• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

→:فاتح بغداد شیخ:←

شمولیت
نومبر 03، 2015
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
37
"وہ بغداد پہنچے تو ہر شخص متأسف تها کہ اس اجنبی کو کہاں موت کهینچ لائی ہے، لیکن جب مامون کے دربار سے بغداد کے نام نہاد عقلیت پسند دانشوروں کو علم وفکر کے میدان میں شکست دے کر نکلے تو ایک دنیا انکی پیشوائی کو امڈ آئی."

تیسری صدی کا عشرہ ختم ہورہا ہے.بغداد کے تخت پر مامون الرشید عباسی جلوہ افروز ہے.بغداد، افریقہ اور ایشیا کے ایک بڑے حصے پر پهیلی ہوئی سلطنت کا مرکز ہی نہیں، علوم و فنون کا سرچشمہ بهی ہے.نئے نئے افکار اور تصورات یہاں کی علمی محفلوں میں جنم لے رہے ہیں. معتزلہ کا گروہ انہی علمی مجالس کا ساختہ پر داختہ ہے.اس گروہ کے افراد سلطنت کے مختلف مناصب پر فائز ہیں. اس طرح ملک کی فکری ہی نہیں سیاسی رہنمائی بهی انہی کے ہاتھ میں آ گئی ہے.
"فتنہ خلق قرآن"
انہی لوگوں کی عقلی موشگافیوں کا مرہون منت ہے. مامون ان کے فتنے کا شکار ہوگیا ہے اور اب بزور قوت امت مسلمہ سے وہ بات منوانی چاہتا ہے'جس کا مطالبہ نہ اللہ نے کیا نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے.وہ بغداد کے گورنر اسحاق بن ابراہیم کے نام فرمان بهیجتا ہے:
"تمام علمائے شہر کو طلب کرو، جو لوگ خلق قرآن کا اقرار کریں انہیں چھوڑ دو، جو انکار کریں انکے بارے میں ہمیں خبر دو."

پھر دوسرا فرمان جاری کرتا ہے:
"بشیر بن ولید الکندی قاضی القضاة اور ابراہیم بن مہدی اگر انکار کریں'تو موت کے گھاٹ اتار دو، باقی منکرین "خلق قرآن"کو حوالہ زنداں کر دو."

اور پھر ظلم واستبداد کا کوڑا حرکت میں آجاتا ہے.قید خانوں کے دروازے کهل جاتے ہیں.تلواریں مشق ستم میں لگ جاتی ہیں. بڑے بڑے اہل علم کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں اور وہ"اقرار"کرکے اپنی چمڑی بچالیتے ہیں. بے شمار لوگ گھروں میں بند ہوکر بیٹھ جاتے ہیں، جمعہ اور نماز باجماعت تک ترک کردیتے ہیں مبادا باہر نکلیں اور انہیں مناظرے میں ملوث کرلیا جائے. یا وہ اس فتنے کی تردید کریں تو فتنہ گر ان پر ٹوٹ پڑیں.بہت سے لوگ روپوش ہو جاتے ہیں اور حکومت کے شکاری کتوں سے محفوظ رہنے کے لیے کبھی ایک شہر اور کبھی دوسرے شہر میں سر چهپاتے پھرتے ہیں، تاہم اکادکا اصحاب عزیمت ایسے بهی ہیں، جو نہ تو گهروں میں چهپ کر بیٹھتے ہیں اور نہ جان بچانے کے لیے بهاگتے ہیں، بلکہ اس ظلم واستبداد کے آگے ڈٹ کر کهڑے ہو جاتے ہیں.
انہی مردان حق میں
"شیخ عبدالعزیز بن یحییٰ الکنانی"
(وفات:240 ہجری) بهی ہیں. اپنے وقت کے عالم حق اور محدث جلیل سفیان بن عینیہ کے شگردرشید، امام شافعی رحمہ اللہ کے متبع اور دوست، ایک مدت تک انکے سفر وحضر کے ساتهی بهی رہے ہیں. وہ بغداد سے دور مکہ مکرمہ میں ہیں. انہیں خبر ملتی ہے کہ جبرواستبداد کے آگے زبانیں گنگ ہو چکی ہیں، کوئی نہیں جو کلمہ حق بلند کرے.حق مظلوم ومقہور ہے اور باطل غالب وقاہر.شیخ تڑپ اٹھتے ہیں، راتوں کی نیند اڑ جاتی ہے. شب و روز یوں کٹتے ہیں جیسے انگاروں پر بسر کررہے ہوں. دل سے ہوک آٹھتی ہے. کیا وقت آگیا ہے کہ حق کا دفاع اور باطل کا رد کرنے کی کسی میں جرات نہیں رہی.ان کے ضمیر کہتا ہے:
عبدالعزیز!

