گڈمسلم
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 10، 2011
- پیغامات
- 1,407
- ری ایکشن اسکور
- 4,912
- پوائنٹ
- 292
Aapke aiteraz ka bhi jaiza lete hain k ulma ki taraf rojo nas se sabit hai aur nas par amal taqleed nahi itteba hai.Aur ye k maine taqleed ka jo tasawur paish kiya hai us main ye surat payi jati hai k mujtahid ki taraf is main rojo hai is liye ye amal taqleed nahi kahlayega.
محترم بھائی جب یہ حکم نص سے ثابت ہے کہ نہ جاننے والے اہل ذکر کی طرف رجوع کریں گے، تو اس سے یہ بھی ثابت ہورہا ہے کہ رجوع بھی عمل کی نیت سے کریں گے۔۔۔ رجوع تو کیا لیکن اگر اہل ذکر کی بات پر عمل نہ کیا تو پھر رجوع کا فائدہ؟۔۔۔اس لیے یہ دو الگ الگ باتیں نہیں بلکہ رجوع کا مقصد ہی ان کی بات ماننا ہے۔۔۔اس لیے یہ ایک ہی بات ہے۔۔۔Bunyadi tor par agar aap hamare is amal ko taqleed ki bajaye itteba ka naam de rahe hain tu hamain is par koi aiteraaz nahi. Aap hamare is amal ko taqleed kahain tu bhi hamain qabool, kiunke is main hamari mawafiqat payi jarahi hai aur agar aap hamare is amal ko itteba kahte hain tu bhi hamain qabool kiunke itteba aap ke nazdeek bhi matloob o mahmood amal hai. Jo qabil rashk hai qabil e muzammat nahi.
محترم جناب تقلید میں کس کو کہتا ہوں، وہ میں نے بیان کردیا تھا۔۔ باقی آپ کے اس عمل کو اتباع کا نام کس وجہ سے دیا تھا اس کی تفصیل بھی پیش کردی ہے۔۔۔Lekin is hawale se main aik khaas pahlo ki janib aapki tawaju chahonga. Wo ye k hum maante hain k kisi alim ki taraf rojo nas ne wajib kardi aur ulma se sawal ka mukalif aami ko banaya, so nas ki pairawi taqleed tu na huwi lekin ulma se sawal k baad jo kuch wo alim batayega tu uss alim k qoul ko qubol karne ko kia naam diya jayega,
1۔ آپ کی پہلی بات سے میں متفق ہوں، کہ عالم کی طرف رجوع نص سے ثابت ہے، اور ہم دونوں اس بات پر بھی متفق ہیں کہ نص پر عمل تقلید نہیں۔۔۔2۔ آپ کی دوسری بات کہ کہ علماء سے عامی کا پوچھنا اور اس پوچھے پر عامی کا عمل کرنا تقلید کہلاتا ہے۔۔۔اس سے میں متفق نہیں اور نہ ہی میں اس کو تقلید کہتا ہوں۔۔۔اس کی تفصیل پہلے بھی پیش کی ہے، مزید بھی پیش کرتا ہوں
محترم بھائی جب اللہ تعالیٰ نے عامی کو اہل ذکر کی طرف رجوع کا حکم دیا ہے۔ تو آپ مجھے بتائیں اس رجوع کا مقصد/غرض وغایت کیا ہے؟ کیا اہل ذکر سے پوچھ کر عمل کرنا مقصد نہیں؟ یقیناً عمل کرنا ہی مقصد ہے۔۔۔جب مقصد عمل کرنا ہی ہے تو پھر یہ مقصد بھی رجوع میں ہی ہے۔۔۔ اور رجوع کو آپ تقلید نہیں کہتے تو پھر مقصد کو کیسے تقلید کہیں گے؟
