• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہر نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے !!!

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم ’’اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِکَ‘‘ اور ’’اقْرَأْ بِهَا سِرًّا‘‘ میں بہت فرق ہے کسی متقی عربی دان سے پوچھ لیجئے گا۔ سرا کا مطلب ہے سرگوشی کی مانند آواز سے پڑھنا اور اس کا متضاد ہے جہرا کا مطلب ہے بلند آواز سے۔ نفسک کا مطلب ہے دل ہی دل میں اور اس کا متضاد ہے اعلانیتک کا مطلب ہے اعلانیہ طور پر۔ یہ میری معلومات کے مطابق ہے کوئی غلطی ہے تو کوئی بھی اصلاح فرمادے تو اس کومیں اپنا محسن ہی یقینا سمجھوں گا واللہ اعلم۔
«اقرأ بها في نفسك»کامطلب آپ نے ’’ دل ہی دل میں ‘‘ میں بتایا ہے ،
اس سے آپ کی مراد اگر زبان سے نہ پڑھنا ،بلکہ صرف دل میں میں سوچنا ہے ،تو یہ بالکل غلط ہے ،

علامہ انور شاہ کاشمیری « العرف الشذی » میں فرماتے ہیں :
« وأما ما قال المدرِّسون: من أن المراد بالقراءة في نفسه التدبر والتفكر فلا يوافقه اللغة فإنه لم يثبت معنى التفكر للقراءة في النفس »
’’ جو لوگ کہتے ہیں کہ :فی نفسہ قراءۃ سے مراد ۔۔تفکر و تدبر ۔۔ہے ،تو انکی یہ بات غلط ہے ، یہ لغت کے موافق نہیں ،لغت میں ’’ قراءۃ فی النفس ‘‘ کیلئے ’’ تفکر ‘‘ کا معنی ثابت نہیں؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ۔۔حدیث میں «اقرأ بها في نفسك»کامطلب ہے ۔۔امام کے پیچھے سراً سورہ فاتحہ پڑھنی چاہیئے ؛
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
قْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِکَ‘‘ اور ’’اقْرَأْ بِهَا سِرًّا‘‘ میں بہت فرق ہے کسی متقی عربی دان سے پوچھ لیجئے گا۔ سرا کا مطلب ہے سرگوشی کی مانند آواز سے پڑھنا اور اس کا متضاد ہے جہرا کا مطلب ہے بلند آواز سے۔ نفسک کا مطلب ہے دل ہی دل میں اور اس کا متضاد ہے اعلانیتک کا مطلب ہے اعلانیہ طور پر۔ یہ میری معلومات کے مطابق ہے کوئی غلطی ہے تو کوئی بھی اصلاح فرمادے تو اس کومیں اپنا محسن ہی یقینا سمجھوں گا واللہ اعلم۔
«اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ» سے مراد « دل ہی دل » میں نہیں ،بلکہ ’’ سراً ۔۔دون الجہر ‘‘ ہے ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ « كتاب القراءة خلف الإمام » میں فرماتے ہیں :
’’ والمراد بقوله: «اقرأ بها في نفسك» أن يتلفظ بها سرا دون الجهر بها ولا يجوز حمله على ذكرها بقلبه دون التلفظ بها لإجماع أهل اللسان على أن ذلك لا يسمى قراءة »
یعنی «اقرأ بها في نفسك» کا معنی ہے :جہر کے بغیر سراً لفظ پڑھے جائیں ۔۔اور «اقرأ بها في نفسك»کو ’’ الفاظ ادا کئے بغیر قلبی ذکر پر محمول کرنا جائز نہیں ، کیونکہ اہل زبان کا اس پر اجماع ہے کہ الفاظ ادا کئے بغیر قلبی ذکر ‘‘ کو ۔۔قراءة۔۔نہیں کہا جاتا ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
فقہ حنفی میں نماز نہیں ہوتی کیا۔
یا فقہاء احناف کافر و یہودی و نصاری و ہنود ہیں کہ ان کا ذکر نہیں ہو گا؟
مقلدین حنفیہ نماز نہیں پڑھتے کیا؟
کیا مقلدین حنفیہ کا نماز سے کوئی تعلق نہیں؟ کہ ان کا ذکر نہ ہو گا!
السلام علیکم علیکم ورحمۃ اللہ
محترم کیا ہوگیا ہے؟ کیا مجھ سے کوئی گستاخی ہو گئی ہے؟ محترم میں معافی چاہتا ہوں اگر میری کسی بات سے آپ کو تکلیف پہنچی ہے تو۔
میں اس فورم پر کیوں آیا؟ میں نے فقہ حنفی دیکھنی ہوتی تو ’’حنفیہ‘‘ بس پر بیٹھا رہتا۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
یہی تو آپ کی سب بڑی ’’ بے راہ روی ‘‘ ہے :کہ آپ نے اپنی ’’ منزل ‘‘ اوکاڑہ کے راستے کوفہ سمجھ لیا ہے
السلام علیکم علیکم ورحمۃ اللہ
محترم صحیح بات ہے کہ اگر ’کوفہ‘ جانا ہو تو ’محدث فورم‘ پر سوار ہوں۔
والسلام
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
یعنی «اقرأ بها في نفسك» کا معنی ہے :جہر کے بغیر سراً لفظ پڑھے جائیں ۔۔اور «اقرأ بها في نفسك»کو ’’ الفاظ ادا کئے بغیر قلبی ذکر پر محمول کرنا جائز نہیں ، کیونکہ اہل زبان کا اس پر اجماع ہے کہ الفاظ ادا کئے بغیر قلبی ذکر ‘‘ کو ۔۔قراءة۔۔نہیں کہا جاتا ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم قرآنِ پاک اور احادیث سے جو بات واضح ہو سکتی ہو وہ دوسروں کی تشریحات و توضیحات سے مبرا ہوتی ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ جل شانہٗ ہے؛
فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآَنَهُ (اورۃ القیامۃ آیت 18)پس جب ہم اس کو پڑھا کریں تو آپ غور سے سنتے رہا کریں اس کے پڑھنے کو ۔
حدثنا أبو كُرَيب، قال: ثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو بن دينار، عن سعيد بن حُبير، عن ابن عباس، أن النبيّ صلى الله عليه وسلم كان إذا نزل عليه القرآن تعجَّل يريد حفظه، فقال الله تعالى ذكره:( لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ) وقال ابن عباس: هكذا وحرّك شفتيه. (تفسیر طبری)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی نازل ہوتی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم حفظ وحی میں جلدی کرتے پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ‘‘اوراپنی زبان کو مت ہلایا کرو اس (قرآن) کے ساتھ (اے پیغمبر !) اس کو جلدی جلدی یاد کر لینے کی غرض سے بلاشبہ ہمارے ذمے ہے اس کو جمع کر دینا (آپ کے سینے میں) اور اس کو پڑھا دینا (آپ کی زبان سے) ۔ اور ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ہونٹوں کو (عملاً) ہلا کر دکھایا کہ ایسے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم) کرتے تھے۔
والسلام
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
آپ صلی اللہ علیہ وسلم حفظ وحی میں جلدی کرتے پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ‘‘اوراپنی زبان کو مت ہلایا کرو اس (قرآن) کے ساتھ (اے پیغمبر !) اس کو جلدی جلدی یاد کر لینے کی غرض سے بلاشبہ ہمارے ذمے
اس آیت کریمہ کا زیر بحث موضوع سے کیا تعلق؟
یہ آیت تو فرشتے سے سن کر یاد کرنے کی حالت کے متعلق ہے ۔۔
اور نبی کریم ﷺ کے خصائص میں سے ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ بات عجیب لگی کہ آپ نے یہاں دیوبندیوں کے ’’ خاتمۃ المحدثین سید انور شاہ صاحب سے ’’ براءت ‘‘ کا اظہار کر دیا۔
اور ان کی حدیث کی شرح ٹھکرادی۔۔۔۔
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اس آیت کریمہ کا زیر بحث موضوع سے کیا تعلق؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم اس تھریڈ کا عنوان ذہن سے نکل گیا تھا جو کہ یہ ہے ’ہر نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے !!!‘ جی ہاں بالکل ٹھیک میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ یہ واجب ہے لیکن ’رکن‘ یا فرض نہیں۔
والسلام
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" لگتا ہے تم اپنے امام كے پيچھے قرآت كرتے ہو ؟

