• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خلاصہ قرآن اہم نکات کے ساتھ

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,280
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
بسمﷲ الرحمان الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

خلاصہ قرآن
پارہ نمر01 (الم)

قرآن کریم کی ہر سورت کی ابتداء بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کی گئی ہے اور حدیث شریف میں ہر اچھے اور مفید کام کو بسم اللہ پڑھ کر شروع کرنے کی تلقین کی گئی ہے جس میں نہایت لطیف پیرائے میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ کائنات کی ہر چیز کا وجود اللہ کی رحمتوں کا مظہر ہے، لہٰذا احسان شناسی کا یہ تقاضا ہے کہ منعم و محسن کے انعامات و احسانات سے فائدہ اٹھاتے وقت اس کے نام سے اپنی زبان کو ترو تازہ رکھا جائے۔
سورہ فاتحہ سات آیات پر مشتمل مکی سورت ہے۔ مفسرین کرام نے اس کے بہت سے نام شمار کرائے ہیں۔ علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر روح المعانی میں سورہ فاتحہ کے بائیس نام شمار کرائے ہیں۔ عربی کا مقولہ ہے کثرت الاسماء تدل علی عظمۃ المسمی کسی چیز کے زیادہ نام اس کی عظمت پر دلالت کرتے ہیں۔ سورہ فاتحہ کے بہت سارے نام بھی اس مبارک سورت کی عظمتوں کے غماز ہیں۔اہمیت کے پیش نظر اس سورت کے چند نام ہم ذکر کرتے ہیں۔ اس کا مشہور نام سورۃ الفاتحہ ہے کیونکہ مصحف عثمانی کی ابتداء اس سورت سے ہوئی ہے۔ نیز نماز کی ابتداء بھی اسی سورت سے ہوتی ہے۔ اس کا نام ام الکتاب بھی ہے جس کا مطلب ہے قرآن کریم کی اساس اور بنیاد۔ قرآن کریم میں بیان کئے جانے والے مضامین و مقاصد کا خلاصہ اس چھوٹی سی سورت میں ذکر کرکے دریا کو کوزہ میں بند کردیا گیا ہے۔ توحید و رسالت، آخرت، احکام شریعت اور قرآنی نظام کے وفاداروں کا قابل رشک انجام۔ ۔ ۔ اور اس کے باغیوں کا عبرتناک انجام یہ وہ پانچ مضامین ہیں جنہیں پورے شرح و بسط کے ساتھ قرآن کریم کی باقی ۱۱۳ سورتوں میں بیان کیا گیا ہے اور یہی مضامین معجزانہ انداز میں انتہائی اختصار کے ساتھ اس سورت میں بیان کردیئے گئے ہیں۔ اسی لئے اس سورت کو ام الکتاب اور اساس القرآن کہا گیا ہے۔ مفسرین کرام نے سورت الفاتحہ کو قرآن کریم کا مقدمہ یا پیش لفظ بھی کہا ہے۔ اس کے مضامین کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ہر نماز میں اس کی تلاوت کا حکم دیا تاکہ شب و روز میں کم از کم پانچ مرتبہ پورے قرآن کا خلاصہ ہر مسلمان کے ذہن میں تازہ ہوتا رہے۔ اس سورت کا ایک نام تعلیم المسئلۃ ہے کہ اس میں مانگنے کا ڈھنگ اور سلیقہ سکھایا گیا ہے کہ بندہ کو اللہ تعالیٰ سے کیا مانگنا چاہئے اور کس طرح مانگنا چاہئے۔ یہ سورت الشفاء بھی ہے کہ روحانی و جسمانی امراض کے لئے پیغام شفاء ہے۔ سات مرتبہ پڑھ کر دم کرنے سے موت کے علاوہ ہر جسمانی مرض سے صحت حاصل ہوتی ہے اور اس کے مضامین پر عمل کرنے سے روحانی امراض سے شفایابی ہوتی ہے۔
سورہ فاتحہ کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے تمام کمالات اور خوبیوں کے اعتراف کے لئے حمد کا عنوان اختیار کیا گیا ہے اور تمام کائنات کی ربوبیت کو تسلیم کرنے کے لئے رب العالمین کی صفت کا بیان ہے، کیونکہ رب وہ ہوتا ہے جو کسی چیز کو عدم سے وجود میں لائے اور اس کی زندگی کے ہر مرحلہ میں اس کی تمام ضروریات پوری کرنے اور اس کی تربیت کے تمام وسائل مہیا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ کائنات کا وجود و عدم اس کی صنعت رحمت کا مرہونِ منت ہے۔ قیامت کے دن انسانی اعمال کی جزاء و سزا کا حتمی فیصلہ کرنے والا مالک و مختار وہی ہے۔ ہر قسم کی وفاداریوں کا مرکز اور مالی و جسمانی عبادات کا مستحق وہی ہے۔ ہر مشکل مرحلہ میں اسی سے مدد طلب کی جانی چاہئے۔ ہر کام کو اللہ تعالیٰ کی منشاء و مرضی کے مطابق سرانجام دینے کا سلیقہ ہدایت کہلاتا ہے۔ اس لئے بندہ صراط مستقیم کی ہدایت انبیاء و صدیقین و شہداء و صالحین جو اپنے خالق سے وفاداریوں کی بناء پر انعامات کے مستحق قرار پا چکے ہیں ان کے راستہ کی ہدایت، اپنے مالک سے طلب کرتا ہے اور قرآنی نظام کے باغی یہود و نصاریٰ اور ان کے اتحادیوں کے راستہ سے بچنے کی درخواست پیش کرتا ہے اور آخر میں آمین کہہ کر اس عاجزانہ درخواست کی قبولیت کے لئے نیاز مندانہ معروض پیش کرتا ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ بندہ جب سورہ فاتحہ ختم کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ’’میرے بندے نے مجھ سے جو مانگا، میں نے اسے عطاء کردیا۔‘‘ دوسری حدیث میں ہے کہ ’’امام جب نماز میں سورہ فاتحہ کی تلاوت ختم کرتا ہے تو فرشتے آمین کہتے ہیں۔ تم بھی آمین کہا کرو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔‘‘
ایک حدیث قدسی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’میں نے سورہ فاتحہ کو اپنے اور بندے کے درمیان تقسیم کرلیا ہے۔ آدھی سورہ فاتحہ میرے لئے ہے اور آدھی میرے بندے کے لئے ہے۔ جب بندہ الحمدﷲ رب العالمین کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں حمدنی عبدی میرے بندے نے میری حمد بیان کی جب الرحمن الرحیم کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اثنی علی عبدی میرے بندے نے میری ثنا بیان کی جب مالک یوم الدین کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے بندے نے میری عظمت و بزرگی کا اعتراف کیا۔ جب ایاک نعبد و ایاک نستعین کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہذا بینی و بین عبدی یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے۔ جب بندہ اہدنا الصراط المستقیم سے آخر تک کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہذا العبدی والعبدی ماسأل یہ میرے بندہ کے لئے ہے اور میرے بندے نے جو مانگا ہے میں نے اسے عطاء کردیا ہے۔


سورہ بقرہ
پہلے پارہ کی ابتداء سورہ بقرہ سے ہوتی ہے۔ بقرہ گائے کو کہتے ہیں۔ بنی اسرائیل میں جرم و سزا اور سراغ رسانی کا ایک انوکھا واقعہ پیش آیا تھا جس میں مجرم کی نشاندہی معجزانہ طریقہ پر کی گئی تھی، جو بنی اسرائیل کے لئے اعزاز و افتخار کا باعث ہے۔ اس سورت میں دوسرے مضامین کے علاوہ زیادہ تر روئے سخن بنی اسرائیل کی طرف ہے۔ ان کے دلوں میں اسلام کے لئے نرم گوشہ پیدا کرنے کے لئے اس معجزانہ واقعہ کی طرف اشارہ کے طور پر پوری سورت کو بقرہ سے موسوم کردیا گیا۔ سورہ بقرہ قرآن کریم کی طویل ترین سورت ہے جس میں متنوع اور مختلف مضامین کا بیان ہے۔ حروف مقطعات سے سورت کی ابتداء کرکے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ قرآنی علوم و معارف سے استفادہ کے لئے اپنی جہالت اور کم علمی کا اعتراف اور علمی پندار کی نفی پہلا زینہ ہے، کلام الٰہی پر غیر متزلزل یقین اور اسے ہر قسم کے شکوک و شبہات سے بالاتر سمجھنا دوسرا زینہ ہے۔ نیز یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سورہ فاتحہ میں جس صراط مستقیم کی درخواست کی گئی تھی وہ قرآن کریم کی شکل میں آپ کو عطا کررہے ہیں۔
ابتدائی بیس آیتوں میں انسان کی تین قسموں کا بیان ہے: پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جو اپنی زندگیوں میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے لئے اپنے مالی و جسمانی اعمال کو قرآنی نظام کے تابع لانے کے لئے تیار ہیں۔ یہ لوگ قرآن کریم اور اس سے پہلی آسمانی کتابوں پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو کافر ہیں، وہ اپنی زندگی کی اصلاح اور اس میں قرآنی نظام کے مطابق تبدیلی کے لئے بالکل تیار نہیں ہیں۔ تیسری قسم ان خطرناک لوگوں کی ہے جو دلی طور پر قرآنی نظام کے منکر ہیں مگر ان کی زبانیں ان کے مفادات کے گرد گھومتی ہیں۔ قرآن کریم کو ماننے میں اگر کوئی مفاد ہے تو اسے تسلیم کرنے میں دیر نہیں لگاتے اور اگر اس سے مفادات پر چوٹ پڑتی ہے تو اس کا انکار کرنے میں بھی دیر نہیں لگاتے۔ ان کے دل و زبان میں مطابقت نہیں ہے، اسے منافقت کہتے ہیں۔ منافقت کے ذریعہ انسانوں کو تو دھوکہ دیا جاسکتا ہے مگر دلوں کے بھید جاننے والے اللہ کو دھوکہ دینا ممکن نہیں ہے۔ یہ لوگ اصلاح کے نام پر دنیا میں فساد برپا کرتے ہیں اور قرآنی نظام کے وفادار اہلِ ایمان کو عقل و دانش سے محروم سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ خود شعور و آگہی سے بے بہرہ اور محروم ہیں۔ یہ لوگ ہدایت و روشن خیالی کے مقابلہ میں تاریک خیالی اور گمراہی کی تجارت کررہے ہیں اور یہ بڑے خسارہ کا کاروبار ہے۔ قرآن کریم نے دو مثالوںکے ذریعہ منافقت کی دو قسموں کو واضح کیا ہے۔
۱: کسی شخص نے ٹھٹھرتی، اندھیری رات میں سردی سے بچنے اور روشنی حاصل کرنے کے لئے آگ جلائی اور جیسے ہی چاروں طرف روشنی پھیلی تو وہ آگ ایک دم بجھ گئی اور وہ گھپ اندھیرے میں کچھ بھی دیکھنے کے قابل نہ رہا۔
۲: رات کے وقت اندھیرے کے اندر کھلے میدان میں موسلادھار بارش میں کچھ لوگ پھنس کر رہ گئے، بجلی کی کڑک ان کے کانوں کو بہرہ کئے دے رہی ہو اور چمک سے ان کی آنکھیں خیرہ ہورہی ہوں اور اس ناگہانی آفت سے وہ موت کے ڈرسے کانوں میں انگلیاں ٹھوسے ہوئے ہوں۔ بجلی کی چمک سے انہیں راستہ دکھائی دینے لگے مگر جیسے ہی وہ چلنے کا ارادہ کریں تو اندھیرا چھا جائے اور انہیں کچھ بھی سجھائی نہ دے۔ یہ لوگ اندھے اور بہرے ہیں کیونکہ آیات خداوندی کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے۔
اس کے بعد انسانیت سے پہلا خطاب کیا گیا اور ایک وحدہ لاشریک لہ رب کی عبادت کا پہلا حکم دیا گیا۔ پھر توحید باری تعالیٰ پر کائناتی شواہد کو بطور دلیل پیش کیا گیا ہے۔ جس میں انسان کو عدم سے وجود بخشنا اور اس کی زندگی کی گزر بسر کے لئے آسمان و زمین کی تخلیق اور بارش اور سبزیوں اور پھلوں کی پیدائش کا تذکرہ ہے۔ پھر قرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے کی عقلی دلیل دی گئی ہے کہ اگر تم اسے بشر کا کلام سمجھتے ہو تو تم بھی بشر ہو۔ ایسا کلام بنا کر دکھا دو ورنہ جہنم کا ایندھن بننے کے لئے تیار ہوجائو۔ قرآن کریم کی ایک سورت بلکہ ایک آیت بنانے سے بھی عاجز آجانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ محمد علیہ السلام کا کلام نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ اس کے بعد قرآنی نظام کے منکرین کے لئے جہنم کے بدترین عقوبت خانہ کی سزا اور اس کے ماننے والوں کے لئے جنت کی بہترین نعمتوں اور پھلوں کے انعام کا تذکرہ ہے۔ قرآن کتاب ہدایت ہے، انسانی ہدایت و رہنمائی کے لئے کوئی بھی اسلوب بیان اپنا سکتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے مکھی یا مچھر یا کسی دوسرے چھوٹے یا بڑے جانور کی مثال دے سکتا ہے، مسئلہ مثال کا نہیں اس سے حاصل ہونے والے مقصد کا ہے۔
تخلیق انسانی کی ابتداء کا تذکرہ آیت نمبر ۳۰ سے ۳۹ تک ۹ آیتوں میں ہے۔ انسان اس سرزمین پر اللہ تعالیٰ کا نائب اور خلیفہ ہے اور اس کی وجہ انسان کا حصول علم کی صلاحیت رکھنا ہے۔ انسانی بلندی و عظمت کی بنا پر اسے سجود ملائک بنایا گیا۔ ناپاک نطفہ سے تخلیق دے کر عظمت و بلندی کے تمام مراحل آناً فاناً طے کراکے اسے سجود ملائک بنادیا۔ پستی سے عظمت کے بام عروج تک پہنچا دیا۔ آدم سے حوا کی پیدائش سے نر اور مادہ کے ملاپ کے بغیر ایک انسان سے دوسرا انسان پیدا کرنے (CLOAN) کا امکان ثابت ہوسکتا ہے بلکہ آدم کی مٹی سے تخلیق سے یہ نکتہ بھی واضح ہوتا ہے کہ جس مٹی سے سبزیوں اور پھلوںکی شکل میں ’’مادہ حیات‘‘ انسانوںمیں منتقل ہوتا ہے اس سے براہِ راست وہ مادہ لے کر بھی انسان کو وجود میں لایا جاسکتا ہے۔ انسان اس سرزمین پر بطور سزا نہیں بلکہ بطور امتحان بھیجا گیا ہے۔ قرآن کریم کی شکل میں آسمانی ہدایت کی پیروی اس کی کامیابی کی علامت اور اس کی مخالفت اور کفر اس کی ناکامی و نامرادی کی علامت قرار دی گئی۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کا تذکرہ ہے جو آیت نمبر ۴۰ سے شروع ہوکر نمبر ۱۲۳ تک ۱۸۳ آیات پر مشتمل ہے۔ بنی اسرائیل دنیا کی ایک منتخب قوم تھی۔ انبیاء کی اولاد تھی، اللہ تعالیٰ نے انہیں اس دور کی سیاسی اور مذہبی قیادت و سیادت سے نوازا ہوا تھا مگر ان کی نا اہلی اور اپنے منصب کے منافی حرکات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں معزول کرنے کا فیصلہ کرلیا کہ اس منصب کے اہل او رحقیقی وارث امت محمدیہ کی شکل میں اس سرزمین پر تیار ہوچکے ہیں۔ تقریباً آدھے سیپارے پر محیط اس قوم کے جرائم اور عادات بد کی ایک طویل فہرست ہے جو چالیس نکات پر مشتمل ہے۔ یہ وہ ’’فرد جرم‘‘ ہے جو بنی اسرائیل کے اس منصب عالی سے معزولی کا سبب ہے۔ آیت نمبر ۴۰ سے نمبر۴۶ تک سات آیتوں میں ان ذمہ داریوں کا ذکر ہے جو بنی اسرائیل کو سونپی گئی تھیں۔ انعامات خداوندی کا استحضار، عہد الٰہی کی پاسداری، خوفِ خدا، تقویٰ، آسمانی تعلیمات پر یقین کامل، اپنے مفادات کو دین کا تابع بنا کر زندگی گزارنے کی تلقین، حق و باطل کو خلط ملط کرنے کی بجائے حق کی پیروی اور باطل سے دوٹوک انداز میں برأت کا اظہار، نماز کی ادائیگی کے ذریعہ اللہ سے اپنی وفاداری کا اظہار اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے ذریعہ غرباء و مساکین سے تعاون، خیر اور شر میں تمیز کرکے نیکی پر کاربند رہتے ہوئے دوسروں کو نیکی کی تلقین اور آسمانی تعلیمات کی روشنی میں عقل و دانش کا استعمال، بنی اسرائیل ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے قاصر رہے جس کی تفصیل ۷۶ آیتوں میں مذکور ہے۔
بنی اسرائیل کو دریا میں معجزانہ طریقہ پر راستہ بنا کر فرعونی مظالم سے نجات دی۔ دشمن کو ان کی آنکھوں کے سامنے غرق کیا، موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دینے کے لئے چالیس دن کے لئے کوہ طور پر بلایا تو یہ لوگ بچھڑے کی عبادت میں مصروف ہوگئے۔ اس مشرکانہ حرکت پر سزا کے طور پر انہیں باہمی قتل کا حکم دے کر ان کی توبہ قبول کی گئی۔ ان کے بے جا مطالبے پورے کئے۔ اللہ تعالیٰ سے گفتگو اور بالمشافہہ ملاقات کرائی گئی مگر یہ پھر بھی اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے۔ تیہ کے چٹیل اور کھلے میدان میں انہیں بادل کے ذریعہ سایہ اور ’’من و سلویٰ‘‘ کی شکل میں کھانا فراہم کیا گیا مگر انہوںنے اس نعمت کی قدر نہ کی۔ پتھر سے معجزانہ طریقہ پر بارہ چشمے جاری کرکے ان کے بارہ خاندانوں کے سیراب کرنے کا انتظام کیا گیا مگر یہ سرزمین پر فساد پھیلانے سے باز نہ آئے۔ اللہ کی عظیم الشان نعمتوں کے مقابلہ میں لہسن پیاز اور دال روٹی کا مطالبہ کرکے ذہنی پستی اور دیوالیہ پن کا مظاہرہ کیا۔ اللہ کے احکام کا کفر کرنے اور انبیاء علیہم السلام (اپنے مذہبی پیشوائوں) کو قتل کرنے کے عظیم جرم کا ارتکاب کیا، جس پر انہیں ذلت و رسوائی اور غضبِ خداوندی کا مستحق قرار دیا گیا۔ قرآنی ضابطہ ہے کہ اللہ کے نزدیک کامیابی قومی یا مذہبی تعصب کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایمان اور عمل صالح کی بنیاد پر ملتی ہے، خوف اور غم سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ ان کے سروں پر پہاڑ بلند کرکے تجدید عہد کرایا گیا، مگر انہوں نے اس کی پاسداری نہ کی۔ دل جمعی اور یکسوئی کے ساتھ عبادت کرنے کے لئے ہفتہ کے دن کی چھٹی دی گئی ، مگر اس کی پابندی نہ کرنے پر عبرتناک انجام کے مستحق ٹھہرے اور ان کی شکلیں بگاڑ کر ذلیل و قابل نفرت بندر بنادیا گیا۔
سورہ جرم و سزا اور سراغ رسانی کا انوکھا واقعہ
بنی اسرائیل میں ایک شخص بے اولاد تھا۔ وراثت حاصل کرنے کے لئے اس کے بھتیجے نے اسے قتل کرکے دوسروں پر الزام لگایا اور قصاص کا مطالبہ کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قاتل کا پتہ چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکم سے گائے ذبح کرنے کا حکم دیا۔ بڑی پس و پیش کے بعد یہ لوگ ذبح پر آمادہ ہوئے۔ گائے کے گوشت کا ایک ٹکڑا جب میت کے جسم سے لگایا گیا تو وہ زندہ ہوگیا اور اپنے قاتل کا نام بتاکر پھر مرگیا۔ اس طرح اصل مجرم گرفت میں آگیا اور سزا کا مستحق قرار پایا اور کسی بے گناہ کی ناجائز خونریزی سے وہ لوگ بچ گئے۔ عقل و دانش کے نام پر کلام الٰہی میں تحریف اور رد و بدل کی بدترین عادت کے مریض تھے۔ اپنے مفادات اور دنیا کی عارضی منفعت کے لئے اللہ کی آیتوں کو بیچ ڈالتے تھے اور اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ ہم جو چاہیں کریں ہمیں آخرت میں کوئی عذاب نہیں ہوگا اور ہم جہنم میں نہیں جائیں گے۔ قرآن کریم نے ضابطہ بیان کردیا کہ جو بھی جرائم اور گناہوں کا مرتکب ہوگا وہ جہنم سے بچ نہیں سکے گا اور ایمان و اعمال صالحہ والے دائمی جنتوں کے حقدار قرار پائیں گے۔
بنی اسرائیل سے عہد لیا گیا کہ وہ ایک اللہ کی عبادت کریں۔ والدین، عزیز و اقارب، غرباء و مساکین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں۔ لوگوں سے خوش اخلاقی کے ساتھ معاملہ کریں۔ دنیا میں فساد پھیلانے اور خونریزی کرنے سے باز رہیں، مگر یہ لوگ تخریب کار اور جنگ کے ذریعہ لوگوں کو قتل کرنے، ان کے گھروں سے بے گھر کرنے اور انہیں گرفتار کرکے ان کی آزادی سلب کرنے جیسی بدترین حرکات کے مرتکب پائے گئے۔ تورات کی جو باتیں ان کے مفادات کے مطابق ہوتیں انہیں مان لیتے اور جو مفادات کے خلاف ہوتیں انہیں رد کردیتے۔ اس لئے دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت کے بدترین عذاب کے مستحق ٹھہرے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ آخرت میں تمام نعمتیں اور جنت صرف ہمارے ہی لئے ہے۔ قرآن کریم نے کہا کہ پھر تو تمہیں موت کی تمنا کرنی چاہئے تاکہ وہ نعمتیں تمہیں جلدی سے حاصل ہوجائیں۔ یہ لوگ جبریل علیہ السلام کے مخالف تھے کہ وہ عذاب اور سزا کے احکام لے کر کیوں آتے ہیں؟ وہ لوگ یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ جبریل تو ایک قاصد اور نمائندہ ہے۔ جزا یا سزا کے احکام اللہ تعالیٰ نازل کرتے ہیں۔ کسی کے نمائندہ کی مخالفت دراصل اس کی مخالفت شمار ہوتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جبریل تو میرے حکم سے قرآن کریم نازل کررہے ہیں، لہٰذا جبریل کی دشمنی درحقیقت اللہ، اس کے رسول اور تمام فرشتوں کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے۔ یہودیوں کی عادات بد میں جادوگروں کی اطاعت اور ان کی اتباع بھی تھی۔ اس کی مذمت آیت ۱۰۲ میں کی گئی ہے۔ مسلمانوں کی زبانی کلامی دل آزاری اور گستاخیٔ رسول بھی یہودیوں کی گھٹی میں داخل ہے۔ آیت ۱۰۴ میں اسی بات کی مذمت ہے۔ قرآنی تعلیمات میں انسانی نفسیات، ماحول اور معاشرتی ضرورتوں کے پیش نظر جس طرح تدریجی احکام اور مرحلہ وار تبدیلیاں کی گئی ہیں آیت ۱۰۶ میں ان کا بیان ہے۔
یہود و نصاریٰ اپنے کفر اور حسد کی بناء پر مسلمانوں کو ایمانی تقاضوں پر کاربند دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ یہ ان کی فطرتی خباثت ہے لہٰذا انہیں نظر انداز کرکے اپنے کام سے کام رکھیں۔ دلائل کو نظر انداز کرکے محض اپنے مذہب یا نظریہ کی بنیاد پر کسی بات کو اختیار کرنا تعصب کہلاتا ہے۔ اس کی مذمت آیت ۱۱۳ میں بیان ہوئی ہے۔ مسجدیں اللہ کے گھر ہیں ان میں اللہ کی بات کرنے سے روکنا ظلم کی بدترین مثال ہے۔ ایسی حرکت کے مرتکب افراد دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہوں گے اور آخرت میں بھی بدترین عذاب کے مستحق ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد کے عقیدہ کی مذمت آیت ۱۱۶ میں ہے اور اللہ کی قدرت کا بیان ہے۔ یہود و نصاریٰ کے تعصب کی بدترین شکل کو بیان کیا کہ اس وقت تک مسلمانوں سے خوش نہیں ہوں گے جب تک مسلمان اسلام سے دستبردار ہوکر یہودیت یا عیسائیت کو اختیار نہ کریں۔ آسمانی کتاب کی تلاوت کا حق ادا کرنے کی تلقین کے ساتھ بنی اسرائیل پر انعامات کا ایک مرتبہ پھر تذکرہ اور یوم احتساب کی یاد تازہ کرکے یہودیوں کے بارے میں گفتگو پوری کردی۔ پھر انسانیت کے لئے مثالی شخصیت حضرت ابراہیم کا تذکرہ شروع ہوتا ہے۔ ان کی آزمائش و ابتلاء اور اس میں کامیابی کی شہادت کے ساتھ ہی انہیں امامتِ انسانیت کے منصب پر فائز کرنے کا اعلان اور ابراہیمی زندگی اپنانے والے ہر شخص کو اس عہدہ کا اہل قرار دینے کا فیصلہ۔ ابراہیم علیہ السلام کی دینی خدمات خاص طور پر تعمیر کعبہ کا کارنامہ جو انسانوں کے لئے مرکز وحدت ہے۔ پھر دعاء ابراہیمی جس کے نتیجہ میں بعثت نبوی اور امت مسلمہ کو وجود ملا۔
پھر اس مثالی شخصیت کے مثالی خاندان کا تذکرہ اور بیان کہ اگر آباء و اجداد حق و انصاف کے علمبردار ہوں تو ان کی اتباع و تقلید ہی کامیابی کی اصل کلید ہے۔ آخر میں اس ضابطہ کا اعلان کہ ’’وہ لوگ جو گزر چکے، ان کے اعمال کے مطابق ان کے ساتھ معاملہ ہوگا اور تمہارے اعمال کے مطابق تمہارے ساتھ معاملہ ہوگا۔‘‘