آپ کہتے ہیں کہ اہل ذکر کا قول دلائل شرعیہ میں سے نہیں ہوتا اس لیے اس قول کو مان لینا تقلید کہلاتا ہے۔۔۔ یہاں پر میرے بھائی آپ بات کو سمجھیں۔۔۔ اگر تو اہل ذکر کا قول شریعت کے موافق ہے پھر تقلید نہیں لیکن اگر شریعت کے مخالف ہے پھر تقلید ہے۔۔۔دوسری بات یہاں پر نیت کی بھی بات کرتا چلوں کہ عامی اہل ذکر میں سے کسی کے پاس جاتا ہے، پوچھنے کے بعد جو وہ بتاتا ہے اس پر اس نیت سے عمل کرتا ہے کہ بس یہ ہی حق ہے۔۔۔اس کے علاوہ اور کوئی حق ہے ہی نہیں۔۔۔چاہے اس کے سامنے قرآن وحدیث کی آیات ہی کیوں نہ پیش کردی جائیں۔۔۔وہ بس اسی کے ساتھ چمٹ جائے۔۔۔یہ تقلید ہے۔۔۔۔لیکن اگر وہ اس نیت سے پوچھتا ہے کہ اگر اس کا قول شریعت کے مخالف ہوا تو پھر میں اس قول کو چھوڑ دونگا۔۔۔یہ اتباع ہے تقلید نہیں۔۔۔۔آپ اس کو تقلید کہتے پھریں، یا کوئی اور نام دیتے پھریں۔۔ناموں میں حقیقت نہیں چھپی ہوتی بلکہ حقیقت عمل میں چھپی ہوتی ہے۔۔۔اس لیے اگر میں کہوں کہ میں حنفی ہوں، دیوبندی ہوں یا بریلوی ہوں۔۔لیکن میرا عمل اہل الحدیث والا ہو تو کیا مجھے صرف نام بدلنے سے اہل الحدیث سے خارج کردیا جائے گا؟۔۔ہر گز نہیں۔۔۔نام جو مرضی رکھ لو پر کام اہل الحدیث والے ہونے چاہیے۔۔اسی طرح اگر کسی بھی مسلک والا اپنے مسلک پہ اس نیت سے عمل کرتا ہے کہ جہاں کہیں بھی مجھے میرا مسلک کا کوئی عمل قرآن وحدیث کے خلاف نظر آیا تو میں اپنے مسلک کو چھوڑ دونگا۔۔ یہ اس کا عمل مستحسن ہے۔۔ باقی نام وہ اپنا جو مرضی رکھ لے۔۔۔۔۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ آج کے دور بھی دعویٰ یہی کیا جاتا ہے۔ کہ ہم قرآن وحدیث پہ عمل کررہے ہیں۔۔۔ ہم اپنے مسلک کے تمام وہ اقوال جو قرآن وحدیث کے خلاف ہیں ان سے بری ہیں۔۔ لیکن عملاً کیا کیا جاتا ہے۔۔ذرا پہلے سے بیان اس اصول کو دیکھ لیں۔۔
" لأصل أن كل آية تخالف قول أصحابنا فإنها تحمل على النسخ أو على الترجيح، والأولى أن تحمل على التأويل من جهة التوفيق "
" ان كل خبر يجيئ بخلاف قول اصحابنا فانه يحمل على النسخ او يحمل على انه معارض بمثله ثم صار الى دليل اخر او ترجيح فيه بما يحتج به اصحابنا من وجوه الترجيح او يحمل على التوفيق "
حیرت کی بات ہے، کہ اپنے مسلک کے اقوال کو نہیں چھوڑنا بلکہ قرآن وحدیث کے دلائل کو تاویلات وبعد از تاویلات سے ان اقوال کے مطابق ڈھالنا ہے۔۔۔اور کہنا ہے کہ
’’ ولقد تفكرت فيه قريباً من أربعة عشر سنة ثم استخرجت جوابه شافياً وذلك الحديث قوي السند ‘‘ (العرف الشذی ج1 ص107 واللفظ لہ، فیض الباری ج2 ص375 ومعارف السنن للبنوری ج4 ص264 ودرس ترمذی ج2 ص224)
اور میں نے اس حدیث (کے جواب) کے بارے میں تقریباً چودہ سال تفکر کیا ہے۔ پھر میں نے اس کا شافی ( شفا دینے والا اور کافی) جواب نکال لیا۔ اور یہ حدیث سند کے لحاظ سے قوی ہے۔۔۔۔۔جناب فتدبر
اچھا جناب آپ نے یہاں پر یہ نقطہ تو نکال لیا کہ عامی کا عالم کے قول کو مان لینا تقلید کہلاتا ہے۔۔۔ تو آپ مجھے بتائیں کہ جب آپ کے علماء نے قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا تقلید میں سے نہیں ہے کہا ہے تو یہ کیوں کہا ہے؟۔۔۔
