• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عورتوں کی باجماعت نماز ۔۔۔ ایک جائزہ

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
عورتوں کی باجماعت نماز
ڈاکٹر عبد الحی ابڑو

وحی متلوّ اور غیر متلوّ ، یعنی قرآن و سنت، فقہ اسلامی کے بنیادی مآخذ ہیں۔ ان کے بعد اجتہاد کا درجہ ہے جس پر اگر باہمی اتفاق ہوجائے تو اجماع قرار پاتا ہے اور مصادر نقلیہ (قرآن و سنت و اجماع) میں وحی کے بعد اس کی حجیت اور اہمیت مسلّمہ ہے۔ اجتہاد اگر اجماع کا درجہ نہ پاسکے تو وہ انفرادی راے کے درجے میں ہوگا اور عامی کے لیے عمل کے سلسلے میں اس کے حجت ہونے پر اکثر اہل علم متفق ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ائمہ اربعہ اور دیگر فقہاے مجتہدین کی اجتہادی آرا ایک وقیع سرمایے کی حیثیت رکھتی ہیں جس سے ہر دور میں اُمت نے استفادہ کیا ہے اور دینی مسائل میں بجاطور پر رہنمائی حاصل کی ہے۔ علماے محققین ابتدا ہی سے اس بارے میں اعتدال و توازن کی راہ اپنانے پر زور دیتے آئے ہیں کہ اگر فقہی مذاہب کی کوئی راے ایسی ہو جو نصِ صریح سے ٹکراتی نظر آتی ہو تو ترجیح بہرحال نص ہی کو دی جائے گی۔ بحث و تحقیق کی یہ ایک وسیع جولان گاہ ہے جس میں اہلِ نظر کی عمدہ کاوشیں ہم دست ہیں۔ اس بنیادی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے ان سطور میں عورتوں کی باجماعت نماز کا ایک سرسری جائزہ لینا مقصود ہے۔
حنفی فقہ کی کتب میں عورتوں کی جماعت کو بالعموم مکروہ بتایا گیا ہے۔ چنانچہ ہدایہ کی ایک عربی عبارت کا ترجمہ یوں ہے: ’’صرف عورتوں کی الگ جماعت مکروہ ہے، اس لیے کہ وہ ایک حرام و ممنوع امر کے ارتکاب سے خالی نہیں ہوسکتی اور وہ ہے : ان کی امام کا صف کے درمیان کھڑا ہونا، جیسے اس صورت میں ہوتا ہے جب لباس سے محروم لوگ باجماعت نماز ادا کریں، لیکن اگر عورتیں نماز باجماعت ہی ادا کرنا چاہیں تو (عورت) امام کو ان کے درمیان میں کھڑا ہونا چاہیے، اس لیے کہ حضرت عائشہؓ نے ایسا ہی کیا تھا، مگر ان کا یہ فعل ابتداے اسلام پر محمول کیا گیا ہے (لہٰذا اس سے عورتوں کی جماعت کے جواز کے حق میں استدلال نہیں کیا جاسکتا)‘‘۔
در مختار میں اس سے ذرا آگے بڑھ کر عورتوں کی جماعت کے مکروہ تحریمی ہونے کی صراحت کی گئی ہے، اگرچہ وہ تراویح کی جماعت ہی ہو۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ احناف کے نزدیک عورت کی امامت مکروہ ہے، البتہ اگر وہ باجماعت نماز ادا کر ہی لیں تو وہ ادا ہو جائے گی۔
برعظیم پاک و ہند کے حنفی مفتی حضرات کا رجحان بھی اسی طرف ہے، اور وہ احناف کے روایتی نقطۂ نظر کی پیروی میں عورتوں کی امامت کو مکروہ قرار دیتے ہیں اور ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی بچیوں کی تحفیظ القرآن کی درس گاہوں کے باوجود نماز تراویح وغیرہ میں حافظات کی امامت کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں (برعظیم کے نام وَر حنفی محقق مولانا عبدالحی لکھنوی کوالبتہ ایک استثنا قرار دیا جاسکتا ہے جنھوں نے اس بارے میں الگ رسالہ تحریر کیاہے جس میں احناف کے دلائل کاردّ کرکے عورتوں کی جماعت کے جواز کو ثابت کیا ہے)۔
