یہ تمام دراصل فتاوی ہیں علماء اور آئمہ کی جانب سے۔ صحاح ستہ میں کوئی ایک بھی عورت کی امامت کے حوالے سے حدیث موجود نہیں اور اگر ہے تو حوالہ دے کر رہنمائی فرمائیں۔
عزیز بھائی اس مسئلہ ميں علما كرام كا اختلاف ہے كہ كيا عورت نماز ميں عورتوں كى امام بن سكتى ہے يا نہيں؟ ايك گروہ اس كے جواز كا قائل ہے- ايك روايت ميں آيا ہے كہ
وكان رسول اللهﷺ يزورها في بيتها وجعل لها مؤذنا يؤذن لها وأمرها أن تؤم أهل دارها(سنن ابو داود، كتاب الصلوٰة،باب إمامة النسائح ٥٩٢ وعنه البيهقي في الخلافياتقلمى ص٤ب)
”رسول اللہ ﷺ اُن )امّ ورقہ ( كى ملاقات كے لئے اُن كے گهر جاتے، آپ نے اُن كے لئے اذان دينے كے لئے ايك موٴذن مقرر كيا تها اور آپ ﷺ نے انہيں (اُمّ ورقہ ) كو حكم ديا تها كہ اپنے گهر (يا قبيلے، محلے) واليوں كو (فرض) نماز پڑهائيں- “
اس حديث كا بنيادى راوى وليد بن عبداللہ بن جميع ’صدوق، حسن الحديث‘ ہے (تحرير تقریب التہذیب:٧٤٣٢)
يہ صحيح مسلم وغيرہ كا راوى اور جمہور محدثين كے نزديك ثقہ و صدوق ہے لہٰذا اس پر جرح مردود ہے۔
وليد كا اُستاد عبدالرحمن بن خلاد ابن حبان، ابن خزيمہ اور ابن الجارود كے نزديك ثقہ وصحيح الحديث ہے، لہٰذا اس پر حالہ مجہول والى جرح مردود ہے-
لیلىٰ بنت مالك (وليد بن جمیع كى والدہ)كى توثیق ابن خزيمہ اور ابن الجارود نے اس كى حديث كى تصحیح كركے كردى ہے لہٰذا اس كى حديث بهى حسن كے درجہ سے نہيں گرتى- نيز ابن خزيمہ (١٦٧٦) اور ابن الجارود (المُنتقىٰ:٣٣٣) نے بهى اسے صحيح قرار ديا ہے-
حديث كا مفہوم
اس حديث كا مفہوم كيا ہے؟ اس كے لئے دو اہم باتيں مدنظر ركهيں :
اوّل:
ايك حديث كى شرح ديگر احاديث سے ہوتى ہے ، اس كے لئے حديث كى تمام سندوں اور متون كو جمع كركے مفہوم سمجھا جاتا ہے-
دوم:
سلف صالحین (محدثين كرام، راويانِ حديث) نے حديث كى جو تفسیراور مفہوم بيان كيا ہوتا ہے، اسے ہميشہ مدنظر ركها جاتا ہے، بشرطيكہ سلف كے مابين اس مفہوم پر اختلاف نہ ہو-
اُمّ ورقہ والى حديث پر امام ابن خزيمہ (متوفى ٣١١ھ) نے درج ذيل باب باندها ہے:
”باب إمامة المرأة النساء في الفريضة“ (صحيح ابن خزيمہ ٣/٨٩ ح١٦٧٦)
امام ابوبكر بن منذر نيسا بورى (متوفى ٣١٨ھ) فرماتے ہيں:
”ذكر إمامة المرأة النساء في الصلوات المكتوبة“ (الاوسط فى السنن والاجماع والاختلاف: ٤/٢٢٦)
ان دونوں محدثين كرام كى تبويب سے معلوم ہوا كہ اس حديث ميں
أهل دارهاسے مراد عورتيں ہيں، مرد نہيں- محدثين كرام ميں اس تبويب پر كوئى اختلاف نہيں ہے-
امام ابوالحسن دارقطنى (متوفى ٣٨٥ھ) فرماتے ہيں :
حدثنا أحمد بن العباس البغوي: ثنا عمر بن شبه: (ثنا) أبو أحمد الزبيري: نا الوليد بن جميع عن أمه عن أم ورقة أن رسول الله ﷺ أذن لها أن يؤذن لها و يقام وتؤم نساء ها (سنن الدارقطني:١/٢٧٩ ح١٠٧١ وسنده حسن،وعنہ ابن الجوزي في التحقيق مع التنقيح: ١/٢٥٣ ح ٤٢٤ وضعفہ،دوسرا نسخہ: ١/٣١٣ ح٣٨٧،اتحاف المہرة لابن حجر: ١٨/٣٢٣)