تم پر بهی تو دفاع حق کا فرض عائد ہوتا ہے. کوئی اور آگے نہیں بڑھتا،تو تمہیں میدان میں اترو.قیامت کے دن جب پوچھا جائے گا دین مظلوم ہوگیا تھا، تم نے اس کا دفاع کیوں نہ کیا؟ تو کیا جواب دوگے؟ ضمیر کی یہ آواز بلند سے بلند تر ہوتی جاتی ہے.آخر وہ فیصلہ کرلیتے ہیں:
ہرچہ باداباد!
میں اپنے کمزور جسم، نحیف آواز اور محدود صلاحیتوں سے اس فرض کو ضرور انجام دوں گا. توکل برخدا، بیٹے کو ساتھ لیتے ہیں اور بغداد کی طرف چل کهڑے ہوتے ہیں.

جمعہ کا دن ہےجامع رصافہ نمازیوں سے بهری ہوئی ہے.نماز ہو چکی ہے. امام نے دعا کے لیے ابهی ہاتھ نہیں اٹھائے. پہلی صف میں بیٹھا ہوا ایک اجنبی کهڑا ہو جاتا ہے. لباس اور وضع قطع سے سرزمین بطحا کا باشندہ معلوم ہوتا ہے. سامنے ایک چهوٹا سا بچہ ستون سے ٹیک لگائے بیٹھا ہے اور اسکی طرف دیکھ رہا ہے.
اجنبی پکار کر پوچھتا ہے:
"بیٹے! قرآن کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ "
"الله کا کلام'اللہ کا نازل کردہ'غیرمخلوق."
بچہ بلند آواز میں جواب دیتا ہے. خلق قرآن کا کهلم کهلا انکار اور وہ بهی مسجد میں، جہاں فقہا'محدثین اور واعظین کا بیٹھنا تک ممنوع ہے. مسجدیں تو اب کفروضلال کی تبلیغ واشاعت کا مرکز بن گئی ہیں انهیں اس عہد کے دانشورذہنی آوارگیوں کی آماجگاہ تو بناسکتے ہیں. لیکن حق وہدایت کے ماننے والے حق کا کلمہ بلند نہیں کرسکتے.پهر جامع رصافہ تو فتنہ خلق قرآن کے "امام بشر المریسی"اور"محمد بن الجہم"کا گڑھ ہے.یہاں کوئی شخص انکی مخالفت نہیں کر سکتا. کوئی جسارت کر بیٹھتا ہے تو اسے قتل کروادیتے ہیں یا پکڑ کر کسی دوسری جگہ لے جاتے ہیں اور موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں. نہ جانے اب تک کتنے لوگ قتل کئے جاچکے ہیں اور کتنے ظلم و ستم کے تازیانوں کی تاب نہ لاکر حق کا دامن چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں. بچے کا جواب جونہی مسجد میں گونجتا ہے تہلکہ مچ جاتا ہے.لوگ دم بخود ایک دوسرے کا منہ تکتے ہیں اور پھر بهاگ کهڑے ہوتے ہیں، لیکن اجنبی اپنی جگہ پر قدم جمائے کهڑا ہے.بے خوف، سینہ تانے اور سربلند کئے.بچہ سوالات کا منتظر ہے کہ پولیس پہنچ جاتی ہے.باپ اور بیٹے دونوں کو پکڑ کر لے جاتی ہے اور بغداد کے پولیس کمشنر عمروبن مسعدہ کے سامنے پیش کر دیتی ہے.
"تمہارا نام کیا ہے؟ "
"عبدالعزیز الکنانی"
"کہاں سے آئے ہوئے ہو؟"
"مکہ معظمہ سے"
"کہیں پاگل تو نہیں ہو؟ "
"نہیں"
"شاید کسی نے تمہیں بہکایا ہے."
"نہیں"
"تو پھر خود کشی کرنا چاہتے ہو؟"
"نہیں، الحمد للہ میرے ہوش وحواس سلامت ہیں، مجھے اللہ نے علم ومعرفت سے بہرہ ور کیا ہے."
"مسجد میں تم نے جو کچھ کہا، اس کا مقصد کیا تھا؟ "
"الله کی خوشنودی اور اسکے تقرب کی خواہش. "
"نہیں، تم شہرت کے طالب ہو اور اس شہرت سے لوگوں کا مال بٹورنا چاہتے ہو."
"والله بالکل نہیں، میری کوئی خواہش تھی تو صرف یہ کہ کسی طرح امیرالمومنین کی بارگاہ تک پہنچوں اور انکی موجودگی میں فتنہ خلق قرآن کے علمبرداروں سے مناظرہ کروں."
"اچها اسکی بهی تمہیں جرات ہے؟"
"تم امیر المؤمنین کو سب سے بڑا سمجھتے ہوگے'میں تو اللہ کی عظمت وکبریائی پر یقین رکھتا ہوں."
"اچھا'ہم تمہیں امیرالمومنین کے حضور پیش کردیں گے."کمشنر پولیس کہتا ہے.
"لیکن وہاں تم نے اسکے سوا کوئی اور بات کہی تو تمہارا خون امیر المؤمنین پر مباح ہو جائے گا."
"ہاں، میں نے اگر کوئی دوسری بات کہی یا اس حضوری کو کسی اور مقصد کے حصول کا بہانا بنایا، تو بے شک میرا خون امیر المومنین پر حلال ہو گا."
عمرو اچهل کر کرسی سے اٹھ کهڑا ہوتا ہے."اچها ہم تمہیں امیر المومنین کے حضور پیش کریں گے." وہ کہتا ہے اور کوتوال کو ہدایت کرتا ہے:
میں دربار کی طرف جاتا ہوں'تم ان باپ بیٹے کو لے آؤ."