ہم نے عرض كيا: جى ہاں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
تم سورۃ الفاتحہ كے علاوہ نہ پڑھا كرو، كيونكہ جو سورۃ الفاتحہ نہيں پڑھتا اس كى نماز ہى نہيں ہوتى "
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم میں نے عرض کیا تھا کہ اس کے علاوہ بھی کسی صحابی سے اس قسم کی بات منقول ہے؟ یہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ میرے خیال میں عبادہ ابن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منصوب اس روایت کے علاوہ کوئی اور اس مضمون کی روایت ذخیرہ احادیث میں نہیں ہے۔ دوسری یہ بات کہ اس کا ظاہر معنیٰ قرآن اور حدیث سے ٹکراتا ہے لہٰذا یہ حدیث مناسب تاویل کی متقاضی ہے۔

حکم باری تعالیٰ ہے؛
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآَنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (سورۃ الاعراف آیت 204)
اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
’جب قرآن پڑھا جائے‘ متقاضی ہے کہ کوئی پڑھنے والا ہو۔ ’توجہ سے سنو‘ متقاضی ہے کہ کوئی سننے والا ہو۔ امام جب جہری قراءت کرتا ہے تو وہ کس کو سناتا ہے؟ مقتدی کو۔ نماز میں سننے والا کون ہوتا ہے؟ مقتدی۔ توجہ سے سننے کے عمل کو یقینی بنانے کے لئے حکم ہؤا کہ ’خاموش رہو‘ تاکہ کامل توجہ ہو سکے۔

اس حکمِ باری تعالیٰ کی تفسیرمیں آقا علیہ علیہ السلام نے فرمایا؛
سنن النسائي:كِتَاب الِافْتِتَاحِ: تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ }
أَخْبَرَنَا الْجَارُودُ بْنُ مُعَاذٍ التِّرْمِذِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا
تمام راوی ثقہ ہیں
ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ پڑھے تو خاموش رہو اور جب کہے " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ " تو کہو " اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ "
اللہ تبارک و تعالیٰ نے بھی قراءت قرآن کے وقت خاموش رہنے کا حکم فرمایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی۔
اب ملاحظہ فرمائیں امام کی اقتدا میں سورۃ الفاتحہ کی قراءت کی ممناعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے؛
ابن ماجه: كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا وَإِذَا قَالَ ( غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ ) فَقُولُوا آمِينَ وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا ــــــــــالحدیث

ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب کہے " غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ " تو کہو " آمِينَ " اور جب رکوع کرے تو رکوع کرو اور جب ــــــــــ الحدیث
اس میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے وقت خاموش رہنے کا حکم ترتیب فرمان سے واضح ہے۔

اور اس ليے بھى كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

﴿اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے خاموشى سے سنو تا كہ تم پر رحم كيا جائے﴾.

