رسول اللہﷺ نے خود کیا یا اس کا حکم دیا یا اس پر خاموشی اختیار فرمائی۔ اسی بات کو مولانا محمد یوسف لدھیانوی یوں بیان کرتے ہیں: سنت طریقہ کو کہتے ہیں۔ پس عقائد۔اعمال۔ اخلاق۔ معاملات اور عادات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو طریقہ اپنایا وہ ’’سنت‘‘ ہے۔(اختلاف امت صراط مستقیم، ص٩٦)

یوسف لدھیانوی صاحب مزید فرماتے ہیں: جس مسئلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سے زیادہ صورتیں منقول ہوں، وہ سب سنتیں کہلائیں گی۔(اختلاف امت صراط مستقیم، ص٩٧)

پس دیوبندیوں کے اکابر کی اس تصریح اور وضاحت سے ثابت ہوا کہ احادیث صحیحہ سے ہر ثابت شدہ عمل کو عام طور پر سنت کہا جاتا ہے۔ اس طرح الحمداللہ ہمارے دعویٰ کا ایک حصہ ثابت ہوا۔ اب چلتے ہیں دوسرے حصےّ کی طرف۔

یوسف لدھیانوی دیوبندی لکھتے ہیں: ایک کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثری معمول تھا مگر دوسرا کام آپ نے کبھی ایک آدھ مرتبہ کیا، اس صورت میں اصل ’’سنت‘‘ تو آپ کا اکثری معمول ہوگا، مگر دوسرے کام کو بھی، جو آپ نے بیان جواز کے لئے کیا، ’’بدعت‘‘ کہنا صحیح نہیں ہوگا۔ اسے ’’جائز‘‘ کہیں گے۔(اختلاف امت صراط مستقیم، ص٩٧)

الحمداللہ ثم الحمداللہ آپ ہی کے اکابر کی تحریر سے ہمارے موقف کا دوسرا اور آخری حصّہ بھی ثابت ہوگیا۔

یاد رہے کہ ہم نے بار بار یہی کہا کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنا جائز عمل ہے۔ جیسا کہ یوسف لدھیانوی صاحب نے بھی کہا کہ جو کام آپ ﷺ نے جواز کے لئے کیا اسے جائز کہیں گے۔ اسے سنت اس لئے نہیں کہا کہ اصطلاح میں سنت اسی عمل کو کہا جاتا ہے جس عمل کو رسول اللہ ﷺ نے اکثر کیا ہو اور جسے کبھی کبھی کیا ہو وہ عمل جواز کے درجے میں ہوتا ہے اور اسے اصطلاحی معنوں میں سنت نہیں کہا جاتا۔

نبی کریم ﷺ کا کھڑے ہوکر پیشاب کرنا امت کے لئے رحمت ہے کیونکہ اس سے ہمیں جواز مل گیا کہ کبھی کبھی یا بوقت ضرورت کھڑے ہوکر بھی پیشاب کیا جاسکتا ہے اور اس میں کچھ گناہ نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کے اس پر عمل کی وجہ سے یہ جائز ہوگیا۔ والحمداللہ

نوٹ: نبی ﷺ کے کئے ہوئے فعل کو کفار کے فعل سے تشبیہ دینا یا اس جائز عمل کو گناہ اور ناجائز کہنا شریعت کا مذاق اڑانا ہے اور سب سے بڑھ کر نبی ﷺ پر طعن کرنا ہے جو کہ مقلدین کا وطیرہ اور پسندیدہ مشغلہ ہے۔







 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
جناب شاھد نذیر صاحب آپ سے انتہائی ادب کے ساتھ سوال کیا تھا کہ “ صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل حدیث کہلاتا ھے یا سنت؟“
جسکے جواب میں آپ نے وہی رونا رویا ھے جو شروع سے ہی رورہے ہیں ، لیکن میں آپکے رونے کو خاطر میں نہیں لاتا اسلئے جتنا دل چاھے روتے رہیں کیونکہ آپ کی قسمت میں ہی رونا لکھا ھے ۔

