ناظم شهزاد٢٠١٢
مشہور رکن
- شمولیت
- جولائی 07، 2012
- پیغامات
- 258
- ری ایکشن اسکور
- 1,533
- پوائنٹ
- 120
بنو امیہ کی مخالفت
پانچویں و چھٹی صدی ہجری کا وہ زمانہ ہے۔ جب بنی امیہ اور خاص کر امیر یزید کے مخالفانہ پروپیگنڈہ نے شدت اختیار کر لی تھی۔
بعض صلحائے امت احقاق کی خاطر انکشاف حقیقت پر کمر بستہ ہوئے منجملہ ان کے شیخ عبدالمغیث بن زبیر الحربی تھے جن کے متعلق علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں۔
کان من سخاء الحنابلة وکان بزار ص ۳۳۸ ج۱۲ البدایہ والنہایتہ
یعنی وہ حنبلی صالحین میں سے مرجع عوام تھے۔ انھوں نے امیر یزید کی حسن سیرت اور اوصاف پر مستقل تصنیف کی:۔
ثله مصنف فی فضل یزید بن معاویة اتی فیه بالغرائب والعجائب ص ۳۲۸ ج ۱۲ البدایہ والنہایتہ
اور ان کی (شیخ عبدالمغیث) کی تصنیف سے فضل یزید بن معاویہ پر ایک کتاب ہے جس میں بہت سے عجیب و غریب حالات بیان کئے ہیں۔
اس سلسلہ میں علامہ ابن کثیر نے یہ لطیف بھی بیان کیا ہے کہ جب کتاب "فضل یزید" کی شہرت ہوئی خلیفہ وقت الناصر الدین الله عباسی شیخ موصوف کی خدمت میں پوشیدہ طور سے یہ تبدیل ہیئت اس طرح آئے کہ کوئی پہچان نہ سکے۔ شیخ نے پہچان تو لیا مگر اظہار نہ کیا خلیفہ الناصر نے امیر یزید کے بارے میں شیخ سے جو سوال کیا اور جو جواب انھوں نے دیا اسے یوں بیان کیا گیا ہے۔
مناله الخلیفة عن یزید الئین ام لا؟؟؟ فقال لااسوغ لعنه لافی لوفتحت ھذا لباب لانفض الناس الیٰ لعن خلیفتنا فقال الخلیفة ولم! قال لانہ یفعل اشیاء منکرة کثیرة؟؟؟اکه اثم شرع یعدد علی الخلیفة الفعاله القی؟؟؟ وما یقع منہ من المنکر لینز عنھا نترکه الخلیفة وخرج من غندہ وقد اثر کلامہ فیه وانتفع به۔ (ص ۳۲۸ ج ۱۲۔ البدایہ والنہایہ)
خلیفہ نے (شیخ عبدالمغیث سے) سبال کیا کہ یزید پر لعن کیا جائے یا نہیں انہوں نے جواب دیا کہ لعن کرنا ہرگز جائز نہیں اور لعن کا دروازہ کھول دیا جائے تو لوگ ہمارے موجودہ خلیفہ پر بھی لعن کرنے لگ جائیں گے۔ خلیفہ نے پوچھا وہ کیوں شیخ نہ کہا کہ وہ بہت سے منکرات پر عمل پیراہوئے جن میں سے یہ اور یہ امور ہیں۔ اھنوں نے خیفہ کے برے افعال گنانے شروع کئے۔ خلیفہ نے گفتگو ترک کردی اور ان کے پاس سے اٹھ آئے لیکن ان کے کلام کا اثر ان کو منفع پہنچا۔
امیر المومنین الناصر الدین عباسی متوفی ۶۲۲ھ کو جن کا ذکر اس روایت میں ہے یہ امتیاز حاصل تھا کہ خلفائے اسلام میں ان کی مدت خلافت سب سے زیادہ رہی یعنی ۴۹ برس ہدایت خود بلند پایہ عالم تھےاور علماء و فضلہ اجازہ بھی حاصل تھا اور فن حدیث میں ان کی کتاب روح العارفین نام سے (الاعلام زرکلی) ۵۸۹ھ میں دارالعلوم نظامیہ بغداد میں دارکتب بصرف کثیر تعمیر کرایا جس میں دس ہزار کتابیں اپنے یہاں سے منتقل کیں۔ (مراء الزمان ج۸ ص ۳۲۰)
نیک کاموں اور خیر خيرات میں دریا دل تھے۔ صاحب مراة الزماں لکھتے ہیں کہ ماہ صیام میں روزہ داروں کی روزہ کشائی و افطار او مسکینوں و فقراء کے کھانے کے لئے شہر کے مختلف حصّوں میں دس مکانوں میں طعام کثیر کا جس میں روغنی، رٹی، حلوہ، اور دیگر اغذیہ ہوتی تھیں۔ ان کے جانب سے کچھ اسی طرح اہتمام ہوتا تھا جس طرح ان کے جدّ اعلیٰ حضرت عباس زمانہ حج میں حاجیوں کے لئے اپنے مال سے رفادہ (سقایہ کا اہتمام کرتے تھے۔ ایسے عام و فاضل اور ان صفات کے عامل امیر المومنین کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ یہ تبدیل ہنیت اپنے ہمعصر محدث کے پاس صرف ہو پوچھنے آئے کہ یزید پر لعن کیا جائے یا نہیں محض لغو ہے۔ صاحب کتاب الذیل علیٰ طبقات الحنابلہ نے ایک فقیہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ امیر المومنین موصوف کی پہلی ملاقات شیخ عبدلامغیث سے امام احمد بن حنبل کے مزار پر اچانک ہوگئی تھی اور اس ملاقات میں ہی انھوں نے شیخ سے دریافت کیا کہ تم ہی کیا وہ حنبلی ہو جنھوں نے "مناقب یزید" پر کتاب لکھی ہے۔ شیخ نے جواباً کہا کہ مناقب پر تو نہیں لکھی البتہ میرا مذہب و مسلک یہ ہے کہ یزید خلیفہ المسلمین تھے۔ ان پر فسق کا الزام بھی تھوپا جائے تب بھی ان کی بیعت توڈنے کا جواز تو ہرگز نہ ہوگا۔ یہ جواب سن کر امیر المومنین خوش ہوئے اور فرمایا۔ احسنت یا حنبلی۔ شیخ عبدلامغیث میں اور ابن الجوزی میں منظرہ و بحث و مباحثہ ہوتا تھا۔ جوان کی وفات تک جاری رہا۔ ملت عبدالمغیث (۵۸۳ھ) وھما متھ جران (کتاب الذیل ص ۳۵۶)
ابن الجوزی نے ان کی کتاب کا رو ؟؟کھا ہے کس کے نام سے ہی انداز ہوتا ہے کہ شیخ موصوف جو کتاب ا؛ذیل علےٰ طبقات الحنابلہ کے الفاظ میں المحدث الزاہد، متدین، راست گفتار، جمیل السیرة، مبتع سنت و حمید الاخلاق تھے خلیفہ یزید کی مذمت کے مانع تھے۔ ان کے مخالف ابن الجوزی نے اپنی کتاب کا نام رکھا تھا الروعلی المتعصب الصنید المانع من ذم یزید (اس ضّدی متعصب کا رد جو مذمت یزید کا مانع ہے) شیخ المغیث نے آنحضرتﷺ کے، حضرت ابوبکرصدیق کے پیچھے نماز ادا فرمانے کے ثبوت میں جو تصنیف کی تھی ابن الجوزی نے اس کا رد بھی لکھا تھا جس کا نام تھا۔ آفة الحدیث الردعلی عبدالمغیث ۔
اقتباس از:خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ ویزید رحمہ اللہ
پانچویں و چھٹی صدی ہجری کا وہ زمانہ ہے۔ جب بنی امیہ اور خاص کر امیر یزید کے مخالفانہ پروپیگنڈہ نے شدت اختیار کر لی تھی۔
بعض صلحائے امت احقاق کی خاطر انکشاف حقیقت پر کمر بستہ ہوئے منجملہ ان کے شیخ عبدالمغیث بن زبیر الحربی تھے جن کے متعلق علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں۔
کان من سخاء الحنابلة وکان بزار ص ۳۳۸ ج۱۲ البدایہ والنہایتہ
یعنی وہ حنبلی صالحین میں سے مرجع عوام تھے۔ انھوں نے امیر یزید کی حسن سیرت اور اوصاف پر مستقل تصنیف کی:۔
ثله مصنف فی فضل یزید بن معاویة اتی فیه بالغرائب والعجائب ص ۳۲۸ ج ۱۲ البدایہ والنہایتہ
اور ان کی (شیخ عبدالمغیث) کی تصنیف سے فضل یزید بن معاویہ پر ایک کتاب ہے جس میں بہت سے عجیب و غریب حالات بیان کئے ہیں۔
اس سلسلہ میں علامہ ابن کثیر نے یہ لطیف بھی بیان کیا ہے کہ جب کتاب "فضل یزید" کی شہرت ہوئی خلیفہ وقت الناصر الدین الله عباسی شیخ موصوف کی خدمت میں پوشیدہ طور سے یہ تبدیل ہیئت اس طرح آئے کہ کوئی پہچان نہ سکے۔ شیخ نے پہچان تو لیا مگر اظہار نہ کیا خلیفہ الناصر نے امیر یزید کے بارے میں شیخ سے جو سوال کیا اور جو جواب انھوں نے دیا اسے یوں بیان کیا گیا ہے۔
مناله الخلیفة عن یزید الئین ام لا؟؟؟ فقال لااسوغ لعنه لافی لوفتحت ھذا لباب لانفض الناس الیٰ لعن خلیفتنا فقال الخلیفة ولم! قال لانہ یفعل اشیاء منکرة کثیرة؟؟؟اکه اثم شرع یعدد علی الخلیفة الفعاله القی؟؟؟ وما یقع منہ من المنکر لینز عنھا نترکه الخلیفة وخرج من غندہ وقد اثر کلامہ فیه وانتفع به۔ (ص ۳۲۸ ج ۱۲۔ البدایہ والنہایہ)
