اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
علماء احناف پر ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ انہوں نے قیاس کے مقابلے میں خبر واحد کو قبول کرنے کے لیے راوی کے فقیہ ہونے کی شرط لگائی ہے۔ یعنی جب خبر واحد اور قیاس میں تعارض ہو جائے تو خبر واحد کا راوی اگر فقیہ ہو تو خبر کو قبول کیا جائے گا اور اگر غیر فقیہ ہو تو قیاس کو ترجیح دی جائے گی۔ اس پر فورم کے ایک رکن جمشید بھائی نے ایک مضمون لکھا ہے جو مختلف فورمز وغیرہ پر مل جاتا ہے۔ انہوں نے جتنی تحقیق فرمائی ہے شاید بندہ عاجز کے اختیار میں اس سے زیادہ تحقیق اور اس میں اضافہ کرنا نہ ہو۔
اس مضمون پر محترم @ابن داؤد بھائی کو کچھ اشکالات ہیں۔ زیر نظر مضمون میں میں ان شاء اللہ کچھ مبادیات کے بعد جمشید بھائی کا مضمون اور اس پر ابن داؤد بھائی کے اشکالات پیش کر کے ان کا دفعیہ عرض کروں گا۔
بحث طویل ہے اور وقت کی قلت ہے، خصوصا عید کے بعد ایم بی اے کے دوسرے سمیسٹر کے امتحانات نے کافی مصروف کر رکھا ہے۔ تو اس مضمون کے مکمل ہونے میں ممکن ہے کچھ وقت لگے۔ واللہ الموفق
علماء احناف پر ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ انہوں نے قیاس کے مقابلے میں خبر واحد کو قبول کرنے کے لیے راوی کے فقیہ ہونے کی شرط لگائی ہے۔ یعنی جب خبر واحد اور قیاس میں تعارض ہو جائے تو خبر واحد کا راوی اگر فقیہ ہو تو خبر کو قبول کیا جائے گا اور اگر غیر فقیہ ہو تو قیاس کو ترجیح دی جائے گی۔ اس پر فورم کے ایک رکن جمشید بھائی نے ایک مضمون لکھا ہے جو مختلف فورمز وغیرہ پر مل جاتا ہے۔ انہوں نے جتنی تحقیق فرمائی ہے شاید بندہ عاجز کے اختیار میں اس سے زیادہ تحقیق اور اس میں اضافہ کرنا نہ ہو۔
اس مضمون پر محترم @ابن داؤد بھائی کو کچھ اشکالات ہیں۔ زیر نظر مضمون میں میں ان شاء اللہ کچھ مبادیات کے بعد جمشید بھائی کا مضمون اور اس پر ابن داؤد بھائی کے اشکالات پیش کر کے ان کا دفعیہ عرض کروں گا۔
بحث طویل ہے اور وقت کی قلت ہے، خصوصا عید کے بعد ایم بی اے کے دوسرے سمیسٹر کے امتحانات نے کافی مصروف کر رکھا ہے۔ تو اس مضمون کے مکمل ہونے میں ممکن ہے کچھ وقت لگے۔ واللہ الموفق
بسم الله الرحمان الرحیم
کچھ بنیادی باتیں:
کلام کی ابتداء کرنے سے پہلے ہم کچھ مبادیات پر نظر ڈالتے ہیں جن کی ہمیں درمیان کلام میں ضرورت ہوگی۔
1: قیاس کی دو قسمیں:
لفظ قیاس کا اطلاق فقہاء و اصولیین میں دو چیزوں پر ہوتا ہے:
1: معروف قیاس پر۔ یعنی ایک چیز میں ایک علت پائی جائے اور اس کا حکم منصوص ہو، وہ علت دوسری چیز میں پائے جانے کی صورت میں اس پر بھی وہی حکم لگانا۔
2: ان اصول پر جو مختلف نصوص شرعیہ سے ثابت ہوں۔ اس صورت میں مقیس علیہ کا وجود ضروری نہیں ہوتا بلکہ نصوص سے ایک اصول کا استنباط کیا جاتا ہے اور ان کا اطلاق پھر ان سے متعلق تمام چیزوں پر ہوتا ہے۔
اس (مؤخر الذکر) کی طرف ابن تیمیہؒ نے ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے:
وكمعارضة قوم من البلدين بعض الأحاديث بالقياس الجلي بناء على أن القواعد الكلية لا تنقض بمثل هذا الخبر.