احناف کی راے سے بھی زیادہ متشدّد انہ راے مالکی فقہاکی ہے جو عورت کی امامت کو فرائض یا نوافل، دونوں طرح کی نمازوں میں سرے سے درست نہیں سمجھتے۔ البتہ شافعی فقہاکے نزدیک اور حنابلہ کے ایک قول کے مطابق عورت کا عورتوں کی امامت کرانا، نہ صرف درست، بلکہ مستحب ہے۔
ان کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلمہؓ کے بارے میں صحیح روایات سے ثابت ہے کہ انھوں نے فرائض و نوافل میں عورتوں کی امامت کی۔ اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری صحابیہ ام ورقہؓ بنت نوفل سے فرمایا تھا کہ وہ اپنے محلّے کی عورتوں کی امامت کرلیاکریں۔ آپ ؐنے اس کے لیے ایک بوڑھے مؤذن کا تقرر بھی فرمایا تھا۔ حضرت عائشہؓ ، حضرت اُم سلمہؓ اور حضرت ام ورقہؓ کی امامت کی احادیث و آثار سنن ابی داؤد، مستدرک حاکم، بیہقی،دارقطنی، مصنف عبدالرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ، امام محمد کی کتاب الآثار اور دیگر کتب حدیث میں روایت ہوئے ہیں۔ دیگر ناقدین احادیث کے علاوہ ابن حزم، نووی، زیلعی اور ابن حجر وغیرہ جیسے محققین نے ان کی صحت کو تسلیم کیا ہے۔ اس لیے ان صحابیات کا امامت کرانا کسی شک و شبہے سے بالاتر ہے۔سعودی عرب اور مصر کی فتویٰ کونسلوں کے علاوہ موجودہ دور کے نام وَر عرب علمانے بھی عورتوں کی امامت کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ ان میں شیخ ابن باز ، شیخ صالح المنجد، شیخ یوسف القرضاوی اور دیگر حضرات شامل ہیں۔
اب رہا یہ سوال کہ علماے احناف نے جو راے اختیار کی ہے اور اس کے لیے جو استدلال کیا ہے، اس کا کیا جواب ہے؟ خوش قسمتی سے اس کا شافی اور مسکت جواب خود ایک حنفی عالم شارح ہدایہ ، علامہ بدر الدین عینی (م:۸۵۵ھ) کی البنایہ شرح الہدایہ میں ملتا ہے۔ علامہ عینی کی شخصیت اور ان کی تالیفات خاص طور پر بخاری اور ہدایہ کی شروح کا جو مقام ہے، اس سے تمام حنفی اہلِ علم بخوبی واقف ہیں، لہٰذا آپ کی راے کو سطحی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ علامہ عینی نے عورت کی امامت کے جواز پر وارد ہونے والے تمام اعتراضات کا جائزہ لیا ہے اور تشفی بخش جوابات دیے ہیں۔
●بدعت کا پہلو: ایک حنفی عالم علامہ اترازی کی اس بات پر کہ ’’عورت کی امامت ہمارے نزدیک مکروہ مگر شافعیؒ کے نزدیک مستحب ہے‘‘، کہتے ہیں کہ اگر یہ مستحب ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو بیان فرماتے، لہٰذا عورت کی امامت بدعت اور مکروہ ہے‘‘ ، علامہ عینی اس کے جواب میں کہتے ہیں : ’’امام شافعیؒ کے علاوہ اوزاعیؒ ، ثوریؒ اور امام احمدؒ کا بھی یہی قول ہے۔ ابن منذر نے اسے حضرت عائشہؓ اور حضرت اُم سلمہؓ سے بھی نقل کیا ہے۔ اگر امرِ واقع یہی ہے تو عورتوں کی امامت بدعت کیسے قرار پائے گی؟ بدعت تو ایسی نئی بات ایجاد کرنے کا نام ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نہ تھی، جب کہ ابوداؤد نے سنن ابی داؤد، باب امامۃ النساء میں اُم ورقہؓ کی روایت بیان کی ہے (یہ روایت اوپر آچکی ہے) ۔ نیز مصنف عبد الرزاق میں حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ عورت عورتوں کی امامت کرا سکتی ہے اور وہ ان کے درمیان میں کھڑی ہو۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عائشہؓ اور حضرت اُم سلمہؓ کے بارے میں روایات آئی ہیں کہ انھوں نے صف کے درمیان کھڑے ہوکر عورتوں کی امامت کی‘‘۔