◀جاری ہے←
 
شمولیت
نومبر 03، 2015
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
37
دارالخلافہ کے تمام علما مجلس مناظرہ حاضر ہو چکے ہیں. مملکت کے اعیان وامراء، رؤسا، وزرا اور اعلیٰ فوجی افسر بھی پورے طمطراق کے ساتھ شریک ہیں. مامون خود ایک زرنگار مسند پر جلوہ افروز ہے.ہیبت وسطوت کے مارے زبانیں گنگ اور نگاہیں تهرارہی ہیں. باریابی سے پہلے حاجت شیخ سے کہتا ہے دورکعت نماز پڑھ لو،شیخ چار رکعت پڑھتے ہیں، اپنے خیال میں زندگی کی آخری نماز پهر دعا مانگتے ہیں اور حاجب کے جلومیں دربار میں داخل ہوتے ہیں. خدام اس شاہی مجرم پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور گهسیٹ کر خلیفہ کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں، لیکن مامون کی آواز بلند ہوتی ہے. "اسے چهوڑ دو."خونی گدھوں کا ہجوم فوراً چهٹ جاتاہے.شیخ بلند سے کہتے ہیں السلام علیکم یا امیرالمومنین. مامون جواب میں کہتا ہے:وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته،.شیخ ایک نظر مجلس پر ڈالتے ہیں. شوکت وسطوت اور جاہ جلال دیکه کر جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے. مامون انہیں اپنے قریب بلاتا ہے.وہ لزرتے قدموں کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں.
مامون بس مسکرادیتا ہے پهر شیخ کی طرف متوجہ ہوکر ان سے نام، خاندان اور وطن کے بارے پوچهتا ہے.شیخ جواب دیتے ہیں. آواز کا ارتعاش قلبی اضطراب کی ترجمانی کررہاہے، لیکن جب مامون کہتا ہے:"تم نے ایک دینی حکم کو توڑا اور صفات خداوندی میں دوسری چیزوں کو شریک کیا ہے، تو سطوت وہیبت کا اثر کافور ہو جاتا ہے، دل میں آگ سی اٹهتی ہے، اپنی جگہ پر کهڑے ہو جاتے ہیں اور کڑکتی ہوئی آواز میں کہتے ہیں:
امیر المومنین میں ایک غیریب طالب علم ہوں. خانہ خدا کے مقدس جوار کا باشندہ ہوں، بےشک میں بدشکل ہوں.مگر اللہ نے مجھے اپنی کتاب کا علم اور فہم عطا کیا.میں نے سنا حق مظلوم ہو گیا ہے، سنت کی روشنی بج گئی ہے، بدعت کا زور ہے، جس بات کا اقرار نہ خدا نے امت مسلمہ سے کروایا نہ خدا کے رسول نے جس کی گواہی دی، جس کا اعلان خلفاء راشدین نے کیا نہ کسی صحابی رسول نے،اسے آج ایک ایسا شخص شرط ایمان قرار دے رہا ہے جو ہارون الرشید کے گهر میں پیدا ہوا اس نے نہ تابعین کو دیکھا تها اور نہ اصحاب رسول کو، نہ عہد نبوت کی برکتوں سے بہرہ یاب ہوا اس کے باوجود بزعم خویش شریعت الہی کے اس محفی رازکو جانتا ہے.جس کا علم صحابہ کرام کوتها نہ تابعین کو، حالانکہ وہ دنیا سے مومن کی حیثيت سے رخصت ہوئے. نہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے بارے میں کچھ فرمایا،حالانکہ صاحب وحی ورسالت تهے...امیر المؤمنین! آپ ہوا کا وہ جهونکا ہیں جس سے شریعت کی آگ تو روشن نہ ہو سکی،مگر اس نے سنت کے چراغ گل کردیے...اے ہارون کے بیٹے!اب تم رسول اللہ ﷺ کی جانشینی ہی کے نہیں حق رسالت کے مدعی بھی ہوگئے! کیونکہ جس بات کا اقرار رسول خدا نے اپنی امت سے نہيں کروایا اسے تم ظلم وجبر کے ہر وحشیانہ حربے سے منوارہے ہو. تمہارے نزدیک کوئی شخص مسلمان نہيں ہو سکتا جب تک اس باطل کلمہ پر ایمان نہ لائے کہ کلام الہی مخلوق ہے. ..
اے مامون! اللہ سے ڈر، اس عذاب کی پکڑ سے کانپ، جس ميں ڈهیل تو ہے، مگر جس سے کوئی چهٹکارا نہیں."
شیخ دیر تک گرجتے رہتے ہیں اور مامون چپ چاپ سنتا رہتا ہے. جرات حق نے اس سے کسی تندردعمل کے اظہار کی قوت چهین لی ہے.
 