(مجموع الفتاوی 20۔250 ، ط: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف)
یہاں قیاس جلی کو قواعد کلیہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
ابن رشد فرماتے ہیں:
وسبب اختلافهم معارضة القياس للأثر، واختلافهم في مفهوم الأثر. وذلك أن أبا داود خرج من حديث أنس بن مالك «أن أبا طلحة سأل النبي - عليه الصلاة والسلام - عن أيتام ورثوا خمرا، فقال: " أهرقها! قال: أفلا أجعلها خلا؟ قال: لا» .
فمن فهم من المنع سد ذريعة حمل ذلك على الكراهية، ومن فهم النهي لغير علة قال بالتحريم. ويخرج على هذا أن لا تحريم أيضا على مذهب من يرى أن النهي لا يعود بفساد المنهي.
والقياس المعارض لحمل الخل على التحريم أنه قد علم من ضرورة الشرع أن الأحكام المختلفة إنما هي للذوات المختلفة، وأن الخمر غير ذات الخل، والخل بإجماع حلال، فإذا انتقلت ذات الخمر إلى ذات الخل وجب أن يكون حلالا كيفما انتقل.
(بدایۃ المجتہد، 3۔28)
ترجمہ: "اور ان کے اختلاف کا سبب قیاس کا حدیث کے معارض ہونا ہے اور حدیث کے مفہوم میں اختلاف ہونا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سرکہ کو تحریم پر محمول کرنے سے معارض قیاس یہ ہے کہ شرع کی مبادیات میں سے معلوم امر ہے کہ احکام جو مختلف ہوتے ہیں وہ ذات کے مختلف ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں، اور شراب سرکہ سے ذاتا الگ چیز ہے اور سرکہ بالاجماع حلال ہے۔ سو جب ذات خمر سرکہ کی ذات میں تبدیل ہو گئی تو ثابت ہوا کہ وہ حلال ہے چاہے جیسے بھی منتقل ہوئی ہو۔"
(نوٹ: ترجمہ صرف مطلوب کا کیا گیا ہے کیوں کہ اس مسئلہ کی تفصیل خارج از بحث ہے۔)
یہاں جو قیاس ذکر کیا ہے کہ "احکام مختلفہ ذوات مختلفہ کی وجہ سے ہوتے ہیں" یہ ایک اصول ہے اور اس پر قیاس کا اطلاق کیا گیا ہے۔ قیاس معروف کا ہونا یہاں اس لیے ممکن نہیں ہے کہ یہاں نہ کوئی مقیس ہے اور نہ کوئی مقیس علیہ۔
ان كے علاوه ابو العباس قرطبیؒ نے المفہم میں اور دیگر نے بھی لفظ قیاس کو اصول کے لیے ذکر کیا ہے۔
2: خبر واحد کو قیاس کی بناء پر رد کرنا:
سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیجیے کہ بلاوجہ کسی روایت کو کوئی فقیہ رد نہیں کر سکتا چاہے اس کا تعلق عہد صحابہ سے ہو یا ابن حزمؒ کے زمانے کا ہو۔ یا تو روایت اس کے نزدیک ثابت نہیں ہوگی یا اس کا معنی کسی اور وجہ پر محمول ہوگا۔ البتہ اس وجہ کو وہ بعض اوقات بیان کر دیتا ہے اور بعض اوقات بیان نہیں کرتا۔
خبر واحد یا حدیث مبارکہ کو مختلف اوقات میں رد کیا جاتا رہا ہے لیکن کسی مضبوط بنیاد پر۔قیاس کا مرتبہ عموما چوتھا کہا جاتا ہے اور اصل الاصول کتاب اللہ، سنت رسول ﷺ اور اجماع کو قرار دیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود بہت کثرت سے یہ ہوا ہے کہ کسی خبر کو قیاس کی مضبوطی کی بناء پر رد کر دیا جائے۔ ایک بار پھر وضاحت کرتا چلوں کہ رد کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یا تو خبر ثابت نہیں ہے یاکسی اور معنی اور وجہ پر محمول ہے۔
رد خبر عہد نبویﷺ میں:
عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم يوم الأحزاب: «لا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة» فأدرك بعضهم العصر في الطريق، فقال بعضهم: لا نصلي حتى نأتيها، وقال بعضهم: بل نصلي، لم يرد منا ذلك، فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فلم يعنف واحدا منهم
(صحیح البخاری، 5۔112، ط: دار طوق النجاۃ)
ترجمہ: "حضرت ابن عمر رض سے روایت ہے، فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ نے احزاب کے دن فرمایا: تم میں سے کوئی شخص بھی عصر کی نماز نہ پڑھے مگر یہ کہ وہ بنو قریظہ میں ہو۔ تو بعض لوگوں کو راستے میں وقت عصر نے آ لیا۔ تو بعض نے کہا: ہم جب تک بنو قریظہ میں نہیں پہنچ جاتے عصر نہیں پڑھیں گے۔ اور بعض نے کہا: ہم پڑھیں گے، نبی ﷺ کی یہ مراد نہیں تھی۔ یہ نبی ﷺ سے ذکر کیا گیا تو آپ نے ان میں سے کسی پر بھی ناگواری کا اظہار نہیں فرمایا۔"
اس قصے میں دو جماعتیں تھیں۔ پہلی جماعت نے تو الفاظ کے ظاہر پر عمل کر لیا۔ لیکن دوسری جماعت نے ظاہر الفاظ کو بھلا کیوں چھوڑ دیا؟ انہوں نے نبی ﷺ کی یہ مراد کیسے سمجھی کہ آپ ﷺ جلدی پہنچنے کا فرمانا چاہتے تھے اور آپ کی مراد یہ نہیں تھی کہ ہم راستے میں نماز نہ پڑھیں؟ ان کے سامنے دو چیزیں تھیں۔ ایک آیت قرآنی "ان الصلاۃ کانت علی المؤمنین کتابا موقوتا " اور وہ آیات جن سے نماز کی تاکید ظاہر ہوتی ہے۔ اور دوسرا نبی ﷺ کا عام معمول کہ آپ نماز کو وقت سے موخر نہیں فرمایا کرتے تھے۔ اس پر انہوں نے اس موجودہ حکم کےظاہر کو بصورت تاویل و توجیہ رد کر دیا کہ نبی ﷺ کی مراد جلدی پہنچنا تھی ۔
اب آپ ایک بار پھر اوپر قیاس کی دوسری قسم پڑھیے جس میں قیاس کا اطلاق اصول ثابتہ فی الشرع پر کیا گیا ہے اور یہاں دیکھیے کہ ان حضرات نے اسی معنی میں قیاس کر کے حدیث کی توجیہ کی ہے۔
اسی لیے علامہ نوویؒ فرماتے ہیں:
ففيه دلالة لمن يقول بالمفهوم والقياس ومراعاة المعنى
(المنہاج 12۔98، ط: دار احیاء التراث)
ترجمہ: "اس میں دلیل ہے ان کے لیے جو مفہوم، قیاس اور معنی کی رعایت کے قائل ہیں۔"
عن علي رضي الله عنه، قال: بعث النبي صلى الله عليه وسلم سرية فاستعمل رجلا من الأنصار وأمرهم أن يطيعوه، فغضب، فقال: أليس أمركم النبي صلى الله عليه وسلم أن تطيعوني؟ قالوا: بلى، قال: فاجمعوا لي حطبا، فجمعوا، فقال: أوقدوا نارا، فأوقدوها، فقال: ادخلوها، فهموا وجعل بعضهم يمسك بعضا، ويقولون: فررنا إلى النبي صلى الله عليه وسلم من النار، فما زالوا حتى خمدت النار، فسكن غضبه، فبلغ النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: «لو دخلوها ما خرجوا منها إلى يوم القيامة، الطاعة في المعروف»
(صحیح البخاری، 5۔161، ط: دار طوق النجاۃ)
