شاہد نذیر
سینئر رکن
- شمولیت
- فروری 17، 2011
- پیغامات
- 2,011
- ری ایکشن اسکور
- 6,264
- پوائنٹ
- 437
السلام علیکم ورحمتہ اللہ!
سب سے پہلے میں نے یہ بات الحدیث میں پڑھی اور مجھے حیرت ہوئی کہ کوئی عقیدہ بغیر دلیل کے بھی ہوسکتا ہے! ملاحظہ فرمائیں:
ماہنامہ الحدیث، شمارہ نمبر 14، جولائی 2005، ص6 پر سنن ابی داود کی حدیث کہ انبیاء کے جسم کو کھانا اللہ نے مٹی پر حرام کر دیا ہے کو شیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی انوار الصحیفہ کے تحت ضعیف قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے فوراً بعد لکھا ہے: یاد رہے کہ نبی کریم ﷺ کا جسم مبارک بعینہ صحیح سلامت و محفوظ ہے۔
یہ سوال میں نے شیخ محترم جناب رفیق طاہر حفظہ اللہ کی خدمت میں پیش کیا اور اس بے دلیل دعویٰ کی دلیل طلب کی لیکن جواب سے مجھے تسلی نہیں ہوئی۔ دیکھئے: اس دعوى کی کیا دلیل ہے کہ انبیاء کے جسموں کو مٹی نہیں کھاتی - URDU MAJLIS FORUM
شیخ محترم نے کہا ہمارے نزدیک سنن ابی داود کی حدیث صحیح مسلم کی شرط پر صحیح ہے لیکن چونکہ میں حدیث کی تحقیق نہیں کرسکتا تھا اس لئے مجبورا خاموشی اختیار کی اور سمجھا کہ ہوسکتا ہے کہ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ سے حدیث کی تحقیق میں غلطی ہوئی ہو اور ایک صحیح حدیث کو ضعیف قرار دے دیا ہو۔واللہ اعلم
لیکن جب حال ہی میں اہل حدیث کے اکابر محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی ایک تحریر نظر سے گزری جس سے حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے موقف کی تائید ہوتی ہے۔ تو پرانا سوال دوبارہ ذہن میں ابھر آیا۔ اسماعیل سلفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے اپنی گزارشات میں عرض کیا تھا کہ حیات انبیاءعلیہم السلام پر اجماع امت ہے گو احادیث کی صحت محل نظر ہے تاہم ان کا مفاد یہ ہےکہ انبیا علیہم السلام کے اجسام مبارکہ کو مٹی نہیں کھاتی۔ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء (مسئلہ حیات النبی از مولانا اسماعیل سلفی، ص52)
حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ اور مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی بات میں زرہ برابر بھی کوئی فرق نہیں دونوں کے نزدیک انبیاء علیہ السلام کے اجسام کو مٹی نہ کھانے والی حدیث ضعیف ہے لیکن عقیدہ یہی ہے جو کہ ضعیف حدیث میں ذکر ہوا ہے۔ میرا اہل علم سے سوال ہے کہ انبیاء علیہ السلام کے اجسام کے بارے میں صحیح عقیدہ کیا ہے جو نص سے ثابت ہو؟
محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ نے انبیاء علیہ السلام کے اجسام کو مٹی نہیں کھاتی، حدیث کے ضعف پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے تفصیل کے لئے مذکورہ کتاب کا مطالعہ کریں یہ رسالہ کتاب تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی میں شامل ہے۔
تحریک آزادی فکر اور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی - اہل حدیث - کتاب و سنت کی روشنی میں لکھی جانے والی اردو اسلامی کتب کا سب سے بڑا مفت مرکز
مولانا حدیث کے ضعف کے بارے میں لکھتے ہیں: جہاں تک ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء ٹکڑے کا تعلق ہے وہ صرف تین سندوں سے مروی ہے اور تینوں مخدوش ہیں۔(حاشیہ مسئلہ حیات النبی از مولانا اسماعیل سلفی، ص37)
