• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ترمذی کی حدیث سے نماز میں زیر ناف ہاتھ باندھنے پر استدلال [انتظامیہ]

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
صحيح وضعيف سنن الترمذي - (ج 1 / ص 252) ( سنن الترمذي )
252 حدثنا قتيبة حدثنا أبو الأحوص عن سماك بن حرب عن قبيصة بن هلب عن أبيه قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يؤمنا فيأخذ شماله بيمينه قال وفي الباب عن وائل بن حجر وغطيف بن الحارث وابن عباس وابن مسعود وسهل بن سعد قال أبو عيسى حديث هلب حديث حسن والعمل على هذا عند أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم يرون أن يضع الرجل يمينه على شماله في الصلاة ورأى بعضهم أن يضعهما فوق السرة ورأى بعضهم أن يضعهما تحت السرة وكل ذلك واسع عندهم واسم هلب يزيد بن قنافة الطائي .

تحقيق الألباني : حسن صحيح

ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ــــــــــــــ بعض ہاتھوں کو ناف کے اوپر باندھتے تھے اور بعض ناف کے نیچے ــــــ ــــــــــ الحدیث
محدث نے صرف ناف کے محاذات کا ذکر کیا۔
اس طرح صحیح مسلم میں بھی محدث نے وضاحت سے لکھا ؛

صحيح مسلم: كِتَاب الصَّلَاةِ:
بَاب وَضْعِ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى بَعْدَ تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ تَحْتَ صَدْرِهِ فَوْقَ سُرَّتِهِ وَوَضْعُهُمَا فِي السُّجُودِ عَلَى الْأَرْضِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ


تکبیر تحریمہ کے بعد سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ پر سینہ کے نیچے ناف کے اوپر باندھنا ـــــــــــــــــــــــــــ
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
صحيح وضعيف سنن الترمذي - (ج 1 / ص 252) ( سنن الترمذي )
252 حدثنا قتيبة حدثنا أبو الأحوص عن سماك بن حرب عن قبيصة بن هلب عن أبيه قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يؤمنا فيأخذ شماله بيمينه قال وفي الباب عن وائل بن حجر وغطيف بن الحارث وابن عباس وابن مسعود وسهل بن سعد قال أبو عيسى حديث هلب حديث حسن والعمل على هذا عند أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم يرون أن يضع الرجل يمينه على شماله في الصلاة ورأى بعضهم أن يضعهما فوق السرة ورأى بعضهم أن يضعهما تحت السرة وكل ذلك واسع عندهم واسم هلب يزيد بن قنافة الطائي .
تحقيق الألباني : حسن صحيح
سنن الترمذی کی اس حدیث میں زیر ناف یا ناف کے اوپر ہاتھ باندھنے کا کوئی ذکر نہیں ،حدیث میں صرف ہاتھ باندھنے کا بیان ہے ،
باقی عبارت محدث ترمذی کی ہے ،
حدیث صرف اتنی ہے کہ :
حدثنا قتيبة حدثنا ابو الاحوص عن سماك بن حرب عن قبيصة بن هلب عن ابيه قال:‏‏‏‏ كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " يؤمنا فياخذ شماله بيمينه "
جناب ہلب طائی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری امامت کرتے تو بائیں ہاتھ کو اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑتے۔
قال ابو عيسى:‏‏‏‏ حديث هلب حديث حسن‘‘
یہاں باقی عبارت کو اس حدیث کا حصہ بنانا دھوکہ دہی ہے ،
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
احناف کی فقہ کی معتبر کتاب ھدایہ میں ہے کہ :
قال: ويعتمد بيده اليمنى على اليسرى تحت السرة، لقوله - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ -: «إن من السنة وضع اليمين على الشمال تحت السرة»
کہ جناب علی سے مروی ہے دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھ کر زیر ناف رکھنا سنت ہے ‘‘
لیکن اس کی شرح ’’ البناية شرح الهداية ‘‘ میں علامہ عینی حنفی لکھتے ہیں :
من حديث عبد الرحمن بن إسحاق الواسطي عن زيادة بن زيد السوائي عن أبي جحيفة عن علي - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - أنه قال: «السنة وضع الكف على الكف تحت السرة» ، وقال أحمد وأبو حاتم: عبد الرحمن بن الحارث أبو شيبة الواسطي، منكر الحديث. وقال ابن معين: ليس بشيء، وقال البخاري: فيه نظر، وزيادة بن زيد لا يعرف، وقال النووي في الخلاصة في " شرح مسلم ": هو حديث ضعيف متفق على ضعفه،
یعنی اس روایت کو عبد الرحمن بن إسحاق الواسطي نے نقل کیا ہے
اور یہ امام احمد اور امام ابو حاتم نے اس راوی کو ’’منکر الحدیث ‘‘ کہا ہے
اور امام ابن معین کہتے ہیں یہ کوئی شئی نہیں،بخاری فرماتے ہیں :اس میں نظر ہے ،اور علامہ نووی فرماتے ہیں : یہ حدیث بالاتفاق ضعیف ہے،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ عینی مزید لکھتے ہیں :
فإن قلت: كيف يكون الحديث حجة على الشافعي وهو حديث ضعيف لا يقاوم الحديث الصحيح والآثار التي احتج بها مالك والشافعي، هو حديث وائل بن حجر أخرجه ابن خزيمة في " صحيحه " قال: «صليت مع رسول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فوضع يده اليمنى على اليسرى على صدره»
زیر ناف ہاتھ باندھنے کی جناب علی والی حدیث امام مالک و امام شافعی کے خلاف کیسے دلیل بن سکتی ہے جبکہ وہ نہایت ضعیف روایت ہے ،
اور یہ اس صحیح حدیث اور آثار کے مقابلہ نہیں کرسکتی جو امام مالک و امام شافعی کی دلیل ہیں۔انکی دلیل صحیح ابن خزیمہ میں سیدنا وائل رضی اللہ عنہ کی روایت ہے
وہ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب نبی اکرم ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی،تو آپ نے
دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر باندھے ‘‘
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
قال ابو عيسى:‏‏‏‏ حديث هلب حديث حسن‘‘
یہاں باقی عبارت کو اس حدیث کا حصہ بنانا دھوکہ دہی ہے ،
محترم! نہ تو کسی نے اس کو حدیث کا حصہ بنایا ہے اور نہ ہی دھوکہ دہی کی ہے یہ کام صرف یہود کے شکار لوگوں کاہے۔
لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اس حدیث میں گو ہاتھ باندھنے کی کیفیت مذکور ہے مقام کا ذکر نہیں۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ محدث نے اس کے ذیل میں جو لکھا کیا وہ صحیح ہے یا غلط۔
محترم! صرف یہی محدث نہیں بلکہ صحیح مسلم میں بھی حدیث جس میں ہے کہ ”ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى ــ الحدیث“ اس کا عنوان بھی امام مسلم نے اس طرح باندھا ہے؛

صحيح مسلم: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب وَضْعِ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى بَعْدَ تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ تَحْتَ صَدْرِهِ فَوْقَ سُرَّتِهِ وَوَضْعُهُمَا فِي السُّجُودِ عَلَى الْأَرْضِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ
تکبیر تحریمہ کے بعد سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ پر سینہ کے نیچے ناف کے اوپر باندھنا ـــ الخ
دونوں جلیل القدر محدثین سینہ پر ہاتھ باندھنے کی بجائے سینہ سے نیچے ہاتھ باندھنے کی دلیل لارہے ہیں اور ناف کو محور بتاتے ہیں۔
کیا یہ دونوں جلیل القدر محدثین غلط سمجھے ہیں؟
محترم البانی نے بھی امام ترمذی کے اس قول سمیت اس کو ”حسن صحیح“ کہا ہے۔
اس کے رد کے لئے کوئی صحیح حدیث لائیں یا کسی محدث یا فقیہ کا قول ۔