اہم نکات اور عمل کی باتیں


پارہ نمبر 1

❗دعا مانگنے سے قبل اللہ کی تعریف کرنا

❗سب سے اہم دعا ، ہدایت کی دعا مانگنا

❗اللہ کے نیک بندو ں کی راہ مانگنا

❗اللہ کی کتاب کو ہر شک و شبہ سے پاک سمجھنا

❗ہر نیکی کی بنیاد تقویٰ کو اختیارکرنا

❗منافقت کی سب سے بڑی علامت جھوٹ سے بچنا

❗اصلاح کے نام پر فساد کرنے سے بچنا

❗اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا

❗فضیلت والا کام یعنی علم حاصل کرنا

❗ہر مشکل کے وقت اللہ کی طرف رجوع کرنا

❗لوگوں سے عمدہ بات کہنا

❗حسد کےجواب میں عفودرگزر سے کام لینا

❗احسان کے درجے پر عمل صالح کرنا

❗ہدایت صرف اللہ سے مانگنا

❗کتاب کی تلاوت کا حق ادا کرنا

❗مرتے دم تک اسلام پر قاٰئم رہنا

❗اللہ کا فرمانبردار بننا

❗صحابہ جیسا ایمان لانا

❗اللہ کے لیے خالص ہر کر کام کرنا

❗اپنے عمل کی بہتری کی طرف توجہ کرنا

❤آئیے ایمان پختہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہم عمل صالح کی طرف توجہ کریں ۔۔
 

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,280
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
: ⁠⁠⁠⁠⁠⁠بسمﷲ الرحمان الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خلاصہ قرآن
پارہ نمر02 (سَيَقُولُ)
مسلمان پہلے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے، پھر بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا حکم ہوا تو یہودیوں نے اعتراض کیا۔ پارہ کی ابتداء میں اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: تحویل قبلہ کے حکم خداوندی پر ناسمجھ لوگ اعتراض کریں گے کہ مسلمان بیت المقدس کو چھوڑ کر بیت اللہ کا رخ کیوں کرنے لگے؟ اس کا جواب دیا کہ تمام جہات: مشرق و مغرب اللہ ہی کی ہیں، وہ جس طرف چاہے اپنے بندوں کو رخ کرنے کا حکم دے۔ کسی بندہ کو اعتراض کا حق نہیں ہے۔ اللہ نے فرماں برداروں اور نافرمانوں میں تمیز کے لئے تحویلِ قبلہ کا حکم دیا ہے کہ فرماں بردار فوراً اسے مان لیں گے اور نافرمان ماننے کی بجائے اعتراضات پر اتر آئیں گے اور اس طرح مخلص مسلمان اور کافر و منافق کھل کر سامنے آجائیں گے۔ اس کے بعد امت مسلمہ کے اعتدال اور میانہ روی کا تذکرہ اور فضیلت کا بیان ہے کہ قیامت کے دن جب کافر اپنے نبیوں پر تبلیغ رسالت میں کوتاہی کرنے کا اعتراض کریں گے تو امت محمدیہ کے لوگ انبیاء علیہم السلام کے فریضۂ نبوت کی ادائیگی پر گواہ کے طور پر پیش ہوں گے اور حضرت محمد علیہ الصلوٰۃ والسلام ان سب کی گواہی دیں گے اور تصدیق کریں گے۔ آپ کتنے دلائل پیش کردیں ان اہل کتاب پر تعصب و ہٹ دھرمی کا ایسا پردہ پڑا ہوا ہے کہ یہ کسی قیمت پر ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔ نماز میں قبلہ کی طرف سفر و حضر میں رخ کرنا ضروری ہے۔ اہل کتاب حضور علیہ السلام کے نبی برحق ہونے کو اس طرح جانتے ہیں جس طرح اپنی اولاد کو جانتے ہیں مگر حق کو چھپانے کے مرض میں مبتلاء ہیں اس لئے آپ پر ایمان نہیں لاتے۔ اللہ کا ذکر اور اس کا شکر ادا کرنے کی عادت بنائیں۔ نماز اور صبر کے ذریعہ مشکلات پر قابو پانا چاہئے اور اسلام کے لئے جانی و مالی ہر قسم کی بڑی سے بڑی قربانی کے لئے تیار رہیں۔ اللہ کے راستہ میںجانی قربانی دینے والے مردہ نہیں ہیں، وہ زندہ ہیں مگر تمہیں اس کا شعور نہیں ہے۔حج و عمرہ کے موقع پر کئے جانے والے اعمال خصوصاً صفاو مروہ کی سعی اسلامی شعائر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ دلائل اور ہدایت کے واضح احکام کو چھپانے والے لعنت خداوندی کے مستحق ہیں لیکن توبہ تائب ہوکر اپنا رویہ درست کرکے احکامِ خداوندی کو بیان کرنے لگیں تو وہ لعنت سے بری ہوسکتے ہیں۔ معبود حقیقی ایک ہی ہے، اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں، اس کی رحمت تمام مخلوقات کے لئے عام ہے اور اہل ایمان کے لئے اس کی رحمت تام ہے۔ آسمان و زمین کی تخلیق، دن رات کی ترتیب اور انسانی نفع کے لئے پانی میں چلنے والی کشتیاں، بادل، بارش، زمین سے نکلنے والے پھل اور سبزیاں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے عقلی دلائل ہیں۔اللہ کے مقابلہ میں معبودان باطل کے ماننے والے قیامت کے دن پچھتائیں گے اور ایک دوسرے سے برأت کا اظہار کریں گے مگر جہنم سے کسی طرح بھی بچ نہیں سکیں گے۔ قرآن کریم کے اتباع کی تلقین ہے اور قرآن کے مقابلے میں آباء و اجداد کی اندھی تقلید کی مذمت کرتے ہوئے ایسے لوگوں کو اندھے بہرے کہہ کر جانوروں کی مانند قرار دیا گیا ہے۔ پاکیزہ اور حلال کھانے کا حکم ہے۔ مردار، جاری خون، خنزیر اور غیر اللہ کے لئے نامزد اشیاء کی حرمت کا اعلان ہے۔ نیز اس ضابطہ کا بیان بھی ہے کہ جان بچانے کے لئے ضرورت کے وقت حرام کا استعمال بھی گناہ نہیںہے۔ نیکی اور اس کی مختلف اقسام کی فہرست بیان کی گئی ہے۔ نیکی دراصل ایمانی بنیادوں پر سر انجام پانے والے اعمال ہیں۔ عزیز و اقارب،یتیم و مسکین کے ساتھ مالی تعاون، نماز اور زکوٰۃ کا اہتمام، ایفاء عہد، مشکلات میں حق پر صبر و ثابت قدمی کا مظاہرہ، سچائی کا التزام کرنے والے ہی متقی کہلاسکتے ہیں۔ قصاص و دیت کے قانون کو بیان کرکے بلا امتیاز اس پر عملدرآمد کی تلقین ہے۔ قصاص حیات انسانی کے تحفظ کا ضامن ہے۔ وصیت کی تلقین کرتے ہوئے کسی پر ظلم و نا انصافی نہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ روزہ کے احکام اور اس کی حکمتوں کا بیان ہے۔ رمضان المبارک کی فضیلت کا سبب اس مہینہ میں قرآن کریم کا نازل ہونا ہے۔ رمضان کی راتوں میں کھانے پینے اور بیویوں سے ملنے کی اجازت ہے۔ نیز اعتکاف کے عمل کا تذکرہ ہے، روزہ کے ابتدائی اور انتہائی وقت کا بیان ہے۔ دوسروں کا مال ناجائز طور پر کھانے اور لوگوں کو ناجائز مقدمات میں الجھانے سے باز رہنے کی تلقین ہے۔ قمری مہینہ کے مختلف ایام میں چاند کے چھوٹا بڑا ہونے کی حکمت بتائی گئی ہے کہ اوقات کے انضباط اور حج وغیرہ کی تاریخوں کے تعین کے لئے ایسا کیا جاتا ہے۔ دنیا سے برائی ختم کرنے کے لئے قتال فی سبیل اللہ اور اس کے احکام کا تذکرہ ہے، احترام کے ضابطہ کا بیان ہے۔ حرمت بدلہ کی چیز ہے لہٰذا احترام کروانے کے لئے دوسروں کے مقدسات کا بھی احترام کرنا ہوگا۔ اللہ کے دین کے دفاع میں مال خرچ کرنا ہی تباہی سے بچنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ عمرہ اور حج کے احکام ہیں۔ اگر حالت احرام میں خانہ کعبہ تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوجائے تو ’’دم‘‘ دے کر احرام کھول سکتے ہیں۔ حج تمتع یا قران کی صورت میں ’’دم شکر‘‘ دینا ہوگا۔ احرام کی حالت میں غیر اخلاقی حرکتوں سے گریز کیا جائے۔ جنسی موضوع پر گفگو نہ کریں، مساوات کو مدنظر رکھ کر تمام افعال حج کی ادائیگی ہونی چاہئے۔ جمرات کی کنکریاں تین دن واجب ہیں۔ چوتھے دن حاجی کی صوابدید پر منحصر ہے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ کو خوب یاد کیا جائے اور دنیا و آخرت کی خیر اور بھلائی مانگی جائے۔ دو قسم کے انسانوں کا تذکرہ: کبر و نخوت، فساد و ہٹ دھرمی کے خوگر جو اللہ کی بات کسی قیمت پر بھی تسلیم نہ کریں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ عجزو اخلاص کے پیکر جو اپنی جان و مال اللہ کے لئے خرچ کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہوں وہ اللہ کی رحمتوں اور مہربانیوں کے مستحق ہیں۔ شیطان کی اتباع چھوڑ کر پورے پورے اسلام میں داخل ہونے کی تلقین۔بنی اسرائیل اور ان پر انعامات خداوندی کا تذکرہ۔ مذہبی اختلافات اور فرقہ واریت کے لئے ضابطہ کا بیان کہ دلائل کی بنیاد پر حق کی اتباع کرنے والے ہدایت یافتہ اور پسندیدہ لوگ ہیں جبکہ دلائل سے تہی دامن اپنے من مانے نظریات پر چلنے والے قابل مذمت اور گمراہ ہیں۔ جنت کے حصول کے لئے قربانیوں کے لمبے سلسلے اور تکالیف و مشقت کی پر خطر وادی سے گزرنا پڑتا ہے۔ جہاد طبیعتوں پر گراں گزرتا ہے مگر انسانیت کا اس میں فائدہ ہے۔ دوسروں پر اعتراض کرنے والوں کو خود اپنے کردار پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ مسلمانوں پر جہاد کے حوالہ سے اعتراض کرنے والے اپنے ظلم و نا انصافی پر بھی غور کریں کہ وہ مسلمانوں کو بیت اللہ سے روکتے ہیں۔ اسلام پر عمل پیرا ہونے کے راستہ میں رکاوٹ بنتے ہیں، مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کرتے ہیں۔ ایسی فتنہ پردازی تو قتل سے بھی بدتر ہے۔ شراب اور قمار کے بارے میں ابتدائی ذہن سازی کرتے ہوئے ان کے فوائد و نقصانات میں تقابل کی تلقین کی گئی ہے۔ یتیموں کی کفالت کی تعلیم ہے اور نکاح میں توحید پرست کو بت پرستوں پر ترجیح دینے کا حکم ہے۔ خواتین کے مسائل جن میں حالت حیض میں اپنی بیویوں سے دور رہنے کا حکم ہے۔ جھوٹی قسم سے بچنے کی ترغیب ہے۔ بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم (ایلائ) کے حکم کا بیان ہے۔ طلاق اور عدت گزارنے کا خاص طور پر تین طلاق کا حکم اور حلالہ شرعی کا بیان ہے۔ بچوں کو دودھ پلانے کی مدت دو سال مقرر کی گئی ہے اور زچہ و بچہ کی کفالت شوہر کے ذمہ رکھی گئی ہے۔ شوہر کے انتقال کی صورت میں عورت کو چار ماہ دس روز عدت گزارنے کا حکم ہے۔ عدت کے ایام میں نکاح یا منگنی کے موضوع پر گفتگو کی ممانعت کی گئی ہے۔ نکاح کے بعد اگر بیوی سے ملاقات سے پہلے ہی طلاق اور علیحدگی کی نوبت آجائے تو مہر متعین ہونے کی صورت میں نصف مہر کی ادائیگی لازم ہوگی۔ ان شرعی ضوابط کی پابندی اللہ کا حق ہے، لہٰذا ایک دوسرے کے لئے پریشانیاں اور مسائل پیدا کرنے کے لئے شرعی ضوابط کو پامال نہ کیاجائے۔ نما زکی پابندی اور اس کے اہتمام کی تلقین ہے کہ کسی خوف و خطرہ کی وجہ سے اگر کھڑے ہوکر نہ پڑھ سکیں تو سواری پر ہی ادا کرلیں۔ جہاد کی ترغیب دینے کے لئے ایک قوم کا تذکرہ ہے، جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے محض اس لئے نکل بھاگے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں موت دے دی اور بنی اسرائیل کے ایک نبی حضرت حزقیل کی دعا سے انہیں دوبارہ زندہ کردیا۔ پھر جہاد کا حکم اور اس کے ساتھ ہی اللہ کے نام پر مال خرچ کرنے کی تلقین ہے۔ پھر مسلم حکمران طالوت اور کافر حکمران جالوت کے درمیان مقابلہ کا تذکرہ ہے۔ بنی اسرائیل کے جہاد سے راہِ فرار اختیار کرنے کی وجہ سے ایک ظالم قوم عمالقہ کو اللہ تعالیٰ نے ان پر مسلط کردیا تو انہیں جہاد کی فکر لاحق ہوئی۔ حضرت شمویل علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو مسلم بادشاہ طالوت کی زیر قیادت جہاد کا حکم دیا۔ طالوت کی امارت پر بنی اسرائیل نے اعتراض کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی جسمانی قوت اور جنگی علوم میں مہارت کو اس کی اہلیتِ امارت کی دلیل کے طور پر بیان کیا اور بنی اسرائیل کے مذہبی مقدسات اور حضرت موسیٰ و ہارون کے تبرکات پر مشتمل تابوت جوکہ دشمنوں کے قبضہ میں تھا۔ انہیں واپس دلاکر ان کی تسلی اور دل جمعی کا انتظام کردیا۔ بنی اسرائیل نے کچھ پس و پیش کے بعد جہاد پر آمادگی ظاہر کردی۔ طالوت نے جنگی نقطۂ نظر سے کچھ پابندیاں عائد کیں، جن میں راستہ میں آنے والے دریا سے پانی پینے کی ممانعت بھی شامل تھی۔ بہت سے لوگ اس کی پابندی نہ کرسکے اور جہاد میں شرکت کے لئے نا اہل قرار پائے۔ ایک قلیل تعداد جوکہ بعض روایات کے مطابق تین سو تیرہ تھی جہاد میں شریک ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کو شکست دے کر اہل ایمان کو غالب کرکے ہمیشہ کے لئے یہ ضابطہ بتادیا کہ اللہ کی مدد قلت و کثرت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایمان و عمل کی بنیاد پر ہوا کرتی ہے اور دوسرا ضابطہ یہ بتایا کہ جب ظلم اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بعض مؤمن بندوں کو استعمال کرکے ظالموں کا صفایا کردیا کرتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو دنیا کا نظام درہم برہم ہوکر رہ جائے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نبی امی ہونے کے باوجود ان تاریخی واقعات کو بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قرآن اللہ کی نازل کردہ حق کتاب ہے اور آپ اللہ کے رسول برحق ہیں۔
اہم نکات اور عمل کی باتیں
تبدیلی ایک امتحان ہے ۔
زندگی میں موسم ،جگہ، حا لات کی تبدیلی کو خوشی سے قبول کرنا ہے.
مومن کی زندگی کا مرکزی نقطہ نیکیوں میں آگے بڑھنا ہے.
کسی بھی غلط کام کا ارادہ ہو تو اللہ کی خشیت کی وجہ سے چھوڑ دینا ہے.
صیحیح طریقے پر اور کثرت سے اللہ کویاد کرنا ہے ۔
کسی بھی امتحان میں امید اور شکر کو نہیں چھوڑناہے.
حضرت ہاجرہ کے صبر کاحوصلہ ،کسی بھی مشکل اور تنہا حالت میں رضیت باللہ ربا کہنا ہے
شیطان کے یہکاوے سے بچتے ہوئے کھانے پینے میں حلال و طیب اختیار کرنا ہے.
تقویٰ کوبطور زادراہ لےکر سفر کرنا اور پر امن رھنا ہے۔
فرض عبادت کے ذریعے تقویٰ کے حصول کی کوشش کرنی ہے۔
اللہ بندے کے قریب ھے اس لئے ہر حال میں اسی سے دعا کرنا اسی کو پکارناہے ۔
دنیا طلبی میں ھی نہ لگے رھنا ۔دنیا کی بھلائی کے ساتھ آخرت کی بھلائی بھی مانگنا ہے۔
شادی بیاہ کے معاملات میں عقیدہ پر سمجھوتا نہ کرنا ۔
کسی شرک کرنے والے سے زندگی کا اہم تعلق قائم نہیں کرنا ہے.
طلاق دیتے ھوئے بھی احسان کا معاملہ کرتے ھوئے ،بھلے طریقے کے ساتھ ایک دوسرے سے جدا ھونا ہے۔ بیوہ کا چار ماہ 10دن عدت گزارنا اور پھر معروف طریقے سے نئے نکاح کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار رکھنا ۔
درست نیت ،خوب محنت اور بہت دعا کے ساتھ خدمت دین کے لیے نکلنا ہے
❤آئیے نیکیوں میں آگے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں❤

 

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,280
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
خلاصہ قرآن

پارہ نمر03 (تِلْكَ الرُّسُلُ)
شروع میں ابنیاء علیہم السلام اور ان کی ایک دوسرے پر فضیلت بیان کی گئی ہے۔ درجات کا یہ فرق کسی نبی یا رسول کی کمی یا کوتاہی کا غماز نہیں ہے بلکہ ان کے منصب اور ذمہ داری میں فرق اور اہمیت کے پیش نظر ہے۔ دنیا میں ہی صدقہ و خیرات کرکے اپنی عاقبت سنوار لو ورنہ قیامت کے دن کوئی سودے بازی، تعلقات یا سفارش کام نہیں دے گی۔ قرآن کریم کی آیات میں مرتبہ اور مقام کے اعتبار سے آیت الکرسی سب سے بڑی آیت ہے۔ یہ سورہ البقرہ کی آیت نمبر ۲۵۵ ہے اور اس کی عظمت کا راز یہ ہے کہ اس میں توحید کو بھرپور انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ زندہ جاوید اور کائنات کو قائم رکھنے والا ہے۔ اس پر اونگھ یا نیند کا غلبہ نہیں ہوتا۔ آسمان و زمین اور ان میں پائی جانے والی ہر چیز کا وہی مالک ہے۔ اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے سفارش کرنے کی کوئی جرأت بھی نہیں کرسکتا۔ ان لوگوں سے پہلے کیا تھا اور ان کے بعد میں کیا ہوگا؟ اس سب کچھ کا علم اسی کے پاس ہے۔ یہ لوگ اتنا ہی جانتے ہیں جتنا وہ انہیں سکھاتا ہے۔ اس کے علم کی معمولی مقدار کا بھی احاطہ نہیں کرسکتے۔ اس کی کرسی کی وسعت اور بڑائی کا یہ عالم ہے کہ وہ آسمان و زمین پر حاوی ہے اور آسمان و زمین کی حفاظت، اس کے لئے کسی قسم کی مشکلات کا باعث نہیں ہے۔ وہ نہایت بلند ہے اور عظمتوں کا مالک ہے۔ ہدایت اور گمراہی واضح ہوچکی ہے، لہٰذا دین اسلام کو قبول کرنے کے لئے کوئی جبر یا زبردستی نہیں ہے۔ جو باطل قوتوں سے بغاوت کرکے اللہ کا وفادار بن گیا تو ا س نے ایسی مضبوط کڑی کو تھام لیا جو ٹوٹنے والی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کا دوست ہے اور انہیں کفر کی ظلمتوں سے ایمان کے نور کی طرف لاتا ہے جبکہ کافروں کے دوست طاغوت (باطل قوتیں) ہیں جو انہیں ایمان کی روشنی سے کفر کے اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں، یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ اس کے بعد تین تاریخی واقعات بیان کئے جو توحید پر دلالت کرتے ہیں اور مرنے کے بعد زندہ ہونے کے قرآنی عقیدہ کو اجاگر کرتے ہیں۔ پہلا واقعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کا ہے جس کا دعویٰ تھا میں مار بھی سکتا ہوں اور موت سے بچا بھی سکتا ہوں لہٰذا میں اس کائنات کا رب ہوں۔ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق سے نکالتے ہیں تم مغرب سے نکال کر دکھائو۔ اس پر وہ لاجواب ہوکر حیران رہ گیا۔ دوسرا واقعہ حضرت عزیر علیہ السلام کا ہے کہ کسی سفر میں ان کا گزر ایک تباہ شدہ بستی پر ہوا جس کے باشندے لاشوں کی صورت میں پڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے ان کی تباہ شدہ کیفیت اور بوسیدگی اور اللہ تعالیٰ کی دوبارہ پیدا کرنے کی قوت پر تعجب کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اور ان کی سواری پر موت طاری کرکے سو سال کے بعد زندہ کیا۔ سواری کی بوسیدہ ہڈیوں کو ان کے سامنے جمع کرکے ان پر گوشت پوست چڑھایا اور ان کے زاد سفر (کھانے) کو سو سال تک باسی ہونے سے بچا کر ترو تازہ رکھا اور اس طرح اپنی قدرت کا انہیں عملی مشاہدہ کرادیا۔ تیسرا واقعہ: ابراہیم علیہ السلام نے مرنے کے بعد زندہ ہونے کی کیفیت کا مشاہدہ کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اطمینان قلب کے لئے مردوں کو زندہ کرنے کی کیفیت کو عملی شکل میں دیکھنا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ چار پرندے لے کر انہیں اپنے ساتھ مانوس کریں، پھر انہیں ذبح کریں اور بالکل قیمہ بنا کر ان کے ذرات آپس میں خلط ملط کرکے مختلف پہاڑیوں پر رکھ کر ان پرندوں کا نام لے کر پکاریں۔ ابراہیم علیہ السلام کے پکارنے پر ہر پرندے کی ہڈی سے ہڈی، پَر سے پَر، خون سے خون سب مل ملا کر اپنی اصلی شکل و صورت میں بن کر ان کے پاس آگئے۔ جس سے اللہ تعالیٰ کی زبردست قوت اور حکمت کا عملی مشاہدہ ہوگیا۔
صدقہ و خیرات کے حوالے سے آیت نمبر ۲۶۱ سے آیت نمبر ۲۶۶ تک چار مثالیں بیان کی ہیں، دو مثالیں اخلاص کی اور دو مثالیں ریاء کاری کی۔ اخلاص کے ساتھ اللہ کے نام پر مال خرچ کرنے کی مثال ایسے ہی ہے جیسے زمین میں ایک بیج ڈال کر سینکڑوں دانے حاصل کرلینا اور ریاء کار کا صدقہ ایسا ہے جیسے چٹان پر غلہ اگانے کی ناکام کوشش۔ اچھی بات کہنا اور درگزر کردینا ایسی مالی امداد سے بہتر ہے جس میں ریا کاری اور احسان جتلانے کا عنصر شامل ہو۔ اللہ کے لئے صدقہ و خیرات کی دوسری مثال زرخیز خطۂ زمین میں باغ لگانے کی ہے جو سال میں دو مرتبہ پھل دیتا ہو اور دکھاوے کے طور پر خیرات کرنے کی مثال اس شخص کی ہے جو اپنی جوانی میں محنت کرکے بہترین باغ اور فصل اگائے مگر اس کے بڑھاپے میں جب وہ محنت کے قابل نہ رہے، وہ اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے غلہ اور پھلوں کے محتاج ہوں تو یہ باغ کسی ناگہانی آفت سے تباہ ہوکر رہ جائے، اسی طرح ریا کار کا اجرو ثواب آخرت میں تباہ ہوجاتا ہے اور اسے کچھ نہیں ملتا۔
اللہ کے عطا کردہ مال و جائیداد اور زمین سے حاصل شدہ غلوں اور فصلوں میں سے پاکیزہ چیزیں اللہ کے نام پر دینی چاہئیں، گھٹیا اور بیکار چیزیں جب اپنے لئے پسند نہیں کرتے تو اللہ کے نام پر کیوں دیتے ہو؟ صدقہ و خیرات کرنے پر شیطان غربت اور پیسہ کی کمی سے ڈراتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ مال میں برکت اور گناہوں کی معافی کا وعدہ کرتے ہیں۔ حکمت و دانائی اللہ کی عطاء ہے جسے حکمت مل جائے اسے بہت بڑی خیر میسر آگئی۔ کھلے عام اور چھپا کر موقع محل کے مطابق دونوں طرح صدقہ کرتے رہنا چاہئے۔ دین دار غرباء جو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لئے مانگتے نہیں ہیں وہ آپ کے مالی تعاون کے زیادہ مستحق ہیں۔ عدل و انصاف پر مشتمل معاشی نظام کے لئے رہنما اصول، غریب اور چھوٹے تاجروں کے لئے زہر قاتل اور تجارت کے لئے ’’رِستا ہوا ناسور‘‘ یہودی ذہنیت کی بدترین پیداوار ’’سودی نظام‘‘ کے تباہ کن عواقب و نتائج سے آیت نمبر ۲۷۵ سے آیت نمبر ۲۸۰ تک خبردار کرتے ہوئے سختی کے ساتھ اس سے باز رہنے کا حکم دیا ہے اور سود خوری سے بچنے کو ایمان کا تقاضا قرار دیا اور سودی نظام کو جاری رکھنے کو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے مترادف قرار دیا ہے۔ یوم احتساب یعنی قیامت کی یاد دہانی کراتے ہوئے آیت نمبر ۲۸۱ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اس دن سے ڈرو جب تم اللہ کی طرف لوٹائے جائوگے اور ہر شخص کو نیک و بد اعمال کا پورا پورا حساب دینا ہوگا۔ کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ یہ قرآن کریم کی نزول کے اعتبار سے آخری آیت ہے اور اس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس دنیا سے ارتحال کا اشارہ بھی موجود ہے۔ آیت نمبر ۲۸۲ کمیت کے اعتبار سے قرآن کریم کی سب سے بڑی آیت ہے۔ اسے آیۃ المداینہ بھی کہتے ہیں۔ اس میں ادھار لین دین کے قرآنی ضوابط، ادائیگی کی مدت کا تعین، تحریری وثیقہ کی تیاری اور گواہوں کی موجودگی وغیرہ کا بیان ہے۔ رہن رکھنے کے احکام کا تذکرہ ہے۔ آسمان و زمین کے اندر سب کچھ اللہ کی ملکیت ہے، وہ دلوں کے ظاہر اور خفیہ تمام بھیدوں سے واقف ہے ۔ اللہ کے نازل کردہ قرآن پر رسول اور مؤمنین سب کا ایمان ہے۔ اللہ پر، فرشتوں پر، آسمانی کتابوں پر اور تمام انبیاء و رسل پر بلا تفریق ایمان لانا ضروری ہے۔ اپنی اطاعت شعاری اور فرماں برداری کا عاجزانہ اعتراف کرکے اپنی کمی و کوتاہی پر اللہ سے مغفرت طلب کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ انسانی وسعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے لہٰذا شریعت کے جتنے احکام ہیں وہ انسانی وسعت و قدرت کے اندر ہی ہیں اور ہر شخص کو اپنے برے بھلے اعمال کا نتیجہ بھگتنا ہوگا اس لئے فدویانہ طریقہ پر اپنی وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے اللہ سے درخواست کریں۔ اے ہمارے رب! ہماری غلطی اور کمی پر ہماری گرفت نہ فرما۔ ہماری طاقت سے زیادہ ہم پر ذمہ داریاں نہ ڈال، ہمارے ساتھ عفو و درگزر کا معاملہ فرما۔ رحم فرما، تو ہی ہمارا مولا ہے، کافروں کے مقابلہ میں ہماری مدد فرما۔ آیت نمبر ۲۸۵ اور ۲۸۶ سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں ہیں ان کی بہت فضیلت ہے۔ حدیث شریف میں ہے جس نے رات کو سوتے وقت یہ دو آیتیں پڑھ لیں تو یہ اس کے لئے کافی ہیں۔