ترجمہ: "حضرت علی رض سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ نے ایک سریہ بھیجا اور اس پر انصار کے ایک شخص کو امیر بنایا اور انہیں حکم دیا کہ اس کی اطاعت کریں۔ وہ (کسی بات پر۔۔۔۔ ناقل) غصہ ہو گئے تو انہوں نے کہا: کیا تمہیں نبی ﷺ نے میری اطاعت کرنے کا حکم نہیں دیا تھا؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں۔ ان (امیر) نے کہا: میرے لیے لکڑیاں جمع کرو۔ انہوں نے جمع کیں۔ کہا: ان میں آگ لگاؤ۔ انہوں نے لگائی۔ کہا: اس میں داخل ہو جاؤ۔ تو انہوں نے ارادہ کیا اور بعض بعض کو روکنے لگے اور کہنے لگے: ہم آگ سے بھاگ کر ہی نبی ﷺ کے پاس آئے ہیں۔ اسی حال میں آگ بجھ گئی اور ان (امیر) کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا۔ نبی ﷺ کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا: اگر یہ اس میں داخل ہو جاتے تو قیامت تک نہ نکل پاتے۔ فرمانبرداری نیکی میں ہے۔"
اس روایت میں نبی کریم ﷺ کے فرمان کو صحابہ کرام رض نے فقط قیاس کی بنیاد پر چھوڑ دیا۔ توجیہ اگرچہ مذکور نہیں ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہی ہوگی کہ آپ ﷺ کا حکم معروف میں ہے منکر میں نہیں۔
یہاں یہ یاد رہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے تقریبا تمام روایات خبر واحد ہی تھیں لیکن چونکہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے خود سماعت فرمائی تھیں اس لیے بعد کی متواتر سے بھی کئی گنا زیادہ بلکہ سو فیصد یقینی تھیں۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔
کچھ بنیادی باتیں:
کلام کی ابتداء کرنے سے پہلے ہم کچھ مبادیات پر نظر ڈالتے ہیں جن کی ہمیں درمیان کلام میں ضرورت ہوگی۔
1: قیاس کی دو قسمیں:
لفظ قیاس کا اطلاق فقہاء و اصولیین میں دو چیزوں پر ہوتا ہے:
1: معروف قیاس پر۔ یعنی ایک چیز میں ایک علت پائی جائے اور اس کا حکم منصوص ہو، وہ علت دوسری چیز میں پائے جانے کی صورت میں اس پر بھی وہی حکم لگانا۔
2: ان اصول پر جو مختلف نصوص شرعیہ سے ثابت ہوں۔ اس صورت میں مقیس علیہ کا وجود ضروری نہیں ہوتا بلکہ نصوص سے ایک اصول کا استنباط کیا جاتا ہے اور ان کا اطلاق پھر ان سے متعلق تمام چیزوں پر ہوتا ہے۔
اس (مؤخر الذکر) کی طرف ابن تیمیہؒ نے ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے:
وكمعارضة قوم من البلدين بعض الأحاديث بالقياس الجلي بناء على أن القواعد الكلية لا تنقض بمثل هذا الخبر.
(مجموع الفتاوی 20۔250 ، ط: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف)
یہاں قیاس جلی کو قواعد کلیہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
ابن رشد فرماتے ہیں:
وسبب اختلافهم معارضة القياس للأثر، واختلافهم في مفهوم الأثر. وذلك أن أبا داود خرج من حديث أنس بن مالك «أن أبا طلحة سأل النبي - عليه الصلاة والسلام - عن أيتام ورثوا خمرا، فقال: " أهرقها! قال: أفلا أجعلها خلا؟ قال: لا» .
فمن فهم من المنع سد ذريعة حمل ذلك على الكراهية، ومن فهم النهي لغير علة قال بالتحريم. ويخرج على هذا أن لا تحريم أيضا على مذهب من يرى أن النهي لا يعود بفساد المنهي.
والقياس المعارض لحمل الخل على التحريم أنه قد علم من ضرورة الشرع أن الأحكام المختلفة إنما هي للذوات المختلفة، وأن الخمر غير ذات الخل، والخل بإجماع حلال، فإذا انتقلت ذات الخمر إلى ذات الخل وجب أن يكون حلالا كيفما انتقل.
