محمد جریر
رکن
- شمولیت
- نومبر 03، 2015
- پیغامات
- 103
- ری ایکشن اسکور
- 5
- پوائنٹ
- 37
"وہ بغداد پہنچے تو ہر شخص متأسف تها کہ اس اجنبی کو کہاں موت کهینچ لائی ہے، لیکن جب مامون کے دربار سے بغداد کے نام نہاد عقلیت پسند دانشوروں کو علم وفکر کے میدان میں شکست دے کر نکلے تو ایک دنیا انکی پیشوائی کو امڈ آئی."
تیسری صدی کا عشرہ ختم ہورہا ہے.بغداد کے تخت پر مامون الرشید عباسی جلوہ افروز ہے.بغداد، افریقہ اور ایشیا کے ایک بڑے حصے پر پهیلی ہوئی سلطنت کا مرکز ہی نہیں، علوم و فنون کا سرچشمہ بهی ہے.نئے نئے افکار اور تصورات یہاں کی علمی محفلوں میں جنم لے رہے ہیں. معتزلہ کا گروہ انہی علمی مجالس کا ساختہ پر داختہ ہے.اس گروہ کے افراد سلطنت کے مختلف مناصب پر فائز ہیں. اس طرح ملک کی فکری ہی نہیں سیاسی رہنمائی بهی انہی کے ہاتھ میں آ گئی ہے.
پھر دوسرا فرمان جاری کرتا ہے:
اور پھر ظلم واستبداد کا کوڑا حرکت میں آجاتا ہے.قید خانوں کے دروازے کهل جاتے ہیں.تلواریں مشق ستم میں لگ جاتی ہیں. بڑے بڑے اہل علم کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں اور وہ"اقرار"کرکے اپنی چمڑی بچالیتے ہیں. بے شمار لوگ گھروں میں بند ہوکر بیٹھ جاتے ہیں، جمعہ اور نماز باجماعت تک ترک کردیتے ہیں مبادا باہر نکلیں اور انہیں مناظرے میں ملوث کرلیا جائے. یا وہ اس فتنے کی تردید کریں تو فتنہ گر ان پر ٹوٹ پڑیں.بہت سے لوگ روپوش ہو جاتے ہیں اور حکومت کے شکاری کتوں سے محفوظ رہنے کے لیے کبھی ایک شہر اور کبھی دوسرے شہر میں سر چهپاتے پھرتے ہیں، تاہم اکادکا اصحاب عزیمت ایسے بهی ہیں، جو نہ تو گهروں میں چهپ کر بیٹھتے ہیں اور نہ جان بچانے کے لیے بهاگتے ہیں، بلکہ اس ظلم واستبداد کے آگے ڈٹ کر کهڑے ہو جاتے ہیں.
انہی مردان حق میں
تم پر بهی تو دفاع حق کا فرض عائد ہوتا ہے. کوئی اور آگے نہیں بڑھتا،تو تمہیں میدان میں اترو.قیامت کے دن جب پوچھا جائے گا دین مظلوم ہوگیا تھا، تم نے اس کا دفاع کیوں نہ کیا؟ تو کیا جواب دوگے؟ ضمیر کی یہ آواز بلند سے بلند تر ہوتی جاتی ہے.آخر وہ فیصلہ کرلیتے ہیں:
ہرچہ باداباد!
میں اپنے کمزور جسم، نحیف آواز اور محدود صلاحیتوں سے اس فرض کو ضرور انجام دوں گا. توکل برخدا، بیٹے کو ساتھ لیتے ہیں اور بغداد کی طرف چل کهڑے ہوتے ہیں.
جمعہ کا دن ہےجامع رصافہ نمازیوں سے بهری ہوئی ہے.نماز ہو چکی ہے. امام نے دعا کے لیے ابهی ہاتھ نہیں اٹھائے. پہلی صف میں بیٹھا ہوا ایک اجنبی کهڑا ہو جاتا ہے. لباس اور وضع قطع سے سرزمین بطحا کا باشندہ معلوم ہوتا ہے. سامنے ایک چهوٹا سا بچہ ستون سے ٹیک لگائے بیٹھا ہے اور اسکی طرف دیکھ رہا ہے.
اجنبی پکار کر پوچھتا ہے:
"بیٹے! قرآن کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ "
"الله کا کلام'اللہ کا نازل کردہ'غیرمخلوق."