سورہ آل عمران
قرآن کریم کی طویل ترین سورتوں میں سے ایک ہے۔ مدنی ہے دوسو آیتوں اور بیس رکوع پر مشتمل ہے۔ اس سورہ میں عقائد پر گفتگو کرتے ہوئے زیادہ تر روئے سخن عیسائیوں کی طرف ہے۔ عیسائیت کے مذہبی تقدس کے حامل خاندان کا تذکرہ اس میںموجود ہے۔ عمران حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نانا تھے۔ عیسائیوں کے دلوں میں قرآن کریم کے لئے نرم گوشہ پیدا کرنے کی خاطر پوری سورہ کو ’’آل عمران‘‘ کے نام سے موسوم کردیا۔ یہ سورہ ایک واقعہ کے پس منظر میں نازل ہونا شروع ہوئی۔ نجران کے عیسائیوں کا ساٹھ افراد پر مشتمل ایک بڑا وفد مدینہ منورہ میں حضور علیہ السلام سے ملاقات کے لئے آیا تھا۔ ان لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کے مرتبہ سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ کبھی کہتے کہ وہ ’’اللہ‘‘ ہیں کبھی کہتے کہ وہ ’’ابن اللہ‘‘ ہیں اور کبھی کہتے کہ الوہیت کے مثلث (باپ، ماں اور بیٹا) کا ایک حصہ ہیں۔ حضور علیہ السلام نے انہیں مسکت جواب دیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ زندہ جاوید ہیں ان پر موت طاری نہیں ہوسکتی جبکہ عیسیٰ علیہ السلام پر موت طاری ہوکر رہے گی۔ بیٹا اپنے باپ کے مشابہہ ہوتا ہے جبکہ عیسیٰ علیہ السلام میں اللہ تعالیٰ کی مشابہت نہیں، اللہ تعالیٰ کھاتے پیتے نہیں جبکہ عیسیٰ علیہ السلام کھاتے پیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے آسمان کی بلندیوں اور زمین کی پنہائیوں میں کوئی چیز مخفی نہیں جبکہ عیسیٰ علیہ السلام سے بے شمار چیزیں مخفی ہیں۔ اس پر وہ لاجواب ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تائید میں یہ سورہ نازل فرمائی۔ ابتداء میں اللہ کی وحدانیت اور قرآن کریم، تورات اور انجیل کی حقانیت کو بیان کیا اور اللہ کی آیات کے منکروں کو عذاب شدید سے ڈرایا۔ علم الٰہی کی وسعتوں کو بیان کیا۔ قدرت کے تخلیقی شاہکار انسان کے رحمِ مادر میں تیاری کے مرحلہ کو بیان کیا اور بتایا کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ ہی نے نازل فرمایا ہے، جس میں محکم اور واضح معنی و مفہوم رکھنے والی آیات بھی ہیں اور متشابہات بھی ہیں، جن کے معنی و مفہوم ہر شخص پر واضح نہیں ہوتے، لیکن اگر متشابہہ آیات پر حضور علیہ السلام کے بیان کردہ ضوابط کی روشنی میں غور کریں تو ان کے معنی واضح ہوسکتے ہیں، مگر جو لوگ ضلالت و گمراہی کے مریض ہیں وہ ان آیات کو من مانے معنی پہناکر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی آیات کو اللہ کی طرف سے یقین کرکے ان پر مکمل ایمان رکھنا چاہئے۔
اللہ سے ہدایت کی دعا مانگنی چاہئے اور روز جزاء کے تصور کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ کافروں کا مال و اولاد ان کے کسی کام نہیں آسکے گا۔ وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ فرعون اور اس سے پہلے اقوام کے واقعات سے یہ بات ظاہر ہے۔ انہوں نے ہماری آیات کا انکار کیا، ہم نے ان کے جرائم پر ان کی گرفت کرکے انہیں عبرت کا نشانہ بنادیا۔ بدر کے واقعہ میں غور کرو جب دو جماعتیں مقابلہ پر آئیں۔ ایک جماعت اللہ کے لئے جہاد کرنے والی اور دوسری جماعت کافروں کی تھی، جن کی تعداد مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ نظر آرہی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے کافروں کو شکست دے کر ایمان والوں کو اپنی مدد سے غالب کیا۔ اس سے اہل بصیرت درس عبرت حاصل کرسکتے ہیں۔ انسانوں کو بیوی، بچے، مال و دولت کے خزانے، سونا چاندی، سواریاں، چوپائے، جانور اور کھیتیاں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی عارضی چیزیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے پاس بہترین انجام ہے۔ متقی لوگوں کے لئے باغات، نہریں، پاکیزہ بیویاں اور اللہ کی رضا ہے۔ اللہ اپنے بندوں کو خوب جانتے ہیں۔ وہ بندے گناہوں پر استغفار اور جہنم سے حفاظت کے طلبگار ہیں۔ صبر کرنے والے، سچ بولنے والے، فرماں برداری کرنے والے، صدقہ و خیرات کرنے والے اور تہجد کے وقت اپنے گناہوں کی معافی مانگنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور فرشتے اور تمام اہل علم، توحید کی گواہی دیتے ہیں۔ انسانی زندگی کے لئے نظام حیات جو اللہ تعالیٰ کے یہاں مستند و مسلم ہے وہ صرف اسلام ہے اور اس سے اختلاف رکھنے والے ہٹ دھرم اور ضدی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جلد ہی ان کافروں کا احتساب کریں گے۔ بحث بازی اور جھگڑا کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہی ہدایت ہے۔
انبیاء اور عدل و انصاف کے داعی مذہبی پیشوائوں کا قتل یہودی ذہنیت کا غماز ہے۔ ایسے لوگوں کو دردناک عذاب ہوگا۔ ہر قسم کی حکمرانی اللہ ہی کی ہے وہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلیل و رسوا کرے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ دن کو رات میں داخل کرتا ہے، رات کو دن میں داخل کرتا ہے۔ زندہ سے مردہ کو اور مردہ سے زندہ کو نکالتا ہے اور جب چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔ ایمان والوں کے لئے کافروں سے گہری دوستی لگانا جائز نہیں۔ اللہ کی محبت اور مغفرت کے حصول کا آسان اور کامیاب راستہ اتباعِ رسول ہے۔ انبیاء کی بعثت درحقیقت انتخاب ربانی ہوتا ہے۔ آدم و نوح اور ابراہیم و عمران کے خاندانوں کو اللہ تعالیٰ نے ہی منتخب فرمایا تھا۔ حضرت مریم کی ولادت ان کی کراماتی نشوونما اور انہیں بیت المقدس کی خدمت کے لئے وقف کرنے کی تفصیل کا بیان ہے۔ حضرت زکریا علیہ السلام کو بڑھاپے اور بیوی کے بانجھ پن کے باوجود یحییٰ جیسے پاکباز اور قائدانہ صلاحیتوں کے حامل بیٹے کی خوشخبری کا تذکرہ ہے۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام کی معجزانہ ولادت، بچپن اور بڑھاپے میں گفتگو کے امتیاز کا تذکرہ۔ آپ کی نبوت و رسالت کے ساتھ ہی آپ کے معجزات، مردوں کو زندہ کرنا، مٹی کے پرندے بناکر اڑادینا، اندھوں اور کوڑھوں کو صحت مند کردینا وغیرہ کو ذکر کرکے بتایا ہے کہ یہ تاریخی باتیں ایک نبی امی کے ذریعہ لوگوں کے سامنے آنا، اس نبی کی حقانیت کی واضح دلیل ہیں۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے اور ان کو نبی برحق مان کر ان کی پیروی کرنے والوں کے دنیا پر غلبہ اور قیامت تک ان کی حکمرانی کو بیان کیا ہے۔
پھر عیسائیوں کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مباہلہ کا تذکرہ ہے، جس میں دو مقابل فریق اپنے اہل و عیال کے ساتھ میدان میں نکل کر بددعا کرتے ہیں، جس کے نتیجہ میں باطل فریق ہلاک ہوجاتا ہے۔ عیسائی مباہلہ کی بجائے فرار ہوگئے، جس سے ان کا بطلان واضح ہوگیا۔ قرآن کا اعلان ہے کہ ابراہیم علیہ السلام یہودی، عیسائی یا مشرک نہیں بلکہ یکسوئی کے ساتھ اللہ کی اطاعت کرنے والے مسلمان تھے۔ پھر یہودیوں کی خامیوں اور کمزوریوں کا تذکرہ ہے۔ خود راہِ راست پر آنے کی بجائے دوسروں کو بھی اپنے جیسا گمراہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ حق و باطل کو خلط ملط کرکے لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ سازش کے تحت اسلام کا اظہار کرکے پھر انکار کردیتے ہیں تاکہ دوسروں کو بھی اسلام سے برگشتہ کریں۔ مسلمانوں کا مال ناجائز طریقہ پر کھانے کو اپنے لئے حلال سمجھتے ہیں، دنیوی مفادات کی خاطر اللہ کے کلام کو بیچ ڈالتے ہیں۔ نبی و رسول کی شان یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اپنا پرستار بنانے کی بجائے اللہ کی عبادت پر آمادہ کرتے ہیں۔ پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے حوالے سے انبیاء کرام سے لئے جانے والے میثاق کا ذکر ہے، جس کی رو سے تمام انبیاء علیہم السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت کرنے کے پابند قرار دیئے گئے۔ اسلام کے علاوہ کوئی دین قابل قبول نہیں۔ اللہ کے نزدیک، تمام فرشتوں اور تمام انسانوں کے نزدیک کافر ملعون ہیں۔ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ اگر زمین کے بھرائو کے برابر سونا بھی فدیہ میں دے دیں تب بھی انہیں جہنم کے عذاب سے نجات حاصل نہیں ہو گی۔
اہم نکات۔۔
بعض رسولوں کوبعض پرفضیلت دی گئی ہر رسول یا نبی پر اسے دی گئی فضیلت کے ساتھ ایمان لانا ضروری ھے ۔

آیت الکرسی قرآن مجید کی عظیم آیت ھے ۔اس کا پڑھنا رات بھر شیطان کے شر سے حفاظت کا ذریعہ ھے ۔

اللہ اھل ایمان کا دوست ھے وہ اپنے دوستوں کو کبھی تنھا نہیں چھوڑتا ۔ابراھیم ؑ کو دوست بنا یا تو انکی کیسی بے مثال راہ نمائی کی

ابراھیمؑ اور نمرود کے درمیان اللہ تعالیٰ کی قدرت کے بارے میں مکالمہ ھوا۔جس میں نمرود اپنی جھوٹی بادشاھت کی حقیقت واضح ھونے پر ششدر رہ گیا ۔

بستی سے گز رنے والے شخص کو اس کے گدھے اور کھانے پینے کے ذریعے اور ابراھیمؑ کو پرندوں کے ذریعے زندگی بعد الموت کی حقیقت سمجھائی گئی ۔

اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا اجر کئی گنا زیادہ ملتا ھے ۔لہذا خرچ کرتے ھوئے 3 کاموں میں احسان جتانا ، دکھ دینا ،دکھاوا کرنے سے بچنا ھے ۔

جو اللہ کے دین کی خدمت میں لگے ھوئے ھیں اور لپٹ کر سوال نہیں کرتے ان پر خرچ کرنا زیادہ بہتر ھے ۔

سود لینا اور دینا حرام قرار دیا گیا ھے ۔یہ اللہ اور رسولؐ کے ساتھ جنگ کرنے کے مترادف ھے ۔اس لئے اھل ایمان کو اس سے اجتناب کرنا چاھئے ۔

مومن بندوں کو تعلیم دی گئی ک جب وہ قرض کا لین دین کریں تو اس کو لکھ لیا کریں تا کہ کسی مشکل سے بچ سکیں

سورۃ البقرۃ کی آخری 2 آیا ت معراج کی رات عرش کے نیچے خزانے سے ،رسولؐ کو عطاھوئی ۔جوشخص ان 2 آیات کو رات میں پڑھ لے گا وہ اس کو کافی ھو جائیں گی ۔اور ہیہ قبولیت دعا کا ذریعہ بھی ھے ۔

علم کا مقام اس سے بڑھ کر اور کیا ھو گا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی گواھی کے ساتھ فرشتوں اور اھل علم کی گواھی کو اکٹھا کیا ۔

اللہ کی محبت کے حصول کا طریقہ اتبا ع رسول میں ھے ۔مختلف فتنوں ،فلسفوں ،نظریات سے بچنا اسی وقت ممکن ھے جب رسولؐ کے طریقے کو مضبوطی سے پکڑ لیا جائے

مریم ؑ کو تمام عورتوں پر فضیلت عطاکی گئی ۔دوسروں کو ملنے والی فضیلت پر خوش ھونا اور اللہ سے اپنے لئے اچھے کاموں کی توفیق مانگنی چاھیے اور اللہ کے فیصلوں پر راضی رھنا چاھیے ۔

اللہ نے بہترین تدبیر کرتے ھوئے عیسیٰؑ کو زندہ آسمانوں پر اٹھالیا ۔رفع عیسیؑ پر ایمان لانا ضروری ھے ۔

اللہ کی کتاب سیکھنے سکھانے کا بنیادی مقصد لوگوں کو اللہ سے جوڑنا اور رب والا بنانا ھے ۔

آئیے اللہ کی طرف سے ملنے والی صلاحیت کو اللہ کے دین کی خاطر صرف کریں ۔۔
 

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,280
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
خلاصہ قرآن

