محترم مجھے اندازہ تھا کہ آپ یہ کہیں گے، مگر میں نے ایک نہیں بیشتر ایسے لوگ دیکھیں ہیں ، جو اہل حدیث دعوت والوں کی اس بات سے بے زار ہیں۔
جیسے کسی کو کہہ دینا آپ نے جہنم میں جانا ہے ، اس بارے میں ایک مشہور حدیث کا مفہوم بھی قریبا یہی ہے ، جس کی بھرپور وضاحت صحیح مسلم اور ابو داؤد کی اس حدیث میں ہے کہ ایک عابد وزاہد شخص نے فاسق شخص کو کہا کہ اللہ تعالی فلاں شخص کی مغفرت نہیں کرے گا ، تو اللہ تعالی نے فرمایا ، یہ کون ہوتا ہے مجھ پر ایسی بات کہنے والا ، میں نے اس کی مغفرت کر دی اور تیرے اعمال ضائع کر دیئے ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، اس نے ایسی بات کہہ دی جس نے اس کی دنیا و آخرت برباد کر دی۔
پس یہ اللہ تعالی کا اختیار ہے اور ہمیں صرف کہنا چاہیئے کہ لوگو فلاں کام نہ کریں ، یا فلاں کام والوں کو جہنمی کہا گیا ہے۔
آپ نے جو آخری بات کی ہے یہی بات میں نے پوسٹر میں لکھی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ انداز دونوں کا مختلف ہے، یہی تو کہہ رہا ہوں کہ آپ نے غور و فکر نہیں کیا اور تنقید کر ڈالی، قرآن مجید میں کئی جگہ ایسی حرکتیں کرنے والوں کو جہنم سے ڈرایا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نُهُوا عَنِ النَّجْوَىٰ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَيَتَنَاجَوْنَ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُولِ وَإِذَا جَاءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّـهُ وَيَقُولُونَ فِي أَنفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللَّـهُ بِمَا نَقُولُ ۚ حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ يَصْلَوْنَهَا ۖ فَبِئْسَ الْمَصِيرُ ﴿٨﴾۔۔۔سورۃ المجادلہ
ترجمہ: کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا؟ جنہیں کانا پھوسی سے روک دیا گیا تھا وه پھر بھی اس روکے ہوئے کام کو دوباره کرتے ہیں اور آپس میں گناه کی اور ﻇلم وزیادتی کی اور نافرمانیٴ پیغمبر کی سرگوشیاں کرتے ہیں، اور جب تیرے پاس آتے ہیں تو تجھے ان لفظوں میں سلام کرتے ہیں جن لفظوں میں اللہ تعالیٰ نے نہیں کہا اور اپنے دل میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر جو ہم کہتے ہیں سزا کیوں نہیں دیتا، ان کے لیے جہنم کافی (سزا) ہے جس میں یہ جائیں گے، سو وه برا ٹھکانا ہے
اگر میں یہ جملہ کسی مومن کے بارے میں اس طرح لکھتا
"اہل ایمان اگر تم عقیدہ توحید پر رہے اور اسی حالت میں دنیا سے گئے تو ان شاءاللہ جنت میں تمہارے لئے بہترین مقام ہو گا"
تو شاید آپ کو اعتراض نہ ہوتا، کیونکہ آپ نے دیکھنا تھا کہ اس میں اہل ایمان کو ترغیب دلائی جا رہی ہے اور ایمان و عقیدہ توحید کی اہمیت کو واضح کیا جا رہا ہے، نا کہ کسی پر قطعی حکم لگایا جا رہا ہے تو اس کے برعکس اسی انداز میں اوپر کافروں کے لئے یہ بات درج ہے کہ:
"آئے روز اسلام اور پیغمبر اسلام کا مذاق اڑانے والوں اگر باز نہ آئے تو ان شاءاللہ کوئی نہ کوئی مسلمان تمہیں دنیا سے جہنم رسید کر دے گا اور آخرت میں بھی تمہارے لئے بھڑکتی ہوئی آگ ہے"
اب اس کی مزید وضاحت ملاحظہ کریں:
آئے روز اسلام اور پیغمبر اسلام کا مذاق اڑانے والوں اگر باز نہ آئے
یعنی اگر باز آ گئے اور اسلام قبول کر لیا تو پھر ٹھیک ہے لیکن اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی اور اہانت کا یہ سلسلہ جاری رہا تو:
ان شاءاللہ کوئی نہ کوئی مسلمان تمہیں دنیا سے جہنم رسید کر دے گا
کیونکہ تم جس عقیدے پر ہو اس حالت میں جب تمہیں مسلمان قتل کریں گے تو تم سیدھا جہنم میں جاؤ گے اسی لئے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: (إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِم مِّلْءُ الْأَرْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَىٰ بِهِ ۗ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ ﴿٩١﴾۔۔۔سورة البقرة) "ہاں جو لوگ کفر کریں اور مرتے دم تک کافر رہیں ان میں سے کوئی اگر زمین بھر سونا دے، گو فدیئے میں ہی ہو تو بھی ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔ یہی لوگ ہیں جن کے لئے تکلیف دینے واﻻ عذاب ہے اور جن کا کوئی مددگار نہیں (91)" اسی لئے باز آ جاؤ ورنہ
اور آخرت میں بھی تمہارے لئے بھڑکتی ہوئی آگ ہے
کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (نَارُ اللَّـهِ الْمُوقَدَةُ ﴿٦﴾ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْئِدَةِ ﴿٧﴾۔۔۔الهمزة) "وه اللہ تعالیٰ کی سلگائی ہوئی آگ ہوگی (6) جو دلوں پر چڑھتی چلی جائے گی (7)"
تو امید ہے کہ میں اپنی بات آپ کو سمجھانے میں کامیاب ہو چکا ہوں گا ان شاءاللہ، لیکن اگر آپ پھر بھی اپنی روش پر قائم ہیں تو مزید گفتگو سے مجھے اجازت دیجئے، پڑھنے والے خود فیصلہ کر لیں گے ان شاءاللہ، تنقید کرنے سے بہتر ہے کہ پہلے اچھی طرح موقف جان لیا جائے یا پوچھ لیا جائے، اور تھوڑا سا غور و فکر کر لیا جائے۔
والسلام