خلیفہ نے (شیخ عبدالمغیث سے) سبال کیا کہ یزید پر لعن کیا جائے یا نہیں انہوں نے جواب دیا کہ لعن کرنا ہرگز جائز نہیں اور لعن کا دروازہ کھول دیا جائے تو لوگ ہمارے موجودہ خلیفہ پر بھی لعن کرنے لگ جائیں گے۔ خلیفہ نے پوچھا وہ کیوں شیخ نہ کہا کہ وہ بہت سے منکرات پر عمل پیراہوئے جن میں سے یہ اور یہ امور ہیں۔ اھنوں نے خیفہ کے برے افعال گنانے شروع کئے۔ خلیفہ نے گفتگو ترک کردی اور ان کے پاس سے اٹھ آئے لیکن ان کے کلام کا اثر ان کو منفع پہنچا۔
امیر المومنین الناصر الدین عباسی متوفی ۶۲۲ھ کو جن کا ذکر اس روایت میں ہے یہ امتیاز حاصل تھا کہ خلفائے اسلام میں ان کی مدت خلافت سب سے زیادہ رہی یعنی ۴۹ برس ہدایت خود بلند پایہ عالم تھےاور علماء و فضلہ اجازہ بھی حاصل تھا اور فن حدیث میں ان کی کتاب روح العارفین نام سے (الاعلام زرکلی) ۵۸۹ھ میں دارالعلوم نظامیہ بغداد میں دارکتب بصرف کثیر تعمیر کرایا جس میں دس ہزار کتابیں اپنے یہاں سے منتقل کیں۔ (مراء الزمان ج۸ ص ۳۲۰)
نیک کاموں اور خیر خيرات میں دریا دل تھے۔ صاحب مراة الزماں لکھتے ہیں کہ ماہ صیام میں روزہ داروں کی روزہ کشائی و افطار او مسکینوں و فقراء کے کھانے کے لئے شہر کے مختلف حصّوں میں دس مکانوں میں طعام کثیر کا جس میں روغنی، رٹی، حلوہ، اور دیگر اغذیہ ہوتی تھیں۔ ان کے جانب سے کچھ اسی طرح اہتمام ہوتا تھا جس طرح ان کے جدّ اعلیٰ حضرت عباس زمانہ حج میں حاجیوں کے لئے اپنے مال سے رفادہ (سقایہ کا اہتمام کرتے تھے۔ ایسے عام و فاضل اور ان صفات کے عامل امیر المومنین کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ یہ تبدیل ہنیت اپنے ہمعصر محدث کے پاس صرف ہو پوچھنے آئے کہ یزید پر لعن کیا جائے یا نہیں محض لغو ہے۔ صاحب کتاب الذیل علیٰ طبقات الحنابلہ نے ایک فقیہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ امیر المومنین موصوف کی پہلی ملاقات شیخ عبدلامغیث سے امام احمد بن حنبل کے مزار پر اچانک ہوگئی تھی اور اس ملاقات میں ہی انھوں نے شیخ سے دریافت کیا کہ تم ہی کیا وہ حنبلی ہو جنھوں نے "مناقب یزید" پر کتاب لکھی ہے۔ شیخ نے جواباً کہا کہ مناقب پر تو نہیں لکھی البتہ میرا مذہب و مسلک یہ ہے کہ یزید خلیفہ المسلمین تھے۔ ان پر فسق کا الزام بھی تھوپا جائے تب بھی ان کی بیعت توڈنے کا جواز تو ہرگز نہ ہوگا۔ یہ جواب سن کر امیر المومنین خوش ہوئے اور فرمایا۔ احسنت یا حنبلی۔ شیخ عبدلامغیث میں اور ابن الجوزی میں منظرہ و بحث و مباحثہ ہوتا تھا۔ جوان کی وفات تک جاری رہا۔ ملت عبدالمغیث (۵۸۳ھ) وھما متھ جران (کتاب الذیل ص ۳۵۶)
ابن الجوزی نے ان کی کتاب کا رو ؟؟کھا ہے کس کے نام سے ہی انداز ہوتا ہے کہ شیخ موصوف جو کتاب ا؛ذیل علےٰ طبقات الحنابلہ کے الفاظ میں المحدث الزاہد، متدین، راست گفتار، جمیل السیرة، مبتع سنت و حمید الاخلاق تھے خلیفہ یزید کی مذمت کے مانع تھے۔ ان کے مخالف ابن الجوزی نے اپنی کتاب کا نام رکھا تھا الروعلی المتعصب الصنید المانع من ذم یزید (اس ضّدی متعصب کا رد جو مذمت یزید کا مانع ہے) شیخ المغیث نے آنحضرتﷺ کے، حضرت ابوبکرصدیق کے پیچھے نماز ادا فرمانے کے ثبوت میں جو تصنیف کی تھی ابن الجوزی نے اس کا رد بھی لکھا تھا جس کا نام تھا۔ آفة الحدیث الردعلی عبدالمغیث ۔
اقتباس از:خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ ویزید رحمہ اللہ