مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,391
- ری ایکشن اسکور
- 453
- پوائنٹ
- 209
ہول سیل اور ریٹیل میں فرق دیکھنے سے حکم واضح ہوجائے گا۔
ہول سیل کہتے ہیں ایک بڑاتاجر دوسرے چھوٹے تاجر کو سامان کا بڑا حصہ(تھوک مال) فروخت کرے اور ریٹیل ہوتا ہے کم سامان خریدار کو بیچنا یعنی خردہ کی شکل میں بیچنا۔ ہول سیل والا عام خریدار کو بھی جملہ حساب سے مال بیچتا ہے ۔
اب یہاں ایک سوال یہ ہے کہ کیا ہوسیل اور ریٹیل میں شرعی اعتبار سے کوئی قباحت ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں میں شرعا کوئی قباحت نہیں ہے کیونکہ یہ دو الگ الگ تجارتیں ہیں۔ ایک آدمی زیادہ سامان کچھ کم قیمت پر فروخت کرتا ہے تاکہ فروخت کرنے والا کچھ نفع لے کر اسی سامان کو خردہ کی شکل میں بیچ سکے ۔ اور ریٹیلر ،ہول سیلر سے مال لیکربازاری قیمت کے حساب سے بیچتا ہے ۔
ہاں اگر کوئی ایک ہی سامان کی دو الگ الگ قیمت لگاکر بیچتا ہے مثلا نقد میں اتنا اور ادھار میں اتنا تو پھر اس تجارت سے نبی ﷺ نے منع کیا ہے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
من باعَ بيعتينِ في بيعةٍ فلَهُ أوْكسُهما ، أوِ الرِّبا(صحيح أبي داود:3461)
ترجمہ: جس نے ایک چیز کی دو قیمتیں لگائیں اسکے لئے کم قیمت لینا جائز ہے اور اگر زائد لیا توسود ہے۔
ساتھ ہی ایک بات جان لینا چاہئے کہ کبھی کبھی بازار میں سامان کی قیمت بڑھ جاتی یا کبھی کبھی کم ہوجاتی ہے تواس سے بھی کوئی حرج نہیں ۔ حالات وظروف کے تئیں ایسا ہوتا ، کبھی بازار میں کسی سامان کی قلت ہوجاتی ہے تو اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور کسی چیز کی طلب کم ہوجاتی ہے تواس کی قیمت گرنے لگتی ہے ۔ سیل اور دسکاؤنٹ وغیرہ اسی قبیل سے ہے ۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لوگوں نے کہا :
يا رسولَ اللَّهِ ، غلا السِّعرُ فسعِّر لَنا ، فقالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ : إنَّ اللَّهَ هوَ المسعِّرُ القابضُ الباسطُ الرَّازقُ ، وإنِّي لأرجو أن ألقى اللَّهَ وليسَ أحدٌ منكم يطالبُني بمظلمةٍ في دمٍ ولا مالٍ (صحيح أبي داود:3451)
ترجمہ: اے اللہ کے رسول ! نرخ بہت بڑھ گئے ہیں ، لہٰذا آپ نرخ مقرر فرما دیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بلاشبہ اللہ عزوجل ہی نرخ مقرر کرنے والا ہے ، وہی تنگی کرنے والا ، وسعت دینے والا ، روزی رساں ہے ۔ اور مجھے یقین ہے کہ میں اللہ سے اس حال میں ملوں گا کہ تم میں سے کوئی بھی مجھ پر کسی خون یا مال کے معاملے میں کوئی مطالبہ نہ رکھتا ہو گا ۔
البتہ کوئی جان بوجھ کر مال چھپاکر رکھے اور نرخ چڑھنے کا انتظار کرے اور پھر زیادہ قیمت پر فروخت کرے تو یہ جائز نہیں ہے ۔
معمر بن عبداللہ بن نضلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا يَحْتَكِرُ إلَّا خاطئٌ( صحيح مسلم:1605)
ترجمہ: گنہگار ہی احتکار (ذخیرہ اندوزی) کرتاہے یعنی مال روک کر رکھنے والا گنہگار ہے ۔
واللہ اعلم
کتبہ
مقبول احمد سلفی
ہول سیل کہتے ہیں ایک بڑاتاجر دوسرے چھوٹے تاجر کو سامان کا بڑا حصہ(تھوک مال) فروخت کرے اور ریٹیل ہوتا ہے کم سامان خریدار کو بیچنا یعنی خردہ کی شکل میں بیچنا۔ ہول سیل والا عام خریدار کو بھی جملہ حساب سے مال بیچتا ہے ۔
اب یہاں ایک سوال یہ ہے کہ کیا ہوسیل اور ریٹیل میں شرعی اعتبار سے کوئی قباحت ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں میں شرعا کوئی قباحت نہیں ہے کیونکہ یہ دو الگ الگ تجارتیں ہیں۔ ایک آدمی زیادہ سامان کچھ کم قیمت پر فروخت کرتا ہے تاکہ فروخت کرنے والا کچھ نفع لے کر اسی سامان کو خردہ کی شکل میں بیچ سکے ۔ اور ریٹیلر ،ہول سیلر سے مال لیکربازاری قیمت کے حساب سے بیچتا ہے ۔
ہاں اگر کوئی ایک ہی سامان کی دو الگ الگ قیمت لگاکر بیچتا ہے مثلا نقد میں اتنا اور ادھار میں اتنا تو پھر اس تجارت سے نبی ﷺ نے منع کیا ہے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
من باعَ بيعتينِ في بيعةٍ فلَهُ أوْكسُهما ، أوِ الرِّبا(صحيح أبي داود:3461)
ترجمہ: جس نے ایک چیز کی دو قیمتیں لگائیں اسکے لئے کم قیمت لینا جائز ہے اور اگر زائد لیا توسود ہے۔
ساتھ ہی ایک بات جان لینا چاہئے کہ کبھی کبھی بازار میں سامان کی قیمت بڑھ جاتی یا کبھی کبھی کم ہوجاتی ہے تواس سے بھی کوئی حرج نہیں ۔ حالات وظروف کے تئیں ایسا ہوتا ، کبھی بازار میں کسی سامان کی قلت ہوجاتی ہے تو اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور کسی چیز کی طلب کم ہوجاتی ہے تواس کی قیمت گرنے لگتی ہے ۔ سیل اور دسکاؤنٹ وغیرہ اسی قبیل سے ہے ۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لوگوں نے کہا :
يا رسولَ اللَّهِ ، غلا السِّعرُ فسعِّر لَنا ، فقالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ : إنَّ اللَّهَ هوَ المسعِّرُ القابضُ الباسطُ الرَّازقُ ، وإنِّي لأرجو أن ألقى اللَّهَ وليسَ أحدٌ منكم يطالبُني بمظلمةٍ في دمٍ ولا مالٍ (صحيح أبي داود:3451)
ترجمہ: اے اللہ کے رسول ! نرخ بہت بڑھ گئے ہیں ، لہٰذا آپ نرخ مقرر فرما دیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بلاشبہ اللہ عزوجل ہی نرخ مقرر کرنے والا ہے ، وہی تنگی کرنے والا ، وسعت دینے والا ، روزی رساں ہے ۔ اور مجھے یقین ہے کہ میں اللہ سے اس حال میں ملوں گا کہ تم میں سے کوئی بھی مجھ پر کسی خون یا مال کے معاملے میں کوئی مطالبہ نہ رکھتا ہو گا ۔
البتہ کوئی جان بوجھ کر مال چھپاکر رکھے اور نرخ چڑھنے کا انتظار کرے اور پھر زیادہ قیمت پر فروخت کرے تو یہ جائز نہیں ہے ۔
معمر بن عبداللہ بن نضلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا يَحْتَكِرُ إلَّا خاطئٌ( صحيح مسلم:1605)
ترجمہ: گنہگار ہی احتکار (ذخیرہ اندوزی) کرتاہے یعنی مال روک کر رکھنے والا گنہگار ہے ۔
واللہ اعلم
کتبہ
مقبول احمد سلفی