• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معاذ دانش حميد الله

ماہ شعبان ،احکام ومسائل

ماہ شعبان ہجری سال کا آٹھواں مہینہ ہے جو در حقیقت رمضان کی تیاری کا مہینہ ہے، اس میں روزوں کی وہی اہمیت ہے جو فرض نمازوں کے ساتھ سنت مؤکدہ کی ہے ذیل کے سطور میں ماہ شعبان کے تعلق سے چند باتیں ذکر کی جارہی ہیں

شعبان کی وجہ تسمیہ

شعبان کا معنی ، بکھرنا ،پھیلنا۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

«
وسمي شعبان لتشعبهم في طلب المياه أو في الغارات بعد أن يخرج شهر رجب الحرام» فتح الباري (4/213)۔

اس مہینے کا نام شعبان اس لئے پڑا کیونکہ اہل عرب اس مہینے میں پانی کی تلاش میں ادھر ادھر بکھر جاتے تھے یا حرمت والے مہینے یعنی رجب کے بعد جنگ وجدال کے لئے منتشر ہو جاتے تھے۔

شعبان میں روزہ رکھنے کی حکمت

ماہ شعبان میں روزہ رکھنے کی دو حکمتیں ہیں جن کا تذکرہ اسامہ بن زيد رضي اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں ہوا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسولﷺ میں دیکھتاہوں کہ آپ باقی مہینوں میں اتنے روزے نہيں رکھتےجتنے شعبان میں رکھتے ہیں ؟

تو آپ نے
دو حکمتیں بیان فرمائیں :

١ -یہ ایسا مہینہ ہے جس میں لوگ غفلت کا شکار رہتے ہیں،
یہ مہینہ رجب اور رمضان کے مابین ہے ۔


٢
-اور یہ ایسا مہینہ ہے جس میں اعمال اللہ رب العالمین کے ہاں اٹھائے جاتے ہیں،

اورمیں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال روزے کی حالت میں اٹھائے جائيں ۔

(سنن نسائي :2356حسن)


پہلی حکمت کی توضیح


غفلت کے اوقات میں عبادت کی اہمیت

رجب حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے اور رمضان سب سے با برکت مہینہ ہے ان دونوں عظیم مہینوں کے درمیان ماہ شعبان آتا ہے اس لئے لوگ اس مہینے پر کوئی توجہ نہیں دیتے اور اس میں عمل کرنے سے غافل ہوجاتے ہیں جبکہ غفلت کے اوقات میں عبادت کی بڑی اہمیت ہے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا حدیث اسی پر دلالت کرتی ہے کہ آپ غفلت کے اوقات میں عبادت کا بڑا اہتمام کیا کرتے تھے ۔
شریعت مطہرہ نے غفلت کے اوقات میں امت کو بکثرت عبادت کرنے پر ابھارا ہے ساتھ ہی ایسے اوقات وحالات میں عبادت پر اجر کثیر رکھا ہے۔
آئیے چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں ۔

١- بازار میں اللہ کا ذکر کرنا

شریعت اسلامیہ نے بازار کو زمین کا سب سے بدترین جگہ قرار دیا ہے جہاں ہر شخص جھوٹ ،دغا بازی ،دھوکہ دھڑی اور مال کمانے میں حد درجہ منہمک ہوتا ہے لہذا یہ غفلت کی جگہ اور غفلت کا وقت ہے یہی وجہ ہے کہ بازار میں داخل ہونے کی دعا پڑھنے پر اجر کثیر رکھا گیا ہے دس لاکھ نیکیاں ،دس لاکھ گناہوں کی معافی ، دس لاکھ درجات کی بلندی اور جنت میں ایک گھر ،ظاہراً دیکھا جائے تو اس معمولی عمل پر اس قدر اجر کثیر کی بات سوچنے پر مجبور کردیتی ہے تاہم جب ہم بازار کی قباحت وشناعت اور ساری برائیوں اور خرابیوں کے منبع ومرکز پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو عقل بآسانی اس بات کو قبول کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے کہ ایسے غفلت کے مقام پر اللہ کی یاد دل میں لانا واقعی اجر کثیر کا متقاضی ہے

٢- قیام اللیل ادا کرنا

فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز قیام اللیل ہے آپﷺ نے تین دوسرے اعمال کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا :

وَصَلُّوا بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ، تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ "

(سنن ابن ماجه :3251صحيح)

کہ جب رات میں لوگ سورہے ہوں تو اٹھ کر نماز ادا کرو اگر ایسا کروگے تو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ گے

دراصل قیام اللیل کو فرائض کے بعد سب سے افضل نماز قرار دینے کی جہاں دیگر حکمتیں ہیں وہیں یہ بھی ہے کہ وہ غفلت کے اوقات میں ادا کی جاتی ہے

٣- فتنوں کے دور میں عبادت کرنا

رسول اللہﷺنے فرمایا:

العِبَادة في الهَرْج كهجرة إليَّ

(صحیح مسلم: 2984)

فتنہ وفساد کے وقت عبادت ہجرت کی طرح ہے ۔
کیونکہ لوگ اپنی خواہشات کی پیروی میں عمل سے یکسر غافل ہوجاتے ہیں ایسے حالات میں عبادت کرنا لوگوں کے لئے پر مشقت بن جاتا ہے۔

دوسری حکمت کی توضیح

بندوں کے اعمال اللہ کے پاس پیش کیا جانا

احادیث صحیحۃ کو جمع کرنے کے بعد ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بندوں کے اعمال اللہ کے پاس تین اوقات میں پیش کئے جاتے ہیں

پہلی پیشی :

ہر روز عصر وفجر کے وقت ہوتی ہے

(صحیح بخاری:555)

دوسری پیشی :

ہفتے میں دو دن سوموار اور جمعرات کو ہوتی ہے

(سنن ترمذی :747)

تیسری پیشی :

سال میں ایک بار شعبان میں ہوتی ہے

(سنن نسائي :2356حسن)

تاہم شعبان میں کس دن یا کس رات ہوتی ہے اس کی تفصیل صحیح احادیث میں موجود نہیں ہے لہذا اپنی جانب سے کسی رات یا دن کی تخصیص کرنا درست نہیں ہے
یہی دو عظیم حکمتیں ہیں جس کی وجہ سے اللہ کے رسولﷺ شعبان میں بکثرت روزوں کا اہتمام کیا کرتے تھے لہذا ہر امتی کو چاہئے کہ دین میں نئی چیزیں داخل کرنے کے بجائے اپنے نبی کی اقتدا کرے اسی میں دنیا وآخرت کی بھلائی ہے ۔

پندرہ شعبان کی رات کی فضیلت

پندرہ شعبان کی رات کی فضیلت کے سلسلے میں کوئی بھی روایت صحیح سند سے ثابت نہیں ہے لہذا پندرہویں شعبان کی رات جمادی الاخر ،رجب اور دیگر اسلامی مہینوں کی پندرہویں رات کے مانند ہے اس کو کوئی امتیازی فضیلت حاصل نہیں ہے کیونکہ اس سلسلے میں مروی تمام روایات ضعیف ہیں اور ضعیف روایات سے کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا لہذا اس رات کو خصوصی رات شمار کرنا اور اس کی فضیلت کا عقیدہ رکھ کر قیام وعبادات کا اہتمام کرنا بدعت ہے تاہم اگر کسی شخص کا معمول رہا ہو کہ وہ روزانہ رات کو قیام ودیگر عبادات کا اہتمام کرتا ہے تو ایسے شخص کے لئے معمول کے مطابق اس رات بھی عبادت کا اہتمام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اس نے اس رات کی عبادت اپنی معمول کے مطابق انجام دیا ہے نا کہ کسی فضیلت کے عقیدے کی روشنی میں یہ عمل اختیار کیا ہے ۔

پندرہ شعبان کی رات قیام اللیل ادا کرنے کے تین مراتب ہیں

مرتبہ اولی :

یہ کہ قیام اللیل اس کا معمول بن چکا ہو ،اپنے معمول کے مطابق پندرہ شعبان کی رات کو بھی قیام کرے اور اس میں کسی عمل کو خاص سمجھ کر زیادتی نہ کرے۔

حکم

اس میں کوئی حرج نہیں ہے

مرتبہ ثانیہ :

یہ کہ وہ محض پندرہ شعبان کی رات کو قیام کرے دوسری راتوں میں نہیں

حکم

یہ بدعت ہے کیونکہ اس رات كى کوئی فضیلت نہیں ہے اس باب میں جتنی راوایات ہیں سب ضعیف بلکہ موضوع ومن گھڑت روایات ہیں اگر چہ متاخرین میں کچھ لوگوں نے بعض حدیثوں کو صحیح قرار دیا ہے ۔

