محمد زاہد بن فیض
سینئر رکن
- شمولیت
- جون 01، 2011
- پیغامات
- 1,957
- ری ایکشن اسکور
- 5,787
- پوائنٹ
- 354
عمر معاویہ بھائی جان، آپ کی بات کی سمجھ نہیں آ سکی۔ آپ تین طلاق کو ایک ہی طلاق باور کروانا چاہتے ہیں تو اوپر پوسٹ میں بھی محمد زاہد بھائی نے یہی موقف پیش کیا ہے کہ حنفی حضرات بھی ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین شمار کرتے ہیں جبکہ اصل مسئلہ یہی ہے کہ اسے ایک ہی شمار کیا جانا چاہئے۔ اور جب خود اپنے اوپر زد پڑتی ہے تو یہ حضرات بذات خود عوام الناس کو اہل حدیث علماء کے پاس بھیج دیتے ہیں۔سبحان اللہ !
کیا میرے محدث بھائی صاحب ایک سوال کا جواب دے سکتے ہیں کہ
۔۔۔۔
اور اگر شامل نہیں تو پھر صرف حنفی حضرات پر الزام کیوں جبکہ اس معاملے میں یہ سب امام ایک موقف رکھتے ہیں جو بقول آپ کے قرآن و سنت سے ہٹا ہوا ہے۔
معذرت چاہتا ہوں کہ میری پوسٹ کا مقصد واضح نہیں ہو سکا۔عمر معاویہ بھائی جان، آپ کی بات کی سمجھ نہیں آ سکی۔ آپ تین طلاق کو ایک ہی طلاق باور کروانا چاہتے ہیں تو اوپر پوسٹ میں بھی محمد زاہد بھائی نے یہی موقف پیش کیا ہے کہ حنفی حضرات بھی ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین شمار کرتے ہیں جبکہ اصل مسئلہ یہی ہے کہ اسے ایک ہی شمار کیا جانا چاہئے۔ اور جب خود اپنے اوپر زد پڑتی ہے تو یہ حضرات بذات خود عوام الناس کو اہل حدیث علماء کے پاس بھیج دیتے ہیں۔
ویسے طلاق کے موضوع پر ہم نے کتاب و سنت لائبریری میں الحمدللہ بہت اچھی کتب جمع کی ہیں۔ ذاتی طور پر مجھے دو کتب بہت پسند ہیں:
احسن الابحاث بجواب عمدۃ الاثاث
درج بالا کتاب ایک سابقہ دیوبندی عالم حکیم محمد صفدر عثمانی صاحب نے ایک دوسرے عالم سرفراز خان صفدر کی کتاب احسن الابحاث کے جواب میں لکھی ہے۔
دوسری کتاب ہے :
تین طلاق۔۔مجموعہ مقالات علمیہ
درج بالا کتاب ایک سیمینار کی روداد ہے ۔ جس میں مختلف مکاتب فکر کے جید علماء نے اپنے مقالہ جات پیش کئے تھے اور متفقہ طور پر طلاق ثلاثہ کے حوالے سے ایک مؤقف بیان کیا تھا۔ اسے اجماع تو نہیں کہنا چاہئے لیکن بہرحال مختلف مسالک کے علماء کی ایک متفقہ رائے کہا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ بھی اس موضوع پر کتب موجود ہیں۔ مثلاً
ایک مجلس میں تین طلاقیں اور اُس کا شرعی حل
شرعی طلاق
حلالہ کی چھری
وغیرہ۔۔
جی بھائی جان، اسی شائستگی کو برقرار رکھنے کی خاطر تو ہمارے کچھ سخت اقدامات سے ہمارے اپنے بھائی ہم سے ناراض ہیں۔ ان شاء اللہ ہماری بھی یہی کوشش ہوگی کہ آپسی بات چیت میں کوئی ناشائستگی نہ ہو۔ محمد زاہد صاحب جنہوں نے یہ دھاگا شروع کیا ہے انہوں نے ایک معمول کا واقعہ بیان کیا ہے۔اور اس میں اپنوں اور پرائیوں کے لئے الگ فتویٰ کو پوائنٹ آؤٹ کیا ہے۔ اور واقعہ کی صحت پر بھی انہیں اصرار نہیں۔ بہرحال اگر آپ اس موضوع پر بات چیت کے خواہشمند ہیں تو ازراہ کرم ایک نیا دھاگا شروع کر کے ایک مجلس کی تین طلاق کے تین ہی واقع ہونے کے دلائل نقل کر دیں۔ یہاں فورم پر اہل علم موجود ہیں۔ امید ہے کہ اگر مقصد بحث برائے بحث یا ہار جیت نہیں تو وہ بھی ضرور اس میں افہام و تفہیم کی خاطر حصہ لیں گے۔مجھے امید ہے کہ شائشتگی کے دائرے میں رہ کر دلیل سے بات کی جائے گی۔
جی بھائی جان۔ ہم بھی دلیل ہی کی فوقیت کے قائل ہیں ۔ اس لئے شخصیات پر بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں۔ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ کیا دلیل سے ثابت ہے
جزاکم اللہ خیرا علوی بھائی! بہت اچھی وضاحت فرمائی آپ نے اہل الحدیث اور اہل الرائے کے درمیان فرق میں۔ چونکہ یہ موضوع بہت ہی اہم ہے، لہٰذا میں آپ کی بات کو ہی آگے بڑھاتے ہوئے کچھ مثالوں سے وضاحت کرنا چاہ رہا تھا، تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ اہل حدیثیت صرف چند مسائل (رفع الیدین، فاتحہ خلف الامام، آمین بالجہر وغیرہ وغیرہ) کا نام نہیں، بلکہ یہ تو ایک طرزِ فکر ہے۔اہل الحدیث اور اہل الرائے کا بنیادی فرق یہ تھا کہ اہل الحدیث کے نزدیک اجتہاد ضرورت کے تحت تھا اور عارضی تھا یعنی جب ضرورت پڑی اجتہاد کر لیا اور یہ عارضی تھا یعنی اسی دور کے لوگوں کے لیے تھا یعنی ہر دور کے علماء اپنے زمانہ کے لوگوں کے لیے اجتہاد کریں گے۔
اس کے برعکس اہل الرائے کا موقف یہ تھا کہ اجتہاد ایک مستقل شیئ ہے اور بغیر ضرورت بھی ہو سکتا ہے اور اسی بنیاد پر انہوں نے مستقبل کے مسائل کے بارے بھی رہنمائی دینے کے لیے فقہ تقدیری کے نام سے ہزراوں فرضی مسائل مرتب کیے۔ دوسری بات اہل الرائے کے نزدیک یہ تھی کہ وہ اجتہاد کو کتاب وسنت کی طرح دائمی حیثیت دیتے تھے یعنی ان کے نزدیک ائمہ کے اجتہادات یا فقہ شریعت اسلامیہ کی طرح دائمی تھی اور اس بنیاد پر اس کی پابندی لازم تھی۔
خلاصہ کلام یہ ہے جو اہل علم کے اجتہادات کو ضرورت کے وقت اور عارضی مانتا ہے وہ اہل الحدیث ہے اور جو ائمہ کے اجتہادات کو ایک مستقل حیثیت سے مصدر دین مانتا ہے اور انہیں شریعت اسلامیہ کی طرح دائمی سمجھتا ہے تو وہ اہل الرائے ہے۔