بچہ بلند آواز میں جواب دیتا ہے. خلق قرآن کا کهلم کهلا انکار اور وہ بهی مسجد میں، جہاں فقہا'محدثین اور واعظین کا بیٹھنا تک ممنوع ہے. مسجدیں تو اب کفروضلال کی تبلیغ واشاعت کا مرکز بن گئی ہیں انهیں اس عہد کے دانشورذہنی آوارگیوں کی آماجگاہ تو بناسکتے ہیں. لیکن حق وہدایت کے ماننے والے حق کا کلمہ بلند نہیں کرسکتے.پهر جامع رصافہ تو فتنہ خلق قرآن کے "امام بشر المریسی"اور"محمد بن الجہم"کا گڑھ ہے.یہاں کوئی شخص انکی مخالفت نہیں کر سکتا. کوئی جسارت کر بیٹھتا ہے تو اسے قتل کروادیتے ہیں یا پکڑ کر کسی دوسری جگہ لے جاتے ہیں اور موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں. نہ جانے اب تک کتنے لوگ قتل کئے جاچکے ہیں اور کتنے ظلم و ستم کے تازیانوں کی تاب نہ لاکر حق کا دامن چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں. بچے کا جواب جونہی مسجد میں گونجتا ہے تہلکہ مچ جاتا ہے.لوگ دم بخود ایک دوسرے کا منہ تکتے ہیں اور پھر بهاگ کهڑے ہوتے ہیں، لیکن اجنبی اپنی جگہ پر قدم جمائے کهڑا ہے.بے خوف، سینہ تانے اور سربلند کئے.بچہ سوالات کا منتظر ہے کہ پولیس پہنچ جاتی ہے.باپ اور بیٹے دونوں کو پکڑ کر لے جاتی ہے اور بغداد کے پولیس کمشنر عمروبن مسعدہ کے سامنے پیش کر دیتی ہے.
"تمہارا نام کیا ہے؟ "
"عبدالعزیز الکنانی"
"کہاں سے آئے ہوئے ہو؟"
"مکہ معظمہ سے"
"کہیں پاگل تو نہیں ہو؟ "
"نہیں"
"شاید کسی نے تمہیں بہکایا ہے."
"نہیں"
"تو پھر خود کشی کرنا چاہتے ہو؟"
"نہیں، الحمد للہ میرے ہوش وحواس سلامت ہیں، مجھے اللہ نے علم ومعرفت سے بہرہ ور کیا ہے."
"مسجد میں تم نے جو کچھ کہا، اس کا مقصد کیا تھا؟ "
"الله کی خوشنودی اور اسکے تقرب کی خواہش. "
"نہیں، تم شہرت کے طالب ہو اور اس شہرت سے لوگوں کا مال بٹورنا چاہتے ہو."
"والله بالکل نہیں، میری کوئی خواہش تھی تو صرف یہ کہ کسی طرح امیرالمومنین کی بارگاہ تک پہنچوں اور انکی موجودگی میں فتنہ خلق قرآن کے علمبرداروں سے مناظرہ کروں."
"اچها اسکی بهی تمہیں جرات ہے؟"
"تم امیر المؤمنین کو سب سے بڑا سمجھتے ہوگے'میں تو اللہ کی عظمت وکبریائی پر یقین رکھتا ہوں."
"اچھا'ہم تمہیں امیرالمومنین کے حضور پیش کردیں گے."کمشنر پولیس کہتا ہے.
"لیکن وہاں تم نے اسکے سوا کوئی اور بات کہی تو تمہارا خون امیر المؤمنین پر مباح ہو جائے گا."
"ہاں، میں نے اگر کوئی دوسری بات کہی یا اس حضوری کو کسی اور مقصد کے حصول کا بہانا بنایا، تو بے شک میرا خون امیر المومنین پر حلال ہو گا."
عمرو اچهل کر کرسی سے اٹھ کهڑا ہوتا ہے."اچها ہم تمہیں امیر المومنین کے حضور پیش کریں گے." وہ کہتا ہے اور کوتوال کو ہدایت کرتا ہے:
میں دربار کی طرف جاتا ہوں'تم ان باپ بیٹے کو لے آؤ."
◀جاری ہے←
تیسری صدی کا عشرہ ختم ہورہا ہے.بغداد کے تخت پر مامون الرشید عباسی جلوہ افروز ہے.بغداد، افریقہ اور ایشیا کے ایک بڑے حصے پر پهیلی ہوئی سلطنت کا مرکز ہی نہیں، علوم و فنون کا سرچشمہ بهی ہے.نئے نئے افکار اور تصورات یہاں کی علمی محفلوں میں جنم لے رہے ہیں. معتزلہ کا گروہ انہی علمی مجالس کا ساختہ پر داختہ ہے.اس گروہ کے افراد سلطنت کے مختلف مناصب پر فائز ہیں. اس طرح ملک کی فکری ہی نہیں سیاسی رہنمائی بهی انہی کے ہاتھ میں آ گئی ہے.
"فتنہ خلق قرآن"
انہی لوگوں کی عقلی موشگافیوں کا مرہون منت ہے. مامون ان کے فتنے کا شکار ہوگیا ہے اور اب بزور قوت امت مسلمہ سے وہ بات منوانی چاہتا ہے'جس کا مطالبہ نہ اللہ نے کیا نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے.وہ بغداد کے گورنر اسحاق بن ابراہیم کے نام فرمان بهیجتا ہے:"تمام علمائے شہر کو طلب کرو، جو لوگ خلق قرآن کا اقرار کریں انہیں چھوڑ دو، جو انکار کریں انکے بارے میں ہمیں خبر دو."
پھر دوسرا فرمان جاری کرتا ہے:
"بشیر بن ولید الکندی قاضی القضاة اور ابراہیم بن مہدی اگر انکار کریں'تو موت کے گھاٹ اتار دو، باقی منکرین "خلق قرآن"کو حوالہ زنداں کر دو."
اور پھر ظلم واستبداد کا کوڑا حرکت میں آجاتا ہے.قید خانوں کے دروازے کهل جاتے ہیں.تلواریں مشق ستم میں لگ جاتی ہیں. بڑے بڑے اہل علم کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں اور وہ"اقرار"کرکے اپنی چمڑی بچالیتے ہیں. بے شمار لوگ گھروں میں بند ہوکر بیٹھ جاتے ہیں، جمعہ اور نماز باجماعت تک ترک کردیتے ہیں مبادا باہر نکلیں اور انہیں مناظرے میں ملوث کرلیا جائے. یا وہ اس فتنے کی تردید کریں تو فتنہ گر ان پر ٹوٹ پڑیں.بہت سے لوگ روپوش ہو جاتے ہیں اور حکومت کے شکاری کتوں سے محفوظ رہنے کے لیے کبھی ایک شہر اور کبھی دوسرے شہر میں سر چهپاتے پھرتے ہیں، تاہم اکادکا اصحاب عزیمت ایسے بهی ہیں، جو نہ تو گهروں میں چهپ کر بیٹھتے ہیں اور نہ جان بچانے کے لیے بهاگتے ہیں، بلکہ اس ظلم واستبداد کے آگے ڈٹ کر کهڑے ہو جاتے ہیں.
انہی مردان حق میں
"شیخ عبدالعزیز بن یحییٰ الکنانی"
(وفات:240 ہجری) بهی ہیں. اپنے وقت کے عالم حق اور محدث جلیل سفیان بن عینیہ کے شگردرشید، امام شافعی رحمہ اللہ کے متبع اور دوست، ایک مدت تک انکے سفر وحضر کے ساتهی بهی رہے ہیں. وہ بغداد سے دور مکہ مکرمہ میں ہیں. انہیں خبر ملتی ہے کہ جبرواستبداد کے آگے زبانیں گنگ ہو چکی ہیں، کوئی نہیں جو کلمہ حق بلند کرے.حق مظلوم ومقہور ہے اور باطل غالب وقاہر.شیخ تڑپ اٹھتے ہیں، راتوں کی نیند اڑ جاتی ہے. شب و روز یوں کٹتے ہیں جیسے انگاروں پر بسر کررہے ہوں. دل سے ہوک آٹھتی ہے. کیا وقت آگیا ہے کہ حق کا دفاع اور باطل کا رد کرنے کی کسی میں جرات نہیں رہی.ان کے ضمیر کہتا ہے:عبدالعزیز!
تم پر بهی تو دفاع حق کا فرض عائد ہوتا ہے. کوئی اور آگے نہیں بڑھتا،تو تمہیں میدان میں اترو.قیامت کے دن جب پوچھا جائے گا دین مظلوم ہوگیا تھا، تم نے اس کا دفاع کیوں نہ کیا؟ تو کیا جواب دوگے؟ ضمیر کی یہ آواز بلند سے بلند تر ہوتی جاتی ہے.آخر وہ فیصلہ کرلیتے ہیں:
ہرچہ باداباد!
میں اپنے کمزور جسم، نحیف آواز اور محدود صلاحیتوں سے اس فرض کو ضرور انجام دوں گا. توکل برخدا، بیٹے کو ساتھ لیتے ہیں اور بغداد کی طرف چل کهڑے ہوتے ہیں.
جمعہ کا دن ہےجامع رصافہ نمازیوں سے بهری ہوئی ہے.نماز ہو چکی ہے. امام نے دعا کے لیے ابهی ہاتھ نہیں اٹھائے. پہلی صف میں بیٹھا ہوا ایک اجنبی کهڑا ہو جاتا ہے. لباس اور وضع قطع سے سرزمین بطحا کا باشندہ معلوم ہوتا ہے. سامنے ایک چهوٹا سا بچہ ستون سے ٹیک لگائے بیٹھا ہے اور اسکی طرف دیکھ رہا ہے.