پارہ نمر04 (لَن تَنَالُواْ)
اعلیٰ ترین نیکی اپنی محبوب چیز کو اللہ کے نام پر خرچ کرنا ہے۔ اللہ کے بارے میں غلط بیانی اور جھوٹ سے کام لینا بدترین ظلم ہے، اللہ سچے ہیں۔ کفر و شرک اور تمام ادیان باطلہ سے بیزار ہوکر ایک اللہ کے بن جانے والے ابراہیم علیہ السلام کا طرز زندگی اپنانے کاحکم دیتے ہیں۔بیت اللہ تک پہنچنے کی گنجائش رکھنے والوں پر حج فرض ہونے کا حکم بیان کرکے بتایا کہ انسانیت کے لئے سب سے پہلا گھر کعبۃ اللہ تعمیر ہوا ہے جس سے زمین کو پھیلایا گیا ہے اور یہ مکہ مکرمہ میں واقع ہے۔ بہت بابرکت اور ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اس میں اللہ کی واضح نشانیاں موجود ہیں جن میں سے مقام ابراہیم بھی ہے۔ یہ وہ پتھر ہے جو خود بخود اوپر نیچے ہوتا تھا۔ ابراہیم علیہ السلام نے اس پر کھڑے ہوکر تعمیر کعبہ کا عمل سر انجام دیا تھا۔ اللہ کا گھر امن کی علامت ہے اس میں جو بھی داخل ہوگیا اسے امن دے دیا جاتا ہے۔
اہل کتاب کی کچھ خرابیاں ذکر کرنے کے بعد ان کی گندی ذہنیت کو بیان کیا کہ اگر مسلمان ان کی بات ماننے لگ گئے تو وہ انہیں ایمان سے دستبردار ہونے پر مجبور کردیںگے! پھر تقویٰ کی تعلیم دے کر مرتے دم تک اسلام پر ثابت قدم رہنے کی تلقین فرمائی۔ فرقہ واریت کی لعنت سے نجات حاصل کرنے کے لئے اللہ کی رسی (قرآن کریم) کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا۔ ایک ایسی جماعت کی ضرورت پر زور دیا جو خیر کی داعی ہو اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والی ہو۔ ایسے ہی لوگ کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ قیامت کے دن کافروں کے چہرے کالے سیاہ ہوں گے جبکہ اہل ایمان کے چہرے روشن اور چمکدار ہوںگے وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے جس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ امت مسلمہ بہترین امت ہے کیونکہ یہ اللہ پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی نفع رسانی کا کام کرتے ہیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بھی سر انجام دیتے ہیں، یہود و نصاریٰ بھی اگر یہ صفات اپنے اندر پیدا کرلیں تو وہ بھی خیر کے حامل قرار دیئے جائیں گے، زبانی کلامی تمہاری دل آزاری کے علاوہ یہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے، ان پر ذلت و رسوائی کی چھاپ لگائی جاچکی ہے۔ اللہ کا ان پر غضب نازل ہوا ہے کیونکہ یہ لوگ انبیاء علیہم السلام کے ناجائز قتل کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔ یہ لوگ گناہوں کے عادی اور انتہا پسند ہیں۔ تمام اہل کتاب ایک جیسے نہیں ہیں بعض ان میں معتدل مزاج بھی ہیں جو راتوں میں اللہ کے کلام کی تلاوت کرتے اور نما زپڑھتے ہیں۔ اللہ اور آخرت پر ایمان لانے کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو نظر انداز نہیں کریں گے۔ اللہ متقیوں کو خوب جانتے ہیں۔ کافروں کے مال و اولاد ان کے کسی کام نہیں آسکیں گے، وہ دائمی طور پر جہنم میں رہیں گے، یہ اگر کسی نیک راہ میں مال خرچ بھی کرتے ہیں تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی ظالم شخص کی لہلہاتی کھیتی کو سردی اور پالا لگ جائے اور سوکھ کر تباہ ہوجائے، درحقیقت ایمان سے انکار کرکے انہوں نے خود ہی اپنے اوپر ظلم کیا ہے۔ پھر مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں کی ازلی دشمنی اور بغض بیان کرکے بتایا ہے کہ تمہیں فائدہ ہو تو انہیں تکلیف پہنچتی ہے اور تمہیں نقصان ہو تو یہ خوش ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ دوستی لگانے کے قطعاً قابل نہیں ہیں، تم نے اگر صبر و تقویٰ اختیار کئے رکھا تو یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔
بدر میں قلیل تعداد ہونے کے باوجود اللہ کی مدد و نصرت سے کامیابی ملنے پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے، سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۱۲۱ سے ۱۸۰ تک ۵۹ آیتوں میں غزوہ احد کا تذکرہ نہایت شرح و بسط کے ساتھ کیا ہے۔ مدد تو اللہ ہی کرتے ہیں مگر فرشتوںکا نزول مؤمنین کی تسلی اور دل جمعی کے لئے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ ہم تین ہزار فرشتے بھیج رہے ہیں اگر کفار نے اچانک حملہ کردیا تو ہم پانچ ہزار فرشتے بھیجیں گے، جب کفار کے حملہ میں آپ کے دندان مبارک شہید ہوگئے تو آپ نے کفار قریش کے لئے بددعاء کی جس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ آپ کا اختیار نہیں بلکہ میری مرضی پر منحصر ہے میں چاہوں تو انہیں عذاب دوں اور چاہوں تو معاف کردوں! اللہ بہت غفور رحیم ہے۔ سود خوری سے بچنے کے حکم کے ساتھ ہی تقویٰ اختیار کرنے اور جہنم سے بچنے کی تلقین ہے اور اللہ کی رحمت سے محظوظ ہونے کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی تاکید ہے۔ جنت کے مستحقین متقی ہوتے ہیں جو ہر حال میں اللہ کے نام پر خرچ کرتے ہوں۔ غصہ کو پینے والے، لوگوں کو معاف کرنے والے اور اپنے گناہوں پر اصرار کی بجائے ندامت کے ساتھ توبہ کرنے والے ہوتے ہیں۔ اقوام عالم کے جرائم پر ان کی گرفت کا نظام جاری و ساری ہے دنیا میں چل پھر کر اس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ قرآن کریم انسانوں کے لئے بیان ، ہدایت اور متقین کے لئے نصیحت ہے۔ میدان جہاد میں پیش آنے والی ناپسندیدہ صورتحال پر دل گرفتہ ہوکر کمزوری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ ایمان کامل کے تقاضے پورے کرنا ہی اہل ایمان کے غلبہ کی ضمانت ہے۔ جہاد میںجانی و مالی نقصان اس عمل کا حصہ ہے اور ہر فریق کے ساتھ یہ صورتحال پیش آسکتی ہے۔ میدان احد میں مسلمانوں کو پیش آنے والے مصائب کے تین بڑے مقاصد تھے، مسلمانوں کی ایمانی قوت کا امتحان، مسلمانوں اور کافروں (منافقوں) میں امتیاز اور بعض خوش نصیبوں کو شہادت کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز کرنا۔ جہاد پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے والے جنت کے مستحق ہیں۔ غزوہ احد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی افواہ پھیلانے والوں کا مقصد اگرچہ منفی تھا اور وہ مسلمانوں میں بددلی پھیلا کر انتشار پیدا کرنا چاہتے تھے مگر قرآن کریم نے اس سے مثبت مقاصد حاصل کرتے ہوئے اسے تربیت کا حصہ قرار دے کر مستقبل میں آپ کے انتقال کی صورت میں پیدا ہونے والے ممکنہ انتشار کے سد باب کے طور پر استعمال کیا اور بتایا کہ محمد علیہ السلام اللہ کے رسول ہیں، خدا نہیں ہیں۔ان کے انتقال کی خبر سے دل برداشتہ ہوکر اسلام سے روگردانی کرنے والے اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، وہ اپنا ہی نقصان کریں گے۔ ایسے موقع پر کمزوری اور بزدلی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے بہادری اور ثابت قدمی کے ساتھ غلبۂ اسلام کی جدوجہد میں حصہ لینا چاہئے اور اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں پر مغفرت مانگتے ہوئے، اللہ سے ثابت قدمی اور کافروں کے مقابلہ میں نصرت کی دعاء مانگنی چاہئے۔ غزوہ احد میں پیش آمدہ بعض مناظر کی قلبی تصویر کشی کرتے ہوئے، کافروں پر مسلمانوں کا رعب ڈال کر اہل ایمان کو مستقبل میں کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے۔ جن اہل ایمان سے میدان احد میں کسی قسم کی کوتاہی یا کمزوری کا مظاہرہ ہوا تھا انہیں معاف کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اور جن منافقین نے جہاد پر اعتراضات کرکے مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی تھی ان کی سخت گرفت کی گئی ہے۔
منافقوں کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کی تعداد اور اسلحہ میں کمی اور کافروں کی تعداد اور اسلحہ میں برتری کے پیش نظر میدان قتال میں اترنا کوئی دانشمندی نہیں ہے بلکہ یہ جہاد ہی نہیں ہے اگر یہ لوگ ہماری طرح گھروں میں بیٹھے رہتے تو قتل ہونے اور زخمی ہونے سے بچ جاتے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ تم پر جب گھروں میں موت کا فرشتہ مسلط ہوکر تمہیں موت کے منہ میں دھکیلے گا تو اس وقت موت سے تم کیسے بچوگے؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کرام کے ساتھ نرم، برتائو جاری رکھنے اور تمام معاملات کو مشورہ سے طے کرتے رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ نصرت خداوندی کا ضابطہ کہ توکل کرنے والوں کی اللہ ضرور مدد کرتے ہیں۔ بعثت نبوی اللہ کی طرف سے مسلمانوں کے لئے عظیم احسان ہے۔ نبی کا فرض منصبی کلام اللہ کی آیات کی تلاوت، مسلمانوں کی تربیت اور انہیں قرآن و حدیث کی تعلیم ہے۔ انسان پر آنے والی مشکلات و مصائب اس کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ شہداء مردہ نہیں بلکہ اسلام کے غلبہ اور دفاع کی جنگ میں اپنی جانیں لگا کر حیات ابدی سے ہمکنار ہوکر جنت میں اللہ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ اس کے بعد غزوہ حمراء الاسد کا تذکرہ ہے جو غزوئہ احد کے فوراً بعد پیش آیا۔ کفار نے دوبارہ حملہ آور ہونے کا فیصلہ کیا تو حضور علیہ السلام تھکے ماندے اور زخموں سے چور چور مجاہدین کو لے کر ان کے تعاقب میں نکلے تو کافروں نے فرار اختیار کرنے میں ہی عافیت جانی اور مسلمانوں کو حمراء الاسد کے مقام پر لگنے والے تجارتی بازار میں خریدو فروخت سے اتنا منافع ہوا کے احد کی پریشانی اور نقصان کا تدارک ہوگیا۔ اس نازک موقع پر نبی کی دعوت پر لبیک کہنے والوں کے ایمان و ثابت قدمی کی قرآن کریم نے تعریف کی ہے اور کافروں کی طاقت اور اسلحہ سے خوفزدہ ہونے والوں کو شیطان اور اس کے حمایتی قرار دیا ہے۔ کافروں کی کامیابیوں سے متاثر ہونے والوں کو بتایا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے مہلت اور ڈھیل ہے۔ ان کے لئے ذلت آمیز عذاب تیار ہے۔
اللہ کے نام پر خرچ کرنے سے بخل کرنے والوں کو جان لینا چاہئے کہ یہ ان کے لئے خیر نہیں بلکہ شر ہے۔ اللہ کے راستہ سے جو مال بچا کر رکھیں گے اسے جہنم میں تپا کر ان کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا۔
غلبۂ اسلام کی جدو جہد اور دینی مقاصد کے لئے چندہ کرنے پر یہودیوں نے اعتراض کیا کہ مسلمانوں کا خدا (نعوذ باللہ) فقیر ہوگیا ہے اور ہم مالدار ہیں تبھی تو ہم سے چندہ مانگ رہا ہے۔ حضرت ابو بکر نے اس گستاخانہ بات کہنے والے یہودی کو زدو کوب کیا اور اسے قتل کی دھمکی دی جس پر یہودی تلملا اٹھے اور حضور علیہ السلام کے سامنے اپنی گستاخانہ گفتگو سے انکار کرکے حضرت ابو بکر کو سزا دینے کا مطالبہ کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق کی تائید اور یہودیوں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ نے ان کی گستاخانہ گفتگو سن لی ہے اور یہ عادی مجرم ہیں پہلے بھی اس قسم کی نازیبا حرکتیں کرتے رہے ہیں۔ یہ لوگ انبیاء علیہم السلام کے قتل جیسے بدترین جرائم کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں اور ہم انہیں قیامت کے دن آگ میں جلانے کا عذاب دیں گے۔ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت ابوبکر نے ایمانی غیرت و حمیت کے پیش نظر جو قدم اٹھایا تھا وہ بالکل جائز اور مبنی برانصاف تھا۔
حضور علیہ السلام کی نبوت کو تسلیم نہ کرنے پر یہودی یہ جواز پیش کرتے تھے کہ ہمیں اللہ نے حکم دیا ہے کہ کسی بھی نبی پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک وہ اپنی نبوت کے ثبوت کے طور پر خاص نشانی نہ دکھادے اور وہ نشانی یہ ہے کہ قربانی کرکے کسی پہاڑ پر رکھے اور آسمانی آگ اسے جلادے تو ہم اس کی صداقت کو تسلیم کریں گے ورنہ نہیں۔ درحقیقت یہ ان کی بہانہ بازی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پہلے انبیاء علیہم السلام کا بھی تم انکار کرتے رہے ہو لہٰذا تمہاری بات قابل اعتماد نہیں ہے۔ ہر انسان پر موت کا آنا برحق ہے۔ روز قیامت تمہارے اعمال کا محاسبہ ہوگا اور جہنم سے بچ کر جنت میں جانے والے ہی کامیاب قرار پائیں گے! اہل کتاب سے عہد لیا گیا تھا کہ وہ آسمانی کتاب کے مضامین کو وضاحت کے ساتھ لوگوں کے سامنے بیان کریں گے۔ کسی بات کو نہیں چھپائیں گے، مگر انہوں نے اس عہد کی پاسداری نہیں کی اور اپنے مفادات کی خاطر اللہ کی آیات میں رد و بدل کرنے کی بدترین حرکت میں مبتلا ہوگئے۔ یہ لوگ اپنے کرتوتوں پر خوش ہورہے ہیں اور ناکردہ اعمال کو اپنے کھاتے میں ڈال کر اپنی تعریف کرانا چاہتے ہیں۔ یہ اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے۔ ان کے لئے دردناک عذاب تیار کرلیا گیا ہے۔ آسمان و زمین پر اللہ کی حکمرانی اور کوئی چیز اللہ کی قدرت سے باہر نہیں ہے۔
اہل دانش و بینش کو اللہ تعالیٰ کی مخلوقات آسمان و زمین اور دن رات میں غور و خوض کی دعوت دی گئی ہے اور اللہ کے برگزیدہ بندوں کی پانچ دعائوں کا تذکرہ ہے، جنہیں شرف قبولیت حاصل ہے۔ مرد و عورت کی تخلیق اور ان کی ذمہ داریوں میں اختلاف کے باوجود انہیں اجر و ثواب میں برابری اور مساوات کی خوشخبری سنائی گئی ہے اور بتایا ہے کہ ہجرت اور جہاد جیسے عظیم الشان اعمال جو بھی کرے گا اس کے لئے گناہوں کی معافی، اللہ کے ہاں بہترین اجر و ثواب اور جنت کا وعدہ ہے۔ کافروں کے پاس مالی وسائل کی فراوانی اور عیش و عشرت کو دیکھ کر دھوکہ میں نہیں پڑنا چاہئے۔ یہ عارضی اور معمولی فوائد ہیں۔ آخرت میں ان کا بدترین ٹھکانہ جہنم ہے۔ متقین کے لئے نہریں اور باغات اور اللہ کے ہاں بہترین مہمانی ہے۔ اہل کتاب میں بعض انصاف پسند بھی ہیں، جو قرآن اور نبی اسلام پر ایمان لانے کی نعمت سے سرفراز ہیں۔
سورہ کی آخری آیت میں دین پر ثابت قدمی اور میدان جہاد میں مورچوں میں کفر کے مقابلہ میں ڈٹ جانے والوں کو دائمی فلاح و کامرانی کی نوید سنائی گئی ہے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور علیہ السلام تہجد کے وقت جب بیدار ہوتے تو سورہ آل عمران کی آخری گیارہ آیتیں آسمان کی طرف رخ کرکے تلاوت فرمایا کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جو ان آیتوں کی تلاوت کے باوجود کائنات کے اندر اللہ کی نشانیوں میں غور و خوض نہ کرے!

سورہ النساء
یہ مدنی سورہ ہے۔ ایک سو چھہتر آیتوں اور چوبیس رکوع پر مشتمل ہے۔ امرأۃ عورت کو کہتے ہیں۔ اس کی جمع نساء ہے، جس کے معنی ’’عورتیں‘‘ یا ’’خواتین‘‘ ہے۔ اس سورہ میں منجملہ دوسرے مسائل کے عورتوں کے انتہائی اہم اور حساس مسائل زیر بحث آئے ہیں، اس لئے اس کا نام سورہ النساء رکھا گیا ہے۔ سورہ بقرہ کے بعد متنوع اور بھرپور طریقہ پر مسائل کا بیان اس سورہ کے اندر ہے۔ معاشرتی اور قومی مسائل کے ساتھ تشریعی مسائل اور ہجرت اور جہاد پر سیر حاصل گفتگو، غیر مسلم اقوام کے ساتھ تعلقات کی نوعیت، میراث کے احکام، کلالہ کا مسئلہ، عقائد پر بحث، منافقین کا تذکرہ اور یہود و نصاریٰ کے مکروہ چہرہ کی نقاب کشائی جیسے اہم موضوعات پر مفصل بات کی گئی ہے۔
تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کے ساتھ سورہ کی ابتداء کی گئی ہے اور اللہ کی قدرت کا بیان ہے کہ آدم و حواء علیہما السلام کی معجزانہ تخلیق کے بعد بے شمار انسانوں کو اس جوڑے کی صلب سے پیدا کرکے اس سرزمین پر پھیلادیا۔ اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ ایک ماں باپ کی اولاد ہونے کے ناطے تمام انسانوں کو ایک گھرانے کے افراد کی طرح باہمی اتفاق و اتحاد سے زندگی بسر کرنی چاہئے۔
پھر یتیموں کی کفالت اور ان کے اموال کی دیانتداری کے ساتھ حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔ چار تک بیویاں رکھنے کی اجازت اور ان میں عدل و انصاف قائم رکھنے کا بیان ہے۔ مہر کی ادائیگی بطیبِ خاطر کی جائے اور خواتین چاہیں تو اپنا مہر معاف بھی کرسکتی ہیں۔ معاشرہ میں ناسمجھ افراد کی نگہداشت اور ان کی مالی سرپرستی کا حکم دیا گیا ہے، پھر وراثت کے موضوع پر تفصیلی گفتگو اور تمام وارثوں کے حصے متعین کرکے بتایا گیا ہے کہ وارثوں کے استحقاق کو اللہ تم سے بہتر جانتے ہیں۔ وراثت کی تقسیم سے پہلے میت کے قرض کی ادائیگی اور وصیت پر عملدرآمد کی تلقین ہے۔ زنا اور لواطت کے لئے ابتدائی قانون سازی کی گئی ہے۔ عورتوں کو ان کی مرضی کے خلاف زبردستی کسی کے نکاح میں دینے اور ان کے مہر میں خوردبرد کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ والد کے انتقال کے بعد اس کی منکوحہ سے نکاح پر پابندی لگائی گئی ہے اور محرمات کی فہرست ذکر کرکے بتایا گیا ہے کہ ان خواتین سے نکاح حرام ہے۔ ماں، بیٹی، بہن، پھوپھی، خالہ، بھتیجی، بھانجی، رضاعی ماں، رضاعی بہن، ساس، بہو، جس منکوحہ کا شوہر موجود ہے۔ ان خواتین سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔

اہم نکات اور عمل کی باتیں۔
اللہ سے محبت کے دعوے کوسچ کرنے لے لئے اپنی محبوب ترین چیز اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ۔

ابراھیم ؑ کا اللہ کے گھر کی تعمیر کرنا اور اتنا بڑاکام کر کے بھی اللہ کے سامنے عاجزی کا اظہار کرنا ۔

استطاعت ھو تو زندگی میں ایک دفعہ لازمی حج کرنا ۔

اللہ کی رسی یعنی قرآن مجید پر جمع ھونا اور تفرقہ بازی واختلاف سے بچنا ۔

کل انسانیت کی فکر کرنا ۔انہیں نیکی کی طرف دعوت دینا اور برائی سے روکنا ۔

وقتی آزمائشوں سے نمٹنے کے لئے صبر اور تقویٰ اختیار کرنا ۔

مال کی محبت کی وجہ سے ناکامی کا ھونا ۔کامیابی کے لئے کام کو خالصتا اللہ کے لئے کرنا ۔

تنگی اور خوشحالی میں خرچ کرنا ۔غصے کو پی جانا اور دوسروں کو معاف کر دینا محسن ھونے کی علامت ھے ۔

بڑے سے بڑے دکھ کو اللہ کی خاطر سہہ جانا ،سب محبتیں قربان کرکے اللہ کے دین کا کام کرنا ۔

مضوط بنانے اور برداشت پیدا کرنے کے لئے ایک کے بعد ایک امتحان سے گزرنا ۔

اللہ کے پاس خاص زندگی اور رزق پانے والے مقام شہادت کی دل سے تمنا اور دعا کرنا ۔

دشمن سے بے خوف ھونے کے لئے حسبنا اللہ ونعم الوکیل کہنا اور دل سے اس پر یقین رکھنا ۔

اللہ کی خاطر رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے رھنا اور قطع رحمی سے بچنا ۔

گھروں میں خواتین کے ساتھ زندگی گزارتے ھوئے اچھا سلوک کرنا اور بلا وجہ دست اندازی سے بچنا ۔علیحدگی کی صورت میں دیا ھوا مال واپس نہ لینا ۔

رشتوں کے تقد س کا پاس رکھنا اور ان کی حرمت کا خیال رکھنا اور ماضی میں جو ھو چکا اس کا اعادہ نہ کرنا

♦آئیے نیکی کے اعلیٰ معیار کو پانے کے لئے اپنی محبوب چیز اللہ کی راہ میں قربان کریں ♦
 

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,280
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
خلاصہ قرآن