جناب ہم کہتے ہیں کہ عامی کو یہ اللہ کا حکم ہے، کہ وہ اہل ذکر سے پوچھ کر عمل کرے۔۔۔اور ہم اس کو تقلید نہیں کہتے۔۔اتباع کہتے ہیں اور دوسرے الفاظ میں اگر اس کو فتویٰ کہہ لیں تب بھی ٹھیک ہے۔۔ کیونکہ عامی اہل ذکر سے فتویٰ پوچھ رہا ہوتا ہے کہ جناب مولانا مجھے یہ مسئلہ درپیش ہے، میں اس پر کیسے عمل کروں، یا مجھے کیا کرنا چاہیے، یا شریعت کی رو سے مجھے اس کا حل بتائیں، تاکہ میں اس پر عمل کرسکوں۔۔۔ تو پھر اس صورت میں اہل ذکر اس کو شرعی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔۔۔اور اہل ذکر کا اس عامی کو اس مسئلہ پر شرعی رہنمائی فراہم کرنا فتویٰ کے قبیل سے ہے۔۔۔اور اگر کسی فتویٰ کو اس نیت سے تسلیم کرلیا جائے کہ اگر یہ فتویٰ قرآن وحدیث کے خلاف ہوا تو پھر چھوڑ دیا جائے گا۔۔یہ تقلید نہیں بلکہ اتباع ہے۔۔۔ لیکن اگر اس فتویٰ کو اس نیت سے قبول کیا جائے کہ بس یہ ہی حق ہے، یہ ہی شریعت ہے، اس کے خلاف کوئی بھی کیسا بھی فتویٰ آجائے میں نے تسلیم نہیں کرنا یہ تقلید ہے۔۔ اور ہم ایسی تقلید کی مخالفت کرتے ہیں۔۔۔اس کی مثال بھی آپ کے علماء سے دیتا چلوں۔۔
مثال نمبر1
محمود الحسن دیوبندی فرماتے ہیں:
والحق والانصاف ان الترجیح للشافعی فی ھذہ المسالۃ ونحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفۃ۔
کہ حق اور انصاف یہ ہے کہ خیار مجلس کے مسئلہ میں امام شافعی کو ترجیح حاصل ہے لیکن ہم مقلد ہیں ہم پر امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔(تقریر ترمذی، جلد 1، صفحہ 49)
مثال نمبر2:
چنانچہ اس کا کام صرف تقلیدہے، اور اگر اسے کوئی حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف نظر آئے تب بھی اسے اپنے امام کا مسلک نہیں چھوڑنا چاہیے۔(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 92)
مثال نمبر3:
مفتی احمد یار نعیمی بریلوی حنفیوں کے نزدیک قرآن اور حدیث کی حیثیت یوں واضح کرتے ہیں:
کیونکہ حنفیوں کے دلائل یہ روایتیں نہیں ان کی دلیل صرف قول امام ہے۔(جاء الحق، حصہ دوم، صفحہ 484)
مثال نمبر4:
ہم مسائل شرعیہ میں امام صاحب کا قول و فعل اپنے لئے دلیل سمجھتے ہیں اور دلائل شرعیہ میں نظر نہیں کرتے۔ (جاء الحق، حصہ اول، صفحہ 22)
مثال نمبر5:
احمد یار نعیمی بریلوی تفسیر صادی سے بطور رضامندی نقل کرتے ہیں:
یعنی چار مذہبوں کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں اگرچہ وہ صحابہ کے قول اور صحیح حدیث اور آیت کے موافق ہی ہو۔ جو ان چار مذہبوں سے خارج ہے وہ گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے۔ کیوں کہ حدیث و قرآن کے محض ظاہری معنےٰ لینا کفر کی جڑ ہے۔(جاء الحق، حصہ اول، صفحہ 33)
قوی امید ہے کہ اب آپ سمجھ گئے ہونگے کہ ہمارا اور آپ لوگوں کا اختلاف کس چیز پر ہے؟ آپ ان الفاظ ’’ خیار مجلس کے مسئلہ میں امام شافعی کو ترجیح حاصل ہے لیکن ہم مقلد ہیں ہم پر امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔‘‘ اور پھر ان الفاظ ’’ اگرچہ وہ صحابہ کے قول اور صحیح حدیث اور آیت کے موافق ہی ہو۔‘‘ پر غور کریں تو دونوں میں یہ بات ہے کہ ہمیں بس قول امام ہی ماننا ہے، چاہے یہ قول قرآن وحدیث اقوال صحابہ کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔تو جناب یہ تقلید ہے اور ہم ایسی تقلید کی مخالفت کرتے ہیں۔۔۔