●حرام کا ارتکاب: صاحبِ ہدایہ کے اس قول کہ ’’عورتوں کی امامت ایک ناجائز فعل کے ارتکاب سے خالی نہیں ہے اور وہ ہے ان کی امام کا صف کے درمیان کھڑا ہونا‘‘، علامہ عینی اس پر کہتے ہیں : ’’امام کا ان کے درمیان کھڑا ہونا حرام کیسے ٹھیرا؟ جب کہ حضرت عائشہؓ اور حضرت اُم سلمہؓ سے اس کا فعل اور حضرت ابن عباسؓ سے اس کی تصریح موجود ہے۔ مزید برآں اس حوالے سے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ حرمت صرف مردوں کے لیے ہے، عورتوں کے لیے نہیں‘‘۔
●کراہت کا پہلو: صاحبِ ہدایہ کہتے ہیں:’’اس لیے عورتوں کی امامت مکروہ ہے ‘‘۔ علامہ بدر الدین عینی اس پر کہتے ہیں: ’’کیسے مکروہ ہے؟ جب کہ محلّٰی میں ہے کہ حضرت عائشہؓ نے نماز مغرب میں عورتوں کی امامت کی اور بلند آواز سے قراء ت کی، اور حضرت ام سلمہؓ نے عصر کی امامت کی۔ امام محمد نے کتاب الآثار میں ابراہیم نخعی کی سند سے روایت کیا ہے کہ حضرت عائشہؓ رمضان میں عورتوں کی امامت کرتی اور ان کے درمیان کھڑی ہوتی تھیں۔ اس سے اترازی کی ’’بدعت‘‘ اور صاحبِ ہدایہ کی ’’ارتکاب محرم‘‘ والی بات کی تردید ہوتی ہے‘‘۔
●جواز امامت کا ابتداے اسلام پر محمول کرنا: علامہ عینی، علامہ اترازی کا قول نقل کرتے ہیں کہ ’’حضرت عائشہؓ کی امامت کرانے کی بات آغاز اسلام کی ہے، بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا جب ازواجِ مطہراتؓ کو گھروں میں ٹکی رہنے کا حکم دیا گیا‘‘۔ علامہ عینی اس کے رد میں فرماتے ہیں: ’’یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جس نے سیر و سوانح کی کتب کو دیکھا تک نہیں! اصل صورت حال یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ سے آپؐ کا نکاح مدینہ منورہ میں ہوا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انھوں نے نو سال گزارے۔ ظاہر ہے کہ انھوں نے امامت سنِ بلوغ کو پہنچنے کے بعد ہی کی ہے، تو یہ اس کو ابتداے اسلام پر محمول کرنے والی بات کیسے درست ہوگی!‘‘
●بعض دیگر شبہات : ایک اور شبہہ یہ کیا جاتاہے کہ اگر عورتوں کی جماعت مشروع ہوتی تو اس کا ترک کرنا مکروہ ہوتا اور وہ اسی طرح رواج پاتی جس طرح مردوں کی جماعت مروج ہوئی! یہ اور اس طرح کے دیگر شبہات کا ذکر کر کے علامہ عینی فرماتے ہیں: یہ تمام اعتراضات درست نہیں۔ اس لیے کہ کسی چیز کے مشروع ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کا چھوڑ دینا مکروہ ہے۔ یہ کوئی کلیہ نہیں، اس لیے کہ مشروع چیز اگر فرض ہو تو اس کا چھوڑنا حرام ہے، سنت ہو تو چھوڑ دینا مکروہ ہے، اور اگر مندوب و مستحب ہو تو اس کو چھوڑا بھی جا سکتا ہے اور چھوڑ دینا مکروہ نہیں‘‘۔
درج بالا دلائل جواز اور امام عینی کے استدلال اور مانعین کے دلائل کے رد کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عورت کا عورتوں کی امامت کرانا نہ صرف جائز بلکہ استحباب کا درجہ رکھتا ہے۔