جناب کو صرف موضوع کی مناسبت سے کہے گئے الفاظ کا ہی جواب دوں گا
۔ اسی لئے آپ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو ان مثالوں پر قیاس نہیں کرسکتے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہوکر پیشاب کیا اور اس سے اپنی امت کو روکا نہیں لہٰذا یہ جائز عمل ہوا۔
جناب شاھد صاحب اس عبارت کو لکھنے کے بعد آپ نے پھر وہی لکھ دیا ھے جس سے وہی سوال اپنی جگہ آنکھڑا ھوا ھے کہ “صحیح حدیث سے ثابت شدہ عمل حدیث ھے یا سنت؟“

لیکن یاد رہے کہ نبی کریم ﷺ کی اتباع یہی ہے کہ جو کام نبی کریم ﷺ نے کثرت سے کیا ہمیں بھی وہ کام کثرت سے کرنا چاہیے اور جسے کبھی کبھی یا کسی عذر کی بنا پر سر انجام دیا، ہمیں بھی اس کام کو کبھی کبھی اور اسی عذر کے لاحق ہو جانے کی بنا پر کرنا چاہیے۔
جوکام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت سے کیا وہ سنت کہلاتا ھے اور اسے کثرت سے کرنا چاھئے اور جو کام کبھی کبھی یا کسی عزر کی بناء پر کیا تو اسے بھی کبھی کبھی کرنا چاھئے وہی عزر لاحق ھونے پر جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ھوا تھا ۔ٹھیک؟

اب یہ آپ پر لازم ھے جناب کہ آپ بتائیں کہ کثرت سے کیا گیا کام سنت کہلاتا ھے اور کبھی کبھی کیا گیا کام کیا کہلاتا ھے ؟ سنت یا حدیث ؟

مزید یہ بھی بتلائیے حضور شاھد صاحب کہ وہ کون سا عزر تھا جس کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ھوکر پیشاب کیا تھا ؟ کیونکہ آپ کا کہنا یہی ھے ناں کہ
کبھی کبھی اور اسی عذر کے لاحق ہو جانے کی بنا پر کرنا چاہیے۔
۔۔ تو اب یہ آپ ہی بتائیے جناب کہ کون سا عزر تھا اور وہی عزر لاحق ھوجائے تو پھر کھڑے ھوکر پیشاب کرلیا جائے ؟ مثلاً اگر گٹنے پر چوٹ کی وجہ سے کیا تو پھر صرف اسی کے لئے جائز ھوا ناں ؟ اگر کسی کی کمر میں تکلیف ھو تو اس کے لئے جائز ھوگا یا نہیں ؟ اور یاد رکھئیے جناب شاھد صاحب آپ صرف قرآن اور حدیث کو دلیل مانتے ہیں اسی لئے وہی دلیل پیش کیجئے گا ۔ یعنی حدیث دکھائیے گا جس میں ذکر ھوکہ کھڑے ھوکر پیشاب کرنا جائز ھے اور بیٹھ کر پیشاب کرنا سنت ھے ۔ زیادہ پیچ و تاب نہیں کھانا بھائی صاحب ، اور ناں ہی مزید رونا رونا کہ مقلدین ایسے اور ویسے ۔ سنبھل کر لکھنا اب جوبھی لکھنا ھو ۔ کیونکہ میں نے اپنے ضبط کی گرہوں میں سے صرف ایک گرہ کو کھولا ھے ۔ وہ بھی آپ کا رونا دھونا دیکھ کر ۔

حدیث جناب سے اسلئے مانگی ھے پیٹھ کر پیشاب کرنے کو سنت کہنے کی جناب سے کہ آپ کا فرمانا ھے

اس کے علاوہ آپ نے جو صرف بغیر عذر کے کھڑے ہوکرپیشاب کرنے کو گناہ اور ناجائز کہا ہے۔ اوّل تو یہ بلادلیل ہے اس لئے آپکو اس بات کو حدیث سے ثابت کرنا پڑے گا کہ بلاعذر یہ عمل گناہ ہے اور عذر کی وجہ سے جائز ہے۔ کیونکہ ایسی کوئی تفریق ہمیں احادیث میں نہیں ملتی۔
امید ھے اب آپ صرف حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کریں گے اور خود سے اپنی حدیثیں بیان نہیں کریں گے ۔