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب امام قرآت كرے تو تم خاموش رہو "
اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم غلط پیش کیا ہے صحیح یوں ہے ﴿اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سےسنو اور خاموش رہو تا كہ تم پر رحم كيا جائے﴾
محترم اللہ تبارک وتعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کا یہی حکم ہے کہ قرآن کی تلاوت جب امام کرے تو خاموش رہو۔

فاتحہ کے وجوب کی دلیل
﴿لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ﴾''جونماز میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں (ہوتی)'' اور اس کے علاوہ دیگر مفصل صحیح ثابت احادیث ہیں جن میں سے ایک یہ بھی پیش کی تھی:
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي مَكْحُولٌ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ رَبِيعٍ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ : صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ ، فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ فِيهَا الْقِرَاءَةُ ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ صَلَاتِهِ ، أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ ، فَقَالَ : " إِنِّي لَأَرَاكُمْ تَقْرَءُونَ خَلْفَ إِمَامِكُمْ إِذَا جَهَرَ " , قَالَ : قُلْنَا : أَجَلْ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، هَذَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ ، فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا " .
عبادہ بن ثامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی اقتداء میں صبح کی نماز یعنی نماز فجر میں تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قراءت بھاری ہو گئی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا رخ ہماری جانب کیا اور فرمایا: میں دیکھتا ہوں کہ تم اپنے امام کے پیچھے قراءت کرتے ہو جبکہ وہ (امام) جہراً قراءت کرتا ہے، ہم نے کہا اے اللہ کے رسول ! ہاں ! اللہ کی قسم ہم ایسا کرتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کیا کرو (یعنی امام کے پیچھے قراءت نہ کیا کرو) سوائے ام القرآن یعنی سورہ فاتحہ کے، کیونکہ نہیں ہے اس کی نماز جو نماز میں اسے (سورہ فاتحہ ) نہیں قراءت نہیں کرتا۔
مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ » حَدِيثُ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ
وہ دیگر مفصل صحیح احادیث بھی سامنے لے آئیں ان کو کیوں چھپا رکھا ہے۔

بھائی جان! اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ماننے والے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ایک حدیث ہی کافی ہے!
آقا علیہ السلام کی اس ضمن کی دیگر احادیث پیش کر دینے میں کونسی قباحت ہے؟
والسلام
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں اس فورم پر کیوں آیا؟ میں نے فقہ حنفی دیکھنی ہوتی تو ’’حنفیہ‘‘ بس پر بیٹھا رہتا۔
محترم صحیح بات ہے کہ اگر ’کوفہ‘ جانا ہو تو ’محدث فورم‘ پر سوار ہوں۔
جناب فکر نہ کریں، ہم آپ کو فقہ حنفی اور کوفہ کی بھی اصل شکل دکھلاتے رہیں گے، اب تک تو آپ نے فقہ حنفی کو نقاب میں ہی دیکھا ہوگا!
فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآَنَهُ (اورۃ القیامۃ آیت 18)پس جب ہم اس کو پڑھا کریں تو آپ غور سے سنتے رہا کریں اس کے پڑھنے کو ۔
حدثنا أبو كُرَيب، قال: ثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو بن دينار، عن سعيد بن حُبير، عن ابن عباس، أن النبيّ صلى الله عليه وسلم كان إذا نزل عليه القرآن تعجَّل يريد حفظه، فقال الله تعالى ذكره:( لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ) وقال ابن عباس: هكذا وحرّك شفتيه. (تفسیر طبری)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی نازل ہوتی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم حفظ وحی میں جلدی کرتے پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ‘‘اوراپنی زبان کو مت ہلایا کرو اس (قرآن) کے ساتھ (اے پیغمبر !) اس کو جلدی جلدی یاد کر لینے کی غرض سے بلاشبہ ہمارے ذمے ہے اس کو جمع کر دینا (آپ کے سینے میں) اور اس کو پڑھا دینا (آپ کی زبان سے) ۔ اور ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ہونٹوں کو (عملاً) ہلا کر دکھایا کہ ایسے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم) کرتے تھے۔
اگر قرآن کی قراءت کرتے زبان کو نہ ہلانے پر اس سے استدلال ہے، تو حنفیوں کو کود اس پر عمل کیوں نہیں! وہ بھی نماز میں بھی اور نماز کے علاوہ بھی زبان کو ہلا کر ہی قرآن کی قراءت کرتے ہیں!
بھٹی صاحب! یہ تو صریح حجت بازی ہے!
محترم اس تھریڈ کا عنوان ذہن سے نکل گیا تھا جو کہ یہ ہے ’ہر نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے !!!‘ جی ہاں بالکل ٹھیک میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ یہ واجب ہے لیکن ’رکن‘ یا فرض نہیں۔
میاں جی! ہم جب واجب کہتے ہیں، تو یہ فقہ حنفی والا واجب نہیں ہوتا، کہ فقہ حنفی میں واجب، رکن یا فرض نہیں ہوا کرتا، واجب اور فرض کی فقہ حنفی کی تقسیم انکار حدیث کی ابتدائی سیڑھی ہے!
محترم میں نے عرض کیا تھا کہ اس کے علاوہ بھی کسی صحابی سے اس قسم کی بات منقول ہے؟ یہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ میرے خیال میں عبادہ ابن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منصوب اس روایت کے علاوہ کوئی اور اس مضمون کی روایت ذخیرہ احادیث میں نہیں ہے۔ دوسری یہ بات کہ اس کا ظاہر معنیٰ قرآن اور حدیث سے ٹکراتا ہے لہٰذا یہ حدیث مناسب تاویل کی متقاضی ہے۔
آپ کا خیال باطل ہے! عبادہ بن ثامت رضی اللہ عنہ کے علاوہ بھی یہ احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحاب سے مروی ہے، جیسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے، اور وہ بھی آپ کو اس تھریڈ میں بتلائی جا چکی ہے، مگر آپ کے دماغ پر چوٹ کا اثر ہے، شاید آپ بھول گئے ہو، میں پیش کر دیتا ہوں:
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 873 حدیث قدسی مکررات 12 متفق علیہ 4
حَدَّثَنَاه إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الْعَلَائِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَلَّی صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ فَقِيلَ لِأَبِي هُرَيْرَةَ إِنَّا نَکُونُ وَرَائَ الْإِمَامِ فَقَالَ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِکَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی حَمِدَنِي عَبْدِي وَإِذَا قَالَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی أَثْنَی عَلَيَّ عَبْدِي وَإِذَا قَالَ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ قَالَ مَجَّدَنِي عَبْدِي وَقَالَ مَرَّةً فَوَّضَ إِلَيَّ عَبْدِي فَإِذَا قَالَ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ قَالَ هَذَا بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ قَالَ هَذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ قَالَ سُفْيَانُ حَدَّثَنِي بِهِ الْعَلَائُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ دَخَلْتُ عَلَيْهِ وَهُوَ مَرِيضٌ فِي بَيْتِهِ فَسَأَلْتُهُ أَنَا عَنْهُ
اسحاق بن ابرہیم، سفیان بن عیینہ، علاء بن عبدالرحمن، ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے نماز ادا کی اور اس میں ام القرآن نہ پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ یہی فرمایا اور ناتمام ہے،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا ہے ہم بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا فاتحہ کو دل میں پڑھو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ عز وجل فرماتے ہیں کہ نماز یعنی سورة فاتحہ میرے اور میرے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کر دی گئی ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ مانگے جب بندہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتے ہیں میرے بندے نے میری حمد بیان کی اور جب وہ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف بیان کی اور جب وہ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور ایک بار فرماتا ہے میرے بندے نے اپنے سب کام میرے سپرد کر دئیے اور جب وہ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا ہے جب وہ )اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ( کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا۔

