• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یزید رحمہ اللہ کی فضیلت پر کتاب

ناظم شهزاد٢٠١٢

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 07، 2012
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
1,533
پوائنٹ
120
بنو امیہ کی مخالفت
پانچویں و چھٹی صدی ہجری کا وہ زمانہ ہے۔ جب بنی امیہ اور خاص کر امیر یزید کے مخالفانہ پروپیگنڈہ نے شدت اختیار کر لی تھی۔
بعض صلحائے امت احقاق کی خاطر انکشاف حقیقت پر کمر بستہ ہوئے منجملہ ان کے شیخ عبدالمغیث بن زبیر الحربی تھے جن کے متعلق علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں۔
کان من سخاء الحنابلة وکان بزار ص ۳۳۸ ج۱۲ البدایہ والنہایتہ
یعنی وہ حنبلی صالحین میں سے مرجع عوام تھے۔ انھوں نے امیر یزید کی حسن سیرت اور اوصاف پر مستقل تصنیف کی:۔
ثله مصنف فی فضل یزید بن معاویة اتی فیه بالغرائب والعجائب ص ۳۲۸ ج ۱۲ البدایہ والنہایتہ
اور ان کی (شیخ عبدالمغیث) کی تصنیف سے فضل یزید بن معاویہ پر ایک کتاب ہے جس میں بہت سے عجیب و غریب حالات بیان کئے ہیں۔


اس سلسلہ میں علامہ ابن کثیر نے یہ لطیف بھی بیان کیا ہے کہ جب کتاب "فضل یزید" کی شہرت ہوئی خلیفہ وقت الناصر الدین الله عباسی شیخ موصوف کی خدمت میں پوشیدہ طور سے یہ تبدیل ہیئت اس طرح آئے کہ کوئی پہچان نہ سکے۔ شیخ نے پہچان تو لیا مگر اظہار نہ کیا خلیفہ الناصر نے امیر یزید کے بارے میں شیخ سے جو سوال کیا اور جو جواب انھوں نے دیا اسے یوں بیان کیا گیا ہے۔
مناله الخلیفة عن یزید الئین ام لا؟؟؟ فقال لااسوغ لعنه لافی لوفتحت ھذا لباب لانفض الناس الیٰ لعن خلیفتنا فقال الخلیفة ولم! قال لانہ یفعل اشیاء منکرة کثیرة؟؟؟اکه اثم شرع یعدد علی الخلیفة الفعاله القی؟؟؟ وما یقع منہ من المنکر لینز عنھا نترکه الخلیفة وخرج من غندہ وقد اثر کلامہ فیه وانتفع به۔ (ص ۳۲۸ ج ۱۲۔ البدایہ والنہایہ)
خلیفہ نے (شیخ عبدالمغیث سے) سبال کیا کہ یزید پر لعن کیا جائے یا نہیں انہوں نے جواب دیا کہ لعن کرنا ہرگز جائز نہیں اور لعن کا دروازہ کھول دیا جائے تو لوگ ہمارے موجودہ خلیفہ پر بھی لعن کرنے لگ جائیں گے۔ خلیفہ نے پوچھا وہ کیوں شیخ نہ کہا کہ وہ بہت سے منکرات پر عمل پیراہوئے جن میں سے یہ اور یہ امور ہیں۔ اھنوں نے خیفہ کے برے افعال گنانے شروع کئے۔ خلیفہ نے گفتگو ترک کردی اور ان کے پاس سے اٹھ آئے لیکن ان کے کلام کا اثر ان کو منفع پہنچا۔
امیر المومنین الناصر الدین عباسی متوفی ۶۲۲ھ کو جن کا ذکر اس روایت میں ہے یہ امتیاز حاصل تھا کہ خلفائے اسلام میں ان کی مدت خلافت سب سے زیادہ رہی یعنی ۴۹ برس ہدایت خود بلند پایہ عالم تھےاور علماء و فضلہ اجازہ بھی حاصل تھا اور فن حدیث میں ان کی کتاب روح العارفین نام سے (الاعلام زرکلی) ۵۸۹ھ میں دارالعلوم نظامیہ بغداد میں دارکتب بصرف کثیر تعمیر کرایا جس میں دس ہزار کتابیں اپنے یہاں سے منتقل کیں۔ (مراء الزمان ج۸ ص ۳۲۰)
نیک کاموں اور خیر خيرات میں دریا دل تھے۔ صاحب مراة الزماں لکھتے ہیں کہ ماہ صیام میں روزہ داروں کی روزہ کشائی و افطار او مسکینوں و فقراء کے کھانے کے لئے شہر کے مختلف حصّوں میں دس مکانوں میں طعام کثیر کا جس میں روغنی، رٹی، حلوہ، اور دیگر اغذیہ ہوتی تھیں۔ ان کے جانب سے کچھ اسی طرح اہتمام ہوتا تھا جس طرح ان کے جدّ اعلیٰ حضرت عباس زمانہ حج میں حاجیوں کے لئے اپنے مال سے رفادہ (سقایہ کا اہتمام کرتے تھے۔ ایسے عام و فاضل اور ان صفات کے عامل امیر المومنین کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ یہ تبدیل ہنیت اپنے ہمعصر محدث کے پاس صرف ہو پوچھنے آئے کہ یزید پر لعن کیا جائے یا نہیں محض لغو ہے۔ صاحب کتاب الذیل علیٰ طبقات الحنابلہ نے ایک فقیہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ امیر المومنین موصوف کی پہلی ملاقات شیخ عبدلامغیث سے امام احمد بن حنبل کے مزار پر اچانک ہوگئی تھی اور اس ملاقات میں ہی انھوں نے شیخ سے دریافت کیا کہ تم ہی کیا وہ حنبلی ہو جنھوں نے "مناقب یزید" پر کتاب لکھی ہے۔ شیخ نے جواباً کہا کہ مناقب پر تو نہیں لکھی البتہ میرا مذہب و مسلک یہ ہے کہ یزید خلیفہ المسلمین تھے۔ ان پر فسق کا الزام بھی تھوپا جائے تب بھی ان کی بیعت توڈنے کا جواز تو ہرگز نہ ہوگا۔ یہ جواب سن کر امیر المومنین خوش ہوئے اور فرمایا۔ احسنت یا حنبلی۔ شیخ عبدلامغیث میں اور ابن الجوزی میں منظرہ و بحث و مباحثہ ہوتا تھا۔ جوان کی وفات تک جاری رہا۔ ملت عبدالمغیث (۵۸۳ھ) وھما متھ جران (کتاب الذیل ص ۳۵۶)
ابن الجوزی نے ان کی کتاب کا رو ؟؟کھا ہے کس کے نام سے ہی انداز ہوتا ہے کہ شیخ موصوف جو کتاب ا؛ذیل علےٰ طبقات الحنابلہ کے الفاظ میں المحدث الزاہد، متدین، راست گفتار، جمیل السیرة، مبتع سنت و حمید الاخلاق تھے خلیفہ یزید کی مذمت کے مانع تھے۔ ان کے مخالف ابن الجوزی نے اپنی کتاب کا نام رکھا تھا الروعلی المتعصب الصنید المانع من ذم یزید (اس ضّدی متعصب کا رد جو مذمت یزید کا مانع ہے) شیخ المغیث نے آنحضرتﷺ کے، حضرت ابوبکرصدیق کے پیچھے نماز ادا فرمانے کے ثبوت میں جو تصنیف کی تھی ابن الجوزی نے اس کا رد بھی لکھا تھا جس کا نام تھا۔ آفة الحدیث الردعلی عبدالمغیث ۔