اب اگر آپ بھی ایسی تقلید کرتے ہیں، تو پھر آپ کے ساتھ ہمارا اختلاف ہے، لیکن اگر آپ ایسی تقلید نہیں کرتے۔ بلکہ اپنے مذہب کے وہ اقوال جو قرآن وحدیث کے خلاف ہیں، ان کو چھوڑ دیتے ہیں تو پھر آپ مقلد ہیں ہی نہیں بلکہ غیر مقلد ہیں۔۔۔ نام جو مرضی رکھ لیں۔۔ آپ اس چیز کا نام بھینس رکھ دیں، ہمیں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ حقیقت کا تعلق ناموں سے نہیں عمل سے ہوتا ہے۔۔۔۔پر ہم ایسے تصور کو جو نام دیتے ہیں وہ اتباع ہے۔۔۔۔
hum aise kisi bhi quol ko jo dalail shariah main se na ho, us par bila daleel amal ko taqleed kahte hain. Is liye ulma se rojo aur pochne k baad uske qoul ko amal k liye chun lene ko main taqleed kah raha hon.
1۔ اگر آپ عالم کے قول (فتویٰ) کو جو وہ عامی کو بتاتا ہے اور عامی اس کو مانتا ہے کو تقلید کہتے ہیں ۔۔۔ تو پھر آپ مجھے بتائیں تقلید اور تحقیق میں کیا فرق ہے؟۔۔۔2۔ دوسری بات عالم عامی کو جو مسئلہ بتائے گا اگر عامی کو وہ مسئلہ کسی بھی طرح معلوم ہوجائے کہ یہ تو قرآن وحدیث کے خلاف ہے تو پھر عامی اس کو چھوڑ سکتا ہے یا نہیں ؟
3۔ عامی کو نہیں پتا کہ نصوص قطعیہ کیا ہوتی ہیں یا نصوص ظنیہ ومحتملہ وغیرہ کیا ہوتی ہیں۔۔۔ اس نے اس پر ہی عمل کرنا جو عالم اس کو بتائے گا۔۔ تو پھر ایک میں مقلد اور ایک میں غیر مقلد بنانے کی خاص توجیہ ؟
4۔ عامی نے عالم سے مسئلہ پوچھا۔۔عالم نے عین شریعت کے مطابق عامی کو مسئلہ بتا دیا۔۔عامی نے اس پر عمل کرنا شروع کردیا۔۔۔ایک غیر مسلم عامی سے اس مسئلہ پر پوچھتا کہ تم اس مسئلہ پر اس طرح کیوں عمل کررہے ہو؟ تو عامی ان دو جوابوں میں سے کیا جواب دے گا۔۔۔1۔ مجھے اللہ اور اس کے رسولﷺ نے حکم دیا ہے اس لیے میں اس پر عمل کررہا ہوں۔۔۔یا۔۔۔ 2۔ یہ جواب دے گا کہ مجھے میرے عالم نے اسی طرح بتایا ہے اس لیے میں اس پر عمل کررہا ہوں۔۔
Dikhye yahan par 2 batain hain. Pahli baat ulma ki taraf rojo kar kay unse sawal karna, main is amal ko taqleed nahi kah raha, kiunke iska hukum nas ne sarahat se diya hai. Dosri baat ye k ulma se sawal karne k baad jo kuch wo bataye, us k qoul ko tasleem kar kay amal kar lene ko main taqleed kah raha hon, is liye k aami daleel par amal nahi kar raha balke us alim k qoul par amal kar raha hai.o
