- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
احمد رضا کی یہ آن کتنی لمبی تھی
اس کی وضاحت خود اعلی حضرت احمد رضا بریلوی سے سنئے۔ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ بعد موت آپ (حضرت ادریس علیہ السلام) آسمان پر تشریف لے گئے ، ایک روایت میں ہے کہ ایک بار دھوپ کی شدت میں تشریف لئے جا رہے تھے دوپہر کا وقت تھا ، آپ کو سخت تکلیف ہوئی خیال فرمایا کہ جو فرشتہ آفتاب پر موکل ہے اس کو کس قدر تکلیف ہوتی ہو گی۔ عرض کی اے اللہ! اس فرشتہ پر تخفیف فرما۔ فوراً دعا قبول کی، اور اس پر تخفیف ہو گئی، اس فرشتہ نے عرض کیا یا اللہ مجھ پر تخفیف کس طرف سے آئی ہے ارشاد ہوا میرے بندے ادریس نے تیری تخفیف کے واسطے دعا کی، میں نے اس کی دعا قبول کی۔عرض کی مجھے اجازت دے میں اس کی خدمت میں حاضر ہوں۔ اجازت ملنے پر حاضر ہوا، تمام واقعہ بیان کیا اور عرض کیا حضرت کا کوئی مطلب تو ارشاد فرمائیں ، فرمایا ایک مرتبہ جنت میں لے چلو۔ عرض کی کہ یہ تو میرے قبضے سے باہر ہے لیکن عزرائیل علیہ السلام ملک الموت سے میرا دوستانہ ہے ان کو لاتا ہوں، شاید کوئی تدبیر چل جائے۔ غرض عزرائیل علیہ السلام آئے آپ نے ان سے فرمایا: انہوں نے عرض کیا حضور بغیر موت کے تو جنت میں جانا نہیں ہو سکتا۔ فرمایا روح قبض کر لو۔ انہوں نے بحکم خدا ایک آن کیلئے روح قبض کی اور فوراً جسم میں ڈال دی الخ ۔(ملفوظات احمد رضا بریلوی حصہ چہارم ص:۳۸۱طبع فرید بک سٹال لاہور)
اس واقعہ کی وضاحت ایک دوسرے مولوی نعیم الدین صاحب بریلوی یوں کرتے ہیں: حضرت کعب احبار وغیرہ سے مروی ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام نے ملک الموت سے فرمایا کہ میں موت کا مزہ چکھنا چاہتا ہوں کیسا ہوتا ہے تم میری روح قبض کر کے دکھائو، انہوں نے حکم کی تعمیل کی اور روح قبض کر کے اسی وقت آپ کی طرف لوٹا دی۔ آپ زندہ ہو گئے، فرمایا اب مجھے جہنم دکھائو تا کہ خوف الٰہی زیادہ ہو چنانچہ یہ بھی کیا گیا، جہنم دیکھ کر آپ نے مالک داروغہ جہنم سے فرمایا کہ دروازہ کھولو میں اس پر گزرنا چاہتا ہوں چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور آپ اس پر گزرے پھر آپ نے ملک الموت سے فرمایا کہ مجھے جنت دکھائو وہ آپ کو جنت میں لے گئے۔ آپ دروازہ کھلوا کر جنت میں داخل ہو گئے تھوڑی انتظار کر کے ملک الموت نے کہا کہ آپ اب اپنے مقام پر تشریف لے چلئے فرمایا اب میں یہاں سے کہیں نہیں جائوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: کل نفسٍ ذائقۃ الموت۔ وہ میں چکھ چکا ہوں اور یہ فرمایا: وان منکم الا واردھا کہ ہر شخص کو جہنم پر گزرنا ہے تو میں گزر چکا۔ اب میں جنت میں پہنچ گیا اور جنت میں پہنچنے والوں کیلئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وما ہم بمخرجین کہ جنت سے نکالے نہ جائیں گے۔ اب مجھے جنت سے نکلنے کیلئے کیوں کہتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کو وحی فرمائی کہ حضرت ادریس علیہ السلام نے جو کچھ کیا ہے میرے اذن سے کیا ہے اور وہ میرے اذن سے جنت میں داخل ہوئے۔ انہیں چھوڑ دو۔ وہ جنت میں رہیں گے چنانچہ اب وہاں زندہ ہیں۔(تفسیر خزائن العرفان ص:۴۴۴، ہمراہ ترجمہ احمد رضا تحت آیت ورفعناہ مکانا علیا ۔تختی خورد)
جس سے واضح ہوا کہ اعلیٰ حضرت کے نزدیک آن سے مراد بالکل تھوڑا سا وقت جس کو نعیم الدین نے ان لفظوں میں بیان کیا۔ ’’روح قبض کر کے اسی وقت آپ کی طرف لوٹا دی‘‘ ۔ اور خود احمد رضا نے ان لفظوں میں بیان کیا۔ ’’ایک آن کیلئے روح قبض کی اور فوراً جسم میں ڈال دی‘‘ ۔ تو گویا ایک دو منٹ میں روح مبارک کا جانا آنا مکمل ہو گیا۔