جناب نے مراسلہ نمبر 23 میں بھی لکھا تھا
دیوبندی اکابرین اور ابن نجیم کے نزدیک تو کھڑے ہوکر پیشاب کرنا مطلقاً گناہ کا کام ہے
اور اپنے آخری مراسلے میں بھی لکھا ھے کہ
ابن نجیم نے مطلقاً (چاہے عذر کے ساتھ ہو یا بغیر عذر کے) کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو گناہ قرار دیا ہے
اب مجھے یہ بتادیں کہ کہاں لکھا ھوا کہ کہ “(چاہے عذر کے ساتھ ہو یا بغیر عذر کے) “؟
جبکہ جو اسکین آپ جناب نے لگایا ھوا ھے اسمیں بھی یہ الفاظ نہیں ہیں ۔

ارے ارے جناب شاھد صاحب پھر سے رونا نہیں شروع کردیجئے گا کہ مقلدین نے آپ کو کھڑے ھوکر پیشاب نہیں کرنے دیا ۔ بھائی صاحب جیسے آپ نے“ مطلقاً “اور “عزر ھو یا نا ھو“ والی بات سمجھ لی ھے اس سے کہیں اچھے انداز میں میں یہ سمجھتا ھوں کہ آپ اور تمام جماعت غیر مقلدین جو اپنے آپ کو اہلحدیث کہتے ہیں سب کھڑے ھوکر پیشاب کرنے کو “سنت“ سمجھتے ہیں ۔

لیکن نہیں ۔۔۔۔ سب نہیں کچھ کھڑے ھوکر پیشاب کو “سنت سے انحراف“ بھی کہتے ہیں

فضیلۃ الشیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ سلسلہ احادیث صحیحہ میں “فائدے“ میں لکھتے ہیں ۔
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک یہی تھا کہ آپ بیٹھ کر پیشاب کیا کرتے تھے بغیر عذر کے آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب کبھی نہیں کیا۔ بعض مسلمان مغرب کی نقالی میں حیوانوں کی طرح کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہیں جو کہ سراسر سنت سے انحراف ہے۔“
[/img]

اب مزید آپ کے مطلب والی بات بھی دکھاتا ھوں جناب کو “فقہ الحدیث “ سے ۔ کیوں جناب فقہ کو برابھلا صرف دوسروں پر رعب ڈالنے کے لئے کہتے ہیں ؟ اور خود چھپ چھپا کر اہل حدیث فقہ بنائی ھوئی ھے ؟

فقہ الحدیث صفحہ 182 پر لکھاھوا ھے جناب کہ “۔۔۔ جن روایات میں کھڑے ھوکر پیشاب کی ممانعیت ھے تمام ضعیف ہیں“
اور پھر نیچے کھڑے ھوکر پیشاب کرنے کی حمایت میں روایات اکٹھی کی ہیں ۔اور اہل حدیثوں کے اماموں کے اقوال لکھے ہیں ۔ مثلاً
(امام شوکانی) فرماتے ہیں “اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کھڑے ھوکر اور بیٹھ کر دونوں طرح پیشاب کرنا ثابت ھے اور ہر طریقہ سنت ھے ۔
لیکن (مزے کی بات ھے) امام شوکانی نے ایک اور جگہ بیان فرمایا ھے کہ “ کھڑے ھوکر پیشاب کرنا حرام نہیں تو شدید مکروہ ہے۔“
[/img]
[/img]

اب آپ جناب بتادیجئے حضور شاھد صاحب کہ آپ کی مانوں یا آپ کے سرخیل اماموں کی ؟؟

مزید جناب دیکھئے اور سر دھنئے کہ حضرت عاشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر آپ کی فقہ الحدیث میں وہی دروغ گوئی کی گئی ھے کہ “حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو جس قدر علم تھا انہوں نے اتنا ہی بیان کردیا لہٰزہ انہیں گھر کے معاملات کا تو علم تھا لیکن گھر سے باہر کے معاملات کی انہیں اطلاع نہیں ہوئی(اور کھڑے ھوکر پیشاب کرنے کا واقعہ گھر سے باھر پیش آیا )۔“
فقہ الحدیث صفحہ 184