شمولیت
نومبر 03، 2015
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
37
مناظرہ شروع ہوتا ہے. دیر تک سوال وجواب اور رددکد ہوتی رہتی ہے. آخر معتزلہ کا سرخیل بشرالمرلیسی سوال کرتا ہے.
"قرآن نے صدہامقام پر اللہ کو خالق کل شیئ کہا ہےیا نہیں، یعنی خدا ہر چیز کا خالق ہے"؟
"ہاں، وہی ہر شے کا خالق ہے. "
"قرآن بهی "شے"ہے یا نہیں؟ "بشر پوچهتا ہے.
پہلے شے کی حقیقت سن لو، پهر جواب مانگو."شیخ کہتے ہیں.
"میں اور کچھ سننا نہیں چاہتا، میرے سوال کا جواب دو".بشر چلا کر کہتا ہے. مامون بهی غضب ناک لہجے میں دہاڑتا ہے":عبدالعزیز! جواب کیوں نہیں دیتا"؟
شیخ متذبذب ہیں، بشر اور اس کے ساتهیوں کے چہرے خوشی سے چمک اٹھے ہیں. علم ودانش کے رستموں نے حریف کو اڑنگادے دیا ہے، چند لمحے کی بات ہے، وہ چاروں شانے چت پڑا ہوگا اور پهر اس گستاخ کا منہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا جس نے انہیں چیلنج کرنے کی جسارت کی تھی. اچانک شیخ کے ذہن کی گہرائیوں سے کونداسا لپکتا ہے اور سارا تذبذب ختم ہو جاتا ہے. وہ بلند آواز سے کہتے ہیں:
"اچها میں تسليم کرتا ہوں قرآن بھی اشیاء میں داخل ہے".
"تو پهر قرآن مخلوق ہوا".مامون اور بشر دونوں اچهل کر پکار اٹهتے ہیں.
"نہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا".شیخ کی آواز بلند ہوجاتی ہے."قرآن کہتا ہے ويحذركم اللہ نفسه" (یعنی اللہ تم کو اپنے نفس سے ڈراتا ہے.) اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کا بهی نفس ہے، پهر قرآن کہتا ہے" كل نفس ذائقة الموت "(ہر نفس کو موت کا مزا چکھنا ہے) پس اگر اشیاء میں قرآن داخل ہو کر مخلوق ہوگیا تو کیا خدا بهی کل نفس میں داخل ہو کر اور نفس ہو کر موت کا مزا چکهے گا"؟
شیخ کی زبان سے جونہی یہ الفاظ نکلتے ہیں، مجلس پر سناٹا چھا جاتا ہے . بڑھ بڑھ کر بولنے والی زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں.مامون تسلیم کرتا ہے کہ شیخ نے بغداد کے متجددین کی فکر اور انکے استدلال کا تاروپور بکهیر کر رکھ دیا ہے. شیخ فاتحانہ انداز ميں دربار سے نکلتے ہیں، شہر میں خبر پہلے ہی پہنچ چکی ہے. اہل سنت مسرور و شادماں ہیں اور بدعت کے علمبردار خائب وخاسر.ایک دنیا انکی پذیرائی کے لیے امڈ آئی ہے.
پہاڑی کا چراغ
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
 
Top