”بے شك رسول الله ﷺ نے اُمّ ورقہ كو اس كى اجازت دى تهى كہ اُن كے لئے اذان اور اقامت كہى جائے اور وہ اپنے(گهر، محلے كى) عورتوں كى (نماز ميں) امامت كرائيں-“
اس روايت كى سند حسن ہے اور اس پر ابن جوزى كى جرح غلط ہے- ابو احمد محمد بن عبداللہ بن الزبير زبيرى صحاحِ ستہ كا راوى اور جمہور كے نزديك ثقہ ہے، لہٰذا صحيح الحديث ہے-
امام یحیىٰ بن معين نے كہا :ثقة،
ابوزرعہ رازى نے كہا: صدوق،
ابوحاتم رازى نے كہا:
حافظ للحديث عابد مجتهد له أوهام (الجرح والتعديل: ٧/٢٩٧)
عمر بن شبہ:
صدو ق لہ تصانيف (تقريب التہذيب:٤٩١٨ ) بلكہ ثقہ ہے (تحرير تقريب التہذيب: ٣/٧٥) ،
حافظ ذہبى نے كہا:
ثقہ ہے(الكاشف: ٢/٢٧٢)
احمد بن العباس بغوى: ثقہ ہے - (تاريخ بغداد: ٤/٣٢٩ ت ٢١٤٤)
اس تفصيل سے معلوم ہوا كہ يہ سند حسن لذاتہ ہے- اس صحيح روايت نے اس بات كا قطعى فيصلہ كر ديا كہ
”أهل دارها“ سے مراد امّ ورقہ كے گهر اور محلے قبيلے كى عورتيں ہيں، مرد مراد نہيں ہيں-
رہا يہ مسئلہ كہ يہ الفاظ سنن دارقطنى كے علاوہ حديث كى كسى دوسرى كتاب ميں نہيں ہيں تو عرض ہے كہ امام دارقطنى ثقہ و قابل اعتماد امام ہيں- شيخ الاسلام ابوطيب طاہر بن عبداللہ طبرى (متوفى ٤٥٠ھ) نے كہا:
كان الدارقطني أميرالمؤمنين في الحديث (تاريخ بغداد: ١٢/٣٦ت ٦٤٠٤)
خطيب بغدادى (متوفى٤٦٣ھ) نے كہا:
وكان فريد عصره و قريع دهره و نسيج وحده و إمام وقته، انتهٰى إليه علم الأثر والمعرفة بعلل الحديث وأسماء الرجال وأحوال الرواة مع الصدق والأمانة والفقه والعدالة (وفي تاريخ دمشق عن الخطيب قال: والثقة والعدالة:٤٦/٦٧) وقبول الشهادة وصحة الاعتقاد وسلامة المذهب (تاريخ بغداد: ١٢/٣٤ ت ٦٤٠٤ )
”وه نابغہ روزگار اور اپنے وقت كا امام تها-علم حديث اور علل حديث،اسماء الرجال اور راويوں كے حالات كى پہچان اس پر ختم تهى اور اسكے ساتھ ساتھ وہ صدق وامانت،فقہ ، ثقاہت وعدالت ميں بهى باكمال تها-نيز وہ صحيح العقیدہ اور صحيح المذہب اور گواہى ميں معتبر آدمى تها-“
حافظ ذہبى نے فرمايا:
الإمام الحافظ المجود،شيخ الاسلام علم الجهابذة (سيرأعلام النبلاء: ١٦/٤٤٩)
اس جليل القدر امام پر متاخر حنفى فقيہ محمود بن احمد عينى (متوفى ٨٥٥ھ) كى جرح مردود ہے، حتى كہ عبدالحئ لكھنوى حنفى اس عینى كے بارے ميں لكھتے ہيں كہ
ولولم يكن فيه رائحة التعصب المذهبي لكان أجود وأجود (الفوائد البهية:ص ٢٠٨)
”اگر اس ميں مذہبى (یعنى حنفى) تعصب كى بو نہ ہوتى تو بہت ہى اچها ہوتا-“
نوٹ:
امام دارقطنى تدليس كے الزام سے بهى برى ہيں، ديكهئے:ميرى كتاب الفتح المبين في تحقيق طبقات المدلسين (١٩/١)