یہی بات کی طرف میں پہلے بھی اک مراسلے میں اشارہ کرچکا ھوں لیکن وہاں جواب میں آپ نے فرمایا تھا
ہم پر یہ الزام لگانے کا کیا تک بنتا ہے کہ ہم عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے جملے (تو ہر گز اس کی تصدیق نہ کرنا) کو کسی خاطر میں نہیں لاتے
اب یہ الزام صرف آپ پر ہی نہیں آپ کے اکابرین پر بھی ثابت ھوچکا ھے کہ وہ حضرت امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں ایسی بات لکھتے ہیں کہ معاذ اللہ انہیں صرف گھر کی خبر تھی باہر کی نہیں ۔

جناب شاھد صاحب غور کیجئے غور



مزید آگے چلیں حضور شاھد صاحب ؟

چلیں یہ عبارت بھی دیکھ لیں فقہ اہلحدیث صفحہ 184 پر ہی ھے

دوسری بات یہ ھے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث نافی ہے جبکہ حزیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث مثبت اور یہ بات اصول میں معروف ھے کہ مثبت کو نافی پر ترجیع حاصل ھوتے ھے کیونکہ اس میں علم کی زیادتی ہوتی ھے اسلئے (ثابت ھوا کہ) دونوں طرح پیشاب کرنا جائز ھے البتہ پیشاب کے قطروں سے اجتناب واجب ھے ۔اور یہ مقصد پیشاب کے دونوں طریقوں میں سے جس کے ساتھ بھی حاصل ھوجائے درست ھے ۔“

بات جو ثابت ھوتی ھے ان الفاظ سے “مثبت کو نافی پر ترجیع حاصل ھوتے ھے کیونکہ اس میں علم کی زیادتی ہوتی ھے “ یعنی کھڑے ھوکر پیشاب کرنے کی روایات زیادہ وزنی ہیں ؟ یعنی بیٹھ کر پیشاب کرنے سے زیادہ کھڑے ھوکر پیشاب کرنا “سنت“ ثابت ھوتا ھے ۔
میری اس بات کی تائید فقہ اہلحدیث کی اسی صفحہ 184 پر لکھی عبارت کرتی ھے کہ “ گزشتہ تمام دلائل اس بات کا قطعی ثبوت ہیں کہ کھڑے ھوکر پیشاب کرنا بعینہ اسی طرح جائز و درست ھے جیسے بیٹھ کر درست ھے ۔۔۔“
[/img]
دیکھئے حضرت شاھد نزیر صاحب “کھڑے ھوکر پیشاب کرنا بعینہ اسی طرح جائز و درست ھے جیسے بیٹھ کر درست ھے “یعنی جیسے کھڑے ھوکر پیشاب کرنا سنت ھے بعینہ اسی طرح بیٹھ کر سنت ھے ؟؟ یہی مطلب بنتا ھے یا کچھ اور ؟؟


اب آپ سے گزارش ھے کہ صاف صاف بتادیں کہ کھڑے ھوکر پیشاب کرنا آپ کی فقہ کی رو سے “سنت“ قرار پاتی ھے یا نہیں ؟؟
ہم پر الزام نہ دیجئے گا جناب ہم کھڑے ھوکر پیشاب کرنے کو اپنی فقہ کی رو سے “صغیرہ گناہ“ مانتے ہیں اور اگر کوئی“ ضدی “ اپنی فقہ کے ھاتھوں مجبور ھوکر کھڑے ھوکر پیشاب کرتا ہی رہے (عزر کے بغیر) ، تو وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ھوجاتا ھے ۔

نبی کریم ﷺ کا کھڑے ہوکر پیشاب کرنا امت کے لئے رحمت ہے کیونکہ اس سے ہمیں جواز مل گیا کہ کبھی کبھی یا بوقت ضرورت کھڑے ہوکر بھی پیشاب کیا جاسکتا ہے اور اس میں کچھ گناہ نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کے اس پر عمل کی وجہ سے یہ جائز ہوگیا۔ والحمداللہ
آخر اصل بات آخر میں لکھ ہی دی جناب نے ۔۔۔شاباش