اقتباس از:خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ ویزید رحمہ اللہ
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
حافظ ذہبی کی اس کتاب کے متعلق رائے بھی ملاحظہ ہو
وَقَدْ أَلّفَ "جُزْءاً" فِي فَضَائِل يَزِيْد أَتَى فِيْهِ بعَجَائِب وَأَوَابد، لَوْ لَمْ يُؤَلّفه، لَكَانَ خَيراً، وَعَمِلَهُ ردّاً عَلَى ابْنِ الجَوْزِيّ، وَوَقَعَ بَيْنهُمَا عدَاوَة.
سیراعلام النبلاء15/349
اورمصنف کے تعلق سے بھی حافظ ذہبی کے خیالات دیکھے جائیں۔
وَلعَبْد المُغِيْثِ غلطَات تَدُلُّ عَلَى قلّة عِلْمه: قَالَ مرَّةً: مُسْلِم بن يَسَارٍ صَحَابِيّ، وَصحّح حَدِيْثَ الاستلقَاء، وَهُوَ مُنْكَر، فَقِيْلَ لَهُ فِي ذلك، فقال: إِذَا رددنَاهُ، كَانَ فِيْهِ إِزرَاء عَلَى مَنْ رَوَاهُ!
جہاں تک خلیفہ کی آمد ورفت کی بات ہے تویہ بات بن تیمیہ نے خود قیل سے بیان کیاہے اورقیل کی اہمیت سے فورم کے متحدثین ناواقف نہیں ہیں۔
حكَى ابْنُ تَيْمِيَّةَ شَيْخُنَا قَالَ: قِيْلَ: إِنَّ الخَلِيْفَةَ النَّاصِرَ لَمَّا بَلَغَهُ نَهْيُ عَبْدِ المُغِيْثِ عَنْ سَبِّ يَزِيْدَ، تَنَكَّرَ، وَقَصَدَهُ
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
حافظ ذہبی کی اس کتاب کے متعلق رائے بھی ملاحظہ ہو
وَقَدْ أَلّفَ "جُزْءاً" فِي فَضَائِل يَزِيْد أَتَى فِيْهِ بعَجَائِب وَأَوَابد، لَوْ لَمْ يُؤَلّفه، لَكَانَ خَيراً، وَعَمِلَهُ ردّاً عَلَى ابْنِ الجَوْزِيّ، وَوَقَعَ بَيْنهُمَا عدَاوَة.سیراعلام النبلاء15/349
عرض ہے کہ بالکل یہی کام امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی کیا چنانچہ امام ابوحنیفہ کی فضیلت میں کتاب لکھی اور اس میں ہرطرح کی من گھڑت اور جھوٹی روایات وعجائبات کو درج کردیا ، حتی کہ اس کتاب کے محقق اور ابوحنیفہ کے دیوانے زاہد کوثری کذاب ودجال نے بھی حواشی میں بعض روایات کو موضوع من گھڑت قرار دیا۔