1۔جناب حقیقت میں یہ دو باتیں نہیں بلکہ ایک ہی بات ہے، کیونکہ جب نص نے عامی کو عالم کی طرف رجوع کا کہا ہے۔ تو عامی کا عالم کی طرف رجوع کرنے کا مقصد کیا ہے؟۔۔جو وہ بتائے اس پر عمل یا کچھ اور؟ چلیں اگر آپ ان کو دو باتیں کہہ رہے ہیں تو ان میں سے آپ کی پہلی بات سے اتفاق کرتا ہوں۔کہ یہ تقلید نہیں بلکہ نص سے ثابت عمل ہے اور یہ اتباع ہے۔2۔ آپ نے جو دوسری بات کی کہ چونکہ وہ عالم نے اس کو بتایا، وہ عالم کے بتانے پر عمل کررہا ہے۔۔چونکہ عالم کا قول ماخذ شریعت میں سے نہیں اس لیے یہ تقلید ہے۔۔۔آپ کے اس نقطہ پر میں نے پہلے بھی کچھ باتیں لکھیں، اور پوچھیں۔یہاں بھی لکھ رہا ہوں کہ جناب آپ کے اس نقطہ پر میرا نظریہ یہ ہے کہ اگر تو عالم کا قول شریعت کے مطابق ہے تو پھر میں اس کو اتباع کہونگا آپ اس کو تقلید کہیں، اتباع کہیں یا کوئی اور نام دے دیں۔۔مجھے نہ کوئی تکلیف ہے اور نہ دکھ۔۔ کیونکہ حقیقت ناموں میں نہیں اعمال میں پوشیدہ ہوتی ہے۔۔لیکن اگر عالم کا قول شریعت کے مخالف ہے۔۔پھر بھی عامی کو اس قول سے چمٹنے کا کہا جاتا ہے۔۔ اور چھوڑنا اس کےلیے حرام کردیا جاتا ہے۔۔۔جیسا کہ اس قبیل سے اوپر مثالیں بھی قائم کیں ہیں، اور اس سے واضح مثالیں عملاً اور بھی دی جاسکتی ہیں۔۔۔ تو جناب یہ تقلید ہے۔۔جس کے بارے میں آپ نے کہا کہ میں اس کو کفر کہتا ہوں۔۔۔
Taqleed k hawale se ye baat aapke pesh e nazar rahe k taqleed hamesh ijtehadi masail main hoga aur ijtehaad main asal quran wa sunnat k nasoos hote hain, ijtehaadi masail wo hote hain jin main nazar o istidlaal ki zaroorat hoti hai. Aisa har masla taqleed nahi hota jo nasoos main sarahatan mazkor hoga. Aise tamam masail jin main nasoos na hon balke mujtahid ne Quran wa sunnat k nasoos main ijtehaad kar kay mushtarika ilaton ki bunyad par hukam maloom kia ho, in masail e zania main mujtahid k qoul ko bunyad bana kar amal karna Taqleed kahlata hai.
میں نے پہلے بھی لکھا تھا اور اب بھی کہتا ہوں کہ عامی چاہے آپ کے ہوں یا ہمارے دونوں غیر مقلد ہی ہیں۔۔۔ ہمارے ہان تقلید کا تصور نہیں اس لیے ہمارے عامی غیر مقلد ہیں۔۔ آپ کے ہاں تقلید کا تصور ہے لیکن آپ کے مذہب کے رہنماؤں نے تقلید کی جو تعریفات کی ہیں۔۔ عامی اس کی زد میں آتا ہی نہیں۔۔۔اس لیے عامی غیر مقلد ہوا۔۔۔۔کہنے کی وجہ اصل میں یہ ہے کہ1۔ عامی کو نہیں پتہ کہ نظر واستدلال والے مسائل کونسے ہیں یا نصوص قطعیہ سے ثابت مسائل کونسے ہیں۔۔ اس نے بس اہل ذکر سے پوچھنا ہے۔۔۔اور عمل کرنا ہے۔۔۔اگر ہم یہ کہیں کہ نہیں جی نصوص قطعیہ سے ثابت مسائل میں عامی غیر مقلد اور نصوص ظنیہ والے مسائل میں عامی مقلد تو یہ مقلد غیر مقلد کی کھچڑی عامی کےلیے تکلیف مالا یطاق کے قبیل سے ہے۔۔۔اور ویسے بھی آپ کو معلوم ہوگا کہ ایک دیگ میں دو چمچ لگانے والے ہوں تو دیگ جل ہی جاتی ہے۔۔۔
2۔ دوسری بات آپ نے جو نقطہ پیش کیا کہ عامی چونکہ عالم کے قول پر عمل کررہا ہوتا ہے، اور عالم کا قول ماخذ شریعت میں سے نہیں ہوتا اس لیے یہ تقلید کہلائے گا۔۔تو جناب جو مسئلہ عامی کو عالم نص قطعیہ سے بتائے گا تو یہاں پر بھی عامی عالم کے قول پر ہی عمل کرے گا۔۔تو یہاں وہ غیر مقلد کیسے ہوجائے گا۔۔؟ دونوں طرح کی نصوص میں عامی عالم کے قول یعنی بتانے پر ہی عمل کررہا ہے۔۔۔۔اس لیے تو میں نے کہا کہ عامی چاہے آپ کے ہوں یا ہمارے ہوں دونوں غیر مقلد ہی ہیں۔۔۔۔۔فتدبر