_______________

* مضمون نگار بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد میں استاد ہیں​
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
درج بالا دلائل جواز اور امام عینی کے استدلال اور مانعین کے دلائل کے رد کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عورت کا عورتوں کی امامت کرانا نہ صرف جائز بلکہ استحباب کا درجہ رکھتا ہے۔
السلام و علیکم۔
کیا آپ قرٰآن مجید کی کسی آیت سے ثابت کرسکتے ہیں؟ اگر نہیں تو آپ کی پوسٹ میں دئیے گئے دلائل کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
درج بالا دلائل جواز اور امام عینی کے استدلال اور مانعین کے دلائل کے رد کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عورت کا عورتوں کی امامت کرانا نہ صرف جائز بلکہ استحباب کا درجہ رکھتا ہے۔

السلام و علیکم۔
کیا آپ قرٰآن مجید کی کسی آیت سے ثابت کرسکتے ہیں؟ اگر نہیں تو آپ کی پوسٹ میں دئیے گئے دلائل کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔


وعلیکم السلام مسلم بھائی!
گویا آپ کے نزدیک احادیث کی کوئی حیثیت نہیں ہے ؟؟؟
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
السلام و علیکم۔
کیا آپ قرٰآن مجید کی کسی آیت سے ثابت کرسکتے ہیں کہ عورت صلاۃ کی امامت کرسکتی ھے؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
السلام و علیکم۔
کیا آپ قرٰآن مجید کی کسی آیت سے ثابت کرسکتے ہیں کہ عورت صلاۃ کی امامت کرسکتی ھے؟
اگرچہ اس موضوع میں عورت کی امامت سے مجھے بھی اختلاف ہے۔ لیکن مسلم صاحب آپ کا طرز استدلال غلط ہے۔ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ قرآن کی کسی آیت سے ثبوت نہ ملے تو وہ چیز مردود ہو جاتی ہے؟ تو پھر میرا سوال ہے کہ کیا آپ قرآن مجید کی کسی آیت سے ختنہ کا ثبوت لا سکتے ہیں؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
مسلم صاحب نے پہلے بھی مختلف پوسٹس میں حدیث پر اعتراضات کیے تھے، جس میں ان کی کہا گیا تھا کہ ہر پوسٹ میں حدیث پر اعتراض کرنے کی بجائے حدیث کی حجیت کے حوالے سے مخصوص دھاگے میں اس موضوع پر دلائل کے ساتھ بات کو آگے بڑھائیں لیکن وہ غائب ہوگئے تھے۔

اب پھر مختلف پوسٹس پر انہوں نے حدیث پر اعتراضات شروع کر دیے ہیں، لہٰذا ان سے التماس ہے کہ ہر پوسٹ میں یہ اعتراض کرنے کی بجائے مخصوص تھریڈ میں ہی بات کو آگے بڑھائیں!
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
اگرچہ اس موضوع میں عورت کی امامت سے مجھے بھی اختلاف ہے۔ لیکن مسلم صاحب آپ کا طرز استدلال غلط ہے۔ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ قرآن کی کسی آیت سے ثبوت نہ ملے تو وہ چیز مردود ہو جاتی ہے؟ تو پھر میرا سوال ہے کہ کیا آپ قرآن مجید کی کسی آیت سے ختنہ کا ثبوت لا سکتے ہیں؟



محترم انس نضر صاحب اور شاکر صاحب۔
السلام و علیکم۔
مصروفیت زیادہ ہے ۔ اس لئے اس تھریڈ میں نہایت مختصر سا سوال کیا تھا۔ انس نضر صاحب سے جو گفتگو چل رہی تھی، اسکے لئے
ذیادہ وقت درکار ھے۔



شاکر بھائی آپ کے سوال کا جواب ھے کہ ختنہ کرانا یہودی دین کے مطابق ضروری ھے۔ یہودیوں سے ہی یہ چیز مسلمان معاشرے میں
آئی ھے۔
ختنہ کرانا ، اللہ کا حکم نہیں ھے۔ ختنہ کرانا منع بھی نہیں ھے۔