نیز جس طرح امام ذہبی رحمہ اللہ نے فضل یزید کے بارے میں خیالات ظاہر کئے ہیں اسی طرح امام غزالی رحمہ اللہ کی کتاب الاحیاء کے بارے میں بھی خیالات ظاہر کئے ہیں ، بلکہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے جس طرح فضل یزید پر رد کیا ہے اسی طرح احیاء پر بھی رد کیا اور وہ بھی کئی جلدوں پر مشتمل۔

اسی طرح امام ذہبی رحمہ اللہ نے ابن عربی زندیق کی کتاب ’’الفصوص ‘‘ کے بارے میں فرمایا:
وَمِنْ أَرْدَإِ تَوَالِيفِهِ كِتَابُ (الفُصُوْصِ)، فَإِنْ كَانَ لاَ كُفْرَ فِيْهِ، فَمَا فِي الدُّنْيَا كُفْرٌ، نَسْأَلُ اللهَ العَفْوَ وَالنَّجَاةَ، فَوَاغَوْثَاهُ بِاللهِ![سير أعلام النبلاء للذهبي: 23/ 48]۔
یعنی امام ذہبی کے بقول اگر ابن عربی کی کتاب فصوص میں کفر نہیں ہے تو پھر پوری دنیا میں کہیں بھی کفر کا وجود نہیں ۔

یادرہے کہ ابن عربی زندیق کو بعض الناس اولیاء میں شمار کرتے ہیں ، واللہ المستعان۔


اورمصنف کے تعلق سے بھی حافظ ذہبی کے خیالات دیکھے جائیں۔
وَلعَبْد المُغِيْثِ غلطَات تَدُلُّ عَلَى قلّة عِلْمه: قَالَ مرَّةً: مُسْلِم بن يَسَارٍ صَحَابِيّ، وَصحّح حَدِيْثَ الاستلقَاء، وَهُوَ مُنْكَر، فَقِيْلَ لَهُ فِي ذلك، فقال: إِذَا رددنَاهُ، كَانَ فِيْهِ إِزرَاء عَلَى مَنْ رَوَاهُ!
جمشید صاحب کچھ تو شرم کیجئے آپ کے منقولہ الفاظ سے پہلے حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے جو کچھ کہا ہے اسے چھپا کر حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے خیالات کی ترجمانی کرنا سراسر دھوکہ دہی اورمغالطہ بازی ہے آپ نے جہاں سے حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی تحریر مقتبس کی ہیں ہم اسی سے ذرا پہلے کے الفاظ نقل کرتے ہیں :

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) فرماتے ہیں:
عَبْدُ المُغِيْثِ بنُ زُهَيْرِ بنِ زُهَيْرِ بنِ عَلَوِيٍّ الحَرْبِيُّ ، الشَّيْخُ، الإِمَامُ، المُحَدِّثُ، الزَّاهِدُ، الصَّالِحُ، المُتَّبَعُ، بَقِيَّةُ السَّلَفِ، أَبُو العِزِّ بنُ أَبِي حَرْبٍ البَغْدَادِيُّ، الحَرْبِيُّ. وُلِدَ: سَنَةَ خَمْس مائَة وَعُنِي بِالآثَار، وَقرَأَ الكُتُب، وَنسخ، وَجَمَعَ، وَصَنَّفَ، مَعَ الوَرَع، وَالِدّين، وَالصِّدْق، َالتمسك بِالسُّنَن، وَالوقع فِي النُّفُوْس، وَالجَلاَلَة.
سَمِعَ: أَبَا القَاسِمِ بن الحُصَيْنِ، وَأَبَا العِزِّ بن كَادِشٍ، وَهِبَة اللهِ بن الطَّبرِ، وَأَبَا غَالِب ابْن البَنَّاء، وَقَاضِي المَارستَان، وَعدداً كَثِيْراً.وَرَوَى الكَثِيْر، وَأَفَاد الطلبَة. حَدَّثَ عَنْهُ: الشَّيْخ المُوَفَّق، وَالحَافِظ عَبْد الغَنِيِّ، وَحَمْد بن صُدَيْقٍ، وَالبَهَاء عَبْد الرَّحْمَانِ، وَالحَافِظ مُحَمَّد ابْن الدُّبَيْثِيّ، وَطَائِفَة.وَقَدْ أَلّفَ (جُزْءاً) فِي فَضَائِل يَزِيْد، أَتَى فِيْهِ بعَجَائِب وَأَوَابد، لَوْ لَمْ يُؤَلّفه لَكَانَ خَيراً ، وَعَمِلَهُ ردّاً عَلَى ابْنِ الجَوْزِيّ، وَوَقَعَ بَيْنهُمَا عدَاوَة .وَلعَبْد المُغِيْثِ غلطَات تَدُلُّ عَلَى قلّة عِلْمه: قَالَ مرَّةً: مُسْلِم بن يَسَارٍ صَحَابِيّ، وَصحّح حَدِيْثَ الاستلقَاء، وَهُوَ مُنْكَر، فَقِيْلَ لَهُ فِي ذَلِكَ، فَقَالَ: إِذَا رددنَاهُ، كَانَ فِيْهِ إِزرَاء عَلَى مَنْ رَوَاهُ!۔۔۔
[سير أعلام النبلاء للذهبي: 21/ 161]۔