مزید فرماتے ہیں: حافظ ابن القیم نے بھی جلاء الافہام میں ابن حاتم کی جرح کے جواب میں کوشش فرمائی ہے جس کی بنیاد عبدالرحمنٰ بن یزید بن جابر اور عبدالرحمن بن یزید بن تمیم کے اسشتباہ پر رکھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جلاء الافہام کی ساری بحث پڑھنے کے بعد بھی ذہن صاف نہیں ہوتا۔اجلہ محدثین رحمہم اللہ کی تنقید ایسی نہیں جو مناظرانہ احتمالات کی نذر کر دی جائے۔( مسئلہ حیات النبی از مولانا اسماعیل سلفی، ص38)
انبیاء علیہ السلام کے اجسام کو مٹی نہیں کھاتی والی روایت اس صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے جسے حافظ نورالدین ہیثمی نے مجمع الزواید جلد 10 ص170 پر ابویعلی اور طبرانی سے بروایت حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نقل فرما کر صحیح کہا اور جس میں آیا ہے: حضرت موسیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل کے ہمراہ رات مصر سے نکلے تو راستہ بھول گئے۔ جب تشویش ہوئی تو علمائے بنی اسرائیل نے فرمایا، یوسف علیہ السلام نے ہم سے پختہ وعدہ لیا تھا کہ جب وہ مصر سے جائیں تو میری ہڈیاں اپنے ہمراہ لیتے جائیں۔چناچہ انہوں نے ہڈیاں نکال لیں اور اپنے ہمراہ لے گئے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مٹی انبیاء علیہ السلام کے اجسام کے ساتھ تصرف کرتی ہے۔واللہ اعلم
میں چاہونگا کہ محترم مجتہد رفیق طاہر حفظہ اللہ بھی اس بارے میں اپنی گزارشات ضرور پیش کریں کیونکہ شیخ ایک اصولی آدمی ہیں اور اکثر ان کی تحقیق پر دل مطمئن ہو جاتا ہے۔
سب سے پہلے میں نے یہ بات الحدیث میں پڑھی اور مجھے حیرت ہوئی کہ کوئی عقیدہ بغیر دلیل کے بھی ہوسکتا ہے! ملاحظہ فرمائیں:
ماہنامہ الحدیث، شمارہ نمبر 14، جولائی 2005، ص6 پر سنن ابی داود کی حدیث کہ انبیاء کے جسم کو کھانا اللہ نے مٹی پر حرام کر دیا ہے کو شیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی انوار الصحیفہ کے تحت ضعیف قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے فوراً بعد لکھا ہے: یاد رہے کہ نبی کریم ﷺ کا جسم مبارک بعینہ صحیح سلامت و محفوظ ہے۔
یہ سوال میں نے شیخ محترم جناب رفیق طاہر حفظہ اللہ کی خدمت میں پیش کیا اور اس بے دلیل دعویٰ کی دلیل طلب کی لیکن جواب سے مجھے تسلی نہیں ہوئی۔ دیکھئے: اس دعوى کی کیا دلیل ہے کہ انبیاء کے جسموں کو مٹی نہیں کھاتی - URDU MAJLIS FORUM
شیخ محترم نے کہا ہمارے نزدیک سنن ابی داود کی حدیث صحیح مسلم کی شرط پر صحیح ہے لیکن چونکہ میں حدیث کی تحقیق نہیں کرسکتا تھا اس لئے مجبورا خاموشی اختیار کی اور سمجھا کہ ہوسکتا ہے کہ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ سے حدیث کی تحقیق میں غلطی ہوئی ہو اور ایک صحیح حدیث کو ضعیف قرار دے دیا ہو۔واللہ اعلم