پارہ نمر05 (وَالْمُحْصَنَاتُ)
عفت و عصمت اور نسل انسانی کے تحفظ اور شہوت کی تسکین کے لئے زنا کی بجائے نکاح کا راستہ اختیار کیا جائے، اگر غیرمنکوحہ آزاد عورت میسر نہ آئے تو مالکان کی اجازت سے باندیوں کے ساتھ بھی نکاح کیا جاسکتا ہے۔ زنا میں مبتلا ہونے کی صورت میں باندی کی سزا آزاد عورت سے نصف ہوگی۔ کسی کا مال ناجائز طریقہ سے کھانا حرام ہے البتہ باہمی رضامندی کے ساتھ تجارتی بنیادوں پر قیمت ادا کرکے استعمال کرسکتے ہیں، خودکشی حرام ہے۔ کبیرہ گناہوں سے بچنے والوں کے صغیرہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ مردوں اور عورتوں کی جسمانی صلاحیتوں میں جو فرق رکھا ہے اس کے پیش نظر ایک دوسرے سے برابری کی تمنا نہ کریں۔ ہر ایک کے عمل کے مطابق اجر و ثواب میں سے حصہ ملے گا۔ اللہ سے اس کا فضل مانگنا چاہئے۔ مردوں کو عورتوں پر دو وجوہ سے برتری عطا کی گئی ہے۔ (۱)انہیں خِلقی طور پر جسمانی فضیلت حاصل ہے۔ (۲)گھریلو معاملات میں مالی اخراجات کی ذمہ داری ان پر عائد ہے۔ پاکیزہ خواتین وہ ہیں، جو اطاعت شعار اور اپنی عفت وپاکدامنی کی محافظ ہوں۔ نافرمانی کرنے والی عورتوں کو وعظ و نصیحت کریں، زن وشوئی کے تعلقات منقطع کریں اور مناسب سزا دے کر انہیں راہِ راست پر لانے کی کوشش کریں۔ اگر وہ فرماں برداری اختیار کرلیں تو انہیں ستایا نہ جائے۔ اگر میاں بیوی کے اختلافات حد سے تجاوز کرجائیں تو جانبین کی طرف سے ایک ایک نمائندہ کو باہمی مذاکرات سے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے مقرر کردیا جائے۔ اگر دونوں مخلص ہوں گے تو اختلافات کو ختم کرنے کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکل آئے گا۔ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کا بھی اہتمام کرو۔ اللہ کی عبادت کرو۔ شرک سے گریز کرو۔ والدین، رشتہ دار، یتیم، مسکین، پڑوسی، مسافر وغیرہ کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ اللہ تعالیٰ ایک ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتے اگر کوئی شخص نیکی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بڑھا چڑھاکر اسے اجر عطا فرماتے ہیں۔ ہر امت میں سے گواہ لائے جائیں گے اور ان سب پر محمد علیہ السلام کو بطور گواہ پیش کیا جائے گا۔ شراب کی حرمت کے حوالہ سے ذہن سازی کرتے ہوئے فرمایا کہ نشہ کی حالت میں نماز کے قریب نہ جائو تاکہ مدہوشی کے عالم میں کوئی غلط اور نازیبا بات منہ سے نہ نکل جائے۔
اس کے بعد جنابت اور تیمم کے بعض مسائل ذکر کئے اور پھر یہودیت کی مکروہ ذہنیت کا پردہ چاک کرتے ہوئے ان کی بعض سازشوں اور خرابیوں کو بیان کیا۔ امانت کو اس کے مستحقین تک پہنچانے کا حکم دیا۔ اللہ اور اس کے رسول اور اولو الامر کی اطاعت کی تلقین فرمائی۔ بعض لوگ ایمان کے دعوے کے باوجود طاغوت (اللہ کے باغی رہنمائوں) سے اپنے فیصلے کراتے ہیں جبکہ انہیں طواغیت سے براء ت کا حکم دیا گیا ہے۔ شیطان انہیں بہت دور کی گمراہی میں ڈالنا چاہتا ہے۔ جب انہیں اللہ کے کلام کے مطابق فیصلہ کرانے کی دعوت دی جاتی ہے تو یہ لوگ اس راستہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے لگتے ہیں۔ پھر ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ ایک منافق اور ایک یہودی میں اختلاف ہوا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دلائل کی روشنی میں فیصلہ یہودی کے حق میں دیدیا۔ منافق نے حضرت عمر سے انصاف مانگا۔ انہوں نے اسے قتل کردیا کہ جو شخص رسول خدا کے فیصلہ کو انصاف کے منافی خیال کرے انصاف کا تقاضا ہے کہ اسے زندگی کی قید سے آزاد کرادیا جائے۔ اس پر قرآن کریم نازل ہوا کہ تمہارے رب کی قسم ہے کہ وہ شخص ایمان سے خالی ہے جو اپنے اختلافات میں آپ کے فیصلہ کو بلاچوں و چرا تسلیم نہ کرے۔ اس کے بعد فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے، اللہ کے انعام یافتہ بندوں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ جنت میں ہوں گے۔ ایسے پاکیزہ لوگوں کا ساتھ میسر آجانا اللہ کے فضل کا آئینہ دار ہے۔ اللہ تعالیٰ خوب علم رکھنے والے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرماں برداری کی فضیلت بیان کرکے سب سے بڑی اطاعت اور نیکی کا حکم دیا اور وہ غلبۂ اسلام کے لئے اپنی جان و مال لگاکر جہاد میں حصہ لینا ہے۔ فرمایا: اے ایمان والو! جہاد کے لئے میدانی جنگ یا چھاپہ مار جنگ جو بھی وقت کا تقاضا ہو اسے اختیار کرو۔ تمہاری صفوں میں ایسے منافقین بھی موجود ہیں جو جہاد کے مخالف اور محاذ جنگ سے پیچھے رہنے والے ہیں۔ ان کی صورتحال یہ ہے کہ اگر تمہیں محاذ پر کوئی ناگواری پیش آئے تو خوشیاں مناتے ہیں کہ اچھا ہی ہوا کہ ہم ان کے ساتھ نہیں تھے اور اگر تمہیں کوئی کامیابی حاصل ہو تو انہیں افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ کاش مال غنیمت کے حصول میں ہم بھی شریک ہوتے۔ دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے والوں کو قتال فی سبیل اللہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے کیونکہ اللہ کے راستہ میں قتال کے دوران اگر کوئی شخص شہید ہوجاتا ہے یا کافروں پر غلبہ حاصل کرلیتا ہے تو دونوں صورتوں میں اجر عظیم کا مستحق قرار پاتا ہے۔ پھر قتال فی سبیل اللہ کے لئے جواز کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ تم آخر جہاد کے لئے کیوں نہیں نکلتے جبکہ صورتحال یہ ہے کہ ضعیف اور مظلوم بچے، بوڑھے اور عورتیں کفار کے ظلم سے تنگ آکر تمہاری راہ دیکھ رہے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں کہ ہمارے لئے ظلم و ستم سے نجات دہندہ اور کوئی مددگار پیدا کردیجئے۔ ان حالات میں بھی اگر جہاد نہیں کروگے تو پھر کب کروگے؟ جب کافر طاغوت کی حمایت میں لڑتے ہیں تو ایمان والوں کو اللہ کے دین کی حمایت میں لڑنا چاہئے۔ شیطان کے حمایتیوں سے تمہیں جنگ کرنی چاہئے۔ شیطانی سازشیں انتہائی کمزور ہوا کرتی ہیں، بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب نماز روزہ کی بات ہو تو جہاد شروع کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور جب جہاد کا وقت آتا ہے تو موت کے ڈر سے راہِ فرار اختیار کرجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ موت تو ہر جگہ آکر رہے گی۔ مضبوط قلعوں کے اندر بند ہوکر بھی موت سے بچنا ممکن نہیں ہے۔ اگر انہیں کوئی فائدہ حاصل ہوتا ہے تو اسے اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں، لیکن اگر کوئی نقصان ہوجائے تو نبی کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں، جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ فائدہ کو اللہ کی طرف منسوب کریں اور نقصان کو اپنی کوتاہی اور کج تدبیری کا نتیجہ قرار دیں۔ ہم نے رسول کو اسی لئے بھیجا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے کیونکہ اطاعتِ خداوندی اطاعتِ رسول میں مضمر ہے۔ منافقین آپ کے سامنے اطاعت کی باتیں کرتے ہیں اور آپ کی مجلس سے اٹھ کر آپ کی مخالفت شروع کردیتے ہیں۔ آپ اللہ پر توکل کرتے ہوئے ان سے صرفِ نظر کرتے رہیں اللہ بہترین کارساز ہیں۔ اس کے بعد قرآن کریم میں غور و خوض کی دعوت دیتے ہوئے اس کے حق و صداقت پر مبنی ہونے کے لئے دلیل یہ دی ہے کہ اس میں کوئی تضاد اور اختلاف نہیں پایا جاتا۔ پھر معاشرہ کا امن و سکون تباہ کردینے والی بدترین عامل ’’افواہ سازی‘‘ کی مذمت کرتے ہوئے اس کے سدباب کا طریقہ بیان کیا ہے کہ متعلقہ شخص سے رابطہ کرکے تحقیق کرلی جائے تو ’’افواہیں‘‘ اپنی موت آپ مرجاتی ہیں اور اگر دین کی کوئی بات سامنے آئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے لائے ہوئے دین کے ماہرین سے رجوع اور تحقیق کے بغیر اس پر عمل نہ کیا جائے۔ جہاد کے لئے ہر شخص کو چاہئے کہ وہ دوسروں کو ہدفِ تنقید بنانے کی بجائے اپنے آپ کو پیش کردے اور دوسرے مسلمانوں کو جہاد میں شریک کرنے کے لئے ترغیب دیتا رہے۔ یہی وہ راستہ ہے، جس سے کافروں کا زور توڑا جاسکتا ہے۔ اللہ بڑی طاقت کے مالک ہیں اور وہ دشمنان اسلام کو عبرت کا نشان بناسکتے ہیں۔
جائز اور ناجائز سفارش کا ضابطہ بیان کیا اور سلام کرنے کے آداب سکھائے کہ سلام کا جواب بہتر سے بہتر انداز میں دیا جائے۔ پھر قیامت کے محاسبہ کی یاددہانی کے لئے فرمایا اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تمہیں ایسے دن میں جمع کرے گا، جس کے آنے میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اللہ سے زیادہ سچی بات اور کس کی ہوسکتی ہے۔ پھر منافقین کے بارے میں دوٹوک پالیسی اختیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگ منافقین کے بارے میں دہری ذہنیت کا کیوں شکار ہو؟ اللہ نے انہیں مستردکردیا ہے، جسے اللہ گمراہ قرار دے دیں، اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا! تم ان کے بارے میں متردد ہو جبکہ وہ تمہیں کافر بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں تاکہ تم اور وہ ایک جیسے ہوجائو۔ یہ لوگ تو اس قابل ہیں کہ ان سے کسی قسم کی دوستی نہ رکھی جائے بلکہ یہ جہاں بھی ملیں انہیں قتل کرکے جہنم رسید کردیا جائے، البتہ ان میں سے اگر کسی نے تمہارے ساتھ معاہدہ کر رکھا ہو یا وہ قتل و غارت گری سے باز آنے کی ضمانت دینے کے لئے تیار ہوتو اس سے چشم پوشی کی جاسکتی ہے، پھر اس کے بعد کسی بے گناہ کے قتل کی صورت میں دیت کی ادائیگی کا ضابطہ بیان کیا اور کسی مؤمن کے ناجائز قتل کی صورت میں دائمی جہنمی ہونے کی وعید بیان فرمائی، پھر بلا تحقیق کسی کے خلاف انتقامی کارروائی کرنے سے منع کرتے ہوئے بتایا کہ اگر کوئی اجنبی شخص تمہیں سلام کرتا ہے تو یہ اس کے ایمان کی علامت ہے محض شک و شبہ کی بنیاد پر اس کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہئے۔ پھر محاذ جنگ پر مصروفِ عمل مجاہد کی فضیلت بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ’’مجاہدین‘‘ اور ’’قاعدین‘‘ ہمسر نہیں ہیں یعنی جہاد سے پیچھے رہنے والے، جہاد کرنے والوں کے برابر کبھی نہیں ہوسکتے، ہر مسلمان سے اللہ نے اجر و ثواب کا وعدہ کررکھا ہے مگر مجاہدین کا مرتبہ اور مقام بہت بڑا ہے، پھر ہجرت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اگر کوئی شخص مسلمان ہونے کا دعویدار ہوکر بھی ایسی جگہ سے ہجرت نہ کرے جہاں اسے دین پر عمل کرنے کی اجازت نہ ہوتو اس کے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ اللہ کے نام پر ہجرت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بڑی وسعت اور فارغ البالی نصیب فرماتے ہیں۔ پھر جہاد اور نماز کی اہمیت کے ایک قرآنی حکم کا تذکرہ ہے۔ مسلمان غزوہ بنی المصطلق کے موقع پر جب ظہر کی نماز پڑھنے لگے تو کافروں نے کہا کہ ہمیں اگر پہلے سے معلوم ہوتا تو اس حالت میں ایک دم حملہ آور ہوکر مسلمانوں کو نیست و نابود کرنا بہت آسان تھا۔ انہوں نے عصر کی نماز میں حملہ کرنے کی پلاننگ کرلی، جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو کافروں کی اس خفیہ تدبیر کی اطلاع بھی دی اور اس کے سدباب کے لئے ’’صلوٰۃ الخوف‘‘ کا طریقہ بھی بیان کردیا کہ اگر دشمن سے جان کا خطرہ ہوتو نماز کے لئے اس طرح صف بندی کریں کہ ایک صف امام کے ساتھ نماز کی ایک رکعت مکمل کرلے۔ دوسری صف نیت باندھ کر کھڑی رہے اور دشمن کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھے پھر دوسری صف ایک رکعت امام کے ساتھ مکمل کرلے اور پہلی صف پیچھے ہٹ کر دشمن کے اچانک حملہ کی صورت میں جوابی کارروائی کے لئے تیار رہے پھر امام اپنی نماز مکمل ہونے پر سلام پھیردے اور دونوں صفیں باری باری اپنی باقی ماندہ نماز پوری کرلیں۔ اس طرح نماز کے فریضہ کی بروقت اور باجماعت ادائیگی بھی ہوجائے گی اور جہاد کے فریضہ کی ادائیگی میں بھی کوتاہی اور غفلت نہیں ہوگی۔ اسی ضمن میں حالت سفر میں ’’قصر نماز‘‘ کا حکم بھی عنایت کیا گیا۔ چنانچہ دشمنوں کی تدبیر دھری کی دھری رہ گئی اور نماز اور جہاد کی مشترکہ اہمیت بھی واضح ہوگئی کہ نماز جیسے عظیم الشان عمل کی وجہ سے جہاد کو مؤخر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور جہاد جیسے اہم عمل کی بناء پر نماز میں غفلت اور کوتاہی کی اجازت نہیں دی گئی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد بھی دوران جہاد ذکر میں مشغولیت رہے۔ نماز کو وقت مقرر پر ادا کرنا فرض ہے۔ پہاڑی علاقہ میں ننگے پائوں کافروں کا پیچھا کرنے سے مجاہدین کے پائوں زخمی ہوکر خون رِسنے لگا تھا، جس پر حکم ہوا کہ کافروں کے تعاقب میں کسی قسم کی سستی کا مظاہرہ نہ کرو۔ اگر تمہیں تکلیف پہنچی ہے تو کافر بھی آرام سے نہیں بیٹھے ہوئے انہیں بھی اپنا بچائو کرتے ہوئے زخم سہنے پڑ رہے ہیں، مگر مسلمان اور کافر کی تکلیف میں بنیادی فرق ہے کہ تمہیں ہر تکلیف اور زخم پر اللہ کے ہاں سے اجر و ثواب ملے گا، جبکہ ان کی تکلیف اور دکھ انہیں مزید جہنم کے قریب کردے گا۔ اس کے بعد ہر حال میں عدل و انصاف کا مظاہرہ کرنے کی تلقین ہے واقعہ یہ ہوا تھا کہ کسی گھر میں چوری ہوگئی تھی چور انتہائی چالاک اور چرب لسان تھے۔ انہوں نے کسی بے گناہ کو پھنساکر اپنا دامن بچانے کی کوشش کی۔ بعض لوگ ان کی چرب لسانی سے متاثر ہوکر انہیں بری کرانا چاہتے تھے۔ قرآن کریم نے ان کے جرم کو طشت ازبام کرتے ہوئے تاکید فرمائی کہ بلاتحقیق کسی خائن مجرم کی حمایت کرنے کی بجائے عدل و انصاف کے قانون کے مطابق فیصلہ کرکے مجرمین کو سزا دینی چاہئے۔ دنیا میں اگر تم نے کسی مجرم کو بچا بھی لیا تو کل قیامت میں اللہ کی گرفت سے اسے کون بچائے گا۔ جس نے جرم کیا سزا بھی اسی کو ملنی چاہئے۔ اپنے گناہ کا الزام دوسرے پر تھوپنا بہت بڑا جرم ہے اور بہتان تراشی کے زمرہ میں آتا ہے۔ کسی کو نقصان پہنچانے کے لئے خفیہ تدبیروں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر کوئی خفیہ تدبیر کرنی ہی ہے تو کسی نیک کام، صدقہ و خیرات یا مفادعامہ کے لئے کرنی چاہئے۔ اس پر اجر عظیم نصیب ہوگا۔
نبی کی مخالفت کرتے ہوئے جمہور مسلمانوں سے ہٹ کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد علیحدہ بنانے والوں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص اجماع کے خلاف کرے گا، اسے اللہ تعالیٰ دنیا میں تو ڈھیل دے دیں گے، مگر کل قیامت میں اسے جہنم کے بدترین ٹھکانہ سے سابقہ پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ ہر گناہ معاف کرسکتے ہیں، مگر شرک کے گناہ کو کبھی معاف نہیں فرمائیں گے۔ اس کے بعد شیطانی چالوں کا کچھ تذکرہ پھر جنت و جہنم کی باتیں اور ہر شخص کو اپنے عمل کا بدلہ بھگتنے کے لئے تیار رہنے کی تلقین اور مساوات مرد و زن کا قرآنی ضابطہ اور پھر ابراہیم علیہ السلام کے طرز زندگی کو اختیار کرنے کا حکم اور کائنات پر اکیلے اللہ کی بلا شرکتِ غیرے حکمرانی کا بیان ہے۔ پھر خواتین کے مسائل کی طرف رجوع کرتے ہوئے ان کے ضعف و کمزوری کی بناء پر ان کے ساتھ ظلم و ناانصافی سے منع کیا گیا ہے۔ میاں بیوی کے اختلاف کی صورت میں خلع کا ضابطہ بیان کیا گیا ہے، پھر اللہ کی قدرت و حکمرانی کو بیان کرنے کے بعد عدل و انصاف کا دامن تھامنے اور سچی گواہی دینے کی تلقین ہے۔ اگرچہ اپنی ذات یا قریبی رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ پھر منافقین کے لئے دردناک عذاب کی دھمکی کے ساتھ ہی ایسے لوگوں کی مجلسوں سے بچنے کی تلقین ہے، جو احکام قرآنی میں ترمیم و تنسیخ کرنا چاہتے ہوں۔ منافقین اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش میں اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں۔ یہ لوگ نماز میں سستی اور اللہ کے ذکر سے پہلوتہی کرتے ہیں۔ تذبذب کا شکار رہتے ہیں نہ ادھر کے نہ ادھر۔ ایسے گمراہوں کو ہدایت بھی نہیں ملاکرتی۔ یہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ڈالے جائیں گے، مسلمانوں کے مقابلہ میں کافروں سے دوستی اور گٹھ جوڑ کی اجازت نہیں ہے۔ کافروں کو مسلمانوں پر کسی طرح بھی فوقیت نہیں دی جاسکتی، یہ لوگ اگر تائب ہوکر اپنا طرز عمل درست کرلیں تو ان کا شمار بھی مؤمنین کے ساتھ ہوسکتا ہے۔ اگر تم ایمان کے تقاضے پورے کرتے رہو اور اللہ کا شکر ادا کرتے رہو تو اللہ تمہیں عذاب دیکر کیا کریں گے؟ اللہ تو دلوں کا بھید جاننے والے بڑے ہی قدر دان ہیں۔

اہم نکات ۔۔

اللہ کے مقرر کردہ ضابطہ کے تحت شادی شدہ عورتیں دیگر مردوں کے لئے حرام ہیں ۔

نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے جائز طریقہ صرف نکاح ھے ۔جو ایک سنجیدہ معاشرتی معاہدہ ھے ۔

نکاح کے بغیر مردوعورت کا تنہائی میں ملنا ،ایک دوسرے کو چھونا یا دوستی رکھنا منع ھے ۔

رشوت ،غضب ،دھوکے ،چوری ،ڈاکے ،ذخیرہ اندوزی کے ذریعے ناجائز منافع کھانا حرام ھے ۔

مشکلات کا علاج خودکشی کرنا نہیں ھے ۔خودکشی کرنے والاجھنم میں اپنی جان کو مارنے کا اعادہ کرتا رھتا ھے ۔

والدین کی نافرمانی اور دیگر کبیرہ گناھوں سے بچیں تو چھوٹی لغز شیں معاف ھیں ۔

مرد قوام ھیں یعنی منتظم ھیں ۔جسمانی قوت اور مال خرچ کرنے کی وجہ سے انہیں یہ فضیلت حاصل ھے ۔

مرد اور عورت کے درمیان جسمانی بناوٹ ،استعداد اور صلاحیت کا فرق رکھا گیا ھے ۔اس لئے سوائے نیکیوں مین آگے بڑھنے کے دونوں کے درمیان کوئی مقابلہ نہیں ھے ۔قرآن میں حضرت آسیہ اور فرعون میں فرق صرف اسی بنیاد پر کیا ھے ۔

نیک خواتین شوہر کی فرمانبردار اور اسکی غیر موجودگی میں مال وعصمت کی حفاظت کرتی ھیں ۔

اللہ کی عبادت کے بعد بندوں کے ساتھ اچھا برتاو کرنا ضروری ھے ۔

اللہ کے مقابلے میں جبت اور طاغوت کو ماننا شرک ھے ۔جس کی کوئی معافی نہیں ھے ۔

معروف میں امیر کی بات ماننا اخلاقی اور شرعی ذمہ داری ھے ۔

اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرنے والے ھی انبیاء ،صدیقین ،شہدا اور صالحین کی رفاقت پا سکتے ھیں ۔

کوئی برائی اور مصیبت پہنچنے پر اپنی غلطی کے بارے میں سوچنا اہم ھے ۔

قتل مومن اللہ کے نزدیک دنیا تباہ کرنے سے زیادہ بڑا ھے اور اسکی سزا جھنم ھے ۔

اللہ کی اطاعت کے لئے ہجرت کرنے والوں کے لئے بہت فراخی ھے ۔اپنے گناھوں کو چھوڑنا بھی ہجرت ھے ،

نماز کو وقت کی پابندی کے ساتھ ادا کرنا ضروری ھے ۔البتہ حالت سفر میں نماز قصراور حالت جنگ میں نماز خوف ادا کرنی ھے ۔

نماز کے بعد کھڑے ،بیٹھے اور لیٹے یعنی کثرت سے اللہ کا ذکر کرنا ھے ۔

صدقہ ۔نیکی یا اصلاح کی بات کے لئے سرگوشی کی جا سکتی ھے ،غیبت ،چغلی یا حسد کے لئے اجازت نہیں ھے ۔

شوہر وبیوی میں رنجش ھو جائے تو حقوق کی کمی بیشی پر صلح کر لینا بہتر ھے ۔

جلد باز طبیعت کی وجہ سے صرف دنیا میں بدلہ چاہنا کوئی عقلمندی نہیں ۔بلکہ آخرت پر نگاہ رکھتے ھوئے کام جاری رکھنا ھے ۔

دنیا میں عزت چاہنے کے لئے دین کو قربان نہ کریں ،اصل عزت تو اللہ کے پاس ھے ۔

جن مجالس میں دین کا مذاق اڑایا جا رھا ھو وھاں بیٹھنا جائز نہیں ھے

اللہ کو دھوکہ دینا ،نماز میں سستی کرنا ،دکھاوے کی نماز اللہ کا ذکر کم کرنا ،شک میں پڑنا منافقت ھے ۔

نفاق کا علاج توبہ ۔اصلاح عمل ،اللہ سے مضبوط تعلق اللہ کے دین کے لئے خالص ھونا ھے

آئیے اللہ کے مقرر کردہ شرعی ضابطوں کی پابندی کریں ۔۔
 

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,280
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
خلاصہ قرآن

پارہ نمر06 ( لاَ يُحِبُّ اللّهُ)
مظلوم کو ظالم سے بدلہ لینے کی اجازت ہے لیکن در گزر کرنے والے سے اللہ بھی درگزر کر دیتے ہیں۔ جو لوگ اللہ کو مانیں اور رسولوں کا انکار کریں یا کچھ رسولوں کو مانیں کچھ کا انکار کریں وہ پکے کافر اور ذلت آمیز عذاب کے مستحق ہیں اور جو لوگ اللہ اور اس کے تمام رسولوں کو تسلیم کریں وہ کامل ایمان والے ہیں اور قیامت میں اجرو ثواب کے مستحق ہیں۔ اس کے بعد یہود اور ان کی فطری خباثتوں کا تذکرہ آیت نمبر ۱۵۳ سے آیت نمبر۱۶۱ تک آٹھ آیتوں میںکیا گیا ہے۔ یہودِ مدینہ نے حضور علیہ السلام سے کہا تھا کہ ہم آپ پر اس وقت ایمان لائیں گے جب آپ ہمارے نام پر اللہ تعالیٰ سے ایک خط لے کر آئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ آپ اس قسم کے بیجا مطالبات سے دل برداشتہ نہ ہوں، ان کے آباء و اجداد نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اس سے بھی بڑا مطالبہ کیا تھا کہ ہم سے اللہ کی بالمشافہہ ملاقات کرائو! ان پر ایک کڑک مسلط کی گئی۔ موسیٰ علیہ السلام کو ہم نے واضح دلائل اور معجزات عطاء کئے تھے۔ مگر اس کے باوجود یہ بچھڑے کی پرستش میں مبتلاء ہوگئے۔ ان کے سروں پر کوہ طور معلق کرکے ان سے عہدو پیمان لیا گیا۔ انہیں بیت المقدس میں عجزو انکساری کے ساتھ داخلہ کا حکم دیا، سنیچر کا دن ان کی عبادت کے لئے مقرر کیا مگر یہ کسی بات پر بھی پورے نہیں اترے۔ ان کے جرائم کی فہرست بڑی طویل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ان کی نازیبا حرکات کی بناء پر اللہ نے ان کے دلوں پر ایسا ٹھپہ لگادیا ہے کہ اب یہ ایمان لاہی نہیں سکتے۔ انہوںنے عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کا دعویٰ کیا جبکہ یہ عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے یا سولی پر چڑھانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ انہوںنے شبہ کے اندر کسی دوسرے کو پھانسی پر لٹکا دیا اور عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر زندہ اٹھالیا، اللہ بڑے زبردست اور حکمت والے ہیں۔عیسیٰ علیہ السلام پر ان کی موت سے پہلے پہلے تمام اہل کتاب کو ضرور ایمان لانا پڑے گا۔ ان یہودیوں کی ظالمانہ حرکتوں کی بناء پر پاکیزہ اور حلال چیزوں کو ان پر حرام کیا گیا۔ منع کرنے کے باوجود سود کھانے، لوگوں کا مال ناجائز طریقہ پر ہڑپ کر جانے کی وجہ سے ان کے لئے دردناک عذاب تیار کیا گیا ہے۔ لیکن ان میں ایسے اعتدال پسند علم و فضل والے بھی ہیں جو علم کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اللہ پر، اس کے نازل کردہ کلام پر اور آخرت پر ایمان لاتے ہوئے اسلام کو قبول کرکے نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ہم عظیم الشان جزا دیں گے۔ پھر اختصار کے ساتھ سلسلۂ انبیاء کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے نوح، ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون، سلیمان کو نبی بنایا۔ ان سب کو بشیر و نذیر بناکر ہم نے بھیجا تھا تاکہ لوگوں کے پاس کوئی بہانہ باقی نہ رہ جائے، آپ کو بھی انہی انبیاء علیہم السلام کی طرح نبی برحق بنایا گیا ہے۔ اگر آپ کی نبوت کی گواہی یہودی دینے کے لئے تیار نہیں ہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اللہ تعالیٰ اور فرشتوںکی گواہی کافی و شافی ہے۔ اس کے بعد قرآن کریم کا روئے سخن عیسائیوں کی طرف ہوگیا۔ فرمایا دین میں مبالغہ آمیزی نہ کیا کرو۔ ادب و احترام کے جذبات کو اپنی حدود میں رکھنا چاہئے۔ عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کہنا یا اللہ کا بیٹا کہنا کوئی دین داری نہیں ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام یا اللہ کے مقرب فرشتوں نے اللہ کا بندہ کہلانے میں کبھی کسی قسم کا عار محسوس نہیں کیا۔ معبود تو ایک ہی اللہ ہے، وہ اولاد سے پاک ہے۔ اس کے ہاں قرب کا معیار اعمال ہیں۔ جو ایمان اور اعمال صالحہ کرے گا اسے پورا پورا اجرو ثواب ملے گا اور اللہ اپنی طرف سے اضافی جزا بھی دیں گے اور بندگی سے شرم محسوس کرنے والے متکبرین کو دردناک عذاب دے گا اور اللہ کی گرفت سے انہیں بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ سورہ نساء کے آخر میں کلالہ (ایسی میت جس کے والدین اور اولاد موجود نہ ہوں) کی وراثت کے باقی ماندہ مسائل ذکر کرکے فرمایا کہ تمہیں گمراہی سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے احکام کھول کھول کر بیان کرتے ہیںاور اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کے بارے میں مکمل معلومات حاصل ہیں۔

