Adnani Salafi
رکن
- شمولیت
- دسمبر 18، 2015
- پیغامات
- 47
- ری ایکشن اسکور
- 16
- پوائنٹ
- 32
رمضان المبارك كى ابتدا اور انتہاء ميں رؤيت كا اعتبار ہو گا
رمضان المبارك كى ابتداء كے ليے قابل اعتماد چيز رؤيت ہلال ہے، يا پھر اگر چاند نظر نہيں آتا تو شعبان كے تيس يوم پورے ہونا، صحيح احاديث اسى پر دلالت كرتى ہيں،اور اہل علم بھى اسى پر متفق ہيں.
امام بخارى اور مسلم نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم چاند ديكھ كر روزے ركھو، اور چاند ديكھ كر ہى عيد كرو، اور اگر چاند نظر نہ آئے تو پھر تم شعبان كے تيس يوم پورے كرو "
اور ايك روايت ميں ہے:
" اگر تم پر آسمان ابر آلود ہو جائے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1909 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1081 )
اس ميں فلكى حساب پر اعتماد نہيں كيا جائيگا، كيونكہ رؤيت ميں اصل يہى ہے كہ اسے آنكھ كے ساتھ ديكھا جائے، ليكن اگر جديد آلات كے ساتھ چاند ديكھا جائے تو پھر اس رؤيت پر عمل كيا جائيگا
ليكن يہ كہ: صرف آنكھ كے ساتھ چاند كيسے نظر آ گيا اور فلكيات والے جديد آلات كے ساتھ بھى اسے نہ ديكھ سكے ؟
يہ چيز جگہ اور وقت ميں اختلاف ہونے پر منحصر ہے كہ جہاں فلكيات والے تھے وہاں نظر نہيں آيا ليكن دوسرى جگہ اور مقام پر نظر آ گيا.
بہر حال حكم رؤيت ہلال پر معلق ہے، جب ثقہ اور باعتماد ايك يا دو مسلمانوں نے چاند ديكھا ہے تو اس رؤيت پر عمل كرنا واجب ہے.