یہی ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا السَّائِبِ، مَوْلَى هِشَامِ بْنِ زَهْرَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ [ص:217] فَهِيَ خِدَاجٌ فَهِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ» قَالَ: فَقُلْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، إِنِّي أَكُونُ أَحْيَانًا وَرَاءَ الْإِمَامِ قَالَ: فَغَمَزَ ذِرَاعِي، وَقَالَ: اقْرَأْ بِهَا يَا فَارِسِيُّ فِي نَفْسِكَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ: فَنِصْفُهَا لِي، وَنِصْفُهَا لِعَبْدِي، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ " قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اقْرَءُوا يَقُولُ الْعَبْدُ {الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} [الفاتحة: 2] يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: حَمِدَنِي عَبْدِي، يَقُولُ: {الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ} [الفاتحة: 1]، يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَثْنَىعَلَيَّ عَبْدِي، يَقُولُ الْعَبْدُ {مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ}، يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: مَجَّدَنِي عَبْدِي، يَقُولُ الْعَبْدُ {إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ} [الفاتحة: 5]، يَقُولُ اللَّهُ: هَذِهِ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، يَقُولُ الْعَبْدُ {اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ، صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ، وَلَا الضَّالِّينَ} [الفاتحة: 7]، يَقُولُ اللَّهُ: فَهَؤُلَاءِ لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ "
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے نماز پڑھی مگر اس میں سورت فاتحہ نہیں پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے۔ ناقص ہے، ناقص ہے۔راوی نے کہا میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ میں کبھی امام کے پیچھے ہوتا ہوں (تب مجھے یہ سورت پڑھنی چاہیے یا نہیں؟) انھوں نے میرا بازو دبا کر کہا اے فارسی اپنے دل میں پڑھ لیا کر۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے نماز کو میں نے اپنے اور بندے کے درمیان آدھا آدھا بانٹ دیا ہے پس نماز آدھی میرے لیے ہے اور آدھی بندہ کے۔ اور میرا بندہ جو مانگے گا وہ اسے ملے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پڑھو بندہ کہتا ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندہ نے میری تعریف کی۔ پھر بندہ کہتا ہے۔ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھ کو میرے بندہ نے سراہا۔ پھر بندہ کہتا ہے۔ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری عظمت بیان کی۔ پھر بندہ کہتا ہے إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ آیت میرے اور میرے بندہ کے درمیان ہے میرا بندہ جو کچھ مانگے گا میں اس کو دوں گا پھر بندہ کہتا ہے (اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ) الفاتحہ) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یہ تینوں باتیں میرے بندہ کے لئے ہیں اور جو کچھ میرا بندہ مانگے گا وہ اس کو ملے گا۔سنن أبي داود - كِتَاب الصَّلَاةِ -أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ - بَابُ مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِي صَلَاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ
یہ آپ کو پہلے بھی اسی تھریڈ میں پیش کی گئی تھیں۔