لیکن جب حال ہی میں اہل حدیث کے اکابر محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی ایک تحریر نظر سے گزری جس سے حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے موقف کی تائید ہوتی ہے۔ تو پرانا سوال دوبارہ ذہن میں ابھر آیا۔ اسماعیل سلفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے اپنی گزارشات میں عرض کیا تھا کہ حیات انبیاءعلیہم السلام پر اجماع امت ہے گو احادیث کی صحت محل نظر ہے تاہم ان کا مفاد یہ ہےکہ انبیا علیہم السلام کے اجسام مبارکہ کو مٹی نہیں کھاتی۔ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء (مسئلہ حیات النبی از مولانا اسماعیل سلفی، ص52)
حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ اور مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی بات میں زرہ برابر بھی کوئی فرق نہیں دونوں کے نزدیک انبیاء علیہ السلام کے اجسام کو مٹی نہ کھانے والی حدیث ضعیف ہے لیکن عقیدہ یہی ہے جو کہ ضعیف حدیث میں ذکر ہوا ہے۔ میرا اہل علم سے سوال ہے کہ انبیاء علیہ السلام کے اجسام کے بارے میں صحیح عقیدہ کیا ہے جو نص سے ثابت ہو؟
محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ نے انبیاء علیہ السلام کے اجسام کو مٹی نہیں کھاتی، حدیث کے ضعف پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے تفصیل کے لئے مذکورہ کتاب کا مطالعہ کریں یہ رسالہ کتاب تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی میں شامل ہے۔
تحریک آزادی فکر اور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی - اہل حدیث - کتاب و سنت کی روشنی میں لکھی جانے والی اردو اسلامی کتب کا سب سے بڑا مفت مرکز
مولانا حدیث کے ضعف کے بارے میں لکھتے ہیں: جہاں تک ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء ٹکڑے کا تعلق ہے وہ صرف تین سندوں سے مروی ہے اور تینوں مخدوش ہیں۔(حاشیہ مسئلہ حیات النبی از مولانا اسماعیل سلفی، ص37)
مزید فرماتے ہیں: حافظ ابن القیم نے بھی جلاء الافہام میں ابن حاتم کی جرح کے جواب میں کوشش فرمائی ہے جس کی بنیاد عبدالرحمنٰ بن یزید بن جابر اور عبدالرحمن بن یزید بن تمیم کے اسشتباہ پر رکھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جلاء الافہام کی ساری بحث پڑھنے کے بعد بھی ذہن صاف نہیں ہوتا۔اجلہ محدثین رحمہم اللہ کی تنقید ایسی نہیں جو مناظرانہ احتمالات کی نذر کر دی جائے۔( مسئلہ حیات النبی از مولانا اسماعیل سلفی، ص38)
انبیاء علیہ السلام کے اجسام کو مٹی نہیں کھاتی والی روایت اس صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے جسے حافظ نورالدین ہیثمی نے مجمع الزواید جلد 10 ص170 پر ابویعلی اور طبرانی سے بروایت حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نقل فرما کر صحیح کہا اور جس میں آیا ہے: حضرت موسیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل کے ہمراہ رات مصر سے نکلے تو راستہ بھول گئے۔ جب تشویش ہوئی تو علمائے بنی اسرائیل نے فرمایا، یوسف علیہ السلام نے ہم سے پختہ وعدہ لیا تھا کہ جب وہ مصر سے جائیں تو میری ہڈیاں اپنے ہمراہ لیتے جائیں۔چناچہ انہوں نے ہڈیاں نکال لیں اور اپنے ہمراہ لے گئے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مٹی انبیاء علیہ السلام کے اجسام کے ساتھ تصرف کرتی ہے۔واللہ اعلم
میں چاہونگا کہ محترم مجتہد رفیق طاہر حفظہ اللہ بھی اس بارے میں اپنی گزارشات ضرور پیش کریں کیونکہ شیخ ایک اصولی آدمی ہیں اور اکثر ان کی تحقیق پر دل مطمئن ہو جاتا ہے۔