اب آپ حدیث دکھادیں جناب اہلحدیث صاحب کہ " کھڑے ھوکر پیشاب کرنا رحمت ھے "۔؟

لیکن نہیں نا آپ حدیث دکھاؤ گے اور نا ہی جس عمل کو سنت مانتے ھو اسے سنت کہنے کی ہمت ھے آپ میں ۔ آپ جائز کہہ کر ہی سنت کے مزے لوٹو۔

اب کچھ عام فہم انداز میں سنت اور حدیث کا فرق بتادوں

بخاری ومسلم میں حدیث موجود ہے کہ آپ ﷺجوتے پہن کر نماز پڑھتے تھے۔جوتے اُتار کر نماز پڑھنے کی حدیث بخاری ومسلم میں بالکل ہی نہیں ہے بلکہ ابو داﺅد شریف میں ہے۔
لیکن کیونکہ جوتے اُتار کر نماز پڑھنا حضور ﷺ کی عادت مبارک تھی اس لیے امت نے آپ ﷺ کی اسی عادت کو اپنایا اور اسی لیے ہم آپ ﷺکی سنت کے مطابق جوتے اُتار کر نماز پڑھتے ہیں اگرچہ جوتا پہن کر نماز پڑھنے کی احادیث بخاری ومسلم میں موجود ہیں ۔
اب کیا خیال ھے جناب اہل حدیث شاھد نذیر صاحب ؟ آپ جہاں جاکر نماز پڑھتے ہیں وہاں کل صبح کی نماز کے لئے بخاری و مسلم کی حدیث پر عمل کرتے ھوئے جوتے پہن کر داخل ھوجائیے گا ۔ پھر دیکھئے گا اپنے ہی فقہ کے لوگوں کی طرف سے جوتے کیسے چلائے جاتے ہیں ۔


سلام سچ بولنے والوں پر

شکریہ
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
محترم حسین بھائی جان،
پہلے ہم نے شاہد نذیر بھائی سے گزارش کی تھی اب آپ سے بھی یہی درخواست ہے کہ ازراہ کرم طنز و تشنیع اور ذاتیات سے گریز کریں اور اچھے الفاظ میں اپنا موقف پیش کرتے رہیں۔ اصلاح کی نیت سے آپ اخلاقی اصول و ضوابط کو مد نظر رکھ کر پوسٹس کرتے رہیں گے تو ان شاء اللہ ایسے الفاظ دل میں گھر بھی کریں گے۔ اللہ ہم سب کو حق بات کہنے سننے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
 
شمولیت
اپریل 03، 2011
پیغامات
101
ری ایکشن اسکور
661
پوائنٹ
0
فورم کے قواعد و ضوابط کی پابندی کرنا ہر میمبر کا فرض ہے اور یہ معاھدہ رجسٹریشن کے وقت طئے کیا گیا ہے لہذا جو میمبران اس طرح بار بار فورم کے قواعد کو توڑیں گے انکی رجسٹریشن منسوخ کی جاسکتی ہے اس لئے اچھے مسلموں والی روایت کو برقرار رکھیں اور تنقید براۓ اصلاح ہونی چاہئیے نہ کہ تنقید برائے تنقید امید ہے سارے بھائی غور فرمائینگے جزاک اللہ
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
محترم حسین بھائی جان،
پہلے ہم نے شاہد نذیر بھائی سے گزارش کی تھی اب آپ سے بھی یہی درخواست ہے کہ ازراہ کرم طنز و تشنیع اور ذاتیات سے گریز کریں اور اچھے الفاظ میں اپنا موقف پیش کرتے رہیں۔ اصلاح کی نیت سے آپ اخلاقی اصول و ضوابط کو مد نظر رکھ کر پوسٹس کرتے رہیں گے تو ان شاء اللہ ایسے الفاظ دل میں گھر بھی کریں گے۔ اللہ ہم سب کو حق بات کہنے سننے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