اجنبی پکار کر پوچھتا ہے:
"بیٹے! قرآن کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ "
"الله کا کلام'اللہ کا نازل کردہ'غیرمخلوق."
بچہ بلند آواز میں جواب دیتا ہے. خلق قرآن کا کهلم کهلا انکار اور وہ بهی مسجد میں، جہاں فقہا'محدثین اور واعظین کا بیٹھنا تک ممنوع ہے. مسجدیں تو اب کفروضلال کی تبلیغ واشاعت کا مرکز بن گئی ہیں انهیں اس عہد کے دانشورذہنی آوارگیوں کی آماجگاہ تو بناسکتے ہیں. لیکن حق وہدایت کے ماننے والے حق کا کلمہ بلند نہیں کرسکتے.پهر جامع رصافہ تو فتنہ خلق قرآن کے "امام بشر المریسی"اور"محمد بن الجہم"کا گڑھ ہے.یہاں کوئی شخص انکی مخالفت نہیں کر سکتا. کوئی جسارت کر بیٹھتا ہے تو اسے قتل کروادیتے ہیں یا پکڑ کر کسی دوسری جگہ لے جاتے ہیں اور موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں. نہ جانے اب تک کتنے لوگ قتل کئے جاچکے ہیں اور کتنے ظلم و ستم کے تازیانوں کی تاب نہ لاکر حق کا دامن چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں. بچے کا جواب جونہی مسجد میں گونجتا ہے تہلکہ مچ جاتا ہے.لوگ دم بخود ایک دوسرے کا منہ تکتے ہیں اور پھر بهاگ کهڑے ہوتے ہیں، لیکن اجنبی اپنی جگہ پر قدم جمائے کهڑا ہے.بے خوف، سینہ تانے اور سربلند کئے.بچہ سوالات کا منتظر ہے کہ پولیس پہنچ جاتی ہے.باپ اور بیٹے دونوں کو پکڑ کر لے جاتی ہے اور بغداد کے پولیس کمشنر عمروبن مسعدہ کے سامنے پیش کر دیتی ہے.
"تمہارا نام کیا ہے؟ "
"عبدالعزیز الکنانی"
"کہاں سے آئے ہوئے ہو؟"
"مکہ معظمہ سے"
"کہیں پاگل تو نہیں ہو؟ "
"نہیں"
"شاید کسی نے تمہیں بہکایا ہے."
"نہیں"
"تو پھر خود کشی کرنا چاہتے ہو؟"
"نہیں، الحمد للہ میرے ہوش وحواس سلامت ہیں، مجھے اللہ نے علم ومعرفت سے بہرہ ور کیا ہے."
"مسجد میں تم نے جو کچھ کہا، اس کا مقصد کیا تھا؟ "
"الله کی خوشنودی اور اسکے تقرب کی خواہش. "
"نہیں، تم شہرت کے طالب ہو اور اس شہرت سے لوگوں کا مال بٹورنا چاہتے ہو."
"والله بالکل نہیں، میری کوئی خواہش تھی تو صرف یہ کہ کسی طرح امیرالمومنین کی بارگاہ تک پہنچوں اور انکی موجودگی میں فتنہ خلق قرآن کے علمبرداروں سے مناظرہ کروں."
"اچها اسکی بهی تمہیں جرات ہے؟"
"تم امیر المؤمنین کو سب سے بڑا سمجھتے ہوگے'میں تو اللہ کی عظمت وکبریائی پر یقین رکھتا ہوں."
"اچھا'ہم تمہیں امیرالمومنین کے حضور پیش کردیں گے."کمشنر پولیس کہتا ہے.
"لیکن وہاں تم نے اسکے سوا کوئی اور بات کہی تو تمہارا خون امیر المؤمنین پر مباح ہو جائے گا."
"ہاں، میں نے اگر کوئی دوسری بات کہی یا اس حضوری کو کسی اور مقصد کے حصول کا بہانا بنایا، تو بے شک میرا خون امیر المومنین پر حلال ہو گا."
عمرو اچهل کر کرسی سے اٹھ کهڑا ہوتا ہے."اچها ہم تمہیں امیر المومنین کے حضور پیش کریں گے." وہ کہتا ہے اور کوتوال کو ہدایت کرتا ہے:
میں دربار کی طرف جاتا ہوں'تم ان باپ بیٹے کو لے آؤ."
◀جاری ہے←