آپ نے صرف وہ حصہ نقل کیا ہے جسے میں نے لال رنگ سے نمایاں کیا ہے اوراس سے قبل امام ذہبی رحمہ اللہ کے جن الفاظ کو آپ نے چھوڑ دیا ان میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے جن القاب اورخوبیوں کے ساتھ امام عبدالمغیث رحمہ اللہ کا تذکرہ کیا ہے اسے آپ ہضم کرگئے ۔

اورایک دوسرے مقام پر امام ذہبی رحمہ اللہ انہیں پوری صراحت کے ساتھ ثقہ اور محدث ومفتی قراردیتے ہوئے فرماتے ہیں:
وعبد المغيث بن زهير أبو العز الحربي محدث بغداد وصالحها وأحد من عني بالأثر والسنة سمع ابن الحصين وطبقته وتوفي في المحرم عن ثلاث وثمانين سنة وكان ثقة سنيا مفتيا صاحب طريقة حميدة تبارد وصنف جزءا في فضايل يزيد أتى فيه بالموضوعات[العبر في خبر من غبر 4/ 249]


جہاں تک تقلیل علم کی بات ہے تو:

اولا:
امام ذہبی رحمہ اللہ کا یہ تبصرہ نسبتا ہے یعنی کبار اہل علم جیسا ان کا علم نہیں تھا کیونکہ خود امام ذہبی رحمہ اللہ نے انہیں ،شیخ ، امام ، محدث ، مفتی، احادیث وسنن کے جامع اور مصنف کہا ہے ، لہٰذا یہاں قلت علم کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان کا علم بے چارے جمشید صاحب کے متبوعین سے بھی کم تھا ۔
ثانیا:
امام ذہبی رحمہ اللہ نے تقلیل علم کی بات ان کی بعض غلطیوں بناپر کہی ہے اور ان غلطیوں میں رواۃ کی تعیین اور سند کی تصحیح کو بطور مثال پیش کیا ہے ، اور ایسی ہی کچھ چیزوں کو بنیاد بناکر امام ذہبی رحمہ اللہ کے استاذ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے امام طحاوی کے علم کا حدود اربعہ بھی بیان کیا ہے لیکن جمشید صاحب یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کیونکہ مسئلہ اپنے متبوعین کیا ہے۔


جہاں تک خلیفہ کی آمد ورفت کی بات ہے تویہ بات بن تیمیہ نے خود قیل سے بیان کیاہے اورقیل کی اہمیت سے فورم کے متحدثین ناواقف نہیں ہیں۔
حكَى ابْنُ تَيْمِيَّةَ شَيْخُنَا قَالَ: قِيْلَ: إِنَّ الخَلِيْفَةَ النَّاصِرَ لَمَّا بَلَغَهُ نَهْيُ عَبْدِ المُغِيْثِ عَنْ سَبِّ يَزِيْدَ، تَنَكَّرَ، وَقَصَدَهُ
یہاں قیل کی کمزوری تو نظر آگئی لیکن جہاں یزید کی مذمت کرنی ہو وہاں قیل ہی نہیں بلکہ کذاب کا مقولہ بھی قابل ایمان ولائق تسلیم ہوجاتاہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
میں نے عبدالمغیث کے تعلق سے حافظ ذہبی کے دوایسے اقتباس سامنے رکھے تھے جس کا تعلق زیر بحث موضوع سے ہے
مجھے عبدالمغیث کی شخصیت پر تبصرہ نہیں کرناتھا ۔اگرمیں عبدالمغیث پر کوئی آرٹیکل لکھتااورپھرایساکرتاتواسے خیانت سمجھاجاسکتاتھا۔ مجھے صرف کتاب کی وضاحت کرنی تھی اوربتانایہ تھاکہ کتاب کا مقام ومرتبہ کیاہے۔اس کیلئے میں نے جتنالکھااورجتناچھوڑا وہ علمی منہج کے لحاظ سے قطعادرست ہے۔
اگربالفرض یہ مان لیں کہ یہ علمی خیانت ہے تواس لائن میں بڑے بڑے کبارشیوخ کھڑے نظرآئیں گے۔بشمول کفایت اللہ صاحب۔