جناب شاکر صاحب السلام علیکم

اگر آپ نے میرے تمام مراسلوں کو پڑھا ھے تو جانتے ھوں گے کہ میں نے شروع سے ہی تحمل اور ضبط کے ساتھ سوال و جواب کئے ہیں ۔ لیکن شاھد نذیر صاحب نے کوئی کثر نہیں چھوڑی ۔
میں نے اپنے پچھلے مراسلے میں سخت بات کی صرف ایک جھلک دکھائی ھے ۔
اور کافی اثر لگتا ھے ھوا ھے
جب ہی تو دھمکی دے دی گئی ھے
فورم کے قواعد و ضوابط کی پابندی کرنا ہر میمبر کا فرض ہے اور یہ معاھدہ رجسٹریشن کے وقت طئے کیا گیا ہے لہذا جو میمبران اس طرح بار بار فورم کے قواعد کو توڑیں گے انکی رجسٹریشن منسوخ کی جاسکتی ہے اس لئے اچھے مسلموں والی روایت کو برقرار رکھیں اور تنقید برائےاصلاح ہونی چاہئیے نہ کہ تنقید برائے تنقید امید ہے سارے بھائی غور فرمائینگے جزاک اللہ
تو پھر بسم اللہ کیجئے رجسٹریشن منسوخ کیجئے پہلے اس بندے کی جس نے اس تھریڈ میں اپنے تقریباً ہر مراسلے میں بدتہزیبی کا مظاھرہ کیا ھے ۔ اگر آپ کو بدتہذیبی نظر نہ آئی ھو تو میں دکھا دوں؟
 
شمولیت
اپریل 03، 2011
پیغامات
101
ری ایکشن اسکور
661
پوائنٹ
0
تو پھر بسم اللہ کیجئے رجسٹریشن منسوخ کیجئے
بھائی جس طرح آپ اس فورم کے میمبر ہیں اسی طرح میری حیثیت بھی ایک عام میمبر جیسی ہے اور میں نے اپنی طرف سے یہ بات کی ہے آپ اسکو دھمکی مت سمجھو کیوں کہ انتظامی معملات سے میرا کوئی تعلق نہیں میں نے یہ بات اس لئے لکھی ہے کہ ابھی کل ہی میرا شروع کردہ دھاگہ (تقلید آخری سانسوں میں) انتظامیا نے بلاک کیا ہے وہ بھی اسی وجہ سے بلاک ہوا ہے کہ بھائی ایک دوسرے کا نام لیکر تنقید پہ تنقید کئے جارہے تھے اس لئے کہیں ایسا نہ ہو کہ مجبوری میں پھر انتظامیا کو وہی قدم اٹھانا پڑے اس لئے میں نے سب بھائیوں کو یہ مشورا دیا ہے کہ کو فورم قوانین کا احترام کیا جائے اور میری اس بات کو آپ صرف اپنی طرف مت سمجھیں یہ مخلصانہ مشورہ سب بھائیوں کہ لئے ہے مزید رھنمائی کہ لئے فورم کہ قوانین پڑھے جاسکتے ہیں جزاک اللہ
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
موضوع تقلید یا جماعت مقلدین میں (دانستہ / نادانستہ) شمولیت ایسا کوئی سنگین جرم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اس کی بیخ کنی کا فرض ہم پر عائد کر دیا ہو۔ اگر کوئی لاعلم ہے تو اس کو سمجھانے کے سینکڑوں بہتر طریقے ہو سکتے ہیں جن کی مثالیں اسوہ حسنہ سے لے کر صحابہ و تابعین کے واقعات سے مل جاتی ہیں۔
السلام علیکم، باذوق بھائی کے یہ جملے توجہ کے محتاج ہیں۔ اس قسم کی مناظرہ بازی دین کو نقصان پہنچانے کے سوا کوئی خدمت انجام نہیں دے سکتی۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
یہ بات اصولی طور درست ہے کہ حدیث میں آپ کا جو عمل بھی منقول ہو تو اسے لغوی اعتبار سے تو سنت کہتے ہیں لیکن اصطلاحی اعتبار سے آپ کا ہر عمل سنت نہیں ہے۔جس عمل کے بارے یہ بحث ہوئی ہے کہ آپ کا ضرورت اور حاجت کے تحت خاص حالات میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنا، اس بارے عرض ہے ؛
تو اس بارے معتدل رائے یہی ہے کہ جن مخصوص مقامات یا حالات میں جن حکمتوں کے تحت آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا ہے ،تو ان مخصوص مقامات یا حالات میں انہی حکمتوں کے پیش نظر ایسی ہی حالت میں پیشاب کرنا سنت ہے۔ اور جس کسی کو ایسے حالات پیش نہ ہوں یا ایسی حکمتیں اس کے پیش نظر نہ ہوں تو اس کے لیے عمومی حالات میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنا سنت نہیں ہے۔
کیونکہ آپ سے یہ عمل ایسے حالات میں اس کے بیان جواز کے لیے صادر ہوا ہے یعنی ایسے حالات میں یہ عمل جائز ہے اوربیان جواز ، در حقیقت تشریع کی تعلیم ہے ۔ اور جو شیئ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بطور تشریع صادر ہو تو اس کے سنت ہونے میں اہل سنت والجماعت میں سے کسی کا اختلاف نہیں ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ عمل ان حالات و حکم کے ساتھ سنت ہے جو آپ کو لاحق تھے اور ان حالات اور حکم کے علاوہ سنت نہیں ہے۔
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ عمل ان حالات و حکم کے ساتھ سنت ہے جو آپ کو لاحق تھے اور ان حالات اور حکم کے علاوہ سنت نہیں ہے۔
السلام علیکم جناب ابوالحسن علوی صاحب