(بدایۃ المجتہد، 3۔28)
ترجمہ: "اور ان کے اختلاف کا سبب قیاس کا حدیث کے معارض ہونا ہے اور حدیث کے مفہوم میں اختلاف ہونا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سرکہ کو تحریم پر محمول کرنے سے معارض قیاس یہ ہے کہ شرع کی مبادیات میں سے معلوم امر ہے کہ احکام جو مختلف ہوتے ہیں وہ ذات کے مختلف ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں، اور شراب سرکہ سے ذاتا الگ چیز ہے اور سرکہ بالاجماع حلال ہے۔ سو جب ذات خمر سرکہ کی ذات میں تبدیل ہو گئی تو ثابت ہوا کہ وہ حلال ہے چاہے جیسے بھی منتقل ہوئی ہو۔"
(نوٹ: ترجمہ صرف مطلوب کا کیا گیا ہے کیوں کہ اس مسئلہ کی تفصیل خارج از بحث ہے۔)
یہاں جو قیاس ذکر کیا ہے کہ "احکام مختلفہ ذوات مختلفہ کی وجہ سے ہوتے ہیں" یہ ایک اصول ہے اور اس پر قیاس کا اطلاق کیا گیا ہے۔ قیاس معروف کا ہونا یہاں اس لیے ممکن نہیں ہے کہ یہاں نہ کوئی مقیس ہے اور نہ کوئی مقیس علیہ۔
ان كے علاوه ابو العباس قرطبیؒ نے المفہم میں اور دیگر نے بھی لفظ قیاس کو اصول کے لیے ذکر کیا ہے۔
2: خبر واحد کو قیاس کی بناء پر رد کرنا:
سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیجیے کہ بلاوجہ کسی روایت کو کوئی فقیہ رد نہیں کر سکتا چاہے اس کا تعلق عہد صحابہ سے ہو یا ابن حزمؒ کے زمانے کا ہو۔ یا تو روایت اس کے نزدیک ثابت نہیں ہوگی یا اس کا معنی کسی اور وجہ پر محمول ہوگا۔ البتہ اس وجہ کو وہ بعض اوقات بیان کر دیتا ہے اور بعض اوقات بیان نہیں کرتا۔
خبر واحد یا حدیث مبارکہ کو مختلف اوقات میں رد کیا جاتا رہا ہے لیکن کسی مضبوط بنیاد پر۔قیاس کا مرتبہ عموما چوتھا کہا جاتا ہے اور اصل الاصول کتاب اللہ، سنت رسول ﷺ اور اجماع کو قرار دیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود بہت کثرت سے یہ ہوا ہے کہ کسی خبر کو قیاس کی مضبوطی کی بناء پر رد کر دیا جائے۔ ایک بار پھر وضاحت کرتا چلوں کہ رد کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یا تو خبر ثابت نہیں ہے یاکسی اور معنی اور وجہ پر محمول ہے۔
رد خبر عہد نبویﷺ میں:
عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم يوم الأحزاب: «لا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة» فأدرك بعضهم العصر في الطريق، فقال بعضهم: لا نصلي حتى نأتيها، وقال بعضهم: بل نصلي، لم يرد منا ذلك، فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فلم يعنف واحدا منهم
(صحیح البخاری، 5۔112، ط: دار طوق النجاۃ)
ترجمہ: "حضرت ابن عمر رض سے روایت ہے، فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ نے احزاب کے دن فرمایا: تم میں سے کوئی شخص بھی عصر کی نماز نہ پڑھے مگر یہ کہ وہ بنو قریظہ میں ہو۔ تو بعض لوگوں کو راستے میں وقت عصر نے آ لیا۔ تو بعض نے کہا: ہم جب تک بنو قریظہ میں نہیں پہنچ جاتے عصر نہیں پڑھیں گے۔ اور بعض نے کہا: ہم پڑھیں گے، نبی ﷺ کی یہ مراد نہیں تھی۔ یہ نبی ﷺ سے ذکر کیا گیا تو آپ نے ان میں سے کسی پر بھی ناگواری کا اظہار نہیں فرمایا۔"