جہاں تک تقلیل علم کی بات ہے تو:
اولا:
امام ذہبی رحمہ اللہ کا یہ تبصرہ نسبتا ہے یعنی کبار اہل علم جیسا ان کا علم نہیں تھا کیونکہ خود امام ذہبی رحمہ اللہ نے انہیں ،شیخ ، امام ، محدث ، مفتی، احادیث وسنن کے جامع اور مصنف کہا ہے ، لہٰذا یہاں قلت علم کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان کا علم بے چارے جمشید صاحب کے متبوعین سے بھی کم تھا ۔
جناب آپ ناراض کیوں ہوتے ہیں!آپ کی ناراضگی کو دیکھتے ہوئے ہم مان لیتے ہیں کہ عبدالمغیث علم میں ابن تیمیہ کے برابر تھے۔یاپھر تمام اکابرین غیرمقلدین کے ہم پایہ تھے ۔اب توآپ خوش ہیں۔
ثانیا:
امام ذہبی رحمہ اللہ نے تقلیل علم کی بات ان کی بعض غلطیوں بناپر کہی ہے اور ان غلطیوں میں رواۃ کی تعیین اور سند کی تصحیح کو بطور مثال پیش کیا ہے۔
غلطی کی نوعیت میں بھی بہت زیادہ فرق ہواکرتاہے۔ایک غلطی ایسی ہوتی ہے جس پر کوئی کچھ نہیں کہتالیکن دوسری قسم کی غلطی پر ہرایک ٹوکتاہے۔ اب ہمیں دیکھنایہ ہے کہ موصوف کی غلطیاں کس نوعیت کی ہیں۔
حافظ ذہبی نے بڑے بڑے اکابراورمجتہدین کی غلطیوں پر استداراک کیاہے اس کتاب میں ۔ لیکن کتنے مقام پر ایسے الفاظ ملتے ہیں کہ
وَلعَبْد المُغِيْثِ غلطَات تَدُلُّ عَلَى قلّة عِلْمه
عبدالمغیث کی کچھ غلطیاں ایسی ہیں جو اس کے قلت علم کا پتہ دیتی ہیں تومسئلہ صرف غلطی کا نہیں جیساکہ کفایت اللہ صاحب ہمیں باورکراناچاہ رہے ہیں بلکہ غلطی کی نوعیت کاہے۔ جس سے کفایت اللہ صاحب صرف نظرکرناچاہ رہے ہیں۔
اورپھراسی کی حافظ ذہبی نے ایک مثال پیش کی ہے۔ واضح رہے کہ صرف ایک مثال
قَالَ مرَّةً: مُسْلِم بن يَسَارٍ صَحَابِيّ، وَصحّح حَدِيْثَ الاستلقَاء، وَهُوَ مُنْكَر، فَقِيْلَ لَهُ فِي ذَلِكَ، فَقَالَ: إِذَا رددنَاهُ، كَانَ فِيْهِ إِزرَاء عَلَى مَنْ رَوَاهُ
ایک مرتبہ انہوں نے کہاکہ مسلم بن یسار صحابی ہیں۔ اوراسی طرح استلقاء کی منکر حدیث کو صحیح قراردیا اس بارے میں جب ان سے کہاگیاتوانہوں نے جواب دیاکہ اگرہم اس حدیث کو رد کردیں تواس سے روایت کرنے پر بٹہ لگتاہے۔
واضح رہے کہ اگرکسی کی صحابیت یاتابعیت کے بارے میں اختلاف ہو اورپھرکوئی اس کو صحابی کہے اورکوئی تابعی تویہ غلطی تحقیق کی غلطی ہوتی ہے لیکن کوئی حسن بصری کو صحابی کہنے لگے، اویس قرنی کو صحابی کہنے لگےسعید بن المسیب کو صحابی کہنے لگے تو اس سے آپ کیاسمجھیں گے۔پھریہ بات کسی حد تک نظرانداز کرنے کے قابل ہے
لیکن اس کے بعد انہوں نے جوکچھ کہاہے وہ نظرانداز کرنے کے قابل نہیں کہ ایک منکر حدیث کومحض اس لئے صحیح قراردیاکہ اگراس کو رد کردیاجائے تویہ روایت کرنے کیلئے باعث عیب اوربٹہ ہوگا۔
اور ایسی ہی کچھ چیزوں کو بنیاد بناکر امام ذہبی رحمہ اللہ کے استاذ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے امام طحاوی کے علم کا حدود اربعہ بھی بیان کیا ہے لیکن جمشید صاحب یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کیونکہ مسئلہ اپنے متبوعین کیا ہے۔
کفایت اللہ صاحب نے پھردوسری بحث چھیڑدی ہے لیکن مختصراعرض ہے کہ اپنے ہی اصول کے اعتبار سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ بھی اسی مقام پر نظرآئیں گے جہاں وہ امام طحاوی کو رکھناچاہئے ہیں یاجس کی خواہش کفایت اللہ صاحب کو ہے۔ چاہ کن راچاہ درپیش ۔اس کے بارے میں تفصیلی بات دوسرے تھریڈ میں ہوچکی ہے لہذا اس کی ضرورت نہیں کہ یہاں بھی اس کو دوہرایاجائے۔
کفایت اللہ صاحب کا اصرار ہے کہ میں نے ترجمہ کے شروع میں حافظ ذہبی نے جو القاب وآداب ذکر کئے ہیں ان کو ذکرنہیں کیالہذا یہ خیانت ہوئی۔
جمشید صاحب کچھ تو شرم کیجئے آپ کے منقولہ الفاظ سے پہلے حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے جو کچھ کہا ہے اسے چھپا کر حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے خیالات کی ترجمانی کرنا سراسر دھوکہ دہی اورمغالطہ بازی ہے
عربی کا ایک مقولہ ہے ۔حفظت شیئا وغابت عنک الاشیاء۔ایک چیز توتم نے یاد رکھی اوربقیہ دیگر کو بھلادیا۔اس کا مصداق ذیل میں ملاحظہ کیجئے۔
مراسلہ نگار شہزاد صاحب نےحافظ ابن کثیر کی کتاب البدایہ والنہایہ سے اقتباس دیا۔
ولہ مصنف فی فضل یزید بن معاویة اتی فیه بالغرائب والعجائب ص ۳۲۸ ج ۱۲ البدایہ والنہایتہ
اور ان کی (شیخ عبدالمغیث) کی تصنیف سے فضل یزید بن معاویہ پر ایک کتاب ہے جس میں بہت سے عجیب و غریب حالات بیان کئے ہیں۔
یہاں پر مراسلہ نگار نے بات کو ختم کردیاہے۔
جب کہ حافظ ابن کثیر کی پوری بات یہ تھی۔
وَلَهُ مُصَنَّفٌ فِي فَضْلِ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، أتى فيه بالغرائب والعجائب، وَقَدْ رَدَّ عَلَيْهِ أَبُو الْفَرَجِ بْنُ الْجَوْزِيِّ فَأَجَادَ وَأَصَابَ
اوران کی یزید بن معاویہ کہ فضیلت پر ایک تصنیف ہے جس میں انہوں نے عجیب وغریب باتیں لکھی ہیں ۔اس کتاب پر ابوالفرج ابن جوزی نے ردلکھاہے اوراس تنقیدی کتاب میں انہوں نے بہت بہتر رداوردرست تنقید کی ہے۔
یہ آخر کے جملے حذف کیوں کئے
کیایہ کفایت اللہ صاحب کے نقطہ نظرسے خیانت نہیں ؟
اگرخیانت ہے تواتناعرصہ خاموش کیوں رہے؟انہیں تواہل حدیث ہونے کا بھرم رکھتے ہوئے بلاکسی ہچک وجھجھک اس پر رد کرناتھا
لیکن وہ اس لئے خاموش رہے کہ مراسلہ نگار چونکہ ان کے مشن فضل یزید بن معاویہ کامدد گاراومعاون تھے توسوخون معاف ہوئے۔لیکن اگرجمشید نے صاحب کتاب کی فضیلت سے اعراض کرتے ہوئے محض کتاب پر اپنی توجہ مرکوز رکھی تواس کیلئے سراسر دھوکہ دہی،مغالطہ بازی کے جملے سے بھی گریز نہیں۔وللہ فی خلقہ شئون
کفایت اللہ صاحب کہتے ہیں۔
عرض ہے کہ بالکل یہی کام امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی کیا چنانچہ امام ابوحنیفہ کی فضیلت میں کتاب لکھی اور اس میں ہرطرح کی من گھڑت اور جھوٹی روایات وعجائبات کو درج کردیا ، حتی کہ اس کتاب کے محقق اور ابوحنیفہ کے دیوانے زاہد کوثری کذاب ودجال نے بھی حواشی میں بعض روایات کو موضوع من گھڑت قرار دیا۔
کفایت اللہ صاحب اپنے خیالات میں آزاد ہیں ۔لیکن حافظ ذہبی کے جوخیالات ہیں اس کا انکار نہیں کیاجاسکتا۔آپ حافظ ذہبی کے تعلق سے کچھ بھی خیال رکھیں لیکن حافظ ذہبی کا اپناجوخیال ہے وہ اپنی جگہ برقرار رہے گاچاہے وہ خیال صحیح ہو یاغلط۔
کفایت اللہ صاحب شیخ زاہدالکوثری کو ابوحنیفہ کے دیوانے سے تعبیر کرتے ہیں لیکن اس کی ساتھ وہ بھول جاتے ہیں کہ ایک مزید شخص ہےمقبل الوادعی جو امام ابوحنیفہ کے بغض اورنفرت میں دیوانہ ہے اوراگرکسی نے امام ابوحنیفہ کی تعریف وغیرہ کردی تواس کو وہ ہدم السنۃ سے تعبیر کرتاہے ۔نعوذباللہ من الجہل ۔اشارہ توسمجھ گئے ہوں گے ۔