وہ حالات جن کے تحت کھڑے ھوکر پیشاب کرنا سنت ھے ان حالات کی کچھ تفصیل فراہم کردیجئے ۔صحیح حدیث صرف!
تاکہ جو بھائی کھڑے ھوکر پیشاب کرنے کو بیچین ہیں وہ بھی اس سنت پر صحیح طریقے سے عمل کرلیں ۔

مجھے صرف حدیث دکھادیجئے جن میں وہ حالات لکھے ھوئے ھوں جن کے لاحق ھونے پر کھڑے ھوکر پیشاب کرنا سنت بن جائے ۔

یاد رہے صرف صحیح حدیث

شکریہ
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,979
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
السلام علیکم جناب ابوالحسن علوی صاحب

وہ حالات جن کے تحت کھڑے ھوکر پیشاب کرنا سنت ھے ان حالات کی کچھ تفصیل فراہم کردیجئے ۔صحیح حدیث صرف!
تاکہ جو بھائی کھڑے ھوکر پیشاب کرنے کو بیچین ہیں وہ بھی اس سنت پر صحیح طریقے سے عمل کرلیں ۔

مجھے صرف حدیث دکھادیجئے جن میں وہ حالات لکھے ھوئے ھوں جن کے لاحق ھونے پر کھڑے ھوکر پیشاب کرنا سنت بن جائے ۔

یاد رہے صرف صحیح حدیث

شکریہ
میرے بھائی انصاف بھی کسی چیز کا نام ہے! لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اوکاڑوی کلچر والوں کی لغت میں انصاف اور دیانتداری کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ ہم نے آپ کے ہر اعتراض کا تسلی بخش جواب دیا لیکن آپ نے ہماری کسی ایک بات کا بھی جواب دینے کی زحمت نہیں فرمائی۔ لیکن ہم پر الزامات لگانے میں ابھی بھی آپ کی جانب سے کوئی کمی نہیں آئی۔

محترم سہج صاحب انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے میں آپ کا جو بھی موقف ہے اس پر اپنے امام صاحب کا صحیح سند سے قول پیش کریں اس کے بعد ہم بھی اپنے امام اعظم یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پیش کرکے آپ کا ہر مطالبہ پورا کرینگے۔ان شاءاللہ

آپ ہمیں بے وقوف نہ سمجھیں اور ون وے ٹریفک چلانے سے باز آجائیں۔ ایک مطالبہ آپ ہمارا پورا کریں دوسرا مطالبہ ہم آپ کا پورا کردینگے۔ ہمارا کام صرف یہ نہیں ہے کہ آپ سوال پر سوال کرتے جائیں اور ہم صرف جواب دیتے جائیں جیسے امین اوکاڑوی صاحب نے بھی تجلیات صفدر میں اہل حدیث حضرات سے دوسو سوالات کئے ہیں لیکن اگر اہل حدیث پلٹ کر کوئی سوال ان سے کردے تو انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے۔

آپ کی پچھلی پوسٹ کا جواب جلد دونگا۔ ان شاءاللہ
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top