یعنی اس روایت کو عبد الرحمن بن إسحاق الواسطي نے نقل کیا ہے
اور یہ امام احمد اور امام ابو حاتم نے اس راوی کو ’’منکر الحدیث ‘‘ کہا ہے
اور امام ابن معین کہتے ہیں یہ کوئی شئی نہیں،بخاری فرماتے ہیں :اس میں نظر ہے ،اور علامہ نووی فرماتے ہیں : یہ حدیث بالاتفاق ضعیف ہے،
ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی صراحت ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے ملتی ہے۔ ان کے زمانہ تک یہ ضعیف راوی تھا ہی نہیں تو اس کا ضعف ان تک کیسے پہنچ گیا۔عبد الرحمن بن إسحاق الواسطي جس سے حدیث لے رہے ہیں وہ ہے سيار أبي الحكم اور ان کی وفات 122 ہجری ہے۔
بفرضِ محال اگر یہ ضعیف ہے تو سینہ پر ہاتھ باندھنے کی بھی کوئی حدیث صحیح نہیں۔

زیر ناف ہاتھ باندھنے کی جناب علی والی حدیث امام مالک و امام شافعی کے خلاف کیسے دلیل بن سکتی ہے جبکہ وہ نہایت ضعیف روایت ہے ،
اور یہ اس صحیح حدیث اور آثار کے مقابلہ نہیں کرسکتی جو امام مالک و امام شافعی کی دلیل ہیں۔انکی دلیل صحیح ابن خزیمہ میں سیدنا وائل رضی اللہ عنہ کی روایت ہے
وہ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب نبی اکرم ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی،تو آپ نے
دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر باندھے ‘‘
فیصلہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لے جاتے ہیں؛
مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ ــــ الحدیث
آخری خلیفہ راشد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرما رہے ہیں کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت ہے۔
زیر ناف ہاتھ باندھنے کی مزید احادیث؛

1:صحيح مسلم: كِتَاب الصَّلَاةِ:
بَاب وَضْعِ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى بَعْدَ تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ تَحْتَ صَدْرِهِ فَوْقَ سُرَّتِهِ وَوَضْعُهُمَا فِي السُّجُودِ عَلَى الْأَرْضِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ
تکبیر تحریمہ کے بعد سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ پر سینہ کے نیچے ناف کے اوپر باندھنا ــــــــــ الخ

2 :سنن الترمذي:كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب مَا جَاءَ فِي وَضْعِ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ فِي الصَّلَاةِ:
حدثنا قتيبة حدثنا أبو الأحوص عن سماك بن حرب عن قبيصة بن هلب عن أبيه قال ثم كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يؤمنا فيأخذ شماله بيمينه

قال وفي الباب عن وائل بن حجر وغطيف بن الحارث وابن عباس وابن مسعود وسهل بن سعد
قال أبو عيسى حديث هلب حديث حسن والعمل على هذا ثم أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن أن يضع الرجل يمينه على شماله في الصلاة ورأى بعضهم أن يضعهما فوق السرة ورأى بعضهم أن يضعهما تحت السرة وكل ذلك واسع عندهم واسم هلب يزيد بن قنافة الطائي

ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ــــــــــــــ بعض ہاتھوں کو ناف کے اوپر باندھتے تھے اور بعض ناف کے نیچے (سینہ کا ذکر ہی نہیں)ــــــ ــــــــــ الحدیث

3: ابوداؤد:كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب وَضْعِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ:
حدثنا محمد بن محبوب حدثنا حفص بن غياث عن عبد الرحمن بن إسحق عن زياد بن زيد عن أبي جحيفة أن عليا رضي الله عنه قال من السنة وضع الكف على الكف في الصلاة تحت السرة