نیز جس طرح امام ذہبی رحمہ اللہ نے فضل یزید کے بارے میں خیالات ظاہر کئے ہیں اسی طرح امام غزالی رحمہ اللہ کی کتاب الاحیاء کے بارے میں بھی خیالات ظاہر کئے ہیں ،
حافظ ذہبی کی تنقید سرآنکھوں پر ۔مگریہ کہاں لکھاہے کہ ان کی کچھ غلطیاں ایسی ہیں جوان کے قلت علم پر دلالت کرتی ہیں ۔امام غزالی کو خود ہی علم حدیث میں کمزوری کا اعتراف تھاتوان کی غلطیاں معافی کے قابل ہیں لیکن ایک شخص جومحدث ہواورپھریہ کہے کہ منکر حدیث کو محض اس لئے درست قراردے رہاہوں کہ روایت کرنے والے پربٹہ نہ لگے۔ببیں تفاوت رہ ازکجاتابہ کجااست
بلکہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے جس طرح فضل یزید پر رد کیا ہے اسی طرح احیاء پر بھی رد کیا اور وہ بھی کئی جلدوں پر مشتمل۔
حافظ ذہبی نے ابن جوزی کی کتابوں کا تعارف کراتے ہوئے لکھاہے کہ ان کی مذکورہ کتاب جو احیاء علوم الدین کے نقد پر دوجزء میں ہے۔ جوکتاب صرف دوجزء میں ہو اس کو کئی جلدوں پر مشتمل بنادیناکفایت اللہ صاحب کاکارنامہ ہے۔
یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ کفایت اللہ صاحب نے یہ توبتادیاکہ انہوں نے اس کتاب کا رد لکھاہے لیکن یہ نہیں بتایاکہ احیاء علوم الدین کی اہمیت وقبولیت عام کے پیش نظراس کا اختصاربھی کیاہے۔ جس کا نام منہاج القاصدین رکھاہے۔
کیااسے ہم دھوکہ دہی، مغالطہ بازی سے تعبیر کرسکتے ہیں اورکیلابکیل اورصاعابصاع کے طورپر کچھ شرم کی توقع کرسکتے ہیں؟
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اسی طرح امام ذہبی رحمہ اللہ نے ابن عربی زندیق کی کتاب ’’الفصوص ‘‘ کے بارے میں فرمایا:
وَمِنْ أَرْدَإِ تَوَالِيفِهِ كِتَابُ (الفُصُوْصِ)، فَإِنْ كَانَ لاَ كُفْرَ فِيْهِ، فَمَا فِي الدُّنْيَا كُفْرٌ، نَسْأَلُ اللهَ العَفْوَ وَالنَّجَاةَ، فَوَاغَوْثَاهُ بِاللهِ![سير أعلام النبلاء للذهبي: 23/ 48]۔
یعنی امام ذہبی کے بقول اگر ابن عربی کی کتاب فصوص میں کفر نہیں ہے تو پھر پوری دنیا میں کہیں بھی کفر کا وجود نہیں ۔