حکم باری تعالیٰ ہے؛
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآَنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (سورۃ الاعراف آیت 204)
اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
’جب قرآن پڑھا جائے‘ متقاضی ہے کہ کوئی پڑھنے والا ہو۔ ’توجہ سے سنو‘ متقاضی ہے کہ کوئی سننے والا ہو۔ امام جب جہری قراءت کرتا ہے تو وہ کس کو سناتا ہے؟ مقتدی کو۔ نماز میں سننے والا کون ہوتا ہے؟ مقتدی۔ توجہ سے سننے کے عمل کو یقینی بنانے کے لئے حکم ہؤا کہ ’خاموش رہو‘ تاکہ کامل توجہ ہو سکے۔
ایک تو آپ بہت جلدی بھول جاتے ہو:
وحكمها بين الآيتين المصير إلی السنة؛ لأن الآيتين إذا تعارضتا تساقطتا، فلا بد للعمل من المصير إلی ما بعده وهو السنة، ولا يمكن المصير إلی الآية الثالثة؛ لأنه يفضی إلی الترجيح بكثرة الأدلة، وذلك لا يجوز، ومثاله قوله تعالی:﴿فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ﴾ مع قوله تعالیٰ ﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾ فإن الأول بعمومه يوجب القراءة علی المقتدي، والثاني بخصوصه ينفيه، وردا في الصلاة جميعاً فتساقطا، فيصار إلی حديث بعده، وهو قوله عليه السلام: من كان له إمام فقراءة الإمام قراءة له.
اس تعارض کا حکم یہ ہے کہ جب دو آیتوں میں تعارض ہو گیا تو سنت کی جانب رخ کرنا ہوگا۔ اس وجہ سے کہ اس صورت میں ہر دو آیت پر عمل ممکن نہیں رہا اور جن تعارض ہوگا تو دونوں ہی ساقط ہوں گی لہٰذا عمل کیلئے سنت پر نظر کرنا ہوگی کہ اس کا درجہ اس کے بعد ہے کسی تیسری آیت کی جانب رجوع کرنا ممکن نہیں۔ اس وجہ سے کہ اس سورت میں کثرت دلائل کی وجہ سے ترجیح دینا لازم آجائے گا جو درست نہیں ۔مثال: ﴿فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ﴾ اس کے بالمقابل دوسری آیت ﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾ وارد ہوئی۔ لہٰذا تعارض ہو گیا کہ اول آیت علی العموم مقتدی پر قراءت کو ثابت کرتی ہے اور ثانی خاص صورت میں اس کی نفی کرتی ہے ھالانکہ حضرات مفسرین کی تصریح کے مطابق ہر دو آیت نماز کیلئے ہیں۔ اس وجہ سے اب ضرورت ہوئی سنت کی جانب متوجہ ہونے کی۔ اس میں قال عليه السلام: من كان له إمام فقراءة الإمام قراءة له. جس سے ثابت ہو گیا کہ مقتدی قراءت نہ کرے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 87 – 88 جلد 02 كشف الأسرار شرح المصنف على المنار مع شرح نور الأنوار على المنار - حافظ الدين النسفي- ملاجيون - دار الكتب العلمية

اور بہر حال سورۃ فاتحہ کی تخصیص تو اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلا دی،

اس حکمِ باری تعالیٰ کی تفسیرمیں آقا علیہ علیہ السلام نے فرمایا؛
سنن النسائي:كِتَاب الِافْتِتَاحِ: تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ }
أَخْبَرَنَا الْجَارُودُ بْنُ مُعَاذٍ التِّرْمِذِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا

تمام راوی ثقہ ہیں
ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ پڑھے تو خاموش رہو اور جب کہے " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ " تو کہو " اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ "
اور انہیں ابو ہریرہ رضی اللہ علیہ نے سورۃ فاتحہ کی قراءت کی تخصیص بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے!
ابن ماجه: كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا وَإِذَا قَالَ ( غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ ) فَقُولُوا آمِينَ وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا ــــــــــالحدیث

ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب کہے " غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ " تو کہو " آمِينَ " اور جب رکوع کرے تو رکوع کرو اور جب ــــــــــ الحدیث
اس میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے وقت خاموش رہنے کا حکم ترتیب فرمان سے واضح ہے۔
یہی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ سے مقتدی کے لئے بھی سورہ فاتحہ کے واجب و لازم ہونے کی تخصیص روایت کرتے ہیں،
اور یہ بات آپ کو بتلائی جا چکی ہے! آپ کی یاد داشت کے پیش نظر ایک بار پھر پیش کر دیتے ہیں:
اس بحث سے قطع نظر کہ اس آیت سے مقتدی کی قراءت کی ممانعت ہے یا نہیں، اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ یہ آیت مقتدی کو قراءت کا منع کرتی ہے، تب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے سورہ فاتحہ کا اس ممانعت سے استثناء ثابت ہوتا ہے: مندرجہ ذیل حدیث متعدد کتب میں ہے، میں اسے مسند امام احمد بن حنبل سے پیش کرتا ہوں: (مسند امام احمد بن حنبل سے پیش کرنے کی ایک حکمت ہے)
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي مَكْحُولٌ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ رَبِيعٍ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ : صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ ، فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ فِيهَا الْقِرَاءَةُ ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ صَلَاتِهِ ، أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ ، فَقَالَ : " إِنِّي لَأَرَاكُمْ تَقْرَءُونَ خَلْفَ إِمَامِكُمْ إِذَا جَهَرَ " , قَالَ : قُلْنَا : أَجَلْ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، هَذَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ ، فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا " .
عبادہ بن ثامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی اقتداء میں صبح کی نماز یعنی نماز فجر میں تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قراءت بھاری ہو گئی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا رخ ہماری جانب کیا اور فرمایا: میں دیکھتا ہوں کہ تم اپنے امام کے پیچھے قراءت کرتے ہو جبکہ وہ (امام) جہراً قراءت کرتا ہے، ہم نے کہا اے اللہ کے رسول ! ہاں ! اللہ کی قسم ہم ایسا کرتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کیا کرو (یعنی امام کے پیچھے قراءت نہ کیا کرو) سوائے ام القرآن یعنی سورہ فاتحہ کے، کیونکہ نہیں ہے اس کی نماز جو نماز میں اسے (سورہ فاتحہ ) نہیں قراءت نہیں کرتا۔
مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ » حَدِيثُ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ
اہل حدیث کا اس سے کیا معنی ہیں وہ ہم نے بتلا دیا، کہ سورہ فاتحہ بہر حال مقتدی نے بھی پڑھنی ہے، اس امام کی سورہ فاتحہ کے وقت کے ساتھ خاص نہیں ، یہ حدیث نہ قرآن کے خلاف ہے نہ کسی دوسری صحیح حدیث کے خلاف، اور نہ اس حدیث کو تاویل کی کوئی حاجت ہے، اگر کسی چیز کی حاجت ہے تو وہ امام ابو حنیفہ کی تقلید میں قرآن و حدیث کو چھوڑنے کی بجائے، قرآن و حدیث کے احکامات پر عمل کرنے کی حاجت ہے! وگرنہ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ﴿سورة محمد33﴾
جی جناب یہ انصات یعنی خاموش رہنا ، دل میں یعنی سراً، آہستہ سے پڑھنے کے منافی نہیں!
اور نہ ہی امام کے " غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ "کہنے پر مقتدی کے بھی " آمِينَ " کہنے کے منافی ہے!
اب ہمارے جوابات کی دلیل بھی دیکھ لیں:
یہی ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا السَّائِبِ، مَوْلَى هِشَامِ بْنِ زَهْرَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ [ص:217] فَهِيَ خِدَاجٌ فَهِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ» قَالَ: فَقُلْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، إِنِّي أَكُونُ أَحْيَانًا وَرَاءَ الْإِمَامِ قَالَ: فَغَمَزَ ذِرَاعِي، وَقَالَ: اقْرَأْ بِهَا يَا فَارِسِيُّ فِي نَفْسِكَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ: فَنِصْفُهَا لِي، وَنِصْفُهَا لِعَبْدِي، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ " قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اقْرَءُوا يَقُولُ الْعَبْدُ {الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} [الفاتحة: 2] يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: حَمِدَنِي عَبْدِي، يَقُولُ: {الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ} [الفاتحة: 1]، يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَثْنَىعَلَيَّ عَبْدِي، يَقُولُ الْعَبْدُ {مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ}، يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: مَجَّدَنِي عَبْدِي، يَقُولُ الْعَبْدُ {إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ} [الفاتحة: 5]، يَقُولُ اللَّهُ: هَذِهِ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، يَقُولُ الْعَبْدُ {اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ، صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ، وَلَا الضَّالِّينَ} [الفاتحة: 7]، يَقُولُ اللَّهُ: فَهَؤُلَاءِ لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ "
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے نماز پڑھی مگر اس میں سورت فاتحہ نہیں پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے۔ ناقص ہے، ناقص ہے۔
راوی نے کہا میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ میں کبھی امام کے پیچھے ہوتا ہوں (تب مجھے یہ سورت پڑھنی چاہیے یا نہیں؟) انھوں نے میرا بازو دبا کر کہا اے فارسی اپنے دل میں پڑھ لیا کر۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے نماز کو میں نے اپنے اور بندے کے درمیان آدھا آدھا بانٹ دیا ہے پس نماز آدھی میرے لیے ہے اور آدھی بندہ کے۔ اور میرا بندہ جو مانگے گا وہ اسے ملے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پڑھو بندہ کہتا ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندہ نے میری تعریف کی۔ پھر بندہ کہتا ہے۔ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھ کو میرے بندہ نے سراہا۔ پھر بندہ کہتا ہے۔ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری عظمت بیان کی۔ پھر بندہ کہتا ہے إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ آیت میرے اور میرے بندہ کے درمیان ہے میرا بندہ جو کچھ مانگے گا میں اس کو دوں گا پھر بندہ کہتا ہے (اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ) الفاتحہ) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یہ تینوں باتیں میرے بندہ کے لئے ہیں اور جو کچھ میرا بندہ مانگے گا وہ اس کو ملے گا۔
سنن أبي داود - كِتَاب الصَّلَاةِ -أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ - بَابُ مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِي صَلَاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ

لیں جناب! صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دل میں، یعنی ، سراً امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کا بتلا کر یہ بتلا دیا کہ یہ فعل انصات کے خلاف نہیں!
اور وہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جن کی روایت کردہ حدیث آپ نے صحیح مسلم ، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ اور مسند احمد سے پیش کی، انہیں ابو ہریرہ ، امام کے پیچھے سراً سورہ فاتحہ کی قراءت کو انصات کے خلاف نہ ہونے کی تصریح کر دی!
نوٹ: مگر یہ بات تسلیم وہ کرے گا جو اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ماننے کا قائل ہو گا، جس کا مقصد اٹکل پچّو لڑا کر قرآن کی احادیث کو رد کرنا ہو گا، وہ حجتیں تلاش کرنے لگ جائے گا کہ کس طرح اپنے ''امام صاحب'' کے قرآن حدیث پر مقدم کرے! فتدبر!