بے شک علی رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہتھیلی پر ہتھیلی ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے۔

4 : ابوداؤد: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب وَضْعِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ:
حدثنا محمد بن قدامة يعني ابن أعين عن أبي بدر عن أبي طالوت عبد السلام عن ابن جرير الضبي عن أبيه قال رأيت عليا رضي الله عنه يمسك شماله بيمينه على الرسغ فوق السرة

علی رضی الله تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے ناف کے اوپر گٹ سے پکڑے ہوئے تھے۔
قال أبو داود وروي عن سعيد بن جبير فوق السرة قال أبو مجلز تحت السرة وروي عن أبي هريرة وليس بالقوي
ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سعيد بن جبيرناف کے اوپر روایت کرتے ہیں اور أبو مجلز ناف کے نیچے (یہاں بھی سینہ کا ذکر تک نہیں)۔ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی روایت ہے اور وہ قوی نہیں۔

5 : ابوداؤد: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب وَضْعِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ:
حدثنا مسدد حدثنا عبد الواحد بن زياد عن عبد الرحمن بن إسحق الكوفي عن سيار أبي الحكم عن أبي وائل قال قال أبو هريرة أخذ الأكف على الأكف في الصلاة تحت السرة

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز میں ناف کے نیچے ہتھیلی سے ہتھیلی پکڑیں۔ اس روایت کو ابو داؤد رحمۃ اللہ نے کہا کہ صحیح نہیں۔

6 سنن الكبرى للبيهقي: باب وضع اليدين على الصدر في الصلوة من السنة:
وأخبرنا أبو زكريا بن أبي إسحاق أنبأ الحسن بن يعقوب ثنا يحيى بن أبي طالب أنبأ زيد ثنا سفيان عن بن جريج عن أبي الزبير قال ثم أمرني عطاء أن أسأل سعيد أين تكون اليدان في الصلاة فوق السرة أو أسفل من السرة فينبغي عنه فقال فوق السرة يعني به سعيد بن جبير

سعيد بن جبير (رحمۃ اللہ علیہ) سے پوچھا گیا کہ کہ نماز میں ہاتھ کہاں باندھے جائیں ناف کے اوپر یا ناف کے نیچے؟ ـــــــــــــــــــــ (سعيد بن جبيررحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا کہ ناف کے اوپر۔

وكذلك قاله أبو مجلز ولاحق بن حميد وأصح أثر روي في هذا الباب أثر سعيد بن جبير وأبي مجلز وروي عن علي رضي الله عنه تحت السرة وفي إسناده ضعف

7 : سنن الكبرى للبيهقي: باب وضع اليدين على الصدر في الصلوة من السنة:
أخبرنا أبو بكر بن الحارث الفقيه أنبأ علي بن عمر الحافظ ثنا محمد بن القاسم بن زكريا ثنا أبو كريب ثنا يحيى بن أبي زائدة عن عبد الرحمن بن إسحاق حدثني زياد بن زيد السوائي عن أبي جحيفة عن على رضي الله عنه قال ثم إن من السنة في الصلاة وضع الكف على الكف تحت السرة

علی رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہتھیلی پر ہتھیلی ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے۔

وكذلك رواه أبو معاوية عن عبد الرحمن ورواه حفص بن غياث عن عبد الرحمن

8 : سنن الكبرى للبيهقي: باب وضع اليدين على الصدر في الصلوة من السنة:

كما أخبرنا أبو بكر بن الحارث أنبأ علي بن عمر الحافظ ثنا محمد بن القاسم ثنا أبو كريب ثنا حفص بن غياث عن عبد الرحمن بن إسحاق عن النعمان بن سعيد عن علي رضي الله عنه أنه كان يقول ثم إن من سنة الصلاة وضع اليمين على الشمال تحت السرة

علی رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہتھیلی پر ہتھیلی ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے۔