سورہ المائدہ
یہ سورہ مدنی ہے ایک سو بیس آیات اور سولہ رکوعات پر مشتمل ہے۔ اس سورہ میں تشریعی مسائل، چوری، ڈاکہ اور قتل یا زخمی کردینے کے حوالہ سے قانون سازی کی گئی ہے اور قیامت کا تذکرہ ہے اور یہود و نصاریٰ کی طرف بھی روئے سخن رکھا گیا ہے۔ سورہ کی ابتداء میں ہر قسم کے عہود و مواثیق کی پاسداری کا حکم ہے خصوصاً کلمہ شہادت پڑھنے کی وجہ سے ایمانی بنیادوں پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں انہیں نبھانے کا حکم ہے۔ ایک موقع پر کافروں نے مسلمانوں کے جانور چھین لئے اور احرام باندھ کر بیت اللہ کی طرف عمرہ کے لئے چل دیئے۔ مسلمانوںنے ان پر حملہ آور ہوکر ان سے اپنے جانور واپس لینے کا ارادہ کیا جس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا حالتِ احرام میں کسی پر حملہ درحقیقت شعائر اللہ کی توہین ہے۔ کسی کی دشمنی میں اس حد تک تجاوز درست نہیں کہ تم ظلم و زیادتی پر اتر آئو۔ تمہیں تو نیک کام میں تعاون اور برے کام میں عدم تعاون کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ حلال و حرام جانوروں کا تذکرہ اور حالت احرام میں شکار سے ممانعت کا بیان ہے۔
حجۃ الوداع کے موقع پر دین اسلام کے مکمل اور اللہ کے پسندیدہ نظام حیات ہونے کا اعلان ہے۔ پرندوں، چوپایوں اور درندوں کی مدد سے شکار کے لئے اصول و ضوابط وضع کئے گئے ہیں۔ اہل کتاب کے ذبیحہ کا حکم اور ان کی خواتین سے نکاح کے جواز کا بیان ہے۔ پھر طہارت حاصل کرنے کے لئے وضو اور تیمم کا طریقہ اور اس کے بعض مسائل کا تذکرہ ہے۔ شرعی احکام میں آسانی اور سہولت کے پہلو کو مدنظر رکھنے کی نوید سنائی گئی اور نِعَم خداوندی پر شکر ادا کرنے کی تلقین ہے۔ حدیبیہ کے موقع پر کافروں نے حملہ آور ہونے کا پروگرام بنایا اللہ تعالیٰ نے انہیں مرعوب کرکے حملہ کرنے سے باز رکھا، اس انعام خداوندی کا شکر اداکرنے اور توکل کا اہتمام کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس کے بعد اہل کتاب کا تذکرہ آیت نمبر ۱۲ سے ۸۲ تک ستر آیتوںمیں کیا گیا ہے اور اس ضمن میں فوجداری معاملات کے لئے قانون سازی بھی کی گئی ہے۔ یہودیوں کو یاد دلایا گیا ہے کہ ان کے آباء و اجداد کو عہدو میثاق کا پابند بنا کر ان کے بارہ قبیلوں پر بارہ نگران مقرر کئے گئے تھے مگر انہوں نے عہد شکنی کی جس کی وجہ سے وہ سنگدل ہوگئے اور اللہ کے کلام میں ردو بدل اور خیانت کے جرم میں مبتلاء ہوگئے۔ عیسائیوںکو بھی عہدو پیمان کا پابند بنایا گیا مگر وہ بھی عہد شکنی کے مرتکب ہوئے جس کی نحوست اور برے اثرات نے ان کے اندر بغض و عداوت کی خطرناک بیماری پیدا کردی۔ اہل کتاب سے خطاب ہے کہ تمہارے پاس ہم نے اپنا رسول بھیج دیا ہے جو تمہاری خیانتوں پر تمہیں مطلع کرتا ہے اور نور ہدایت او رکتاب مبین لے کر آیا ہے۔ اس کی اتباع سے تم سلامتی کے راستے پاسکتے ہو اور کفر کی ظلمتوں سے نکل کر ایمان کی روشنی میں صراط مستقیم پر گامزن ہوسکتے ہو۔
عیسائیوں کے ’’الوہیت مسیح‘‘ کے عقیدہ کی مدلل تردید اور یہودیوں کے من گھڑت عقیدہ پر گرفت ہے کہ اگر وہ اللہ کے بیٹے اور محبوب ہوتے تو اللہ انہیں عذاب میں کیوں مبتلاء کرتے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کو جہاد کے لئے تیار کرتے ہوئے فرمایا کہ ا للہ تعالیٰ نے تمہیں ’’مذہبی اور سیاسی قیادت‘‘ کے منصب پر فائز فرماکر تمہارے خاندان میں انبیاء و رسل اور بادشاہ وملوک پیدا کئے۔ تمہیں بیت المقدس کو عمالقہ کے قبضہ سے آزاد کرانے کے لئے پیش رفت کرنی ہوگی۔ اللہ نے تمہیں فتح و کامرانی سے ہمکنار کرنے کا وعدہ کررکھا ہے مگر وہ لوگ اپنی بزدلی اور طبعی خباثت کے پیش نظر جہاد سے پہلوتہی کرنے لگے اور عمالقہ کی طاقت و قوت سے مرعوب ہوکر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے کہ آپ اپنے رب کے ساتھ مل کر جہاد کرکے بیت المقدس کو آزاد کرالیں ہم تو اپنے گھروں میں ہی بیٹھے رہیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کے باہمی اختلاف اور ان کی قربانی کا تذکرہ کرکے بتایا ہے کہ خیر و شر کی قوتیں روز اول سے باہم دست و گریبان ہیں۔ اللہ تعالیٰ متقی کی قربانی قبول کیا کرتے ہیں۔ قابیل دنیائے انسانیت کا پہلا قاتل ہے، جس نے اپنی ضد اور عناد کی خاطر اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا۔ دنیا میں قیامت تک جتنے قتل ہوں گے ان کا گناہ قاتل کے ساتھ ساتھ قتل کی طرح ڈالنے والے پہلے قاتل قابیل کو بھی ملے گا اور یہ ضابطہ بھی بیان کردیا کہ انسانی جان اللہ کی نگاہ میں اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ ایک انسان کے قتل کا گناہ پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہے اور کسی انسانی جان کو بچالینے کا اجر و ثواب پوری انسانیت کو بچالینے کے برابر ہے۔ اسلامی حکومت کے باغی اور ڈاکو چونکہ معاشرہ میں بدامنی اور فساد پھیلانے کے مرتکب ہوتے ہیں اس لئے انہیں ملک بدر کردیا جائے یا مخالف سمت کے ہاتھ پائوں کاٹ کر پھانسی پر لٹکا کر قتل کرکے ان کے وجود سے اسلامی سرزمین کو پاک کردیا جائے۔ یہ تو دنیا کی رسوائی ہے۔ آخرت میں بھی ان کے لئے عذاب عظیم ہے۔ البتہ گرفتاری سے پہلے اگر تائب ہوکر اپنی اصلاح کرکے ان جرائم سے باز آنے کی ضمانت دیں تو انہیں معافی دی جاسکتی ہے۔ اہل ایمان کو تقویٰ پر کاربند رہنے، اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے اعمال صالحہ کو وسیلہ بنانے اور جہاد فی سبیل اللہ میں مصروف ہوکر فلاح و کامیابی حاصل کرنے کی دعوت دی ہے۔ چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دے کر چوری کے سدباب کا بہترین انتظام کیا ہے کہ ہاتھ کٹ جانے کے بعد وہ چور بھی اس جرم سے تائب ہوجائے گا اور دوسرے چوروں کے لئے بھی عبرت کا سامان پیدا ہوجائے گا۔ یہودیوں کے اعتراضات کرنے اور حضور علیہ السلام پر ایمان نہ لانے سے آپ دل گرفتہ اور پریشان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کافروں اور یہودیوں کی نازیبا حرکات سے آپ پریشان اور غمگین نہ ہوں۔ یہ لوگ عادی مجرم ہیں۔ اللہ کے کلام میں تحریف، جھوٹ اور حرام خوری ان کی گھٹی میں داخل ہے۔ یہ ایسے لاعلاج مریض ہوچکے ہیں کہ اللہ ا نہیں پاک و صاف کرنا ہی نہیں چاہتے۔ دنیا میں ذلت اور آخرت میں عذاب عظیم ان کا مقدر بن چکا ہے، پھر فوجداری قانون بیان کردیا کہ جان کے بدلہ جان، آنکھ کے بدلہ آنکھ، کان کے بدلہ کان، دانت کے بدلہ دانت ہوگا، لیکن اگر کوئی متأثر فریق درگزر اور معافی کا فیصلہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے گناہوں کی معافی کا وعدہ کررہے ہیں۔ اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کی مخالفت کی نوعیت دیکھتے ہوئے ان پر عملدرآمد نہ کرنے والے کافر و فاسق ہیں۔ قرآن کریم سابقہ کتب سماویہ کی تعلیمات کا جامع اور محافظ ہے لہٰذا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حکم دیا گیا کہ یہود و نصاریٰ کی خواہش کے مطابق قرآنی نظام سے انحراف نہ کیا جائے۔ ہر قوم کے لئے اللہ نے نظام حیات وضع کیا ہوا ہے۔ ہم چاہتے تو دنیا کے تمام انسانوں کو ایک ہی مذہب کا پابند بنادیتے مگر دنیادار الامتحان ہے اس میں کئے جانے والے پر ہی اخروی جزاء و سزا کا انحصار ہے۔ اس لئے ہر شخص کو اعمال صالحہ میں سبقت لے جانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ انسانوں کے وضع کردہ قوانین جاہلیت پر مبنی ہوتے ہیں جو فسق و فجور کی ترویج کا باعث ہوتے ہیں۔ یقین و ایمان کے حاملین کے لئے اللہ سے بہتر قانون سازی کون کرسکتا ہے؟ یہود و نصاریٰ سے تعلقا ت ایمان کے منافی ہیں۔ اہل کتاب سے دوستی چاہنے والے قلبی مریض ہیں۔ دنیا کا عارضی نفع و نقصان ان کے پیش نظر ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ کی مخالفت سے ہماری معشیت تباہ ہوجائے گی حالانکہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو غلبہ عطا فرماکر ان کے معاشی حالات درست فرماسکتے ہیں، جو ان کے حمایتیوں کے لئے ندامت و شرمندگی کا باعث ہوسکتا ہے۔
اگر کوئی اسلامی نظام حیات کو چھوڑ کر مرتد ہوجائے تو اس سے اسلام کی حقانیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اللہ ایسے لوگوں کو منظر سے ہٹاکر کسی دوسری قوم سے اپنے دین کاکام لے سکتے ہیں۔ وہ لوگ آپس میں محبت کرنے والے، اپنے مسلمان بھائیوں کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے، کافروں کے لئے سختی کرنے والے، جہاد فی سبیل اللہ میں سردھڑ کی بازی لگانے والے اور کسی کی طعن و تشنیع کو خاطر میں لانے والے نہیں ہوں گے۔ اہل کتاب کو مسلمانوں سے دشمنی کی وجہ صرف ان کا اللہ پر ایمان اور آسمانی نظام پر غیر متزلزل یقین ہے۔ مسلمان قابل اعتراض نہیں بلکہ قابل اعتراض تو وہ بدترین لوگ ہیں، جن پر اللہ کی لعنت اور غضب ہوا اور سزا کے طور پر انہیں بندروں اور خنزیروں کی شکل میں مسخ کردیا گیا۔ یہ لوگ اس حد تک ہٹ دھرمی اور ضد میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ اللہ پر اعتراض کرنے سے بھی نہیں چوکتے، یہ کہتے ہیں کہ (نعوذباللہ) اللہ بخیل ہے۔ اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، ہاتھ تو ان کے بندھے ہوئے ہیں اور انکی زبان درازی کی وجہ سے ان پر لعنت کی گئی ہے۔ اللہ کے ہاتھ تو کھلے ہوئے ہیں۔ وہ جیسے چاہتا ہے اپنے بندوں پر خرچ کرتا ہے۔ یہ لوگ بدزبانی اور سرکشی میں روز بروز بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ یہ قوموں کو لڑانے کی سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ اللہ ان جنگوں کی آگ کو ٹھنڈا کرتے رہتے ہیں۔ پھر حضور علیہ السلام کو تبلیغ رسالت کے فریضہ کی ادائیگی میں اپنی تمام صلاحیتیں صرف کرنے کا حکم ہے اور دشمنانِ اسلام سے آپ کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کی ضمانت دی گئی ہے۔ اس کے بعد نصاریٰ کے عقیدۂ تثلیث پر رد اور مریم وعیسیٰ علیہما السلام کی الوہیت کا بطلان واضح کرکے بتلایا ہے کہ عیسیٰ کیسے خدا ہوسکتے ہیں وہ تو اپنی والدہ مریم کے ہاں پیدا ہوئے اور وہ دونوں کھانے پینے کے محتاج ہیں۔ بنی اسرائیل کے ملعون قرار پانے کی وجہ ممنوعات و محرمات سے اجتناب نہ کرنا ہے۔ نصاریٰ کے مقابلہ میں مشرکین اور یہود مسلمانوں کے ساتھ زیادہ دشمنی رکھتے ہیں۔

اہم نکات۔۔۔

عمل کی باتیں

☘ دوسروں کی غلطی کو اچھالنے سے بچنا ھے ۔کیونکہ اللہ کو پسند نہیں ۔

☘اللہ نے ہر نبی کا ایک مقام متعین کر دیا ھے ۔ان میں تفریق سے بچنا ھے

☘اھل کتاب کی طرح حرام کو حلال نہیں کرنا ورنہ دنیا میں بھی سزا ملے گی ۔

☘افراط و تفریط کی ہر روش سے بچتے ھوئے اعتدال اختیار کرنا ھی اصل دین ھے ۔

☘اللہ کو اس کے اصل مقام الوہیت اور عیسیؑ کو ان کے مقام رسالت پر رکھنا ھے ۔تثلیث کی نفی کرنی ھے ۔

☘ اللہ کے حکم پر عمل کرنے کو عار نہیں سمجھنا ۔نماز ۔زکواۃ ۔حجاب کے معاملے میں شرمندہ نہیں ھونا ھے۔

☘اللہ سے کئے ھوئے سب وعدے پورے کرنا اھل ایمان کے لئے ضروری ھے ۔

☘جھوٹ ،چوری ،زنا ۔غلط دوستیوں پر کسی کا ساتھ نہیں دینا لیکن نیکی اور بھلائی میں بھرپور تعاون کرنا ۔

☘حرام کھانے مثلا مردار ،خون ،خنزیر ،غیر اللہ کے لئے یا آستانوں کا ذبیحہ ۔درندے کا شکا ر وغیرہ ۔

☘پانسوں یا کسی بھی ذریعے قسمت کا حال یا غیب کی خبر معلوم کرنا حرام ھے ۔

☘دین مکمل ھو چکا ھے ،اس میں کسی چیز کی گنجائش نہیں ۔جو پہلے دین تھا وھی آج بھی دین ھے

☘طیب کھانا پینا اور پاکیزہ عورتیں حلال ھیں خواہ اھل کتاب کی ھوں یا اھل ایمان کی ۔

☘ وضو نماز کے لئے ضروری ،اللہ کی قربت ،اعضاء کے چمکنے اور گناہ دھلنے کا ذریعہ ۔۔پانی نہ ھو تو تیمم کی سہولت ھے

☘ دشمنی میں بھی عدل نہ چھوڑنا متقی ھونے کی علامت ھے

☘ اقامت صلاۃ ،ادائے زکواۃ ،ایمان بالرسل ،اللہ کو قرض حسنہ دینے سے برائیاں دور ھونگی اور جنت ٹھکانہ ھوگی ۔

☘نیکی کے خیالات بے مقصد نہیں ھوتے ،اس لئے نیکی کے کسی موقع کو انکار کر کے گنوانا نہیں ھے ۔

☘حسد بری بلا ھے ۔جس نے بھائی کی جان لینا آسان کر دیا ھے ۔خود کو حاسدین میں شامل ھونے سے بچانا ھے

☘نیک اعمال کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرنا ھے اور کامیابی کے لئے مزید کوشش کرتے رھنا ھے ۔

☘سچی دوستی اللہ اوررسول اور اھل ایمان سے رکھنی چاھیے ۔دین کو کھیل بنانے والوں اور کفار سے نہیں ۔

☘ دین سے روگردانی کی سزا اللہ یہ دیں گے کہ ان لوگوں کو ختم کرکے نئے لوگوں کو دیں گے ۔جو اللہ سے محبت کریں گے اور اللہ ان سے محبت کرے گا ۔

☘نصاریٰ کی تعریف ان کے تکبر نہ کرنے کی وجہ سےکی گئی ۔تکبر اللہ کو سخت نا پسند ھے ،لہزا تکبر سے اجتناب ضروری ھے ۔

آئیے اللہ نے جن حرمتوں کی پاسداری کا حکم دیا ھے ان کا لحاظ کریں ۔۔۔
 

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,280
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
خلاصہ قرآن

پارہ نمر07 ( وَإِذَا سَمِعُواْ)



ابتداء میں عیسائیت کے منصف مزاج اور معتدل طبقہ کی تعریف کی گئی ہے۔ واقعہ یہ پیش آیا تھا کہ قریش مکہ کے مظالم سے تنگ آکر حضور علیہ السلام کی اجازت سے مسلمانوں کی ایک جماعت ہجرت کرکے عیسائیوں کے ملک حبشہ چلی گئی۔ مشرکین نے ان کا تعاقب کیا اور غلط بیانی کے ساتھ نجاشی شاہ حبشہ کو مسلمانوں سے بدظن کرنے کی کوشش کی۔ نجاشی نے انہیں طلب کرکے سوالات کئے۔ مسلمانوں کے نمائندہ جعفر رضی اللہ عنہ نے جواب میں قرآن کریم کی سورہ مریم پڑھ کر سنائی۔ نجاشی اور اس کے ساتھیوں پر قرآن کریم سن کر رقت طاری ہوگئی۔ ان کی آنکھیں آنسوئوں سے ڈبڈبانے لگیں اور کلام الٰہی سے متأثر ہوکر انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور مسلمانوں کو سرکاری مہمان کے طور پر اپنے ملک میں ٹھہرانے کا اعلان کردیا۔ ان کی اور اس قسم کے دوسرے عیسائیوں کی تعریف کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ قرآن کو سنتے ہیں تو حق کو پہچان کر ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاکر اسلام کی حقانیت کے گواہ بن جاتے ہیں۔ اس کے بعد حلال و حرام کے حوالے سے کچھ گفتگو اور انتہا پسندی کی مذمت کی گئی ہے۔ قسم کی اقسام اور کفارہ کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ شراب اور جوے (قمار) کی حرمت کا حتمی فیصلہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ شیطان اس کے ذریعہ اسلامی معاشرہ کے افراد میں نفرتیں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا اس کے جواز کی کوئی گنجائش نہیں۔ مسلمانوں کو ام الخبائث کے استعمال سے باز آجانا چاہئے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت عمر نے جب فہل انتم منتہون (کیا تم باز نہیں آئوگے؟) کا قرآنی جملہ سنا تو آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر بے اختیار پکار اٹھے انتہینا یا ربنا (اے ہمارے رب! ہم باز آگئے)
حالت احرام میں شکار کی ممانعت اور اس کی جزا کا بیان ہے۔ محرم کو مچھلی کے شکار کی اجازت دی گئی ہے کہ سمندر میں حجاج کے قافلہ کو ضرورت پیش آسکتی ہے۔ کعبۃ اللہ کی مرکزیت اور بقاء انسانیت کی علامت ہونے کا بیان ہے۔ خبیث اور طیب میں امتیاز برتنے کی تلقین ہے کہ کسی چیز کی قلت و کثرت اچھائی کا معیار نہیں ہے۔ حلال و حرام، مطیع و عاصی، بھلا اور برا کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ بیجا سوال کرنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ مختلف حوالوں سے جانور مخصوص کرنے کی مذمت کی گئی ہے کہ بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حامی یا اس قسم کے ناموں سے جانوروں کے تقدس کی اسلامی تعلیمات میںکوئی گنجائش نہیں ہے۔ قرآنی تعلیمات کے خلاف آباء و اجداد کی ناجائز تقلید سے منع کیا گیا ہے۔ فساد زدہ معاشرہ میں تبدیلی لانے کی پوزیشن میں نہ ہونے کے باوجود اگر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے ہوئے اپنے ایمان کے تقاضے پورے کرتے رہے تو گمراہ اور نافرمانوں کے غلط اثرات سے محفوظ رہوگے۔ قیامت کے دن کے بے لاگ محاسبہ کی یاددہانی کراتے ہوئے بتایا کہ اس ہولناک دن میں انبیاء علیہم السلام بھی جوابدہی کے لئے اللہ کے سامنے پیش کئے جائیں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے صاحب عزیمت رسول جنہیں مردوں کو زندہ کرنے، بینائی اور برص کے لاعلاج مریضوں کو چنگا کرنے اور مٹی کے جانوروں میں اللہ کے حکم سے روح پھونکنے کے معجزات عطاء کئے گئے تھے۔ انہیں بھی احتساب کے عمل سے گزرنا پڑے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ عیسائیوں نے تمہیں اور تمہاری والدہ کو اپنا معبود کیوں بنا رکھا تھا۔ وہ نہایت عجز و انکساری سے عرض کریں گے کہ اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔ میں نے تو آپ کی توحید و الوہیت کی تبلیغ کی تھی۔ میرے بعد لوگوں نے اپنی طرف سے میری اور میری والدہ کی عبادت شروع کردی تھی۔ یہ آپ کے بندے ہیں آپ ان کے ساتھ جو بھی معاملہ فرمائیں، معاف کریں یا عذاب دیں یہ آپ کا اختیار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے آج کے دن سچائی کے علمبردار ہی عظیم الشان کامیابیوں سے ہمکنار ہوسکیں گے۔ ان کے لئے دائمی طور پر باغات اور بہتی نہریں تیار ہیں۔ اللہ ان سے راضی ہیں وہ اللہ سے راضی ہیں۔
اس سے پہلے مائدہ (دسترخوان) کا واقعہ بیان کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے کہنے لگے: اے عیسیٰ! اپنے رب سے کہئے کہ ہمیں جنت کے کھانے کھلائے۔ اللہ نے ایک دسترخوان اتارا، جس میں انواع و اقسام کے جنتی کھانے تھے۔ خیانت کرنے اور بچا کر رکھنے سے انہیں روکا گیا تھا، مگر انہوں نے بددیانتی کا مظاہرہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے خیانت کے مرتکب افراد کو بندروں اور خنزیروں کی شکل میں مسخ کردیا۔

سورہ الانعام
یہ مکی سورہ ہے۔ چونکہ اس سورہ میں انعام (چوپائے) اور ان سے متعلقہ انسانی منافع کا تذکرہ ہے۔ نیز جانوروں سے متعلق مشرکانہ و جاہلانہ رسوم و رواج کی تردید کی گئی ہے۔ اس لئے اس سورہ کا نام ’’الانعام‘‘ رکھا گیا ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں ایک ہی رات میں بیک وقت اس شان سے اس سورہ کا نزول ہوا کہ اس کے جلوس میں ستر ہزار فرشتے تسبیح و تحمید میں مشغول تھے۔ اس کا مرکزی مضمون توحید کے اصول و دلائل کا بیان ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ رسالت و آخرت کے موضوع پر بھی بڑی آب و تاب کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے۔ دعوت کا کام کرنے والوں کو دلائل و براہین کے تیز دھار اسلحہ سے مسلح کیا گیا ہے۔ دلائل کا انداز کہیں الزامی ہے تو کہیں مطمئن کرنے کے لئے عقل و خرد کے استعمال کی دعوت دی گئی ہے۔
سورہ کی ابتداء سے ہی دو خدائوں (یزدان واھرمن) کے عقیدے کی نفی کرتے ہوئے فرمایا کہ آسمان و زمین کا خالق اور ظلمت و نور کا خالق ایک ہی ہے اور وہ قابل تعریف ’’اللہ‘‘ ہے۔ پھر رسالت محمدی کے منکرین کی مذمت کرتے ہوئے قرآن کریم کی حقانیت کا اثبات کیا اور دھمکی دیتے ہوئے فرمایا کہ کتنی ہی قومیں ہیں جنہیں ہم نے اقتدار سے نوازا اور پھر بارشیں برساکر ان کے باغات کو سرسبز و شاداب بنایا اور انہیں معاشی خوشحالی عطا کی مگر وہ ہماری نافرمانی اور بغاوت سے باز نہ آئے تو ہم نے ان کے جرائم پر ان کی گرفت کرکے تباہ و برباد کردیا اور ان کی جگہ دوسری قوموں کو لے آئے لہٰذا تمہیں ہلاک کرکے دوسروں کو تمہاری جگہ دے دینا ہمارے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔ مشرکین کا کہنا تھا کہ یا تو فرشتہ ہم سے آکر آپ کو نبی تسلیم کرنے کے لئے کہے یا ہمارے نام پر اللہ تعالیٰ خط بھیج دیں تو آپ کی نبوت کو تسلیم کرلیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اگر ہم نے خط بھیج بھی دیا اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے چھوکر اسے دیکھ بھی لیا پھر بھی یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے اور اگر ہم فرشتے کو بھیجیں تو وہ بھی انسانی شکل میں ہی آئے گا اور ان کا اعتراض پھر بھی برقرار رہے گا۔ حضور علیہ السلام کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا اگر آپ کا مذاق اڑایا جارہا ہے تو آپ سے پہلے انبیاء کا مذاق بھی اڑایا گیا ہے۔ دنیا میں نکل کر دیکھیں وہ لوگ کیسے عبرتناک انجام سے دوچار ہوئے۔ پھر توحید باری تعالیٰ پر دلائل جاری رکھتے ہوئے فرمایا اگر آپ پر کوئی مصیبت آجائے تو اسے اللہ ہی ٹالتے ہیں اور اگر وہ آپ کو فائدہ پہنچائیں تو اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ پھر قیامت کا تذکرہ شروع کردیا کہ ہم جب انہیں قیامت میں جمع کرکے پوچھیں گے تو یہ صاف انکار کردیں گے کہ ہم شرک نہیں کرتے تھے۔ یہ لوگ آپ کی بات سنتے ہیں مگر ان کی بدعملی کی وجہ سے ان کے دلوں پر پردہ چڑھا ہوا ہے اور ان کے کانوں میں ڈاٹ لگے ہوئے ہیں اس لئے قرآن کی باتوں کا یہ اثر قبول نہیں کرتے۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ بس زندگی دنیا ہی کی ہے۔ قیامت کے دن ہم انہیں جہنم کے کنارے کھڑا کرکے پوچھیں گے اب بتائو یہ سچ ہے یا نہیں؟ پھر انہیں اپنے کفر کی سزا برداشت کرنی پڑے گی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کی ہدایت کے لئے اس فکر میں رہتے تھے کہ اگر ان کی مطلوبہ نشانیاں ظاہر کردی جائیں تو شاید یہ لوگ ایمان لے آئیں، لیکن اللہ تعالیٰ جانتے تھے کہ یہ ہٹ دھرم ایمان نہیں لائیں گے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر آپ ان کا اعراض برداشت نہیں کرسکتے تو زمین کے اندر کوئی سرنگ کھود کر یا آسمان پر سیڑھی لگاکر ان کی مطلوبہ نشانی کہیں سے ڈھونڈ کر لے آئیے۔ یہ لوگ ہدایت پر نہیں آئیں گے اور ہم زبردستی کسی کو ہدایت نہیں دیتے۔ آپ ان سے کہئے! اگر اللہ کا عذاب تم پر آجائے یا قیامت برپا ہوجائے تو کیا پھر بھی تم غیراللہ کو پکاروگے؟ ظاہر ہے کہ ایسے مشکل وقت میں اپنی مصیبتیں دور کرنے کے لئے تم اللہ ہی کو پکارتے ہو اور اپنے شرکاء کو بھول جاتے ہو۔ پہلی اقوام پر ہم نے تنگدستی اور بیماری ڈالی مگر وہ راہ راست پر نہیں آئے پھر ہم نے انہیں آرام و راحت دی اس پر بھی وہ اپنی شرارتوں سے باز آنے کی بجائے سرکشی و ضلالت میں مزید ترقی کرگئے تو ہم نے اچانک انہیں ایسا پکڑا کہ وہ مبہوت ہوکر رہ گئے۔ ان کا نام و نشان مٹ گیا اور ظالموں کی جڑیں کٹ کر رہ گئیں۔
آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اللہ کے خزانے میرے اختیار میں نہیں ہیں اور نہ میں علم غیب جانتا ہوں اور نہ ہی میں فرشتہ ہونے کا دعویدار ہوں، میں تو اپنے رب کی وحی کا پابند ہوں۔ جن لوگوں کو اللہ کا خوف ہے اور اپنے رب کے سامنے جمع ہونے سے ڈرتے ہیں آپ انہیں قرآن کریم کے ذریعہ ڈراتے رہئے۔ اللہ کے علاوہ اس دن کوئی حمایتی اور سفارشی نہیں بن سکے گا۔ مشرکین مکہ کے متکبر اور ہٹ دھرم سرداروں کو اپنے ساتھ مانوس کرنے اور ہدایت کے راستہ پر لانے کی امید میں آپ ایسے مخلص اور غریب اہل ایمان کو اپنی مجلس سے نہ دھتکاریں جو اپنے رب کو راضی کرنے کے لئے صبح و شام اس کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ بھی امتحان کا ایک حصہ ہے کہ کافر و متکبر لوگ غریب مسلمانوں کو دیکھ کر حقارت سے ایسے جملے کسیں کہ کیا یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہم پر ترجیح دی ہے؟ اللہ شکر گزاروں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں، ایمان والے جب آپ کے پاس آئیں تو ان کے لئے سلامتی کی دعاء کریں اور انہیں اپنے رب کی رحمتوں کی خوشخبری سنائیں اور اگر نادانی کے ساتھ کسی سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو اسے توبہ اور اپنی اصلاح کی تلقین کرکے امید دلائیں کہ اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہیں۔ ہم اسی طرح وضاحت سے اپنی آیات بیان کرتے ہیں تاکہ مجرمین کا طریقہ کار واضح ہوجائے۔ پھر نظام کفر سے دوٹوک براء ت کے اظہار کی تلقین ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ مطلوبہ نشانیاں نبی کے اختیار میں نہیں ہیں۔ یہ اللہ کا اختیار ہے۔ غیب کی چابیاں اسی کے پاس ہیں بحر و بر کی ہر چیز کا علم اسی کے پاس ہے۔ درختوں سے گرنے والا ایک پتہ یا زمین کی پنہائیوں میںکوئی دانہ اور کوئی بھی خشک و تر اس کے علم سے خارج نہیں ہے۔ اللہ کی قدرت اور اس کے حفاظتی نظام کا تذکرہ فرمایا گیا ہے اور یہ بتایا کہ اللہ کے عذاب کی مختلف صورتیں ہیں۔ آسمان سے بھی نازل ہوسکتا ہے۔ زمین سے بھی نکل سکتا ہے اور فرقہ واریت میں شدت کی بناء پر باہمی جنگ و جدل کی صورت میں بھی ظاہر ہوسکتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اپنی ستارہ پرست قوم کے ساتھ مناظرہ کا بیان ہے کہ ستارے، چاند، سورج ڈوب جاتے ہیں اور ڈوبنے والا محتاج اور کمزور ہے رب نہیں ہوسکتا۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کی امتیازی خوبی کا بیان ہے اور وہ ان کا یہ اعلان ہے ’’میں نے اپنا رخ ہر طرف سے موڑ کر یکسوئی کے ساتھ آسمان و زمین کے خالق کی طرف کرلیا اور میں مشرکین میں سے نہیں‘‘ پھر کمال اختصار کے ساتھ تین سطروں میں اٹھارہ انبیاء و رسل کا تذکرہ اور تعریف بیان کی گئی ہے اور ان کی طرز زندگی کو اپنانے کی تلقین ہے۔
پھر قرآن کریم کے عموم و شمول اور اس کی حقانیت کا بیان ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ پر جھوٹ باندھنے و الوں کو روز قیامت ذلت و رسوائی اٹھانی پڑے گی۔ پھر قدرت خداوندی کی کائناتی حقائق میں مشاہدہ کرنے کی دعوت ہے۔ اللہ ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑ کر درخت اور پودے پیدا کرتا ہے۔ زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ نکالتا ہے۔ (مادی طور پر جیسے مرغی سے انڈہ اور انڈے سے مرغی اور روحانی طور پر جیسے کافر کے گھر میں مسلمان اور مسلمان کے گھر میں کافر پیدا کرنا) دن وہی نکالتا ہے۔ سکون حاصل کرنے کے لئے رات کو لے آتا ہے۔ سورج چاند کو حساب کے لئے مقرر کیا ہے۔ خشکی و تری میں راستہ متعین کرنے کے لئے ستارے اسی نے بنائے ہیں۔ اسی نے ایک جان (آدم علیہ السلام) سے تمام انسان پیدا کرکے ان کی عارضی رہائش گاہ (دنیا) اور ان کی مستقل رہائش گاہ آخرت کو بنایا۔ آسمان سے پانی برسا کر کھیتیاں اور باغات پیدا کئے جن کے اندر سبزیاں، پھل، کھجوریں اور انگور بنائے جو گچھے والے بھی ہیں اور بغیر گچھے کے پیدا ہونے والے پھل بھی ہیں۔ پھلوں کے موسم میں دیکھو کیسے خوشنما اور بھلے لگتے ہیں۔ علم، سمجھ بوجھ اور ایمان رکھنے والوں کے لئے قدرت الٰہی اور وحدانیت کے واضح دلائل ہیں۔ مشرکین مکہ کی تردید کی جن کا عقیدہ تھا کہ جنات کے سرداروں کی بیٹیاں اللہ کی بیویاں ہیں اور فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور عیسائیوں کے عقیدہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: اللہ کی بیوی ہی نہیں ہے۔ اس کی اولاد کیسے ہوسکتی ہے، وہ ہر چیز کا خالق ہے اور ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ وحی کی اتباع کی تلقین کی اور مشرکین کے معبودوں کی برائی کرنے سے روکا کیونکہ وہ ضد اور مقابلہ میں اللہ کو برا بھلا کہنے لگیں گے۔ یہ لوگ قسمیں کھاکر کہتے ہیں کہ اگر ہماری مطلوبہ نشانی دکھادی جائے تو ضرور ایمان لے آئیں گے۔ نشانیاں دکھانا تو اللہ کیلئے کوئی مشکل نہیں مگر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ لوگ نشانی دیکھ کر ایمان لے ہی آئیں گے۔☘