آیئے اب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی دیکھ لیں کہ ''سکوت'' بھی سراً کچھ پڑھنے کے مخالف و منافی نہیں:
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ القَعْقَاعِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْكُتُ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَبَيْنَ القِرَاءَةِ إِسْكَاتَةً - قَالَ أَحْسِبُهُ قَالَ: هُنَيَّةً - فَقُلْتُ: بِأَبِي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِسْكَاتُكَ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالقِرَاءَةِ مَا تَقُولُ؟ قَالَ: " أَقُولُ: اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ، كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ المَشْرِقِ وَالمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنَ الخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالبَرَدِ "
صحيح البخاري - كِتَابُ الأَذَانِ - بَابُ مَا يَقُولُ بَعْدَ التَّكْبِيرِ

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر اور قرآت کے درمیان میں کچھ سکوت فرماتے تھے (ابوزرعہ کہتے ہیں) مجھے خیال ہوتا ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تھوڑی دیر، تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، تکبیر اور قرات کے مابین سکوت کرنے میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا میں پڑھتا ہوں اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان میں ایسا فصل کردے جیسا تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان میں کر دیا ہے، اے اللہ! مجھے گناہوں سے پاک کردے، جیسے صاف کپڑا میل سے پاک صاف کیا جاتا ہے، اے اللہ! میرے گناہوں کو پانی اور برف اور اولہ سے دھو ڈال۔

یہ لیں جناب! وہی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے ہیں کہ آپ سکوت کے وقت کیا پڑھتے ہیں، تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ وہ کیا پڑھتے ہیں۔
لیکن کوئی منچلا اب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ کی عربی کو ناقص قرار دے تو کیاکیا جا سکتا ہے!
اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم غلط پیش کیا ہے صحیح یوں ہے ﴿اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سےسنو اور خاموش رہو تا كہ تم پر رحم كيا جائے﴾
محترم اللہ تبارک وتعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کا یہی حکم ہے کہ قرآن کی تلاوت جب امام کرے تو خاموش رہو۔
جناب من! اللہ کے قرآن کی اس آیت کے حکم کو تو حنفیوں نے ساقط قرار دے کر ماننے سے انکار کردیا!
اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں کہ جہاں مقتدی کے سورہ فاتحہ کی قراءت واجب و لازم قرار دی ہے، اسے بھی ماننے سے انکار کرتے ہیں!
دونوں باتوں کی دلیل اوپر گزری!

وہ دیگر مفصل صحیح احادیث بھی سامنے لے آئیں ان کو کیوں چھپا رکھا ہے۔
جو میرا قتباس پیش کیا ہے، وہی سورہ فاتحہ کی تخصیص کرنے والی مفصل حدیث بھی موجود ہے، تقلید کا چشمہ اتاریں تو نظر آئے!
آقا علیہ السلام کی اس ضمن کی دیگر احادیث پیش کر دینے میں کونسی قباحت ہے؟
جناب من ! آپ اپنی انکھوں سے تقلید کا چشمہ اتاریں تو آپ کو احادیث نظر آئیں، جو اسی تھریڈ میں متعدد بار پیش کی گئی ہیں!
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
آپ کا خیال باطل ہے! عبادہ بن ثامت رضی اللہ عنہ کے علاوہ بھی یہ احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحاب سے مروی ہے، جیسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے، اور وہ بھی آپ کو اس تھریڈ میں بتلائی جا چکی ہے، مگر آپ کے دماغ پر چوٹ کا اثر ہے، شاید آپ بھول گئے ہو، میں پیش کر دیتا ہوں:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم آپ نے اپنے گمان میں عبادہ ابن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تائید میں جو روایات تحریر کی ہیں، اس سے قطع نظر کہ وہ کتنی ہیں ایک ہی یا دو، ان کو آپ نے بغور پڑھا ہی نہیں یا ’تقلیداً‘ لکھ دیا جیسا کہ اہل حدیث کا معمول ہے۔ میں نشاندہی کرتا ہو آپ بھی اور قارئین بھی غور فرمائیں؛

حَدَّثَنَاه إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الْعَلَائِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَلَّی صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ فَقِيلَ لِأَبِي هُرَيْرَةَ إِنَّا نَکُونُ وَرَائَ الْإِمَامِ فَقَالَ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِکَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی حَمِدَنِي عَبْدِي وَإِذَا قَالَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی أَثْنَی عَلَيَّ عَبْدِي وَإِذَا قَالَ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ قَالَ مَجَّدَنِي عَبْدِي وَقَالَ مَرَّةً فَوَّضَ إِلَيَّ عَبْدِي فَإِذَا قَالَ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ قَالَ هَذَا بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ قَالَ هَذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ قَالَ سُفْيَانُ حَدَّثَنِي بِهِ الْعَلَائُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ دَخَلْتُ عَلَيْهِ وَهُوَ مَرِيضٌ فِي بَيْتِهِ فَسَأَلْتُهُ أَنَا عَنْهُ
اسحاق بن ابرہیم، سفیان بن عیینہ، علاء بن عبدالرحمن، ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے نماز ادا کی اور اس میں ام القرآن نہ پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ یہی فرمایا اور ناتمام ہے،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا ہے ہم بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا فاتحہ کو دل میں پڑھو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ عز وجل فرماتے ہیں کہ نماز یعنی سورة فاتحہ میرے اور میرے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کر دی گئی ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ مانگے جب بندہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتے ہیں میرے بندے نے میری حمد بیان کی اور جب وہ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف بیان کی اور جب وہ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور ایک بار فرماتا ہے میرے بندے نے اپنے سب کام میرے سپرد کر دئیے اور جب وہ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا ہے جب وہ )اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ( کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا۔

یہی ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا السَّائِبِ، مَوْلَى هِشَامِ بْنِ زَهْرَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ [ص:217] فَهِيَ خِدَاجٌ فَهِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ» قَالَ: فَقُلْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، إِنِّي أَكُونُ أَحْيَانًا وَرَاءَ الْإِمَامِ قَالَ: فَغَمَزَ ذِرَاعِي، وَقَالَ: اقْرَأْ بِهَا يَا فَارِسِيُّ فِي نَفْسِكَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ: فَنِصْفُهَا لِي، وَنِصْفُهَا لِعَبْدِي، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ " قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اقْرَءُوا يَقُولُ الْعَبْدُ {الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} [الفاتحة: 2] يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: حَمِدَنِي عَبْدِي، يَقُولُ: {الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ} [الفاتحة: 1]، يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَثْنَىعَلَيَّ عَبْدِي، يَقُولُ الْعَبْدُ {مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ}، يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: مَجَّدَنِي عَبْدِي، يَقُولُ الْعَبْدُ {إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ} [الفاتحة: 5]، يَقُولُ اللَّهُ: هَذِهِ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، يَقُولُ الْعَبْدُ {اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ، صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ، وَلَا الضَّالِّينَ} [الفاتحة: 7]، يَقُولُ اللَّهُ: فَهَؤُلَاءِ لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ "
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے نماز پڑھی مگر اس میں سورت فاتحہ نہیں پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے۔ ناقص ہے، ناقص ہے۔راوی نے کہا میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ میں کبھی امام کے پیچھے ہوتا ہوں (تب مجھے یہ سورت پڑھنی چاہیے یا نہیں؟) انھوں نے میرا بازو دبا کر کہا اے فارسی اپنے دل میں پڑھ لیا کر۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے نماز کو میں نے اپنے اور بندے کے درمیان آدھا آدھا بانٹ دیا ہے پس نماز آدھی میرے لیے ہے اور آدھی بندہ کے۔ اور میرا بندہ جو مانگے گا وہ اسے ملے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پڑھو بندہ کہتا ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندہ نے میری تعریف کی۔ پھر بندہ کہتا ہے۔ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھ کو میرے بندہ نے سراہا۔ پھر بندہ کہتا ہے۔ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری عظمت بیان کی۔ پھر بندہ کہتا ہے إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ آیت میرے اور میرے بندہ کے درمیان ہے میرا بندہ جو کچھ مانگے گا میں اس کو دوں گا پھر بندہ کہتا ہے (اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ) الفاتحہ) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یہ تینوں باتیں میرے بندہ کے لئے ہیں اور جو کچھ میرا بندہ مانگے گا وہ اس کو ملے گا۔سنن أبي داود - كِتَاب الصَّلَاةِ -أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ - بَابُ مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِي صَلَاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ
یہ آپ کو پہلے بھی اسی تھریڈ میں پیش کی گئی تھیں۔
’مارکڈ‘الفاظ کو غور سے پڑھیں یہ کس کا فرمان ہے؟ یہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اپنا ارشاد ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس میں وضاحت فرما رہے ہیں کہ ’’ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِکَ‘‘ فاتحہ کو دل میں پڑھو۔ میں عربی گرامر یا عربی کوئی زیادہ نہیں جانتا مگر یہاں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صرف ’’اقْرَأْ بِهَا ‘‘ نہیں کہہ رہے بلکہ ’’ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِکَ‘‘ فاتحہ کو دل میں پڑھوفر ما رہے ہیں۔ اس ’’اقْرَأْ بِهَا ‘‘ کے ساتھ ’’فِي نَفْسِکَ‘‘ لانے کی کیا ضرورت پیش آئی؟
دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ راوی نے یہ سوال ہی کیوں کیا؟ اس پر بھی سوچئے گا خود میں اگر اتنی اہلیت نہ ہو تو کسی ــــــــــ ۔

ایک تو آپ بہت جلدی بھول جاتے ہو:
وحكمها بين الآيتين المصير إلی السنة؛ لأن الآيتين إذا تعارضتا تساقطتا، فلا بد للعمل من المصير إلی ما بعده وهو السنة، ولا يمكن المصير إلی الآية الثالثة؛ لأنه يفضی إلی الترجيح بكثرة الأدلة، وذلك لا يجوز، ومثاله قوله تعالی:﴿فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ﴾ مع قوله تعالیٰ ﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾ فإن الأول بعمومه يوجب القراءة علی المقتدي، والثاني بخصوصه ينفيه، وردا في الصلاة جميعاً فتساقطا، فيصار إلی حديث بعده، وهو قوله عليه السلام: من كان له إمام فقراءة الإمام قراءة له.
اس تعارض کا حکم یہ ہے کہ جب دو آیتوں میں تعارض ہو گیا تو سنت کی جانب رخ کرنا ہوگا۔
قرآن کی آیات میں تعارض یہ ناقابلِ فہم ہے۔

یہی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ سے مقتدی کے لئے بھی سورہ فاتحہ کے واجب و لازم ہونے کی تخصیص روایت کرتے ہیں،
محترم ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ سے مقتدی کے لئے سورہ فاتحہ کے واجب و لازم ہونے کی تخصیص نہیں فرما رہے بلکہ اپنی بات کہہ رہے ہیں جیسا کہ اوپر وضاحت ہو چکی۔
محتر میں نےکہا تھا کہ عبادہ ابن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ کسی دوسرے صحابی سے بھی ایسا قول مروی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی فرمان ہو۔
والسلام
 
Top