یادرہے کہ ابن عربی زندیق کو بعض الناس اولیاء میں شمار کرتے ہیں ، واللہ المستعان۔
میں نے کسی موقع پر ابن قیم اورحافظ ذہبی کے حوالہ سے کچھ لکھاہے ۔ ملنے پر پوسٹ کردوں گاکہ ان حضرات کانظریہ ابن عربی کے تعلق سے کیاتھا۔
سردست پیراگراف کی آخری لائن پر کچھ بات کرلیتے ہیں۔کہ ابن عربی زندیق کو بعض الناس اولیاء میں شمار کرتے ہیں۔
ابن عربی فروعات میں ظاہری تھے اوراس کے ساتھ وہ عدم تقلید کے بھی قائل تھے چنانچہ انہوں نے اپنی کتاب میں تقلید کی مذمت اوررد میں پوراباب لکھاہے۔
اب خود غورکرلیجئے کہ ابن عربی آپ کے کیالگتے ہیں۔ علاتی بھائی یاکچھ اور
آج کل کے غیرمقلدین کی بنیاد یہی دوچیزیں ہیں کتاب وسنت کا نعرہ اورعدم تقلید کی دہائی اوراسی کے قائل ابن عربی بھی تھے تو بعض الناس سے زیادہ فکر ان لوگوں کو ہوناچاہئے جن کافکری شجرہ نسب ابن عربی سےجاکر ملتاہے۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
جمشید صاحب نے اول اول فرمایا:
اورمصنف کے تعلق سے بھی حافظ ذہبی کے خیالات دیکھے جائیں۔
وَلعَبْد المُغِيْثِ غلطَات تَدُلُّ عَلَى قلّة عِلْمه: قَالَ مرَّةً: مُسْلِم بن يَسَارٍ صَحَابِيّ، وَصحّح حَدِيْثَ الاستلقَاء، وَهُوَ مُنْكَر، فَقِيْلَ لَهُ فِي ذلك، فقال: إِذَا رددنَاهُ، كَانَ فِيْهِ إِزرَاء عَلَى مَنْ رَوَاهُ!
اور کفایت اللہ صاحب کی گرفت کے بعد پینترا:
مجھے عبدالمغیث کی شخصیت پر تبصرہ نہیں کرناتھا ۔اگرمیں عبدالمغیث پر کوئی آرٹیکل لکھتااورپھرایساکرتاتواسے خیانت سمجھاجاسکتاتھا۔ مجھے صرف کتاب کی وضاحت کرنی تھی اوربتانایہ تھاکہ کتاب کا مقام ومرتبہ کیاہے۔اس کیلئے میں نے جتنالکھااورجتناچھوڑا وہ علمی منہج کے لحاظ سے قطعادرست ہے۔
لیکن وہ اس لئے خاموش رہے کہ مراسلہ نگار چونکہ ان کے مشن فضل یزید بن معاویہ کامدد گاراومعاون تھے توسوخون معاف ہوئے۔لیکن اگرجمشید نے صاحب کتاب کی فضیلت سے اعراض کرتے ہوئے محض کتاب پر اپنی توجہ مرکوز رکھی تواس کیلئے سراسر دھوکہ دہی،مغالطہ بازی کے جملے سے بھی گریز نہیں۔وللہ فی خلقہ شئون
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا۔
جمشید صاحب، کیا خیال ہے؟