ختنہ کرانے کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ھے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
ختنہ سنت اور اسلام کے شعائر و خصائص میں سے ہے۔ نیز یہ دیگرانبیاء علیہم السلام کا طریقہ بھی رہا ہے، حدیث میں آتا ہے کہ چار چیزیں رسولوں کی سنتیں ہیں: ختنہ کرانا، مسواک کرنا، عطر لگانا، نکاح کرنا۔ "قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: أربع من سنن المرسلین الحیاء ویروی الختان، والتعطر، والسواک، والنکاح " (رواہ الترمذي)۔

لہٰذا یہ کہنا غلط ہے کہ ۔۔۔ ختنہ کرانے کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ھے۔۔۔ بہت سے امورکئی ادیان (بشمول اسلام) میں مشترک ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان امور کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کہ یہ پہلے کے ادیان میں بھی رائج تھا۔
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
بہت سے امورکئی ادیان (بشمول اسلام) میں مشترک ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان امور کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کہ یہ پہلے کے ادیان میں بھی رائج تھا۔
السلام علیکم۔

إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّـهِ الْإِسْلَامُ ۗ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللَّـهِ فَإِنَّ اللَّـهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ ﴿١٩﴾

اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے اُن لوگوں نے اختیار کیے، جنہیں کتاب دی گئی تھی، اُن کے اِس طرز عمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انہوں نے علم آ جانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا اور جو کوئی اللہ کے احکام و ہدایات کی اطاعت سے انکار کر دے، اللہ کو اس سے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی ہے (19)


محترم، تصحیح فرمالیں، دین اللہ کے نذدیک صرف اسلام ھے۔ اسلام سے پہلے کوئی دین نہیں ھے۔ تمام انبیاء، اللہ کے مسلم تھے اور ان پر ایمان لانے والے مسلمان تھے۔

لہذا آپ کا دین کے بارے میں تصور درست نہیں ھے۔ نہ صرف دین ایک ھے بلکہ شریعت بھی ایک ہی ھے۔


شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰ ۖ أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ۚ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ ۚ اللَّـهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ ﴿١٣﴾


تمہارے لیے دین کی وہ راہ ڈالی جس کا حکم اس نے نوح کو دیا اور جو ہم نے تمہاری طرف وحی کی اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا کہ دین ٹھیک رکھو اور اس میں پھوٹ نہ ڈالو مشرکوں پر بہت ہی گراں ہے وہ جس کی طرف تم انہیں بلاتے ہو، اور اللہ اپنے قریب کے لیے چن لیتا ہے جسے چاہے اور اپنی طرف راہ دیتا ہے اسے جو رجوع لائے (13)
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
دین اللہ کے نذدیک صرف اسلام ھے۔ اسلام سے پہلے کوئی دین نہیں ھے۔ تمام انبیاء، اللہ کے مسلم تھے اور ان پر ایمان لانے والے مسلمان تھے۔
بالکل درست۔ حضرت آدم علیہ السلام تا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ،تمام انبیاء علیہ السلام نے دین اسلام ہی کو پیش کیا۔ لیکن کسی سچے نئے نبی کی آمد کے بعد اسے نہ ماننے والے ’’مسلمان‘‘ نہیں رہے اور وہ عرفا" سابقہ نبی کی نسبت سے یہودی، عیسائی وغیرہ کہلانے لگے۔ میرا اشارہ اسی طرف تھا۔

لہذا آپ کا دین کے بارے میں تصور درست نہیں ھے۔ نہ صرف دین ایک ھے بلکہ شریعت بھی ایک ہی ھے۔
دین بلا شبہ ہر نبی علیہ السلام نے ایک ہی یعنی اسلام پیش کیا۔ لیکن انبیا علیہ السلام کی ’’شریعت‘‘ میں ’’واضح فرق‘‘ بھی موجود رہا ہے۔ جیسے ’’روزسبت‘‘ کے احکامات بنی اسرائیل کے لئے نازل ہوئے تھے۔ لیکن یہ احکامات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں موجود نہیں ہیں۔
 
Top