مرتبہ ثالثہ:

یہ کہ وہ اس رات معروف تعداد میں نماز ادا کرے اور ایسا ہر سال کرے

حکم

یہ مرتبہ ثانیہ سے بھی بدترین بدعت ہے

مجموع الفتاوی(20-28/30بتصرف)

پندرہ شعبان کے دن خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنے کا حکم

پندرہ شعبان کے دن خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنے کے سلسلے میں کوئی بھی روایت صحیح سند سے ثابت نہیں ہے درست بات یہ ہے کہ پورے مہینے کا حکم ایک جیسا ہے شعبان کے کسی دن یا رات کو علحدہ طور پر کوئی امتیازی خصوصیت یا فضیلت حاصل نہیں ہے بلکہ پورا مہینہ قابل فضیلت ہے رسول اللہ ﷺ پورے مہینے یکساں طو پر عبادات کا بکثرت اہتمام کیا کرتے تھے لہذا ہر وہ روایت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے اس کو دلیل بنا کر اللہ سبحانہ وتعالی کی عبادت کرنا یا کسی دن یا رات کی فضیلت کا عقیدہ رکھنا قطعا جائز نہیں ہے بلکہ یہ بدعت ہے کیونکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم نہیں دیا ہے ۔

پندرہ شعبان کی رات کی تعظیم کی ابتداء کب ہوئی؟

حافظ ابن رجب رحمہ اللہ اس مسئلہ كے متعلق كہتے ہيں:

وليلة النصف من شعبان كان التابعون من أهل الشام كخالد بن معدان، ومكحول، ولقمان بن عامر، وغيرهم: أنهم كانوا يعظمونها، ويجتهدون فيها في العبادة وعنهم أخذ الناس فضلها وتعظيمها.

(لطائف المعارف لابن رجب:)

اہل شام ميں سے خالد بن معدان، اور مكحول، اور لقمان بن عامر وغيرہ شعبان كى پندرويں رات يعنى شب برات كى تعظيم كرتے اور اس رات عبادت كرنے كى كوشش كرتے، اور لوگوں نے ان سے ہى اس رات كى فضيلت اور تعظيم كرنا سيكھی۔


پندرہ شعبان کی تعظیم کا مأخذ

شب برات کی تعظیم کی کوئی اصل کتاب وسنت میں موجود نہیں ہے
حافظ ابو الخطاب ابن دحیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

قال أهل الجرح والتعديل ليس في حديث ليلة النصف من شعبان حيث يصح

(الباعث على إنكار البدع والحوادث :34)

اہل جرح وتعدیل کہتے ہیں کہ نصف شعبان كى رات کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے
اور حافظ ابو شامہ شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

كل ذلك باسانيد ضعاف

(الباعث على إنكار البدع والحوادث : 35)

کہ اس کے متعلق تمام روایات ضعیف ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ عہد نبوی اور عہد صحابہ میں اس کے آثار کہیں نہیں ملتے حتی کہ تابعین کے دور میں جب لوگوں تک اسرائیلی آثار پہونچے تو کچھ لوگوں نے اسے دلیل بنا کر اس رات کی تعظیم کرنا شروع کردیا جیسا کہ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ سب سے پہلے اس رات کی تعظیم کی ابتدا کرنے والوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا
:إنه بلغهم في ذلك آثار إسرائيلية.

(لطائف المعارف :263)

انہيں اس سلسلہ ميں كچھ اسرائيلى آثار پہنچے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ جب یہ آثار متعدد علاقوں میں عام ہوئے تو اہل بصرہ کے عابدوں کی ایک جماعت نے اسے قبول کرلیا جبکہ حجاز كے اكثر اہل علم نے اس كا انكار كيا جن ميں عطاء، ابن ابى مليكہ شامل ہيں۔
(مصدر سابق)

تنبیہ

شعبان کا پورا مہینہ مطلق طور پر برکت وفضیلت والا ہے اللہ کے رسول ﷺپورے مہینے دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ روزے کا بکثرت اہتمام کیا کرتے تھے لہذا ہر امتی کو چاہئے کہ اس مہینے کو غنیمت جانے قرآن کریم کی تلاوت، قیام اللیل اور دیگر نفلی عبادات کے ساتھ ساتھ روزوں کا اہتمام کرے تاہم اسرائیلی روایات ،ضعیف اور من گھڑت مرویات کو دلیل بنا کر ماہ شعبان کے کسی دن یا رات کو اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی میں خصوصی فضیلت کا درجہ نہ دے کیونکہ یہ شریعت سازی ہے جو بہت بڑا ظلم ہے رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے:
من كذب علي متعمدا فليتبوأ مقعده من النار

(صحيح بخاري :110)

جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے

اب آئیے دیکھتے ہیں کہ ماہ شعبان کے سلسلے میں صحیح احادیث میں ہمیں کیا رہنمائی ملتی ہے

ماہ شعبان میں روزے رکھنا

ماہ شعبان میں رسول اللہﷺ عبادات کا بکثرت اہتمام کیا کرتے تھے حتی کہ أکثر ایام آپ روزے سے ہوتے تھے

١- چنانچہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ إِلَّا شَعْبَانَ وَرَمَضَان

َ (سنن ترمذي :736صحيح)

کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان اور رمضان کے علاوہ مسلسل دو مہینے کے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا

٢- اور ایک دوسری حدیث میں آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :

أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يَصُومُ مِنَ السَّنَةِ شَهْرًا تَامًّا إِلَّا شَعْبَانَ يَصِلُهُ بِرَمَضَانَ

(سنن ابی داؤد :2336)

کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سال میں کسی مہینے کا مکمل روزہ نہ رکھتے سوائے شعبان کے اسے رمضان سے ملا دیتے تھے

حدیث کے ظاہر سے پتہ چلتا ہے کہ آپ پورے شعبان کا روزہ رکھتے تھے تاہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پورے شعبان کا روزہ نہیں رکھتے تھے بلکہ شعبان کے اکثر دنوں میں روزوں کا اہتمام کیا کرتے تھے جس کی دلیل ذیل کی احادیث ہیں


١-
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں :
كَانَ رَسُولُ اللَّهِﷺ يَصُومُ ، حَتَّى نَقُولَ : لَا يُفْطِرُ ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ : لَا يَصُومُ ، فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ إِلَّا رَمَضَانَ ، وَمَا رَأَيْتُهُ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ

"کہ رسول اکرمﷺ روزے رکھتے تو ہم یہ کہتیں کہ اب وہ روزے نہیں چھوڑيں گے ، اورجب آپ روزے نہ رکھتے تو ہم یہ کہتیں کہ اب رسول اکرم ﷺ روزہ نہیں رکھیں گے میں نے نبیﷺ کو رمضان کے علاوہ کسی اورمہینہ میں مکمل مہینہ روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ، اورمیں نے انہیں شعبان کے علاوہ کسی اورمہینہ میں زیادہ روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھے ۔

(صحيح بخاري:1969)

٢- اور فرماتی ہیں :

لَمْ أَرَهُ صَامَ مِنْ شَهْرٍ قَطُّ أَكْثَرَ مِنْ صِيَامِهِ مِنْ شَعْبَانَ، ‏‏‏‏‏‏كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ كُلَّهُ، ‏‏‏‏‏‏كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ إِلَّا قَلِيلًا


(سنن ابن ماجه :1710)

کہ میں نے آپ کو شعبان سے زیادہ کسی مہینہ میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا، آپ سوائے چند روز کے پورے شعبان کا روزہ رکھتے تھے

٣- اور ایک دوسری حدیث میں آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

وَمَا رَأَيْتُهُ صَامَ شَهْرًا كَامِلًا مُنْذُ قَدِمَ الْمَدِينَةَ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ رَمَضَانَ

(صحیح مسلم:1156)

کہ جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے اس وقت سے میں نے انہیں رمضان کے علاوہ کسی اورمہینہ کے مکمل روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا

٤- اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
مَا صَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهْرًا كَامِلًا قَطُّ غَيْرَ رَمَضَانَ

(صحیح بخاری :1971)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ کسی بھی مکمل مہینہ کے روزے نہیں رکھے

٥- اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :

وَمَا صَامَ شَهْرًا مُتَتَابِعًا إِلَّا رَمَضَانَ

(صحيح مسلم :746)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ لگاتار ایک مہینے کا روزہ کبہی نہیں رکھا

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :


كام صيامه في شعبان تطوعا اكثر من صيامه فيما سواه وكان يصوم معظم شعبان


(لطائف المعارف :258)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نفلی روزے باقی سب مہینوں سے زیادہ ہوتے تھے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینہ میں اکثرایام روزے رکھا کرتے تھے ۔

ان تمام دلائل وبراہین سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورے شعبان کا روزہ تو نہیں رکھتے تھے البتہ ماہ شعبان میں حد درجہ روزوں کا اہتمام کیا کرتے تھے۔

شعبان کے دوسرے نصف حصہ میں بھی روزہ رکھنا مشروع ہے جیسا کہ پہلے میں ہے

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جن چند امور کی بنیاد پر ماہ شعبان میں روزے کا خاص اہتمام کیا کرتے تھے ان میں سے ایک یہ ہے کہ :

اس ماہ میں بندوں کے اعمال اللہ کے پاس اٹھائے جاتے ہیں
یہاں آپ نے
"شهر" یعنی ماہ کہا ہے جو پورے مہینے میں کبھی بھی ہوسکتا ہے پہلے نصف حصہ کو خاص نہیں کیا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ دوسرا نصف حصہ بھی اس میں شامل ہے اور اس میں بھی روزے رکھے جاسکتے ہیں ۔

آپ نے رمضان سے ایک یا دو دن پہلے یا "
سرر شھر" یعنی مہینے کا آخری دو دن جس میں چاند پوشیدہ ہوتا ہے روزہ رکھنے سے منع کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مہینہ انتیس کا ہو تو چھبیس شعبان اور اگر تیس کا ہو تو ستائیس شعبان تک روزہ رکھا جاسکتا ہے تاہم عربی مہینہ قیاسی نہ ہونے کی وجہ سے انتیس یا تیس کی تعیین ممکن نہیں ہے اس لئے بطور احتیاط چھبیس شعبان تک روزہ رکھنے کی مشروعیت کا پتہ چلتا ہے، یہ حکم محض مطلق نفلی روزہ رکھنے والوں کے لئے ہے۔
رہی بات اس حدیث کی جس میں آپ نے پندرہ شعبان کے بعد روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے تو وہ حدیث سنداً ومتناً دونوں اعتبار سے ضعیف اور ناقابل حجت ہے اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ۔

لہذا معلوم ہوا کہ ماہ شعبان میں اخیر کے دو دن چھوڑ کر پورا مہینہ روزہ رکھنا مشروع ہے اور جس حدیث میں پندرہ شعبان کے بعد روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے وہ ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے ۔

شعبان کے اخیر میں روزہ رکھنے کا حکم

شعبان کے آخر میں روزہ رکھنے کی تین حالتیں ہیں :

پہلی حالت :

رمضان کے احتیاط میں رمضان کےروزے کی نیت سے روزہ رکھے ،

حکم

ایسا کرنا حرام ہے

دوسری حالت :

نذر یا گذشتہ رمضان کی قضاء یا کفارہ کی نیت سے روزہ رکھے

حکم

یہ جائز ہے

تیسری حالت :

مطلقا نفلی روزے کی نیت سے روزہ رکھے

حکم

اس کی
دو صورتیں ہیں

پہلی صورت

وہ لوگ جو شعبان کی ابتداء سے روزہ رکھتے آرہے ہوں خواہ تسلسل کے ساتھ یا صوم داؤدی یعنی ایک دن چھوڑ کر ایک دن یا سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھتے آرہے ہوں اور ان میں سے کوئی ایک روزہ شعبان کے آخر میں پڑ جاتا ہے۔

تو ایسی صورت میں شعبان کے آخری ایام میں روزہ رکھنا جائز ہے رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :

تم میں سے کوئی شخص رمضان سے پہلے(شعبان کی آخری تاریخوں میں) ایک یا دو دن کے روزے نہ رکھے البتہ اگر کسی کو ان میں روزے رکھنے کی عادت ہو تو وہ اس دن بھی روزہ رکھ لے۔

(صحيح بخاري :1914)