کیااسے ہم دھوکہ دہی، مغالطہ بازی سے تعبیر کرسکتے ہیں اورکیلابکیل اورصاعابصاع کے طورپر کچھ شرم کی توقع کرسکتے ہیں؟
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
آج کل کے غیرمقلدین کی بنیاد یہی دوچیزیں ہیں کتاب وسنت کا نعرہ اورعدم تقلید کی دہائی اوراسی کے قائل ابن عربی بھی تھے تو بعض الناس سے زیادہ فکر ان لوگوں کو ہوناچاہئے جن کافکری شجرہ نسب ابن عربی سےجاکر ملتاہے۔
چلیں، آپ نے ان علماء کی مخالفت تو کی ، جنہیں دن رات یہ فکر ستائے جاتی ہے کہ اہلحدیث کو انگریز کے دور کی پیداوار قرار دیں، چاہے خود ان کے مسلک کی بنیاد انگریز سے قبل ثابت نہ ہو سکتی ہو۔
رہی بات ابن عربی کی، تو جو دو بنیادیں آپ نے بتائی ہیں، اس میں کتاب و سنت کا نعرہ تو آپ کے ہمارے بیچ مشترک ہے۔ یا مجھے ہی کوئی غلط فہمی ہوئی ہے؟
ویسے، جس طرح مرزا غلام احمد قادیانی سے آپ کا فکری شجرہ نسب ملنے کے باوجود، اس کی ضلالت و گمراہی کا وبال آپ اپنے سر نہیں لیتے، تو ابن عربی کے ایمان کی فکر بھی انہیں کرنے دیجئے جو بندے کو باطن میں خدا بنانے کا فارمولا دریافت کئے بیٹھے ہیں۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
یزید نے اپنے لشکر کے ذریعے سے اہل مدینہ کے دل میں خوف ڈالا نہ صرف خوف ڈالا بلکہ اہل مدینہ کی جان اور آبرو بھی یزیدی لشکر نے پامال کی یہ ایک تاریخی حقیقت ہے اہل مدینہ کو صرف ڈرانے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ڈرانے والوں کے لئے وعید اور اللہ اور اس کے فرشتتوں اور تمام لوگوں کی لعنت

من أخافَ أهلَ المدينةِ أخافه اللهُ وعليه لعنةُ اللهِ والملائكةِ والناسِ أجمعينَ لا يُقبلُ منه صرفٌ ولا عدلٌ

الراوي: السائب بن خلاد المحدث:الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 6/373
خلاصة حكم المحدث: إسناد صحيح على شرط الشيخين


اور اگر ان پر فوجیں مدینہ کے اطراف سے آتیں پھر ان سے کفر چاہتیں تو ضرور ان کا مانگا دے بیٹھتے اور اس میں دیر نہ کرتے مگر تھوڑی
سورۃ الاحزاب: 14

اس آیت کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ یہی فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ حرہ کی طرف اشارہ ہے جس میں یزیدی فوج نے مدینہ شریف کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا
عن ابنِ عباسٍ قال جاء تأويلُ هذه الآيةِ على رأسِ ستين سنةً { وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِم مِّنْ أَقْطَارِهَا ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَةَ لآتَوْهَا } يعني إدخالَ بني حارثةَ أهلَ الشامِ على أهلِ المدينةِ في وقعةِ الحَرَّةِ

الراوي: [عكرمة مولى ابن عباس] المحدث:ابن حجر العسقلاني - المصدر: فتح الباري لابن حجر - الصفحة أو الرقم: 13/76
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : ( إن الله حبس عن مكة الفيل ، وسلط عليهم رسوله والمؤمنين ، ألا وإنها لم تحل لأحد قبلي ، ولا تحل لأحد بعدي ، ألا وإنما أحلت لي ساعة من نهار ، ألا وإنها ساعتي هذه حرام

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ سے ہاتھیوں کے (شاہ یمن ابرہہ کے) لشکر کو روک دیا تھا لیکن اس نے اپنے رسول اور مومنوں کو اس پر غلبہ دیا۔ ہاں یہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوا تھا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہو گا اور میرے لیے بھی دن کو صرف ایک ساعت کے لیے۔ اب اس وقت سے اس کی حرمت پھر قائم ہو گئی

الراوي: أبو هريرة المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم:6880
الراوي: أبو هريرة المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 2434
الراوي: أبو هريرة المحدث:مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1355
الراوي: أبو هريرة المحدث:الألباني - المصدر: صحيح أبي داود - الصفحة أو الرقم: 2017
خلاصة حكم المحدث: صحيح
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : ( إن الله حبس عن مكة الفيل ، وسلط عليهم رسوله والمؤمنين ، ألا وإنها لم تحل لأحد قبلي ، ولا تحل لأحد بعدي ، ألا وإنما أحلت لي ساعة من نهار ، ألا وإنها ساعتي هذه حرام

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ سے ہاتھیوں کے (شاہ یمن ابرہہ کے) لشکر کو روک دیا تھا لیکن اس نے اپنے رسول اور مومنوں کو اس پر غلبہ دیا۔ ہاں یہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوا تھا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہو گا اور میرے لیے بھی دن کو صرف ایک ساعت کے لیے۔ اب اس وقت سے اس کی حرمت پھر قائم ہو گئی

الراوي: أبو هريرة المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم:6880
الراوي: أبو هريرة المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 2434
الراوي: أبو هريرة المحدث:مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1355
الراوي: أبو هريرة المحدث:الألباني - المصدر: صحيح أبي داود - الصفحة أو الرقم: 2017
خلاصة حكم المحدث: صحيح

خانہ کعبہ میں آگ لگنا ، ذمہ دار کون؟؟؟
 
Top