ہم نکات اور کرنے کے کام

توجہ سے اللہ کا کلام سننا اتنا اثر انگیز ھے کہ آنکھیں آنسووں بہانے لگتی ھیں اور دل حق کو پہچان کر عمل پر آمادہ ھو جاتا ھے ۔

حق بات اور عمدہ بات کرنے سے جنت لازم ھو جاتی ھے۔

ارادتا کھائی گئی جھوٹی قسم کا کفارہ 10 مساکین کو کھانا کھلانا یا لباس پہنانا یا ایک گردن آزاد کرنا ۔اگر استطاعت نہ ھو تو 3 دن کے مسلسل روزے رکھنا ھے ۔

دین سیکھنے کے لئے ضروری سوال کرنے میں ھی بھلائی ھے ۔غیر ضروری سوال کر کے مشکل پیدا نہیں کرنی ۔

قیامت کے دن سچوں کو انکی سچائی کے بدلے جنت ،اللہ کی رضامندی اور بڑی کامیابی ملے گی ۔

اللہ ہر حال اور عمل سے واقف ھے اس لئے چھپ کر بھی غلط کام نہیں کرنا ھے ۔

شکر گزاری پر نعمت ملنا اللہ کی رضا کا جبکہ نافرمانی کے باوجود نعمت ملنا ڈھیل دینے کے مترادف ھے ۔

رب کے قریب مگر دنیاوی لحاظ سے کم حیثیت لوگوں کو خود سے دور نہیں کرنا کیونکہ ایمان کی وجہ وہ سب سے زیادہ قیمتی ہیں ۔

غیب کی کنجیاں یا بحروبر کے خزانے ،زمین پر گرنے والا پتا یا اسکی گہرائیوں میں دب جانے والا دانہ سب کا جاننے والااللہ ھے ۔

اللہ اپنے بندوں پر غالب ھے ۔جب چاھے فرشتہ بھیج کر روح قبض کر سکتا ھے ۔

اللہ کی خاطر ابراھیم ؑ نے سب کنبہ چھوڑ دیا تو اللہ نے نسل انبیاء اور صالحین پیداکر کے بہترین جزادی ۔

قرآن کو پڑھ کر جو عمل کرے گا ۔اسکی زندگی برکتوں سے مالا مال ھو جائے گی ۔

آیئے اللہ کو اسکی آیا ت اور صفات کے ذریعے پہچان کر خالص توحید کا اقرار کریں ۔۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
294
پوائنٹ
165
منتظمین سے گذارش ہے کہ اس کا عنوان ”خلاصہ قرآن پارہ 1 اہم نکات کے ساتھ“ کی بجائے ” خلاصہ قرآن اہم نکات کے ساتھ“ کردیا جائے تو بہتر ہے۔
 

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,280
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
خلاصہ قرآن


پارہ نمر08 ( وَلَوْ أَنَّنَا)

قریش مکہ کا کہنا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مرنے کے بعد زندہ ہونے کا جو دعویٰ کرتے ہیں اس کا عملی ثبوت پیش کرنے کے لئے عرب کے بڑے دادا قُصَی (جوکہ نیک اور محترم شخصیت تھے) کو زندہ کرکے دکھا دیں، وہ اگر آپ کی تصدیق کردیں تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا اگر ہم ان پر فرشتے نازل کردیں جو ان سے باتیں کرنے لگیں اور آج تک مرنے والی ہر چیز کو زندہ کرکے ان کے سامنے اکٹھا کردیں تب بھی یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ صرف آپ ہی کی مخالفت نہیں ہورہی ہے بلکہ آپ سے پہلے انبیاء علیہم السلام کو بھی ایسی ہی صورتحال سے سابقہ پڑتا رہا ہے۔ شیطان کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے ہر نبی کے مخالفین ایسے ہی بنا سنوار کر دھوکہ دینے کے لئے ہر دور میں اعتراضات کرتے رہے ہیں مگر ایسی باتوں سے بے ایمان، منکرین آخرت ہی متاثر ہوتے ہیں۔ اللہ اگر چاہتے تو یہ ایسی نازیبا حرکتیں نہ کرتے۔ آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ کر اپنے کام میں لگے رہئے، آپ ان سے کہہ دیجئے کہ جب اللہ نے واضح کتاب نازل فرمادی تو میں فیصلہ کرنے کے لئے کسی اور کو کیوں تلاش کروں؟ تیرے رب کی باتیں سچائی اور انصاف کی آئینہ دار ہیں انہیں کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔ لوگوں کی بے دلیل باتوں کو مان کر انسان گمراہ ہوسکتاہے، اللہ ہدایت یافتہ اور گمراہوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ مردار اور ذبیحہ میں فرق کرنے پر مشرکین کہتے تھے کہ اللہ کا مارا ہوا کھاتے نہیں ہو اور اپنا مارا ہوا کھالیتے ہو۔ قرآن کریم نے اس کے جواب میں فرمایا کہ شیطان کے ایجنٹ کٹ حجتی کے لئے اس قسم کے اعتراضات کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حلال و حرام کو تفصیل کے ساتھ بیان کردیا ہے، لہٰذا مردار جانور کا کھانا گناہ ہے جبکہ اللہ کا نام لے کر ذبح کیا ہوا جانور کھانا تمہارے ایمان کا تقاضا ہے۔ اگر ان کی باتوں سے متاثر ہوگئے تو تم بھی مشرکین کے زمرے میں شمار کئے جائوگے۔ جس طرح مردہ اور زندہ برابر نہیں ہوسکتے اسی طرح کفر کے اندھیروں میں بھٹکنے والے اور ایمان کی روشنی میں چلنے والے برابر نہیں ہوسکتے۔ جب انہیں کوئی آیت سنائی جائے تو اسے ماننے کی بجائے یہ کہتے ہیں کہ ان آیتوں کی وحی اللہ ہم پر کیوں نہیں اتارتا؟ اللہ بہتر جانتے ہیں کہ کس پر وحی اتارنی ہے کس پر نہیں۔ مجرموں کو ان کے جرائم کی وجہ سے ذلت ورسوائی اور عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جسے اللہ ہدایت دینا چاہیں اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتے ہیں اور جس کی گمراہی کا فیصلہ کریں اس کا سینہ تنگ کردیتے ہیں جیسے کوئی شخص بلندی پر چڑھ رہا ہو۔
بلندی پر چڑھتے ہوئے سینہ تنگ ہونے کی مثال اعجازِ قرآنی کی معرکۃ الآراء مثال شمار ہوتی ہے۔ اس لئے کہ طب جدید کی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ بلندی پر آکسیجن کی کمی کی وجہ سے دَم گھٹنے لگتا ہے اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ آج سے سوا چودہ سو سال پہلے اس سائنسی حقیقت کی طرف اشارہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ قرآن کسی انسان کا نہیں بلکہ اللہ رب العالمین کا کلام ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ تمام جنات و انسانوں سے قیامت کے دن باز پرس کی جائے گی اور ہر ایک کو احتساب کے عمل سے گزرنا ہوگا جبکہ یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ انسانوں کی طرح جنات بھی قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے کے پابند ہیں، پھر یہ بتایا کہ مجرموں کی گرفت کے لئے اللہ کا ضابطہ ہے کہ ظالم کی بے خبری میں گرفت نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات سے مستغنی اور رحیم ذات ہے۔ وہ اگر انسانوں کو ختم کرکے کسی دوسری قوم کو لانا چاہے تو اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ پھر کھیتیوں اور جانوروں میں مشرکانہ رسوم و رواج کی مذمت کرتے ہوئے اسے شیطانی عمل قرار دیا ہے۔ قدرت خداوندی کا بیان ہے کہ اللہ زمین سے کیسے کیسے باغات پیدا کرتا ہے، جن میں سہارے کی محتاج بیلیں اور بغیر سہارے کے پروان چڑھنے والے پودے ہوتے ہیں۔ کھجوریں، مختلف ذائقہ والے ملتے جلتے اور غیر متشابہ پھل ہوتے ہیں۔ یہ سب انسانی خوراک اور صدقہ و خیرات کے لئے اللہ نے پیدا کئے ہیں۔ ان میں اسراف نہ کیا جائے۔ چھوٹے بڑے جانور بھی کھانے کے لئے اللہ نے پیدا کئے۔ ان کے بارے میں شیطانی تعلیمات کی پیروی نہ کریں۔ نر اور مادہ کو شمار کرکے عام طور پر آٹھ قسم کے پالتو جانور ہیں۔ بھیڑ، بکری، گائے، اونٹ۔ اللہ نے ان میں سے کسی کو حرام قرار نہیں دیا تو تم لوگ ان کے نر یا مادہ یا ان کے حمل کو حرام کیوں کرتے ہو؟ مشرک کہتے ہیں کہ ہم اللہ کی اجازت سے شرک کرتے ہیں۔ کیا یہ اپنے دعوی پر کوئی دلیل یا دست آویز پیش کرسکتے ہیں؟ اس کے بعد تمام انبیاء علیہم السلام کا دس نکاتی مشترکہ پروگرام پیش کیا جو حقوق اللہ اور حقوق العباد پر مشتمل ہے۔ اللہ کی عبادت، والدین کے ساتھ حسن سلوک، تنگی کے خوف سے اولاد کے قتل سے گریز، برائی کے کاموں سے پرہیز، بے گناہ کے قتل سے بچنا، یتیم کے مال کو ناجائز استعمال نہ کرنا، ناپ تول میں کمی نہ کرنا، قول و فعل میں انصاف کے تقاضے پورے کرنا، اللہ سے کئے ہوئے عہد و پیمان کو پورا کرنا اور صراط مستقیم کی پیروی کرنا پھر موسیٰ علیہ السلام کی نبوت اور ان کی کتاب کا تذکرہ پھر نزولِ قرآن کی بشارت کہ اس میں برکت بھی ہے، رحمت بھی اور ہدایت بھی۔ پھر دین میں تفرقہ اور دھڑے بندی کرنے والوں کی مذمت، پھر امت محمدیہ کی فضیلت کہ نیکی پر دس گنا اجر اور گناہ پر ایک سے زیادہ کی سزا نہیں ملے گی۔ محمدی تعلیمات کے ملت ابراہیمی کے عین مطابق ہونے کا اعلان۔ ابراہیمی طرز زندگی کی وضاحت کہ تمام بدنی و مالی عبادت اور جینا اور مرنا بھی اللہ ہی کے لئے ہے۔ ’’جو کرے گا وہی بھرے گا‘‘ کا ضابطہ اور سورہ کے آخر میں امتحان کے نقطہ نظر سے انسانوں میں فرقِ مراتب اور زمین کی خلافت کا استحقاق اور اللہ کے سریع العقاب ہونے کی دھمکی کے ساتھ ساتھ غفور رحیم ہونے کی خوشخبری بھی شامل ہے۔

سورہ الاعراف
جنت اور جہنم کے درمیان واقع ایک چبوترا ہے، جس پر ان لوگوں کو عارضی طور پر ٹھہرایا جائے گا، جن کی حسنات و سیئات برابر ہوں گی۔ أعراف کا تذکرہ اس سورہ میں موجود ہے اس لئے اسی نام سے پوری سورہ کو موسوم کردیا گیا۔
یہ سورہ دو سو چھ آیتوں اور چوبیس رکوع پر مشتمل ہے۔ یہ ایک طویل مکی سورہ ہے جو تقریباً سوا پارہ پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس سے پہلی سورہ الانعام کا مرکزی مضمون ’’توحید‘‘ تھا اور اس سورہ کا مرکزی مضمون ’’رسالت‘‘ ہے۔ اس کے ساتھ ہی جنت و جہنم اور قیامت کے موضوع پر بھی گفتگو موجود ہے۔ سورہ کی ابتداء میں قرآن کریم کی حقانیت کو ایک انوکھے انداز میں بیان کیا گیا ہے، جس میں ایک طرف حضور علیہ السلام کی ہمت افزائی ہے تو دوسری طرف آپ کی تسلی کے لئے ’’وحی الٰہی‘‘ کے منکرین کا انجام ہے کہ اگر مشرکین مکہ آپ پر نازل شدہ قرآن کریم کا انکار کرتے ہیں تو آپ دل برداشتہ نہ ہوں۔ یہ لوگ اپنے منطقی انجام کو پہنچ کر رہیں گے کیونکہ اس سے پہلے بھی ایسی قومیں گزری ہیں جنہیں ’’وحی الٰہی‘‘ کے انکار پر پلک جھپکتے میں نیست و نابود کردیا گیا۔ پھر یہ بتایا گیا ہے کہ آج کے دور کا فرقہ بندیوں، پارٹی بندیوں اور جنگ و جدل کا شکار ہونے والا انسان درحقیقت ایک ہی باپ کی صلب سے پیدا ہونے والا اور ایک ہی ماں کی کوکھ سے جنم لینے والا ہے۔ یہ سب کالے اور گورے، امیر و غریب، شاہ و گدا ایک ہی گھرانے کے افراد اور ایک ہی خاندان کے چشم و چراغ ہیں اور انہیں باہمی افتراق و نزاع کسی طرح بھی زیب نہیں دیتا۔ خالقِ انسان کی نگاہ میں اس انسان کی قدر و منزلت کیا ہے؟ اس کی طرف اشارہ کرنے کے لئے انسانیت کے جدامجد آدم علیہ السلام کو مسجود ملائکہ بناکر اعزاز و اکرام کے ساتھ اس کے اصلی گھر جنت میں بھیج دیا اور شیطان کی ازلی دشمنی بتانے کے لئے شجر ممنوعہ کو استعمال کرواکر جدوجہد اور معرکۂ حق و باطل کے طویل اور صبر آزما امتحان کے لئے اسے زمین پر اتاردیا۔ چار مرتبہ اس انسان کو یا بنی آدم ’’اے آدم کی اولاد‘‘ کہہ کر پکارا۔ یہ نداء اس سورہ کے ساتھ خاص ہے۔ شیطان کے شر سے بچنے کے لئے انتہائی پرحکمت خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’اے بنی آدم! جس شیطان نے تمہارے والدین کا لباس اترواکر انہیں جنت سے نکلوادیا تھا کہیں تمہیں بھی فتنہ میں مبتلا کرکے جنت سے محروم نہ کردے۔‘‘ اس کے بعد قیامت کے دن کی منظر کشی کرتے ہوئے اصحاب الجنۃ، اصحاب النار اور اصحاب الأعراف کے نام سے تین گروہ ذکر کئے۔ اس گروہ کا تذکرہ صرف اسی سورہ میں ہے۔ اس کے بعد وہ منظر پیش کیا گیا، جس میں جنت والے، جہنم والوں کا ویسے ہی مذاق اڑائیں گے جیسے وہ لوگ دنیا میں ان کی نیکی اور صلاح و تقویٰ پر مذاق اڑایا کرتے تھے۔ وہ کیسا منظر ہوگا جب جنت والے انعامات اور عیش و عشرت کے مزے لے رہے ہوں گے اور جہنم والے عذاب کی اذیت و کربناکی میں مبتلا ہوں گے اور جنتیوں سے کھانے کے ایک نوالہ اور پانی کے دو گھونٹ بھیک مانگ رہے ہوں گے اور اصحاب الأعراف اپنی فصیل سے دائیں بائیں جھانک کر جنت و جہنم والوں میں اپنے جاننے والوں کو پہچانیں گے اور ان سے گفتگو کریں گے۔ اہل جنت کے چہرے روشن اور چمکدار ہوں گے جبکہ اہل جہنم بدشکل، سیاہ اور ذلت و رسوائی کے عالم میں ہوں گے۔ اسی اثناء میں اللہ کا منادی آواز لگائے گا:’’اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ نیکیوں کا بدلہ جنت ہے جو صلحاء کو مل گئی اور اللہ کے راستہ میں رکاوٹیں ڈالنے والے اور من مانے طریقہ پر اللہ کے احکام کو اپنی خواہشات کے مطابق توڑ مروڑ کر پیش کرنے والے ظالم اور منکرین آخرت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عذاب کا طوق ان کے گلے میں ڈالا گیا‘‘۔ اس کے بعد آسمان و زمین کے پیدا کرنے، دن رات کے آنے جانے، ہوائوں کے چلنے اور بارش کے برسنے اور درختوں اور پودوں کے زمین سے نکلنے میں غور و خوض کرنے کی دعوت دے کر پہلے انبیاء علیہم السلام کا طویل تذکرہ شروع کردیا۔
نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی۔ قوم نے انہیں گمراہ قرار دے کر ان کا مذاق اڑایا۔ ان کی رسالت کا انکار کیا، جس پر اللہ نے پانی کا عذاب مسلط کرکے انہیں ہلاک کردیا اور اپنے نبی کو کشتی کے اندر بچالیا۔ ہود علیہ السلام کا تذکرہ کہ انہوں نے قوم عاد کو دعوت توحید دی انہوں نے ہود علیہ السلام کو بے وقوف اور ناسمجھ قرار دے کر انکار کیا۔ اللہ نے ان پر آندھی اور طوفان کا عذاب مسلط کرکے ہلاک کردیا اور اپنے نبی اور ان کے متبعین کو بچالیا۔ پھر قوم ثمود کا تذکرہ، صالح علیہ السلام نے انہیں دعوت توحید دی۔ انہوں نے انکار کیا اور بیجا مطالبے شروع کردیئے۔ کہنے لگے کہ پہاڑ سے اونٹنی پیدا کرکے دکھائو جو نکلتے ہی بچہ جنے۔ جب اونٹنی معجزانہ طریقہ پر ظاہر ہوگئی تو انہوں نے اسے قتل کرکے اپنے اوپر عذاب مسلط کرلیا۔ ان کی بستی پر ایسا زبردست زلزلہ آیا کہ ان کا نام و نشان مٹ کر رہ گیا۔
پھر قوم لوط اور ان کی بے راہ روی کا تذکرہ۔ لوط علیہ السلام نے انہیں بدفعلی جیسے گھنائونے جرم سے منع کیا تو وہ ان کا مذاق اڑانے لگے کہ تم بہت پاکباز بنتے ہو۔ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال باہر کریں گے۔ اللہ نے ان پر پتھروں کی بارش کرکے انہیں تباہ کردیا۔
پھر قوم مدین کا تذکرہ۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں توحید کی دعوت دی اور تجارت میں بددیانتی سے منع کرکے ناپ تول پورا کرنے کی تلقین فرمائی اور انہیں راہ گیر مسافروں کو ڈرانے دھمکانے سے باز رہنے کا حکم دیا، جس پر وہ لوگ بگڑگئے اور حضرت شعیب علیہ السلام کی مخالفت پر اتر آئے۔ انہوں نے فرمایا کہ میری قوم تمہارے دو گروہ بن چکے ۔ ایک ایمان والا اور دوسرا کفر والا۔ لہٰذا اپنے انجام کا انتظار کرو عنقریب ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ فیصلہ کردیں گے۔

اہم پوائنٹس اور عمل کی باتیں

❣جو دین کی بات نہیں ماننا چاہتا وہ فرشتے اترتے دیکھ کر یا مردوں کو بولتا سن کر بھی نہیں مانے گا ۔

❣اکثریت کی پیروی کے بجائے حق کی پیروٰ ی میں نجات ھے ۔اکثریت تو بھٹکانے والی ھے ۔

❣ھر طرح کے گناہ سے بچنا ۔گناہ وہ ھے جو دل میں کھٹکے ۔

❣جس کو ہدایت کی توفیق مل جائے اسکا سینہ کھل جاتا ھے ۔عمل کر نا آسان ھو جاتا ھے ۔

❣درجات کا تعین عمل کے مطابق ھو گا ۔اللہ ہر ایک کا عمل جانتا ھے ۔قیامت کے دن معلوم ھو جائے گا کون عمل میں آگے رہا۔

❣ایمان وعمل لازم وملزوم ھیں ایمان لا کر عمل کرنا ضروری ھے کیونکہ عمل ،ایمان میں دا خل ھے ۔

❣جو دین میں اختلاف کرتے ھوئے فرقہ پرستی پر ابھاریں اور گروہوں میں بٹ جئیں ان کا نبیؐ سے کوئی تعلق نہیں ۔

❣اللہ کے ہاں ایک نیکی کا اجر 10 گنا جبکہ ایک برائی کا بدلہ اسی کے مطابق ھے ۔

❣اعمال کے درجے میزان میں متعین ھونگے ،بھاری پلڑے والے کامیاب جبکہ ہلکے پلڑے والے خسارے میں ھونگے ۔

❣شیطان نے سجدے کا انکار تکبر کی وجہ سے کیا تو اللہ کی رحمت سے دور کر دیا گیا ھے ۔

❣لباس زینت اور ستر پوشی کا ذریعہ ھے ۔جس مقصد کے لئے اللہ نے بنانے اور پہننے کا حکم دیا اسکو پورا کرنا ھے ۔

❣کھاو،پیئو ،پہنو مگر اسراف نہیں کرنا کہ یہ اللہ کو پسند نہیں ۔

❣اللہ کی آیات کو جھٹلانے والے اور تکبر کرنے والے کے لئے جنت میں داخلہ محال ھے ۔اسکا اوڑھنا بچھونا جہنم ھوگی ۔

❣جنت کی خوبصورتی یہ ھے کی اہل جنت کے دلوں سے کینہ کدورت نکال کر جنت میں بھیجا جائے گا ۔

❣انکساری وخاموشی ۔خوف وامید کے ساتھ رب کو پکارنا دعا کے آداب میں سے ھے ۔

❣تمام انبیاء نے ایک اللہ کی عبادت کرنے اور غلط کام چھوڑ دینے کی طرف دعوت دی ۔


عمل سے زندگی بنتی ھے جنت بھی جھنم بھی


❤آیئے نیک عمل کر کے جنت کے حصول کی کوشش کریں ❤
 

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,280
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
خلاصہ قرآن


پارہ نمبر09 ( قَالَ الْمَلَأُ)

آٹھویں پارے کے آخر میں حضرت شعیب علیہ السلام کا یہ مقولہ تھا کہ آسمانی نظام کو تسلیم کرنے والی اور انکار کرنے والی مؤمن و منکر دو جماعتیں بن چکی ہیں۔ اب خدائی فیصلہ کا انتظار کرو۔ نویں پارہ کی ابتداء میں ان کی قوم کے سرداروں کی دھمکی مذکور ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھی اپنے خیالات سے تائب ہوکر اگر ہمارے طریقہ پر نہ لوٹے تو ہم آپ لوگوں کو ملک بدر کئے بغیر نہیں چھوڑیں گے۔ اہل ایمان نے اس کے جواب میںکہا کہ ہمیں اللہ نے ملتِ کفر سے نجات دے کر ملتِ اسلامیہ سے وابستہ ہونے کی نعمت سے سرفراز کیا ہے تو ہم کیسے غلط راستہ کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔ ہم اللہ سے دعاء گو ہیںکہ وہ ہمارے اورتمہارے درمیان دوٹوک فیصلہ کرکے حق کو غالب کردے۔ چنانچہ بڑی شدت کا زلزلہ آیا اور حضرت شعیب علیہ السلام کی نبوت کے منکر اس طرح تباہ ہوگئے کہ ان کا نام و نشان بھی باقی نہ بچا اور مؤمنوں کو اللہ تعالیٰ نے عافیت کے ساتھ بچالیا جس پر حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا کہ میںنے تو قوم کی خیرخواہی کرتے ہوئے اپنے رب کا پیغام پہنچادیا تھا مگر اسے تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے یہ لوگ تباہ ہوگئے اب ان پر میں کیسے رحم کھاسکتا ہوں؟ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ضابطہ بیان کردیا کہ خوشحالی اور تنگدستی کن حالات میں عذاب خداوندی کا مظہر ہوتی ہے اور کن حالات میں اللہ کی طرف سے ابتلاء و آزمائش ہوتی ہے۔ اگر اچھے یا برے حالات کی تبدیلی اعمال میں بہتری پیدا کرکے اللہ کا قرب نصیب کردے تو یہ تبدیلی امتحان ہے اور اللہ کی رضا کا باعث ہے اور اگر اعمال صالحہ میں ترقی نہ ہو بلکہ وہی سابقہ صورتحال رہے یا نافرمانیوں میں اور اضافہ ہوجائے تو یہ تبدیلی عذاب ہے اور اللہ کی ناراضگی اور غضب کا موجب ہے۔ اللہ کے عذاب سے کبھی بھی مطمئن نہیں ہونا چاہئے وہ صبح و شام کسی وقت بھی اچانک آسکتا ہے۔ ہم ان تباہ شدہ بستیوں کے حالات اس لئے سنارہے ہیں کہ انبیاء و رسل کی آمد کے باوجود بھی ان لوگوں نے اپنے اعمال میں بہتری پیدا نہ کرکے اپنے آپ کو عذاب الٰہی کا مستحق ٹھہرالیا۔ جس کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگاکر ان کا نام و نشان مٹاکر رکھ دیا۔
اس کے بعد معرکہ خیر و شر کا مشہور واقعہ ’’قصۂ موسیٰ و فرعون‘‘ کا بیان ہے جو آیت ۱۰۳ سے ۱۰۶ تک پھیلا ہوا ہے اور اس میں بعض جزئیات کو بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ قرآن کریم میں باربار دہرائے جانے والے واقعات میں سے ایک ہے اور جتنی تفصیل اس واقعہ کی بیان کی گئی ہے، اتنی کسی دوسرے واقعہ کی تکرار کے ساتھ تفصیل بیان نہیں ہوئی ہے۔ یوں تو اکثر سورتوں میں کسی نہ کسی انداز میں اس کا حوالہ مل جاتا ہے مگر سورہ بقرہ، اعراف، طٰہٰ اور قصص میں مختلف پہلوئوں سے اس واقعہ کو زیادہ اجاگر کیا گیا ہے۔ اس میں خیر کی بھرپور نمائندگی حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کرتے ہیں جبکہ شر کی بھرپور نمائندگی فرعون، ہامان، قارون اور یہودی قوم کرتی ہے۔ یہ لوگ اقتدار اعلیٰ، نوکر شاہی، سرمایہ داری کے نمائندہ ہیں۔ سورہ الاعراف میں فرعون اور قوم یہود کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ کو بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ہم نے اپنی آیات دے کر موسیٰ علیہ السلام کو فرعون اور اس کے حمایتیوں کی طرف بھیجاانہوں نے ان آیات کو ٹھکراکر فساد برپا کیا۔ آپ دیکھیں ان مفسدین کو کیسے عبرتناک انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ موسیٰ علیہ السلام جب رسول کی حیثیت سے فرعون کے پاس تشریف لے گئے اور انہوں نے بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کیا تو اس نے معجزہ دکھانے کا مطالبہ کیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے ’’عصا کا اژدھا‘‘ اور ’’ہاتھ کو چمکتا‘‘ ہوا بناکر دکھادیا۔ فرعون نے اسے ’’جادو‘‘ قرار دے کر مقابلہ کے لئے ’’جادوگر‘‘ بلوالئے۔ انہوں نے رسیوں اور لکڑیوں سے سانپ بنائے۔ موسیٰ علیہ السلام کے عصا کا اژدھا ان سب کو نگل گیا۔ جادوگر چونکہ اپنے فن کے ماہر تھے وہ سمجھ گئے کہ یہ جادو نہیں بلکہ نبی کا معجزہ ہے۔ وہ مسلمان ہوکر سجدہ ریز ہوگئے۔ فرعون نے یہ کہہ کر کہ موسیٰ جادوگروں کا استاد ہے۔ یہ چھوٹے شاگرد ہیں انہوں نے سازباز کرکے یہ ڈراما رچایا ہے اس نے سب جادوگروں کے ہاتھ پائوں کاٹ کر انہیں سولی پر چڑھادیا وہ مرتے مرگئے مگر ایمان سے منحرف نہیں ہوئے۔ موسیٰ علیہ السلام نبی تھے، فرعون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا مگر بنی اسرائیل پر اس نے عرصۂ حیات تنگ کردیا۔ مظالم سے تنگ آکر قوم نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا: آپ کی نبوت تسلیم کرنے سے پہلے بھی ہم ستائے جارہے تھے آپ کے آنے کے بعد اس میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ مظالم پہلے سے بڑھ گئے۔ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں حکم دیا کہ اپنے گھروں میں ہی قبلہ رو ہوکرنماز اور صبر کی مدد سے اللہ کی مدد کو اپنی طرف متوجہ کرو۔ دنیا میں آزمائش کے طور پر اللہ جسے چاہیں اقتدار پر فائز کریں، لیکن آخرت میں متقیوں کو بہتر انجام ملے گا۔پھر اللہ تعالیٰ نے فرعونیوں پر مختلف عذاب مسلط کئے۔ قحط سالی اور سبزیوں اور پھلوں کی قلت کا عذاب آیا۔ جب انہیں کوئی فائدہ پہنچتا تو وہ کہتے کہ ہماری ’’حسن تدبیر‘‘ کا کرشمہ ہے اور جب انہیں کوئی نقصان یا تکلیف پہنچتی تو اسے موسیٰ علیہ السلام اور ان کے مؤمن ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے اور کہتے کہ ہم پر اپنا جادو آزمانے کے لئے تم بڑے سے بڑا معجزہ دکھادو ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔ ان پر اللہ نے طوفان، مکڑی، جوئوں، مینڈکوں اور خون کا پے در پے عذاب بھیجا مگر وہ تکبر کے ساتھ اپنے جرائم میں بڑھتے ہی چلے گئے۔ جب ان پر عذاب کی کوئی شکل ظاہر ہوتی تو وہ جھوٹے عہد و پیمان کرکے موسیٰ علیہ السلام سے دعاء کرالیتے، مگر عذاب کے ختم ہوتے ہی پھر نافرمانیوں پر اتر آتے۔ ہماری آیات سے غفلت برتنے اور جھٹلانے کا ہم نے انتقام لے کر انہیں سمندر میں غرق کردیا۔ ہم نے دنیا میں کمزاور ضعیف سمجھی جانے والی قوم کو ان کے محلات، باغات اور اقتدار کا وارث بنادیا اور بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے کی خاطر کتاب دینے کے لئے حضرت ہارون کو جانشین قرار دے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام ’’کوہِ طور‘‘ پر ریاضت کرنے کے لئے بلائے گئے، جہاں وہ چالیس روز تک مقیم رہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں شرف ہمکلامی بخشا اور تورات عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا ایسا مزہ تھا کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کی زیارت کی درخواست کردی۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پر تجلی کی جس کی تاب نہ لاکر پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگیا، جس سے ثابت ہوا کہ انسان اپنے دنیاوی قویٰ کے ساتھ اللہ کی زیارت نہیں کرسکتا۔
موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی میں قوم شرک میں مبتلا ہوکر بچھڑے کی پوجا کرنے لگی۔ موسیٰ علیہ السلام واپس آکر قوم پر بہت ناراض ہوئے، بھائی ہارون کو بھی ڈانٹا اور پھر تواضع کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے لئے، اپنے بھائی کے لئے اور پوری قوم کے لئے معافی طلب کرتے ہوئے مغفرت، رحمت اور ہدایت کی دعا مانگی۔ اللہ نے فرمایا میری رحمت کے مستحق وہ لوگ ہوں گے جو صدقہ و خیرات کا اہتمام کریں۔ تقویٰ اور ایمان کو اختیار کریں اور نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم جن کا تذکرہ ان کی کتابوںتورات اور انجیل میں ہے اور وہ انہیں امر بالمعروف ، نہی عن المنکر کرتے ہیں، ان کی خودساختہ پابندیوں کو ان پر سے ختم کرکے ان کے گناہوں کے بوجھ سے انہیں آزاد کراتے ہیں، ان پر ایمان لاکر ان کی مدد و نصرت کریں تویہ لوگ کامیابی سے ہمکنار ہوجائیں گے۔ پھر حضور علیہ السلام کی رسالت کی عمومیت کو بیان کیا کہ آپ تمام انسانیت کے لئے نبی بن کر تشریف لائے ہیں۔ پھر بنی اسرائیل پر مزید احسانات کا تذکرہ فرمایا کہ بارہ قبیلوں کے لئے پتھر سے بارہ چشمے جاری کئے۔ بادل کا سائبان اور من و سلویٰ کی خوراک عطاء کی۔ بیت المقدس میں داخلہ کے لئے جہاد کا حکم دیا اور مخالفت پر آسمانی عذاب کے مستحق قرار پائے۔ پھر سمندر کے کنارے بسنے والوں کا تذکرہ جنہوں نے سنیچر کا دن عبادت کے لئے مقرر کیا، مگر اس کی پابندی کرنے کی بجائے اس دن شکار میں مشغول ہوگئے، جس کی وجہ سے ذلت آمیز عذاب میں مبتلا ہوکر بندروں کی شکل میں مسخ ہوگئے۔ پھر پہاڑ سروں پر معلق کرکے بنی اسرائیل سے میثاق لینے کا تذکرہ ہے کہ اتنے اہتمام کے باوجود بھی انہوں نے پابندی نہیں کی۔ پھر پوری انسانیت سے لئے جانے والے ’’عہد ألست‘‘ کا تذکرہ ہے جو عالم ارواح میں آدم علیہ السلام کی پشت سے تمام روحوں کو ’’بھوری چیونٹیوں‘‘ کی شکل میں نکال کر لیا گیا۔ تمام روحوں نے اللہ کی ربوبیت کا اقرار کیا، مگر دنیا میں آکر بہت سے لوگ اس سے منحرف ہوگئے۔ پھر ایک اسرائیلی عالم کا تذکرہ جس نے اپنی بیوی کے بہکاوے میں آکر مالی مفادات کے لئے اللہ کی آیات کی غلط تعبیر و تشریح کی، اسے کتے کی مانند بناکر اس کی زبان سینے تک لٹکادی گئی اور وہ کتے کی طرح ہانپتا ہوا جہنم رسید ہوگیا۔ جسے اللہ ہدایت دیں وہی ہدایت یافتہ بن سکتا ہے اور جسے اللہ گمراہ کردیں وہ خسارے میں ہے۔
جنات اور انسانوں میں جو لوگ اپنے دل و دماغ اور آنکھ اور کان کا صحیح استعمال کرکے توحید باری تعالیٰ کو نہ مانیں وہ لوگ گمراہی میں جانوروں سے بھی بدتر ہیں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اللہ کو اس کے اسماء حسنیٰ کے ساتھ یاد کیا جائے۔ ملحدین کے خودساختہ نام اللہ کے لئے استعمال نہ کئے جائیں۔ پھر قیامت کا تذکرہ کہ وہ اچانک کسی بھی وقت آجائے گی۔ اس کا علم اللہ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے۔ پھر نبی سے اعلان کروایا گیا ’’میں اپنے لئے بھی نفع نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو مجھ پر کبھی کوئی تکلیف نہ آتی اور تمام بھلائیاں میں اپنے لئے جمع کرلیتا۔ میں تو اہل ایمان کو ڈرانے اور خوشخبری سنانے کے لئے آیا ہوں‘‘ پھر قدرتِ خداوندی کے بیان کے لئے ایک جان آدم علیہ السلام سے انسانی تخلیق کا تذکرہ اور پھر ازدواجی زندگی کے فائدہ کا بیان کہ اس کا مقصد زوجین کا ایک دوسرے کے ذریعہ سکون حاصل کرنا ہے۔ پھر شرک کی مذمت کہ ایسے کمزوروں کو اللہ کا شریک بناتے ہیں جو دوسروں کو تو کیا پیدا کریں گے خود اپنی پیدائش میں اللہ کے محتاج ہیں۔ جن بتوں کو یہ اپنا معبود سمجھتے ہیں وہ چلنے پھرنے اور دیکھنے سننے سے بھی محروم ہیں۔ جو اپنی مدد نہ کرسکیں وہ دوسروں کی کیا مدد کریں گے؟ ایک داعی الی اللہ کو اخلاق فاضلہ کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا ’’عفو و درگزر کرتے ہوئے نیکی کا حکم دیتے رہیں، اگر کبھی شیطان کے اثرات سے کوئی نازیبا حرکت سرزد ہوجائے تو اللہ کی پناہ میں آکر تقویٰ اور نصیحت کو اختیار کرلینا چاہئے۔ اتباع اور پیروی کے لئے وحی الٰہی کا ہونا ضروری ہے۔ جب قرآن پڑھاجائے تو توجہ سے سنیں اور صبح و شام اللہ کو یاد کرتے رہیں۔ اللہ کے برگزیدہ بندے اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے۔ وہ اس کی تسبیح و تحمید کرتے ہوئے اس کے حضور سجدہ ریز رہتے ہیں۔

سورہ الانفال
انفال کے معنیٰ مال غنیمت کے ہیں، اس سورہ میں غنیمت کے احکام کا بیان ہے۔ اس میں غزوہ بدر کا تفصیلی تذکرہ ہے اس لئے بعض مفسرین نے اسے سورہ بدر بھی کہا ہے۔ پچھتر آیات اور دس رکوعات پر مشتمل یہ مدنی سورہ ہے۔
اس سورہ میں چھ مرتبہ یا ایہا الذین اٰمنوا کہہ کر خطاب کرتے ہوئے یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ دیئے جانے والے احکام پر عمل ایک مسلمان کے ایمان کا اولین تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یہ لوگ مال غنیمت کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ مال غنیمت اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہے وہ جس طرح چاہے اس کی تقسیم کا حکم جاری کرے۔ پھر کامل ایمان والوں کی صفات، اللہ کے ذکر سے متاثر ہونا، کلام اللہ کو سن کر دلوں کا نرم ہوجانا اور اللہ پر توکل کرنا مذکور ہے۔ پھر بدر کے ابتدائی مرحلہ کا تذکرہ ہے کہ نکلتے وقت تمہارے بعض لوگ پوری طرح تیار نہ ہونے کی وجہ سے جہاد پر آمادہ نہیں تھے۔ لیکن جب نبی کے ساتھ مل کر کافروں سے مقابلہ کے لئے میدان میں آگئے تو اللہ نے فرشتے اتا رکر تمہاری مدد فرمائی۔ کافر قتل اور زخمی ہوئے اور میدان سے راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ مجاہدین کی عظمت کا بیان ہے کہ تم نے جو کافر قتل اور گرفتار کئے یا ان پر تیر برسائے تو درحقیقت وہ اللہ نے سب کچھ کیا۔ پھر بتایا کہ میدان جہاد سے بھاگنے والے کا ٹھکانہ جہنم ہے البتہ اگر مزید تیاری کرکے دوبارہ حملہ آور ہونے کے ارادے سے پیچھے ہٹا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اللہ اور اسکے رسول کا جب بھی کوئی حکم آئے تو اس پر عمل کرنے میں تاخیر نہ کریں اس میں تمہاری حیات کا راز مضمر ہے۔ کافر لوگ نبی کو گرفتار یا قتل کرنا چاہتے ہیں یا انہیں علاقہ بدر کرنے کے لئے کوشاں ہیں مگر ان کی سازشیں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی اور ان کی سازشوں کا توڑ کرتے رہیںگے۔ اسلام کا راستہ روکنے کے لئے کافر اپنا مال خرچ کررہے ہیں مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہ جتنا مال چاہیں خرچ کردیں آخر کار انہیں اپنا مال ضائع ہونے پر حسرت اور افسوس ہی ہوگا۔ دشمنان اسلام کو یہ پیغام دے دو کہ اگر وہ اسلام دشمن ہتھکنڈوں سے باز آجائیں تو انہیں معافی مل سکتی ہے ورنہ پہلی قوموں کی گرفت، نظام دنیا کے سامنے موجود ہے۔ قتال فی سبیل اللہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک دنیا سے فتنہ و فساد ختم ہوکر دین اسلام کا نظام پوری دنیا پر غالب نہ آجائے۔

اہم پوائنٹس اور عمل کی باتیں
ناپ تول میں کمی کرنا ۔شعیب ؑ کی نصیحت کا کوئی اثر نہ لینا نتیجہ زلزلے نے انہیں آلیا ۔

بڑے عذاب سے قبل تنگی اور خوشحالی کے ذریعے امتحان لیا جاتا ھے تا کہ اللہ کے آگے عاجزی اختیار کی جائے ۔

حالت امن ایک امتحان ھے ۔امن میں ھوتے ھوئے اللہ کو بھول جانا استدراج ھے ۔جسکی پکڑ سخت ھے ۔

معجزات موسیٰ یعنی عصا کا اژدھا بن جانا اور ھاتھ کا سفید چمکتا ھوا نکلنا حق کی دلیل کے طور پر دئیے گئے ۔

فرعون کے جادوگروں نے حق کو پہچان کر فورا قبول کر لیا اور اس پر جم گئے ۔

ال فرعون کی آزمائشیں مثلا قحط ، پھلوں کی کمی ،طوفان ،ٹڈیاں ،جوئیں ، مینڈک اور خون کا بھیجنا ۔عذاب ٹالنے کے لیئے ہر دفعہ ایمان لانے کا وعدہ کرنا مگر عذاب ٹلتے ھی پھر خلاف ورزی کرنا ۔

بت پرستی کی نفسیات یہ ھے کہ بتوں کے گرد موجود زیب وزینت سے متاثر ھر کر انسان انکی پرستش کرنے لگتا ھے برخلاف اس کے اللہ کی ہستی نگاہ سے اوجھل ھے اور کوئی ظاہری کشش نہیں اس لیئے اسکی عبادت پر یکسو ھونا مشکل لگتا ھے ۔

حق سے انکار اور لوگوں کو حقیر جاننا تکبر کہلاتا ھے ۔رائی کے دانے کے برابر تکبر کرنے والا شخص جنت میں نہ جا سکے گا ۔

اللہ کی وسیع رحمت متقی ،زکواۃ دینے والوں اور آیات پر ایمان لانے والوں کے لئے ھے ۔

کامیابی کا راز نبی امی کا مقام پہچاننے ،انکی تائید کرنے اور ان پر نازل کردہ کتاب کی پیروی کرنے میں ھے ۔

حالات کچھ بھی ہوں اللہ کی کتاب کو نہیں چھوڑنا ۔کیونکہ نجات اسی میں ھے ۔

سب روحوں سے اللہ کے رب ھونے کا اقرار لیا گیا تا کہ وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ھمیں تو علم ھی نہ تھا ۔

دین کا علم آنے کے بعد دین چھوڑ کر دنیا کی طرف لپک پڑنا کتے کی طرح کا لالچ ھے ۔

دل ۔کان ۔آنکھ سے حق کو نہ سمجھنے اور قبول نہ کرنے والوں کی اکثریت جہنم میں ھو گی ۔

نبیؐ کو غیب کا علم نہیں تھا ۔اگر علم ھوتا تو آپؐ کو کوئی تکلیف نہ پہنچ سکتی اور آپؐ بروقت پیش بندی کر لیتے ۔

اللہ کے سوا کسی کو نہیں پکارنا کیونکہ باقی سب اللہ کے بندے ھیں اور کچھ قدرت نہیں رکھتے ۔

درگزر کے ساتھ بھلائی کا حکم دینا اور جاھلوں سے الجھنے کے بجائے اعراض کرنا چاھیے ۔

قران پڑھا جا رھا ھو تو خاموش رہنا اور غور سے سننا آداب قران میں سے ھے ۔

تعلقات کی اصلاح دنیا بھر کے مال و متاع سے بہتر ھے اس لئے مال کی خاطر لڑنے سے بچنا ۔

مومن وہ ھیں جن کے دل ذکر الہٰی سے ہل جائیں ،ایمان بڑھ جائے ۔نماز قائم کریں ،اللہ کے راستے میں خرچ کریں ۔

متقی بننے کا فائدہ یہ ھوگا کہ دل میں میزان حاصل ھو گی اور گناہ معاف ھونگے ۔

اللہ ھی سچا دوست ھے ۔نعم المولیٰ ونعم النصیر۔

♻آئیے دنیا کے اس امتحان میں کامیابی کے لئے اللہ سے مدد طلب کریں۔۔
 
Top