دوسری صورت

وہ لوگ جو ماہ شعبان میں مہینہ کے آخر تک کوئي روزہ نہیں رکھتے

حکم

تو ایسی صورت میں شعبان کے آخری ایام میں روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔

شعبان کے اخیر میں روزے سے منع کرنے کی حکمت

نصوص شرعیہ کے تتبع واستقراء سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جن صورتوں میں شعبان کے اخیر میں روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے دراصل شریعت چاہتی ہے کہ نفلی وفرضی روزوں میں تفریق کیا جائے اسی لئے ماہ شعبان میں اخیر کے دو روزے رکھنے سے منع کیا گیا تاکہ لوگ شکوک وشبہات میں مبتلا ہوکر رمضان کے احتیاط میں رمضان کا روزہ ایک دن قبل شعبان ہی میں رکھنا شروع نہ کردیں
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرائض ونوافل عبادات میں فاصلہ پائے جانے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :

وفي هذا من الحكمة التمييز بين الفرض وغير الفرض، كما يميز بين العبادة وغير العبادة ، ولهذا استحب تعجيل الفطور، وتأخير السحور، والأكل يوم الفطر قبل الصلاة، ونهي عن استقبال رمضان بيوم أو يومين، فهذا كله للفصل بين المأمور به من الصيام وغير المأمور به، والفصل بين العبادة وغيرها،

(الفتاوى الكبرى:2/359)

کہ درمیان میں فاصلہ پیدا کرنے کی حکمت یہ ہے کہ فرض اور غیر فرض میں امتیاز ہو سکے، جیسے کہ عبادت اور غیر عبادت عمل میں فرق ہوتا ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ افطاری میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرنا مستحب ہے، عید الفطر کے دن کچھ کھا کر عید کیلئے جانا مستحب ہے، رمضان کے روزوں سے پہلے ایک یا دو روزے رکھنا منع ہے، یہ تمام ممنوعات اس لیے ہیں کہ شرعی روزوں کو دوسروں سے الگ کیا جائے، عبادت کو دیگر امور سے ممتاز کیا جائے،

ماہ شعبان میں اسلاف کا عمل

سلف صالحین کے نزدیک ماہ شعبان كى بڑی قدر ومنزلت تھی یہی وجہ ہے کہ شعبان کے آتے ہی عبادات کے لئے اپنے آپ کو فارغ کرلیتے چنانچہ سلمہ بن کہیل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

كان يقال شهر شعبان شهر القراء

کہ ماہ شعبان قاریوں کا مہینہ ہے ۔

اور جب شعبان آتا تو حبیب بن ابی ثابت رحمہ اللہ فرماتے :
هذا شهر القراء

کہ یہ قاریوں کا مہینہ ہے ۔

اوعمرو بن قیس الملائی کے بارے میں آتا ہے کہ :

إذا دخل شعبان أغلق حانوته و تفرغ لقراءة القرآن

(لطائف المعارف 138)

کہ جب شعبان کا مہینہ آتا تو عمرو بن قیس رحمہ اللہ اپنی دوکان بند کردیتے اور قرآن کریم کی تلاوت میں منہمک ہوجاتے۔

اللہ سبحانہ وتعالی ہم تمام لوگوں کو اس ماہ میں پائی جانے والی بدعات وخرافات سے محفوظ رکھے اور اس بابرکت مہینے کے اوقات کو غنیمت سمجھنے اور کثرت کے ساتھ مشروع اعمال پر عمل کرنے کی توفیق بخشے آمین ۔

وصلى الله على رسوله النبي الأمين الكريم
سالگرہ
جولائی 26، 1994 (عمر: 30)
جگہ
ھند

دوسروں کے حلقے

تمغات

  1. 2

    4 ماہ!

    محدث فورم میں شمولیت اخیتار کیے آپ کو 4 ماہ ہوچکے ہیں۔ اپنی اچھی پوسٹس سے قارئین کو محظوظ کرتے رہیں۔ جزاکم اللہ خیرا
  2. 1

    ایک ماہ!

    محدث فورم میں شمولیت اخیتار کیے آپ کو ایک ماہ ہوچکا ہے۔ اپنی اچھی پوسٹس سے قارئین کو محظوظ کرتے رہیں۔ جزاکم اللہ خیرا
  3. 2

    ایک پیغام !

    محدث فورم پر آپ کے پہلے پیغام کے لئے۔ جزاکم اللہ خیرا !
Top