3۔ آپ نے لکھا کہ ’’ Aise tamam masail jin main nasoos na hon balke mujtahid ne Quran wa sunnat k nasoos main ijtehaad kar kay mushtarika ilaton ki bunyad par hukam maloom kia ho ‘‘ آپ مجھے بتائیں کہ مجتہد کا یہ عمل کیا کہلائے گا ؟ قیاس ؟۔۔۔ اور قیاس کو آپ ماخذ شریعت مانتے ہیں۔۔۔مانتے ہیں ناں ؟۔۔۔۔ماخذ شریعت میں سے کسی ماخذ پر عمل کرنے کو کیا آپ تقلید کہتے ہیں ؟
Isi tarah jab kisi nas main aik se zyada maani ka ihtemaal paya ja raha ho tu aise muhtamil nas main mujtahid kisi aik pahlo ko rajih qarar deta hai, yahan bhi mujtahid k quol ko bunyad bana kar us zani pahlo par amal kia jata hai lihaz ye amal bhi taqleed kahlata hai.
Isi tarah jab kisi aik masla main 2 ya zyada nasoos baham muta'ariz hon, yahan daffa ta'aruz k liye mujtahid k qoul par aik zani pahlo ko amal k liye rajih qarar diya jata hai, is liye ye amal bhi mujtahid k qoul ko bunyaad bana kar kia jata hai, lihaza ise bhi taqleed kaha jaiga.o
ان باتوں پر تفصیلی باتیں ماقبل میں ذکر کی جاچکی ہیں۔۔Isi tarah jab kisi aik masla main 2 ya zyada nasoos baham muta'ariz hon, yahan daffa ta'aruz k liye mujtahid k qoul par aik zani pahlo ko amal k liye rajih qarar diya jata hai, is liye ye amal bhi mujtahid k qoul ko bunyaad bana kar kia jata hai, lihaza ise bhi taqleed kaha jaiga.o
Meri baat khatam huwi ab aap pahle apne tasawur taqleed par mere utaye gaye nuktay ki roshni main baat karain phir jo tasawur main ne wazih kia us par apni maroozat pesh farmain.Wasalamoalaikum
میرا تصور تقلید یہ تھا کہ ’’ ہم قرآن وحدیث کے خلاف کسی کی بات مان لینے کو تقلید کہتے ہیں‘‘ اور آپ کا تصور تقلید یہ تھا کہ ’’ ہم نصوص محتملہ، معرضہ، ظنیہ وغیرہ میں نظرو استدلال سے مسائل کا استنباط نہیں کرسکتے ہوتے اور مسئلہ معلوم کرنے کےلیے کسی مجتہد کے اجتہاد کو عمل کےلیے چن لیتے ہیں‘‘میرے تصور تقلید میں کوئی ابہام نہیں۔۔۔ اور میرے تصور تقلید کو آپ نے کفر کہا ہے۔۔۔جب آپ کے تصور تقلید پر بات ہوئی تو آپ نے ایک خاص نقطہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم اس کو تقلید کہتے ہیں۔۔ وہ نقطہ یہ تھا کہ
’’ ایک ہوتا ہے مجتہد کی طرف رجوع اور دوسرا رجوع کرکے مسئلہ پوچھا، مجتہد نے مسئلہ بتایا۔ مجتہد کے بتانے پر عمل کرنا۔۔یہ جو مجتہد کے بتانے پر عمل کرنا ہے یہ تقلید کہلاتا ہے۔‘‘ ۔۔۔اگلی پوسٹ میں اپنے تصور تقلید کو بادلائل وضاحت سے پیش کرتے ہوئے آپ کے اس نقطہ پر بات کروں گا۔۔ان شاءاللہ
جاری ہے