جب حديث نے بذاتِ خود حديث كا مفہوم متعين كرديا ہے اور محدثين كرام بهى اس حديث سے عورت كا عورتوں كى امامت كرانا ہى سمجھ رہے ہيں تو پهر لغت اور الفاظ كے ہيرپھیر كى مدد سے عورتوں كو مردوں كا امام بنا دينا كس عدالت كا انصاف ہے؟
ابن قدامہ لكھتے ہيں:
وهذا زيادة يجب قبولهااور اس (نساء ها) كے اضافہ كو قبول كرنا واجب ہے- (المغنى: ٢/١٦م ١١٤٠)
يہاں يہ بهى ياد رہے كہ آثارِ سلف صالحین سے صرف عورت كا عورتوں كى امامت كرانا ہى ثابت ہوتا ہے- عورت كا مردوں كى امامت كرانا يہ كسى اثر سے ثابت نہيں ہے-
چنانچہ
ريطہ الحنفية (قال العجلي: كوفية تابعية ثقة) سے روايت ہے كہ
أمتنا عائشة فقامت بينهن في الصلوٰة المكتوبة(سنن الدارقطني: ١/٤٠٤ح١٤٩٢ وسنده حسن،وقال النيموي في آثار السنن:٥١٤ وإسناده صحيح وانظر:كتابي أنوار السنن في تحقيق آثار السنن ق ١٠٣)
”ہميں عائشہ نے فرض نماز پڑهائى تو آپ عورتوں كے درميان ميں كهڑى ہوئيں-“
مشہور تابعی امام شعبى فرماتے ہيں كہ
تؤم المرأة النساء في صلوٰة رمضان تقوم معهن في صفهن (مصنف ابن ابى شيبہ: ٢/٨٩ ح٤٩٥٥ وسندہ صحيح،عنعنة هيثم عن حصين محمولة على السماع،انظر شرح علل الترمذي لابن رجب: ٢/٥٦٢ والفتح المبين في تحقيق طبقات المدلسين لراقم الحروف: ٣/١١١)
”عورت عورتوں كو رمضان كى نماز پڑهائے تو وہ ان كے ساتھ صف ميں كهڑى ہوجائے-“
ابن جريج نے كہا:
تؤم المرأة النساء من غير أن تخرج أمامهن ولكن تحاذي بهن في المكتوبة والتطوع“ (مصنف عبدالرزاق: ٣/١٤٠ ح ٥٠٨٠ و سندہ صحيح)
”عورت جب عورتوں كى امامت كرائے گى تو وہ آگے كهڑى نہيں ہوگى بلكہ ان كے برابر (صف ميں ہى) كهڑى ہوكر فرض و نفل پڑهائے گى -“
معمر بن راشد نے كہا:
تؤم المرأة النساء في رمضان وتقوم معهن في الصف (مصنف عبدالرزاق: ٣/١٤٠ ح٥٠٨٥ و سندہ صحيح)
”عورت عورتوں كو رمضان ميں نماز پڑهائے اور وہ اُن كے ساتھ صف ميں كهڑى ہو- “
معلوم ہوا كہ اس پر
سلف صالحين كا اجماع ہے كہ عورت جب عورتوں كو نماز پڑهائے گى تو صف سے آگے نہيں بلكہ صف ميں ہى ان كے ساتھ برابر كهڑى ہوكر نماز پڑهائے گى- مجهے ايسا ايك حوالہ بهى باسند صحيح نہيں ملا جس سے يہ ثابت ہو كہ سلف صالحين كے سنہرى دور ميں كسى عورت نے مردوں كو نماز پڑهائى ہو يا كوئى مستند عالم اس كے جواز كا قائل ہو-
ابن رشد (م ٥١٥ھ) وغيرہ بعض متاخرين نے بغير كسى سند و ثبوت كے يہ لكها ہے كہ ابوثور (ابراہیم بن خالد،متوفى ٢٤٠ھ) اور (محمد بن جرير) طبرى، متوفى ٣١٠ھ اس بات كے قائل ہيں كہ عورت مردوں كو نماز پڑها سكتى ہے- (ديكهئے بداية المجتھد:ج١/ ص١٤٥، المغنى فى فقہ الامام احمد: ٢/١٥ مسئلہ:١١٤٠) چونكہ يہ حوالے بے سند ہيں، لہٰذا غير معتبر ہيں-
نتيجہ تحقيق:
عورت كا نماز ميں عورتوں كى امامت كرانا جائز ہے مگر وہ مردوں كى امام نہيں بن سكتى- وما علينا الاالبلاغ
نوٹ
یہ اقتباس حافظ زبیر علی زئی صاحب﷾ کےمضامین سے لیا گیا ہے