عبد الرحمن بن إسحاق هذا هو الواسطي القرشي جرحه أحمد بن حنبل ويحيى بن معين والبخاري وغيرهم ورواه أيضا عبد الرحمن عن يسار عن أبي وائل عن أبي هريرة كذلك وعبد الرحمن بن إسحاق متروك
واضح رہے کہ عبد الرحمن بن إسحاق کا ضعف ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو نہیں پہنچتا۔

آثار
9 : مصنف ابن أبي شيبة:
حدثنا وكيع عن ربيع عن أبي معشر عن إبراهيم:
قال يضع يمينه على شماله في الصلاة تحت السرة

إبراهيم (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں پر ناف کے نیچے باندھیں۔

10: حدثنا يزيد بن هارون قال أخبرنا الحجاج بن حسان قال سمعت أبا مجلز أو سألته قال قلت كيف يصنع قال يضع كف يمينه على ظاهر كف شماله ويجعلها أسفل من السرة

دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر باندھ کر ناف کے نیچے رکھیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
دونوں جلیل القدر محدثین سینہ پر ہاتھ باندھنے کی بجائے سینہ سے نیچے ہاتھ باندھنے کی دلیل لارہے ہیں اور ناف کو محور بتاتے ہیں۔
کیا یہ دونوں جلیل القدر محدثین غلط سمجھے ہیں؟
یہاں آپ سے تقلیدی جہالت ظاہر و باہر ہے ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
محترم البانی نے بھی امام ترمذی کے اس قول سمیت اس کو ”حسن صحیح“ کہا ہے۔

آج پہلی بار یہ بات پڑھی کہ کوئ محدث قول سمیت کسی حدیث کو حسن کہ رھے ھیں.
جناب یقین جانۓ سیکھنے کی کوشش کرتا ھوں اسلۓ براہ کرم مجھے اس سلسلے میں بتائیں.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
آخری خلیفہ راشد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرما رہے ہیں کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت ہے۔
یہ بالاتفاق ضعیف بات ہے ، اور یہ بات آپ ہی کے امام بدر الدین عینی نے بتائی ہے ،دیکھئے البنایہ شرح ھدایہ
عن علي - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - أنه قال: «السنة وضع الكف على الكف تحت السرة» ، وقال أحمد وأبو حاتم: عبد الرحمن بن الحارث أبو شيبة الواسطي، منكر الحديث. وقال ابن معين: ليس بشيء، وقال البخاري: فيه نظر، وزيادة بن زيد لا يعرف، وقال النووي في الخلاصة في " شرح مسلم ": هو حديث ضعيف متفق على ضعفه،
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
محترم البانی نے بھی امام ترمذی کے اس قول سمیت اس کو ”حسن صحیح“ کہا ہے۔

آج پہلی بار یہ بات پڑھی کہ کوئ محدث قول سمیت کسی حدیث کو حسن کہ رھے ھیں.
جناب یقین جانۓ سیکھنے کی کوشش کرتا ھوں اسلۓ براہ کرم مجھے اس سلسلے میں بتائیں.
محترم البانی رحمۃ اللہ علیہ نے صرف حدیث والا حصہ نہیں لکھا بلکہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے قول سمیت لکھ کر اس مجموعہ پر ”حسن صحیح“ لکھا۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
یہ بالاتفاق ضعیف بات ہے ، اور یہ بات آپ ہی کے امام بدر الدین عینی نے بتائی ہے ،دیکھئے البنایہ شرح ھدایہ
محترم! میں نے لکھا تھا؛
عبد الرحمن بن إسحاق الواسطي جس سے حدیث لے رہے ہیں وہ ہے سيار أبي الحكم اور ان کی وفات 122 ہجری ہے۔
اور سيار أبي الحكم ثقہ راوی ہے لہٰذا عبد الرحمن بن إسحاق الواسطي کا ضعف احناف کو نہیں پہنچتا۔
 
Top