اس قصے میں دو جماعتیں تھیں۔ پہلی جماعت نے تو الفاظ کے ظاہر پر عمل کر لیا۔ لیکن دوسری جماعت نے ظاہر الفاظ کو بھلا کیوں چھوڑ دیا؟ انہوں نے نبی ﷺ کی یہ مراد کیسے سمجھی کہ آپ ﷺ جلدی پہنچنے کا فرمانا چاہتے تھے اور آپ کی مراد یہ نہیں تھی کہ ہم راستے میں نماز نہ پڑھیں؟ ان کے سامنے دو چیزیں تھیں۔ ایک آیت قرآنی "ان الصلاۃ کانت علی المؤمنین کتابا موقوتا " اور وہ آیات جن سے نماز کی تاکید ظاہر ہوتی ہے۔ اور دوسرا نبی ﷺ کا عام معمول کہ آپ نماز کو وقت سے موخر نہیں فرمایا کرتے تھے۔ اس پر انہوں نے اس موجودہ حکم کےظاہر کو بصورت تاویل و توجیہ رد کر دیا کہ نبی ﷺ کی مراد جلدی پہنچنا تھی ۔
اب آپ ایک بار پھر اوپر قیاس کی دوسری قسم پڑھیے جس میں قیاس کا اطلاق اصول ثابتہ فی الشرع پر کیا گیا ہے اور یہاں دیکھیے کہ ان حضرات نے اسی معنی میں قیاس کر کے حدیث کی توجیہ کی ہے۔
اسی لیے علامہ نوویؒ فرماتے ہیں:
ففيه دلالة لمن يقول بالمفهوم والقياس ومراعاة المعنى
(المنہاج 12۔98، ط: دار احیاء التراث)
ترجمہ: "اس میں دلیل ہے ان کے لیے جو مفہوم، قیاس اور معنی کی رعایت کے قائل ہیں۔"
عن علي رضي الله عنه، قال: بعث النبي صلى الله عليه وسلم سرية فاستعمل رجلا من الأنصار وأمرهم أن يطيعوه، فغضب، فقال: أليس أمركم النبي صلى الله عليه وسلم أن تطيعوني؟ قالوا: بلى، قال: فاجمعوا لي حطبا، فجمعوا، فقال: أوقدوا نارا، فأوقدوها، فقال: ادخلوها، فهموا وجعل بعضهم يمسك بعضا، ويقولون: فررنا إلى النبي صلى الله عليه وسلم من النار، فما زالوا حتى خمدت النار، فسكن غضبه، فبلغ النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: «لو دخلوها ما خرجوا منها إلى يوم القيامة، الطاعة في المعروف»
(صحیح البخاری، 5۔161، ط: دار طوق النجاۃ)
ترجمہ: "حضرت علی رض سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ نے ایک سریہ بھیجا اور اس پر انصار کے ایک شخص کو امیر بنایا اور انہیں حکم دیا کہ اس کی اطاعت کریں۔ وہ (کسی بات پر۔۔۔۔ ناقل) غصہ ہو گئے تو انہوں نے کہا: کیا تمہیں نبی ﷺ نے میری اطاعت کرنے کا حکم نہیں دیا تھا؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں۔ ان (امیر) نے کہا: میرے لیے لکڑیاں جمع کرو۔ انہوں نے جمع کیں۔ کہا: ان میں آگ لگاؤ۔ انہوں نے لگائی۔ کہا: اس میں داخل ہو جاؤ۔ تو انہوں نے ارادہ کیا اور بعض بعض کو روکنے لگے اور کہنے لگے: ہم آگ سے بھاگ کر ہی نبی ﷺ کے پاس آئے ہیں۔ اسی حال میں آگ بجھ گئی اور ان (امیر) کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا۔ نبی ﷺ کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا: اگر یہ اس میں داخل ہو جاتے تو قیامت تک نہ نکل پاتے۔ فرمانبرداری نیکی میں ہے۔"
اس روایت میں نبی کریم ﷺ کے فرمان کو صحابہ کرام رض نے فقط قیاس کی بنیاد پر چھوڑ دیا۔ توجیہ اگرچہ مذکور نہیں ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہی ہوگی کہ آپ ﷺ کا حکم معروف میں ہے منکر میں نہیں۔
یہاں یہ یاد رہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے تقریبا تمام روایات خبر واحد ہی تھیں لیکن چونکہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے خود سماعت فرمائی تھیں اس لیے بعد کی متواتر سے بھی کئی گنا زیادہ بلکہ سو فیصد یقینی تھیں۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔
Last edited: